tag:blogger.com,1999:blog-19297772354227295872024-03-06T12:18:37.391+05:00جہان سائنس اردو میں عمومی سائنس خاص طور پر فلکیات و طبیعیات سے متعلق تازہ ترین معلومات اور خصوصی مضامین۔
Zuhair Abbashttp://www.blogger.com/profile/04666510644854788654noreply@blogger.comBlogger952125tag:blogger.com,1999:blog-1929777235422729587.post-76788807750672684012020-04-06T15:13:00.000+05:002020-04-06T15:13:07.504+05:00مریخ کے بعد نظام شمسی میں اگلی کون سی جگہ آباد کی جائے گی؟<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEi9kF8ZvBaampZ18PyttDDlfT22z7pN9BsehWgsvVfx6LksgGKJEq9RECXZFNb3-NILclp8STh-OOoUrI6KOT6-vSY27-rwzt8BvVY2EcNJ9FNlUKT051X3ztLwRy8Wy-ax0wMWPYZVZ3pB/s1600/f.gif" imageanchor="1"><img border="0" height="628" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEi9kF8ZvBaampZ18PyttDDlfT22z7pN9BsehWgsvVfx6LksgGKJEq9RECXZFNb3-NILclp8STh-OOoUrI6KOT6-vSY27-rwzt8BvVY2EcNJ9FNlUKT051X3ztLwRy8Wy-ax0wMWPYZVZ3pB/s640/f.gif" width="640" /></a></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
جواب:شان ماس</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
میرا جواب ہے عطارد!!! </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
سب سے اہم وجہ جو اس حقیقت سے متعلق ہے وہ یہ کہ عطارد قریب ہے، اور کافی چیزوں میں چاند اور مریخ سے مماثلت رکھتا ہے۔ جب تک ہم مریخ کو آباد کریں گے تب تک ہمارے پاس چاند پر رہنے میں بھی کافی تجربہ ہو چکا ہو گا۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
عطارد، چاند اور مریخ کے میں مماثلت </h2>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<b>میدان ۔ </b>چاند اور مریخ کی طرح عطارد پتھریلا، دھول زدہ، گڑھوں والا علاقہ ہے۔ وہ عمارتی طریقے اور گاڑیاں جو چاند اور مریخ پر چلنے کے لئے بنائی گئی ہوں گی وہی عطارد پر بھی کام کر سکیں گی۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<b>محوری جھکاؤ۔</b> چاند کی طرح عطارد کا محوری جھکاؤ لگ بھگ صفر (0.034 درجے ) ہے۔ لہٰذا، چاند کی طرح، قطبین کے قریب ہمیشہ سائے میں رہنے والے گڑھے وہ جگہ ہوں گے جہاں پانی کی تلاش کے لئے جایا جا سکتا ہے۔ چاند کے لئے اس کا حل نکالنے کے بعد، ہم اس قابل ہوں گے کہ ویسی تیکنیک عطارد پر بھی استعمال کر سکیں۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<b>درجہ حرارت۔</b> عطارد میں چاند کی طرح شدید درجہ حرارت ہوتا ہے۔ عطارد کی رات اتنی ہی ٹھنڈی ہوتی ہے جتنی کہ چاند کی رات، اگرچہ دن چاند کی نسبت زیادہ گرم ہوتا ہے۔ چاند پر شدید درجہ حرارت سے نمٹنے کی ترکیب (سب سے زیادہ امکان تو زیر زمین رہنے کا ہی ہے ) عطارد پر بھی استعمال ہو سکتی ہیں۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<b>کشش ثقل۔</b> عطارد پر لگ بھگ مریخ جتنی ہی ثقل ہے۔ ایک جیسے علاقوں کو مد نظر رکھتے ہوئے، تعمیری طریقے اور گاڑیاں جو مریخ کے لئے بنائی گئی ہوں گی وہ فوری طور پر عطارد پر بھی چل سکتی ہوں گی۔ شاید سب سے اہم بات یہ کہ لوگ مریخ اور عطارد کے درمیان سفر کم ثقل میں رہنے کی وجہ سے بغیر کسی صحت کے نقصان کے کر سکیں گے۔ مثال کے طور پر مریخ پر کام کرنے والے انجنیئر عطارد پر رہائشی عمارتوں پر کام حاصل کر سکیں گے۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
عطارد کے دیگر فائدے اور نقصانات </h2>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<b>قربت۔ </b>یہ اکثر کہا جاتا ہے کہ زہرہ زمین سے سب سے قریبی سیارہ ہے، کیونکہ یہ کسی وقت زمین سے قریب ترین ہوتا ہے۔ تاہم زہرہ زمین سے شمسی وصل کے دوران کافی دور ہوتا ہے۔ عطارد کبھی بھی 12 نوری منٹوں سے دور نہیں جاتا۔ اس پر پہنچنے میں مریخ یا زہرہ سے کم وقت لگے گا۔ عطارد پر جانے کے لئے کم سے کم توانائی والی ہومان خط پروارز پر 105 دن لگیں گے، جبکہ زہرہ پر 146 دن اور مریخ پر 259 دن۔ عطارد کے لئے عملہ بردار مہمات اور مسافر اڑانیں سستی اور (کم وزنی) ہوں گی، کیونکہ سفر کے لئے کم رسد درکار ہو گا؛ سب سے سستا پہنچنا چاند پر ہو گا۔ اس طرح کی پروازیں محفوظ بھی ہوں گی، کیونکہ عملہ/مسافر خلاء میں کم وقت گزاریں گے اور تابکاری اور خرد ثقل کا سامنا مختصر عرصے کے لئے کریں گے۔ مزید براں، زمین-عطارد مجمعی عرصے صرف 116 دنوں کا ہو گا، جس کا مطلب ہوا کہ عطارد تک مہمات/ اڑانیں ہر 4 ماہ میں بھیجی جا سکیں گی، زہرہ کے لئے 19.5 ماہ جبکہ مریخ کے لئے 26 ماہ ہوتا ہے۔ اصولی طور پر عطارد کی آباد کاری کا اثر زیادہ تیزی سے آگے بڑھے گا، اور آباد کاروں کو رسد تیزی سے مہیا کی جا سکے گی، جس سے ان کی حفاظت بہتر ہو گی۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<b>شمسی تابکاری۔</b> یہ دونوں نعمت و لعنت ہے۔ چاند پر یا زمین کے کرۂ فضائی کے اوپر کے مقابلے میں عطارد پر شعاع ریزی 6.7 گنا زیادہ ہو گی۔ لہٰذا، شمسی تابکاری کہیں زیادہ شدید ہو گی اور لوگوں کو اس سے محفوظ رکھنا کہیں زیادہ مشکل ہو گا۔ ہمیں اپنا زیادہ تر وقت زیر زمین گزارنا ہو گا، اور/یا اس سے نمٹنے کے لئے خاص چیزیں بنانی ہوں گی ہمیں شمسی ذراتی واقعات کے لئے بہت ہی اچھا خبردار کرنے کا نظام وضع کرنا پڑے گا۔ دوسری طرف، اس کا مطلب بہت ہی فراواں شمسی توانائی بھی ہے؛ مثال کے طور پر، عطارد پر آبادی کو چاند یا مریخ کے مقابلے پر کافی ہلکے شمسی پینلوں کی ضرورت ہو گی۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<b>طویل دن۔</b> عطاردی دن کا چکر 176 دنوں کا ہے، چاند سے 6 گنا زیادہ طویل۔ سورج کی روشنی کے بغیر تین ماہ کافی طویل عرصہ ہے، اور آبادی میں لوگوں اور زراعت کے لئے مصنوعی روشنی کی ضرورت ہو گی، جو توانائی کے خرچے پر ملے گی۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ کافی توانائی کو ذخیرہ کرنے کی گنجائش درکار ہو گی تاکہ آبادی عطارد کی رات آرام سے گزار سکے۔ غور کیجئے، بہرحال، عطارد میں چاند کی طرح صفر کے قریب محوری گردش کی وجہ سے "ابدی روشنی کا عروج" بھی ہوتا ہے جہاں شمسی توانائی (اور روشنی و حرارت) لگ بھگ تمام عرصہ دستیاب ہوتی ہے۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<b></b> ظاہر ہے کہ گرمی ایک اہم مسئلہ ہو گا، تاہم تحقیق بتاتی ہے کہ عام درجہ حرارت کے حالات بلند ارتفاع پر سطح سے صرف ایک میٹر نیچے بھی ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ، فراواں شمسی توانائی آبادی کے اندر صنعتی پیمانے پر ایئر کنڈیشننگ کو توانائی دینے کے لئے کافی ہو سکتی ہے۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
ان تمام وجوہات کی بنا پر، مجھے لگتا ہے کہ مریخ کے بعد عطارد انسانوں کی توجہ حاصل کر لے گا۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
سچ بات تو یہ ہے کہ مجھے رہنے کے لئے کیلسٹو اور ٹائٹن بھی پسند ہیں، تاہم وہ کافی دور ہیں، اور آبادی کو توانائی دینے کے لئے کثیر شمسی توانائی کے بغیر غالباً وہاں پر نیوکلیائی عمل انشقاق یا عمل گداخت پر انحصار کرنا ہو گا۔ بہرحال ان کے پاس کہیں زیادہ پانی ہوتا ہے۔</div>
</div>
Zuhair Abbashttp://www.blogger.com/profile/04666510644854788654noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1929777235422729587.post-43377435779864823942020-03-22T00:15:00.002+05:002020-03-22T00:15:43.641+05:00جہان سائنس لائبریری - اردو میں سائنس پر لکھی گئی کتب (حصہ دوم)<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgW9pYETFfalyRezQa6yywqv-66a0QKpHSROcFuLIav2jYj07HHL370owBDT_7n4kPY9G5NsiEm7ojsSXTz6fVGBr4bvPj2aDVkXecomxvwV1UkvJThcrJlvfS7yiT2dPlm23DKX2d1WnU/s1600/books-4499167_1280.jpg" imageanchor="1"><img border="0" height="426" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgW9pYETFfalyRezQa6yywqv-66a0QKpHSROcFuLIav2jYj07HHL370owBDT_7n4kPY9G5NsiEm7ojsSXTz6fVGBr4bvPj2aDVkXecomxvwV1UkvJThcrJlvfS7yiT2dPlm23DKX2d1WnU/s640/books-4499167_1280.jpg" width="640" /></a></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
اردو میں سائنس پر لکھی گئی کتابوں کو ایک جگہ منظم انداز میں جمع کرنے کا جو ارادہ کیا تھا یہ اسی سلسلے کی پوسٹ ہے. اس سلسلے کی کچھ پوسٹ پہلے بھی کی جاچکی ہیں جس میں سے ایک پوسٹ میں لگ بھگ ساٹھ سے زائد اردو میں لکھی گئی یا ترجمہ کی گئی کتابوں کے نام بمعہ ڈاؤنلوڈ لنک دئیے گئے ہیں. اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے آج مزید لگ بھگ تین سو ساٹھ کے قریب مختلف موضوعات پر لکھی گئی سائنسی کتابوں کو آپ کے لئے پیش کیا جارہا ہے.</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
یہاں ایک بات پیش نظر رہے کہ پہلے پیش کی گئی کتب میں نے خود اپنے کتابوں کے ذخیرے سے اسکین کرکے پیش کی تھیں، جبکہ ان کتابوں کی اکثریت ریختہ سے ڈاؤنلوڈ کی ہوئی ہے. یعنی یہ کتابیں پہلے ہی سے انٹرنیٹ پر موجود ہیں. میں نے صرف ان کو ایک جگہ جمع کیا ہے. ریختہ پر آپ کتابیں آن لائن پڑھ سکتے ہیں جبکہ وہاں فی الوقت ڈاؤنلوڈنگ کی سہولت میسر نہیں. جبکہ آپ یہاں کتاب کے نام پر کلک کرکے اس کتاب کو آسانی سے ڈاؤنلوڈ کرسکتے ہیں. </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
یہاں میں ایک بات بتاتا چلوں کہ میں کاپی رائٹ کا احترام کرتا ہوں اور کوئی بھی کتاب اس کے پبلشر یا مصنف کی مرضی کے خلاف انٹرنیٹ پر دستیاب کرنے کے خلاف ہوں۔ یہاں پر پیش کی جانے والی کتابوں کی اکثریت ریختہ پر پہلے ہی سے موجود ہے۔ اس کے باوجود اگر کسی کو کسی بھی کتاب کی اس طرح دستیابی پر اعترض ہو تو وہ مجھ سے رابطہ کرسکتا ہے، میں اس کتاب کو یہاں سے ہٹا دوں گا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
مزید وہ تمام احباب جو موبائل فون پر کتابوں کو ڈاؤنلوڈ کرنا چاہتے ہیں وہ اس پوسٹ کو فیس بک براؤزر کے بجائے گوگل کروم میں کھولیں اور براؤزر کے سیدھے ہاتھ اوپر والے کونے میں دکھائی دینے والے تین ڈاٹس پر کلک کرکے ڈیسک ٹاپ سائٹ پر چیک لگا لیں.</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
زیادہ تر کتابیں پاپولر سائنس کی ہیں یعنی ان کو ہر قسم کا طبقہ پڑھ سکتا ہے جبکہ کچھ کتابیں نصابی بھی ہیں.ایک آدھ کتاب سائنس فکشن پر بھی اس میں موجود ہے. میری کوشش ہے کہ سائنس فکشن کتابوں کو الگ سے پیش کروں. کتابوں کی فہرست درج ذیل ہے:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<table border="0" cellpadding="0" cellspacing="0" style="border-collapse: collapse; width: 414px;">
<colgroup><col style="mso-width-alt: 12401; mso-width-source: userset; width: 262pt;" width="349"></col>
<col style="mso-width-alt: 2304; mso-width-source: userset; width: 49pt;" width="65"></col>
</colgroup><tbody>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td class="xl65" height="24" style="height: 18.0pt; width: 262pt;" width="349"></td>
<td class="xl65" style="width: 49pt;" width="65"></td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1aobMD0aN8uNKgeO56I_AS9I3dnvxyJyX"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">اپنے دل کی حفاظت کیجئے </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">1</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1m3agTkvO3ZfA2U4X_Txs7J1UGToB2bB-"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">اچھوتی زمین</span></a></td>
<td align="right" class="xl65">2</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=11Y2gmiImDbWyWEX_MDCJoj2ZIrV-1Q9T"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">ارتقا </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">3</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1jD8B4k4XfzKL0LAIm4IgyV2lWiEGh8QR"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">اردو میں سائنسی ادب </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">4</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1EECWDCkmGPiKKJeX5KYd8dvPQpuqPfr3"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">اردو میں سائنسی ادب کا اشاریہ </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">5</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=18zs215bnBjise_qYMlaErggK02yP3XGV"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">اردو میں سائنسی و تیکنیکی ادب</span></a></td>
<td align="right" class="xl65">6</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1SfPQMm5jGZynICEmfWdsXem7cgkbTVO7"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">اردو میں سائنسی وسائل </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">7</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1-KoTYyIDR0CqI4f14eWk0QE8QCC4jUfQ"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">ارضیات کے بنیادی تصورات </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">8</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1Qnmw4MwWpeusN3EPGEX-5TcehhCtcjLZ"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">اڑن طشتری </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">9</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1KuEeyohNxs-k8iHsozrzGi7DjfZjxp4i"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">اساسی قوتوں کی یکجائی </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">10</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=11u4fPLtfGudgoEhPe-svJbTf3p6jsMuL"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">استعمال جرثقیل</span></a></td>
<td align="right" class="xl65">11</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1rVFeerITgbnvo9jvMvctM7cVe9pvpT5e"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">اسلامک ٹیکنالوجی ایک مصور تاریخ </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">12</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1r-vGvqF4RcDasEnUJgUsIe85rDf2xDNP"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">اشاریہ سائنس اردو ماہنامہ </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">13</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1P4BI-lFEp-Rswc4lJTnanLtomZnBeu6T"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">اصول جرثقیل </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">14</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1Fe1pI3fjEq3b5Rv0JP4KkjjDbb_la69y"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">اضافیت </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">15</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1kelRrXGenXoIHEabLyJf_9cUKfvYY9nU"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">اطلاقی میکانیات - حصہ اول - جلد اول </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">16</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1XK9sQ_aOV16KZApMckJTQLHj3az_FmRj"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">اقبال کا تصور زمان و مکان </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">17</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=18iOcaCIvLs66T9plkMZ6VqeqHHEROfdQ"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">البیرونی کے جغرافیائی نظریات </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">18</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1SbFCkPichfRdRHDHVAVwmYeC4-Aqmr-t"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">الفریڈ نوبیل</span></a></td>
<td align="right" class="xl65">19</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=10P0dHNkWdCVhpmpD-XFgHM6b0ztKtuLC"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">القمر یعنی چاند کے حالات بموجب تحقیق جدید </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">20</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1ypXRO9x0nTn8fzubZE6TXUM2Vv5PNyIa"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">امام جعفر صادق اور سائنسی انکشافات </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">21</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1cFk--2bqKAEnat7q7W3kdd8ykDcKz7Ic"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">اناجوں کا بادشاہ - گیہوں </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">22</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1FVIwIbiQRTZe92Dbnq8vVUvLG_uBWDyB"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">انسان سائنس اور ماحول</span></a></td>
<td align="right" class="xl65">23</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1yWAheCNG6v7pv0mtILMVJRVgNDe_7H6j"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">انسان کی کہانی </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">24</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=17p4uuCR79bSIlj2kGCLZmpmhUdQjrqvE"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">انسانی ارتقا </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">25</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1ZAYPlQ6TnP06VtbMTP-A0vqiCUeFCdfP"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">انسانی ارتقا کی کہانی </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">26</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=138nSztYQxVZ4zWS3EVA_GNqg9LZGzD_6"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">انوکھے پرندوں کی دنیا </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">27</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1fMOQD8ZtsfKVtwv4xs6J8kPdJqJd8jmF"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">اے بر یف ہسٹری آف نیئرلی ا یور ی تھنگ </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">28</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1FFUJtZ88Gkx-0u_OPH9K5MoSbjgp8vrR"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">ایٹم سے نینو ٹیک تک </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">29</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="background: rgb(255, 199, 206); color: #9c0006; font-family: Calibri; font-size: 14pt; height: 18pt; text-decoration-line: underline;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1-XrsiIjzAv_kvoan-6PmXrICz1w0CcEE"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">ایٹم کی کہانی </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">30</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="background: rgb(255, 199, 206); color: #9c0006; font-family: Calibri; font-size: 14pt; height: 18pt; text-decoration-line: underline;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1jiLf92vZXHUVptdrFB4B6H_gU6xZlSWA"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">ایٹم کی کہانی </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">31</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1Yojuw_V6hLPxC-cWQs-NrHaBofMzjVb3"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">ایٹم کیا ہے</span></a></td>
<td align="right" class="xl65">32</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=12TG2Q2RXKA42ocolWXklJJ-xmU2XdZc8"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">ایجادات کی کہانی </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">33</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1ATrL1widb_hJQLeiQMzZkcpAIY9psqkA"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">ایجادات یعنی مغربی سائنس دانوں کے حیرت انگیز کارنامے </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">34</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1v15UjDMbbJl2xI9xkHbVefyqjert64SC"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">ایڈیسن</span></a></td>
<td align="right" class="xl65">35</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1zQDOtnvU6qET9LcYjAei2F9sjG1kJu-z"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">ایوان پاؤلوف حیات اور سائنسی کارنامے </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">36</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1IfnkcZbqYq5nY4-beeACLMrVV6DawrSM"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">آب حیات </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">37</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=12TTo3cM30BuBvhgE0eh7sN_I2GDE-71k"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">آب دوز اور سرنگ </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">38</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1cwCXOxIgUBMCpGQvTZKtHTAmf_G7J-XK"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">آج کی سائنس </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">39</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1mLhDSRPU9qbMxfAoHozureUH_mKYl0Ee"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">آج کی سائینس - نئی روشنی نئی باتیں </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">40</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1nndaLmpJLoqAEGmYLGoi80A1gHGrpihg"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">آخری تین منٹ </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">41</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=15rUy4dNqf3q-qic5WG41btgE7zS6FBGf"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">آدم کی کہانی خدا کی زبانی </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">42</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1Jvi-z77GL91MrdJgrlC1kv8SMI9Xbieq"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">آفتابی ہوا </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">43</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1cSvRWNUbowv9PBwJn-cFTthzrR5YjKPA"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">آگ کا گولہ - شمسی توانائی کی کہانی </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">44</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1-8uO8l2PT-IodOv7DkHOZ98MkdYodOS9"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">آؤ سمندروں کی سیر کریں </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">45</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1LuAHu7sD0B_Oug_yDFHmC9kdSoULyC_E"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">آئنسٹائن کی کہانی </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">46</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=19efe_ZVL9j6pt46A_cBR0_y6pWV_3vTw"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">آئینہ فلکیات </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">47</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1ooBsNqIIqQaAYghuKZGgmNigUURJCPLY"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">باتوں باتوں میں معلومات </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">48</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1Qwm70q3eTqc0ku-sL9gywMwoagCrO2YB"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">بادل کے بچے </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">49</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1z1ggumsWqOBDSIR7IAy-vduFxR_8MhGD"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">ببر شیر کی کہانی </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">50</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=12yoejELYOeOXMJ-OIIiaxtp4QZNNzNDS"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">بجلی کے کرشمے </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">51</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1CeGhmo7hPNAmC8v_t6PHfKqQcigxU_Yb"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">بچوں کی جنرل سائینس </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">52</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1NrY2tLlRzqrfGWcKGDQW4DQMHlVlUA6U"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">برف کا گھر </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">53</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1x7YDSn0460PVqhiJsORzmvfYk4KYRj-f"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">برق و مقناطیسیت</span></a></td>
<td align="right" class="xl65">54</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1f3eoopZRkcOXgeoHfQ8_FSwrdJZfo9Au"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">برقی توانائی </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">55</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1U5FssCEFC785bdBjKmEe1pCB8lexpVow"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">برقیات مع الیکٹرونکس کی مختصر تاریخ </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">56</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1yk9983GUoVX-NcBG_ms1COMl8xsBI2mL"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">بھارت خلائی دور میں </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">57</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=19qc9j40Rdvy7w67muHdm-Fh19mELE5aH"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">بیکٹیریا - ہمارے دوست ہمارے دشمن </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">58</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1lSW08PQuV_DHOrqTtaVj-ts6XhjtahX-"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">بینک کی کہانی </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">59</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1uWR0Rwqswr6FyD71TtveU3osDy3VuCRx"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">پاکستان میں شکر سازی کی صنعت </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">60</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1hpofiMpyc1bvI6mlaiEFR8RcXWDuGd3w"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">پاکستان میں گندم کی پیداوار </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">61</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1_EzIfUKmd_n9n3kCn9_Oj4LTLQlQQeCF"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">پانی</span></a></td>
<td align="right" class="xl65">62</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1aXTU06dM4hEvyxtQfPbwW4FZrwOzAz_M"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">پانی کی کہانی خود اس کی اپنی زبانی </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">63</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1P4_5tplq1Wpikzj34ilZInKkx9JVUUV0"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">پانی کی موت</span></a></td>
<td align="right" class="xl65">64</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1rV43_ZbyxbjbA3zwqHFQCO3XqzSOfKEV"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">پٹرولیم کی کہانی </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">65</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1S-o_Vty1Uk-Ry767HQQgqf74tU6GXAQv"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">پراسرار کائنات </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">66</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=19HV2xn25DYd8HKbDtcn0a08VQD2bvM8c"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">پرندوں کی دنیا </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">67</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1VRZf-KYjhjlX6wW2ng7u7KiGERIqDLQ2"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">پودوں اور جانوروں کی دنیا </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">68</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=16UyqBqkBuUlioviaxWsaZqveG5znuufa"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">پودے اور ان کی زندگی </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">69</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=108ZA0bvvoVjzIvEDksh1Xz1Ex8mtLRyO"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">پیسے کی کہانی </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">70</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1IWh4ugPUpfsA6janFdw2VXOCyEgv5F-Y"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">تاریخ ایجادات </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">71</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1N57abJcpAMYGSNJ7g3D296G1Jh100bCC"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">تجربی فعلیات </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">72</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1WX68AFZSWkYJGcBFANJ5AosTtMvFEiNh"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">تحفہ سائنس - مضامین حصہ اول </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">73</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=15EO9hosMHUVlfU3pIUVpNiF96pFPQTMc"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">تشریح انسانی </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">74</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1YLNzLwU12_B3J0fa3IqVdLWXRkKDs_mP"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">تشریح عصبیات </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">75</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1izPNl8CZYNo31DAZX2pagUJ4gh5CAhOJ"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">توہمات کی دنیا </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">76</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1VTqDfioXgNGvRK3zLybWiGY--94NLhfH"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">ٹرانسسٹر کے بنیادی اصول </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">77</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1ybKJ-Uktf5O7wv2e1KFo0R6Xzb8jTvnE"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">ٹیلی فون کی کہانی </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">78</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1_LPIc8Mabz9KsU_GOlss4SHL2cj5dpI9"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">جان کی دشمن مکھی </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">79</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1RqpkAua4S2QVnYoeGRul_lUnvJbJCOvs"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">جانور ہمارے رہمنا </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">80</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1-hXDHvhOG-hk_gs3SmvhjNPHlwvIYSCZ"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">جانوروں کی نرالی دنیا </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">81</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1jyyGP1G5w7o0XtkFZLDw0Cxa-twGP388"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">جسم بے جان </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">82</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1qU1up0syGYOmAnQZmty1SO2GzRLL20VA"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">جسم و جان </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">83</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1RzTdko6beJqDe5GiOpvmCw5cPmppvd2J"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">جمیز واٹ کی سرگزشت</span></a></td>
<td align="right" class="xl65">84</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1q8Q_K-aseVpnKzv9wH6U3WoeUWhblXtU"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">جینیات کی ان کہی تاریخ </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">85</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1zrBttF5wZwo2STNEOLUNvd_0OPyz_x-m"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">چار عنصر علم کیمیا میں </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">86</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1TZRAHeQtgpoAeZ16U32bOwWxTXv1CNAm"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">چاند کی تسخیر قرآن کی روشنی میں </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">87</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1wmYLOKbG2YkGa7htPoyhHgSha7WO_miA"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">چراغ کا سفر </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">88</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1tfkKSlz9DnN4Kdw9o1FmfqSJ_FoBlxm5"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">چند عظیم علمائے جراثیم</span></a></td>
<td align="right" class="xl65">89</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1JtEbmppxhsWqeTxuRyn6vrrbIj7jLGfy"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">چند مشہور طبیب اور سائنس دان </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">90</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1F95lXBpeJH-Enz5qAIwNMCEPU26oDwYh"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">چیزوں کی کہانیاں </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">91</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=17RDSko7SVce8NgF6Glg5LZlTecD8gxwM"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">حیات کیا ہے؟</span></a></td>
<td align="right" class="xl65">92</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1S1e1IlXxoXCyWGOlozgfGtASh04BaWxk"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">حیاتیات - حصہ اول </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">93</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1nY0BWc2jwDeKwxND2YSIM6QXXbNDB9fT"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">حیاتیات - حصہ سوم</span></a></td>
<td align="right" class="xl65">94</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=17SfyNf5iGzkH2y0qKARthDCFUD8VqHCe"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">حیران کن سائنسی معلومات </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">95</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1r3cOf8kcNxC7sBmE6pV7z9p_AajCL3jn"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">حیوانات کی دنیا </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">96</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1CxHXnGIC02hKnJ0NFZpN2IjnlHPONEK6"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">حیوانی دنیا کے عجائبات </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">97</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1-a-aMVKhJhh-TuSCBvlN-sy5wt7rw0O2"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">حیوانی زندگی کی دلچسپ باتیں </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">98</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1e8idal6hxjwQerIkPz_TTi5AULhEN-vM"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">خاص نظریہ اضافیت</span></a></td>
<td align="right" class="xl65">99</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1VlIt-itQUN2SDVpuY8ObTe9j19Ev5wpw"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">خدا کیوں </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">100</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1zP9Xpc4hn81rZyLiTdEUdC7FucqisOVF"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">خردبینی حیاتیات </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">101</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1swxQJKpI6T-J7xVh-xQkjiQr2XaZJmCd"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">خلا کے معجزے</span></a></td>
<td align="right" class="xl65">102</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1VxbK7FWLi49pky86DdKjSEqpWVNouXpZ"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">خلائی تحقیقات کے فائدے </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">103</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1vwU3pTzj9j4uaaLcPLMSXZJgt-FAAiPf"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">خلیہ ایک کائنات </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">104</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1LfJXajSIHrmevksZP382HmkDuHBfvaIa"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">خواص مادہ </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">105</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1IFXjuf_Bb1SAnZQtv1b98UNDTDSnYYEN"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">دھوپ چولھا </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">106</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1pEFTEn0b_kWhhR5i1XqVJKNDXKeb0Flp"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">دودھ اور اس کی حقیقت </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">107</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1SY79c3Zyz7jlp41kiDNQri2BpWwTC3FE"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">دولت کی کنجی</span></a></td>
<td align="right" class="xl65">108</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=14ztO24x5jxab9Lqj3FaZDgl8Bl0j1h3r"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">دیمک کی کہانی </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">109</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=10F23n_uFFPNpCzTfD9seu7lXEF94VrTx"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">ڈاکٹر سی وی رمن </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">110</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1aJoTffZL4SZMcgtAMFp-k-mZj7oVb-Un"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">رازوں کے سوداگر </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">111</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1kmdNE2KIGb_uC6FnKKlrUNdcpVoBDrzo"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">راکٹ</span></a></td>
<td align="right" class="xl65">112</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1l-FUepvqQXmWE0CCAKpLCb53_cOAeOCy"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">رسالہ مقناطیس </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">113</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1UKWIYd_WPDUou-4d4sLCQ6g-lIGZQ8rg"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">ریڈیو کی کہانی </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">114</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1PiV5w_SoetxSNTXnLeEfc1sQ9JMoWAfc"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">رینگنے والے جانور </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">115</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1hlrrm6wy6KmiUfal6diXW1AnazQQgrSG"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">زراعت اور آب و ہوا </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">116</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1Qtz1h7Fk5bKiFXQfl2bu3eZ6DIVVKkLL"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">زماں و مکاں </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">117</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1-CpAH_N3hG1cq-K1_yVRtg8DW5bXUOuz"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">زمین اور خلا کی کھوج </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">118</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="background: rgb(255, 199, 206); color: #9c0006; font-family: Calibri; font-size: 14pt; height: 18pt; text-decoration-line: underline;"><a href="https://drive.google.com/open?id=16WSu4BU8D1umHCPmDZhk1m8rXvoo2VnE"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">زمین کی کہانی </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">119</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="background: rgb(255, 199, 206); color: #9c0006; font-family: Calibri; font-size: 14pt; height: 18pt; text-decoration-line: underline;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1q_aCuZwM3lqKobR8tBPR5IGjC2NvTqsf"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">زمین کی کہانی </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">120</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1VGYfXqOJLu0_J2_-rpfVIM8Bqfg23ptX"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">زمیندار اور اس کے دشمن کیڑے - حصہ پہلا </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">121</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1g0lNHNoK6aaPWzhHg_g6sM9U3l2XUd_7"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">زندگی اور موت </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">122</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1EIOGtwb469l4krSiU_E9obI5ZZALNJPd"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">سات آسمان اور ان کی بلندیاں </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">123</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1_vI2qK2mHfuElMnWlbBOgoxM-_UZIKv9"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">سائنس </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">124</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1BCId-zff8e3dz7MyI2EI0zwNktcWkdQS"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">سائنس انسان کی خدمت میں </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">125</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1ojBpIVnmXwj70-NvO2VcmY-YPIysC6xV"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">سائنس اور اجتہاد </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">126</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl68" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1_fUAIxK9FNxBTXEkjE-FidLZHS7TZcOJ"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">سائنس اور ریاضی کی درسی کتابیں </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">127</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1hqa33izekPITpsuThrsRvkob1prYjUSi"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">سائنس اور زندگی </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">128</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1aioEMv6KMCvYKHSA02kJ-ZLKEBlqCAep"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">سائنس دانوں کی کہانیاں </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">129</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1oBNLqkmm2-u7n8Egx3kpjbZG-I4dThV-"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">سائنس سب کے لئے </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">130</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1y34FPEFTkXjuucHnQ7Mf1VV8k3jtgsU-"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">سائنس کوئز </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">131</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1HV5-AFFyx9_dD-0_CF8EdxQmtqFMZb__"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">سائنس کے کرشمے </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">132</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1XQcsUFDFxBw5bpVtJ5VE3IoGhP8NRtAb"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">سائنس کے کھیل </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">133</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1TH0m0lUfw9Inf38hKZIkgggd9o4PMicz"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">سائنس کے نئے افق </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">134</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1lS9i-blZrBqJjgTYE-QWZLtqD9i8sMFE"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">سائنس کی انوکھی کہانیاں </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">135</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1kovxo2O44LQWHAF7xsf1r5SYDbli2SKu"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">سائنس کی باتیں </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">136</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1-Bfio_eV96aJfj7ILIvrVJeMGSQCuzyb"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">سائنس کی پہلی کتاب</span></a></td>
<td align="right" class="xl65">137</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=19ewcL3wwyuoJ1ha2JKHYwwiJTEXd48g3"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">سائنس کی تدریس </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">138</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1knSw_3lre7giUL_hEMw4_kgZnKdeNkxt"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">سائنس کی کہانیاں</span></a></td>
<td align="right" class="xl65">139</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1tdOfoW1fJ1rRXEO19RmnZNT0NuY8Heuh"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">سائنس کی کہانیاں - حصہ اول</span></a></td>
<td align="right" class="xl65">140</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1XtI6ilSVVrup7GnC1zjRPxfvywKVwMlo"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">سائنس کی کہانیاں - حصہ دوم</span></a></td>
<td align="right" class="xl65">141</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1EAQqaNSRkZZDdfbCn_dDFJe8Sl0YfKFL"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">سائنس کی مایہ ناز ہستیاں </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">142</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1bQ_0TxBQaci2r48CI0pDcxgcXRBiNkav"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">سائنس کیا ہے؟</span></a></td>
<td align="right" class="xl65">143</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1W1_ns8mrHbfEcwDUtWqemt0rWzYdHAzH"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">سائنس نامہ </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">144</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1Rb2XOKiHyQeM12T-LMKptNUD1GjJjOX0"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">سائنس، انجینرنگ، ٹیکنالوجی</span></a></td>
<td align="right" class="xl65">145</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1zOqvkqFgqVoKWUXgyYIxyVRx04JIoEst"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">سائنسی تقریبات </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">146</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1ALq7UY6hiZOTXVKnWs6nYxKHGPgX1_kP"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">سائنسی حقائق اور سماجی مجبوریاں </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">147</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1IV36JlfzVZdbhNMjsdPlWNN8gTvbbdC5"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">سائینسی زاویے </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">148</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1vqZ3L3prIbxGBuyBJHysoBp688VuMwo7"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">سبزی ترکاریاں </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">149</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1RuT8P5B4mgA6RXdH97kXohrzvIsczo1e"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">ستاروں سے آگے</span></a></td>
<td align="right" class="xl65">150</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1h3L8QxBoSJK64yJczS_Hw_rPAeSVv7r6"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">151</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1GTR9Pw384gwI9J4yA-magole6wHJp0PI"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">ستاروں کی جنگ کا منصوبہ </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">152</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1bEysMK0JMZhKflnNdGxuH65iaFibciXF"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">ستاروں کی راہیں </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">153</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1BHzhidwT7l-BLpzGS3qMAp8Ia8sBOmDe"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">ستارے اور سیارے </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">154</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1aeDhmNWi4xi-Wv-poEaitdADxz-rsZ9P"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">سماج پر سائنس کے اثرات </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">155</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1uE9hgCWKFMyTR9J9BlhCregZwCwKQPz2"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">سمندر ایک دلکش دنیا </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">156</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1-_ZBv9Tzr0Ntf8w80CkfrS_agjiCPjmi"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">سمندر کے کنارے </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">157</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=127EHi6bdGlKmz94lBQ05j7A8RTzsL0d5"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">سمندر کے نیچے </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">158</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1TSYG7Xg9A1mnP0xIXtLNmSrWU_yt5bpg"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">سمندر کی کہانی </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">159</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1DW0tpGG54kfHh1l_CM2QKQtd5dKYDZBb"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">سوالوں میں رنگ بھریں </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">160</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1dIzpRI-xUFT0Lv47NSy5zXZEF_iA1vbO"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">سورج چاند ستارے </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">161</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1r5aTXDDiH3MhQYi6xOHoRsdDG3IuflUp"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">سیر افلاک </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">162</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1vOULUN6f2V2fOT4kl8pilMKytFpVqC76"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">سیر افلاک یعنی چاند سورج اور تاروں کا حال </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">163</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1CgtJlwoFbFEHzL0M3xQX4Dsi2LYiCQT5"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">سیر کائنات </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">164</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1PNFYuXWuZpGoDaugzlW0wEBMKJI6o1SF"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">شائزوفرینیا </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">165</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1xbXcgaESNO0Jo7Ef2cGstgJyhnIkTdZV"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">شہد کی مکھیوں کا کارنامہ </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">166</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1fmsZ9ipvH_Q1xTA1xc3sCzDZbVe-Wg6z"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">صحت کی کہانی ایک ڈاکٹر کی زبانی </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">167</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1liyiy8OhlOBY-ynbv769N1BE50nXtcsD"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">طبقات الارض </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">168</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1v5ZUiECSgvAG_ftdqaOk1lZG9BEMNfxT"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">طبیعیات - حرارت </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">169</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="background: rgb(255, 199, 206); color: #9c0006; font-family: Calibri; font-size: 14pt; height: 18pt; text-decoration-line: underline;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1DCFAbWxc34p8ZzP0Eex8bwcTdP4tyn-t"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">طبیعیات - حصہ اول </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">170</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="background: rgb(255, 199, 206); color: #9c0006; font-family: Calibri; font-size: 14pt; height: 18pt; text-decoration-line: underline;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1zZyB3JreN9oEiIqsrAkK4qGYCL7KLzH8"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">طبیعیات - حصہ اول </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">171</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="background: rgb(255, 199, 206); color: #9c0006; font-family: Calibri; font-size: 14pt; height: 18pt; text-decoration-line: underline;"><a href="https://drive.google.com/open?id=16o19tXXnbfas9r0g1DUemYOvnnVlTI-H"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">طبیعیات - حصہ چہارم - آواز </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">172</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="background: rgb(255, 199, 206); color: #9c0006; font-family: Calibri; font-size: 14pt; height: 18pt; text-decoration-line: underline;"><a href="https://drive.google.com/open?id=14o3zR04gdoZQF1dI5VCPpG6yVXz_5EpD"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">طبیعیات - حصہ چہارم - آواز </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">173</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1K569_W3d3WkDGY1a9wcEg1NoQRnuOcv-"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">طبیعیات - حصہ دوم</span></a></td>
<td align="right" class="xl65">174</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=13AwHx3rwuNvWtmoLiyjHrJZMxJvTYTNc"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">طبیعیات - حصہ سوم</span></a></td>
<td align="right" class="xl65">175</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=109TI2773OjWI1Rw4FCkOE6B9pIyAVOO7"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">طبیعیات - مقناطیسیت</span></a></td>
<td align="right" class="xl65">176</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=19E1WWeApBe6RWFyEqKwNnAOxu3UfVP-7"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">طبیعیات -حصہ دوم - حرارت </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">177</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1h53g8m72h75E2f17wHaWa6Pocx8exdpK"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">طبیعیات -حصہ سوم - نور </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">178</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=16T-KQYMZa6E8ds05tJ0GGbCazlwq2vWo"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">طبیعیات -حصہ ششم - برق </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">179</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1limlZtT8Q1nU_sWSjkOpn6rHUJyZwagI"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">طبیعیات کے بنیادی تصورات </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">180</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1Y_OsL0Eisf-dc5lcyDgHFV7FxPYCSZcT"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">طبیعیاتی کائنات</span></a></td>
<td align="right" class="xl65">181</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1XU2eXfQQyr3VI_acvBp38wgCvgaAnDXE"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">عالم حیوانی یعنی دنیا کے شیر خوار جانوروں کا بیان </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">182</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1DTDpyoQ9XIPBcOdLfWwmmAzkQ2jtwTMS"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">عالمی سائنسدان </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">183</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=18jDu0mARVleEPYpz9OKcJLD-vuXquvPK"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">عظیم ایجادات </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">184</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1K2NkJVVn1ZKlW1jmqVh_mIFbV2zfbEsE"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">عظیم طبی دریافتیں</span></a></td>
<td align="right" class="xl65">185</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1v2JDr6SNAmq-rJDRDV2JSv6bBxOL4G09"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">علم اور سائنس کا سفر</span></a></td>
<td align="right" class="xl65">186</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1ZZkQzeIJh6qQHTEbZa3-8s8LqLfLseNC"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">علم طبیعیات کا ابتدائی رسالہ </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">187</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1TBkKeE9f3FfYYHbLwyMPrCUfRJKEOu8m"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">فلسفہ سائنس اور کائنات </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">188</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=19s3lwIwgoa1fxfxYNSHyCOiX8nyG0ZWI"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">قدرت کے کرشمے </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">189</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1ecDQhVN5fKy7eZ0DOe8hJOAIOzNnEKfq"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">قدرت کے کھیل یا عملی جیوگرافیہ -حصہ اول </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">190</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1TEAT8iaGtZQd6N0cZ4aIiyos44OgqPR8"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">قران اور جدید سائنسی علوم </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">191</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1BdEu3Z22LLVHOZH4axhlf6vFzNwJWNLz"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">کاربن قدرت کا انمول عطیہ </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">192</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1e9lIv4m-pE01_OZ2k6uO2ObFuNLgS6Gf"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">کاربن کی کہانی </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">193</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1J0jBkaTWe3u8Bm-N9YTGYolO09e9kQ_A"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">کائنات نظریہ وقت اور تقدیر </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">194</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1PFp8t0HOgz8DNV-VD80tG8c99beTg4UY"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">کچھ سائنس سے </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">195</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1uid_2TdT26wqjyX7vAYI5Vm8OpXBXI2v"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">کرۂ ارض سے خلا تک </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">196</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1YZxhWQgt-C_pVq_3qXwDYdI3aAA7wRZM"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">کلاسیکی برق و مقناطیسیت </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">197</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=10A6vDjYS78uaou74DGtjGzBNU5ZVXoDl"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">کمکون کی کتاب</span></a></td>
<td align="right" class="xl65">198</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1CnpdI540T9gjnqDTFCkdpf1RCRmiGj0d"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">کھیتی نئی روشنی میں </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">199</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1zKWNkJv8OYkZazSTAWNF4wrEfUZJLKOm"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">کوسموس </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">200</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1SJ9W8JfAEmqFhbs3Zl3oIKtM-EmjGgxM"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">کیڑے مکوڑے </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">201</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1_aH-cJMtA62UQxJfKM8CfVcPen0iYBLm"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">کیمیا </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">202</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1TuXWYFGmypY-Tt5wB4M8ceN-vFVgYtMF"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">کیمیا - تیسرا حصہ </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">203</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1CmMoz4z8Oakfhmw2KbXIVqbUsV1BPlAm"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">کیمیا کی کہانی </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">204</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1P3DwyTTA8vdK8aNXD5RJBMaBStNLhH0Q"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">کیمیائی فعلیات</span></a></td>
<td align="right" class="xl65">205</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1Ygdzc-_xfY8kEQZF2ZbfG6cqb8vlAiNp"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">کیوں اور کیسے؟</span></a></td>
<td align="right" class="xl65">206</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1Guz-SLIY8G9DEGZIqeH_SGF9yDJHjv11"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">گائے بیل</span></a></td>
<td align="right" class="xl65">207</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1rRBKqj9OCDRKNSWjXy7wErXq11UonFJB"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">گلشن قدرت یا اسباق سائنس </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">208</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1ULdXpVa9f_RuJOksICRQOhp0Cq0aApQu"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">لاسلکی دنیا </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">209</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1PNv6LF3cMN4whjwG3-iIQgMyKOWpUTl3"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">لاشریک</span></a></td>
<td align="right" class="xl65">210</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1GWebLQsu4zoVq7wd_6xieeloB-Y3fMeQ"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">مبادی نباتیات - جلد اول </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">211</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1ePraZ6v6m2sez-r9E7w_yBP97ljRMPiw"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">مبادی نباتیات - جلد دوم</span></a></td>
<td align="right" class="xl65">212</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1U4srk5b6ZLKE4PfbpjzlgQh7PHu2ZpV3"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">مذہب اور سائنس </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">213</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl68" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1vZuNALWkzfmobCAiYtaIpsUt93tIZqmp"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">مسلمان اور سائنس </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">214</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl68" dir="RTL" height="24" style="background: rgb(255, 199, 206); border: none; color: #9c0006; font-family: Calibri; font-size: 14pt; height: 18pt; text-decoration-line: underline;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1bWsBMoYeGcs3W-ugu8WjhFIm7_ATUf3V"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">مسلمان سائنس دان اور ان کی خدمات </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">215</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="background: rgb(255, 199, 206); color: #9c0006; font-family: Calibri; font-size: 14pt; height: 18pt; text-decoration-line: underline;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1VRmxxMx2_us1p2Vw80Bi6snm7HkvK3UA"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">مسلمان سائنس دان اور ان کی خدمات </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">216</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1e3nsmtFqK86OPLZHEAEcG_70aLrXbl9c"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">مصنوعی ذہانت </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">217</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1-PHGvmxd6y588rcnc8tTkGTnxvyJOT61"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">مصنوعی سیاروں اور خلائی جہازوں کی کہانی </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">218</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1_p7L3rpZDIQksQ8TzaYgPXxHlZhtIaSl"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">مطالعہ قدرت - حصہ اول </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">219</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="background: rgb(255, 199, 206); color: #9c0006; font-family: Calibri; font-size: 14pt; height: 18pt; text-decoration-line: underline;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1zFSEQfcnEDzs5lDZBCYdxQVCYt2edohf"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">معلومات سائنس </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">220</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="background: rgb(255, 199, 206); color: #9c0006; font-family: Calibri; font-size: 14pt; height: 18pt; text-decoration-line: underline;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1ruTZFRMg9cVVpqgeEMqTkxm-s6Vi7jZ-"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">معلومات سائنس </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">221</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=11uiHKnh9MnmCPwqozksZLEG3W5WpJf3j"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">معیاری نباتیات - حصہ اول </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">222</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=12xjzBoqQ5SxvymQk3vv513aEmR83mClT"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">معیاری نباتیات - حصہ دوم</span></a></td>
<td align="right" class="xl65">223</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1KBSMROZGiosoP2shUKPQ-H6rOBWtCMYs"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">مغربی سائنس دان</span></a></td>
<td align="right" class="xl65">224</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=17sD1fjG6vSg2mR4C3AvcwX_6vSnLSCfM"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">مکالمات سائنس یعنی زندگی اور انسان پر دلچسپ مکالمے </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">225</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1R8fFSsbHRq3Ldzl4BO9dJB6ktT6Plysc"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">مہ و انجم </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">226</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1-hxqoSQ4WcZlQWqo_ax-h8U3OanGoJZ8"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">مہینوں کی کہانیاں </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">227</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1yjqrBtigzzRLCXCEGN-g2gCbYfVLq6X-"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">موزوں ٹیکنالوجی ڈائرکٹری </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">228</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1x9hfLTGKuJooHvYfpqzgvM53n7Sz5N1T"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">مولانا آزاد کے سائنسی مضامین </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">229</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1Qy93kSivCSI07slB9XjhxdgS09NI9Hh2"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">میتھمیٹکس </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">230</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=12L8Z99nwEX35bT7IFFcX6JO0E0PoERmx"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">میچورین فطرت کا عظیم معمار</span></a></td>
<td align="right" class="xl65">231</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=18m9azVk0fCo2XSUahxRZHCR4UlMsalAF"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">مینڈلیت</span></a></td>
<td align="right" class="xl65">232</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1fSV_9C9kE2k7ny5vqwOHzEgk69XBQixg"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">میوہ جات </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">233</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1fM36aGcW16ExVKpeIPq2uHfGpxYuA5Tl"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">نامواران سائنس </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">234</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1Rg6CLR_o_4MBv7HbyDUd7qPPNGJrH_Ag"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">نسلیات اور جنسی انتخاب </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">235</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1PQk7rbVt36NvtUhZqxR5uhZmuijD17Sv"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">نظام شمسی کی تمثیلی کانفرنس </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">236</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1N51zcligISkblMFhvVcA45x7q8a1Audk"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">نظری علم الحیل </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">237</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1XCCso8wyda70PZv-Bht95XuVdzZSIJr5"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">نوبیل حیاتیات </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">238</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1lCMQj88gF5852EUSZhhHzArOw6r7XO38"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">نیچر و لا آف نیچر یعنی فطرت اور قانون فطرت </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">239</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1Ce7byjCmMasPtSRdQs9X7vqmx1rsL5fs"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">نیچرل اسٹڈی یا قدرت کے کرشمے </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">240</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1ebR2kwkgLLO2TDovdozPr7SoaNLvqyUr"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">ہسٹالوجی یعنی نسیجیات - حصہ اول</span></a></td>
<td align="right" class="xl65">241</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=11Imr-gmoWJ5yaa4z78fNdkm-RZlXEHHk"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">ہسٹالوجی یعنی نسیجیات - حصہ دوم </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">242</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1qeFsxkMF4lipx9bVXSZqCte795yuNJj-"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">ہم اضافیت اور کائنات </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">243</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=18Fzy8-HB5rJbvC73cpHnKIpmslmVdkxE"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">ہمارا جسم </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">244</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1eCv-eETl2HKghHF3nZTchxcTZ8Wn7EM4"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">ہمارا سیارہ تباہی کے دھانے پر - بچاؤ </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">245</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1K4eCae2Kl2gedTbrljf55bNzSAFx8bVc"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">ہمارا ماحول </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">246</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1llBgjWebLie-27IoX8lwKlezS9v8z423"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">ہمارے سائنس دان </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">247</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1Rl78Fvnr1adyC4_LsuXYn8iU95yE1RF3"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">ہماری آنکھیں </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">248</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1GOR3Qx1XMTeqjqlFNbxHmT1PlgWW_HXU"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">ہماری زمین </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">249</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1hz6WZEpSnTfsDi0RiNr0qbNV0Ti-uTj2"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">ہندستانی سائنس </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">250</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1p-K1f8vwmrr5V4HVzCJbc9qJhn2xhfA4"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">ہندسی روشنی </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">251</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1My_70FvZIi3nCcM5gG7zR3-z_LmDrCZc"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">ہوا اور پانی </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">252</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1Izk8xxrt0jKLzwxI1LKYpZWOW_faxG9z"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">ہوا میں بجلی</span></a></td>
<td align="right" class="xl65">253</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1IwzVQPc3IQGfG4De4ZTY2oqGZBG20d1b"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">ہوائی جہاز کی کہانی </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">254</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1qacxKFCLN5BwBfvUdYg3VIZVmCZ99gmU"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">ہوائی دباؤ </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">255</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl70" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1br4bnUN82UB3_WZzK_i2DoQprVPA7mTK"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">ہیئت جدید - حصہ دوم </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">256</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl70" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1Txb1u6uDmD3vNjXzF77IwpXzlYwNvuP4"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">ہیئت جدید - حصہ سوم</span></a></td>
<td align="right" class="xl65">257</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl70" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1834agAYlm4yfBnofsJVW41Sb6gKC5K6k"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">ہیئت جدید -حصہ اول </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">258</td>
</tr>
<tr height="24" style="height: 18.0pt;">
<td align="right" class="xl66" dir="RTL" height="24" style="height: 18.0pt;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1YU7ZgNBC2jCRAGsQQrpSDoIYXRDUmF6E"><span style="font-family: Calibri, sans-serif; font-size: 14.0pt; mso-font-charset: 0;">یہ زمین ہماری </span></a></td>
<td align="right" class="xl65">259</td>
</tr>
</tbody></table>
</div>
Zuhair Abbashttp://www.blogger.com/profile/04666510644854788654noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1929777235422729587.post-72798035725324354732020-03-07T13:58:00.000+05:002020-03-09T09:45:46.511+05:00جہان سائنس لائبریری - اردو میں سائنس پر لکھی گئی کتب <div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiZnogSfj4LFG60ltgybyM3dQqds0GUM7cN1PaNMPbn2kW203o6e8hcfu9_J2C09RWAmSWsfAhZwyeUXrztkEUrvjQoo2-mqx87IxlukJxtn4TFwsxmtxjeBVRJKuBg1N2vWo3yFl68d4Q/s1600/5a2b0738a3b47456358b4abd.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="825" data-original-width="1100" height="480" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiZnogSfj4LFG60ltgybyM3dQqds0GUM7cN1PaNMPbn2kW203o6e8hcfu9_J2C09RWAmSWsfAhZwyeUXrztkEUrvjQoo2-mqx87IxlukJxtn4TFwsxmtxjeBVRJKuBg1N2vWo3yFl68d4Q/s640/5a2b0738a3b47456358b4abd.jpg" width="640" /></a></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
اردو میں سائنس پر لکھی گئی کسی بھی کتاب کو اٹھا کر دیکھیں تو تقریبا ہر کتاب میں آپ کو یہ گلہ نظر آئے گا کہ سائنسی ادب میں اردو تہی دامن ہے اور اردو میں لکھی گئی یا ترجمہ کی گئی مستند سائنسی کتب کا کال پڑا ہوا ہے۔ شاید یہ بات اس دور کے لئے درست ہو جس میں ہماری نسل پروان چڑھی ہے۔ تاہم ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ ایک دور ایسا بھی تھا کہ جب اردو میں ہر طرح کی سائنسی کتب چھپتی بھی تھیں اور پڑھی بھی جاتی تھیں۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اس وقت بھی اردو میں سائنس پڑھنے میں دلچسپی لینے والے قلیل تعداد میں تھے۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
کچھ عرصے قبل کی بات ہے جب مجھے اردو میں سائنس فکشن ناولوں کی تلاش ہوئی تو میں نے کراچی کے صدر کے علاقے ریگل میں لگنے والے پرانے کتابوں کے اردو بازار کا چکر لگانا شروع کیا۔ تلاش تو تھی سائنس فکشن ناولوں کی تاہم تلاش کے دوران وہاں اردو میں لکھی گئی یا ترجمہ کی گئی بہت سی نایاب اور پرانی کتابیں نظر آئیں جو میں نے اپنی دلچسپی کی خاطر خریدنی شروع کردیں۔ اب تک تقریبا 3 سو کے قریب سائنسی کتابیں اور لگ بھگ اتنے ہی سائنسی رسائل جمع ہوچکے ہیں۔ میری یہ خواہش رہی ہے کہ یونیکوڈ اردو میں سائنسی مواد انٹرنیٹ پر دستیاب ہو تاکہ کسی کو بھی کوئی چیز اگر اردو میں تلاش کرنی ہو تو وہ آسانی کے ساتھ کرسکے۔ تاہم اتنی بڑی تعداد میں کتابوں کو یونیکوڈ اردو میں منتقل کرنا کم از کم ایک انسان کا کام نہیں اور اس کے لئے کافی وقت اور سرمایہ بھی درکار ہے۔ البتہ ان کتابوں کو اسکین کرکے عوام الناس کے فائدے کے لئے ضرور پیش کیا جاسکتا ہے۔ فی الوقت تو 60 کے قریب کتابوں کو اسکین کرکے پیش کیا جارہا ہے۔ باقی کتب بھی جلد اسکین کرکے پیش کی جائیں گی۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
ان کتابوں کے علاوہ ریختہ پر سے بھی کوئی 300 سے زائد سائنسی کتب اور ناولز ملیں ہیں۔ امید ہے کہ انھیں بھی کچھ دن میں پیش کردیا جائے گا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
یہاں میں ایک بات بتاتا چلوں کہ میں کاپی رائٹ کا احترام کرتا ہوں اور کوئی بھی کتاب اس کے پبلشر یا مصنف کی مرضی کے خلاف انٹرنیٹ پر دستیاب کرنے کے خلاف ہوں۔ یہاں پر پیش کی جانے والی اکثر کتابیں وہ ہو جن کی اشاعت کو گزرے کم از کم 20 برس ہوچکے ہیں یعنی یہ کتابیں 20 برس کے عرصے میں شایع نہیں ہوئی ہیں۔ اس کے باوجود اگر کسی کو کسی بھی کتاب کی اس طرح دستیابی پر اعترض ہو تو وہ مجھ سے رابطہ کرسکتا ہے، میں اس کتاب کو یہاں سے ہٹا دوں گا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<table border="0" cellpadding="0" cellspacing="0" style="border-collapse: collapse; width: 684px;">
<colgroup><col style="mso-width-alt: 3218; mso-width-source: userset; width: 66pt;" width="88"></col>
<col style="mso-width-alt: 8960; mso-width-source: userset; width: 184pt;" width="245"></col>
<col style="mso-width-alt: 10313; mso-width-source: userset; width: 212pt;" width="282"></col>
<col style="mso-width-alt: 2523; mso-width-source: userset; width: 52pt;" width="69"></col>
</colgroup><tbody>
<tr height="26" style="height: 19.5pt;">
<td align="right" class="xl70" dir="RTL" height="26" style="height: 19.5pt; width: 66pt;" width="88">سنہ اشاعت </td>
<td align="right" class="xl70" dir="RTL" style="width: 184pt;" width="245">مصنف/مترجم </td>
<td align="right" class="xl70" dir="RTL" style="width: 212pt;" width="282">کتاب کا
نام </td>
<td align="right" class="xl70" dir="RTL" style="width: 52pt;" width="69">نمبر شمار</td>
</tr>
<tr height="26" style="height: 19.5pt;">
<td class="xl67" height="26" style="height: 19.5pt;">1969</td>
<td class="xl67" dir="RTL" style="border-left: none;">خواجہ حمید الدین شاہد</td>
<td class="xl71" dir="RTL" style="border-left: none;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1er_dIkKb4HnjA73f_25nA5kHpxGstN8v"><span style="font-size: 14.0pt;">اردو میں سائنسی ادب </span></a></td>
<td class="xl67">1</td>
</tr>
<tr height="26" style="height: 19.5pt;">
<td class="xl67" height="26" style="border-top: none; height: 19.5pt;">1967</td>
<td class="xl67" dir="RTL" style="border-left: none; border-top: none;">پروفیسر
عبدالسلام </td>
<td class="xl71" dir="RTL" style="border-left: none; border-top: none;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1_az8lPeS7jj8ok9MMzl0r0natbQ3mp6x"><span style="font-size: 14.0pt;">انجانے دیس کی مہمات </span></a></td>
<td class="xl67" style="border-top: none;">2</td>
</tr>
<tr height="26" style="height: 19.5pt;">
<td class="xl67" height="26" style="border-top: none; height: 19.5pt;">1930</td>
<td class="xl67" dir="RTL" style="border-left: none; border-top: none;">نامعلوم</td>
<td class="xl71" dir="RTL" style="border-left: none; border-top: none;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1SgH6MUVktuxZ9TIbnqgmhqoDCyF7QEgi"><span style="font-size: 14.0pt;">ایجاد کے بلیدار</span></a></td>
<td class="xl67" style="border-top: none;">3</td>
</tr>
<tr height="26" style="height: 19.5pt;">
<td class="xl67" height="26" style="border-top: none; height: 19.5pt;">1961</td>
<td class="xl67" dir="RTL" style="border-left: none; border-top: none;">نامعلوم </td>
<td class="xl71" dir="RTL" style="border-left: none; border-top: none;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1jeI7EbWS5ewc_EERrqnOiMk3FJ8U4r8G"><span style="font-size: 14.0pt;">ایجادوں کی کہانیاں</span></a></td>
<td class="xl67" style="border-top: none;">4</td>
</tr>
<tr height="26" style="height: 19.5pt;">
<td class="xl67" height="26" style="border-top: none; height: 19.5pt;">1948</td>
<td class="xl67" dir="RTL" style="border-left: none; border-top: none;">مسعود احمد
خان </td>
<td class="xl71" dir="RTL" style="border-left: none; border-top: none;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1xg6l-7ooqG7AYn3BAE4ieE7izAF3IsCv"><span style="font-size: 14.0pt;">آواز کی کہانی </span></a></td>
<td class="xl67" style="border-top: none;">5</td>
</tr>
<tr height="26" style="height: 19.5pt;">
<td class="xl67" height="26" style="border-top: none; height: 19.5pt;">1969</td>
<td class="xl67" dir="RTL" style="border-left: none; border-top: none;">شعبه تصنیف و
تالیف </td>
<td class="xl71" dir="RTL" style="border-left: none; border-top: none;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1yi8krPgrx_q6A66XROba-JN3vE0bxLcR"><span style="font-size: 14.0pt;">آئن اسٹائن </span></a></td>
<td class="xl67" style="border-top: none;">6</td>
</tr>
<tr height="26" style="height: 19.5pt;">
<td class="xl67" height="26" style="border-top: none; height: 19.5pt;">1959</td>
<td class="xl67" dir="RTL" style="border-left: none; border-top: none;">علی ناصر
زیدی </td>
<td class="xl71" dir="RTL" style="border-left: none; border-top: none;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1288HDGCzgHOBPxw4e1RReXSGlfsWXQVU"><span style="font-size: 14.0pt;">بجلی کی پہلی کتاب</span></a></td>
<td class="xl67" style="border-top: none;">7</td>
</tr>
<tr height="26" style="height: 19.5pt;">
<td class="xl67" height="26" style="border-top: none; height: 19.5pt;">1967</td>
<td class="xl67" dir="RTL" style="border-left: none; border-top: none;">محمد احسن
فرخی </td>
<td class="xl71" dir="RTL" style="border-left: none; border-top: none;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1-NWuatSzKrVWo9W6OrUf1GYIBphWIwnR"><span style="font-size: 14.0pt;">برفانی عہد کی آمد آمد </span></a></td>
<td class="xl67" style="border-top: none;">8</td>
</tr>
<tr height="26" style="height: 19.5pt;">
<td class="xl67" height="26" style="border-top: none; height: 19.5pt;">1964</td>
<td class="xl67" dir="RTL" style="border-left: none; border-top: none;">علی ناصر
زیدی </td>
<td class="xl71" dir="RTL" style="border-left: none; border-top: none;"><a href="https://drive.google.com/open?id=16JvEocs0FHEdkoUlRjAelSC4CIZXFJiU"><span style="font-size: 14.0pt;">برقیات کے کرشمے </span></a></td>
<td class="xl67" style="border-top: none;">9</td>
</tr>
<tr height="26" style="height: 19.5pt;">
<td class="xl67" height="26" style="border-top: none; height: 19.5pt;">1956</td>
<td class="xl67" dir="RTL" style="border-left: none; border-top: none;">ادریس
صدیقی </td>
<td class="xl71" dir="RTL" style="border-left: none; border-top: none;"><a href="https://drive.google.com/open?id=19aKm8vewL2HrgsJAF7YrEa-t2msooVSY"><span style="font-size: 14.0pt;">پلوں کی کہانی </span></a></td>
<td class="xl67" style="border-top: none;">10</td>
</tr>
<tr height="26" style="height: 19.5pt;">
<td class="xl67" height="26" style="border-top: none; height: 19.5pt;">1967</td>
<td class="xl67" dir="RTL" style="border-left: none; border-top: none;">ایم اے
قریشی </td>
<td class="xl71" dir="RTL" style="border-left: none; border-top: none;"><a href="https://drive.google.com/open?id=15zze_O9Bx9S6XjhpiQMMvIB0W6TJyaVZ"><span style="font-size: 14.0pt;">تسخیر آب </span></a></td>
<td class="xl67" style="border-top: none;">11</td>
</tr>
<tr height="26" style="height: 19.5pt;">
<td class="xl67" height="26" style="border-top: none; height: 19.5pt;">1961</td>
<td class="xl67" dir="RTL" style="border-left: none; border-top: none;">خلیق ابراہیم
خلیق </td>
<td class="xl71" dir="RTL" style="border-left: none; border-top: none;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1u-RTs2ea5SZUtQ_JoIr0J6paj9lzb5zy"><span style="font-size: 14.0pt;">تمہارا جسم کیونکر کام کرتا ہے </span></a></td>
<td class="xl67" style="border-top: none;">12</td>
</tr>
<tr height="26" style="height: 19.5pt;">
<td class="xl67" height="26" style="border-top: none; height: 19.5pt;">1969</td>
<td class="xl67" dir="RTL" style="border-left: none; border-top: none;">محمد علی </td>
<td class="xl71" dir="RTL" style="border-left: none; border-top: none;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1fWHbvctzVm_8mQlpg5-_80VNVDpmJ1yg"><span style="font-size: 14.0pt;">جدید سائنس کی کامرانیاں</span></a></td>
<td class="xl67" style="border-top: none;">13</td>
</tr>
<tr height="26" style="height: 19.5pt;">
<td class="xl67" height="26" style="border-top: none; height: 19.5pt;">1958</td>
<td class="xl67" dir="RTL" style="border-left: none; border-top: none;">ایس اے شکور و
دیگر </td>
<td class="xl71" dir="RTL" style="border-left: none; border-top: none;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1mVE3EN4hrNt47TJw6hM6epxlMH6yQ3Hi"><span style="font-size: 14.0pt;">جدید طبی ایجادات </span></a></td>
<td class="xl67" style="border-top: none;">14</td>
</tr>
<tr height="26" style="height: 19.5pt;">
<td class="xl67" height="26" style="border-top: none; height: 19.5pt;">1966</td>
<td class="xl67" dir="RTL" style="border-left: none; border-top: none;">پروفیسر محمود
احمد خان </td>
<td align="left" valign="top"><!--[if gte vml 1]><v:shapetype id="_x0000_t75"
coordsize="21600,21600" o:spt="75" o:preferrelative="t" path="m@4@5l@4@11@9@11@9@5xe"
filled="f" stroked="f">
<v:stroke joinstyle="miter"/>
<v:formulas>
<v:f eqn="if lineDrawn pixelLineWidth 0"/>
<v:f eqn="sum @0 1 0"/>
<v:f eqn="sum 0 0 @1"/>
<v:f eqn="prod @2 1 2"/>
<v:f eqn="prod @3 21600 pixelWidth"/>
<v:f eqn="prod @3 21600 pixelHeight"/>
<v:f eqn="sum @0 0 1"/>
<v:f eqn="prod @6 1 2"/>
<v:f eqn="prod @7 21600 pixelWidth"/>
<v:f eqn="sum @8 21600 0"/>
<v:f eqn="prod @7 21600 pixelHeight"/>
<v:f eqn="sum @10 21600 0"/>
</v:formulas>
<v:path o:extrusionok="f" gradientshapeok="t" o:connecttype="rect"/>
<o:lock v:ext="edit" aspectratio="t"/>
</v:shapetype><v:shape id="TextBox_x0020_1" o:spid="_x0000_s1025" type="#_x0000_t75"
style='position:absolute;direction:LTR;text-align:left;margin-left:159pt;
margin-top:18pt;width:14.25pt;height:21pt;z-index:1;visibility:visible;
mso-wrap-style:square;v-text-anchor:top' o:gfxdata="UEsDBBQABgAIAAAAIQC75UiUBQEAAB4CAAATAAAAW0NvbnRlbnRfVHlwZXNdLnhtbKSRvU7DMBSF
dyTewfKKEqcMCKEmHfgZgaE8wMW+SSwc27JvS/v23KTJgkoXFsu+P+c7Ol5vDoMTe0zZBl/LVVlJ
gV4HY31Xy4/tS3EvRSbwBlzwWMsjZrlprq/W22PELHjb51r2RPFBqax7HCCXIaLnThvSAMTP1KkI
+gs6VLdVdad08ISeCho1ZLN+whZ2jsTzgcsnJwldluLxNDiyagkxOquB2Knae/OLUsyEkjenmdzb
mG/YhlRnCWPnb8C898bRJGtQvEOiVxjYhtLOxs8AySiT4JuDystlVV4WPeM6tK3VaILeDZxIOSsu
ti/jidNGNZ3/J08yC1dNv9v8AAAA//8DAFBLAwQUAAYACAAAACEArTA/8cEAAAAyAQAACwAAAF9y
ZWxzLy5yZWxzhI/NCsIwEITvgu8Q9m7TehCRpr2I4FX0AdZk2wbbJGTj39ubi6AgeJtl2G9m6vYx
jeJGka13CqqiBEFOe2Ndr+B03C3WIDihMzh6RwqexNA281l9oBFTfuLBBhaZ4ljBkFLYSMl6oAm5
8IFcdjofJ0z5jL0MqC/Yk1yW5UrGTwY0X0yxNwri3lQgjs+Qk/+zfddZTVuvrxO59CNCmoj3vCwj
MfaUFOjRhrPHaN4Wv0VV5OYgm1p+LW1eAAAA//8DAFBLAwQUAAYACAAAACEAvmuOF+kCAACIDAAA
HwAAAGNsaXBib2FyZC9kcmF3aW5ncy9kcmF3aW5nMS54bWzUl1FvmzAQx98n7TtYfp1aAiEJiUqr
rVv7Uq1V034A15gEzdjIdlPST78744Qs0zZ12wsvBOy78/93xtzl7KKtJdkIYyutchqfjigRiuui
UqucPj5cnWSUWMdUwaRWIqdbYenF+ft3Z2yxMqxZV5xABGUXLKdr55pFFFm+FjWzp7oRCuZKbWrm
4NGsosKwF4hcyygZjaZRzSpFz/tQn5lj5NlUfxFKav5NFJdMbZiFkJIvDkeCRsn/PTJbqM21aZbN
nUHl/OvmzpCqyClkTrEaUkSjMBHM4DE68lr1AdrS1Givy5K0OZ2PJlkym1Cyzel4no7Hk1EXT7SO
cDCIs3Q2jinhYJBM08k0zPP17R8i8PWX38YAkZ0YuDkQaBuUpzY/Eyc74gcQ90m3JN6jozFxLQyC
Yhz1GdiFsCF5/4d9r5stGmPdtdA1wZucGsGdf7/Y5sa6TsXOxEPpq0rKbnynybVLD4ziiy1aPcEv
0MAhcbdwKaV+ySmXVUPJWpvX47EXOBY5VXBaKDFOXmrp3w2mOFjntBNkm4/PDlYPorolcDFp3dJt
pfD3GxljHmtmbnyMShVCAdfIQxWivIdZ+wopjkfdmNWyKhAK/f1BFJcStDMQ4drdTvxgJZmrFHHb
RpSMw+v7oVYn0oWXjh1NCBa22B5NcBt2uVPlN1x2+gNK0qOkkxmcf0qGx4MQgWfc88zjNB0mD0IE
nrTnicezeDpMIKQIQJMDoCzJsmECIUUAmvZASZLBBg3yCCFFAJodAM3S8UC/CUgRgLIeCGkG+lFA
igA0PwCaTmYD/SggRVeRDqqrr/JCFXfMMKyjkmHLK9TJ4xJa3l1RDU2D9+5bgmcrls09dBfd9K5n
sPvKre5FCV0hdD+hLnOzesJKDB0AnFpYCK5PeO0iSHTAnJdQu9/oG1zQW5QliHqj/97Jr69V719X
ShuKw79sJcrO3ucn4EM/hj1jdNSDe5PwnwEb/cPn8+8AAAD//wMAUEsDBBQABgAIAAAAIQDtjdme
RQYAAA4aAAAaAAAAY2xpcGJvYXJkL3RoZW1lL3RoZW1lMS54bWzsWUtvGzcQvhfof1jsvbHeio3I
ga1H3MRKgkhJkSOlpXYZc5cLkrKjW5EcCxQomha9FOith6JtgAToJf01blO0KZC/0CH3IVKiasfI
IS1iAcbu7DfD4czsNyT3ytWHMfWOMReEJR2/eqnieziZsoAkYce/Ox58dNn3hERJgChLcMdfYOFf
3f3wgytoZ0pJOmGIB+MIx9gDQ4nYQR0/kjLd2doSUxAjcYmlOIFnM8ZjJOGWh1sBRycwQEy3apVK
aytGJPF3waJUhvoU/iVSKMGU8pEyg70ExTD6rdmMTLHGBkdVhRAL0aXcO0a044PNgJ2M8UPpexQJ
CQ86fkX/+Vu7V7bQTq5E5QZdQ2+g/3K9XCE4qukxeTgpB200mo3WXmlfA6hcx/Xb/Va/VdrTADSd
wkwzX0ybzf3t/V4zxxqg7NJhu9fu1asW3rBfX/N5r6l+Fl6DMvuNNfxg0IUoWngNyvDNNXyj0a51
GxZegzJ8aw3fruz1Gm0Lr0ERJcnRGrrSbNW7xWxLyIzRAyd8u9kYtGu58SUKqqGsLjXEjCVyU63F
6AHjAwAoIEWSJJ5cpHiGplCTXUTJhBPvkIQRFF6KEiZAXKlVBpU6/Fe/hr7SEUE7GBnayi/wRKyJ
lD+emHKSyo5/Haz6BuT1ix9fv3jmvX7x9PTR89NHv5w+fnz66OfMlqV4gJLQVHz1/Rd/f/up99ez
7149+cqNFyb+958+++3XL91AmOwyCi+/fvrH86cvv/n8zx+eOOB7HE1M+JjEWHg38Yl3h8UwNx0F
23M84W+mMY4QsTRQBLYdpvsysoA3F4i6cPvYDt49DgTjAl6bP7B8HUV8Lolj5BtRbAGHjNF9xp0B
uKHGMiI8niehe3A+N3F3EDp2jd1FiZXa/jwFZiUuk90IW27epiiRKMQJlp56xo4wdszuPiFWXIdk
yplgM+ndJ94+Is6QjMnEKqSl0gGJIS8Ll4OQais2w3vePqOuWffwsY2EFwJRh/NjTK0wXkNziWKX
yTGKqRnwQyQjl5OjBZ+auL6QkOkQU+b1AyyES+cWh/kaSb8B5OJO+5AuYhvJJTly2TxEjJnIHjvq
RihOXdgRSSIT+7E4ghJF3m0mXfAhs98QdQ95QMnGdN8j2Er32URwF3jVdGlZIOrJnDtyeQ0zq35H
CzpDWLMM0L7F5jFJzqT2FVJvvif1rCutkvoeJ85X62CFyjfh/oME3kPz5DaGd2a9gb3n7/f87f/v
+XvTu/z2WXtJ1MDhaqmYrdb12j3euHSfEUpHckHxodCrdwHtKRiAUOnpLSout3JpBJfqTYYBLFzI
kdbxOJOfEBmNIpTCEr/qKyOhyE2HwkuZgJW/FjttKzydx0MWZDvWalXtTjPyEEgu5ZVmKYfdhszQ
rfZyF1aa196GerdcOKB038QJYzDbibrDiXYhVEHSe3MImsMJPbO34sW2w4vLynyRqjUvwLUyK7B+
8mDV1fGbDVABJdhUIYoDlacs1UV2dTLfZqY3BdOqAFhMFBWwzPS28nXj9NTsslI7R6YtJ4xys53Q
kdE9TEQowHl1Kul53HjTXG8vU2q5p0Khx4PSWrrRvvxvXlw016C3yg00MZmCJt5Jx2/Vm1AyU5R2
/Bns/OEyTqF2hFr3IhrCmdlU8uyFvwizpFzIHhJRFnBNOhkbxERi7lESd3w1/TINNNEcon2r1oAQ
3lnntoFW3jXnIOl2kvFshqfSTLshUZHOboHhM65wPtXqFwcrTTaHdI+i4MSb0Dm/g6DEmu2qCmBA
BBwAVbNoBgRONEsiW9bfSmPKadc8UtQ1lMkRTSOUdxSTzDO4pvLSHX1XxsC4y+cMATVCkjfCSaga
rBlUq5uWXSPzYWPXPVtJRc4gzWXPtFhFdU03i1kjFG1gJZYXa/KGV0WIgdPMDp9R9yrlbhdct7JO
KLsEBLyMn6PrnqMhGK4tB7NcUx6v07Di7Fxq945igme4dp4mYbB+qzC7EreyRziHA+GFOj/orVYt
iGbFulJH2vV1YohSbxJWOz58IYBDiodwBd8YfJDVlKymZHAFHw6gXWSn/R0/vygk8DyTlJh6IakX
mEYhaRSSZiFpFpJWIWn5nj4Wh08x6kTc94pTb+hh+Sl5vrawP+Hs/gMAAP//AwBQSwMEFAAGAAgA
AAAhAJxmRkG7AAAAJAEAACoAAABjbGlwYm9hcmQvZHJhd2luZ3MvX3JlbHMvZHJhd2luZzEueG1s
LnJlbHOEj80KwjAQhO+C7xD2btJ6EJEmvYjQq9QHCMk2LTY/JFHs2xvoRUHwsjCz7DezTfuyM3li
TJN3HGpaAUGnvJ6c4XDrL7sjkJSl03L2DjksmKAV201zxVnmcpTGKSRSKC5xGHMOJ8aSGtHKRH1A
VzaDj1bmIqNhQaq7NMj2VXVg8ZMB4otJOs0hdroG0i+hJP9n+2GYFJ69elh0+UcEy6UXFqCMBjMH
SldnnTUtXYGJhn39Jt4AAAD//wMAUEsBAi0AFAAGAAgAAAAhALvlSJQFAQAAHgIAABMAAAAAAAAA
AAAAAAAAAAAAAFtDb250ZW50X1R5cGVzXS54bWxQSwECLQAUAAYACAAAACEArTA/8cEAAAAyAQAA
CwAAAAAAAAAAAAAAAAA2AQAAX3JlbHMvLnJlbHNQSwECLQAUAAYACAAAACEAvmuOF+kCAACIDAAA
HwAAAAAAAAAAAAAAAAAgAgAAY2xpcGJvYXJkL2RyYXdpbmdzL2RyYXdpbmcxLnhtbFBLAQItABQA
BgAIAAAAIQDtjdmeRQYAAA4aAAAaAAAAAAAAAAAAAAAAAEYFAABjbGlwYm9hcmQvdGhlbWUvdGhl
bWUxLnhtbFBLAQItABQABgAIAAAAIQCcZkZBuwAAACQBAAAqAAAAAAAAAAAAAAAAAMMLAABjbGlw
Ym9hcmQvZHJhd2luZ3MvX3JlbHMvZHJhd2luZzEueG1sLnJlbHNQSwUGAAAAAAUABQBnAQAAxgwA
AAAA
" o:insetmode="auto">
<v:imagedata src="file:///C:\Users\QURAT-~1\AppData\Local\Temp\msohtmlclip1\01\clip_image001.png"
o:title=""/>
<o:lock v:ext="edit" aspectratio="f"/>
<x:ClientData ObjectType="Pict">
<x:SizeWithCells/>
<x:CF>Bitmap</x:CF>
<x:AutoPict/>
</x:ClientData>
</v:shape><![endif]--><!--[if !vml]--><span style="height: 28px; margin-left: 212px; margin-top: 24px; mso-ignore: vglayout; position: absolute; width: 19px; z-index: 1;"></span><!--[endif]-->
<br />
<table cellpadding="0" cellspacing="0">
<tbody>
<tr>
<td class="xl71" dir="RTL" height="26" style="border-left: none; border-top: none; height: 19.5pt; width: 212pt;" width="282"><a href="https://drive.google.com/open?id=1NbuDg4ndnRKgcUWzapacN6jstBi_R-1X"><span style="font-size: 14.0pt;">جوہر کی سرگزشت </span></a></td>
</tr>
</tbody></table>
</td>
<td class="xl67" style="border-top: none;">15</td>
</tr>
<tr height="26" style="height: 19.5pt;">
<td class="xl67" height="26" style="border-top: none; height: 19.5pt;">0</td>
<td class="xl67" dir="RTL" style="border-left: none; border-top: none;">پروفیسر ڈاکٹر
ایم مقصود </td>
<td class="xl71" dir="RTL" style="border-left: none; border-top: none;"><a href="https://drive.google.com/open?id=12GWvDdxkoXG9vpzQyu48ricV09EEKWQB"><span style="font-size: 14.0pt;">جوہری توانائی انسان کے لئے نعمت عظمیٰ </span></a></td>
<td class="xl67" style="border-top: none;">16</td>
</tr>
<tr height="26" style="height: 19.5pt;">
<td class="xl67" height="26" style="border-top: none; height: 19.5pt;">1959</td>
<td class="xl67" dir="RTL" style="border-left: none; border-top: none;">محمود احمد
خان</td>
<td class="xl71" dir="RTL" style="border-left: none; border-top: none;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1mGz7JnaBExyf0HbhammgCUf6S7qRjz9y"><span style="font-size: 14.0pt;">جوہری توانائی اور اس کا مستقبل</span></a></td>
<td class="xl67" style="border-top: none;">17</td>
</tr>
<tr height="26" style="height: 19.5pt;">
<td class="xl67" height="26" style="border-top: none; height: 19.5pt;">1967</td>
<td class="xl67" dir="RTL" style="border-left: none; border-top: none;">وقار احمد
زبیری اور کفیل احمد ملک </td>
<td class="xl71" dir="RTL" style="border-left: none; border-top: none;"><a href="https://drive.google.com/open?id=15_a-JqdzKPMdrLIm3C-_ujELR8VJL9Ob"><span style="font-size: 14.0pt;">جیتی جاگتی زمین </span></a></td>
<td class="xl67" style="border-top: none;">18</td>
</tr>
<tr height="26" style="height: 19.5pt;">
<td class="xl67" height="26" style="border-top: none; height: 19.5pt;">1963</td>
<td class="xl67" dir="RTL" style="border-left: none; border-top: none;">علی ناصر زیدی</td>
<td class="xl71" dir="RTL" style="border-left: none; border-top: none;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1mPU7iSEx3axQhhZXQ-nNFEVaMZTFVApW"><span style="font-size: 14.0pt;">خدمات سائینس</span></a></td>
<td class="xl67" style="border-top: none;">19</td>
</tr>
<tr height="26" style="height: 19.5pt;">
<td class="xl67" height="26" style="border-top: none; height: 19.5pt;">1963</td>
<td class="xl67" dir="RTL" style="border-left: none; border-top: none;">غلام رسول مہر</td>
<td class="xl71" dir="RTL" style="border-left: none; border-top: none;"><a href="https://drive.google.com/open?id=10YB-Wgg73sR5Soau6ycGPzxY3Fol2dvn"><span style="font-size: 14.0pt;">خلا میں سفر کی پہلی کتاب</span></a></td>
<td class="xl67" style="border-top: none;">20</td>
</tr>
<tr height="26" style="height: 19.5pt;">
<td class="xl66" height="26" style="height: 19.5pt;">1970</td>
<td class="xl66" dir="RTL">ادارہ تصنیف و تالیف </td>
<td class="xl72" dir="RTL"><a href="https://drive.google.com/open?id=16vobDgSxIc09GnicZArnIYJbwTY47gtu"><span style="font-size: 14.0pt;">دنیا کے مشہور سائنس داں </span></a></td>
<td class="xl67" style="border-top: none;">21</td>
</tr>
<tr height="26" style="height: 19.5pt;">
<td class="xl66" height="26" style="height: 19.5pt;">1967</td>
<td class="xl66" dir="RTL">خواجہ ضمیر علی </td>
<td class="xl72" dir="RTL"><a href="https://drive.google.com/open?id=19TLUs6-eczTiZaRUTy9gCsOP1KRNAsPm"><span style="font-size: 14.0pt;">راکٹ کی کہانی </span></a></td>
<td class="xl67" style="border-top: none;">22</td>
</tr>
<tr height="26" style="height: 19.5pt;">
<td class="xl66" height="26" style="height: 19.5pt;">1963</td>
<td class="xl66" dir="RTL">ناصر علی زیدی</td>
<td class="xl72" dir="RTL"><a href="https://drive.google.com/open?id=1CshODHm-iWQ1C9j7n6FKNh9hRzyq8Maj"><span style="font-size: 14.0pt;">زمین کی سرگزشت </span></a></td>
<td class="xl67" style="border-top: none;">23</td>
</tr>
<tr height="26" style="height: 19.5pt;">
<td class="xl66" height="26" style="height: 19.5pt;">1961</td>
<td class="xl66" dir="RTL">شعبہ تصنیف و تالیف</td>
<td class="xl72" dir="RTL"><a href="https://drive.google.com/open?id=1NToDhw1m5xn3K4SECnGeQV9W8y6gw8pv"><span style="font-size: 14.0pt;">سائنس دان فرینکلن </span></a></td>
<td class="xl67" style="border-top: none;">24</td>
</tr>
<tr height="26" style="height: 19.5pt;">
<td class="xl66" height="26" style="height: 19.5pt;">1962</td>
<td class="xl66" dir="RTL">علی ناصر زیدی </td>
<td class="xl72" dir="RTL"><a href="https://drive.google.com/open?id=1y2JbBKjWChajRgx-XJ9l653NB0VN6_tP"><span style="font-size: 14.0pt;">سائنس دان کیسے بنتے ہیں؟</span></a></td>
<td class="xl67" style="border-top: none;">25</td>
</tr>
<tr height="26" style="height: 19.5pt;">
<td class="xl66" height="26" style="height: 19.5pt;">1979</td>
<td class="xl66" dir="RTL">مجلس مصنفین </td>
<td class="xl72" dir="RTL"><a href="https://drive.google.com/open?id=1oaQmVt8d_QZfcs4Ry1_R7TDoLhnM2PrH"><span style="font-size: 14.0pt;">سائنس سیکھئے </span></a></td>
<td class="xl67" style="border-top: none;">26</td>
</tr>
<tr height="26" style="height: 19.5pt;">
<td class="xl66" height="26" style="height: 19.5pt;">1966</td>
<td class="xl66" dir="RTL">سید سعید احمد </td>
<td class="xl72" dir="RTL"><a href="https://drive.google.com/open?id=1wHDqAVJdLPm8WGwCJuQ9URabIZb8OACw"><span style="font-size: 14.0pt;">سائنس کل کیلئے </span></a></td>
<td class="xl67" style="border-top: none;">27</td>
</tr>
<tr height="26" style="height: 19.5pt;">
<td class="xl66" height="26" style="height: 19.5pt;">1963</td>
<td class="xl66" dir="RTL">علی ناصر زیدی </td>
<td class="xl72" dir="RTL"><a href="https://drive.google.com/open?id=1w_diHTKWV5A5c5FEgCHFM8N713Zpmu_R"><span style="font-size: 14.0pt;">سائنس کے ساتھ قدم بہ قدم </span></a></td>
<td class="xl67" style="border-top: none;">28</td>
</tr>
<tr height="26" style="height: 19.5pt;">
<td class="xl66" height="26" style="height: 19.5pt;">1986</td>
<td class="xl66" dir="RTL">سید قاسم محمود</td>
<td class="xl72" dir="RTL" style="background: rgb(255, 199, 206); border: none; color: #9c0006; font-family: Calibri; font-size: 14pt; text-decoration-line: underline;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1xvQ_JZ12HLjjps1qAUkg3DT1f81dlNv6"><span style="font-size: 14.0pt;">سائنس کے نئے افق</span></a></td>
<td class="xl67" style="border-top: none;">29</td>
</tr>
<tr height="26" style="height: 19.5pt;">
<td class="xl66" height="26" style="height: 19.5pt;">0</td>
<td class="xl66" dir="RTL">علی ناصر زیدی </td>
<td class="xl72" dir="RTL" style="background: rgb(255, 199, 206); border: none; color: #9c0006; font-family: Calibri; font-size: 14pt; text-decoration-line: underline;"><a href="https://drive.google.com/open?id=1F8e5Q70bPKcKMl6HGt3GHqJ3BdRVhqZR"><span style="font-size: 14.0pt;">سائنس کے نئے افق</span></a></td>
<td class="xl67" style="border-top: none;">30</td>
</tr>
<tr height="26" style="height: 19.5pt;">
<td class="xl66" height="26" style="height: 19.5pt;">0</td>
<td class="xl66" dir="RTL">علی ناصر زیدی</td>
<td class="xl72" dir="RTL"><a href="https://drive.google.com/open?id=1yYKASqVSfWXPh0G0IyqLxvLKrI9zcq80"><span style="font-size: 14.0pt;">سائینس شاہراہ ترقی پر</span></a></td>
<td class="xl67" style="border-top: none;">31</td>
</tr>
<tr height="26" style="height: 19.5pt;">
<td class="xl66" height="26" style="height: 19.5pt;">1963</td>
<td class="xl66" dir="RTL">علی ناصر زیدی </td>
<td class="xl72" dir="RTL"><a href="https://drive.google.com/open?id=1yLr6nwGSQyTNYT2X7CrPVIQ-LlFjLfxM"><span style="font-size: 14.0pt;">ستاروں کی دنیا </span></a></td>
<td class="xl67" style="border-top: none;">32</td>
</tr>
<tr height="26" style="height: 19.5pt;">
<td class="xl66" height="26" style="height: 19.5pt;">1951</td>
<td class="xl66" dir="RTL">نامعلوم</td>
<td class="xl72" dir="RTL"><a href="https://drive.google.com/open?id=1P70O47L_3ZzoWlitWLZ637FEy9JNVvKe"><span style="font-size: 14.0pt;">سفر اور پیغام رسانی </span></a></td>
<td class="xl67" style="border-top: none;">33</td>
</tr>
<tr height="26" style="height: 19.5pt;">
<td class="xl66" height="26" style="height: 19.5pt;">1963</td>
<td class="xl66" dir="RTL">محمد سعید </td>
<td class="xl72" dir="RTL"><a href="https://drive.google.com/open?id=1xqZsKAk53AONnkJ0PS-Jr5FtP2u9HOwV"><span style="font-size: 14.0pt;">سمندر کے راز</span></a></td>
<td class="xl67" style="border-top: none;">34</td>
</tr>
<tr height="26" style="height: 19.5pt;">
<td class="xl66" height="26" style="height: 19.5pt;">1962</td>
<td class="xl66" dir="RTL">فاروق احمد صدیقی </td>
<td class="xl72" dir="RTL"><a href="https://drive.google.com/open?id=1-pKA0D8Wqs0F6gkg8A4G0-RXvCvtyQj1"><span style="font-size: 14.0pt;">سورج کی پیدائش اور موت </span></a></td>
<td class="xl67" style="border-top: none;">35</td>
</tr>
<tr height="26" style="height: 19.5pt;">
<td class="xl66" height="26" style="height: 19.5pt;">1962</td>
<td class="xl66" dir="RTL">محمد سعید</td>
<td class="xl72" dir="RTL"><a href="https://drive.google.com/open?id=1ZYqs_gXIJ3kfBztJ30OWpYISMGlEDMsX"><span style="font-size: 14.0pt;">طائر اور طیارے</span></a></td>
<td class="xl67" style="border-top: none;">36</td>
</tr>
<tr height="26" style="height: 19.5pt;">
<td class="xl66" height="26" style="height: 19.5pt;">1945</td>
<td class="xl66" dir="RTL">محمد نصیر احمد عثمانی </td>
<td class="xl72" dir="RTL"><a href="https://drive.google.com/open?id=1vU-nQqg9XrZAie-sTKbR-IDEG0OpTenp"><span style="font-size: 14.0pt;">طبیعیات کی داستان </span></a></td>
<td class="xl67" style="border-top: none;">37</td>
</tr>
<tr height="26" style="height: 19.5pt;">
<td class="xl66" height="26" style="height: 19.5pt;">1966</td>
<td class="xl66" dir="RTL">سید صولت حسین رضوی </td>
<td class="xl72" dir="RTL"><a href="https://drive.google.com/open?id=1AavcArIk_aJhnCmNTtHXIIcvjt1SWk8m"><span style="font-size: 14.0pt;">طبیعیات کیا ہے؟</span></a></td>
<td class="xl67" style="border-top: none;">38</td>
</tr>
<tr height="26" style="height: 19.5pt;">
<td class="xl66" height="26" style="height: 19.5pt;">1998</td>
<td class="xl66" dir="RTL">نامعلوم</td>
<td class="xl72" dir="RTL"><a href="https://drive.google.com/open?id=1-MYHf-flJzu6jo6DtysXeBJ8AEQMrxqi"><span style="font-size: 14.0pt;">عظیم سائنسداں </span></a></td>
<td class="xl67" style="border-top: none;">39</td>
</tr>
<tr height="26" style="height: 19.5pt;">
<td class="xl66" height="26" style="height: 19.5pt;">1961</td>
<td class="xl66" dir="RTL">سید آفتاب احمد زیدی</td>
<td class="xl72" dir="RTL"><a href="https://drive.google.com/open?id=1QFqDT5jkPWGARN0UwITsVBJuvC2HkMXB"><span style="font-size: 14.0pt;">عناصر اور مرکبات </span></a></td>
<td class="xl67" style="border-top: none;">40</td>
</tr>
<tr height="26" style="height: 19.5pt;">
<td class="xl66" height="26" style="height: 19.5pt;">1969</td>
<td class="xl66" dir="RTL">اے کیو شکور</td>
<td class="xl72" dir="RTL"><a href="https://drive.google.com/open?id=1pY_dyBEIsyKMelbqdodUymGPgw962E6J"><span style="font-size: 14.0pt;">کمپیوٹر کیا ہے؟</span></a></td>
<td class="xl67" style="border-top: none;">41</td>
</tr>
<tr height="26" style="height: 19.5pt;">
<td class="xl66" height="26" style="height: 19.5pt;">1962</td>
<td class="xl66" dir="RTL">کپتان عبدالواحد</td>
<td class="xl72" dir="RTL"><a href="https://drive.google.com/open?id=1Vz1pD7oX3KvlBwausryjtr4-TsjV5xst"><span style="font-size: 14.0pt;">کیا سائنس ہمیں بچا سکتی ہے </span></a></td>
<td class="xl67" style="border-top: none;">42</td>
</tr>
<tr height="26" style="height: 19.5pt;">
<td class="xl66" height="26" style="height: 19.5pt;">1961</td>
<td class="xl66" dir="RTL">پروفیسر حمید عسکری</td>
<td class="xl72" dir="RTL"><a href="https://drive.google.com/open?id=1Vmyyz5WtqB4_BSUIV_kSmVfOmvxE_Ncn"><span style="font-size: 14.0pt;">کیمیا کے رومان </span></a></td>
<td class="xl67" style="border-top: none;">43</td>
</tr>
<tr height="26" style="height: 19.5pt;">
<td class="xl66" height="26" style="height: 19.5pt;">1962</td>
<td class="xl66" dir="RTL">صلاح الدین احمد </td>
<td class="xl72" dir="RTL"><a href="https://drive.google.com/open?id=1HMlgzetF01OhsbxYrm6P0NJX5PVsmTFy"><span style="font-size: 14.0pt;">مادہ، سالمے اور جوہر</span></a></td>
<td class="xl67" style="border-top: none;">44</td>
</tr>
<tr height="26" style="height: 19.5pt;">
<td class="xl66" height="26" style="height: 19.5pt;">1967</td>
<td class="xl66" dir="RTL">خواجہ ضمیر علی </td>
<td class="xl72" dir="RTL"><a href="https://drive.google.com/open?id=14IYDHzVF7dmA0v2kGzfyileO2purv20t"><span style="font-size: 14.0pt;">ماضی سائنس کی روشنی میں </span></a></td>
<td class="xl67" style="border-top: none;">45</td>
</tr>
<tr height="26" style="height: 19.5pt;">
<td class="xl66" height="26" style="height: 19.5pt;">1968</td>
<td class="xl66" dir="RTL">علی ناصر زیدی </td>
<td class="xl72" dir="RTL"><a href="https://drive.google.com/open?id=1o-UaAJ7_d4kz2nutnwa8svYzRGsGOcJP"><span style="font-size: 14.0pt;">مسلمان موجد اور سائنس دان </span></a></td>
<td class="xl67" style="border-top: none;">46</td>
</tr>
<tr height="26" style="height: 19.5pt;">
<td class="xl66" height="26" style="height: 19.5pt;">1995</td>
<td class="xl66" dir="RTL">خواجہ جمیل احمد </td>
<td class="xl72" dir="RTL"><a href="https://drive.google.com/open?id=1eDk7RGp9XqjJeuVJYmCrrZtujCs98VZP"><span style="font-size: 14.0pt;">مشہور مسمان سائنس دان </span></a></td>
<td class="xl67" style="border-top: none;">47</td>
</tr>
<tr height="26" style="height: 19.5pt;">
<td class="xl66" height="26" style="height: 19.5pt;">1958</td>
<td class="xl66" dir="RTL">ابوالحسن نغمی </td>
<td class="xl72" dir="RTL"><a href="https://drive.google.com/open?id=1dmAcubK0IRWcSj3YqQ93-DgMiZp7zysS"><span style="font-size: 14.0pt;">مشہور موجد اور ان کی ایجادیں </span></a></td>
<td class="xl67" style="border-top: none;">48</td>
</tr>
<tr height="26" style="height: 19.5pt;">
<td class="xl66" height="26" style="height: 19.5pt;">0</td>
<td class="xl66" dir="RTL">علی ناصر زیدی </td>
<td class="xl72" dir="RTL"><a href="https://drive.google.com/open?id=1l55DiTFPRRHNo8fi-_H3VBmUerHtzw8c"><span style="font-size: 14.0pt;">معجزات سائنس </span></a></td>
<td class="xl67" style="border-top: none;">49</td>
</tr>
<tr height="26" style="height: 19.5pt;">
<td class="xl66" height="26" style="height: 19.5pt;">1999</td>
<td class="xl66" dir="RTL">عملہ ادارت</td>
<td class="xl72" dir="RTL"><a href="https://drive.google.com/open?id=1rn-HLRPPgky8pQvyDfMjWLqtokrxU-l9"><span style="font-size: 14.0pt;">معروف مسلم سائنسدان </span></a></td>
<td class="xl67" style="border-top: none;">50</td>
</tr>
<tr height="26" style="height: 19.5pt;">
<td class="xl66" height="26" style="height: 19.5pt;">1967</td>
<td class="xl66" dir="RTL">رضا احسن فاروقی </td>
<td class="xl66" dir="RTL"><a href="https://drive.google.com/open?id=10-iumCVCn26vRx6G8P2s_s0iAiqnTViU">موٹر کی کہانی</a> </td>
<td class="xl67" style="border-top: none;">51</td>
</tr>
<tr height="26" style="height: 19.5pt;">
<td class="xl66" height="26" style="height: 19.5pt;">1969</td>
<td class="xl66" dir="RTL">خواجہ ضمیر علی </td>
<td class="xl72" dir="RTL"><a href="https://drive.google.com/open?id=1t_M3-UaazcRo0KApHhReReS7mVSmvMy9"><span style="font-size: 14.0pt;">موجد ہوائی جہاز رائٹ برادران</span></a></td>
<td class="xl67" style="border-top: none;">52</td>
</tr>
<tr height="26" style="height: 19.5pt;">
<td class="xl66" height="26" style="height: 19.5pt;">1947</td>
<td class="xl66" dir="RTL">نامعلوم </td>
<td class="xl72" dir="RTL"><a href="https://drive.google.com/open?id=154upO8QyOOWUwWB424kVhDxfmRAYXroR"><span style="font-size: 14.0pt;">موجدوں کی کہانیاں </span></a></td>
<td class="xl67" style="border-top: none;">53</td>
</tr>
<tr height="26" style="height: 19.5pt;">
<td class="xl66" height="26" style="height: 19.5pt;">1961</td>
<td class="xl66" dir="RTL">وزارت حسین </td>
<td class="xl72" dir="RTL"><a href="https://drive.google.com/open?id=1TzHdYX2A5H2EMsWLtWnYQh6CSD3e2JdG"><span style="font-size: 14.0pt;">موسم اور موسم کی پیشن گوئی</span></a></td>
<td class="xl67" style="border-top: none;">54</td>
</tr>
<tr height="26" style="height: 19.5pt;">
<td class="xl66" height="26" style="height: 19.5pt;">0</td>
<td class="xl66" dir="RTL">آغا اشرف </td>
<td class="xl72" dir="RTL"><a href="https://drive.google.com/open?id=1XDuURjPs_7Br_yKDpU12VnVzmTK60xMO"><span style="font-size: 14.0pt;">نامور مسلمان سائنسدان </span></a></td>
<td class="xl67" style="border-top: none;">55</td>
</tr>
<tr height="26" style="height: 19.5pt;">
<td class="xl66" height="26" style="height: 19.5pt;">1968</td>
<td class="xl66" dir="RTL">انور عنایت اللہ </td>
<td class="xl72" dir="RTL"><a href="https://drive.google.com/open?id=1LYWfX7J17gBzM61-pjXZSqJXY8Di-tY1"><span style="font-size: 14.0pt;">نیا افق نئی منزلیں - کہانی جوہری توانائی کی </span></a></td>
<td class="xl67" style="border-top: none;">56</td>
</tr>
<tr height="26" style="height: 19.5pt;">
<td class="xl66" height="26" style="height: 19.5pt;">0</td>
<td class="xl66" dir="RTL">علی ناصر زیدی </td>
<td class="xl72" dir="RTL"><a href="https://drive.google.com/open?id=1zm-LvM9FAIUV7dyb0uu5liA9lZa_NXt6"><span style="font-size: 14.0pt;">نئی ایجادیں </span></a></td>
<td class="xl67" style="border-top: none;">57</td>
</tr>
<tr height="25" style="height: 18.75pt;">
<td class="xl66" height="25" style="height: 18.75pt;">1964</td>
<td class="xl66" dir="RTL">ایم اے شہید </td>
<td class="xl72" dir="RTL"><a href="https://drive.google.com/open?id=1W4EoJjpSKMPihbP8LyCQm-JaNvT58PJA"><span style="font-size: 14.0pt;">ہوائی جہاز کی کہانی </span></a></td>
<td class="xl69">58</td>
</tr>
</tbody></table>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
اگر کسی کتاب کا لنک غلط ہے یا کھل نہیں رہا تو کمنٹ سیکشن میں بتایا جاسکتا ہے۔</div>
</div>
Zuhair Abbashttp://www.blogger.com/profile/04666510644854788654noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1929777235422729587.post-64882642200206452412020-01-25T12:55:00.000+05:002020-01-25T12:55:18.730+05:00 آسٹریلیائی معدومیت اور انسان <div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<br />
<h3 dir="rtl" style="text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">ملزم ہومو سیپیئن حاضر ہو </span></h3>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh7sSUywdW633h53oqs9hP5ALDIDNV2XRFQlcY50nqaQVLaPtUoTp51evvGEP1iqSSVI0pW1Js4lx4_L2rUF6FED9r0YhSu591s-OqnAURMZz3c9iVUZhZwiz4Uf63rHxJmeNCyOxE1mAo/s1600/dea8b9fe225d484817dfedd625769d8e.jpg" imageanchor="1"><img border="0" height="348" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh7sSUywdW633h53oqs9hP5ALDIDNV2XRFQlcY50nqaQVLaPtUoTp51evvGEP1iqSSVI0pW1Js4lx4_L2rUF6FED9r0YhSu591s-OqnAURMZz3c9iVUZhZwiz4Uf63rHxJmeNCyOxE1mAo/s640/dea8b9fe225d484817dfedd625769d8e.jpg" width="640" /></a></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">بعض اہل علم
ہماری انواع کو آسٹریلیائی معدومیت سے بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں، اور الزام غیر یقینی
آب و ہوا (ماحولیاتی تبدیلی) کو دیتے ہیں (اس طرح کے معاملات میں ہمیشہ کی طرح قربانی کا بکرا
ماحولیاتی تبدیلی کو بنایا جاتا ہے)۔ پھر بھی یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ ہومو سیپیئن
مکمل طور پر بے قصور ہیں۔ تین ثبوت ایسے ہیں جو کمزور ماحولیاتی تبدیلی کی عدم موجودگی کا
ثبوت دیتے، اور ہمارے اجداد کو آسٹریلیائی عظیم حیوانیہ کی معدومیت کے لئے قصور
وار بتاتے ہیں۔ </span><span dir="LTR" style="font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><br /></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">سب سے پہلے،
اگرچہ یہ بات درست ہے کہ آسٹریلیا کی آب و ہوا<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>تقریباً 45,000<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>سال پہلے تبدیل ہو
گئی تھی تاہم یہ<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کوئی بہت قابل ذکر یا
اچانک ہونے والی تبدیلی نہیں تھی۔ یہ بات سمجھنا مشکل ہے کہ کس طرح سے نئے موسمی
نمونے اس طرح کی عظیم پیمانے پر معدومیت کا سبب بن سکتے ہیں۔ آج یہ بات عام ہے کہ
کسی بھی چیز اور ہر چیز کا نتیجہ آب و ہوا کی تبدیلی سے بیان کیا جائے، تاہم سچائی
یہ ہے کہ زمین کی آب و ہوا کبھی بھی ساکت نہیں رہتی۔ یہ متواتر تبدیل ہوتی ہے۔
تاریخ میں ہونے والے ہر واقعے کے پس منظر میں کچھ ماحولیاتی تبدیلیاں تھیں۔ </span><span dir="LTR" style="font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><br /></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">خاص طور پر،
ہمارے سیارے نے ٹھنڈے اور گرم متعدد ادوار کو دیکھا ہے۔ گزشتہ دس لاکھ برسوں میں
ہر 100,000 برس کے بعد یہ چکر چلتا ہے۔آخری والا کچھ 75,000 تا 15,000 برس پہلے
آیا ہے۔ برفانی دور کے لئے کوئی غیر معمولی طور <span style="background: yellow; mso-highlight: yellow;">پر تند</span> نہیں، اس کے دو فراز تھے، پہلا لگ بھگ 70,000
برس پہلے اور دوسرا لگ بھگ 20,000 برس پہلے۔ مہیب تھیلی دار دو قاطع دنتہ آسٹریلیا
میں 15لاکھ برس پہلے نمودار ہوتا ہے اور کامیابی کے ساتھ کم از کم دس برفانی ادوار
جھیلتا ہے۔ اس نے لگ بھگ 70,000 پہلے برفانی دور کی پہلی انتہا کو جھیل لیا تھا۔
تو پھر کیا وجہ ہے کہ وہ 45,000 برس پہلے غائب ہو گئے ؟ ظاہر سی بات ہے کہ اگر
مہیب تھیلی دار دو قاطع دنتہ غائب ہونے والا پہلا بڑا جانور تھا تو وہ <span style="background: yellow; mso-highlight: yellow;">فیوک</span> ہو سکتا تھا۔ تاہم
آسٹریلیا کے 90 فیصد عظیم حیوانیہ تھیلی دار دو قاطع دنتہ کے ساتھ ہی غائب ہو گئے۔
ثبوت واقعاتی ہے، لیکن یہ بات تصور کرنا مشکل ہے کہ سیپیئن، اتفاق سے، آسٹریلیا
میں اسی درست نقطہ پر پہنچے جب تمام جانور اچانک مر گئے۔ 3</span><span dir="LTR" style="font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">دوسرے جب
ماحولیاتی تبدیلیاں عظیم معدومیت کا سبب بنتی ہیں، تو سمندری مخلوق بھی ویسے ہی
متاثر ہوتی ہے جیسا کہ خشکی پر رہنے والے۔ اس کے باوجود45,000<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>سال پہلے سمندری حیوانیہ کی اہم گمشدگی کا کوئی
ثبوت نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کو آسانی سے قصور وار قرار دیا جا سکتا ہے
کیونکہ معدومیت کی لہر نے ارضی عظیم حیوانیہ کو آسٹریلیا سے تو مٹا دیا جبکہ
قریبی سمندروں کو بخش دیا۔ </span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><br /></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">تیسرے اجتماعی
معدومیت اصلی آسٹریلیائی قتل عام کی رشتہ دار ہے جو آنے والے ہزار برس میں بار بار
وقوع پذیر ہوئی - جب بھی لوگ دنیا کے دوسرے حصّوں میں آباد ہوئے۔ ان تمام صورتحال
میں سیپیئن کا جرم ناقابل تردید ہے۔ مثال کے طور پر، نیوزی لینڈ کے عظیم حیوانیہ -
جس نے یہ فرضی 'آب و ہوائی تبدیلی' کو 45,000 برس پہلے بغیر کسی نقصان کے جھیلا ہے
- نے جزیروں پر پہلے انسان کے قدم رکھنے کے فوراً بعد ہی تباہ کن جھونکا برداشت
کیا ہے۔ مورس، نیوزی لینڈ کی پہلی ہومو سیپیئن آباد کار جزیروں پر آج سے لگ بھگ
800 سال قبل پہنچ گئے تھے۔ چند صدیوں کے اندر ہی مقامی عظیم حیوانیہ کی اکثریت
بشمول تمام پرندوں کے 60 فیصد انواع کے معدوم ہو گئی۔ </span><span dir="LTR" style="font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><br /></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">اسی طرح کی
قسمت بحر اوقیانوس کے جزیرے رنگل جزیرے (200 کلومیٹر شمال میں سائبیریا کے ساحل کے
) کی بڑی آبادی پر نازل ہوئی۔ میمتھ شمالی نصف کرہ پر لاکھوں برسوں سے پھل پھول
رہے تھے، تاہم جب ہومو سیپیئن پھیلے - پہلے یوریشیا پر اور اس کے بعد شمالی امریکہ
پر - تو میمتھ پیچھے ہٹے۔10,000<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>سال پہلے
کوئی ایک واحد میمتھ دنیا میں نہیں پایا جاتا تھا، بجز کچھ دور دراز آرکٹک جزائر
کے، نمایاں طور پر رنگل میں۔ رنگل کے میمتھ چند مزید ہزار برسوں تک پھلے پھولے اور
پھر یکایک 4,000 ہزار برس پہلے غائب ہو گئے، بالکل اسی وقت جب پہلا انسان جزیرے پر
پہنچا۔ </span><span dir="LTR" style="font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><br /></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">کیا
آسٹریلیائی معدومیت کوئی الگ تھلگ واقعہ ہے، ہم انسانوں کو شک کا فائدہ دے دیتے۔
لیکن تاریخی ریکارڈ میں ہومو سیپیئن ایک ماحولیاتی سلسلہ وار قاتل کی طرح نظر آتا
ہے۔ </span><span dir="LTR" style="font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">آسٹریلیا کے
تمام آباد کاروں کے پاس ان کے استعمال کرنے کے لئے پتھر کے دور کی ٹیکنالوجی تھی۔
وہ کس طرح ایک ماحولیاتی تباہی کا سبب بن سکتے تھے ؟ تین وضاحتیں موجود ہیں جو بہت
اچھی طرح سے باہم مربوط ہو جاتی ہیں۔ </span><span dir="LTR" style="font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><br /></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-size: 14.0pt; line-height: 115%;">بڑے جانوروں -
آسٹریلیائی معدوم ہونے والے بنیادی متاثرین - آہستہ آہستہ نسل بڑھاتے تھے۔ حمل
طویل<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>تھا ، فی حمل پیدا ہونے والے بچے چند
تھے، اور حاملہ ہونے کے دوران کافی طویل عرصہ درکار ہوتا تھا۔ چنانچہ اگر انسان ہر
چند ماہ بعد ایک تھیلی دار دو قاطع دنتہ کو بھی مار ڈالتا، تو یہ تھیلی دار دو
قاطع دنتہ کے پیدائش کے مقابلے میں موت کی شرح کافی تھی۔ چند ہزار برس کے اندر
آخری اکیلا تھیلی دار دو قاطع دنتہ گزر جاتا اور اس کے ساتھ پوری نوع۔ 4</span><span dir="LTR" style="font-size: 14.0pt; line-height: 115%;"><o:p></o:p></span></div>
<br /></div>
Zuhair Abbashttp://www.blogger.com/profile/04666510644854788654noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1929777235422729587.post-92064488955880120432020-01-13T10:16:00.000+05:002020-01-13T10:16:04.079+05:00کیا ہم ٹائٹن پر زندہ رہ سکتے ہیں؟<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
کیا سیارہ زحل کا سب سے بڑا چاند ہماری دوسری نئی دھرتی بن سکتا ہے؟</h2>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgpPpNo2fXJsuWGQASmmY1Nn3SMuKn1FaMW1PkTuR7UjXvGIsWjxQxveNhO4gXMAWAAiOfiSd6g357GRNU_3a3Z3Fi91OtQbAorhZtipXzgDo2RQA3zd1dJvvoMTpcFsUfz2Ir-208nm7o/s1600/Titan.jpg" imageanchor="1"><img border="0" height="304" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgpPpNo2fXJsuWGQASmmY1Nn3SMuKn1FaMW1PkTuR7UjXvGIsWjxQxveNhO4gXMAWAAiOfiSd6g357GRNU_3a3Z3Fi91OtQbAorhZtipXzgDo2RQA3zd1dJvvoMTpcFsUfz2Ir-208nm7o/s640/Titan.jpg" width="640" /></a></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
نظام شمسی کی اب تک کی جانے والی انسانی کھوج میں ہمیں زمین سے ملتا جلتا کوئی جہاں ملا ہے تو وہ زحل کا سب سے بڑا چاند ٹائٹن ہے ۔ اسی وجہ سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا انسان مستقبل میں ٹائٹن پر اپنی بستی بسائے گا۔ دوسری جگہوں کی نسبت یہاں رہنے کے کافی فوائد ہیں تاہم سب سے بڑا فائدہ تو ٹائٹن کے بیش بہا قدرتی وسائل ہیں۔ کیسینی سے حاصل کردہ اعدادوشمار سے معلوم ہوا ہے کہ ٹائٹن کے مائع ہائیڈرو کاربن کے وسائل زمین پر موجود تمام معلوم تیل و گیس کے ذخائر سے زیادہ ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
اگر اس چاند کی سطح کے نیچے پانی کے وسیع ذخائر چھپے ہوئے ہوں تو ان کا استعمال کرکے آکسیجن پیدا کی جاسکتی ہے تاکہ سانس لیا جاسکے۔ ٹائٹن کے پانی اور میتھین کو ملا کر راکٹ کا ایندھن بنانا بھی ممکن ہے اس طرح سے توانائی کا یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ اندازہ ہے کہ ٹائٹن پر نائٹروجن، میتھین اور امونیا موجود ہیں جن کے استعمال سے کھاد بنائی جاسکتی ہے جسے خوراک اگانے کے لئے استعمال کیا جائے گا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
ٹائٹن پر رہنے والے انسانوں کو زبردست کم درجہ حرارت کا سامنا کرنا پڑے گا یعنی ہمیں حرارت پیدا کرنے کے لئے بڑے جنریٹر اور حاجز (انسولیشن) یونٹس کی ضرورت پڑے گی تاکہ سردی سے ٹھٹھر کر مر نہ جائیں۔ کشش ثقل کی کمی بھی طویل مدتی اثرات ڈالے گی۔ ان تمام باتوں کے باوجود اب بھی ٹائٹن ، مریخ سے کہیں بہتر انتخاب ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
</div>
Zuhair Abbashttp://www.blogger.com/profile/04666510644854788654noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1929777235422729587.post-60894604229952334282020-01-12T16:38:00.000+05:002020-01-12T16:38:08.982+05:00آتش بازی کی سائنس<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
آتش بازی کی سائنس</h2>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhLIS-NWt6pJHnN4PBFng0G0ky-GQKhyphenhyphenVEqZkAgCAV9wUTSrufs7h5f8TZ-wj6UMmyiilBZtBW6nrCuB23WnWlu3UPIcgVQX4viXDlqmmvoP-1rGj4lUnnA7vXTLFLYFP6R0uOflzKL_H4/s1600/Fireworks.jpg" imageanchor="1"><img border="0" height="492" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhLIS-NWt6pJHnN4PBFng0G0ky-GQKhyphenhyphenVEqZkAgCAV9wUTSrufs7h5f8TZ-wj6UMmyiilBZtBW6nrCuB23WnWlu3UPIcgVQX4viXDlqmmvoP-1rGj4lUnnA7vXTLFLYFP6R0uOflzKL_H4/s640/Fireworks.jpg" width="640" /></a></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
جدید آتش بازی پھٹنے کے بعد 'دل'، 'مسکراتے چہرے' یہاں تک کہ سیارہ 'زحل' تک کی شکل اختیار کرسکتی ہے۔ پٹاخوں کے خول کی بناوٹ اور اس کے اندر پھٹنے والی پھلجھڑیوں (pyrotechnic) کی ترتیب ہی کسی پٹاخے کو پھٹنے کے بعد مخصوص شکل دیتی ہے۔ ہوا میں اڑان بھر کر پھٹنے والے پٹاخے اکثر گول ہوتے ہیں لہٰذا وہ تشاکل (یعنی ہر جانب ایک تناسب ) کے ساتھ پھٹتے ہیں۔ خول کے اندر چمکیلے ستاروں کو ایک کارڈ پر اپنی مرضی کی شکل میں ترتیب دینے سے پٹاخہ جب پھٹتا ہے تو ایک خاص صورت بناتا ہے۔ پٹاخے بنانے والے ایک پٹاخے میں ایک سے زیادہ خول بناتے ہیں جس میں ایک سے زیادہ خانے ہوتے ہیں اور اکثر ان میں مختلف رنگوں کے مختلف مادوں سے بنے ہوئے چمکیلے ستارے ہوتے ہیں۔جب ان کو ایک مخصوص انداز میں ترتیب دے کر پھوڑا جاتا ہے تو پھٹنے کے بعد یہ آسمان میں مختلف قسم کی شکلیں اور صورتیں بناتے ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
بہرحال ایسا بہت زیادہ درستی سے کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ کافی پٹاخوں میں سے صرف کچھ ہی ایسے ہوتے ہیں جن سے ان ناظرین کے لئے مخصوص شکلیں اور صورتیں بنتی ہیں جو ایک خاص جگہ پر کھڑے ہو کر انہیں دیکھتے ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
چمکیلے ستاروں کی سائنس</h2>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
پھلجھڑیوں کی ترکیب میں تین اہم اجزاء ہوتے ہیں۔ ایک آکسیڈائیزر، دوسرا بائینڈر اور تیسرا دھاتی ایندھن۔ یہ تینوں اجزاء ایک مسالے کی صورت میں گوندھے ہوئے ہوتے ہیں اکثر ان کے گرد لوہے کی تار لپٹی ہوتی ہے۔ دھاتی سفوف لازمی ہونا چاہئے کیونکہ اسی سے چنگاریاں نکلتی ہیں اور یہ ان چنگاریوں کو رنگ بھی دیتا ہے۔ ایلومینیم، ٹائٹینیم اور مگنشیم سے روشن سفید چنگاریاں پیدا ہوتی ہیں جبکہ لوہا نارنجی رنگت کا سبب بنتا ہے۔ جب لوہا اور ٹائٹینیم ملتے ہیں تو فیرو ٹائٹینیم نام کی بھرت بنتی ہے۔ جلنے پر اس سے پیلاہٹ مائل سنہری چنگاری پیدا ہوتی ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
مزید رنگ حاصل کرنے کے لئے مختلف دھاتوں کے مرکبات کو شامل کیا جاتا ہے۔ رنگ برنگی آتش بازی کے لئے اکثر یہ تیکنیک استعمال کی جاتی ہے۔ تانبے کا مرکب سبز-نیلا، بیریم کا مرکب سبز اور سٹرونٹیم کا مرکب سرخ رنگ پیدا کرتا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
دھاتی سفوف آکسیجن کے ساتھ مل کر میٹل آکسائڈ پیدا کرتے ہیں جو آتش بازی میں مخصوص رنگوں کے ساتھ جلتے ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
آئیے دیکھتے ہیں کہ کیسے پٹاخے کی اندرونی ترتیب پھٹنے کے بعد آتش بازی کو اس کی مخصوص صورت دیتی ہے</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<h3 dir="rtl" style="text-align: right;">
ستاروں کی ترتیب</h3>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
مختلف رنگوں کو حاصل کرنے کے لئے مخصوص کیمیائی مادے شامل کئے جاتے ہیں جبکہ شکل و صورت بنانے کے لئے چھوٹے جلنے والی گولیوں کو ایک خاص ترتیب میں رکھا جاتا ہے۔</div>
<h3 dir="rtl" style="text-align: right;">
بارود</h3>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
سیاہ سفوف پھٹنے کی قوت فراہم کرتا ہے اسی سے ستاروں میں آگ لگتی ہے اور وہ چاروں سمتوں میں نکل جاتے ہیں۔</div>
<h3 dir="rtl" style="text-align: right;">
فیتہ</h3>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
پہلا فیتہ پٹاخے میں موجود دوسرے چھوٹے فیتوں کو سلگاتا ہے۔ تقریبات میں انہیں برقی کنٹیکٹس سے جلایا جاتا ہے جسے وائربرج فیوز ہیڈ کہتے ہیں۔</div>
<h3 dir="rtl" style="text-align: right;">
اڑان بردار</h3>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
نکلے ہوئے فیتے میں آگ لگانے سے پٹاخہ پہلے ہوا میں جاتا ہے اور بعد میں پٹاخے کے اندر موجود خانے میں رکھے ہوئے بارود اور دوسری چیزوں کو جلاتا ہے۔</div>
<h3 dir="rtl" style="text-align: right;">
برسٹ چارج</h3>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
یہ اہم ساخت ایک بڑا تیز رفتار دھماکہ پیدا کرتا ہے جس سے پورا خانہ بھک سے پھٹ جاتا ہے۔</div>
<h3 dir="rtl" style="text-align: right;">
ٹائمڈ فیوز</h3>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
یہ حصہ برسٹ چارج کو اس وقت جلاتا ہے جب پٹاخہ مناسب بلندی پر پہنچ جاتا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
</div>
Zuhair Abbashttp://www.blogger.com/profile/04666510644854788654noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1929777235422729587.post-80485504919815188172020-01-11T15:00:00.000+05:002020-01-11T15:00:08.925+05:00لیزر سے غیر ضروری بال کیسے ختم کئے جاتے ہیں؟<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
کیا لیزر کی اس تیکنیک سے غیر ضروری بالوں سے ہمیشہ کے لئے جان چھوٹ جاتی ہے؟</h2>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEivF3jjGXHOY12wkXIM0PiWnm37DiP-FNzwAV9TXOTUKYnM_X7lugJaDgqm8m1W7N8IlaD-_tEdpOwShehlXMjBXR9x8I2aO7fDluF6STTz4wgt_WA-0w9P60nKrDmRCU6ZQngdHLQHYUY/s1600/aid22741-v4-1200px-Get-the-Most-Benefit-from-Laser-Hair-Removal-Step-11-Version-2.jpg" imageanchor="1"><img border="0" height="480" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEivF3jjGXHOY12wkXIM0PiWnm37DiP-FNzwAV9TXOTUKYnM_X7lugJaDgqm8m1W7N8IlaD-_tEdpOwShehlXMjBXR9x8I2aO7fDluF6STTz4wgt_WA-0w9P60nKrDmRCU6ZQngdHLQHYUY/s640/aid22741-v4-1200px-Get-the-Most-Benefit-from-Laser-Hair-Removal-Step-11-Version-2.jpg" width="640" /></a></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
غیر ضروری بالوں پر ایک مخصوص مرتکز روشنی کی کرن کو داغ کر لیزر کے ذریعہ غیر ضروری بال ختم کئے جاتے ہیں۔ اس روشنی کی کرن میں ایسی طول موج (ویو لینتھ) استعمال ہوتی ہے جو بالوں کو رنگ دینے والے میلانن اور بالوں کی جڑ کو وہاں ہدف بناتا ہے جہاں زندہ خلیات تقسیم ہو کر بال کی نوک بناتے ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
لیزر آپ کے بالوں کا استعمال کرکے حرارت جذب کرتی ہے اور غدود (follicle) کے ارد گرد کی جگہ کو سُجا کر بال کی جڑ کا خاتمہ کر دیتی ہے۔ اس میں ہر بال کو انفردی طور پر ہدف نہیں بنایا جاتا لہٰذا یہ عمل برق پاشی (electrolysis) کے طریقے کی نسبت کافی تیز رفتار ہے تاہم اگر اس عمل کو احتیاط کے ساتھ نہ کیا جائے تو یہ جلد کو نقصان بھی پہنچا سکتا ہے۔ اگر آپ کی رنگت صاف ہے اور بال سیاہ تو آپ کو اس عمل سے اچھا نتیجہ حاصل ہوسکتا ہے۔ بہرحال یہ طریقہ ان لوگوں پر زیادہ کارگر نہیں ہوتا جن کے بال اور جلد کے رنگ میں بہت زیادہ نمایاں فرق نہ ہو۔ یعنی ان کے بالوں میں لیزر کی کرن بہت کم جذب ہوتی ہے یوں یہ طریقہ علاج اپنی افادیت کھو دیتا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
بہرحال اگر یہ طریقہ علاج کام کر بھی جائے تو شاذ ہی ایسا ہوتا ہے کہ غیر ضروری بالوں سے ہمیشہ کے لئے جان چھوٹ جائے۔ غیر ضروری بالوں سے مکمل نجات کے لئے مریض کو سال میں ایک سے چار بار تک لیزر سے علاج کروانا پڑتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی ایک وقت میں آپ کے کئی بال نمو کے ریسٹنگ فیز میں ہوتے ہیں۔ یعنی علاج کے دوران ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا اور بعد میں یہ نمو پا لیتے ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
</div>
Zuhair Abbashttp://www.blogger.com/profile/04666510644854788654noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1929777235422729587.post-66476967106467577252020-01-10T12:42:00.000+05:002020-01-10T12:42:10.249+05:00وائرلیس بجلی <div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
مستقبل کی بجلی کی ترسیل </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjJgBzpuhHygxIhbTm2BjYKfzRbEJKV0sujUeiMympryRMbuxTx4CqddZsAkL9QZNeVQWzol1s4akKPDd05FT2sxUedof_Y0y029qUuI2o72gk-kGWB9-J0-M91oEWIHWXOlgTsV6MVsMM/s1600/witricity+1.jpg" imageanchor="1"><img border="0" height="504" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjJgBzpuhHygxIhbTm2BjYKfzRbEJKV0sujUeiMympryRMbuxTx4CqddZsAkL9QZNeVQWzol1s4akKPDd05FT2sxUedof_Y0y029qUuI2o72gk-kGWB9-J0-M91oEWIHWXOlgTsV6MVsMM/s640/witricity+1.jpg" width="640" /></a></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<blockquote class="tr_bq">
"پست فریکوئنسی والے مقناطیسی میدان انسانوں اور جانوروں سے متعامل نہیں ہوتے جس کی وجہ سے ان کا استعمال کرنا محفوظ ہے"</blockquote>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h2 style="text-align: right;">
چلیں دیکھتے ہیں کہ کس طرح سے ٹیکنالوجی بجلی کے تاروں کو ماضی کا قصہ پارینہ بنا دے گی</h2>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br />
کیا آپ کے پاس ایک برقی ٹوتھ برش ہے؟ اگر ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ پہلے ہی وائرلیس بجلی کو اپنے گھر میں استعمال کر رہے ہیں۔ ٹوتھ برش بغیر برقی رابطے کے امالی جوڑے - inductive coupling کا استعمال کرتے ہوئے پاور حاصل کرتا ہے۔ [امالہ اس خاصیت کو کہتے ہیں جس کے ذریعے برقی یا مقناطیسی رجحان کا حامل ایک جسم دوسرے جسم میں براہِ راست رابطے کے بغیر برق حرکی؛ برق سکونی یا مقناطیسی قوت پیدا کرتا ہے۔] جب کسی چارجنگ یونٹ میں تاروں کے گچھے سے مین لائنز کی برقی رو گزرتی ہے، تو اس کے نتیجے میں وہ اترنے چڑھنے والا مقناطیسی میدان پیدا کرتی ہے اس طرح ٹوتھ برش کے اندر موجود دوسرے لچھے میں برقی رو پیدا ہوتی ہے۔ یہی اصول ان چارجنگ میٹس میں کام کرتا ہے جو فونز اور کیمروں کو قریب سے پاور بہم پہنچاتے ہیں۔<br />
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ انڈکٹیو کپلنگ صرف بہت ہی قریب سے کام کرتی ہے – بلکہ یوں کہہ لیں کہ جیسے ہی چند ملی میٹر دور جائیں جاتے جائیں ویسے ہی مقناطیسی میدان تیزی سے ختم ہوتے جاتے ہیں۔<br />
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
ایک حل یہ ہے کہ گمگ (resonant)کو اس میں ڈالا جائے۔ گمگ وہ مظہر ہوتا ہے جس کی مدد سے اوپیرا گلوگار اپنی آواز سے شیشے کا گلاس توڑ دیتا ہے۔ اس کا مظاہرہ کرنے کے لئے گلوگار کی آواز کی فریکوئنسی کو گلاس کی طبعی گمگ کی فریکوئنسی سے ملنا ضروری ہوتا ہے۔ گلاس کی طبعی گمگ کی فریکوئنسی وہ شرح ہوتی ہے جس پر شیشہ قدرتی طور پر تھرتھراتا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br />
اس تصور کو وائرلیس بجلی پر لاگو کرنے کے لئے سائنس دانوں نے دو لچھو<span style="background-color: white;">ں </span>کو آپس میں ایسے رکھا کہ وہ مقناطیسی میدان کی فریکوئنسی کو گمگ کرسکیں۔ اس کی وجہ سے بجلی کی منتقلی چند میٹر دور تک ممکن ہوسکی کیونکہ دوسرا لچھے نے پہلے کی توانائی کو بڑھا دیا تھا۔ مقناطیسی میدان کی پست فریکوئنسی لوگوں یا جانوروں سے متعامل نہیں ہوتی جس کی وجہ سے یہ ٹیکنالوجی گھریلو ماحول میں استعمال کرنے کے لئے محفوظ ہے۔<br />
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
اگر آپ اس کو طویل فاصلے تک استعمال کرنا چاہیں گے تو پھر آپ کو توانائی کو برقی مقناطیسی اشعاع (مثال کے طور پر روشنی یا مائکرو ویوز ) میں تبدیل کرنا پڑے گا۔ لیزر سے پاور کو منتقل کرنے کا طریقہ بغیر انسان بردار جہاز میں پہلے ہی سے استعمال ہورہا ہے۔ اس میں سب سے پہلے بجلی بلند قوت کی انفرا ریڈ لیزر بیم میں تبدیل کی جاتی ہے؛ دوسری طرف ایک فوٹو وولٹک سیل ہوتا ہے جو اس کو واپس برقی رو میں تبدیل کرتا ہے۔<br />
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
مائکرو ویوز کے ذریعہ سے منتقل کرنے میں بھی یہی تصور استعمال کیا جاتا ہے، اس میں توانائی کو خرد امواج میں تبدیل کیا جاتا ہے اور پھر ایک درست کرنے والے انٹینا کی مدد سے اس کو واپس برقی رو میں لایا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ طریقہ زیادہ مؤثر ہے تاہم اس میں لیزر بیم کے مقابلے میں زیادہ بھاری آلات درکار ہوتے ہیں۔<br />
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h2 style="text-align: right;">
خلاء سے شمسی توانائی کو زمین پر بھیجنا </h2>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
آئیے جانتے ہیں کہ کس طرح سے خلاء سے حاصل کردہ بجلی کو زمین میں منتقل کیا جا سکتا ہے<br />
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h3 style="text-align: right;">
پاور اسٹیشن </h3>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
سولر پاور اسٹیشن 35,800 کلومیٹر کی اونچائی یا ارتفاع میں جیو اسٹیشنری یعنی ارضی ساکن مدار میں مقید ہوگا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h3 style="text-align: right;">
شمسی پینلز</h3>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
فوٹو وولٹک سیلز سورج کی شعاعوں سے توانائی کو پکڑ کر اس کو برقی رو میں تبدیل کریں گے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h3 style="text-align: right;">
گرڈ </h3>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
برقی رو کو گرڈ میں ڈالا جائے گا جہاں سے وہ گھروں اور صنعتوں کو فراہم کرے گی۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h3 style="text-align: right;">
ریکٹینا</h3>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
کئی کلومیٹر چوڑا راست کرنے والا انٹینا یا ریکٹینا خرد امواج یعنی مائکرو ویوز کی توانائی کو برقی رو میں تبدیل کرے گا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h3 style="text-align: right;">
مائکروویوز ٹرانسمیٹر </h3>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
ٹرانسمیٹر بجلی کو پست شدت کی مائکرو ویوز اشعاع میں تبدیل کرے گا جس کو زمین پر بھیجا جائے گا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h3 style="text-align: right;">
مائکرو ویوز ریڈیشن </h3>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
مائکرو ویوز کرۂ فضائی سے آسانی سے سفر کرلیتی ہیں تاہم یہ جب تک زمین کی سطح تک پہنچتی ہیں یہ کافی علاقے تک پھیل چکی ہوتی ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h3 style="text-align: right;">
آئینہ </h3>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
آئینہ سورج کی روشنی کو مرتکز کرتا ہے، یہ روشنی خلاء میں زمین کے مقابلے میں 30 گنا زیادہ طاقتور ہوتی ہے اور یہ 24 گھنٹے دستیاب ہوتی ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h2 style="text-align: right;">
وائرلیس کی تاریخ </h2>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
اہم واقعات </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h4 style="text-align: right;">
1893ء</h4>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
نیکولا ٹیسلا نے پہلی مرتبہ وائرلیس بجلی کا مظاہرہ عوام کے سامنے کیا اگرچہ یہ بہت زیادہ غیر مؤثر تھی۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h4 style="text-align: right;">
1968ء</h4>
</div>
پیٹر گلاسر نے خلاء میں شمسی توانائی کو قابو کرکے وائرلیس بجلی کو زمین پر منتقل کرنے کی تجویز پیش کی جس کے ساتھ ہی خلائی شمسی پاور اسٹیشن کی پیدائش ہوئی۔<br />
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h4 style="text-align: right;">
2003ء</h4>
</div>
ناسا کے سائنس دانوں نے ایک غیر انسان بردار ہوائی جہاز کو صرف زمینی لیزر سے اڑایا۔<br />
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h4 style="text-align: right;">
2007ء</h4>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
ایم آئی ٹی کے محققین نے 2 میٹر کے فاصلے پر 40 فیصد کارکردگی کے ساتھ روشنی کے بلب کو جلایا۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<h4 style="text-align: right;">
2009ء</h4>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
یو ایس کی کمپنی پاور میٹ نے پہلی مرتبہ تجارتی پیمانے پر وائرلیس چارجنگ میٹس متعارف کروائے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h2 style="text-align: right;">
کیا آپ کو معلوم ہے؟</h2>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
ٹیسلا نے پوری دنیا میں بجلی کی ترسیل کا وائرلیس نظام کا منصوبہ بنایا تھا تاہم اس کو اپنے اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لئے سرمایہ دستیاب نہ ہوسکا۔<br />
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h2 style="text-align: right;">
وائرلیس بجلی کا گھریلو استعمال </h2>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
کس طرح سے وائرلیس بجلی ہمیں تاروں کی جھنجھٹ سے آزاد کروائے گی </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h3 style="text-align: right;">
انفرا ریڈ ریڈیشن</h3>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h4 style="text-align: right;">
رسیور </h4>
</div>
<div style="text-align: right;">
وصول کرنے والی طرف فوٹووولٹک سیلز روشنی کو واپس برقی رو میں تبدیل کر دیتے ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h4>
سمت النظر (لائن آف سائٹ)</h4>
</div>
<div style="text-align: right;">
بجلی کو طویل فاصلے تک منتقل کیا جا سکتا ہے تاہم ٹرانسمیٹر اور رسیور کو ایک دوسرے کے سمت النظر میں (ایسی سیدھ میں جس میں افق حائل نہ ہو) ہونا چاہئے۔</div>
<h4 style="text-align: right;">
ٹرانسمیٹر</h4>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
بجلی کو تبدیل کرکے انفرا ریڈ کی کرن میں مرکوز کرے گا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h3 style="text-align: right;">
<span style="font-weight: 400;">گمگی امالہ – ریزونینٹ انڈکشن </span></h3>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h4 style="text-align: right;">
ٹیلی ویژن اور لیپ ٹاپ میں استعمال ہوتا ہے </h4>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h4>
ٹرانسمیٹر </h4>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
کیپسٹر میں موجود برقی میدان اور لچھے میں موجود مقناطیسی میدان کے درمیان توانائی جھولتی رہتی ہے۔</div>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h4>
ترسیل </h4>
</div>
اس کی مدد سے بجلی کو محفوظ طریقے سے 2 تا 3 میٹر کے فاصلے پر رکاوٹوں کے ہوتے ہوئے بھی بھیجا جا سکتا ہے۔<br />
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h4 style="text-align: right;">
رسیور </h4>
</div>
<div style="text-align: right;">
وصولی ریزونیٹر اسی فریکوئنسی پر سیٹ ہوتا ہے جس کی مدد سے وہ توانائی کو بڑھاتا ہے۔</div>
<h4 style="text-align: right;">
برقی رو </h4>
</div>
وصول کرنے والے لچھے میں برقی رو کو منتقل کیا جاتا ہے۔<br />
<br />
<br />
<h3 style="text-align: right;">
انڈکٹیو کپلنگ </h3>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h4 style="text-align: right;">
<b>فونز، چارجنگ میٹس ، ٹوتھ برش میں استعمال ہوتا ہے </b></h4>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h4 style="text-align: right;">
ٹرانسمیٹر کوئل</h4>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
پاور ساکٹ سے منسلک ہوتا ہے۔ جب متبادل برقی رو اس لچھے میں سے گزرتی ہے تو مقناطیسی میدان پیدا ہوتا ہے۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h4 style="text-align: right;">
رسیور کوئل</h4>
</div>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
آلات کے اندر نصب یہ لچھا مقناطیسی میدان کو واپس برقی رو میں تبدیل کر دیتا ہے۔</div>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h4 style="text-align: right;">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h4 style="text-align: right;">
مقناطیسی میدان </h4>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-weight: 400;">دوسرے لچھے میں وولٹیج کو منتقل کر نے کے لئے </span><span style="font-weight: normal;">میدان کو چند ملی میٹر تک پھیلا ہوا ہونا ہوتا ہے ۔</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br style="font-weight: 400;" /></div>
</h4>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h4 style="text-align: right;">
<div dir="rtl" style="font-weight: 400;">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h4 style="text-align: right;">
ٹرانسمیٹر </h4>
</div>
چھت میں لگا ہوا تانبے کا لچھا کمرے میں موجود آلات کے آس پاس مقناطیسی میدان بناتا ہے۔<br />
<h4 style="text-align: right;">
فون </h4>
</div>
<div dir="rtl" style="font-weight: 400;">
موبائل فون جیسے ہی حدود میں داخل ہوتے ہیں ویسے خود بخود چارج ہونے لگتے ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="font-weight: 400;">
<h4 style="text-align: right;">
لیمپ </h4>
</div>
<div dir="rtl" style="font-weight: 400;">
ٹرانسمیٹر میں موجود وائرلیس سینسرز اس وقت بلب یا دوسرے آلات کو بند کر سکتے ہیں جب کوئی کمرے میں نہ ہو۔</div>
<div dir="rtl" style="font-weight: 400;">
<h4 style="text-align: right;">
لیپ ٹاپ </h4>
</div>
<div dir="rtl" style="font-weight: 400;">
مقناطیسی میدان سے بجلی کو حاصل کرتے ہوئے لیپ ٹاپ کو سوئچ میں پلگ لگانے کی کبھی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔</div>
<div dir="rtl" style="font-weight: 400;">
<br /></div>
</h4>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
</div>
Zuhair Abbashttp://www.blogger.com/profile/04666510644854788654noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1929777235422729587.post-70219741422766017172020-01-09T13:22:00.000+05:002020-01-09T13:27:11.011+05:00قدرت کا بنایا ہوا اسمائیلی فیس <div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h2 style="text-align: right;">
قدرت کا بنایا ہوا مسکراتا چہرہ </h2>
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgTD3fgcd6FNyrIDq3lZvwND7-zFlIQqgzXsPKRiPbc1pUo-kkM5v2oMVvHSwUJxBxD_bNtCOZaPtaMSRP50PmqsP5TMg-4UxChgjAN9GIPujrRfsLWWKf-2phMIEOqkjMSNlMtZYhSU4Q/s1600/372512df6403a2d7ffb18e83bd908f9b.jpg" imageanchor="1"><img border="0" height="412" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgTD3fgcd6FNyrIDq3lZvwND7-zFlIQqgzXsPKRiPbc1pUo-kkM5v2oMVvHSwUJxBxD_bNtCOZaPtaMSRP50PmqsP5TMg-4UxChgjAN9GIPujrRfsLWWKf-2phMIEOqkjMSNlMtZYhSU4Q/s640/372512df6403a2d7ffb18e83bd908f9b.jpg" width="640" /></a></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br />
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
موبائل فون کےآنے کے ساتھ ہی لوگ ایموجیز کا اچھا خاصہ استعمال کرنے لگے تھے لیکن سوشل میڈیا کی آمد کے بعد تو شاید ہی کوئی ہو جسے ایموجیز کا استعمال کرنا نہیں آتا ہو یا وہ ایموجیز کو نہ سمجھتا ہو ۔ ایموجیز میں سب سے زیادہ استعمال جس ایموجی کا ہوتا ہے وہ ہے اسمائیلی فیس ۔ آج جس اسمائیلی فیس کے بارے میں ہم آپ کو بتا رہے ہیں وہ کسی موبائل فون یا سوشل میڈیا میں استعمال ہونے والا نہیں ہے ۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjk90fqcTUaTKWi1lf89Vi34HJDgwv8lH98-pU8S-t786EEnma7jRKebOCKN1g8A8LUpAovTwUvpOsZ_Ym-erIJzGQmESIfQH14QyBOFmdwxx50oufLHB6LC54l6nqdmZXeu0KEIqqUIrA/s1600/wheatvascularbundleImage14.jpg" imageanchor="1"><img border="0" height="578" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjk90fqcTUaTKWi1lf89Vi34HJDgwv8lH98-pU8S-t786EEnma7jRKebOCKN1g8A8LUpAovTwUvpOsZ_Ym-erIJzGQmESIfQH14QyBOFmdwxx50oufLHB6LC54l6nqdmZXeu0KEIqqUIrA/s640/wheatvascularbundleImage14.jpg" width="640" /></a></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
ذرا غور سے دیکھئے اس مسکراتے چہرے (اسمائیلی فیس) میں دو بڑی بڑی غزالی "آنکھیں" کسی حسینہ پسینہ کی نہیں ہیں ۔اصل میں یہ خردبینی تصویر گھاس کی پتی کی ہے ۔ تصویر میں نظر آنے والی یہ آنکھیں اصل میں میٹیک سیلیم (metaxylem) مرکب ہیں ۔ ان کا کام پتوں میں پانی کی منتقلی کا ہوتا ہے۔ یہ عام طور پر یک دالہ([monocot ] ایسی جنس سے تعلق رکھنے والا پودا جو ایسے جنین پیدا کرتا ہے جن میں صرف ایک بیج پَتّی ہوتی ہے اور جن کے پَتّوں کی رگیں متوازی ہوتی ہیں) کی نالیوں کا گچھا ہوتا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
'مسکراتے چہرے' کا چمک دار نیلا 'منہ' گھاس کے پتے کی اندرونی چھال (phloem) ہے ۔ یہ بڑی چھلنی نما نلکیوں اور شریک خلیات پر مشتمل ہوتی ہے۔ ضیائی تالیف (فوٹو سین تھیسز) میں بننے والی شکر کو یہ پتوں سے باہر لے جانے کے لئے مل کر کام کرتے ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
'اسمائیلی فیس' کی گردن بنانے والا چمک دار پیلا حصہ لگنی فائڈ ہے جس کا کام گھاس کی پتیوں کو سختی عطا کرنا ہے ۔ نچلے حصے کے ساتھ خلیات کے گچھے برادمی (epidermal) خلیات ہیں جن کو خارجی جلد (کیوٹیکل) نے ڈھکا ہوا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
تو بتائیے کہ قدرت کی بنائی ہوئی ایموجی (اسمائیلی فیس) آپ کو کیسی لگی!!!</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
</div>
Zuhair Abbashttp://www.blogger.com/profile/04666510644854788654noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1929777235422729587.post-20800649791077476712020-01-08T10:50:00.002+05:002020-01-10T09:46:26.054+05:00نزلے زکام کا وائرس <div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h2 style="text-align: right;">
آئیے زکام کے وائرس کا قریبی جائزہ لیتے ہیں!</h2>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEikP2fmE8ovTNqY39sWqUj_VAxixnCG2-L_6KJ65xKZJrtj6rEa4OAO90BP7GffOGKGVFGHd97ET88Mq-f_vCgwSCT-BAtD2p4ireznPn4ygyHONt3R-eD9xcbcn_Z9aSrTGkOpFD3GIJs/s1600/image.jpg" imageanchor="1"><img border="0" height="360" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEikP2fmE8ovTNqY39sWqUj_VAxixnCG2-L_6KJ65xKZJrtj6rEa4OAO90BP7GffOGKGVFGHd97ET88Mq-f_vCgwSCT-BAtD2p4ireznPn4ygyHONt3R-eD9xcbcn_Z9aSrTGkOpFD3GIJs/s640/image.jpg" width="640" /></a></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
ہم آپ کو موسم سرما کے اس وائرس کے بارے میں بتائیں گے کہ یہ کس طرح سے ہمارے مدافعتی نظام کو جل دے کر اس سے ایک قدم آگے رہتا ہے</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<blockquote class="tr_bq">
"موسمی زکام کا انجکشن (فلو شاٹ) ہر سال بنایا جاتا ہے تاکہ اس زکام کے وائرس کا خاتمہ کیا جائے جو آبادی میں مٹر گشت کر رہا ہوتا ہے"</blockquote>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h3 style="text-align: right;">
وبائی مرض </h3>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
زکام کا وائرس ایک برس میں پوری دنیا میں 50 لاکھ لوگوں کو متاثر کرتا ہے، یہ ہوا میں موجود نمی کے قطروں میں سفر کرتا ہوا ایک آدمی سے دوسرے آدمی تک پہنچتا ہے اور ٹھنڈ، بخار، گلے کی سوزش، بہتی ناک، سرد درد اور پٹھوں میں درد کا سبب بنتا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
زکام کا وائرس بتدریج تبدیل ہوتا ہے۔ اس بدلنے کے عمل کو "اینٹی جینک ڈرفٹ -antigenic drift" سے جانا جاتا ہے۔ یہ عمل اس وقت ہوتا ہے جب وائرس اپنی نقل بناتا ہے۔ نقل بناتے ہوئے وائرس کے جینوم یا لونی مادے میں ایک واحد نیوکلیوٹائیڈ کی غلطی واقع ہوتی ہے، اس سے پروٹین میں بہت ہی معمولی سی تبدیلی ہو جاتی ہے۔ اس پروٹین کا کام وائرس کو باہر سے ملفوف رکھتا ہے۔ انسانی مدافعتی نظام ان پروٹینز کو پہچانتا ہے اور ان کا سراغ لگا کر ان کو تباہ کر دیتا ہے، تاہم جب ان پروٹینز میں تبدیلی واقع ہو جاتی ہے تو جسم کی وائرس کو شناخت کرنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے جس سے لوگوں کا مدافعتی نظام کمزور پڑ جاتا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
وائرس اپنے جینوم یا لونی مادے اور پروٹینز میں صرف بلکی پھلکی تبدیلیاں ہی نہیں کرتا بلکہ کبھی کبھار اس میں بہت زیادہ تبدیلی بھی ہو جاتی ہے۔ اگر متاثرہ شخص میں ایک سے زیادہ نوع کے زکام کے وائرس گھس جائیں اور کسی ایک خلئے کے اندر ان کا ملاپ ہو جائے، تو اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ ان کا جینوم یا لونی مادے ایک دوسرے میں مل جائے گا، اور نتیجتاً ایک نیا تبدیل شدہ زکام کا وائرس پیدا ہوگا۔ ایسے واقعات شاذونادر ہی ہوتے ہیں، تاہم یہ زکام کی نئی خطرناک قسم کو بنا سکتے ہیں۔ 2009ء میں پھیلنے والی سوائن فلو (H1N1) کی وباء میں چار مختلف وائرسوں کی جینیاتی معلومات موجود تھی۔ ان چار میں سے ایک انسانی، ایک طیوری (یعنی پرندوں) اور دو سور کے زکام کے وائرس تھے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
اب آپ کو سمجھ میں آرہا ہوگا کہ آیا کیوں ہر قسم کے زکام کے لئے ایک آفاقی قسم کی ویکسین بنانا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ فی الوقت تو ایک موسمی زکام کی ویکسین ہر سال بنائی جاتی ہے تاکہ اس زکام کے وائرس کا خاتمہ کیا جائے جو آبادی میں مٹر گشت کر رہا ہوتا ہے۔ بعد میں آنے والے ہر سال کے لئے عام طور پر وائرس اپنے آپ کو اس حد تک تبدیل کر چکا ہوتا ہے کہ ویکسین اپنا اثر نہیں کرتی۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
بہرحال نئی تحقیق بتاتی ہے کہ مدافعتی نظام کے کچھ خلیے وائرس کے قلب کے کچھ پروٹین کی شناخت کر سکتے ہیں۔ یہ وائرس کے لئے درست طور پر کام کرنے کے لئے بہت اہمیت رکھتے ہیں اور ان میں تبدیلی بہت آہستہ ہوتی ہے۔ لہٰذا ان اہم پروٹین کے خلاف ویکسین بنانے سے وائرس سے لڑنے کے لئے ٹی سیلز کو طویل مدتی مدافعت پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h2 style="text-align: right;">
زکام کے وائرس اے بی سی کے بارے میں جانئے</h2>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h3 style="text-align: right;">
انفلوئنزا اے</h3>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
انفلوئنزا اے قدرتی طور پر پانی کے جنگلی پرندوں میں پلتا ہے۔ پالتو مرغیوں میں منتقلی سے انسانوں میں اس وائرس سے متاثر ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اور متاثرہ صورت میں دوغلی انواع کے انفیکشن پھیلتے ہیں۔ 1918ء کا اسپینی فلو H1N1 اور 2004ء کا H5N1 برڈ فلو یہی انفلوئنزا اے تھے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h3 style="text-align: right;">
انفلوئنزا بی</h3>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
انفلوئنزا بی انسانوں میں پلتی ہے اور یہ زیادہ عام نہیں ہوتی۔ اس میں تبدیلی سست رو ہوتی ہے۔ اس میں تبدیلی کی شرح بہت سست ہوتی ہے جس کی وجہ سے زیادہ طور لوگ اس سے مدافعت حاصل کر لیتے ہیں، تاہم یہ مدافعت ہمیشہ نہیں چلتی۔ یہ بہت ہی شاذونادر کسی دوسری نوع کو متاثر کرتی ہے، اسی وجہ سے نئی، تبدیل شدہ نسلیں جو وبائی صورتیں اختیار کریں پیدا نہیں ہوتیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h3 style="text-align: right;">
انفلوئنزا سی</h3>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
یہ صرف ہلکی بیماری پیدا کرتی ہے، اور زیادہ تر بالغان اپنی زندگی کے کسی بھی حصے میں اس سے ضرور بیمار ہوئے ہوں گے. یہ انسانوں اور سوروں دونوں کو بیمار کرتی ہے، تاہم یہ انفلوئنزا اے اور بی سے کہیں زیادہ کم پھیلتی ہے۔ یہ مقامی طور پر وباء کی صورت اختیار کر سکتی ہے تاہم عالمگیر وباء نہیں بنتی۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h2 style="text-align: right;">
زیر تذکرہ وائرس</h2>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
چلیں ایک نظر اس ساخت پر ڈالیں جو ایک واحد مکمل مُتعدی وائرسی ذرَّے کو بناتی ہے</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h3 style="text-align: right;">
آر این اے</h3>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
وائرس کا جینیاتی مادہ رائیبونیوکلک ایسڈ (آر این اے) کی کئی لڑیوں میں ذخیرہ ہوتا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h3 style="text-align: right;">
ہیماگلوٹین</h3>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
نوک دار پروٹین ہیماگلوٹین وائرس کے باہر ملفوف ہوتا ہے جس سے وائرس کو گلے اور پھیپھڑوں کے متاثرہ خلیہ سے چپکنے اور داخل ہونے میں مدد ملتی ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h3 style="text-align: right;">
میٹرکس</h3>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
جھلی کے نیچے پروٹین کا خول ہوتا ہے، جو وائرس کو مضبوطی اور ہئیت عطا کرتا ہے۔<br />
<br />
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h3 style="text-align: right;">
نیورامنی ڈیز</h3>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
یہ سطحی پروٹین اصل میں ایک خامرہ ہے، یہ وائرس کے خلیہ کی مدافعت کو ختم کرنے میں مدد کرتا ہے تاکہ وائرس خلیاتی جھلی کو توڑ ڈالے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h3 style="text-align: right;">
لیپڈ بائی لیئر</h3>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
وائرس کی بیرونی پرت روغنی جھلی ہوتی ہے۔ اس کو وائرس بناتا نہیں بلکہ میزبان خلیہ کی جھلی سے چراتا ہے۔ ریلینزا اور ٹیمی فلو جیسی ادویات اس کے اس عمل میں رکاوٹ ڈالتی ہیں۔</div>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h2 style="text-align: right;">
وبائی زکام </h2>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h4 style="text-align: right;">
1918ء</h4>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
اسپینی فلو، H1N1 نے پوری دنیا میں 50 کروڑ لوگوں کو متاثر اور 5 کروڑ لوگوں کو ہلاک کیا۔ یہ آرکٹک تک پھیل گیا تھا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h4 style="text-align: right;">
2009ء</h4>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
2009ء کا وبائی زکام H1N1 وائرس کی نئی نسل تھا۔ اس نے دنیا بھر میں 18,000 لوگوں کو ہلاک کیا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h4 style="text-align: right;">
1977ء</h4>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
روسی زکام H1N1 نے زیادہ تر بچوں پر حملہ کیا کیونکہ بالغوں پر اسی قسم کا وائرس پہلے ہی حملہ کرچکا تھا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h4 style="text-align: right;">
1968ء</h4>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
ہانگ کانگ کے زکام H3N2 کی جینیاتی معلومات 1957ء کے ایشیائی وبائی زکام سے حاصل کردہ تھی۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h4 style="text-align: right;">
1957ء</h4>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
ایشیائی زکام H2N2 پہلے پورے چین میں پھیلا اور اس کے بعد پوری دنیا میں، اور دس لاکھ سے زائد لوگوں کو موت سے ہمکنار کیا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h2 style="text-align: right;">
کیا آپ کو معلوم ہے؟</h2>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<div style="text-align: right;">
</div>
<ul style="text-align: right;">
<li>انفلوئنزا اے وائرس کا نام ان دو اہم پروٹین کے نام پر پڑا ہے جو اس کی بیرونی جھلی کو ڈھانپتے ہیں</li>
<li>H1N1 سوائن فلو سال 2009-2010 میں عالمگیر وباء کا سبب بنا، تاہم اس نے اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا کہ امید کی جارہی تھی۔</li>
</ul>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br />
مکمل پوسٹ یہاں سے ملاحظہ کیجیے:<br />
#جہان_سائنس #اردو #سائنس #ترجمہ #وائرس #وائرس #انفلوئنزا #نزلہ_زکام #نزلہ #زکام<br />
#jahanescience </div>
</div>
Zuhair Abbashttp://www.blogger.com/profile/04666510644854788654noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1929777235422729587.post-83944732512296210872019-12-28T11:37:00.001+05:002019-12-28T11:43:56.572+05:00بابائے راکٹ - کانسٹنٹن زوالکوسکی<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhsMS4If2ClL3v2GpASj__kwLhHF32lR96GFIeqz9r4V45_A71gZNly7zOYol_bMnqyijuV-eVMxhzEH8bH843h6k6oRnoKwtAmrUcSWsXGnGewHs3Wf7LqC2KHZ59XtZIv2yNu1eNPGeg/s1600/1_1Csd8VD1_1DQyGd9o9KqEA.jpeg" imageanchor="1"><img border="0" height="612" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhsMS4If2ClL3v2GpASj__kwLhHF32lR96GFIeqz9r4V45_A71gZNly7zOYol_bMnqyijuV-eVMxhzEH8bH843h6k6oRnoKwtAmrUcSWsXGnGewHs3Wf7LqC2KHZ59XtZIv2yNu1eNPGeg/s640/1_1Csd8VD1_1DQyGd9o9KqEA.jpeg" width="640" /></a><br />
کانسٹنٹن زوالکوسکی کی پیدائش ماسکو کے قریب ایک گاؤں میں ہوئی تھی۔ دس برس کی عمر میں وہ شدید طور پر بیمار ہوا۔ بیماری سے صحت یاب ہونے پر پتہ چلا کہ وہ قوت سماعت سے محروم ہو چکا ہے۔ اب کانسٹنٹن کے لئے ان کے اسکول میں تعلیم جاری رکھنا بہت مشکل تھا۔ چنانچہ اسے اسکول سے اٹھا لیا گیا۔ اور اس کی ماں نے گھر پر اس کی تعلیم جاری رکھی۔<br />
<br />
اس چھوٹے ، کم عمر اور تنہائی پسند لڑکے کو اپنے ہم عمر لڑکوں اور لڑکیوں کے ساتھ کھیل کود میں حصہ لینے کا کبھی موقع نہیں ملا۔ وہ ایسی کتابوں کے مطالعہ میں اپنے دن گذار رہا تھا جو گاؤں کے لوگوں کی ملکیت تھیں۔ یہ کتابیں اس کے پسندیدہ ترین موضوع سے متعلق تھیں اور ان میں ریاضی علم طبیعیات اور علم کیمیا شامل تھے ۔ کانسٹنٹن تنہا مطالعہ کرتا رہا اور اس طرح اس نے اپنی معلومات نہایت وسیع کر لیں۔ جب یہ نو عمر لڑکا سولہ برس کی عمر کو پہنچا توا س کے باپ نے محسوس کیا کہ اگر اس نے لڑکے کو مزید علم حاصل کرنا ہے تو اسے کسی بڑے شہر جانا پڑے گا۔<br />
<br />
زوالکوسکی کا باپ ایک غریب لکڑ ہارا تھا۔ مگر اس کے باوجود اس نے اپنے لڑکے کو تعلیم کی غرض سے ماسکو بھیج دیا۔ اس بڑے شہر میں کانسٹنٹن نے دیکھا کہ بڑی بڑی عمارتیں سائنسی کتابوں سے بھری ہوئی ہیں۔ اسے ان کتابوں کے مطالعہ کی اجازت مل گئی۔ جب بھی ممکن ہوتا اس کا باپ تھوڑی بہت رقم اسے بھیجتا رہتا۔ یہ معمولی سی رقم اس کے کھانے اور ماسکو میں ایک کمرے کے کرایہ کے لئے مشکل سے کافی ہو سکتی تھی۔ اس رقم پر گذر اوقات کرنے کے بجائے کانسٹنٹن اس کا بیشتر حصہ ایسی کیمیائی اشیا کی خریداری پر صرف کر دیتا جو اس کے تجربات کے لئے ضروری ہوتی تھیں ۔ اور جس میں اسے سب سے زیادہ دلچسپی تھی۔ وہ صرف چند سینٹ کی سیاه روٹی کھا کر پورا دن گذار دیتا تھا۔ ماسکو میں تین برس کے مطالعے اور تحقیقات میں مشغول رہنے کے بعد وہ صرف ہڈیوں ک ڈھانچہ ہو کر رہ گیا تھا۔ جب اس کے باپ کو پتا چلا کہ اس کا لڑکا کتنی غربت میں اپنے دن گذار رہا ہے وہ اسے ماسکو سے واپس اپنے گھر لے آیا۔<br />
<br />
اب کانسٹنٹن اپنے محبوب موضوعات پر لیکچر دے کر اپنی روزی آپ کمانے کے قابل ہو گیا تھا۔ اسے گاؤں کے اسکول میں ریاضی کا استاد مقرر کر دیا گیا۔<br />
<br />
قوت سماعت سے محروم اس لڑکے نے اس بات کی کوشش شروع کردی کہ وہ ماہر طبیعات کی حیثیت سے شہرت حاصل کرے۔ اگرچہ اس نے کالج میں تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ مگر اس کے باوجود ایک طریقہ ایسا تھا جس کی مدد سے وہ اپنا مقصد حاصل کر سکتا تھا۔ اگر زوالکوسکی کوئی اہم ایجاد کرنے میں کامیاب ہو جائے تو حقیقی سائنس دان کی حیثیت سے اسے قبول کر جائیگا۔<br />
<br />
زوالکوسکی کا خیال تھا کہ اس نے گیسوں کے متعلق بہت سی نئی باتیں دریافت کر لی ہیں۔ جہاں تک ممکن ہو سکتا تھا۔ وہ زیادہ سے زیادہ وقت گیسوں پر تجربات کرنے میں صرف کرتا تھا۔ اور ایسے کلیات دریافت کرنے کی کوششوں میں مشغول تھا، جو ان گیسوں کے مختلف عمل کی صحیح ترجمانی کر سکیں۔ اپنی تحقیقات مکمل کرنے کے بعد زوالکوسکی نے اپنی سائنسی رپورٹ سینٹ پیٹرز برگ کی سوسائٹی برائے طبیعات و کیمیا کو روانہ کر دیں۔<br />
<br />
اس سوسائٹی کے ارکان مشہور سائنسدان تھے۔ جب انہوں نے زوالکوسکی کی رپورٹ پڑھیں تو ان کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا تاثر قائم کریں۔ رپورٹ میں بیان کردہ تمام حقائق درست تھے اور ریاضی کے کلیات بالکل صحیح تھے۔ مگر یہ "دریافتیں" جو گاؤں کے اسکول ماسٹر نے نہایت محنت اور کاوشوں سے عمل میں لائی تھیں۔ اب سے کئی برس پیشتر دوسرے سائنسدان پہلے ہی معلوم کر چکے تھے۔<br />
<br />
سوسائٹی کے ارکان کو اس بات پر نہایت تعجب تھا۔ انہوں نے سوچا کہ کیا وہ نوجوان ان کے ساتھ کوئی عملی مذاق کر رہا ہے؟ شروع میں تو ایسا ہی معلوم ہوا لیکن سائنس دانوں نے اس پر مزید غور و خوض کیا اور آخر کار وہ حقیقت کا اندازہ کرنے میں کامیاب ہو گئے ۔ بیچارہ زوالکوسکی تنہا تحقیقات میں مشغول رہتے ہوئے علم و کمال کے دوسرے مراکز سے قطعی طور پر کٹا ہوا تھا۔ اس کے پاس یہ معلوم کرنے کا کو ذریعہ نہیں تھا کہ جو تحقیقات اب سے پیشتر مکمل ہو چکی ہیں وہ انہی کو دہرا رہا ہے۔<br />
<br />
عظیم کیمیا دان ڈیمٹری منڈیلیو سینٹ پیٹرز برگ سوسائٹی کا ایک رکن تھا۔ اسے اس محنتی ذہین اور نوجوان سائنسدان پر بڑا ترس آیا منڈیلیو نے زوالکوسکی کو ایک خط لکھا جس میں پیش کئے ہوئے واقعات سے اس کو آگاہ کیا۔ جب زوالکوسکی کو یہ خبر ملی تو اسے زیادہ افسوس نہیں ہوا۔ اس سے قبل وہ اس سے بھی بڑے مسائل سے عہدہ برآ ہو چکا تھا۔ اپنی قوت سماعت سے محرومی کی بدولت اس نے سخت محنت اور کاوش کی زبردست اہمیت معلوم کر لی تھی۔ "یہ ایک دلچسپ تجربہ تھا۔" نوجوان اسکول ماسٹر نے صرف یہ جملہ کہا اور دوبارہ اپنی تحقیق میں مشغول ہو گیا۔<br />
<br />
تھوڑے عرصے بعد زوالکوسکی نے سوسائٹی کو مزید رپورٹیں روانہ کیں۔ جس کے بعد اسے سوسائٹی کا ایک رکن بنا دیا گیا۔ آخرکار اسے سائنس دان کی حیثیت سے تسلیم کرلیا گیا۔ جس کی کانسٹنٹن زوالکوسکی کو بہت ہی خوشی ہوئی۔ اس کے بعد اس نے خلائی سفر کے مسائل پر اپنی تحقیق کا آغاز کیا۔<br />
<br />
ماسکو میں اپنے قیام کے دوران زوالکوسکی نے اسحاق نیوٹن کے قوانین حرکت کے بارے میں کافی معلومات حاصل کر لی تھیں ۔ وہ اس موضوع میں بہت دلچسپی رکھتا تھا۔ اور نیوٹن کے الفاظ کے معنی اس کی سمجھ میں بخوبی آ گئے تھے۔ ایسا انجن جو اپنی خارج کردہ گرم گیسوں کی بدولت مخالف سمت میں دھکا محسوس کر سکے۔ خلائی سفر کے لئے بالکل موزوں رہے گا۔ برسوں کی سخت کاوشوں اور پر احتیاط تحقیقات کے بعد زوالکوسکی نے وہ تمام معلومات اکٹھا کر لیں، جو خلائی جہاز کے تعمیری منصوبے کے لئے ضروری تھیں۔<br />
<br />
نوجوان سائنس دان کو اس بات کا علم تھا کہ کرۂ ارض کا ہوائی کرہ بہت زیادہ دبیز نہیں ہے۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ خلا میں کوئی چیز موجود نہیں ہے اور خلا مکمل ہے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ جھٹکے کے اصول پر چلنے والے موٹر کو خلا میں سفر کرنے کے لئے آکسیجن کی کثیر مقدار خود اپنے ساتھ لے جانا پڑے گی۔ آکسیجن ہوا میں شامل وہ گیس ہے۔ جو انسان کو سانس لینے کے لئے ضروری ہے۔ اور جس کی مدد کے بغیر کوئی شے جلنے کا فعل انجام نہیں دے سکتی۔<br />
<br />
زوالکوسکی کے ذہن میں فوراً راکٹ کا تصور ابھرا۔ کیونکہ بارود میں استعمال ہونے والی ایک شے آکسیجن خارج کرتی ہے۔ کئی برس سے گانزونٹ کے راکٹ روسی فوج میں استعمال کئے جا رہے تھے۔<br />
<br />
لیکن زوالکوسکی کو معلوم تھا کہ گانزونٹ کے راکٹ اتنی تیزی سے نہیں جلتے ہیں کہ وہ خلائی جہاز کو وہ رفتار دے سکیں. جو کرہ ارض سے فرار ہونے کے لئے ضروری ہے۔ ایک اچھا ریاضی دان ہونے کے باعث زوالکوسکی نے اس بات کا تخمینہ لگا لیا تھا کہ کوئی ایندھن کس تیز رفتاری سے جل سکتا ہے اور یہ کہ کسی ایندھن کی ایک مقررہ تعداد سے کس قدر قوت پیدا کی جا سکتی ہے۔ اس نے اندازہ کرلیا کہ اگر رقیق ایندھن پٹرولیم کو آکسیجن کی ضروری رسد پہنچائی جاتی رہے تو وہ اتنی قوت پیدا کر سکتا ہے جو جہاز کو ضروری رفتار دے سکے۔<br />
<br />
زوالکوسکی کو یہ احساس بھی تھا کہ خلا بازوں کے سانس لینے کے لئے ضروری ہوا جہاز پر ساتھ لے جانا پڑے گی۔ ان خلائی سفروں کی میعاد کئی ہفتہ ہوگی ۔ زوالکوسکی کو علم تھا کہ آکسیجن کی اتنی کثیر مقدار ڈبوں میں بند کرکے ساتھ نہیں لے جائی جا سکتی۔ جیسا کہ گانزونٹ نے منصوبہ بنایا تھا۔ اس کے اس کے برعکس خلا بازوں کی استعمال کی ہوئی آکسیجن کو دوبارہ نئی زندگی عطا کرنی ہوگی تا کہ اسے بار بار استعمال کیا جا سکے۔<br />
<br />
سبز پودوں میں یہ خاصیت ہوتی ہے کہ وہ انسانوں کی سانسوں سے خارج ہوتی ہوئی گیس کو اپنے اندر جذب کر لیتے ہیں۔ اور اس کے بدلے آکسیجن کا اخراج کرتے ہیں جن کی انسان کو سانس لینے کے لئے ضرورت ہوتی ہے۔ چنانچہ زوالکوسکی نے فیصلہ کیا کہ اس مسئلہ کا ایک کی ہی حل ہے اور وہ یہ کہ سبز پودوں کا ایک خلائی باغ جہاز کے ہمراہ ہو۔ اس مسئلہ کا اس سے بہتر حل اب تک کوئی دریافت نہیں کر سکا تھا ۔غالباً پہلے خلائی جہاز میں جو انسان کو زہرہ یا مریخ تک لے جائے گا۔ اس قسم کے خلائی باغ موجود ہوں گے۔<br />
<br />
1898ء میں کانسٹنٹن زوالکوسکی نے "راکٹ کے ذریعہ کائناتی خلا کی " نامی ایک کتاب لکھی۔ جس میں اس کے بیشتر خیالات اور تصورات درج کئے گئے تھے۔ اس کتاب نے خلائی سفر کے بارے میں ایک نئی سانس کا آغاز کیا، جسے خلا بازی کہا جا سکتا ہے لیکن اس زمانے میں بہت کم سائنس دان روسی زبان سے واقف تھے۔ چنانچہ 1903ء میں جب یہ کتاب شائع ہوئی۔ تو اس کی طرف کسی نے بھی کوئی توجہ نہ دی۔<br />
<br />
تقریباً اسی زمانے میں ہرمن گانزونٹ نے اپنی خلائی مشین کے بارے میں تقریر کی تھی اور وہ راکٹی قوت سے چلنے والے خلائی جہاز کے منصوبے کے خالق کی حیثیت سے مشہور ہو گیا تھا۔ اس خبر نے زوالکوسکی کو مایوس نہیں کیا ۔ خاموش طبع اسکول ماسٹر خلائی سفر کے مسائل کے قابل قبول حل تلاش کرنے کی کوششوں میں اپنی زندگی کے دن بسر کرتا رہا۔ زوالکوسکی نے رقیق ایندھن کی قوت سے چلنے والا راکٹ انجن کبھی بھی تعمیر نہیں کیا کیونکہ اس مقصد کے لئے اس کے پاس کافی رقم نہیں تھی تاہم اس کی تصوراتی نظروں نے ان مسائل کو ضرور سمجھ لیا تھا جو مستقبل کے خلائی موجدوں کو پیش آنے والے تھے۔<br />
ان میں سے ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ ایک ایسا طریقہ دریافت کیا جائے جس کی مدد سے راکٹ انجنوں کو اس زبردست حرارت سے محفوظ رکھا جائے، جو اس کے جلتے ہوئے ایندھن سے خارج ہوگی ۔ زوالکوسکی کی آخری تحقیقوں میں ایک ایسے راکٹ انجن کی تیاری کا منصوبہ بھی شامل تھا جسے خود اسی کی بہت سرد آکسیجن کی رسد کی مدد سے ٹھنڈا رکھا جا سکے۔<br />
<br />
زوالکوسکی کو بڑھاپے میں شہرت نصیب ہوئی ۔ 1920ء میں جرمنی اور امریکہ کے موجدوں نے رقیق ایندھن پر مشتمل چھوٹے چھوٹے راکٹوں کی پرواز کے کامیاب تجربے کئے۔ روسی سائنسدان نے تمام نظریات ایک ایک کرکے صحیح ثابت ہو رہے تھے۔ چنانچہ کانسٹنٹن زوالکوسکی کو پورے روس میں خلائی سفر کا پانی تسلیم کر لیا گیا۔<br />
<br />
زوالکوسکی کے تحقیقی کام نے اس طویل جدوجہد کا خاتمہ کر دیا جو خلائی سفر کے لئے موزوں ترین جہاز کی دریافت کے سلسلہ میں عرصہ دراز سے جاری تھا۔ یہ بات تسلیم کر لی گئی تھی کہ راکٹ یہ کام انجام دے سکتے ہیں لیکن اب تک کسی شخص نے بھی ایسے راکٹ کی تعمیر نہیں کی تھی، جو اتنا طاقتور ہو کہ ارضی کشش کو دفع کرکے خلائی سفر کر سکے۔ اب یہ کام انجینیروں کا تھا کہ وہ حقیقی آتشی پروں کی تکمیل کی کامیاب کوشش کریں۔<br />
<br />
مصنف: آئی لین - ریمنڈ شوزلر<br />
مترجم : خواجہ ضمیر علی<br />
یونیکوڈ اردو فارمیٹ: جہان سائنس<br />
<br /></div>
</div>
Zuhair Abbashttp://www.blogger.com/profile/04666510644854788654noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1929777235422729587.post-75301856988227384052019-12-21T23:56:00.001+05:002019-12-22T09:49:24.082+05:00پہلی دوربین پر آسمانی مشاہدہ <div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
یہ ترجمہ ماہنامہ طالب علم کے شمارہ جنوری 1985 میں شایع ہوا تھا۔ اس شمارے میں سائنس پر کافی تحریریں شایع کی جاتی تھیں بعد میں اس شمارے کو خالص سائنس کا بنادیا گیا تھا اور اس کا نام بدل کر "سائنس میگزین" کردیا گیا تھا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEg_63P3aaHy9HFpgamE5YibSHlZssWl1QC8RNoSLeKNsoV99Evpi1rF9hafQViqfVqZXYFvtSmhDYreBSwxEqDAZKpQs1I5jjPjSa699xp3fBXlEfai0jCJQb-MI6JN1hQljyA8Ex1Wpzo/s1600/27324_r646x484.jpg" imageanchor="1"><img border="0" height="480" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEg_63P3aaHy9HFpgamE5YibSHlZssWl1QC8RNoSLeKNsoV99Evpi1rF9hafQViqfVqZXYFvtSmhDYreBSwxEqDAZKpQs1I5jjPjSa699xp3fBXlEfai0jCJQb-MI6JN1hQljyA8Ex1Wpzo/s640/27324_r646x484.jpg" width="640" /></a></div>
<blockquote class="tr_bq" style="text-align: right;">
چار سو سال پہلے کا یہ سادہ مقالہ عظیم ماہر فلکیات گلیلیو نے جنوری 1610 میں تحریر کیا تھا</blockquote>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
کوئی دس ماہ پہلے ایک رپورٹ کی میرے کانوں میں پڑی کہ ایک ولندیزی نے ایک دوربینی بڑی محنت سے تیار کی ہے جس کی مدد سے دکھائی دینے والی چیزوں کو دیکھا جائے تو خواہ وہ کتنی بھی دور ہوں، دیکھنے والے کو یوں دکھائی دیتی ہیں جیسے بالکل نزدیک آگئی ہوں اور مجھے یہ بتایا گیا ہے کہ یہ دوربین کوئی تخیلاتی کرشمہ نہیں ہے، نہ سنی سنائی افواہ ہے ، بلکہ اس کے حیرت انگیز نظارے بھی ہوئے ہیں جو اس کے سچا ہونے کے بین ثبوت ہیں۔ لیکن بعضوں نے مجھے بتایا ہے کہ یہ کوئی من گھڑت کہانی ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
چند دن کے بعد مجھے اس رپورٹ کی تصدیق ایک خط سے ہوگئی جو ایک رئیس جیکوئیس بودووئیر نے لکھا تھا، جس میں بتایا گیا کہ واقعی ایسی دوربین ایجاد ہوئی ہے۔ یہ خط پڑھ کر میرے کان کھڑے ہوئے اور میں نے سوچا بلکہ پختہ ارادہ کر لیا که دوربین کس اصول پر کام کررہی ہوگی۔ پہلے مجھے اسی اصول کی جستجو کرنے چاہیے، اور پھر مجھے یہ معلوم کرنا چاہیے کہ اس اصول کی بنیاد پر ایک ویسی ہی دوربین کیونکر بنائی جاسکتی ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
چناچہ چند روز ہی میں نظریہ انعطاف کے گہرے مطالعے سے میں دوربین کے اصول کی تہ تک پہنچ گیا۔ میں نے ایک ٹیوب تیار کی۔ یہ ٹیوب سیسے کی تھی ۔ اس کے دونوں سروں پر میں نے شیشے کے عدسےچڑھا دیے۔ ایک شیشے کی سطح پیالہ نما رکھی اور دوسرے شیشے کو محدب رکھا۔ میں نے محدب شیشے سے دیکھا تو دور کی چیزیں نزدیک اور واضح نظر آئیں۔ جب میں نے شیشے کو نظروں سے ہٹاکر خالی آنکھ سے دیکھا اور جانچہ تو فاصلہ کوئی تین گنا تھا اور چیزیں نو گنا بڑی تھیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
اب میں نے زیادہ مہارت ، نفاست اور احتیاط سے ایک ا ور دوربین بنائی جس نے چیزوں کو ساٹھ گنا بڑا کرکے دکھایا۔ کرنا خدا کا کیا ہوا کہ نہ تو میرا پیسہ صرف ہوا اور نہ مجھے زیادہ محنت کرنا پڑی اور خود میں ایک ایسا عمدہ آلہ بنانے میں کامیاب ہوگیا کہ اس سے دیکھی ہوئی چیزیں ایک ایک ہزار گنا بڑی نظر آتی تھیں اور خالی آنکھ کی قدرتی طاقت سے جو چیز جتنے فاصلے پر نظر آتی ہے، اس آلے کی مدد سے تیس گنا قریب نظر آنے لگی۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
اس نالے کو سمندر یا خشکی پر استعمال کرنے سے جوجو فوائد حاصل ہوسکتے ہیں یہاں ان کی تعداد اور گنتی گنوانے سے کچھ حاصل نہ ہو گا۔ میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ جانے بغیر کہ بعد میں اس کے کیا کیا فوائد حاصل ہوں گے، میں نے اس کا رخ اجرام فلکی کی طرف کر دیا سب سے پہلے میں نے چاند کو دیکھا اتنا نزدیک نظر آیا جیسے ہماری زمین کے نصف قطر کے فاصلے سے بھی کم فاصلے پر ٹکا ہوا ہو ۔ چاند کے بعد میں نے دوسرے اجرام فلکی پر نظر کی۔ میں نے ستارے بھی دیکھے ۔ سیاروں کو بھی دیکھا ان کو اپنے قریب پاکر مجھے اتنی خوشی ہوئی کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
میرے خیال میں اس سارے مشعلے کا اہم ترین حصہ ایسا ہے کہ اسے ظاہر و شائع کرنے سے دنیا والوں کا بھلا ہوگا اور میں منکشف کرتا ہوں کہ میں نے چار سیارے خود دیکھے اور ان کو دریافت کیا جبب سے کہ یہ دنیا بنی ہوئی ہے، اس وقت سے لے کر آج میرے زمانے تک کسی نے ان کو دیکھا تھا نہ دریافت و شناخت کیا تھا۔ میں نے تو ان دو مہینوں کے دوران میں ان کے محل وقوع ان کی قدر کی تبدیلیوں، ان کی حرکات و رفتار اور شکل وہئیت کا بڑا گہرائی سے خود مشاہدہ کیا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
رواں سال کی سات جنوری کواول شب جب میں نے اپنی دوربین سے مجمع النجوم پرنظر دوڑائیں تو سیارہ مشتری خود بخود میری نگاہ میں آگیا اور چونکہ میری دوربین بہت اعلی اور شاندار تھی اس لیے میں نے آسمانوں میں ایسا ماحول اور منظر دیکھا کہ اس سے پہلے میں نے کبھی نہ دیکھا تھا۔ میں نے دیکھا کہ تین چھوٹے مگر انتہائی چمکدار سٹارے مشتری کے بالکل قریب واقع ہیں۔ میں ان کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا حیرت کی وجہ یہ ہے کہ وہ تینوں ستارے دائرة البروج کے بالکل متوازی میں خط مستقیم میں خاص فاصلے پر پاس پاس موجود ہیں۔ دوسرے ستاروں سے کہیں زیادہ روشن ہیں، حالانکہ قدر میں اتنے زیادہ نہیں ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
مشتری سے ان کا مقام اور ان کا آپس میں فاصله محل وقوع یوں تھا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
مشتری کے مشرق میں دو ستارے اور مغرب میں ایک ستارہ تھا۔ مشرق میں جو ستارہ دور تھا اور جو ستاره مغرب میں تھا یہ دونوں تیسرے سٹارے سے قدرے بڑے نظر آئے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
مشتری سے ان کے فاصلے اور ان کے آپس کے فاصلوں پر میں نے زیادہ غور نہیں کیا۔ اس لیے نہیں کیا کہ آپ کو صاف ہی بتا دوں میں پہلے ان کو ثوابت سمجھا گیا تھا لیکن دوسری ہی رات یعنی آٹھ جنوری کو میں خوبی قسمت سے اپنی دوربین سے آسمان کا مشاہدہ کررہا تھا کہ اب کے مجھے کوئی اور ہی منظر دکھائی دیا۔ میں نے دیکھا کہ وہی تینوں ستارے اب مشتری کے مغرب میں آگئے تھے اور پچھلی رات کے مقابلے میں مشتری کے بھی بہت قریب آگئے تھے اور ان کا باہمی فاصلہ بھی بالکل یکساں اور برابر تھا۔ ان کا مقام اب یوں نظرآیا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
اس سے پہلے میں نے کبھی سوچابھی نہ تھا ستارے ایک دوسرے سے دور یا قریب ہوں تو اس کا کیا مطلب و نتیجہ ہوتا ہے۔ لیکن اب میں یہ دیکھ ششدر رہ گیا کہ یہ آخر کیونکر اور کیسے ہوا کہ کل رات تو دو ستارے مشتری کے مشرق میں تھے اور آج رات تینوں کے تینوں اس کے مغرب میں تھے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
چونکه ثوابت اپنی جگہ نہیں بدلتے اور میں ان تینوں کو ثوابت ہی مان چکا تھا، اس لیے میں نے یہی نتیجہ نکالا کہ مشتری سیارہ ان تین ستاروں کے درمیان اپنی کسی مخصوص کج رفتاری کے باعث گھوم گیا ہے۔ لیکن یہ کج رفتاری ایسی تھی جس کا تذکرہ آج تک علمائے فلکیات نے مشتری کے باب میں پہلے نہ کیا تھا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
اب میرا اضطراب بڑھ گیا اور اصل حقیقت معلوم کرنے کے شوق میں اگلی رات کا انتظار کیا لیکن مجھے اس رات مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ کیونکہ آسمان پر ہر طرف بادل ہی بادل چھائے ہوئے تھے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
دس جنوری کی رات کو ان تینوں ستاروں کا محل وقوع یوں نظر آیا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
دو ستارے تو مشتری کے مشرق میں تھے اور تیسرا ستاره غائب تھا۔ وہ یقینا مشتری کے عقب میں چلا گیا ہوگا۔ وہ دونوں دکھائی دینے والے ستارے اسی طرح دائره البروج کے متوازی اور مشتری کے عین سیدھ میں تھے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
انتہائی غور و فکر کے بعد میں نے دریافت کر لیا کہ محل و وقوع کی ان تبدیلیوں کا تعلق مشتری سے نہیں ہے بلکہ وہ تینوں ستارے ہی گھوم پھر کر اپنا مقام تبدیل کر رہے تھے ۔ تب میں نے فیصد کیا کہ ان کا مشاہدہ زیاده صحت، توجہ اور احتیاط سے کرنا چاہئے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
چناچہ گیارہ جنوری کی رات کو مجھے یہ منظر نظر آیا۔یعنی آج بھی تیسرا ستارہ غائب تھا۔ دو ستارے اب بھی مشتری کے مشرق ہی میں تھے ، لیکن جو ستارہ مشتری کے قریب تھا، اس کا فاصلہ کل کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہوگیا تھا اور جو ستاره دور تھا، وہ قریب والے ستارے سے دوگنا نظر آرہا تھا۔ جب کہ پہلی رات کو وہ قدر و ضخامت میں یکساں اور برابر نظر آرہے تھے۔ پس میں اس نیتیجے پر پہنچا اور میں نے بلا جھجک فیصلہ کر لیا کہ تين ستارے ایسے ہیں جو مشتری کے گرد گھوم رہے ہیں جس طرح کہ زہرہ اور عطارد سورج کے گرد گھوم رہے ہیں۔ بعد میں عرصے تک میں ہر رات ان کا بغور مشاہدہ کرتا رہا اور جو میں نے فیصلہ کیا تھا وہ روز روشن کی طرح عیاں ہو گیا، بلکہ معلوم ہوا کہ تین نہیں، چار ستارے مشتری کے گرد اپنی مقرره گردشیں پوری کر رہے ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
مشتری کے چار سیارے سنگی ساتھیوں کے بارے میں یہ ہیں میرے مشاہدات جو میں نے مہ جنوری میں آسمان کی گہرائیوں میں کیے اگرچہ مجھے اب تک معلوم نہیں ہوسکا کہ ان سیاروں کے مدار کی کیا کیفیت ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
#جہان_سائنس #اردو #سائنس #ترجمہ #طالب_علم #سید_قاسم_محمود #سائنسی_کتب #سائنسی_کتابیں #سائنسی_رسائل #دوربین #گلیلیو #مشتری </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
#jahanescience</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<a href="https://drive.google.com/file/d/1hOAmUzv-p0PZYlBV58t9Db_zNPcps3hM/view?usp=sharing">اس رسالے کو یہاں سے ڈاونلوڈ </a>کیا جاسکتا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
آن لائن پڑھنے کے لئے نیچے دیکھیں: </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<iframe height="360" src="https://drive.google.com/file/d/1hOAmUzv-p0PZYlBV58t9Db_zNPcps3hM/preview" width="240"></iframe>
</div>
Zuhair Abbashttp://www.blogger.com/profile/04666510644854788654noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1929777235422729587.post-60808126145074483192019-12-20T12:49:00.003+05:002019-12-20T12:49:39.535+05:00طبیعیات کیا ہے؟<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<h2>
طبیعیات کیا ہے؟ از جیروم ایس مئیر </h2>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjOcUaFoZCDnfU0IIwNws2yjAFYwtIT6SsUFuaYzkeU5GB1nbz8STj8I6QlmtafRXy5kZIg8BzhVfKiW3BtaJ8M7dYtf0vL-XgcOtObRyNdGR5vaQ53uL8SJ5nVNOg2DDsmhL_Npst0W14/s1600/1-what-is-physics.jpg" imageanchor="1"><img border="0" height="360" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjOcUaFoZCDnfU0IIwNws2yjAFYwtIT6SsUFuaYzkeU5GB1nbz8STj8I6QlmtafRXy5kZIg8BzhVfKiW3BtaJ8M7dYtf0vL-XgcOtObRyNdGR5vaQ53uL8SJ5nVNOg2DDsmhL_Npst0W14/s640/1-what-is-physics.jpg" width="640" /></a></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
ہمارے سرمایہ حیات کا بیشتر حصہ کاروبار زندگی کے نذر ہو جاتا ہے۔ اسکے بعد جو وقت باقی رہ جاتا ہے اس میں عموماً ہماری کوشش یہی ہوتی ہے کہ حقائق ہستی کی ہنگامہ خیزیوں سے دور رہیں - یہ بہت ہی بڑی بات ہے۔ اگر حقائق ہم پر بے نقاب ہو جائیں اور ہم ان کا تجزیہ کر سکیں تو ہم ان میں سنسنی خیز جاسوسی کہانیوں سے زیادہ لطف ، طربیہ ڈراموں سے زیادہ کیف و انبساط اور سن و عشق کی رومانی داستانوں سے کہیں زیادہ جذبات انگیزی پائیں گے۔ کارخانہ تکوین کے عجائب و غرائب ہر ذی عقل و ذی شعور کو دعوت فکر و نظر دیتے ہیں ۔ کسی مطرب خوش نوا کی مترنم آواز ، قہوے کی تلخ مگر خوشگوار و اشتہا انگیز خوشبو ، شمع کشتہ کا دھواں ، سایہ دار گھنیرے درخت ، آفتاب کی تمازت ، گھر کے بنے میٹھے بسکٹ ، غرض ہر وہ چیز جس کا حواس خمس سے ادراک کیا جا سکتا ہے عقل انسانی کیلئے آب بقا کا ایک حیات پرور جام ہے ۔ مختصراً - حقیقت مادہ ہے اور مادے کی کارفرمائیاں اسی کا مطالعہ ایک مظہر کے بعد دوسرے مظہر کی توجیہ کرتا ہے جس کے مقابلہ میں انتہائی جاذب توجہ خیالیہ بھی ڈاک کے قواعد میں پھیکا نظر آنے لگے ۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
سائنس اور خصوصیت کے ساتھ علم طبیعیات و علم کیمیا کے ذیل میں ہم مادے اور مختلف صورتوں اور حالتوں میں مادے کے عمل اور رد عمل کا مطالعہ کرتے ہیں . یہ کائنات کی سب سے بڑی نفرا کے مشاہدے کے لئے ایک مستقل اجازت نامہ ہے ۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اسکے باوجود ہم میں کتنے ایسے میں جو اس دعوت عمومی پر لبیک کہہ رہے ہوں - ہم ٹیلی فون استعمال کرتے ہیں ، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے رنگا رنگ نشریات سے روز لطف اندوز ہونے ہیں مگر برقی مقناطیس کی سحر آفرینیوں سے نابلد ہیں ۔ خلائی نلیوں اور نور برقی خانوں کی حیرت انگیز صحت کارکردگی اور حساسیت کو جانے بغیر ہم پردۂ سیمیں پر متحرک تصاویر سے اپنی انسباط خاطر کا سامان ہر شب مهیا کرتے ہیں ۔ ہم میں اکثر افراد نه تو اس سے واقف ہیں اور نه واقف ہونے کی سعی کرتے ہیں اور نتیجے میں نہ جانے کتنی تحیر خیز باتوں سے لاعلم رہتے ہیں ۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
لیکن ہم لا علم ہیں کس چیز سے؟ مثلاً کاغذ کے ایک پرزے اور صابن کی ایک ٹکیہ میں کونسی عجیب و غریب بات ہے ؟ لوہے کے ٹکڑے اور تار کے لچھے اور سی ساو کے دل میں کیا کمال ہے؟ ان باتوں کا اور ایسی ہی بے شمار باتوں کا جواب علم طبعیات میں ملتا ہے - کاغذ کے پرزے میں بے حد بے حساب اتنے چھوٹے چھوٹے ذرات موجود ہیں جن کو معمولی خردبینوں سے دیکھنا ناممکن ہے ۔ ان ذرات میں ہر ایک اکیس (21) جوہروں سے مرکب ہے اور یہ جوہر خود الیکڑان، پروٹون ، نیوٹرون ، اور ازیں قبیل دیگر بنیادی ذرات پر مشتمل ہے - جوہر کے تمام جزوی بنیادی ذرات نظام فطرت کے ما تحت اور قانون جذب و دفع کے زیر اثر ہوش ربا رفتار سے حرکت کر رہے ہیں ۔ یہ بات ہر مادی شے کے لئے درست ہے ۔ خواہ وہ کچھ بھی ہو - رہا لوہے کا ٹکڑا اور تاروں کا لچھا . یہ تو تہذیب حاضر کی روح رواں ہے۔ ریڈیو ، ٹیلیفون، ٹیلی ویژن ، ڈائنامو، موٹر ، برقی گھنٹی ۔ غرض ہر جا ان دونوں کی عجوبہ کاریاں نظر آئینگی۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
علم طبیعیات کا نور ہر ہر گوشہ کائنات کو منور و محیط کئے ہوئے ہے ۔ اسی کی مدد سے ہم حقائق کا سینہ چیر کر جوہر مقصود نکال سکتے ہیں۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
علم طبیعیات کی اہمیت پر کچھ کہنا تحصیل حاصل ہے ۔ روز اول ہی سے انسان غور و فکر کے ساتھ فطرت سے نبرد آزما رہا ہے اور آہستہ آہستہ رفتہ رفتہ کارگاہ ہستی کے اسرار نہاں کا علم حاصل کر سکا ہے ۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
انسان کے پہیہ اور دہرا، ایجاد کرنے کے بعد کی صدیوں میں تمام اقوام و ملل کے ارباب سائنس نے ایک عظیم اور پیچیدہ تہذیب کا قلعہ تعمیر کیا ۔ آگ کا استعمال ، لوہے کی کڑھائی ، بھاپ کی برقی رو کی دریافت ، جوہری توانائی کی نقاب کشائی ، سائنسی فتوحات کے طویل سلسلہ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں - یہ چند لوگ مسلسل مجاہدانہ محنت اور مشقت کرتے رہے تا کہ سب کا بهلا ہو اور انکی ہر نئی ایجاد و تحقیقات نے نوع انسانی کے خزینہ علمی میں معتد یہ اضافہ کیا اور ان ہی کی ڈالی ہوئی بنیادوں پر عہد حاضر کے انسان نے ترقی کی فلک پیما عمارت بلند کی اور سامان آسایش و تعیش سے مالا مال ہے ۔ علوم فطرت کے طویل سلسلے میں وہ عظیم و جاودان شخصیتیں کوہساروں کی طرح بلند و پائیدار حیثیت کی دارا ہیں ۔ لیکن ہر فرد جس نے اپنی زندگی رموز ہستی کو سمجھنے اور سمجھانے میں گزار دی چھوٹا ہو یا بڑا بلا تخصیص بہ مستحق تبریک و تہنیت ہے ۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
یہ صحیح ہے انسان نے فطرت کے بیشتر معمے حل کر لئے مگر وہ گیسوۓ فطرت ، ابھی منت پذیر شانہ ہے ۔ نہ جانے کتنے رموز کائنات تشنہ تحقیق و انکشاف ہیں ۔ باوجودیکہ آج انسان کے دام تحقیق میں برقیات کا خزانہ اور نظریہ اضافیت،، کا انقلابی تصور اسیر ہے ، اسکی رسائی خلائی کائنات تک ہو چکی ہے ، اسکی کمند نجوم و کواکب پر پڑ رہی ہے مگر اب بھی عقل انسانی اسی منزل پر ہے جہاں سترھویں صدی عیسوی میں نیوٹن ایسے بطل عظیم نے اپنے کو پا کر کہا تھا : </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br /></div>
<blockquote class="tr_bq" dir="rtl" style="text-align: justify;">
"مجھے نہیں معلوم کہ دنیا کا خیال میرے متعلق کیا ہے لیکن میں خود اپنے آپ کو اس طفل خورد سال کی مثل تصور کرتا ہوں جو ساحل بحر پر خوشنما مونگوں ، خوبصورت سیپی کے ٹکڑوں اور سڈول رنگین سنگریزوں سے کھیل رہا ہے اور صداقت و حقیقت کا بے کراں سمندر سامنے موجیں مار رہا ہے۔"</blockquote>
<br />
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
مترجم:صولت رضوی</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
#جہان_سائنس #اردو #سائنس #ترجمہ #طبیعیات #صولت_رضوی #اردو_سندھ_اکیڈمی</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
#jahanescience </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<a href="https://drive.google.com/file/d/1AavcArIk_aJhnCmNTtHXIIcvjt1SWk8m/view?usp=sharing">اس کتاب کو یہاں سے ڈاؤنلوڈ</a> کیا جاسکتا ہے۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
آن لائن پڑھنے کے لئے نیچے دیکھیں:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<iframe height="360" src="https://drive.google.com/file/d/1AavcArIk_aJhnCmNTtHXIIcvjt1SWk8m/preview" width="240"></iframe>
</div>
Zuhair Abbashttp://www.blogger.com/profile/04666510644854788654noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1929777235422729587.post-45033585188840211442019-12-17T15:01:00.001+05:002019-12-17T15:01:24.355+05:00سائنس سیکھئے<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h2 style="text-align: right;">
آسان تجربات کے ذریعے سائنس سیکھئے </h2>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh85LOJm3kJQNwG_wEtybexx3zY1QLZXudRKNe8TWstLk_Ex5M8SgZFoCBAFiwJE6JEC3OgwYMCLy1nayszHmAkYkfGHcMv9J55-MmsKHvlBzFIyCFxgx1tgRZirUc4plcuDeDHfiaWruk/s1600/Negative_image_of_what_i_did_in_lab.jpg" imageanchor="1"><img border="0" height="360" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh85LOJm3kJQNwG_wEtybexx3zY1QLZXudRKNe8TWstLk_Ex5M8SgZFoCBAFiwJE6JEC3OgwYMCLy1nayszHmAkYkfGHcMv9J55-MmsKHvlBzFIyCFxgx1tgRZirUc4plcuDeDHfiaWruk/s640/Negative_image_of_what_i_did_in_lab.jpg" width="640" /></a></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
ماہرین عمرانیات کے نزدیک تعلیم کا مقصد ایک نسل کے علمی، ادبی اور ثقافتی ورثے کو محفوظ کر کے دوسری نسل تک منتقل کرنا ہے۔ ہمارے تعلیمی پروگراموں کا مقصد جہاں اس ورثے کو دوسری نسل تک پہنچانا ہے وہاں نئی نسل کو آئندہ کی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے کیلئے مستقبل کو سمجھنے، پرکھنے اور اس میں کامیاب زندگی گزارنے کیلئے تیار کرنا بھی ہے۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
بیسویں صدی کے تیسرے ربع نے معاشرتی زندگی میں بے پناہ تبدیلیاں دیکھی ہیں۔ ایک نسل کے دیکھتے ہی دیکھے رہائش بودوباش، خوراک، ذرائع آمدورفت ، ذرائع ابلاغ وغیرہ میں عظیم انقلاب رونما ہوئے ہیں۔ ان تبدیلیوں کے باعث مروجہ تعلیم خصوصاً سائنس کے نصابات اور طریقہ تعلیم بدلتے ہوئے حالات کا ساتھ نہ دے سکے۔ اس صورت حال سے عہدہ برآ ہونے کیلئے تجدید نصاب کی رو چلی جس کا بنیادی مقصد بچوں میں سائنسی خواندگی پیدا کرنا اور مستقبل کے ماہرین سائنس تیار کرنا تھا۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
سائنس کے دوپہلو یعنی "نفس مضمون" اور "طریقہ کار" مانے جاتے ہیں نفس مضمون میں مختلف مضامین مثلاً طبیعیات، کیمیا، حیاتیات وغیرہ سے متعلق ذخیرہ معلومات پر مشتمل مانا جاتا تھا۔ اب یہ نظریہ متروک ہو چکا ہے اور نفس مضمون اور طریق کار دونوں مل کر سانس کا علم بناتے ہیں۔ طریقہ کار سائنسی انداز فکر اور اشیاء و مظاہر کی ماہیت کا کھوج لگانے کا نام ہے۔ ابتدائی تعلیم کے دوران متعلم کیلئے نفس مضمون یا ذخیرہ معلومات کو اصطلاحات ، کلیات، یا مفصل تشریحات کی صورت میں یاد کرنا رٹا لگانا کے مترادف ہوگا، ایسی تدریس میں تفہیم کا فقدان ہوتا ہے اس کے برعکس سائنسی طریقہ کار کے ذریعہ حاصل کردہ علم پائیدار و ٹھوس ہوتا ہے۔ سائنسی طریقہ کار میں حصول علم کا ذریعہ تجربات ہیں۔ سائنسی تصورات کی تفہیم کیلئے عام طور پر قیمتی اور پیچیدہ آلات کی بجائے سادہ کم قیمت اور روزمرہ کی اشیاء سے کئے گئے تجربات زیادہ موزوں ہوتے ہیں۔ ایسی اشیاء محمل کے اجنبی آلات کے مقابلہ میں بچوں کے ماحول اور روز مرہ زندگی کے قریب تر ہونے کے باعث تعلم میں بے پناہ اضافے کا موجب بنتی ہیں۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
جدید دور میں نفسیات، علم تعلیم اور ذہین انسانی میں تصورات کی تشکیل کے بارے میں معلومات میں بیحد اضافہ ہوا ہے ماہرین کے نزدیک اگر ایک خاص عمر تک مقرون اشیاء سے تعامل نہ کرے تو اس کا علم خام ہوتا ہے۔ اکثر سائنسی تصورات مجرد ہوتے ہیں۔ ان کی تفہیم کے لئے مقرون اشیاء کا سہارا لینا لازم ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ دنیا بھر میں واقع ہونے والی معاشرتی تبدیلیوں کے پیش نظر تعلیم کا حصول ہر بچے کا بنیادی حق گردانا گیا ہے۔ معاشرے کی ان تبدیلیوں کے پیش نظر حال ہی میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
طالبعلموں کی تعداد میں اضافہ اور مقرون اشیاء کی مدد سے تجربات کی ضرورت کے پیش نظر سائنسی تعلیم کے لئے درکار اشیاء پر اخراجات بہت بڑھ گئے ہیں نتیجتاً امیر ترین قومیں بھی تدریس سائینس کے لئے درکار سائنسی آلات مہیا کرنے سے قاصر ہیں۔ اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لئے بھی کم قیمت اور مقامی وسائل سے حاصل کردہ عام اشیاء کے استعمال پر زیادہ زور دیا جانے لگا ہے۔ ترقی پذیر ممالک کیلئے ایسی اشیاء کا استعمال مالی نقطہ نظر سے بھی ضروری ہے۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
تدریس سائنس کے لئے دریافتی طریقہ زیادہ موثر مانا جاتا ہے۔ اس طریقے میں سائنسی طریق کار کو اپناتے ہوے متعلم نامعلوم کی سرحدوں میں داخل ہو کر اکتساب علم کرتا ہے۔ اس کتاب میں ہم نے اسی طریق کار کو اپناتے ہوئے سادہ تجربات کے ذریعہ بعض سائنسی تصورات کو اجاگر کرنے کیلئے متعلم کیلئے سرگرمیاں فراہم کی گئی ہیں۔ ان تجربات میں عموماً سادہ، کم قیمت اور مقامی ماحول میں موجود سامان کو ترجیح دی گئی ہے۔ اکثر تجربات کے لئے سامان عموماً گھر یا سکول میں موجود اشیا پر مشتمل ہوگا دیئے گئے تجربات کی ایک قلیل تعداد کے لئے معمل یا بازار سے اشیاء حاصل کرنے کی ضرورت بھی پیش آئے گی۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
سائنس کو مربوط طور پر پیش کرنے کا رحجان تدریس میں نسبتاً جدید تحریک ہے مختلف نصابی منصوبے اور تبدیلی کا وشیں اس پر زور دیتی ہیں تاہم مربوط سائنس کی کوئی ایک جامع تعریف نہیں پیش کی جا سکتی مختلف ماہرین کے نزدیک ربط کیلئے مختلف پہلو اہم ہیں۔ ان میں ایک پہلو سائنسی عملوں (PROCESSES OF SCIENCE ) کے گرد نفس مضمون میں ربط قائم کرنے کا بھی ہے۔ اس ضمن میں مشاہدہ (OBSERVATION) جماعت بندی (CLASSIFICATION) پیمائش (MEASUREMENT) تجربیت(EXPERIMENTATION) اور ماڈل سازی وغیرہ عملوں کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اس کتاب میں انہی عملوں میں مہارت پیدا کر کے سائینس کی دنیا سے طالب علم کا تعلق پیدا کیا گیا ہے۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
کتاب کل نو9 ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب میں چند آلات و ماڈل بنانے کی ترکیبیں دی گئی ہیں باقی آٹھ ابواب میں سادہ سامان (یا پہلے باب پر تیار کردہ آلات) کے ذریعہ ہونے والے تجربات پیش کئے گئے ہیں تجربات آسان زبان میں لکھے گئے ہیں اور سائنسی اصطلاحات کے استعمال سے گریز کیا گیا ہے۔ ہر وہ طالبعلم جو اردو پڑھ سکتا ہے۔ ان تجربات کو آسان کے ساتھ کر سکے گا۔ چھوٹے بچوں کو اساتذہ یا والدین رہنمائی مہیا کر کے سائنس کی تدریس دریافتی انداز میں کر سکتے ہیں۔ ہر تجربہ ایک بنیادی تصور پر مبنی ہے۔ بعض تصورات کی تفہیم کیلئے ایک سے زائد تجربات بھی دیئے گئے ہیں۔ طالبعلم کو چاہیے کہ کتاب میں دی گئی سرگرمیوں کو مکمل کر کے "مشاہدات اور سوالات" میں دیئے گئے سوالات کے جواب خود لکھے ۔ بعد میں اپنے جوابات کی تصدیق کتاب کے اواخر میں دی کئی "توضیحات" سے کرے ۔ توضیحات میں مختصراً تجربے میں دیئے گئے تصور کی وضاحت دی گئی ہے۔<br />
<br />
سردار احمد تنویر و دیگر </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br />
#جہان_سائنس #اردو #سائنس #سائنسی_کتابیں #سائنسی_کتب #بنیادی_سائنس #سائنسی_تجربات<br />
#jahanescience<br />
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<a href="https://drive.google.com/file/d/1oaQmVt8d_QZfcs4Ry1_R7TDoLhnM2PrH/view?usp=sharing">یہ کتاب یہاں سے ڈاؤنلوڈ </a>کی جاسکتی ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<iframe height="360" src="https://drive.google.com/file/d/1oaQmVt8d_QZfcs4Ry1_R7TDoLhnM2PrH/preview" width="240"></iframe>
</div>
Zuhair Abbashttp://www.blogger.com/profile/04666510644854788654noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1929777235422729587.post-70432766037691183942019-12-16T16:53:00.002+05:002019-12-16T17:11:39.974+05:00سائنس ڈائجسٹ - شمارہ مئی-جون 1991<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<div style="text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjLFfUDw1IfZVUFYqKjwSBgMetfeWWW6AGKkbFN0Zhg_asfOJNpCQ1qDwmTnGzo6P8UdoLJUU90T_IVPty1rCCmsH4cHvQijoaUVBWNZOUawdGnFArtJBF5Ex5gzO4t-igNyXG9HeG2RRE/s1600/550792_130316407120495_1440869811_n.jpg" imageanchor="1"><img border="0" height="640" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjLFfUDw1IfZVUFYqKjwSBgMetfeWWW6AGKkbFN0Zhg_asfOJNpCQ1qDwmTnGzo6P8UdoLJUU90T_IVPty1rCCmsH4cHvQijoaUVBWNZOUawdGnFArtJBF5Ex5gzO4t-igNyXG9HeG2RRE/s640/550792_130316407120495_1440869811_n.jpg" width="440" /></a></div>
<br />
کچھ عرصے پہلے <a href="https://www.facebook.com/jahanescience/posts/731629510624206?__tn__=-R">"جہان سائنس" کے فیس بک پیج </a>پر ایک پوسٹ کی تھی۔ جس میں اپنی اس خواہش کا اظہار کیا گیا تھا کہ سائنس پر اردو میں لکھی گئی ان پرانی کتب کو جمع کیا جائے جو کم از کم 15 یا 20 سال سے شائع نہیں ہوئی۔ ان تمام کتب کو اسکین کروا کر منظم انداز میں انٹرنیٹ پر کسی ایک جگہ جمع کیا جاسکے جہاں سے اپنی پسند کے موضوع کو آسانی سے ڈھونڈا جاسکے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
سائنسی کتب کے ساتھ ساتھ سائنس کے پرانے رسالے بھی ڈھونڈ کر ایک جگہ جمع کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اسی سلسلے میں اس سے پہلے بھی <a href="http://www.jahanescience.com/2016/11/urdu.science.mahanama.new.dehli.html">"اردو ماہنامہ سائنس نئی دہلی"</a> اور <a href="http://www.jahanescience.com/2019/04/urdu-science-magazine-january-1928.html">"سہہ ماہی سائنس"</a> کے شماروں کی پوسٹ شائع کی تھی۔ اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے آج "سائنس ڈائجسٹ" کا شمارہ مئی-جون 1991 کا اشتراک آپ کے ساتھ کیا جارہا ہے۔<br />
<br />
شمارے کے کچھ مضامین اور ان کا تعارف </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h3 style="text-align: right;">
1.ایچ ای جے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر پروفیسر عطاء الرحمن سے ملاقات</h3>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<b>انٹرویو نگار رضی الدین خان، میر اقبال علی عثمانی </b></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
ایٹم کی طاقت اور توانائی کا کوئی حساب نہیں ساری دنیا اس سے بخوبی آگاہ ہے۔ لیکن ایٹم کی اصل توانائی اس کے اندر موجود مرکزے یعنی مرکز میں پنہاں ہوتی ہے جو اس توانائی کا منبع و مبدا ہوتا ہے۔ کراچی یونیورسٹی کو اگر ایٹم تصور کیا جائے تو اس کا مرکزہ اس کے اندر واقع ایک انسٹی ٹیوٹ ہے جسے اندر و باہر والے ایچ ای جے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف کیمسٹری کے نام سے جانتے ہیں۔ دراصل یہ انسٹی ٹیوٹ یو نیورسٹی کے اندر خود ایک علیحدہ یونیورسٹی ہے جس پر یونیورسٹی کی غیر صحت مندانہ اور غیر نصابی سرگرمیوں کا سایہ نہیں پڑتا اور کلاشنکوف چلے، لاٹھی چارج ہو یا محض ہاتھا پائی اس انسٹی ٹیوٹ کی تدریسی اور تحقیقی سرگرمیاں مسلسل جاری رہتی ہیں۔ دراصل جنوں کی اس بستی کا ہر باسی پاکستان کے عام مزاج اور ماحول سے بالکل مختلف ہے۔ یہ انسٹی ٹیوٹ دو عظیم جن نما انسانوں کا تعمیر کردہ ہے جنہیں ساری دنیا پروفیسر سلیم الزماں صدیقی اور پروفیسر عطاء الرحمن کے ناموں سے پہچانتی ہے۔ ہم اپنے قارئین کو اسی عالمی شہرت یافتہ انسٹی ٹیوٹ میں لیے جلتے ہیں جس کے بارے میں پڑھ اور سن کر بالکل حیرت زدہ رہ جاتے ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h3 style="text-align: right;">
2.ہمارے معاشرے پر سائنسی صحافت کے اثرات</h3>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<b>رضی الدین خان۔ مدیر اعلی سائنس ڈائجسٹ</b><br />
<b><br /></b></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
یہ مقالہ ”سائنس اور ٹیکنالوجی رپورٹنگ" پر اسلام آباد میں 28 اپریل 1991ء سے 12 مئی 1991ء تک منعقد ہونے والے پندرہ روزہ ورکشاپ میں پیش کیا گیا۔ اس ورکشاپ کا اہتمام وزارت سائنس و ٹیکنالوجی، پاکستان سائنس فاؤنڈیشن اور پاکستان کونسل برائے سائنس اور ٹیکنالوجی نے برطانیہ کے تھامسن فاؤنڈیشن کے اشتراک سے کیا تھا جس کےکنسلٹنٹ جناب عمر ستار تھے۔<br />
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h3 style="text-align: right;">
3.بم کے ذریعے ہلاکت</h3>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<b>ناصر معین </b><br />
<b><br /></b></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
کہتے ہیں جان ہر کسی کو پیاری ہوتی ہے لیکن وہ کیسے بیوقوف، ظالم اور بزدل لوگ ہوتے ہیں جو خود کش بمبار بن جاتے ہیں۔ اپنے جسم کے ساتھ اس طرح بم باندھنا کہ مقتول کے ساتھ ساتھ خود کے بھی پرخچے اڑنے والے ہوں بہت ہی ظالمانہ اور بیوقوفانہ کام ہے۔<br />
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
گزشتہ چند برسوں کے دوران وطن عزیز نے ان گنت خود کش حملوں کا سامنا کیا جس میں ہزاروں بے گناہوں نے جام شہادت نوش کیا۔ بم دھماکے میں آنا فانا لمحہ بھر پہلے جیتے جاگتے انسانوں کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتے ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
"سائنس ڈائجسٹ" کا یہ شمارہ ہے تو اگرچہ 1991 کا تاہم اس میں بم اور دھماکہ خیز مادوں کے بارے میں لکھا گیا یہ مضمون پڑھنے کے لائق ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h3 style="text-align: right;">
4.رنگوں کا فلسفہ حکمت </h3>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<b>آصف علی یاور</b><br />
<b><br /></b></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
آئن اسٹائن کی رو سے روشنی ایک توانائی ہے۔ یہ توانائی سات مختلف رنگوں سے مل کر بنی ہے۔ یہ ساتوں رنگ کائنات کی جاندار اور بے جان اشیاء پر مختلف انداز سے اثرانداز ہوتے ہیں۔ رنگوں کے اسی فلسفے اور حکمت کے بارے میں آصف علی یاور کا یہ دلچسپ مضمون ملاحظہ کیجیئے جس میں ان کے اپنے خیالات مشاہدات اور تجربات میں شامل ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h3 style="text-align: right;">
5.ایڈز عذاب الہی </h3>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<b>راجہ سلیم انور</b><br />
<b><br /></b></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
جدید تحقیقات کے مطابق ایڈز وائرس اتنی جلدی اور آسانی سے خون میں داخل نہیں ہو سکتے جیسے کہ تپ دق کے جراثیم کھانسی کے ذریعے ملیریا کے جراثیم مچھر کے کاٹنے سے یا ہیضہ کے جراثیم گندگی کی وجہ سے پھیلتے ہیں۔ ایڈز وائرس دوسرے وائرسوں کی طرح بہت باریک ہوتا ہے اور یہ بصری یا سادہ خوردبین سے نظر نہیں آ سکتا۔ یہ وائرس کیمیائی پیکٹ کی صورت میں ہوتے ہیں۔ ان کے اندر زیادہ تر نامیاتی مرکبات پائے جاتے ہیں۔ یہ نامیاتی مرکبات نیوکلیئک ایسڈز پر مشتمل ہوتے ہیں اور ان کے باہر پروٹینز کی ایک دیوار ہوتی ہے۔ یہ وائرس زندہ اجسام کے اندر عامل ہوتے ہیں اور ان کے باہر سست اور غیر عامل ہوتے ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h3 style="text-align: right;">
6.تصویر کائنات کے رنگ</h3>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<b>بدرالدجی خان</b><br />
<b><br /></b></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
اللہ تعالی نے اس دنیا کو بے حد خوبصورت بنایا اور اس میں مختلف رنگ سجا دیئے لیکن انسان صنعتی ترقی اور خوش حالی کے نام پر اس رنگ میں بھنگ ڈال رہا ہے اور ہر سال لاکھوں ٹنوں کے حساب سے کرہ ارض کی مٹی، پانی اور ہوا کو آلودہ اور زہریلا کرتا جا رہا ہے۔ انسانوں کے پیدا کردہ اس مشترک خطرے سے نبٹنے کے لئے سبھی انسانوں کو مشترک جدوجہد کرنا ہوگی۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h3 style="text-align: right;">
7.زیست کا ارتقاء </h3>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<b>نزہت غزالہ</b><br />
<b><br /></b></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
برف کا ہر زمانہ کئی لاکھ سال پر محیط ہے۔ انہی برفانی ادوار میں نوع انسان سے ملتی جلتی اشکال پائی گئیں۔ ارتقائے انسانی کے سلسلے کی پہلی کڑی "جاوا" اور "پیکنگ" کے انسان ہیں جن کا تعلق پہلے اور دوسرے برفانی ادوار سے ہے۔ پہلے ہارا ۱۸۹ء میں انسان اور گوریلے سے ملتی جلتی کھوپڑی برآمد ہوئی ا سے "جاوائی انسان" کہا گیا۔ اس کے بعد 1928ء میں دوسری آدمی نما شکل چین میں پیکنگ کے قریب دریافت ہوئی جسے "پیکنگ کا انسان" کہا جاتا ہے۔!</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h3 style="text-align: right;">
8.ایٹمی مسائل </h3>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
محبوب احمد<br />
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
تین فی صد انشقاقی یورینیم حاصل کرنے کے لیے قدرتی یورینیم کو مختلف مراحل سے گزارنا پڑتا ہے۔ ایٹم میں نوے فیصد انشقاقی یورینیم استعمال کی جاتی ہے۔ نیوٹران ایٹم بم میں، ایٹم بم ہائیڈروجن بم میں اور ہائیڈروجن بم انسانیت کو راکھ کے ڈھیر میں بدلنے کے لیے ماچس کی تیلی کا کام کرتے ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h3 style="text-align: right;">
9.کمپیوٹر کی زبانیں </h3>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<b>شفیق احمد</b><br />
<b><br /></b></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
انسانوں کی طرح کمپیوٹر صرف اپنی زبان سمجھتا ہے اگر اس سے اسی کی زبان میں بات کی جائے یا کام دیا جائے تو پھر وہ اسی کے حساب سے نتائج بھی دیتا ہے۔ کمپیوٹر کی مختلف زبانوں کے بارے میں ابتدائی تعارفی مضمون ملاحظہ کیجئے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h3 style="text-align: right;">
10.کوارک اور لیپٹون </h3>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<b>طارق احسان </b><br />
<b><br /></b></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
کوارک کا پہلا نمونه1974ء میں جوگیش سی پیٹی نے جن کا تعلق کالج پارک کی یونیورسٹی آف میری لینڈ سے ہے اور اٹلی میں واقع نظری طبیعیات کے مرکز کے ڈائریکٹر پروفیسر عبدالسلام اور جان اسٹارتھ ڈی نے پیش کیا تھا۔ ان ہی تین سائنسدانوں نے "پری کوارک" کی اصطلاح ایجاد کی۔ پروفیسر سلام اور پروفیسر پیٹی نے کوارک کے اندرونی ذرات کو "پریون" (PREON) کا نام دیا ہے۔ شاید کوارک اور لیپٹون کی ساخت کے بارے میں سب سے زیادہ سادہ نمونہ ایک اسرائیلی سائنس داں "ہائم ہراری" نے 1979ء میں پیش کیا۔ اسی طرح کا ایک خیال یونیورسٹی آف الینوائے کے مائیکل اے شوپے نے پیش کیا۔ اس نمونے کو بعد میں وائزمین انسٹی ٹیوٹ میں ہائم ہراری اور ناتھن سی برگ نے مزید تفصیل سے جانچا اور اس کا تجزیہ کیا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
نوٹ:1.سائنس ڈائجسٹ کے آغاز کے بارے میں اگر کسی کے پاس معلومات موجود ہوں تو وہ کمنٹس میں بتاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر کسی کے پاس "جدید سائنس"، "سائنس ڈائجسٹ"، "کاروان سائنس"، "سائنس میگزین"، "طالب علم"، "الیکٹرانک ڈائجسٹ"، "اخبار سائنس"، "اردو سائنس میگزین" یا "عملی سائنس" کے پرانے شمارے دستیاب ہیں تو وہ بھی مجھ سے رابطہ کرسکتا ہے میں اسے قیمتا خریدنے میں دلچسپی رکھتا ہوں۔<br />
2.اس شمارے کا سرورق دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے دوسرے شمارے کا سرورق لگایا گیا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
سائنس ڈائجسٹ کو بند ہوئے کم از کم 18 برس ہوچکے ہیں۔ ان کے دئیے گئے ای میل ایڈریس پر میں نے بارہا رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہ مل سکی۔ سائنس ڈائجسٹ کے کچھ شمارہ جات <a href="https://www.urduweb.org/mehfil/">اردو محفل</a> کے رکن جناب انیس الرحمن صاحب نے فراہم کئے ہیں۔ سائنس ڈائجسٹ کے اس شمارے کا اشتراک نیک نیتی کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br />
#جہان_سائنس #اردو #سائنس #سائنسی_رسالے #سائنس_ڈائجسٹ #سائنسی_کتب #سائنسی_رسالے<br />
#jahanescience</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<iframe height="360" src="https://drive.google.com/file/d/1hDxX2-_OIA6eh8EMyInEZ9F17venr8um/preview" width="240"></iframe>
</div>
Zuhair Abbashttp://www.blogger.com/profile/04666510644854788654noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1929777235422729587.post-11545632935177248982019-09-24T15:25:00.000+05:002019-09-24T15:25:51.983+05:00امریکی عبقری - اسٹیو جابز بمقابلہ بل گیٹس<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<br />
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhdfcxUFun3fW-iSzXAlUSlDvyUxfp4Z12HD7cEA33CWLlmVLn13TmQRpluIgrF-z02r-2JD74JcbNey2PKw4SnrFagnw23Kqw7rMY9JP4DlNq8WFNaOGBrjDJSzjDS2sqz7HQlBw_cEUM/s1600/e3c81684909a4066bf116c3f11d8d7b1_18.jpg" imageanchor="1"><img border="0" height="360" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhdfcxUFun3fW-iSzXAlUSlDvyUxfp4Z12HD7cEA33CWLlmVLn13TmQRpluIgrF-z02r-2JD74JcbNey2PKw4SnrFagnw23Kqw7rMY9JP4DlNq8WFNaOGBrjDJSzjDS2sqz7HQlBw_cEUM/s640/e3c81684909a4066bf116c3f11d8d7b1_18.jpg" width="640" /></a></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
یہ مضمون نیشنل جیوگرافیک چینل کے ڈاکومنٹری پروگرام "امیرکن جینئس" کے پروگرام کا آزاد ترجمہ ہے۔ برائے مہربانی مضمون کو نقل کرنے کے بجائے شئیر کیجئے اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو مکمل حوالے کے ساتھ اس کا اشتراک کیجئے۔ </div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
ڈیجیٹل عہد کا ظہور دنیا پر اثر انداز ہونے والی دو شخصیتوں کی تلخ دشمنی کا شاخسانہ تھا۔ ان میں سے ایک خداداد صلاحیت کا مالک بل گیٹس تھا۔ اسی نے کمپیوٹر پر سب سے زیادہ استعمال ہونے والا آپریٹنگ سسٹم دنیا کو دیا۔ جبکہ دوسرا نام تھا اسٹیو جابز کا۔ کمپیوٹر اور ٹیکنالوجی کی دنیا کی بادشاہ کمپنی ایپل کا بانی۔ </div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<br />
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
نوجوان بل گیٹس اپنے لڑکپن میں اکثر دوستوں کے ساتھ مل کر مقامی کمپیوٹر سینٹر کو ہیک کرکے اپنے مشغلے کے طور پر کمپیوٹر کو استعمال کرتا۔ بل گیٹس سیٹل میں مقیم ایک اچھے کھاتے پیتے گھرانے کا لڑکا تھا۔ اچھی تعلیم حاصل کر رہا تھا اور کافی ہوشیار تھا۔ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ بل گیٹس ہر لحاظ سے مسابقتی اور اپنے کام کا دھتی تھا۔ اس کی طبیعت ہی ایسی تھی۔ اسے ہر کام میں اپنی جیت سے سروکار ہوتا تھا۔ اپنے لڑکپن میں بھی بل گیٹس کے پاس اپنے ہم عصروں کے مقابلے میں حیرت انگیز معلومات ہوتی تھیں۔ اسے مین فریم کمپیوٹر چلانا آتا تھا۔ اس زمانے میں مین فریم وہ دیوہیکل کمپیوٹر ہوتے تھے جن سے اعداد شمار کا گورکھ دھندہ صرف ماہرین ہی کر سکتے تھے۔ ان کا استعمال صرف بڑی بڑی کمپنیوں میں ہی ہوتا تھا۔ کمپیوٹر کے میدان کے چوٹی کے ماہرین ہی صرف اس کو چلاتے تھے۔ یہ نہ تو عام آدمیوں کے استعمال کے لئے ہوتا تھا اور نہ ہی عام آدمی کو اسے چلانا آتا تھا۔</div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
1974 میں پرسنل کمپیوٹر کا اس وقت تک کوئی وجود نہیں تھا جب تک نیو میکسیکو کی ایک کمپنی نے پہلا کمپیوٹر متعارف نہ کروایا۔ یہ کمپیوٹر اتنا بڑا تھا کہ عام آدمی اسے استعمال کر سکتا تھا۔ اس کا نام تھا الٹائر 8800۔ یہ ایک طرح کا کھلونا تھا۔ ایک پیچیدہ کھلونا۔ اس نے پرسنل کمپیوٹر کی سمت طے کردی تھی تاہم نہ تو اس میں کوئی اسکرین تھی اور نہ ہی اس میں کوئی کیبورڈ تھا۔ اس میں کوئی بھی ایسی چیز موجود نہیں تھی جو کہ پرسنل کمپیوٹر کا خاصہ ہوتی ہے۔ سب سے زیادہ اہم بات یہ تھی کہ اسے استعمال کرنا اور چلانا کوئی آسان کام نہ تھا۔ جب الٹائر مارکیٹ میں آیا تو بل گیٹس اس وقت ہارورڈ یونیورسٹی کا طالب علم تھا۔ گیٹس اور اس کے دوست پال ایلن نے بھانپ لیا تھا کہ اگر الٹائر کو عام لوگوں کے لئے مفید بنانا ہے تو اس کے لئے ایک پروگرامنگ لینگویج کا ہونا ضروری ہے۔ انہوں نے فیصلہ کرلیا کہ پروگرامنگ لینگویج وہ بنائیں گے۔ دونوں دوستوں نے اس کی اہمیت جان لی تھی اور وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا نہیں رہنا چاہتے تھے کہ کوئی دوسرا آئے اور میدان مار لے۔ انہوں نے پنچ کارڈ کی مدد سے ایک ابتدائی پروگرامنگ لینگویج بنائی۔ پنچ کارڈ گتے کی چرخی کی طرح ہوتے تھے جس میں چھید کرکے پروگرامنگ کی کمانڈ دی جاتی تھیں۔ اپنے پروگرام کی اہمیت کو ثابت کرنے کے لئے ضروری تھا کہ الٹائر بنانے والوں کو اسے دکھایا جائے۔ </div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
بل گیٹس اور ایلن کمپیوٹر کے استعمال کو آسان بنانے کے اس میدان میں اکیلے نہیں تھے۔ ان سے 3 ہزار میل کی دوری پر پرسنل کمپیوٹر کو بالکل الگ طرح سے بنانے کا سوچا جا رہا تھا۔ اسٹیو جابز نے کالج کی پڑھائی ادھوری چھوڑ دی تھی اور اس وقت وہ ہندوستان کی یاترا سے واپس پلٹا تھا۔ اس کا کمپیوٹر کے استعمال کا بہت ہی محدود تجربہ تھا۔ اس کی طرز زندگی ہیپیوں والی تھی۔ اس کی زندگی نشئی کی طرح اور عام ڈگر سے ہٹ کر تھی۔ اس نے کمپیوٹر کے میدان میں کوئی تجربہ حاصل نہیں کیا تھا۔ اسٹیو جابز کا ایک دوست تھا جس کا نام اسٹیو وزنک تھا۔ اس نے بطور مشغلہ برقیات اور کمپیوٹر کو اپنایا ہوا تھا۔ وزنک کے ذہن میں ایک بالکل اچھوتا اور دھماکہ خیز خیال آیا۔ اس نے مائکرو پروسیسر کے ساتھ الٹائر جیسا کمپیوٹر تو بنایا لیکن اس کمپیوٹر میں وزنک نے دو اہم چیزوں کا اضافہ کر دیا ایک کی بورڈ کا جبکہ دوسرا مانیٹر کا۔ بجائے پنچ کارڈ کو استعمال کرکے پروگرام لکھنے کے اب ٹائپ رائٹر جیسے کلیہ استعمال کرکے پروگرام کو براہ راست لکھا جا سکتا تھا۔ یہ پرسنل کمپیوٹر کی دنیا میں سد شکن (بریک تھرو) تھا۔ پروگرامر جب اپنے پروگرام کو لکھتا تو وہ اس کے سامنے ٹی وی اسکرین پر لکھا ہوا نظر آتا۔ اس وقت اسے بھی نہیں معلوم تھا کہ اس کے اس خیال نے کیسے آنے والی دنیا کو تبدیل کرکے رکھ دینا ہے۔ </div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
جابز تو فوراً ہی سحر زدہ ہو گیا تھا۔ تاہم وزنک کے برعکس جابز کو اس بات میں کوئی دلچسپی نہ تھی کہ کمپیوٹر کیسے کام کرتا ہے اسے تو بس اسے بیچنے میں دلچسپی تھی۔ اسٹیو جابز مکمل طور پر کاروباری آدمی تھا۔ اس کا مقصد کمپنی بنانا تھا جبکہ وزنک چاہتا تھا کہ مزے مزے کی چیزیں بنائے اور مزاجوں میں اسی گوناگوں چیز نے دونوں کے تعلق کو مضبوط بنایا۔</div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
دوسری جانب بل گیٹس اپنے دوست پال ایلن کے پیغام کا انتظار کر رہا تھا جو الٹائر کے لئے بنائے گئے پروگرام کو چلا کر دکھا رہا تھا۔ یہ بہت ہی سادہ سا پروگرام تھا۔ لیکن اس میں چند کمانڈ دے کر کمپیوٹر کو استعمال کیا جا سکتا تھا۔ گیٹس اور ایلن نے پرسنل کمپیوٹر کے لئے اپنا پہلا پروگرام بیچ ڈالا تھا۔ یہ کامیابی ایسی تھی کہ بل گیٹس نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا فیصلہ کرنے کا رسک لینے کا سوچ لیا تھا۔ 19 برس کی عمر میں اس نے ہارورڈ کو چھوڑ دینے کا فیصلہ کیا اور اپنے دوست ایلن پال کے ساتھ مل کر ایک چھوٹی کمپیوٹر کمپنی کی داغ بیل ڈالی۔ اس کا نام انہوں نے مائیکرو سافٹ رکھا۔</div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
تاریخ میں کئی بار ایسے موقع آئے کہ جب کوئی نیا تصور پیش کیا گیا تو اس کی اہمیت اس وقت تک اجاگر نہیں ہوئی جب تک اس کا عملی استعمال نہ کیا گیا۔ کبھی کبھار کوئی ایسا تصور پیش کر دیتا ہے جس سے دنیا میں انقلاب برپا ہو جاتا ہے۔</div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
کیلی فورنیا کے ایک گیراج میں بھی ایک حوصلہ مند کمپنی کا ظہور ہونے والا تھا۔ اسٹیو جابز نے سوچا کہ وہ اپنے دوست وزنک کا تیار کردہ جدید کمپیوٹر بیچ سکتا ہے۔ اس کی میموری الٹائر کے مقابلے میں 16 گنا زیادہ تھی۔ اب مرحلہ تھا کمپیوٹر کو نام دینے کا۔ وزنک ایگزیکیوٹیک کا نام سوچ رہا تھا یا پرسنل کمپیوٹرز انک۔ جابز نے یہ دونوں نام رد کر دیئے۔ اس کا خیال تھا نام ذرا ہٹ کر ہونا چاہئے۔ جیسے ایپل اور کمپیوٹر۔ دونوں لفظ ایک دوسرے سے بالکل جدا تھے تاہم سننے میں اچھے لگتے تھے۔ اچھا نام اپنی چیز بیچنے کی گارنٹی نہیں دیتا ہے۔</div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
وہ اپنے کمپیوٹر میں ایسکی کی بورڈ اور ایم او ایس 6502 کی چپ استعمال کر رہے تھے۔ کی بورڈ اور مانیٹر کے اضافے کے باوجود ایپل اول بری طرح ناکام ہو گیا۔ صرف 200 کمپیوٹر ہی بیچے جا سکے۔ وہ اور اس کا شراکت دار سمجھ رہے تھے کہ وہ صرف کامیاب ہی ہوں گے انہوں نے ایک بار بھی نہیں سوچا کہ ان کا منصوبہ ناکامی سے دو چار ہوگا۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ وہ دنیا کو چونکا دیں گے۔ کم قیمت پرسنل کمپیوٹر بنانے میں وہ دنیا سے بہت آگے تھے۔ وزنک کا کام پروسیسر کو تیز رفتار بنانا تھا جبکہ جابز سمجھتا تھا کہ کمپیوٹر کا اور زیادہ پرکشش بنانا ہوگا تاکہ نہ صرف کمپیوٹر کے شوقین بلکہ عام لوگ بھی اسے خرید سکیں۔</div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
اس نے سوچنا شروع کر دیا۔ اس کے ذہن میں ایک ایسی مشین کا خاکہ تھا جس میں ہر چیز ایک جگہ ہو اور استعمال میں اس قدر آسان ہو کہ دنیا میں انقلاب برپا کر دے۔ اس نے اس مشین کو ایپل دوئم کا نام دیا۔ اپنے دور کا یہ حسین ترین کمپیوٹر تھا۔ اسٹیو جابز نے بالکل نیا ڈیزائن متعارف کروا دیا تھا۔ ایپل دوئم کے تعارف کے ساتھ ہی کمپیوٹر کا کاروبار ہمیشہ کے لئے بدل گیا۔ جون 1977 میں ایپل دوئم کا اجراء کیا گیا۔ اس سے پہلے لوگوں نے ایسا کمپیوٹر کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس کا آسان استعمال عوام کو فوراً ہی بھا گیا۔ ایک سال کے اندر ہی اس کی فروخت 8 ارب یو ایس ڈالر تک پہنچ گئی۔ انہوں نے کمپیوٹر متعارف کروانے کے ساتھ ہی فروخت شروع کردی تھی۔ یہ کمپیوٹر کی دنیا میں اپنے وقت سے بہت آگے تھے۔ یہ رنگین تھا اور اس میں گرافکس تھے۔ یہ ایپل کی پہلی کامیاب پروڈکٹ تھی۔</div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
بل گیٹس نے جب یہ کمپیوٹر دیکھا تو اسے اپنی کمپنی کا مستقبل کافی روشن نظر آیا۔ ایپل دوئم اگرچہ عام صارفین کے لئے تھا تاہم اس کی پروگرامنگ مارکیٹ میں موجود زیادہ تر تجارتی سافٹ ویئر کے ساتھ ہم آہنگ نہ تھی۔ گیٹس جانتا تھا کہ اگر اس نے ایپل کے اس کمپیوٹر کو تجارتی پروگرام چلانے کی قابلیت عطا کردی تو یہ ایپل کی کامیابی میں سے اپنا حصہ پوری طرح وصول کرسکے گا۔ گیٹس اور اس کی ٹیم نے کئی مہینوں کی محنت کے بعد ایک سوفٹ کارڈ بنا ہی لیا جو ایپل دوئم میں لگا کر تجارتی پروگرام چلانے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ سوفٹ کارڈ ایک قسم کا سرکٹ بورڈ تھا۔ تاہم مائیکرو سافٹ کو اس سوفٹ کارڈ کا فائدہ تب ہی ہو سکتا تھا جب کمپیوٹر کی صنعت کے دونوں نابغ روزگار ایک دوسرے کی مدد کرتے۔</div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
اسٹیو جابز اور بل گیٹس ثنائی ستاروں کی طرح تھے ایک دوسرے کے گرد منڈلانے والے۔ 1970 کی دہائی ہی سے دونوں ایک دوسرے کے گرد منڈلاتے رہے۔ سوفٹ کارڈ کا تعارف کرواتے ہوئے بل گیٹس نے جابز کو بتایا کہ اس کے استعمال سے ایپل دوئم پر ورڈ پروسیسر، اسپریڈ شیٹس وغیرہ سمیت مختلف تجارتی پروگرام آسانی سے چل سکتے ہیں۔ بل گیٹس نے اسٹیو جابز کو ایک ایسی چیز کی پیش کش کردی جس سے اس کا عام گھریلو کمپیوٹر طاقتور تجارتی کمپیوٹر میں بدل سکتا تھا۔ یہ دونوں کمپنیوں کے لئے سود مند سودا تھا۔ </div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
1980 تک ایپل کے صارفین کو سوفٹ کارڈ بیچنا مائیکرو سافٹ کی آمدنی کا سب سے اہم ذریعہ تھا اور اس کے نتیجے میں اس کی فروخت میں تین گنا اضافہ ہو چکا تھا۔ تاہم بل گیٹس اسٹیو سے آگے نکلنے کا پہلے ہی سوچ چکا تھا اور ٹیکنالوجی کی دنیا کا بے تاج بادشاہ بننے کا پہلا قدم اٹھا چکا تھا۔</div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
کئی دہائیوں سے آئی بی ایم بزنس ٹیکنالوجی کے افق پر چھایا ہوا تھا اور اب وہ پرسنل کمپیوٹر کے بزنس میں قدم رکھنے کا سوچ رہا تھا۔ گیٹس کو اندازہ ہو چکا تھا کہ اس میدان میں آئی بی ایم سے کیا جانے والا معاہدہ بہت اہم ہو سکتا ہے۔ وہ چاہتا تھا کہ آئی بی ایم کے پرسنل کمپیوٹر پر وہ سافٹ ویئر مہیا کرنے والی اہم کمپنی ہو۔ گیٹس نے جب آئی بی ایم سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ انھیں سافٹ ویئر کے بجائے آپریٹنگ سسٹم درکار ہے۔ گیٹس سمجھ رہا تھا کہ انھیں صرف پروگرامنگ لینگویج چاہیں۔ آئی بی ایم والے جلدی میں تھے۔ اس وقت تک مائیکرو سافٹ کے پاس اپنا کوئی آپریٹنگ سسٹم موجود نہ تھا۔ اس کے باوجود بل گیٹس نے آئی بی ایم کو آپریٹنگ سسٹم مہیا کرنے کی حامی بھر لی۔ بل گیٹس کے دماغ میں تھا کہ اسے کہاں سے آپریٹنگ سافٹ ویئر مل سکتا ہے۔ گیٹس نے ایک اور چھوٹی سافٹ ویئر کمپنی سے ایک بنا بنایا آپریٹنگ سافٹ ویئر خریدا جس کا نام اس نے ایم ایس ڈوس رکھا۔ بل گیٹس نے اس کمپنی سے یہ طے کرلیا تھا کہ وہ جو چاہئے اس آپریٹنگ سسٹم کے ساتھ کر سکتا ہے اس کے لئے اس نے 50 ہزار امریکی ڈالر ادا کئے جو اس کمپنی نے خوشی خوشی لے لئے۔</div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
آپریٹنگ سسٹم سے لیس ہونے کے بعد بل گیٹس جب آئی بی ایم پہنچا تو اس کی ایک ہی شرط تھی۔ وہ اسے کسی دوسرے کو بھی بیچ سکتا تھا۔ گیٹس کیونکہ سافٹ ویئر بناتا تھا لہٰذا اس کے دماغ میں ایک بڑا زبردست خیال چل رہا تھا کہ اس کے بنائے ہوئے سافٹ ویئر کسی بھی مشین پر چل سکیں ۔ آئی بی ایم یہ سودا کرتے ہوئے چوک گیا اور یوں گیٹس نے آئی بی ایم کو مائیکرو سافٹ ڈوس کا نان ایکسکلوسیو لائسنس ٹکا دیا۔ اب مائیکروسافٹ کے پاس دنیا میں کسی بھی کمپیوٹر کمپنی کو اپنا آپریٹنگ سسٹم کو بیچنے کا حق حاصل تھا۔ شاید یہ معاہدہ تاریخ میں سب سے زیادہ کامیاب معاہدے کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔</div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
ڈوس سے فروخت ہونے والی آمدنی نے مائیکرو سافٹ کو کافی امیر بنا دیا تھا اور روپے کا مطلب ہوتا ہے طاقت اور جب کسی کے پاس بے پناہ طاقت آ جائے تو وہ اپنی مرضی سے کاروبار چلا سکتا ہے۔</div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
اسٹیو جابز دور ہی سے گیٹس کو کمپیوٹر کے بزنس میں تسلط جماتا دیکھ رہا تھا۔ آئی بی ایم کے پرسنل کمپیوٹر کا ایپل نے خوب مذاق اڑایا۔ ان کے خیال میں یہ بڑا، بھاری اور بھدا ڈبہ تھا۔ تاہم وہ سمجھ گئے تھے کہ اب آئی بی ایم کے آنے کے بعد مارکیٹ کا بڑا حصہ اس کے پاس چلا جائے گا۔ جابز جانتا تھا کہ اگر ایپل کو مارکیٹ میں رہنا ہے تو اسے کچھ بڑا سوچنا ہوگا۔ جیف راسکن نے انھیں زیروکس پارک سینٹر جانے کی تجویز دی۔ اس کا خیال تھا کہ ان کے پاس کوئی ایسی چیز موجود تھی جسے انھیں دیکھنا چاہئے تھا۔ اس چیز کو انہوں نے سات پردوں میں چھپا رکھا تھا۔ اسٹیو نے انھیں پیش کش کی کہ اگر وہ اپنی کمپنی کا مکمل دورہ کروائیں تو یہ ان کے دس لاکھ ڈالر اپنی کمپنی میں بطور سرمایہ لگا لے گا۔ اسٹیو جابز کو معلوم نہیں تھا کہ وہ جو چیز دیکھنے جا رہا تھا وہ اس کی زندگی، کمپنی اور دنیا کو بدل کر رکھ دے گی۔</div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
انہوں نے وہاں دیکھا کہ کمپیوٹر کی اسکرین پر ایک ساتھ دو پروگرام چل رہے ہیں۔ ایک پروگرام ایک ونڈو میں اور دوسرا دوسری ونڈو میں۔ وہ اس کی اہمیت کو پوری طرح نہیں سمجھے تھے۔ بس انھیں یہ دیکھنے میں بہت اچھا لگ رہا تھا۔ کسی نے کہا کہ آپ نے اگر ایک مرتبہ یہ استعمال کرلیا تو آپ کو اس کے علاوہ کسی اور چیز میں مزہ نہیں آئے گا۔ زیروکس کے لئے یہ ایک تجربہ تھا جبکہ اسٹیو کی دور رس نگاہیں کچھ اور دیکھ رہی تھیں۔ زیروکس ایک بہت بڑی کمپنی تھی اسے اس بات کا کوئی اندازہ نہیں تھا کہ اس ونڈو پروگرام کو پرسنل کمپیوٹر کے لئے کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جابز نے گرافیکل یوزر انٹرفیس (جی یو آئی) کا خیال زیروکس سے مستعار لیا۔ اس نے ایک ٹیم بنائی جس کا کام جی یو آئی کو نئے میکنٹوش کہلانے والے کمپیوٹر پر چلانا تھا۔ جابز نے اس ٹیم کے لئے صرف ایک ہی شرط رکھی کہ اس کا ہر رکن اتنا ہی سرشار ہو کر کام کرے گا جتنا کہ جابز۔</div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
اسٹیو کے ذہن میں کچھ خاص تھا۔ اسے جی یو آئی بنانے کی جلدی تھی۔ اس کی ٹیم زبردست دباؤ میں تھی۔ تاہم اس سے جو کوئی بھی ملا ہے وہ اس بات کی گواہی دے گا کہ وہ روئے زمین کی ایک زبردست کرشماتی شخصیت تھی۔ میکنٹوش کو بنانے میں اسٹیو کی تمام تر توانائیاں لگ رہی تھیں اس وقت اسے احساس ہوا کہ کمپنی کو ایک ایسے انسان کی ضرورت ہے جو ایپل کو چلائے ایک ایسا شخص جو بہت اچھا منتظم اور فروخت کرنے والا ہو۔</div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
اسٹیو ہر شعبے کو دیکھ رہا تھا لیکن وہ کوئی بہت اچھا منتظم نہیں تھا۔1983 میں پیپسی کے سابقہ ملازم جان اسکلی نے ایپل میں بطور نئے سی ای او کے قدم رنجا فرمائے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب جابز میکنٹوش کو مکمل کرنے کے قریب تھا۔ جب سافٹ ویئر کی باری آئی تو ایپل کی پسند ایک بار پھر گیٹس ہی تھا۔ جابز چاہتا تھا کہ گیٹس اس کی تازہ ترین ایجاد میں اپنا حصہ ڈالا۔ جابز سمجھ رہا تھا کہ اس کی یہ نئی ایجاد ایپل کا مستقبل ہوگی۔ اس نے اس کا سلوگن بھی سوچ لیا تھا۔"ٹیکسٹ ماضی کی بات ہے۔ مستقبل کے لئے خوش آمدید"۔ اسٹیو اپنے نئے جی یو آئی کے لئے بہت پر امید تھا کیونکہ یہ واقعی میں بہت اچھا اور زبردست تھا۔ گیٹس کا بھی یہی خیال تھا اور وہ چاہتا تھا کہ مائیکروسافٹ اس کے لئے سافٹ ویئر بنا کر ایپل کا حصہ بنے۔ تاہم گیٹس اس سے بھی آگے کی سوچ رہا تھا۔ جب گیٹس نے پہلی مرتبہ جی یو آئی دیکھا ہوگا تو اس کا دل بھی للچایا ہوگا کہ کسی طرح وہ مائیکروسافٹ میں ایسا جی یو آئی بنائے۔ کیونکہ یہی وہ طریقہ تھا جو مستقبل کے کمپیوٹرز میں استعمال ہونا تھا۔ ونڈو اسکرین پر آگے پیچھے کی جا سکتی تھی۔ ایک ساتھ دو ونڈو کھولی جا سکتی تھیں۔ بل گیٹس نے طے کرلیا تھا کہ وہ مائیکروسافٹ میں جی یو آئی خود سے بنائے گا جس کا نام اس نے "انٹرفیس مینیجر" رکھا۔ لیکن 1983 میں ایک مختلف نام ذہن میں آیا "ونڈوز"۔</div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
جب میکنٹوش کی رونمائی میں ایک ہفتہ رہ گیا تو اسٹیو کو ونڈوز کی خبر ملی۔ میکنٹوش کی تیاری میں اسٹیو نے اپنے تین برس صرف کر دئیے تھے۔ جس انسان کو وہ اپنا دوست سمجھ رہا تھا اس نے اس کے خلاف اعلان جنگ کر دیا تھا۔ جابز بہت دکھی تھا اس نے گیٹس پر اعتماد کیا۔ اس نے گیٹس سے جو بھی معاہدہ کیا وہ اس کی خوشی کے ساتھ کیا اور اب گیٹس نے اس کی پیٹ میں چھرا گھونپ دیا۔ جابز اس بات کو برداشت نہیں کر سکتا تھا۔</div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
بل گیٹس ایک ہوشیار کاروباری آدمی تھی۔ اس نے موقع بھانپ لیا تھا وہ ایک عظیم کمپنی بنانا چاہتا تھا۔ ایک مضبوط کمپنی۔ اس کے لئے وہ کچھ بھی کر سکتا تھا۔ ونڈوز کی تیاری میں اب بھی دو برس باقی تھے تاہم گیٹس جانتا تھا کہ اس کو جابز کے اعلان سے پہلے یہ کام کرنا ہے۔ اس طرح کے کاموں میں وقت کی اصل اہمیت ہوتی ہے۔ اسٹیو کا خواب گیٹس نے چرا لیا تھا۔ تاہم گیٹس کے برخلاف اس کے پاس تیار پروڈکٹ موجود تھی جو قابل فروخت تھی۔ اور پھر جابز کو چیزوں کو بیچنا آتا تھا۔</div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
جب میکنٹوش کی رونمائی ہوئی۔ تو کمپیوٹر نے خود خوش آمدید کہا۔ میک اپنے زمانے کی حسینہ پسینہ تھی۔ شاید دینا کا پہلا حسین ترین کمپیوٹر۔ اس کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا جیسے وہ مسکرا رہی ہو۔ اس کو چلانا بہت زیادہ آسان تھا۔ اسٹیو کا دل جھوم رہا تھا۔ میکنٹوش کی رونمائی شاندار تھی۔ تاہم کمپیوٹر بہت ہی سست تھا اور اس کی فروخت زیادہ نہیں ہورہی تھی۔ اس کی فروخت میں تیزی سے کمی آ رہی تھی ان کے پاس ایک ماہ میں 80 ہزار میک بنانے کی سہولت تھی جبکہ وہ بک صرف 5 سو رہے تھے۔ ایپل کے حصص کی قیمت آدھی ہو گئی تھی۔ یہ کمپنی کے لئے ایک بھیانک خواب بن گیا تھا۔ </div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
کمپنی کے بورڈ نے اس وقت یہ تلخ فیصلہ لیا کہ اسٹیو کو اس کے مقام سے ہٹا دیا جائے۔ اسٹیو کے لئے یہ بہت تکلیف دہ بات تھی۔ اس نے یہ بورڈ تشکیل دیا تھا۔ بورڈ سمجھ رہا تھا کہ اسٹیو پیسے کا بیدردی سے استعمال کر رہا تھا لہٰذا کمپنی کی صحت کے لئے اسے ہٹانا ناگزیر تھا۔ بالآخر اسے اس کمپنی سے ہٹا دیا گیا جس کی بنیاد اس نے خود رکھی تھی۔ وہ آدمی جسے کمپنی کا ان داتا سمجھا جاتا تھا اسے کھڈے لائن لگا دیا گیا تھا۔</div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
اس کا دشمن بل گیٹس مائیکرو سافٹ کو عظیم کمپنی میں تبدیل کرنے میں جتا ہوا تھا۔ اس وقت تک ایم ایس ڈوس کروڑوں کمپیوٹرز پر بطور آپریٹنگ سسٹم کام کر رہا تھا۔ 20 نومبر 1985 کو بل گیٹس کی مائیکرو سافٹ نے دنیا کو ونڈوز سے متعارف کروایا۔ بل گیٹس کو احساس ہو گیا تھا کہ کمپیوٹرز بنانے والے کئی ہیں تاہم ان کے لئے ایک جیسا سافٹ ویئر کسی نہ کسی کو لکھنا ہوگا۔ ایک معیاری آپریٹنگ سسٹم کی بہت اشد ضرورت ہے جو ہر طرح کے کمپیوٹرز پر چلایا جا سکے۔ </div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
ونڈوز نے کمپیوٹر کے بزنس میں طوفانی رفتار سے اپنی اجارہ داری قائم کرنی شروع کردی۔ 1980 کی دہائی کے خاتمے تک دنیا کے 80 فیصد کمپیوٹرز مائیکرو سافٹ کا آپریٹنگ سسٹم استعمال کر رہے تھے۔ بل گیٹس دنیا کا نوجوان ترین ارب پتی بن چکا تھا۔ مائیکرو سافٹ نے اپنے آپریٹنگ سافٹ ویئر کے ساتھ اضافی پروگرام بھی دینا شروع کر دیئے۔ آج کل تو ہم جب کمپیوٹر خریدتے ہیں تو ہمارے کمپیوٹرز میں پہلے ہی سے ورڈ پروسیسر ، اسپریڈ شیٹس وغیرہ موجود ہوتی ہیں۔ بل گیٹس نے وہ تمام سافٹ ویئر جو کسی جدید کمپیوٹر میں ہونے چاہئے تھے ایک ساتھ اس طرح جمع کردئیے کہ اس سے مائیکرو سافٹ کی اجارہ داری قائم ہو گئی۔ </div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
1990 کی دہائی میں مائیکرو سافٹ کی یہ اجارہ دارنا چال اس کو مہنگی پڑنی شروع ہوگئی۔ اس کے حریفوں نے اس پر اجارہ داری قائم کرنے کا الزام لگانا شروع کر دیا۔ آپریٹنگ سافٹ ویئر کے ساتھ دوسرے پروگرام پہلے سے انسٹال کرکے دینے کی وجہ سے محکمہ انصاف کے پاس کافی شکایتیں جمع ہو گئیں کہ مائیکرو سافٹ کے تجارتی عمل ناجائز ہیں۔ اس کے اس طرز عمل سے مارکیٹ میں نئی جدت لانے کی حوصلہ شکنی ہو رہی ہے۔ یہ دوسرے لوگوں کے سافٹ ویئر کے بزنس کو کچل رہی ہے۔</div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
ادھر بل گیٹس قانونی معاملات میں الجھا ہوا تھا ادھر ایپل کی حالت بھی کچھ اچھی نہ تھی۔ جابز کے بغیر ایپل میں کوئی نئی جدت نہیں آرہی تھی۔ وہ پرانی مصنوعات کو ہی نچوڑ رہے تھے۔ ان کے پاس کوئی اچھا نیا آپریٹنگ سسٹم بھی نہیں تھا۔ کمپیوٹر کی دنیا میں ونڈوز کے بڑھتے ہوئے حصے نے ایپل کا حصہ 4 فیصد تک محدود کر دیا تھا۔ 1996 میں ایپل کا خسارہ ایک ارب ڈالر تک پہنچ گیا تھا۔ ایپل حالات سے بری طرح لڑ رہی تھی۔ ایک کے بعد ایک کئی سی ای اوز کو بدلا گیا۔ حالت یہ ہوگئی تھی کہ ایک یا دوماہ کے اندر اندر ایپل دیوالیہ ہو جاتی۔ ایپل بس ختم ہونے کو تھی۔ 12 برس تک اسٹیو کو کمپنی سے زبردستی باہر نکالنے کے بعد بورڈ نے اسٹیو سے درخواست کی کہ وہ واپس آ جائے۔ تاہم اس سے پہلے کہ وہ ایپل کو راہ راست پر لاتا۔ جابز جانتا تھا کہ اسے جلد سرمائے کی ضرورت ہوگی۔ اسے حاصل کرنے کے لئے اسٹیو نے جس سے مدد مانگی وہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔</div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
اسٹیو نے گیٹس کو احساس دلایا کہ اگر وہ ایپل کا سفینہ ڈوبنے سے بچانے میں مدد کرے تو یہ خود اس کے لئے فائدہ مند ہوگا۔ کھیل کے اس لمحے میں گیٹس بھی نہیں چاہتا تھا کہ ایپل کھیل سے باہر ہو جائے۔ کیونکہ کھیل میں کمزور کھلاڑی کی موجودگی میں جیتنا آسان ہوتا ہے۔ حریف کے نہ ہونے سے بہتر کمزور حریف کا موجود ہونا ہے۔ ایسے میں لوگ اس پر یہ الزام نہیں لگا سکتے کہ پوری مارکیٹ پر اسی کا قبضہ ہے۔</div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
جابز نے اپنی کمپنی کے لوگوں کو بتایا کہ ایپل جس نظام میں کام کر رہی ہے اسے دوبارہ نفع بخش بننے کے لئے اس نظام کے دوسرے شراکت داروں سے مدد درکار ہے۔ جب انھیں معلوم ہوا کہ ان کی مدد گیٹس کرے گا تو کمپنی کے لوگوں نے طنز کے تیر چلائے۔ گیٹس کی شہرت اجارہ دار اور لڑنے بھڑنے والی شخص کی تھی۔ پوری کمپنی ونڈوز، گیٹس اور پی سیز سے نفرت کرتی تھی۔ ان تمام باتوں کے باوجود گیٹس نے ایپل میں 15 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔ کمپنی کی سانس بحال ہوتے ہی جابز نے ذرا بھی دیر نہیں لگائی۔</div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
اسٹیو نے پورا کنٹرول سنبھال لیا۔ اس نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ایپل کی بنی ہوئی مصنوعات حد درجہ خوبصورت ہوں۔ 2001 میں اسٹیو نے کمپیوٹرز کی دنیا سے باہر قدم رکھا۔ اس زمانے میں ایم پی 3 پلیئر موجود تھے۔ کسی کو بھی جیب میں رکھے ہزاروں گانوں کی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن اسٹیو نے کہا "میں کچھ ایسی چیز بناؤں گا کہ لوگوں کو معلوم ہی نہیں ہوگا کہ انھیں وہ چیز چاہئے لیکن جب وہ ایک بار اسے دیکھ لیں گے تو بے اختیار کہہ اٹھیں گے کہ ہمیں بھی یہی چاہئے۔" یوں آئی پوڈ کا جنم ہوا۔ لیکن اسی پر بس نہیں ہوا۔ اسٹیو نے اس سے بھی زیادہ سوچا ہوا تھا۔ لہٰذا اس نے آئی فون متعارف کروایا۔</div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
2007 آئی فون کی خریداری کے لوگ قطار میں 100 گھنٹے تک کھڑے رہے۔ اسی کے ساتھ ایپل نے دنیا کی سب سے زیادہ منافع بخش کمپنی بننے کے راستے پر قدم رکھ دیا۔ آئی فون اس تصور کے ساتھ پیش کیا کہ آپ اپنے ہاتھ میں کمپیوٹر کو لے کر گھوم سکیں۔</div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
اگر ہم سے کہا جائے کہ اس دور میں کسی ایک شخص کا نام لو جس نے ٹیکنالوجی پر اپنا اثر و رسوخ ایسا ڈالا کہ سب اس کی پیروی میں لگ گائے تو وہ نام اسٹیو جابز کا ہوگا۔</div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
اسٹیو جابز کی شخصیت کا ڈنکا بجنے لگا تھا جبکہ بل گیٹس کی شہرت کچھ خاص اچھی نہیں تھی۔ بل گیٹس بھی چاہتا تھا کہ لوگ اس سے پیار کریں۔ تاریخ میں اس کا نام اچھے لفظوں سے لکھا جائے۔ اپنی میراث کا قرض چکانے کے لئے، دنیا کے امیر ترین آدمی یعنی بل گیٹس نے خدمت خلق شروع کردی۔ اس نے خدمت خلق صرف اس لئے نہیں شروع کی تھی کہ وہ دنیا کو امن و سکون کا گہوارہ دیکھنا چاہتا تھا بلکہ وہ اپنی شخصیت کا تاثر بہتر کرنا چاہتا تھا۔ وہ اپنے ماضی کی خود غرضانہ شہرت سے نجات چاہتا تھا۔</div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن دنیا کی سب سے بڑی پرائیویٹ فاؤنڈیشن بن چکی ہے۔ گیٹس اب بہت زیادہ رحم دل اور سیانا ہو چکا ہے وہ تمام انسانوں کو برابر سمجھتا ہے اور چاہتا ہے کہ جب وہ اس دنیا سے رخصت ہو تو یہ دنیا امن کا گہوارہ بن چکی ہو۔</div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
کافی عرصے تک اسٹیو جابز خبروں سے باہر رہا۔ اسے لبلبے کا سرطان تشخیص ہوا تھا۔ 2011 میں اپنی صحت کے مسائل کی وجہ سے جابز نے ایپل سے بطور سی ای او استعفا دے دیا تھا۔ اسے معلوم تھا یا نہیں کہ وہ مر رہا ہے تاہم اتنا اسے ضرور معلوم تھا کہ اس کے پاس وقت کم ہے۔ شاید وہ جانتا تھا کہ لوگ اسے مرنے کے بعد یاد رکھیں گے۔ اس کی موت کا سوگ پوری دنیا میں اس کے چاہنے والوں نے منایا۔</div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
اس کے موت کے اگلے برس ایپل سیارہ زمین پر سب سے زیادہ بیش قیمت کمپنی بن گئی۔</div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
اسٹیو جابز اور بل گیٹس کا تعلق بہت ہی پیچیدہ تھا۔ ایک طرح سے وہ ایک دوسرے کے ساتھی تھے۔ پورے راستے وہ ایک دوسرے کے ساتھ رہے۔ کبھی دشمن بن کر تو کبھی دوست بن کر۔ وہ ایک دوسرے کے لئے بغض رکھتے تھے۔ تاہم آخر میں انھوں نے صلح کر لی تھی آخر کو دونوں اس صنعت کے بانیان میں سے تھے۔</div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
#جہان_سائنس #اردو #سائنس #ترجمہ #ٹیکنالوجی #کمپیوٹر #مائیکروسافٹ #ایپل #اسٹیو_جابز #بل_گیٹس #امریکن_جینئس #امریکی_عبقری</div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
#jahanescience</div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="RTL" style="direction: rtl; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
</div>
Zuhair Abbashttp://www.blogger.com/profile/04666510644854788654noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1929777235422729587.post-30835737518153375882019-09-20T13:32:00.000+05:002019-09-20T13:32:14.591+05:00جارج ایسٹ مین <div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
جارج ایسٹ مین - کیمرے کی (کوڈک)فلم بنانے والا </h2>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjTJpu2dsT76wkCrP0rKuCas6s0ujRx-Qafc_hjaL67XD8mzvVV3-sm2aLAVnvJhPVun8Jo2Q329cdL69Qsa7gaXKZxUgmXC8fEVNpPaGNIT41_Wl_nk0VxmK-oPWMClrP17jyoQj8s7y8/s1600/georgeeastman-1380.jpg" imageanchor="1"><img border="0" height="298" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjTJpu2dsT76wkCrP0rKuCas6s0ujRx-Qafc_hjaL67XD8mzvVV3-sm2aLAVnvJhPVun8Jo2Q329cdL69Qsa7gaXKZxUgmXC8fEVNpPaGNIT41_Wl_nk0VxmK-oPWMClrP17jyoQj8s7y8/s640/georgeeastman-1380.jpg" width="640" /></a></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
جارج ایسٹ مین آج سے ایک سو پینسٹھ سال پہلے امریکہ میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ بہت غریب آدمی تھا ۔ ایسٹ مین کی ماں پڑھی لکھی تھی اور اسے اپنے بیٹے کو پڑھانے کا بہت شوق تھا ۔ جارج گھر پر پڑھنے لگا ۔ جب وہ سات سال کا ہوا تو اس کا باپ مر گیا - باپ کے مرنے سے ایسٹ مین کے گھر کی حالت اور بھی خراب ہو گئی. ایسٹ مین کی ماں خاوند کی موت سے بہت دکھی تھی ۔ اس کا صرف ایک ہی بیٹا تھا۔ ایسٹ مین ، وہ بھی کمسن - ایسٹ مین کی دو بہنیں تھیں ۔ اس کی ماں پریشان تھی کہ اپنے بچوں کا اور اپنا پیٹ کیسے پالے گی۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
ایسٹ مین کی ماں کو اس کے نیک ہمسایوں نے مشورہ دیا کہ وہ خود ہی کوئی کام شروع کر دے ۔ بہت سوچ بچار کے بعد ایسٹ مین کی ماں نے بچوں کے لئے ایک بورڈنگ ہاؤس کھول دیا بچے ارد گرد کے علاقوں سے آ کر روچسٹر میں پڑھتے تھے اور وہ بورڈنگ ہاوس میں رہنے لگے. ایسٹ مین کی ماں ان طالبعلموں سے بہت کم کرایہ لیتی اور ان سب کے رہنے کے لئے بڑا اچھا انتظام کرتی ۔ طالب علموں کی پوری طرح دیکھ بھال بھی کرتی ۔ اس سے کچھ پیسے کما کر وہ اپنے بچوں کو پالنے لگی۔ ایسٹ مین کو ماں سے بڑی محبت تھی اور وہ ہمیشہ ماں کا ہاتھ بٹایا کرتا۔ ایسٹ مین کچھ سیانا ہوا تو اس نے سوچا کہ وہ اپنی بیوہ ماں پر بوجھ بنا ہوا ہے. لہذا کہیں نوکری کر کے ماں کی پریشانیاں دور کرنی چاہئے۔ ایسٹ مین سارا دن ماں کے ساتھ بورڈنگ ہاؤس میں کام کرتا اور شام ہوتے ہی شہر جا کر نوکری ڈھونڈتا۔ تھوڑے عرصے کی تلاش کے بعد ایسٹ مین کو ایک دفتر میں چپڑاسی کی ملازمت مل گئی ۔ یہاں اسے ہفتے کے بعد "تین ڈالر" تنخواہ ملتی تھی۔ ایسٹ مین کو جس وقت تنخواہ ملتی وہ ساری رقم لا کر ماں کے ہاتھ میں دیتا۔ ماں خوش ہو کر بیٹے کو سینے سے لگا لیتی ۔ ایسٹ مین کی ماں کو اس بات کا بڑا دکھ تھا کہ اس کا بیٹا اتنی چھوٹی عمر میں پورا دن چپڑاسیوں کا کام کرتا ہے ۔ لیکن اس کا اور کوئی بیٹا نہیں تھا۔ پھر خاوند بھی مر چکا تھا۔ ایسٹ مین نے دوسروں کی طرح کبھی قسمت کا گلہ نہیں کیا ۔ وہ دفتر میں سارا دن کام کرتا اور رات ماں کے پاس بیٹھ کر پڑھتا رہتا۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
دفتر میں اس کے افسر نے جب دیکھا کہ ایسٹ مین پڑھا لکھا ہے۔ اسے دفتر میں ایک کلرک کی جگہ کام کرنے کو کہا۔ ایسٹ مین نے یہ کام بہت اچھی طرح سے کیا ۔ اس کا افسر بہت خوش ہوا ۔ اور ایسٹ مین کو کلرک بنا دیا گیا ۔ ترقی پا کر ایسٹ مین بھاگا بھاگا گھر پہنچا اور ماں کو خوشخبری دی ۔ اس کی ماں خوشی سے پھولی نہ سمائی ۔ ایسٹ مین کی بہنیں بھی بہت خوش تھیں۔ وہ کہتی تھیں کہ اب ہمارے دن پھر جائیں گے ۔ ایسٹ مین نے کلرک بننے کے بعد اپنی محنت جاری رکھی - وہ بہت محنتی اور ذہین لڑکا تھا ۔ وہ کچھ عرصے اپنے دفتر میں کام کرتا رہا ۔ پھر اسے روچسٹر کے ایک بنک میں جگہ مل گئی ۔ بینک میں تنخواہ زیادہ ملتی تھی اس لئے ایسٹ مین بینک میں کلرک ہو گیا ۔ پڑھائی کے ساتھ ساتھ اسے کیمرے سے تصویریں اتارنے کا بھی بڑا شوق تھا۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
ایسٹ مین پہلے کی طرح اب بھی پوری تنخواہ ماں کے حوالے کر دیتا تھا ۔ لیکن اب وہ کچھ پیسے بھی جمع کر رہا تھا . جب کچھ رقم جمع ہو گئی تو اس نے ایک کیمرہ خرید لیا۔ ایسٹ مین یوں تو دکان سے اپنے دوستوں کے ساتھ تصویریں خریدنے جاتا تھا اور کبھی کبھی کسی کا کیمرہ مل جاتا تو تصویر بھی اتار لیتا تھا ۔ لیکن پھر اسے یوں لگا جیسے اسے ٹھیک طرح سے تصویریں اتارنا نہیں آتیں۔ اب اس نے اپنا کیمرہ خریدا تو ایک دوست سے فوٹو کھینچنے کے طریقے سیکھنے لگ۔ وہ کتنے عرصے تک فوٹو گرافی کی تعلیم حاصل کرنے کرتا رہا۔ جب یہ تعلیم مکمل کر لی تو اینا کیمرہ اٹھا کر شہر سے باہر چلا گیا اور قدرتی مناظر کی تصویریں اتارنے لگتا. ایسٹ مین کو تصویریں اتارنے میں اتنا لطف آتا کہ چھٹی کے روز وہ سارا سارا دن تصویریں اترتا رہتا -اب ایسٹ مین نے تصویریں دھونے کا انتظام بھی خود ہی کیا۔ وہ پیسے بچا بچا کر تصویریں دھونے کے مسالے اور تصویریں بنانے کی پلیٹیں خریدتا۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
اس زمانے میں فلم ایجاد نہیں ہوئی تھی لوگ گیلی پلیٹوں پر تصویریں اتارتے تھے. ایسٹ مین نے سوچا کہ گیلی پلیٹوں پر تصویریں ایک تو صاف نہیں آتی ہیں ۔ اور دوسرے جلدی خراب ہو جاتی ہیں۔ کوئی ایسی چیز ہونی چائے جس پر تصویر بڑی آسان سے صاف اتر آئے اور تصویر کے خراب ہونے کا خطرہ بھی نہ رہے۔ ایسٹ مین نے فوٹو گرافی سے متعلق کئی کتابیں اور رسالے خریدے۔ جب بھی دفتر سے گھر آتا یہ کتابیں اور رسالے لے کر پڑھنے بیٹھ جاتا۔ ایسٹ مین نے کئی دوستوں سے مشورہ کیا اور کئی مسالے خرید کر راتوں کو تجربے کرنے لگا۔ آخر کار اس نے تصویریں اتارنے کے لئے شیشے کی خشک پلیٹ ایجاد کر لی - اس کی یہ ایجاد فورا شہر میں مشہور ہو گئی ۔ ایسٹ مین کے دوستوں نے کہا کہ اب اسے لندن جانا چاہئے کیونکہ ان دنوں لندن میں فوٹوگرافی کا بڑا زور تھا۔. لندن جانے کے لئے روپیہ ایسٹ مین کے دوستوں نے جمع کیا ۔ اور ایسٹ مین اپنی ماں سے اجازت لے کر لندن چلا گیا۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
ایسٹ مین نے لندن کے دوکان داروں کو اپنی تیار کی ہوئی شیشے کی خشک پلیٹیں دکھائیں ۔ دوکان داروں نے فورا یہ پلیٹیں خرید لیں۔ ایک دکان دار نے ایسٹ مین سے کہا کہ اپنی ایجاد کو. عام کرنے سے پہلے اسے رجسٹر کرا لو تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اسی طرح کی پلیٹیں کوئی اور بنا کر روپیہ کمانے لگے ۔ ایسٹ مین نے اپنی ایجاد لندن میں رجسٹر کرا لی۔ پھر وہ امریکہ واپس آیا ۔ یہاں بھی اپنی ایجاد رجسٹر کرائی۔ جب وہ اپنی خشک پلیٹیں لے کر نیو یارک گیا تو وہاں دوکانداروں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا ۔ ایسٹ مین نے بینک سے جو چھٹی لی تھی اب وہ ختم ہو چکی تھی ۔ لہذا وہ پھر بینک جانے لگا لیکن اب پلیٹیں بنانے کے لئے زیادہ کام کرنے کی ضرورت تھی۔ اس لئے اس نے نوکری چھوڑ دی ۔ اور دن رات خشک پلیٹیں تیار کرنے لگا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
ایسٹ مین جتنا محنتی تھا اتنا ہی سمجھ دار بھی تھا۔ اس کی ماں بھی بیٹے کو سمجھاتی رہتی تھی۔ ماں کے کہنے پر ایسٹ مین نے کچھ رقم جمع کی اور اس رقم سے فوٹو گرافی کی دوکان کھول کی ۔ کاروبار کرتے ہوئے بھی ایسٹ مین نئے نئے تجربے کرتا رہتا ۔ ایسٹ مین نے دیکھا شیشے کی پلیٹیں کیمرے سے نکالتے وقت ٹوٹ جاتی ہیں اور اس کی تصویر ضائع ہو جاتی ہے ۔ ایسٹ مین نے دن رات محنت کر ایسی فلم تیار کی جسے لپیٹا جس سکتا تھا۔ ایک مشین کے ذریعے اس کی لمبی پٹی کو فلم کی طرح سے لپیٹ لیا جاتا تھا ۔ انہی دنوں ایسٹ مین نے کوڈک کیمرہ بھی ایجاد کر لیا ۔ آپ نے بھی یہ کیمرہ دیکھا اور اس کے متعلق سنا ہوگا ۔ اس زمانے میں یہ کیمرہ ایجاد ہوتے ہی مشہور ہو گیا تھا۔ شروع میں ایسٹ مین کے بنائے ہوئے کیمرے کی ایک امریکی فلم پر ایک سو تصویریں اتاری جاتیں . جو لوگ یہ کیمرہ استعمال کرتے وہ تصویریں اتار کر کیمرے سمیت پوری فلم ایسٹ مین کو بھیج دیتے. ایسٹ مین کے کاریگر خود ہی کیمرے سے فلم نکالتے اسے دھوتے اور تصویریں تیار کر کے مالک کو بھیج دیتے . اس زمانے مشہور سائنس داں ایڈی سن چلتی پھرتی فلم تیار کرنے میں مصروف تھے۔ اس نے جب پہلی چلتی پھرتی تصویر ایجاد کی تو اس میں جو فلم استعمال کی وہ ایسٹ مین ہی کی تیار کی ہوئی تھی۔ ایسٹ مین کا کیمرہ اور فلم خوب بکنے لگی۔ اس سے ایسٹ مین کو بہت فائدہ ہوا اور اس کا غریب خاندان بہت امیر ہو گیا ۔ ایسٹ مین کا کاروبار اس قدر بڑھا کہ وہ لاکھوں میں کھیلنے لگا ۔ لیکن اس قدر امیر ہونے کے باوجود ایسٹ مین ہمیشہ کہا کرتا تھا کہ میں اپنی غریبی کے دن کبھی نہیں بھولتا - غریبی کے دن ایسٹ مین کی ماں کو بھی یاد تھے۔ وہ اب بھی بیٹے سے بہت محبت کرتی تھی۔ وہ بیٹے کا بستر خود بچھاتی - اس کے لئے دستانے تیار کرتی ۔ ایسٹ مین کی ماں بوڑھی ہو چکی تھی۔ لیکن پھر بھی وہ اپنے بیٹے کے لئے کبھی نہ کبھی کھانا تیار کر دیتی تھی۔ ایسٹ مین بہت امیر ہو گیا . تو اس نے اپنی ماں کے رہنے کے لئے بہت شاندار مکان تیار کرایا۔ یہ مکان اتنا بڑا اور اچھا تھا کہ کئی لوگ اسے محل کہتے تھے۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
ایسٹ مین کی ماں فوت ہو گئی تو ایسٹ مین کا دل اچاٹ ہو گیا- ماں کی موت سے وہ اس قدر اداس اور دکھی تھا کہ اب کام میں بھی اس کا دل نہیں لگتا تھا۔ ایسٹ مین خود بھی بیمار رہنے لگا تھا۔ اب وہ اکثر کہا کرتا کہ جو آدمی بیکار ہو جائے ۔ اسے زندہ نہیں رہنا چاہیئے ۔ ایک تو اسے اپنی ماں کی موت کا دکھ تھا ۔ دوسرے وہ بیمار رہتا ۔ اسی لئے وہ جینے سے بیزار ہو گیا۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
ایک روز جبکہ سخت سردی پڑ رہی ملتی ۔ ایسٹ مین اپنے شاندار مکان کے خوبصورت سجے ہوئے کمرے میں لیٹا ہوا تھا ۔ وہ بیمار ہونے کی وجہ سے کئی دنوں تک گھر سے باہر نہیں نکلا تھا گیارہ بجے کے قریب اس کے کچھ دوست آئے . ایسٹ مین اپنے دوستوں سے باتیں کرتا رہا۔ جب اس کے دوست چلے گئے تو ایسٹ مین نے اپنی وصیت لکھی - ایسٹ مین نے ساری عمر شادی نہیں کی تھی۔ اس لئے اس کی کوئی اولاد نہیں تھی ۔ اس نے وصیت نامے میں لکھا کہ اس کی دولت اسکولوں اور کالجوں کی مدد کے لئے دے دی جائے۔ وصیت نامہ لکھنے کے بعد ایسٹ مین ایک سگریٹ پیتا رہا ، پھر آدھا سگریٹ میز پر رکھا ۔ ایک رقعہ لکھا ریوالور سے گولی چلا کر خود کشی کر لی۔ ریوالور سے گولی چلنے کی آواز سن کر آس پاس کے لوگ بھاگے بھاگے آئے اور دیکھا کہ جارج ایسٹ مین مر چکا ہے ، اس کی میز پر ایسٹ مین کا رقعہ پڑا ہے جس میں لکھا تھا ۔ " میں نے جو کام کرنا تھا کر چکا ۔اب کس چیز کا انتظار کروں۔" </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
اس کی موت کی خبر پورے امریکہ میں پھیل گئی اور لوگوں کو یہ سن کر بہت دکھ ہوا۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
جارج ایسٹ مین نے اپنی زندگی میں بڑا کام کیا تھا ۔ اس نے فوٹوگرافی کو سستا کر کے لوگوں پر احسان کیا . فوٹو گرافی کے علاوہ وہ ہمیشہ اسکولوں اور دوسرے اداروں کی مدد کیا کرتا ۔ اس نے اپنے وطن روچسٹر میں ایک یونیورسٹی قائم کی ۔ اور آکسفورڈ یونیورسٹی کی مدد کی تھی ۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
درج بالا مضمون سبھاش چندر کی کتاب "عالمی سائنسدان" سے لیا گیا ہے۔ اس کتاب کو<a href="https://drive.google.com/file/d/1DTDpyoQ9XIPBcOdLfWwmmAzkQ2jtwTMS/view?usp=sharing"> یہاں سے پڑھا اور ڈاؤنلوڈ</a> کیا جاسکتا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br />
#جہان_سائنس #اردو #سائنس #سائنسی_کتب #سائنسی_کتابیں #سبھاش_چندر #عالمی_سائنسدان #جارج_ایسٹ_مین #سائنس_دان #سائنسدان #سوانح_حیات #موجد #ایجاد #ایجادیں<br />
#jahanescience<br />
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<iframe height="360" src="https://drive.google.com/file/d/1DTDpyoQ9XIPBcOdLfWwmmAzkQ2jtwTMS/preview" width="240"></iframe>
</div>
Zuhair Abbashttp://www.blogger.com/profile/04666510644854788654noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1929777235422729587.post-5017193816418030432019-09-19T11:52:00.000+05:002019-09-19T11:52:04.671+05:00شمسی توانائی کی کہانی <div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h2 style="text-align: right;">
آگ کا گولہ - شمسی توانائی کی کہانی </h2>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhVtoTCBujWauBekbFiYLFnzOPKr6XM6hvZIiiHX4XUmtWX0O7m3CJ6Zz8XLfuK0WYo4M8cgUwJzxTmqfB__rpWbfqo5IgJxV9Hk9sR9fa8fmgIL350Rs2Or01Spw9NkCRbcMtUbU23An8/s1600/bulb1.jpg" imageanchor="1"><img border="0" height="376" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhVtoTCBujWauBekbFiYLFnzOPKr6XM6hvZIiiHX4XUmtWX0O7m3CJ6Zz8XLfuK0WYo4M8cgUwJzxTmqfB__rpWbfqo5IgJxV9Hk9sR9fa8fmgIL350Rs2Or01Spw9NkCRbcMtUbU23An8/s640/bulb1.jpg" width="640" /></a></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
ایک صدی پہلے جب توانائی صرف اسٹیم انجن اور پن چرخی ہی سے پیدا کی جا سکتی تھی ۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ اور بہت سے دوسرے ملکوں میں لوگ سورج کی توانائی سے کام لینے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ نصف صدی سے کچھ کم پہلے ایری زونا اور کیلی فورنیا میں شمسی انجن لگائے گئے تھے تاکہ ان سے آبپاشی کے لئے پانی نکالا جا سکے۔ تمام شمسی مشینوں میں سب سے پہلی بڑی مشین پہلی مصر میں دریائے نیل کے پانی حاصل کرنے کے لئے تیار کی گئی تھی۔ یہ جنگ سے پہلے کی بات ہے۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
جب بھاپ چرخ اور گیسولین انجن فی الواقع ہر جگہ دستیاب ہونے لگے تو لوگوں نے شمسی انجنوں کو ترک کر دیا اور ان کے موجدین کو بھلا دیا البتہ دنیا کے صرف ان حصوں میں جہاں ایندھن کم تھے اس خواب کو پورا کرنے کی کوشش جاری رہیں کہ سورج کی کبھی ختم نہ ہو نے والی توانائی کو کام میں لایا جائے، دریں اثناء روایتی ایندھنوں مثلاً لکڑی، کوئلہ ، تیل اور قدرتی گیس کی مانگ تیزی سے بڑھ گئی۔ آج موٹروں ، ہوائی جہازوں، فارموں اور فیکٹریوں کے لے تیز گھروں کو گرم اور ٹھنڈا رکھنے کے لئے زیادہ سے زیادہ توانائی کی ضرورت پڑ رہی ہے۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
چنانچہ ایک مرتبہ پھر انسان نے ان طور طریقوں پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا شروع کر دیا ہے جن کے ذریعے سورج کی توانائی سے کام لیا جا سکے۔ ہم جانتے ہیں کہ جس تیزی کے ساتھ ہم زمین سے نکلنے والے ایندھن کو ختم کر رہے ہیں وہ کافی تشویش ناک ہے اور ایٹمی توانائی کے ہمارے جدید ترین وسیلہ کا انحصار بھی یورینیم اور تھوریم کی سپلائی پر ہے جو نسبتاً محدود ہے۔ صرف شمسی اشعاع ہی دنیا کے لئے توانائی کا ایسا واحد وسیلہ رہ جاتی ہیں جو کبھی ختم ہونے والا نہیں ہے۔ لیکن قبل اس کے کہ ہم اس دائمی وسیلہ سے کام لینے کے مرحلے پر پہونچیں۔ بہت سی نئی دریافتیں کرنا ہوں گی۔ مثال کے طور پر توانائی کا ذخیرہ کرنے کے طریقے ، بڑے رقبہ میں شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کا انتظام ، سورج کی روشنی کے ذریعے سے پانی تحلیل کرنے کے کیمیاوی عملیات۔ یہ شمسی توانائی کے چند ایسے شعبے ہیں جن میں نئی معلومات حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
ان تمام دریافتوں کا اعزاز غالباً ان مردوں اور عورتوں کو حاصل ہو گا جو ابھی لڑکے اور لڑکیوں کی حیثیت سے اسکولوں میں زیر تعلیم ہیں۔ مستقبل کے سائنسدانوں کو سورج کے مطالعہ کی طرف اس لئے رغبت ہوگی کیونکہ مسٹر ہیلسی(HALACY) کی "آگ کا گولا" جیسی کتابوں نے ان کی دلچسپی اور تجسس کے احساسات کو بیدار کر دیا ہے ۔ موصوف نے اس کتاب میں شمسی توانائی کے مختلف سائنسی پہلوؤں کا شاندار پس منظر بیان کیا ہے اور مستقبل میں جو کچھ ہونے والا ہے اس کی ایک مسحور کن جھلک پیش کی ہے۔ سورج اور ان طور طریقوں کے مطابق جن سے کہ دنیائے انسانیت شمسی توانائی سے استفادہ کر سکے بڑھتی ہوئی معلومات میں مسٹر ہیلسی کی اس کتاب سے جو اضافہ ہوگا اپلائڈ سولر انرجی کی ایسوسی ایشن اس کا خیر مقدم کرتی ہے۔<br />
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
جان - آئی - پیلٹ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایسوسی ایشن فار اپلائڈ سولر انرجی </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
مئی 1957</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
نوٹ: یہ کتاب ریختہ پر دستیاب ہے۔مزید<a href="https://drive.google.com/file/d/1cSvRWNUbowv9PBwJn-cFTthzrR5YjKPA/view?usp=sharing"> اس کتاب کو یہاں</a> سے پڑھا اور ڈاؤنلوڈ بھی کیا جاسکتا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
#جہان_سائنس #اردو #سائنس #ترجمہ #انڈین_اکیڈمی #محمد_سلیمان_صابر #ڈی_ایس_ہیلسی_جونیئر #آگ_کا_گولہ #شمسی_توانائی_کی_کہانی #شمسی_توانائی #سائنسی_کتب #سائنسی_کتابیں #اردو_میں_سائنس </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
#jahanescience<br />
<br /></div>
</div>
<iframe height="360" src="https://drive.google.com/file/d/1cSvRWNUbowv9PBwJn-cFTthzrR5YjKPA/preview" width="240"></iframe>
</div>
Zuhair Abbashttp://www.blogger.com/profile/04666510644854788654noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1929777235422729587.post-6991983401054118352019-09-16T15:06:00.001+05:002019-09-16T15:06:45.798+05:00آدم کی کہانی خدا کی زبانی از احسان اللہ خان <div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<h2 dir="rtl" style="text-align: justify;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgbBA6E58Va4-1TPmrjVNJrsi-qRq9facT1qFhRSImfhsNImCA8WxEEhI8r00MRx55Vc2aARi2pVVnYoL6x1nOkGCaukchNzeEoPa2EJl_malNHW-VV6XOfwvoT0BHS8u9mVSlEuSS9FI4/s1600/dce8a1da9c24cd5abc4d699010c3818b.jpg" imageanchor="1"><img border="0" height="422" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgbBA6E58Va4-1TPmrjVNJrsi-qRq9facT1qFhRSImfhsNImCA8WxEEhI8r00MRx55Vc2aARi2pVVnYoL6x1nOkGCaukchNzeEoPa2EJl_malNHW-VV6XOfwvoT0BHS8u9mVSlEuSS9FI4/s640/dce8a1da9c24cd5abc4d699010c3818b.jpg" width="640" /></a></h2>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اس کے قبل میں نے اپنی پہلی دو کتابوں (سائنس اور اجتهاد اور سماج پرسائنس کے اثرات) میں سائنٹفک شواہد سے یہ سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ جو قومیں اپنے بنیادی اصولوں کو برقرار رکھتے ہو ئے اپنا سماجی ڈھانچہ اور طرز معاشرت بدلے ہوئے زمانے کے مطابقت نہیں بدلتی رہتی وہ یا تو بے اثر ہوجاتی ہیں یا ترقی یافته قوم کی غلام ہوجاتی ہیں لہٰذا یہ فطری قانون معلوم ہوتا ہے کہ ماحول میں جمود پیدا نہ ہونے پائے اور باعمل قومیں خلافت کی حقدار ہوتی رہیں۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
موجودہ کتاب میں میں نے چند سائنٹفک مواد فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ چند قدیم تاریخی شوہدابھی جمع کیا ہے تاکہ قارئین کے سامنے دونوں طرز کے مواد فراہم ہوسکے۔اور ان کی بنا پر وہ ترقی یافته قوموں کی خوبیوں اور غیر ترقی یافتہ قوموں کی خرابیوں سے صحیح طور پرواقف ہوسکیں۔ علاوہ ازیں یہ بات بھی اچھی طرح ذہن نشیں ہو سکے کہ جمود اور زمانے سے بے نیاز ہو کر اسلاف کے اقوال اور اعمال کی احیاء کی کوشش* کی گئی ہے کہ جفاکشی ایمانداری اور انصاف پسندی ترقی کے لئے لازمی اجزا ہیں کیونکہ یہ ایسی اقتدار ہیں جو زمانہ قدیم کے ترقی یافتہ قوموں میں پائی جاتی رہی ہیں۔ اور جدید ترقی یافتہ قوموں میں بھی عام ہیں اس کے برخلاف ان قدروں کا غیر ترقی یافتہ قوموں میں عام فقدان ہوتا ہے۔ ان قوموں کے امراء غرباء پر ظلم و زیادتی کر کے اپنے تعیش کا سامان فراہم کرتے ہیں جس کے خلاف ہررمصلح قوم نے آواز بلند کی ہے۔ </div>
<blockquote class="tr_bq" style="text-align: justify;">
<div style="text-align: center;">
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی</div>
<div style="text-align: center;">
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو </div>
<div style="text-align: center;">
"اقبال" </div>
</blockquote>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ جب توحید کا تصور قبول ہوا تو ہندوستان ایسے ملک میں جہاں سینکڑوں دیوی دیوتاؤں کی پوجا ہوتی تھی وہاں پرپجاریوں کے خاندان کے ایک فرد جس کو سرسوتی سوامی دیانند سے یاد کیا جاتا ہے ہندوستان میں توحید کی جرأت مندانہ اشاعت کیلئے اٹھ کھڑا ہوا اور تقریبانصف صدی تک دیوی دیوتاؤں کے پجاریوں کے خلاف جنگ کرتا رہا۔ اور بہت حد تک کامیاب رہا۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
یہ بھی واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کسی سماجی نظام کی اچھائی یا برائی زیادہ تر ان افراد پر موقوف ہے جوان کو عملی جامہ پہناتے ہیں مثلاً سرمایہ دارانہ جمهوری تطام جب ایک ترقی پافته ملک اختیار کرتا ہے تو یہ نظام عوام و خواص دونوں کے لئے باعث رحمت ثابت ہوتاہے اور جب اسی نظام کو ایک غیر ترقی پافته ملک اپناتا ہے توعوام کے لیے ظلم و زیادتی کا موجب بنتا ہے اور خواص کے لئے تعیش کا سامان فراہم کرتا ہے اسی طرح اسلای نظام جس کی تعریف میں مسلمانوں کے حلق خشک بو ہوجاتے ہیں جب بدکردار جابل اور مغرور افراد اس کے رہنما بنتے ہیں تو اسلامی نظام دنیا کا بدترین نظام کانمونہ پیش کرتا ہے۔ اس کے برخلات یہودیت جس کی برائی بیان کرنے میں مسلمان کبھی تھکتے نہیں۔ جب باکردار با عمل افراداس کی رہنمائی سنبھالتے ہیں توان کے للکار سے پوری مسلم دنیا خوف سے لرز اٹھتی ہے۔ اور بدکردار مسلم رہنماؤں کے اشاروں پر ان کی ، باکردار یہودی رہنماوں کے مقابلے میں خدا سے کامیابی کی دعائیں کی جاتی ہیں بجائے اس کے کہ ان بد کردار مسلم رہنماؤں کے خلاف علم بغاوت بلند کر کے ان کو اسی دنیا میں ان کے بدکرداری کا بدلہ دیں اور باکردارسلمانوں کو اسلام کا رہنما بنائیں۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br /></div>
<blockquote class="tr_bq" style="text-align: justify;">
<div style="text-align: center;">
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی </div>
<div style="text-align: center;">
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی </div>
<div style="text-align: center;">
" اقبال"</div>
<div style="text-align: center;">
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطان کے گنبدپر</div>
<div style="text-align: center;">
تو شا بین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر </div>
</blockquote>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
13 اکتوبر 1982</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
احسان اللہ خان </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br />
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
نوٹ: یہ کتاب ریختہ پر دستیاب ہے۔مزید<a href="https://drive.google.com/file/d/15rUy4dNqf3q-qic5WG41btgE7zS6FBGf/view?usp=sharing"> اس کتاب کو یہاں</a> سے پڑھا اور ڈاؤنلوڈ بھی کیا جاسکتا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
#جہان_سائنس #اردو #سائنس #ترجمہ #بیت_الحکمت #ڈاکٹر_احسان_اللہ_خانی #انسان #آدم_کی_کہانی_خدا_کی_زبانی #ہوائی_جہاز #طیارے #سائنسی_کتب #سائنسی_کتابیں #اردو_میں_سائنس </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
#jahanescience</div>
</div>
<iframe height="360" src="https://drive.google.com/file/d/15rUy4dNqf3q-qic5WG41btgE7zS6FBGf/preview" width="240"></iframe>
</div>
Zuhair Abbashttp://www.blogger.com/profile/04666510644854788654noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1929777235422729587.post-89309170352740000192019-09-12T12:22:00.001+05:002019-09-13T11:44:14.893+05:00ہوائی جہاز کی کہانی <div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
مصنف:کوانٹین رینالڈ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
مترجم: احسن صدیقی</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh4WXJnTXVRkegMFdAe0MTFKHukV2Qa5f36q9U1aH8lGSb8DgWNSNHszmZAVtvkKtIqM5gk0inRNY5hJhz5jmSsr_2i5ARqDGw4i7CBD6VpxygqWkrXlqFdtCXdWOLZg5jWNzPU-y2_HCc/s1600/adventure_03.jpg" imageanchor="1"><img border="0" height="480" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh4WXJnTXVRkegMFdAe0MTFKHukV2Qa5f36q9U1aH8lGSb8DgWNSNHszmZAVtvkKtIqM5gk0inRNY5hJhz5jmSsr_2i5ARqDGw4i7CBD6VpxygqWkrXlqFdtCXdWOLZg5jWNzPU-y2_HCc/s640/adventure_03.jpg" width="640" /></a></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
عوام میں سائینس کو مقبول بنانے کی خدمات کے اعتراف میں نامور فلسفی برٹرنیڈرسل کو حال ہی میں یونیسکو کی طرف سے مالنگا پرائز دیا گیا ہے ۔ اس موقع پر اپنی تقریر میں انہوں نے ایک بہت ہی اہم بات کی طرف اشارہ کیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ عام طور پر اگر کوئی شخص تھوڑا سا لٹریچر پڑھ لے تو اسے تعلیم یافتہ ، کہا جاتا ہے۔ چاہے سائینس کے اہم نظریات اور ایجادوں کے بارے میں معمولی شد بد بھی نہ رکھتا ہو۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ کسی قوم کا کلچر صرف اس کی تاریخ ، ادب یا موسیقی اور رقاصی کی روایات کا مظہر ہی نہیں ہوتا بلکہ وہ علوم عقلیہ یا سائنس کے ارتقا اور تجربات کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
عقل کی روشنی کے اس زمانے میں بھی ہمیں کتنے ہی لوگ ایسے ملیں گے جو ادب یا تاریخ کے ایک محدود گوشے کا علم تو رکھتے ہیں مگر بجلی ، ٹیلیفون ، ٹیلی ویژن یا ہوائی جہاز جیسی معمولی ایجادوں کے بنیادی اصولوں سے بھی نابلد ہیں۔ لطیفہ یہ ہے کہ پھر بھی انہیں ان پڑھ نہیں کہا جا سکتا۔ یہاں مجھے ایک دلچسپ واقعہ یاد آیا۔ ہمارے کالج کے کچھ تعلیم یافتہ لیکچرار این سی سی کی ٹریننگ کے سلسلے میں انٹرویو کے لئے جا رہے تھے ۔ بعض ان میں بوکھلائے ہوئے تھے۔ ایک صاحب کو تو جٹ اور عام طیارے کا فرق ہی معلوم نہ تھا اور وہ اپنے ساتھیوں سے پوچھ رہے تھے کہ ایک اور لیکچرار بھی آ نکلے اور بڑے اعتماد سے فرمانے لگے "ارے میاں جیٹ بس ہیلی کو پٹر کی طرح کا ہوتا ہے ۔ آج جب کہ دنیا فضائے بسیط کے Space Rockets بنانے اور چاند تک پہنچنے کی جدوجہد کر رہی ہے سائنس کے معمولی اصولوں سے ہماری نا واقفیت ہماری ذہنی پسماندگی اور غفلت پر دلالت کرتی ہے۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
اردو میں اگر سائنس کی کتابیں مقبول نہیں تو اس کا واقعی سبب یہ ہے کہ ہمارے مصنفوں اور ناشروں نے اس وقت توجہ نہیں دی ورنہ ہمارے ملک کے باشندے بھی سائنس کی تحقیقات حاضرہ سے واقف ہونے کے لئے اتنا ہی شوق اور تجسس رکھتے ہیں جتنا کہ مغربی ممالک کے رہنے والوں میں پایا جاتا ہے۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
زیر نظر کتاب WRIGHT BROTHER کی اردو شکل ہے جسے جناب احسن صدیقی نے سلیس اور شگفتہ زبان میں پیش کیا ہے۔ میں نے ترجمے کا اصل کتاب سے مقابلہ کیا ہے اور پورے اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ صدیقی صاحب اپنی کوشش میں پوری طرح کامیاب رہے ہیں۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
مناسب ہوگا کہ چند الفاظ اصل کتاب کے بارے میں بھی کہہ دوں۔ ہمارا عہد فضائے بسیط کے راکٹوں کا دور ہے۔ سائنس نے ترقی کی بہت سی منزلیں طے کرلی ہیں اور غالباً اس صدی کا قا فلہ چاند کی نورانی سرزمین پر جا کر ہی دم لے گا۔ اب ہوائی جہاز کی حیثیت دوسرے درجے کی ہو گئی ہے۔ ذیلی سیاروں (اسپوٹنک) یا راکٹوں کی اہمیت اور ماہئیت جاننے کے لئے پہلا سبق "ہوائی جہاز" کی کہانی ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
کوئی ایجاد اتنی دلچسپ نہیں کی جتنی اس ایجاد کی کہانی - ہوائی جہاز کی یہ دلچسپ اور معلومات افزا کہانی اس کتاب میں آپ کو سادہ اور سہل انداز میں سنائی گئی ہے۔ اس میں واقعات کی ترتیب اور پیش کش ایسے اچھے انداز میں کی گئی ہے کہ بچے اور بڑے دونوں اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
نپولین کا کہنا تھا کہ بچے کا مستقبل ماں کی تربیت کا کرشمہ ہوتا ہے۔ یہ کتاب ایک طرح اس قول کی تفسیر و تشریح بھی ہے۔ اس سے یہ راز کھلتا ہے کہ ماں بچے کی ذہنی رسائی میں کتنا اہم رول ادا کر سکتی ہے میں ایک اچھی کتاب سے اردو میں اضافہ کرنے پر صدیقی صاحب کو مبارک باد دیتا ہوں ۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
دلی یونیورسٹی </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
رضا اللہ انصاری۔ ایم۔ ایس۔سی </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
18، اپریل 1958 لیکچرار۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
نوٹ: یہ کتاب ریختہ پر دستیاب ہے۔مزید<a href="https://drive.google.com/file/d/1IwzVQPc3IQGfG4De4ZTY2oqGZBG20d1b/view?usp=sharing"> اس کتاب کو یہاں</a> سے پڑھا اور ڈاؤنلوڈ بھی کیا جاسکتا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
#جہان_سائنس #اردو #سائنس #ترجمہ #احالی_پبلشنگ_ہاؤس_دلی #احسن_صدیقی #سوانح_حیات #ہوائی_جہاز_کی_کہانی #ہوائی_جہاز #طیارے #سائنسی_کتب #سائنسی_کتابیں #اردو_میں_سائنس </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
#jahanescience</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<iframe height="360" src="https://drive.google.com/file/d/1IwzVQPc3IQGfG4De4ZTY2oqGZBG20d1b/preview" width="240"></iframe>
</div>
Zuhair Abbashttp://www.blogger.com/profile/04666510644854788654noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1929777235422729587.post-48322091997420144922019-09-11T12:55:00.000+05:002019-09-11T12:55:11.617+05:00آئن سٹائن کی کہانی <div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgSJDu5iF_nJnm7Ek5UAJOgriQt8uEFlpQSteUhFJwQm_43mCxa2uxoR4lUzeq4I3QH7gfkDwwGyWeTWfGAjXm4MI3Tb59uNMe7r859hKxt80-6A75LcRohuvaaCnTSYpHnwr6misHv9Rw/s1600/a64ae287b973cf03f45ed4b0a22407ff.jpg" imageanchor="1"><img border="0" height="640" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgSJDu5iF_nJnm7Ek5UAJOgriQt8uEFlpQSteUhFJwQm_43mCxa2uxoR4lUzeq4I3QH7gfkDwwGyWeTWfGAjXm4MI3Tb59uNMe7r859hKxt80-6A75LcRohuvaaCnTSYpHnwr6misHv9Rw/s640/a64ae287b973cf03f45ed4b0a22407ff.jpg" width="640" /></a><br />
<br />
مؤلف: سید شہاب الدین دسنوی </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
کچھ اس کتاب کے بارے میں </h2>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
پروٹسٹنٹ فرقے کے عیسائیوں کی عبادت گاہوں میں مجسمے اور تصویر نہیں ہو تی ہیں ۔ لیکن امریکا کے شہر ریور سائڈ میں ان کا ایک ایسا بھی گر جا ہے جس کی مرمرین دیواروں پر چودہ شبیہیں کندہ ہیں ۔ ان کا قصہ یہ ہے کہ جب اس گرجاکی تعمیر کا منصوبہ ڈاکٹر ہری فوسٹ ڈیم (HARRY FOSTDIEN) بنانے لگے تو انھیں خیال آیا کہ جہاں روحانی پیشواؤں اور بزرگوں نے انسانوں کی روح کی تربیت کی و ہیں دنیا میں جو چوٹی کے مفکر اور فلسفی گزرے ہیں، انھوں نے بھی اپنی فکرو فراست اور محنت شاقہ سے انسانیت کی عظیم خدمات انجام دی ہیں، ان کو یاد رکھنا اور ان کی خدمات کا اعتراف کرنا بھی تو ہمارا فرض ہوتا ہے ۔ چنانچہ ڈاکٹر فوسٹ ڈیم نے فیصلہ کیا کہ ۳۷۰ ق. م ہے ۱۹٤۹ء تک جتنے سائنسدان گذرے ہیں ان میں سے چودہ کا انتخاب کرکے ان کی شبیہیں گرجے کی دیواروں پر کندہ کر دی جائیں۔ لیکن وہ چودہ سائنس کون ہوں؟ اس نے ملک کے مشہور ہمعصر سائنسدانوں کو خطوط لکھ کر ان سے نا م طلب کیے۔ حب سب جوا بات آ گئے تو معلوم ہو اکہ ارشمیدس، اقلیدس ، گلیلیو ،سب کی فہرست میں تھے ۔ ان کے علاوہ ایک اور نامو جو مشترک تھا وہ البرٹ آئن سٹائن کا تھا۔ جب شبیہیں تیار ہو چکیں تو ایک اور دلچسپ بات یہ معلوم ہوئی کہ ان سب میں سے اب تک صرف ایک آدمی بقید حیات تھا اور وہ تھا البرٹ آئین سٹائن! </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
درسی ضرورت کے لحاظ سے اردو میں سائنس کی کچھ کتابیں شائع ہوتی رہتی ہیں لیکن عام فہم سائنس (پاپولر سائنس) کی کتابوں کا اب بھی فقدان ہے میری کتاب "کیمیا کی کہانی ۱۹۷۸ میں ترقی اردو بورڈ (دلی) کی طرف سے شائع ہوئی تھی ۔ اس میں چند معروف کیمیائی عناصر کی دریافت کی کہانی بیان کی گئی کی ۔ اس کی زبان بھاری بھرکم اصطلاحات سے خالی تھی اور کوشش کی گئی تھی کہ عام پڑھا لکھا آدمی اس سے مستفید ہو سکے ۔ کتاب مقبول ہوئی ، بڑے حوصلہ افزا تبصرے نکلے جس سے میرا شوق اور بڑھا اور اب میں عالمی شہرت کے سائنسدان البرٹ آئین سٹائن کی کہانی اور اس کے کارناموں کی داستان پیش کر رہا ہوں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
آئین سٹائن کے نظریہ اضافیت کے بارے میں مشہور تھا کہ اس کے سمجھنے والے دنیا میں صرف بارہ آدمی تھے لیکن بات ایسی نہیں تھی ۔ اس کی بنیادی باتیں اور حیرت انگیز نتائج عام انسان کی فہم سے بالا تر نہیں ہیں ۔ اب جب کہ اسکولوں میں طبیعیات اور ریاضی کی تعلیم لازمی ہو چکی ہے ، ایٹم ، الیکٹرون، تجاذب و غیره اصطلاحات اجنبی نہیں رہی ہیں، اس کتاب کے مطالعے میں بھی کوئی دقت نہیں ہوگی ۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ جو پڑھا جائے ، وہ صبر، توجہ اور غور سے پڑھا جائے، تاکہ سلسلہ ذہن میں موجود رہے۔ جہاں کہیں مشکل تصورات سامنے آ گئے ہیں، انھیں مثالوں کی مدد سے عام فہم بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
اس کتاب کے پہلے حصے میں آئن سٹائن کے حالات زندگی اور دوسرے حصے میں اس کے کارناموں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ آئن سٹائن کا نظریہ اضافیت ادق اور خشک ضرور ہے، مگر جس انداز سے یہ کتاب لکھی گئی ہے ، اس سے وہ خشکی بڑی حد تک دور ہو جائیگی اور قاری ان باتوں سے آشنا ہو جائیگا جو اس عظیم سائنسدان اور مفکر کی عالمگیر شہرت کا سبب بنیں ۔ مگر آئیے "نظریہ اضافیت"، "خصوصی اضافیت"، وحدانی میدان جیسی اصطلاحات اور ایٹم کی بے پناہ قوت کے ذکر سے پہلے اس آئن سٹائن کا حال معلوم کریں جو انسان بھی تھا!</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
جب یہ کتاب مرتب ہو چکی تو بے اختیار دل چاہا کہ اس کا انتساب عہد حاضر کے عالمی شہرت اور نوبل یافتہ سائنسدان پروفیسر عبدالسلام کے نام کیا جائے ۔ میری خوش قسمتی سے پروفیسر موصوف جنوری ۱۹۸۷ء کو دارالمصنفین ، اعظم گڑھ تشریف لائے۔ میں نے کتاب کا مسودہ ان کی خدمت میں بھیج دیا اور دو باتوں کی اجازت طلب کی: ایک تو ان کے نام انتساب کی اور دوسری ان کی وہ تصویر شامل کرنے کی جو انھوں نے دستخط کر کے مجھے پانچ سال قبل عنایت فرمائی تھی۔ پروفیسر موصوف نے مسودہ دیکھ کر دونوں باتوں کی اجازت دے دی ۔ اس کرم فرمائی کے لیے الفاظ شکریہ ادا کر نے سے قاصر ہیں۔ میں پٹنہ یونیورسٹی کے شعبہ طبیعات کے سابق صدر پروفیسر احسان جلیل کا بے حد ممنون ہوں کہ انھوں نے اس کتاب کی ترتیب میں مجھے مفید مشورے دے کر میری رہنمائی فرمائی۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
نوٹ: یہ کتاب ریختہ پر دستیاب ہے۔مزید<a href="https://drive.google.com/file/d/1LuAHu7sD0B_Oug_yDFHmC9kdSoULyC_E/view?usp=sharing"> اس کتاب کو یہاں</a> سے پڑھا اور ڈاؤنلوڈ بھی کیا جاسکتا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
#جہان_سائنس #اردو #سائنس #ترجمہ #انجمن_ترقی_اردو_ہند #سید_شہاب_الدین_دسنوی #سوانح_حیات #آئنسٹائن #آئن_سٹائن #اضافیت #سائنسی_کتب #سائنسی_کتابیں #اردو_میں_سائنس </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
#jahanescience</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<iframe height="480" src="https://drive.google.com/file/d/1LuAHu7sD0B_Oug_yDFHmC9kdSoULyC_E/preview" width="320"></iframe>
</div>
Zuhair Abbashttp://www.blogger.com/profile/04666510644854788654noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1929777235422729587.post-44186192232679184022019-09-06T09:39:00.000+05:002019-09-06T09:39:08.364+05:00زمین اور خلا کی کھوج<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgl0-Hj4CEN29wYhPP6gFSq33u5B66GInTrpOeNsvgQNwU2iGrDr5-DWmGYO20Qorh3csZeBvi-IxXQDslcaf-ezNA71pLuBPuTyRSSod0bSwoFB5OxWAkkgpjFoZZK3f0OCawO0exnNhY/s1600/Esa-space-exploration.jpg" imageanchor="1"><img border="0" height="468" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgl0-Hj4CEN29wYhPP6gFSq33u5B66GInTrpOeNsvgQNwU2iGrDr5-DWmGYO20Qorh3csZeBvi-IxXQDslcaf-ezNA71pLuBPuTyRSSod0bSwoFB5OxWAkkgpjFoZZK3f0OCawO0exnNhY/s640/Esa-space-exploration.jpg" width="640" /></a></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
کل خلا میں سفر کرنے والے ہوا باز آج ہی سے زمین سے دور فضاؤں کے راز دریافت کرنے کی مشق کر رہے ہیں کچھ اور کھوجی سمندر کی تہہ میں ایسی مخروطی سرنگ بنانے کی تجویزیں کر رہے ہیں جو انھیں زمین کے جگر تک پہنچا دے۔ موجودہ زمانے کی تحقیق صرف زمین کے پہاڑوں میدانوں دریاؤں اور جنگلوں تک ہی محدود نہیں بلکہ اب انسان کی نگاہیں زمین کے اندر۔ زمین کے اوپر اور زمین سے دور خلا کے راز معلوم کرنے کے لئے بیتاب ہیں۔ جس طرح چھپے ہوئے خزانوں کا متلاشی کا دل مگن ہوتا ہے اس ہی طرح قدرت کے رازوں کی گہرائیوں تک پہونچنے میں سائنسدانوں کو ایک سرور محسوس ہوتا ہے۔<br />
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
یکم جولائی1957 سے 31 دسمبر 1958 تک کے بین الاقوامی جیو فزیکل سال کے دوران میں چھیاسٹھ قوموں کے ہزاروں سائنسدانوں نے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی جب زمین کے کسی ایک حصہ پر کوئی واقعہ ظہور میں آتا ہے تو اس کا اثر سارے کرہ زمین پر کیا پڑتا ہے۔ زمین اور خلا کے اسرار سے واقف ہونے کی متحدہ کوشش میں سائنسدانوں نے سمندر کی نامعلوم گہرائیوں سے پہاڑوں کی سربفلک چوٹیوں تک۔ زمین کی اندرونی گہرائیوں کی بے تحاشہ گرمی سے خلا کی بے پناہ سردی تک کے راز فاش کر ڈالے۔<br />
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
بين الاقوامی جیو فزیکل سال کے سرکاری طور ختم ہونے کے بھی تجسس کے تین پروگرام چلتے رہے کیونکہ ابھی قطب جنوبی کی تحقیق۔ سمندروں کی نشان دہی اور خلا کی دریافت کا کم باقی تھا جیو فزیکل سال کے بعد کی سیٹلائٹ اور راکٹ کی تحقیق کا سلسلہ ایک ایسی کمیٹی کے ذریعہ جاری ہے جو تمام دنیا کے ملکوں کی خلائی تحقیق کو مربوط کرتی ہے شاید یہ کمیٹی آئندہ خلا میں جانے والے سیٹلائٹ میں ایسے سائنسدانوں کو بھیج سکے جن کے اپنے ملک خلا میں سٹیلائیٹ نہیں بھیج سکتے۔ جوں جوں انسان خلا میں آگے بڑھتا ہے آپس میں امداد باہمی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور آئندہ کی خلائی تحقیق کا خوش کن تصور کیا جا سکتا ہے۔<br />
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
جیو فزیکل سال دراصل ایک بڑی سائنسی مہم کا پہلا قدم تھا۔ اس کے سائنسدانوں نے جو معلومات بہم پہونچائی ہیں، انھیں تین عالمی معلوماتی مرکزوں نے جمع کرکے ترتیب دیا۔ معلومات کو چھانٹنے، جانچنے اور ترتیب دینے کا کام اتنا بڑا ہے کہ کئی سال تک جاری رہے گا جیو فزیکل سال کے عالمی معلوماتی مرکزوں میں سینکڑوں من فلم، کاغذ اور نمونے بھیجے گئے ہیں ۔ اور یہ سب مواد ان دان سائنسدانوں کے کام آئے گا جن کو آئندہ ان معلومات کی ضرورت پڑے گی۔ اس مواد کو ترتیب دینے کے لئے ریکارڈ کی تصویریں لی جاتی ہیں۔ ان کو چھانٹا جاتا ہے۔ ان کے اشارے تیار کئے جاتے ہیں اور الیکٹرونک کمپیوٹر بہت سی معلومات کو مستقبل میں استعمال کے لئے مناسب شکل دیتے ہیں۔ بین الاقوامی جیو فزیکل سال کے سلسلے میں جتنی معلومات بہم پہنچتی ہیں وہ صرف آئندہ زمانے کے لئے ہی کارآمد نہیں، بلکہ آج کل بھی ان کی وجہ سے زمین سمندر اور آسمان کے بارے میں انسانی تصورات و نظریات بدل چلے ہیں۔ مثلاً سمندروں میں تین بڑے دھارے دریافت ہو چکے ہیں اور ناپے جا چکے ہیں ۔ ایک دھارا بحر اوقیانوس میں گلف اسٹریم کے نیچے ایک دن میں آٹھ میل کی رفتار سے بہتا ہے۔ دوسرا استوائی بحرالکاہل کے سطحی دھارے کے نیچے اس سے تین گنی رفتار سے بہتا ہے۔ اور دریائے مسی سیپی جیسے ایک ہزار دریاؤں جتنا وسیع ہے تیسرا دھارا جو بحرالکاہل میں خط استوا سے دو سو میل شمال میں بہتا ہے ایک سیکنڈ میں ڈیڑھ ملین مکعب فٹ پانی بہا لے جاتا ہے۔ ایسی معلومات ان لوگوں کے لئے بہت کارآمد ہیں جن کا تعلق سمندروں میں خوراک کی مقدار اور اس کے لئے کی جگہ دریافت کرنے سے ہے یا جن کا تعلق موسم کی تبدیلی سے ہے موسموں کا مطالعہ کرنے والوں کو اس امکان سے بھی دلچسپی ہے کہ شاید قطب جنوبی کی سرزمین ایک مسلسل براعظم نہ ہو بلکہ پہاڑی جزیروں کا ایسا سلسلہ ہو جس پر برف کی موٹی تہ جم گئی ہے۔ اس علاقے میں اتنی برف پائی گئی ہے کہ اب دنیا میں برف کی کل مقدار کا اندازہ پہلے سے چالیس فی صدی زیادہ ہے۔ انداز میں یہ تبدیلی ان لوگوں کے لئے خاص طور پر اہم ہے جو زمین کے نازک آبی اور حرارتی نظام کا مطالعہ کرتے ہیں۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
سمندری دھاروں اور قطب جنوبی کی برف کی دریافت کے علاوہ انسان نے بحرالکاہل کی تہ میں ایک اور دلچسپ دریافت کی ہے اور وہ ہے لاکھوں مربع میل میں پھیلا ہوا معدنیات سے معمور ایک ایسا علاقہ جہاں مینگنیز. لو ہا۔ کوبالٹ اور تانبہ ڈلیوں کی شکل میں ملے ہوئے ملتے ہیں۔ ان معدنیات کی قیمت پانچ لاکھ ڈالر فی مربع میل ہوتی ہے۔<br />
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
آئندہ زمانے کے کھوجی شاید ان معدنیات کو سمندر کی تہہ سے نکالیں گے۔ ان کے دوسرے ساتھی آسمان کی کانوں سے دولت جمع کریں گے ۔ ان خوش کن خیالوں کے علاوہ اور بھی بہت دلچسپ باتیں انھیں خلا اور زمین کے بارے میں تم آگے چل کر اس کتاب میں پڑھو گے۔<br />
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
جہاں ایک طرف کھوجی زمین اور آسمان کے بارے میں بنیادی باتیں دریافت کرنے میں لگے ہوتے ہیں وہاں دوسری طرف کچھ لوگ ایسی باتوں کی تلاش میں ہیں جو دنیا کو اور طریقوں سے فائدہ پہنچا سکتی ہیں۔ مثلاً کچھ سائنسدان خوراک کے نئے وسائل کی تلاش میں ہیں۔ کچھ سورج سے براہ راست طاقت حاصل کرنے کے عملی طریقے ڈھونڈھ رہے ہیں۔ اور کچھ سمندر کی ہائیڈروجن کو ایٹمی ایندھن کے طور استعمال کرنے کی ترکیبیں تلاش کر رہے ہیں۔<br />
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
شاید سب سے دلچسپ وہ باتیں ہیں جو خلا کے بارے میں دریافت ہو رہی ہیں اور یہی وجہ ہے کی خلا کے اس کنارے سے لے کر سورج کے گرد گردش کرنے والے مصنوعی سیاروں تک جتنے سربستہ راز ہیں ان کی کھوج لگانا اب بھی ایک دلچسپ مشغلہ ہے اور آئند بھی رہے گا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br />
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
نوٹ: یہ کتاب ریختہ پر دستیاب ہے۔<a href="https://drive.google.com/file/d/1-CpAH_N3hG1cq-K1_yVRtg8DW5bXUOuz/view?usp=sharing"> اس کتاب کو یہاں</a> سے پڑھا جاسکتا ہے۔ یہ 1959 میں شایع شدہ کتاب کا اردو ترجمہ ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
#جہان_سائنس #اردو #سائنس #ترجمہ #اردو_سائنس_بورڈ #ایم_ایم_بیگ #مارگریٹ_او_ہائیڈ #انڈین_اکیڈمی #زمین_اور_خلا_کی_کھوج #سائنسی_کتب #سائنسی_کتابیں #اردو_میں_سائنس </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
#jahanescience</div>
</div>
<iframe height="480" src="https://drive.google.com/file/d/1-CpAH_N3hG1cq-K1_yVRtg8DW5bXUOuz/preview" width="480"></iframe>
</div>
Zuhair Abbashttp://www.blogger.com/profile/04666510644854788654noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1929777235422729587.post-17205145629664641642019-09-04T11:39:00.000+05:002019-09-04T11:39:02.649+05:00الفریڈ نوبیل - باقر نقوی<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjNE0JEEt30H3daccJTZEBiJXV01xPWfZHd_pghCoIKhtjuLgeVgEv_0Wd5ZJL4XZXNgH6QAxodFobpnY4BN5SAK0MDNFuYJqzgHQViTnKllF9BC9dPzFNVxE6aqo2slWQHwGyeT0GSwNg/s1600/GettyImages-463914619-5b5797d1c9e77c00710637b9.jpg" imageanchor="1"><img border="0" height="426" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjNE0JEEt30H3daccJTZEBiJXV01xPWfZHd_pghCoIKhtjuLgeVgEv_0Wd5ZJL4XZXNgH6QAxodFobpnY4BN5SAK0MDNFuYJqzgHQViTnKllF9BC9dPzFNVxE6aqo2slWQHwGyeT0GSwNg/s640/GettyImages-463914619-5b5797d1c9e77c00710637b9.jpg" width="640" /></a></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br />
حیرت کی بات ہے کہ انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کے اعتراف میں . بیسویں صدی کے جس ایوارڈ کو سب سے زیادہ عزت اور پذیرائی ملی ہے اس کے بارے میں عام لوگوں کی کیا خاص کی معلومات بھی بہت کم ہیں ۔ گزشتہ چند مہینوں میں میں نے مختلف لوگوں سے الفریڈ نوبیل کے بارے میں بات چھیڑی لیکن کم و بیش سب کے سب کی معلومات کا دائرہ سات آٹھ جملوں تک ہی محدود تھا ، یہی کہ اس کا تعلق سویڈن سے تھا ، اس نے ڈائنامائٹ ایجاد کیا تھا ، اپنی ساری جائیداد کا ایک ٹرسٹ بنا دیا تھا جس سے ہر سال مختلف شعبوں میں اعلی کارکردگی پر نوبل پرائز دیئے جاتے ہیں جو فی الوقت دنیا میں اعلی ترین اعزاز سمجھا جاتا ہے اور یہ کہ 1901ء سے ہر سال یہ ایوارڈ تقسیم کیے جا رہے ہیں ۔ ٹیگور اور ڈاکٹر عبد السلام کے علاوہ بھی بر صغیر سے تعلق رکھنے والے دو تین لوگوں کو یہ انعام مل چکا ہے اور ....................... بس۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
- چند برس قبل باقر نقوی صاحب نے جن کا شعبہ اکاؤنٹس اور وجہ شہرت ان کی اردو شاعری ہے ایک گفتگو کے دوران ذکر کیا کہ وہ آج کل الفریڈ نوبیل کے بارے میں مختلف کتابیں اور معلومات جمع کر رہے ہیں جو انتہائی دلچسپ کام ثابت ہو رہا ہے اور یہ کہ موصوف شاعر بھی تھے ثبوت کے طور پر انہوں نے ایک نظم کی کچھ باتیں بھی سنائیں جو حال ہی میں ان کے ہاتھ لگی تھی۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
اردو سائنس بورڈ کا چارج لینے کے بعد ایک دن الفریڈ نوبیل کے حوالے سے ایک تحریر سامنے آئی تو خیال آیا کہ کیوں نہ نوبیل کے حالات زندگی اور کمالات و فن کو ایک کتابی شکل میں جمع کیا جائے تاکہ قارئین اس سے استفادہ کر کے اس اہم تاریخی شخصیت اور اس کے نام پر جاری ، اس عظیم ایوارڈ کے بارے میں جان سکیں جس کا سایہ پوری بیسویں صدی پر پھیلا ہوا ہے ۔ فورا دھیان باقر نقوی صاحب کی طرف منتقل ہوا ، انہوں نے بخوشی یہ کتاب لکھنے کی حامی بھر لی جو اس وقت آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
باقر نقوی صاحب نے بڑی محنت اور یقین سے نہ صرف بڑے دلچسپ انداز اور رواں تحریر میں الفریڈ نوبیل کی داستان حیات قلم بند کی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ نوبیل پرائز کے آغاز سے لے کر 1997 تک کے تمام ایوارڈ یافتگان کے بارے میں بھی بنیادی معلومات یکجا کر دی ہیں اور یوں اب ہم آسانی سے جان سکتے ہیں کہ کسی شعبے میں کس ملک کے کس آدمی کو ، کس سن میں ، یہ انعام ملا تھا اور یہ کہ اس کے اس انعام یافتہ کام کی نوعیت کیا تھی ۔ اس کے ساتھ بڑ صغیر سے تعلق رکھنے والے نوبیل انعام یافتگان کے لیے ایک خصوصی گوشہ مخصوص کیا گیا ہے اور ان کے بارے میں علاحدہ سے تعارفی مضامین لکھے گئے ہیں کہ یہ لوگ تعداد میں بہت کم ہی سہی مگر اس بات کا ثبوت ہیں کہ تیسری دنیا میں بھی جو ہر قابل کی کمی نہیں اور اگر یہاں تحقیق کا ماحول زیادہ ساز گار ہو اور اس کے لیے متعلقہ وسائل اور سہولتوں کا کچھ نہ کچھ بندوبست ہو سکے تو عین ممکن ہے کہ اکیسویں صدی کے انعام یافتگان میں ہمارے آدمیوں کی تعداد بڑھتی چلی جائے۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
یہ کتاب ایک ایسے وقت میں شائع ہو رہی ہے جب پاکستان اللہ کے فضل و کرم سے ایک ایٹمی طاقت بن چکا ہے اور اس بات کے شواہد مل ر ہے ہیں کہ قومی اور سیاسی سطح پر سائنس کی اہمیت اور ترویج و ترقی کی ضرورت کو پہلے سے بہت زیاد محسوس کیا جا رہا ہے ۔ ہم امید کرتے ہیں کہ یہ کتاب نہ صرف قارئین کے علم و شعور میں اضافہ کرے گی بلکہ بالواسطہ طور پر ہماری زندگیوں میں بھی سائنس اور سائنسی شعور کو فروغ دے گی۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
نوٹ: یہ کتاب ریختہ پر دستیاب ہے۔<a href="https://drive.google.com/file/d/1SbFCkPichfRdRHDHVAVwmYeC4-Aqmr-t/view?usp=sharing"> اس کتاب کو یہاں</a> سے پڑھا جاسکتا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
#جہان_سائنس #اردو #سائنس #ترجمہ #اردو_سائنس_بورڈ #باقر_نقوی #سوانح_حیات #الفریڈ_نوبیل #نوبل #سائنسی_کتب #سائنسی_کتابیں #اردو_میں_سائنس </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
#jahanescience</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<iframe height="480" src="https://drive.google.com/file/d/1SbFCkPichfRdRHDHVAVwmYeC4-Aqmr-t/preview" width="480"></iframe>
</div>
Zuhair Abbashttp://www.blogger.com/profile/04666510644854788654noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1929777235422729587.post-52169135634709270902019-08-30T12:55:00.000+05:002019-08-30T12:55:15.353+05:00غیر معمولی عظیم الجثہ ستارے (Hypergiant stars)<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhVU-IaXB3T3I-9xd9zZZ20inlviV_w1GUpIbWK115pTv2sW154NsNHpLGbgMUuatid8uNkcajzkYKtCpPCaDtijv2x0PuKVTBHko3KEz5cfpqPU05qx2HWCx2VLnVZGAF1Uyi1eBbdAmE/s1600/Hyper+Giants+size.jpg" imageanchor="1"><img border="0" height="292" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhVU-IaXB3T3I-9xd9zZZ20inlviV_w1GUpIbWK115pTv2sW154NsNHpLGbgMUuatid8uNkcajzkYKtCpPCaDtijv2x0PuKVTBHko3KEz5cfpqPU05qx2HWCx2VLnVZGAF1Uyi1eBbdAmE/s640/Hyper+Giants+size.jpg" width="640" /></a></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
غیر معمولی چمک اور جلد مر جانے والے درجنوں سورجوں کی کمیت کے ساتھ پیدا ہوئے غیر معمولی عظیم الجثہ ستارے اپنی زندگی تیزی سے جیتے ہیں تصور کیجئے کہ ایک اس قدر بڑا ستارہ سورج کی جگہ لے کہ زحل کے مدار تک نظام شمسی اس کے گھیرے میں آ جائے۔ ایک ایسا ستارہ جو ایک لمحے میں اس قدر توانائی پیدا کرے جو ہمارا سورج سو دنوں میں پیدا کرتا ہے۔ آپ سمجھ رہے ہیں کہ ہم لمبی لمبی ہانک رہے ہیں ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ یہ کائنات ہے ہی اتنی عجیب و غریب جگہ کہ اس کے مظاہر سمجھتے ہوئے ہمیں عقلیں چکرا جاتی ہیں۔ تو جناب ایسے ستارے بالکل وجود رکھتے ہیں۔ یہ بہت ہی عجیب و غریب ستارے ہوتے ہیں۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
غیر معمولی عظیم الجثہ والے ستارے لاکھوں سورجوں جتنی چمک پیدا کرتے ہیں۔ ان کی پیدائش بھی اسی بین النجمی ہائیڈروجن کے بادلوں سے ہوتی ہے جس سے عام ستارے بنتے ہیں، تاہم ان کی کمیت جو کہ سورج کی کمیت کے دسیوں گنا یا سینکڑوں گنا تک ہو سکتی ہے، زبردست اندرونی دباؤ ڈالتی ہے جس سے ان کے اندرون میں زبردست حرارت پیدا ہوتی ہے اور یہ حرارت قلب میں جاری نیوکلیائی عمل گداخت کو تیز کر دیتی ہے۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
سورج جیسا کوئی بھی ستارہ نسبتاً کم ہائیڈروجنی ایندھن پر بھی دس ارب برس تک قائم و دائم رہ سکتا ہے۔ اس کے برخلاف ایک غیر معمولی عظیم الجثہ ستارہ سینکڑوں گنا زیادہ دستیاب ایندھن کی موجودگی میں بھی صرف چند کروڑ برس یا اس سے بھی کم تک جی سکتا ہے۔ نہایت آب و تاب اور شان و شوکت کے ساتھ یہ کم عمر کائناتی مینارہ ہوتا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
دوسرے ستاروں کی طرح اس غیر معمولی عظیم الجثہ ستارے کی طبیعی خصوصیات کا انحصار قلب سے فرار ہوتی توانائی کے باہر جاتے ہوئے "اشعاعی دباؤ" اور کمیت کے زبردست ثقلی کھچاؤ سے پیدا ہونے والے اندرونی دباؤ کے درمیان نازک توازن پر ہے۔ نتیجتاً غیر معمولی عظیم الجثہ ستارے اپنی ظاہری چمک دمک دوران زندگی میں تبدیل کرتے رہتے ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
زمین پر موجود ماہرین فلکیات ان تبدیلیوں کا سراغ مختلف ستاروں کی رنگت اور چمک میں ہونے والے تفاوت کی حدود کی پیمائش کرکے کرتے ہیں۔ یہ بات دھیان میں رہے کہ اگرچہ غیر معمولی عظیم الجثہ ستارے کائناتی پیمانے پر جلد جیتے اور مرتے ہیں تاہم ان کی زندگی میں تیزی سے ہونے والی تبدیلیاں اتنی تیز بھی نہیں ہوتیں کہ انسانی زندگی کے درمیان اس کے ارتقا کو دیکھا جا سکے۔ ایسے کئی ستاروں کی خصوصیات کو ہرٹزاسپرنگ-رسل ڈیاگرام پر پلاٹ کرکے وہ ان کے درمیان تعلق اور ممکنہ راستوں کو جان سکتے ہیں جن سے گذر کر ستارہ ایک سے دوسری قسم میں بدلتا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgd9F6aL2YRAmZqfTIwcUQ131PhAQj6XnIR1jyOqe1vEBUDqV18FSQWRxmRfLiZhj0Kxsq8c3wmU2ccrBVnWQ2uPlraydc5Un6XuAuwNud8av7iSb9w-_Q5K65z-YrZRFdoTCicl1mUmK8/s1600/Hyper+Giants.jpg" imageanchor="1"><img border="0" height="530" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgd9F6aL2YRAmZqfTIwcUQ131PhAQj6XnIR1jyOqe1vEBUDqV18FSQWRxmRfLiZhj0Kxsq8c3wmU2ccrBVnWQ2uPlraydc5Un6XuAuwNud8av7iSb9w-_Q5K65z-YrZRFdoTCicl1mUmK8/s640/Hyper+Giants.jpg" width="640" /></a></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
یہ تو واضح ہے کہ غیر معمولی عظیم الجثہ ستارے اپنی مختصر عمر کے زیادہ تر حصے میں نیلے چمک دار ستاروں کی طرح رہتے ہیں۔ ان کا ممکنہ درجہ حرارت 50,000 ڈگری سیلسیس (90,000 ڈگری فارن ہائیٹ) ہوتا ہے جبکہ ان کے مقابلے میں سورج کا 5,500 ڈگری سیلسیس (9,930 ڈگری فارن ہائیٹ) ہوتا ہے۔ تاہم بعد میں کئی رنگ کی حد میں سرخ کنارے کی طرف ارتقا پر گامزن ہو جاتے ہیں جن کی سطح کا درجہ حرارت ممکنہ طور پر 3,000 ڈگری سیلسیس (5,430 ڈگری فارن ہائیٹ) ہوتا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
ستارے کی سطح کے درجہ حرارت کا انحصار اس کی سطح کے ہر مربع میٹر سے فرار ہونے والی توانائی کی مقدار پر ہوتا ہے، لہٰذا ستارے کی چمک دمک، رنگ اور اس کے حجم میں ایک براہ راست ربط ہوتا ہے۔ یعنی کہ ایک ٹھنڈے مخصوص چمک کے سرخ ستارے کو لازمی طور پر اسی چمک کے نیلے ستارے کے مقابلے میں گرم ستارے سے نمایاں طور پر بڑا ہونا چاہئے۔ "غیر معمولی عظیم الجثہ" ستارے کی اصطلاح ستارے کے طبیعی حجم کے بجائے ستارے کی چمک کو بیان کرتی ہے۔ لہٰذا نیلا غیر معمولی عظیم الجثہ ستارہ اصل میں اس سرخ دیو کے مقابلے میں چھوٹا ہو سکتا ہے جو سورج جیسے ستارے اپنی عمر کے آخری حصے میں بنتے ہیں۔ اس کے باوجود غیر معمولی عظیم الجثہ ستارے ان سے کئی گنا زیادہ روشن ہوتے ہیں۔ بہرحال سرخ غیر معمولی عظیم الجثہ ستارے کائنات کے سب سے بڑے ستارے ہوتے ہیں۔ شاید ان میں سب سے زیادہ مشہور شمالی برج قیقاؤس کا ایم یو سیفائی نامی ستارہ ہے۔ اپنے گہرے سرخ رنگ کی وجہ سے یہ یاقوتی ستارے کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ اس قدر بڑا ہے کہ اس میں ارب ہا سورج سما سکتے ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
غیر معمولی عظیم الجثہ ستارے اس انتہا کا مظاہرہ اپنی ضخیم کمیت کی وجہ سے کرتے ہیں۔ دیگر ستاروں کی طرح یہ بھی اپنی زندگی کا "مین سیکوئینس" حصہ اپنے قلب میں موجود ہائیڈروجن گیس کو جلا کر ہیلیئم میں بدلنے میں گذارتے ہیں۔ اگرچہ عام ستارے اس سست زنجیری عمل میں نسبتاً آسانی کے ساتھ ہائیڈروجن کو جلاتے ہیں جس میں وہ جوہری مرکزے کے اٹکل پچو ٹکراؤ پر انحصار کرتے ہیں۔ تاہم غیر معمولی عظیم الجثہ ستاروں کے قلب میں موجود زبردست دباؤ ان کو زیادہ تیز رفتار اور اثر آفرین رد عمل کو کام میں لاتا ہے جس کو کاربن نائٹروجن آکسیجن (سی این او) کا چکر کہتے ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
غیر معمولی عظیم الجثہ ستاروں کے قلب میں جاری رہنے والی رد عمل کی شرح زبردست باہری شعاعی دباؤ پیدا کرتی ہے جو ستارے کی باہری پرتوں کو نگل جاتی ہے۔ ستارے کے مین سیکوئینس دور میں تجاذب کا کھچاؤ ستارے کو چند شمسی قطر تک مستحکم کر دیتا ہے۔ اگرچہ یہ سننے میں بہت جسیم لگتا ہے تاہم یہ سطح کے لئے اتنا ہی ہوتا ہے کہ وہ جھلسا دینے والی گرم رہ سکے اور اس کی رنگت سفیدی مائل نیلی ہوتی ہے۔ جب قلب میں ہائیڈروجن کی رسد ختم ہو جاتی ہے تو یہ آس پاس کے خول کے ایندھن کو جلانا شروع کر دیتا ہے تاکہ چمکنا برقرار رکھے۔ حیرت انگیز طور پر اس کی یہ کوشش اس کو مزید چمکدار بنا دیتی ہے اور فراری اشعاع کا اضافی دباؤ ستارے کی بیرونی سطح کو پھلا کر ٹھنڈا کرکے ایک پیلے، نارنجی یا سرخ غیر معمولی عظیم الجثہ ستارے میں تبدیل کر دیتی ہے۔ تبدیلی کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ کس طرح سے توازن قائم ہوا۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
تاہم کئی غیر معمولی عظیم الجثہ ستارے کبھی بھی اس مرحلے تک نہیں پہنچ پاتے اور اپنی مختصر حیات کے دوران نسبتاً گرم اور دبے ہوئے رہتے ہیں۔ یہ ایسا اپنی بیرونی پرت کو خلا میں پھینک کرتے ہیں۔ بعینہ ہمارا سورج جس طرح شمسی ہوائیں خارج کرتا ہے تاہم ان کی شمسی ہوا اس سے کہیں زیادہ طاقت ور ہوتی ہے۔ "ولف رایت" نامی ستارے ہر ایک لاکھ برس میں سورج جتنی کمیت کا مادہ اتار پھینکتے ہیں جس سے ان کا گرم قلب اور زیادہ افشا ہوتا ہے۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
اپنی زندگی کے اختتام تک ایسا کوئی بھی ستارہ غیر مستحکم ہو سکتا ہے اور اس وقت وہ روشن نیلے متغیر ستارے میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا ستارہ ہوتا ہے جس میں اچانک طوفان آنے کا اندیشہ لگا رہتا ہے۔ ایسے ستارے اکثر پہلے انفجار سے نکلنے والے گیس کے بادلوں میں گھرے ہوتے ہیں۔ اس کی سب سے زیادہ مشہور مثال ایٹا کرائینی ہے – ایک ثنائی نظام جس میں ایک سو شمسی کمیت والا چمکدار نیلے متغیر ستارے کے گرد ایک تیس شمسی کمیت کا نیلا غیر معمولی عظیم الجثہ ستارہ چکر لگا رہا ہے۔ 1840ء کی ابتدائی دہائی میں ایک بڑے پھٹاؤ میں ایٹا کرائینی اپنی معمول کی چمک سے اتنا بڑھ گیا تھا کہ خالی آنکھ سے دیکھا جا سکتا تھا۔ یہ آسمان میں دوسرا روشن ترین ستارہ بن گیا تھا۔ آج بھی یہ نظام اس گیس و گرد کے بادلوں میں گہرا ہوا ہے جن کا اس سے اخراج ہوا تھا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
غیر معمولی عظیم الجثہ ستاروں کے ارتقا کے بارے میں ماہرین فلکیات ابھی پوری طرح نہیں جان پائے ہیں۔ تاہم ان کا انجام وہ بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ ہمارے سورج جیسے کم کمیت والے ستاروں کی موت نہایت گمنامی میں ہوتی ہے۔ ایسے ستاروں میں مختصر عرصے میں رہنے والی ہیلیئم کے جلنے سے پیدا ہونے والی 'دوسری ہوا' کے بعد ستارہ غیر مستحکم ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے ستارے کی بیرونی پرت ہٹ کر سیاروی سحابیہ بناتی ہے۔ ستارے کے جلے ہوئے قلب میں ایک سفید بونا باقی رہ جاتا ہے۔ دیوہیکل سیارے اور غیر معمولی عظیم الجثہ ستارے عناصر کو اس وقت تک مسلسل جلا کر دوسرے عناصر میں بدلتے رہتے ہیں جب تک لوہے کا عنصر نہیں بن جاتا۔ لوہا کا عنصر ستارے میں بننے والا وہ پہلا عنصر ہے جو اپنی تشکیل کے دوران اس سے زیادہ توانائی جذب کرتا ہے جتنی کہ اس کے بننے کے دوران خارج ہوتی ہے۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب ستارے کی توانائی کی رسد یک دم سے بند ہو جاتی ہے اور اس کی بیرونی پرت قلب سے اچھلنے سے پہلے اندر کی طرف منہدم ہو جاتی ہے۔ نتیجے میں پیدا ہونے والی صدماتی امواج ستارے کی اوپری پرت میں زبردست قسم کا نیوکلیائی تعامل شروع کر دیتی ہے اور یوں ایک سپر نوا کا دھماکہ ہوتا ہے۔ اس میں اس قدر چمک پیدا ہوتی ہے کہ روشن ترین غیر معمولی عظیم الجثہ ستارے کی روشنی بھی اس کے سامنے ہیچ نظر آتی ہے۔ یہ روشنی اس قدر ہوتی ہے کہ مختصر عرصے کے لئے کل کہکشاں کی روشنی کو بھی گہنا دیتی ہے۔کئی مرتبہ دھماکے سے پیدا ہونے والی صدماتی امواج ستارے سے ہزاروں سال پہلے خارج ہوئے مادے میں بھی آگ لگا دیتی ہیں۔ جب کبھی ایسا ہوتا ہے تو غیر معمولی طور پر روشن سپرنووا کا دھماکہ ہوتا ہے جس کو ہائپر نووا کہتے ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
غیر معمولی عظیم الجثہ ستارے تیزی سے جیتے اور جلدی سے مرجاتے ہیں۔ ماہرین فلکیات نے حال ہی میں سب سے بڑا اور ان میں سے خطرناک ترین ستارہ دریافت کیا ہے۔ R136a1 نامی ستارہ سورج سے 87 لاکھ گنا زیادہ روشن ہے جبکہ اس کی کمیت سورج سے 256 گنا زیادہ ہے۔ R136a1 ٹرنٹولا سحابیہ کے قلب میں واقع ہے۔ یہ سحابیہ بڑے میجیلانی بادل میں موجود ستاروں کو پیدا کرنے والا زبردست علاقہ ہے۔ بڑا میجیلانی بادل ہمارے کہکشاں کی سیارچہ کہکشاں ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
2010 میں دریافت ہوئے اس دور دراز ستارے نے اس حد کی تصدیق کردی جس حد تک ستارہ اپنے آپ کو پھاڑے بغیر بڑا ہو سکتا ہے۔ اس کی کمیت میں بڑی تیزی سے کمی ہورہی ہے اور یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ یہ اپنی دس لاکھ برس پر محیط حیات کے دوران 50 شمسی کمیت جتنا مادہ پھینک ڈالے گا۔ جب کائناتی دیوہیکل اپنی حیات ختم کرے گا تو یہ ایک ایسے نایاب 'پیئر ان اسٹیبلیٹی' سپرنووا کی صورت میں پھٹے گا جو عام سپرنووا سے 50 گنا زیادہ چمک دار ہوگا اس وقت یہ زمین کے آسمان میں کئی مہینوں تک سب سے چمک دار ستارہ ہوگا۔ روشن ستاروں میں اکثر ایٹا کرائینی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مستقبل قریب میں پھٹ جائے گا۔ تاہم کیا آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ R136a1 کب پھٹے گا؟ 'پیئر ان اسٹیبلیٹی' والے ستارے اپنے رشتے داروں کی طرح پہلے سے خبردار نہیں کرتے، لہٰذا یہ کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔۔۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
غیر معمولی عظیم الجثہ ستاروں کے بارے میں پانچ اہم باتیں </h2>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<h4 dir="rtl" style="text-align: right;">
1۔دیوہیکل نونہال </h4>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
غیر معمولی عظیم الجثہ ستارے اپنا ایندھن بہت تیزی سے خرچ کر ڈالتے ہیں لہٰذا ان میں سے اکثریت اپنی پیدائش کی جگہ یعنی ستاروں کی جائے پیدائش سے ہی متوسط رہتی ہے۔</div>
<h4 dir="rtl" style="text-align: right;">
2۔ از سر نو ترتیب </h4>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
غیر معمولی عظیم الجثہ ستارے اس قدر کمیاب ہیں کہ ان کو معیاری تابانی کے نظام کی جماعت میں شامل ہی نہیں کیا گیا تھا۔ ماہرین فلکیات کو مجبوراً "کلاس O" کو سب سے زیادہ چمکدار سے بھی چمک دار کلاس میں شامل کرنا پڑا۔</div>
<h4 dir="rtl" style="text-align: right;">
3۔ بلیک ہولز کے جد امجد</h4>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
ان کے قلب کی کمیت ہی پانچ یا اس سے زیادہ شمسی ہوتی ہے لہٰذا غیر معمولی عظیم الجثہ ستارے ہی وہ ممکنہ ستارے ہیں جو سپرنووا کے دھماکے سے پھٹنے کے بعد اپنے پیچھے بلیک ہولز چھوڑتے ہیں۔</div>
<h4 dir="rtl" style="text-align: right;">
4۔ درجہ بندی کی پریشانی </h4>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
غیر معمولی عظیم الجثہ ستاروں کی کئی مختلف اقسام کے درمیان موجود پریشانی کی وجہ سے بہت سے ماہرین کوشش کرتے ہیں کہ اس سے بچا جا سکے۔ </div>
<h4 dir="rtl" style="text-align: right;">
5۔ غیر معمولی عظیم الجثہ ستاروں کا بادشاہ</h4>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
سب سے بڑے معلومہ ستارے کے کئی امیدوار ہیں، تاہم کچھ تخمینہ جات اس بات کا عندیہ دے رہے ہیں کہ ویسٹر لنڈ 1-26 نامی غیر معمولی عظیم الجثہ ستارے کا قطر 2,500 سورجوں کے برابر ہے۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
کیا آپ جانتے ہیں؟ </h2>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<b>2012 میں ماہرین فلکیات کو "روشنی کی گونج" ملی – یہ روشنی 1843 میں ایٹا کرائینی سے نکلنے والے طوفان کی تھی جو دور دراز کے سحابیہ نے منعکس کی تھی۔ </b></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h2 style="text-align: right;">
عظیم الجثہ ستاروں کی تشکیل کا مسئلہ </h2>
<div dir="rtl">
غیر معمولی ستاروں کی کمیابی نے ماہرین فلکیات کو پریشانی میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ وہ ان چند ستاروں کو ستاروں کی درجہ بندی میں درست مقام پر رکھنے کی سعی میں لگے ہوئے ہیں۔ ابھی تک وہ وولف رایت اور تاباں نیلے غیر معمولی عظیم الجثہ ستاروں کے درمیان کے ربط کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ وہ یہ سبھی سمجھتے ہیں کہ پیلے غیر معمولی عظیم الجثہ ستاروں کی اپنے عزیز غیر معمولی عظیم الجثہ ستاروں کے مقابلے میں کمیت کافی کم ہے اور ان کا زیادہ قریبی تعلق سرخ سپر جائنٹ ستاروں سے بنتا نظر آتا ہے۔</div>
<div dir="rtl">
<br /></div>
<div dir="rtl">
256 شمسی کمیت رکھنے والا R136a1 ستارے نے بھی ماہرین کو مشکل میں ڈالا ہوا ہے۔ اس کی دریافت سے پہلے ماہرین یہ سمجھتے تھے کہ ستارے کے بڑے سے بڑا بننے کی حد 150 شمسی کمیت ہے۔ اس سے بڑا ستارہ اپنے آپ کو پھاڑ لے گا۔ ان ستاروں کے بارے میں اب بھی سوالات کے جوابات ڈھونڈے جا رہے ہیں۔ ماہرین فلکیات نے اس عمل کی تفصیلات حاصل کی ہیں جو ہمارے سورج جیسے چھوٹے ستاروں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔</div>
<div>
<br /></div>
<div>
<h2 style="text-align: right;">
پانچ مشہور غیر معمولی عظیم الجثہ ستارے </h2>
<h4 style="text-align: right;">
1۔ یاقوتی ستارہ </h4>
<div>
برج قیقاؤس میں خالی آنکھ سے دیکھا جا سکنے والا ستاروں آسمان میں سب سے زیادہ سرخ ستارہ ہے یہ ستارہ ہماری کہکشاں کے سب سے بڑے ستاروں میں سے ایک ہے۔</div>
<h4 style="text-align: right;">
2۔ وی وائے کینس میجورس</h4>
<div>
کلب اکبر کے برج میں موجود یہ سرخ غیر معمولی عظیم الجثہ ستارہ شاید اب تک کا سب سے بڑا معلوم ستارہ ہے۔ کچھ تخمینہ جات بتاتے ہیں کہ یہ اس کا قطر سورج کے گرد زحل کے مدار سے بھی زیادہ بڑا ہے۔</div>
<h4 style="text-align: right;">
3۔ ایس ڈوراڈس</h4>
<div>
روشن ترین ستاروں میں سے ایک یہ نیلا متغیر ستارہ بڑے میجیلانی بادل (ملکی وے کہکشاں کی سیارچہ کہکشاں) میں واقع ہے۔ یہ اپنے دوری طوفانوں کو چھوڑتا ہے تاہم طویل عرصے سے یہ مستحکم ہے۔</div>
<h4 style="text-align: right;">
4۔ پستول ستارہ</h4>
<div>
ملکی وے کہکشاں کے مرکز کے قریب ستاروں کے کثیف بادلوں کی اوٹ میں چھپا ہوا یہ نیلا غیر معمولی عظیم الجثہ ستارہ چند ہزار برس پہلے اپنی ہی گیس و دھول سے بنے ہوئے سحابیہ میں گھرا ہوا ہے۔</div>
<h4 style="text-align: right;">
5۔ ایٹا کرائینی </h4>
<div>
یہ ثنائی ستارے کا نظام جڑواں گوشہ دار بالشتیہ سحابیہ میں پیوست ہے اور ممکن ہے کہ جلد ہے سپرنووا کے دھماکے میں انجام بخیر ہوگا۔</div>
</div>
<div>
<br /></div>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h2 style="text-align: right;">
غیر معمولی عظیم الجثہ ستارے کا اندرون</h2>
<h2 style="text-align: right;">
اہم پرتیں جس سے مل کر بڑا روشن نیلا غیر معمولی عظیم الجثہ ستارہ بنتا ہے </h2>
<h4 style="text-align: right;">
قلب کا علاقہ</h4>
<div dir="rtl">
اس طرح کے ضخیم نیلے غیر معمولی عظیم الجثہ ستارے کا قلب کاربن کو جلا کر بھاری عناصر بنانے کی وجہ سے چمکتا ہے۔</div>
<h4 style="text-align: right;">
اندرونی خول</h4>
<div dir="rtl">
قلب کے گرد موجود خول ہیلیئم جلا کر کاربن بنا کر توانائی پیدا کرتا ہے۔ ستارے میں پیاز کی پرتوں کی طرح گداختی پرتوں کا سلسلہ بن سکتا ہے۔ بھاری عناصر قلب کے قریب ہوتے ہیں۔</div>
<h4 style="text-align: right;">
بیرونی خول </h4>
<div dir="rtl">
سب سے بیرونی گداختی خول میں ہائیڈروجن ہیلیئم میں ضم ہو رہی ہوتی ہے۔ یہ وہی عمل ہے جو ستارے کے قلب میں اس کی زندگی میں زیادہ تر چلتا ہے۔</div>
<h4 style="text-align: right;">
ہائیڈروجن کا لفافہ</h4>
<div dir="rtl">
ہائیڈروجن کی ایک گہری پرت (اصل پیمانے پر نہیں دکھائی گئی ہے) جلنے میں کوئی حصہ نہیں ڈالتی۔ ستارے کی زبردست کشش اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ اشعاع کے بیرونی دباؤ کے باوجود یہ اچھی طرح دبی ہوئی رہے۔</div>
<h4 style="text-align: right;">
ضیائی کرہ</h4>
<div dir="rtl">
یہ پرت وہ نقطہ ہے جہاں سے غیر معمولی عظیم الجثہ ستارے کا اندرون شفاف ہو جاتا ہے۔ یہاں سے روشنی کو فرار ہونے کا موقع ملتا ہے۔ نیلے غیر معمولی عظیم الجثہ ستارے میں یہ حرارت کو کئی ہزار ڈگری سیلسیس تک پہنچا دیتی ہے۔</div>
<h4 style="text-align: right;">
بیرونی فضا </h4>
<div dir="rtl">
اکثر غیر معمولی عظیم الجثہ ستارے کے گرد ایک وسیع کرۂ فضائی یا کرونا ہوتی ہے جو ستارے کے حجم سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے۔ نظر آنے والی سطح اور کرونا ایک دوسرے کو دھندلا دیتی ہیں جس سے ستارہ بھی دھندلا جاتا ہے۔ </div>
<div dir="rtl">
<br /></div>
<div dir="rtl">
زمین سے تقریباً 8 ہزار نوری سال کی مسافت پر موجود ایٹا کرائینی ایک غیر معمولی عظیم الجثہ ثنائی ستارہ ہے؛ جبکہ وی وائے کینس میجورس زمین سے 4 ہزار نوری سال کی مسافت پر ایک سرخ غیر معمولی عظیم الجثہ ستارہ ہے۔ </div>
<div dir="rtl">
<br /></div>
<h2 style="text-align: right;">
غیر معمولی عظیم الجثہ ستارے اس قدر بڑا حجم کیسے حاصل کرتے ہیں؟</h2>
<h2 style="text-align: right;">
ہرٹز اسپرنگ – رسل ڈایاگرام ستاروں کی خصوصیات کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے </h2>
<h4 style="text-align: right;">
تابانی</h4>
<div dir="rtl">
ستارے کی مطلق روشنی کی مقدار ڈرامائی طور پر متغیر ہوتی ہے، ہمارے سورج کے مقابلے میں کچھ ستاروں کی روشنی کروڑ ہا گنا زیادہ سے لے کر ایک لاکھ گنا کم تک ہو سکتی ہے۔</div>
<h4 style="text-align: right;">
اہم سلسلہ (مین سیکوئینس)</h4>
<div dir="rtl">
ستاروں کی وسیع تعداد مدھم سرخ بونے سے لے کر روشن نیلے دیوہیکل ستاروں کے درمیان پائی جاتی ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جہان ستارے اپنی عمر عزیز کا زیادہ تر وقت گذارتے ہیں۔</div>
<h4 style="text-align: right;">
نیلے غیر معمولی عظیم الجثہ ستارے</h4>
<div dir="rtl">
کائنات میں کچھ سب سے روشن ستاروں میں جانے والے نیلے غیر معمولی عظیم الجثہ ستارے اپنی بیرونی پرتوں کو اڑا کر وولف رایت ستارے بن جاتے ہیں جو بالآخر تاباں نیلے متغیروں میں ڈھلتے ہیں۔ مثال کے طور پر پستول ستارہ سورج سے ایک کروڑ گنا زیادہ روشن ہے۔</div>
<h4 style="text-align: right;">
غیر معمولی عظیم الجثہ ستارے </h4>
<div dir="rtl">
یہ سب سے زیادہ ضخیم ستارے ہیں۔ ان کے مکمل ارتقا کا مطالعہ ابھی زیر تحقیق ہے۔</div>
<h4 style="text-align: right;">
پیلے غیر معمولی عظیم الجثہ ستارے </h4>
<div dir="rtl">
ہماری کہکشاں میں پائے جانے والے نایاب ستاروں میں سے ایک پیلا غیر معمولی عظیم الجثہ ستارہ ہے۔ گمان کیا جاتا ہے کہ یہ سرخ سپر جائنٹ ستاروں سے بنے ہوں گے۔ رو کیسیوپیا کا درجہ حرارت 4,000-8,000 کیلون کے درمیان ڈولتا رہتا ہے۔</div>
<h4 style="text-align: right;">
سرخ غیر معمولی عظیم الجثہ ستارے </h4>
<div dir="rtl">
کائنات کے سب سے بڑے ستارے بننے کے لئے زیادہ ضخیم ستارے روایتی ارتقائی راستہ، تابانی اور پھولنے کو چنتے ہیں۔ مثال کے طور پر وی وائے کینس میجورس کے قطر کا تخمینہ سورج کے قطر سے 1,800-2,100 گنا زیادہ لگایا گیا ہے۔ اس کا درجہ حرارت 3,000 کیلون ہے۔</div>
<h4 style="text-align: right;">
طیفی جماعت</h4>
<div dir="rtl">
ماہرین فلکیات ستاروں کو ان کے طیف کی مختلف خصوصیات کے لحاظ سے درجہ بند کرتے ہیں۔ عام بطور پر اس میں ان کی رنگت اور درجہ حرارت کی پیمائش کی جاتی ہے۔</div>
<div>
<br /></div>
</div>
</div>
Zuhair Abbashttp://www.blogger.com/profile/04666510644854788654noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1929777235422729587.post-79036439304948579052019-08-29T10:22:00.002+05:002019-08-29T10:25:58.878+05:00عظیم الجثہ خلائی پہاڑ <div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h4 style="text-align: right;">
</h4>
<h4 style="text-align: right;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhZudBiFHjzRs9WJy53WrS8ibwAGmKTUxPvqkIcpHF7MKUhil1HT3bmMmrMmk4rqDiHoYA1zEkE9ESDFVtct3d5EPfteeJ4pAnUeuAjT72vBGeiTcwSTjI2AkAu5UWfj6s1OHRfVYo7vik/s1600/Giant+Space+Mountains.jpg" imageanchor="1"><img border="0" height="176" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhZudBiFHjzRs9WJy53WrS8ibwAGmKTUxPvqkIcpHF7MKUhil1HT3bmMmrMmk4rqDiHoYA1zEkE9ESDFVtct3d5EPfteeJ4pAnUeuAjT72vBGeiTcwSTjI2AkAu5UWfj6s1OHRfVYo7vik/s640/Giant+Space+Mountains.jpg" width="640" /></a></h4>
<h4 style="text-align: right;">
جب زمین کے دو بلند ترین پہاڑوں سے مریخ کے اولمپس مونز کا مقابلہ کیا جائے تب آپ کو معلوم ہوگا کہ مریخ کا پہاڑ کس قدر بڑا ہے </h4>
<blockquote class="tr_bq">
نظام شمسی میں ماؤنٹ ایورسٹ کی بلند ترین چوٹی کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔۔۔</blockquote>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<b>"زمین میں موجود سب سے بڑا ڈھالی آتش فشاں – ہوائی کا موانا لو – مریخ کے اولمپس مونز کے سب سے بڑے آتش فشاں سے چھوٹا ہے"</b></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
ہم ماؤنٹ ایورسٹ پر اس لئے فخر کرتے ہیں کہ یہ زمین کی بلند ترین چوٹی ہے، یہ سطح زمین سے 29,029 فٹ بلند ہے۔ اگر بات کی جائے نظام شمسی کی تو یہ اس میں موجود دوسرے پہاڑی سلسلوں کے مقابلے میں بہت ہی چھوٹی ہے۔ 1971ء میں اولمپس مونز کی دریافت کے بعد اس کو نظام شمسی کی سب سے بلند ترین پہاڑی چوٹی کا اعزاز حاصل ہوا۔ یہ ایک ڈھالی آتش فشاں ہے جو مریخ کے مغربی نصف کرۂ میں واقع ہے اس کی اونچائی 22 کلومیٹر ہے۔ یہ اونچائی پہاڑ کی سطح سے لے کر اس کی چوٹی تک کی ہے۔ اولمپس مونز ہوائی کو بنانے والے آتش فشاں سے بہت ملتا جلتا ہے۔ یہ غیر متناسب ہے، اس کا پروفائل پست ہے اور غالب امکان یہ ہے کہ یہ ہزاروں سنگ سیاہ کے لاوؤں کے بہنے سے بنا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
2011ء میں بونے سیارے ویسٹا میں موجود ایک پہاڑ نے اولمپس مونز کی اونچائی کو بھی مات دینے کا عندیہ دیا۔ کیونکہ ویسٹا نظام شمسی کا سب سے بڑا سیارچہ ہے، لہٰذا سمجھ آتا ہے کہ اس میں سب سے اونچا پہاڑ ہوگا۔ یہ شاید کسی ٹکراؤ کے نتیجے میں بنا ہوگا، رہیاسلویا اس پتھریلے جسم کا سب سے نمایاں حصہ ہے۔ رہیاسلویا کی مرکزی چوٹی کی اونچائی اس کی جڑ سے 22 کلومیٹر تک کی ہے۔ سب سے پہلے ہبل خلائی دوربین نے اسے 1997ء میں دیکھا، اس شہابی گڑھے کا زیادہ قریبی مشاہدہ ناسا کے ڈان خلائی کھوجی نے کیا۔ خلائی پہاڑوں کی پیمائش میں غلطی کے امکان کو مد نظر رکھتے ہوئے اب بھی اولمپس مونز باضابطہ طور پر نظام شمسی کے سب سے اونچے پہاڑ کے لقب کا حق دار ہے۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
تیسرا سب سے اونچا پہاڑ سب سے غیر معمولی ہے۔ زحل کے تیسرے بڑے چاند آئیپٹس پر پائے جانے والے اس پہاڑ کا ابھی کوئی نام نہیں ہے، یہ آئیپٹس کے خط استواء کے ابھاروں کے پیچھے ہے۔ تاہم اس کی خصوصیات بڑی ڈرامائی ہیں، یہ چاند کو خط استواء پر تقسیم کرتا ہے اور اسی کی وجہ سے اس کی صورت اخروٹ جیسی ہے۔ یہ 1,500 کلومیٹر پر پھیلا ہوا پہاڑی سلسلہ ہے جس میں الگ تھلگ کافی چوٹیاں ہیں، اس میں سے کچھ کے بارے میں تخمینہ لگایا گیا ہے کہ ان کی اونچائی 20,000 میٹرز سے بھی زیادہ ہوگی۔ ہمیں ابھی تک نہیں معلوم کہ یہ پہاڑی سلسلہ کیسے بنا ہے اور یہ چاند کے خط استواء پر کیوں واقع ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h3 style="text-align: right;">
اولمپس مونز کا آتش فشانی دہانہ </h3>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
اولمپس مونز میں کافی سارے آتش فشانی دھانے ہیں۔ دیگ جیسے دہانے بھی چوٹی پر موجود ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ اس وقت بنے ہیں جب پھٹنے کے بعد آتش فشاں کی چھت گری ہوگی۔ ان میں سے ہر ایک آتش فشاں کی تاریخ میں ایک الگ پھٹاؤ کا نشان ہے۔ اولمپس مونز کا سب سے بڑا دہانہ 80 کلومیٹر چھوڑا ہے جو غالباً لاوا کی جھیل تھی۔ اس کے مقابلے میں زمین پر سب سے بڑا ڈھالی کہکشاں – ہوائی کا موانا لو اولمپس مونز کے سب سے بڑے دہانے سے چھوٹا ہے!</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h3 style="text-align: right;">
چاند کا سب سے بڑا پہاڑ</h3>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<b>ریکارڈ توڑ ڈالنے والے : چاند کی چوٹی 5.5 کلومیٹر </b><br />
<b><br /></b></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
ہمارے چاند پر بھی کچھ چوٹیاں ہیں، ان میں سے سب سے اونچی مونز ہائیگنز ہے جس کی اونچائی 5,500 میٹرز ہے۔ یہ امبریم تصادم کا نتیجہ ہے، اس تصادم میں ایک بہت بڑا جسم چاند سے ٹکرایا تھا اور اس نے بڑے شہابی گڑھے اور پہاڑ بنا دیئے تھے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h3 style="text-align: right;">
کیا آپ کو معلوم ہے؟</h3>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<b>اولمپس مونز اتنا بڑا اور اتھلا ہے کہ اگر آپ اس پر کھڑے ہوں تو آپ اس کو پورا نہیں دیکھ سکتے۔</b></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h3 style="text-align: right;">
ماؤنٹ ڈوم </h3>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
ٹائٹن جو زحل کا سب سے بڑا چاند ہے اس میں ایک پہاڑی سلسلہ ہے جس کا نام ڈوم مونز ہے۔ یہ چاند کے جنوبی نصف کرہ میں ہے اور زیادہ تر اس کی سطح ہموار ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ ٹائٹن کا سب سے بڑا پہاڑی سلسلہ ہو ، اس کی اونچائی کا تخمینہ 1.5 کلومیٹر لگایا گیا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
کیسینی کھوجی سے حاصل کردہ اعدادوشمار کو جمع کرکے ٹائٹن کا ٹوپوگرافیکل نقشہ بنایا گیا ہے۔ دائیں طرف ٹائٹن کے اندر سرخ علاقے میں مونز واقع ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h2 style="text-align: right;">
خلائی چوٹیاں کیسے تشکیل پاتی ہیں؟</h2>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h3 style="text-align: right;">
1۔ آتش فشانی سرگرمی</h3>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
بڑے آتش فشانی پہاڑ اکثر مائع بہنے والے لاوے سے بنتے ہیں، اور ارضی آتش فشانوں سے بڑے ہوسکتے ہیں کیونکہ ان اجسام میں ٹیکٹونک سرگرمیاں نہیں ہوتیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h3 style="text-align: right;">
2۔ ٹیکٹونکس</h3>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
یہ پہاڑ قشر میں موجود پلیٹس کی حرکت سے بنتے ہیں، سیارے یا چاند کے اندر موجود دبانے والی قوت کے سبب۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h3 style="text-align: right;">
3۔ تصادم </h3>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
بڑے گولے جیسا کہ سیارچے کسی سیارے یا چاند سے ٹکراتے ہیں تو شہابی گڑھوں کے علاوہ بھی اپنا نشان چھوڑ جاتے ہیں؛ یہ سطح پر فالٹ یا شگاف چھوڑ دیتے ہیں جن سے نئے پہاڑ بن جاتے ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br />
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h4 style="text-align: right;">
ماؤنٹ ایورسٹ </h4>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
زمین پر سب سے بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ ہے جو سطح سمندر سے 8,848 میٹرز اوپر ہے۔ نظام شمسی میں دوسرے پہاڑوں کی پیمائش ان کی جڑ سے کی جاتی ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h4 style="text-align: right;">
اولمپس مونز </h4>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
22 کلومیٹر طویل اولمپس مونز، ماؤنٹ ایورسٹ سے ڈھائی گنا زیادہ اونچی ہے جبکہ موانا کیا سے دگنی ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h4 style="text-align: right;">
موانا کیا </h4>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
اگر اس کی پیمائش کو جڑ سے کی جائے تو ہوائی کی موانا کیا 10,000 میٹرز سے بھی زیادہ ہے – یعنی ماؤنٹ ایورسٹ سے بھی بلند۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<h4 style="text-align: right;">
بنیادی علاقہ</h4>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
قریبا 700 کلومیٹر پر پھیلے ہوئے اولمپس مونز کی چوڑائی اس کی اونچائی جتنی ہی متاثر کن ہے۔ یہ تصویر بتاتی ہے کہ اگر اس کو فرانس پر رکھا جائے تو یہ کیسے اس میں فٹ ہوگا۔</div>
</div>
</div>
Zuhair Abbashttp://www.blogger.com/profile/04666510644854788654noreply@blogger.com0