Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    جمعہ، 16 دسمبر، 2016

    انسانوں کی کہانی


    بنی نوع انسان نے کس طرح سے براعظموں کو پار کر کے اپنے سیارے کرۂ ارض پر فتح کے جھنڈے گاڑھے!!!!

    تمثیلی روانگی کے سفر کے خاکے میں، انسانی ارتقاء کو ایک واحد رواں عمل کے ذریعہ دکھایا گیا ہے جس کی ابتداء بندر سے ہوتی ہوئی اختتام ہم جدید انسانوں پر ہوتا ہے۔ لیکن حقیقت میں ہمارا ارتقائی ماضی بہت ہی زیادہ الجھا ہوا ہے، جس میں مختلف اجداد ہم سے جدا ہوئے اور ایک دوسرے کو غیر واضح طریقوں سے کاٹتے ہوئے انہوں نے کثیر جداگانہ راستوں پر قدم رکھا۔ 

    جب ہم خاندانی شجرہ بناتے ہیں، تو ہر شاخ ایک مختلف نوع کی نمائندگی کرتی ہے –یعنی نوع ان افراد کے گروہ پر مشتمل ہوتی ہے جو جینیاتی طور پر اتنے ملتے جلتے ہیں کہ آپس میں مجامعت کرکے باہمی افزائش نسل کر سکیں ۔ نئی نوع نے فطری انتخاب کے عمل ذریعہ ترقی کی، فطری انتخاب یا قدرتی چناؤ کے اس عمل میں ماحولیاتی دباؤ نے کچھ خصائص کو دوسروں پر ترجیح دی، اس سے اس نوع کی آبادی یا تو بتدریج ہم آہنگ ہو گئی یا پھر زندہ رہنے کے بہتر موقع کے ساتھ الگ ہو گئی۔ 

    بکھرے ہوئے رکازی مندرجات کے باوجود، علماء نے انسانی مماثل - یعنی کہ جدید انسانوں اور ہمارے قدیمی دو پایہ اجداد سمیت انواع کے گروہ - کے ارتقاء کا ساٹھ لاکھ برس پیچھے ماضی میں سراغ لگایا ہے۔ تاہم میدانی سائنس دان اب بھی 'نئے' معدوم انسانی مماثل کو دریافت کر رہے ہیں یعنی کہ ہماری اپنی انسانی ارتقاء کی تفہیم مسلسل آگے بڑھ رہی ہے۔ 

    اگرچہ ہم یہ جانتے ہیں کہ جدید انسان اور چمپانزی ساٹھ اور اسی لاکھ برس پہلے کے درمیان مشترکہ اجداد سے بنے ہیں، سائنس دان اب بھی سب سے ابتدائی انسانی مماثل کی تلاش کی جد و جہد اور اس لمحے کی تلاش میں مشغول ہیں جب دونوں کا شجرہ نسب الگ ہوا۔ ان تمام تر باتوں کے باوجود، وہ انسانی ارتقاء کے سب سے بنیادی سوال کے جواب کی تلاش کر رہے ہیں : وہ کون سے واقعات اور مطابقت پذیری کے سلسلے تھے جنہوں نے قدیمی انسان کو موجودہ انسان کی صورت میں ڈھالا؟




    ماہرین بشریات قدیمہ وہ سائنس دان ہوتے ہیں جو ہمارے ارتقائی ماضی میں جھانکتے ہیں۔ جب وہ ہمارے شجرہ نسب کو جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں، تو رکازیات سے ان کا اہم ترین سراغ - قدیم انسانی مماثل کے طبیعی ثبوت، جیسا کہ ہڈیاں اور دانت وغیرہ - سے ملتے ہیں جو ان کو مختلف نوع میں درجہ بند کرنے کے لئے مدد کرتے ہیں۔ 

    یہ سمجھنے کے لئے کہ کس طرح سے نوع ارتقاء پذیر ہوتی ہیں، یہ بات جاننا انتہائی اہم ہے کہ یہ رکاز کتنے برس پرانے ہیں۔ بہرحال عام طور پر استعمال ہونے والا ریڈیوکاربن ڈیٹنگ طریقہ صرف ان نمونوں پر استعمال ہو سکتا ہے جو 40,000 برس سے کم پرانے ہوں۔ 

    اس سے پرانے نمونوں کی جانچ کے لئے ریڈیوکاربن ڈیٹنگ طریقہ کے بجائے، ماہرین رکازات کے قریب کے مادوں کو دیکھتے ہیں، جیسا کہ چٹانوں کی پرتیں جس میں ان کو دریافت کیا جاتا ہے۔ مقامی ارضیات کا محتاط مطالعہ کیمیائی تجزیے کے ساتھ مل کر پرتوں کے اندر رکازات اور انسانی بنائی ہوئی چیزوں کی تاریخ کے تعین کرنے میں مدد دیتا ہے۔ 

    پچھلی صدی میں، ڈی این اے سلسلے نے اس میدان میں انقلاب برپا کر دیا۔ کیونکہ جینیاتی تقلیب (جینیٹک میوٹیشن ) قابل اندازہ شرح کے ساتھ واقع ہوتی ہیں اور والدین سے اولاد میں منتقل ہوتی ہیں، قدیمی ڈی این اے کے ٹکڑوں کو ہم اپنے آپ سے موازنہ کر کے اپنے اجداد کی حیاتیات اور برتاؤ کے بارے میں راز کو معلوم کر سکتے ہیں۔ 

    وہ کون سے ایسے حالات و واقعات تھے جس نے قدیمی ابتدائی انسانی نوع کو اس کے قریبی رشتے داروں سے الگ کیا؟ 

    آج سیارے پر موجود ہر انسان ایک واحد نوع: ہومو سیپیئنز کا رکن ہے۔ اپنے معدوم اجداد اور قریبی رشتے داروں کے ساتھ، ہم وسیع نوع ہومو کا حصہ ہیں، جس کے تمام اراکین بلا مبالغہ انسانی خصلتوں کا اشتراک کرتے ہیں۔ ہومو جینس لگ بھگ تیس برس پہلے کے آس پاس افریقہ میں نمودار ہوئے، اس وقت تک یہ علاقہ از کم 11 انسانی مماثل انواع کا گھر تھا۔ سب سے پرانا ہومو کا رکاز - جو 28 لاکھ برس پرانے - انواع کے رکن ہومو ہابیلس کا تھا۔ اس کے نام کا مطلب 'ہاتھ والا آدمی' ہے، اس کا یہ نام اس لئے پڑا کیونکہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ وہ پہلا انسانی مماثل تھا جس نے پتھر کے اوزار استعمال کئے۔ اگرچہ اس میں ابتدائی آسٹرالو کے بندر جیسے حامل جسم کے نقش موجود تھے، تاہم اس کا دماغ کافی بڑا تھا۔ 
    اوزار کا استعمال اور دماغ کا حجم ہومو جینس کو بیان کرنے کی بنیادی دو صفات ہیں۔ تیسری صفت سیدھا ڈھانچہ ہے جو دو قدموں پر چلنے کے قابل بناتا ہے۔ ان صفاتی تبدیلیوں نے مل کر ماحول کا بہتر فائدہ اٹھانے، مسائل کو حل کرنے اور طویل فاصلے پر سفر کرنے کے لئے ارتقائی برتری دی۔ 
    ماہرین بشریات قدیمہ نے انسانی نوع کے ارتقاء کو ان کی رکازی باقیات پر تحقیق کر کے دوبارہ سے بنایا ہے

    ہماری اپنی نوع کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ اس کا ارتقاء مضبوط، کسرتی ہومو ہیڈلبرجینسس سے آج سے 200,000 برس پہلے ہوا تھا۔ نتیجتاً وہ بیس لاکھ برس زندہ رہنے والے تاریخ میں سب سے کامیاب انسانی مماثل ہومو ایریکٹس میں بدلے ۔ 

    طویل وقت کے لئے سائنس دان دلیل دیتے ہیں کہ آیا ہومو سیپیئن دنیا (افریقہ سے باہر کا نظریہ) میں پھیلنے سے پہلے ہی افریقہ میں ارتقاء پذیر ہوئے یا پھر انہوں نے کئی جگہوں پر ایک ساتھ ارتقائی منازل کو طے کیا (کثیر علاقائی نظریہ)۔ ڈی این اے کی حالیہ تحقیق بتاتی ہے کہ ہماری نسل واحد آبادی سے چلی جو آج سے 150,000 برس پہلے رہتی تھی، جو خاصی حد تک افریقہ کے باہر والے نظریئے کی حمایت کرتی ہے۔ 

    نوع کے کچھ سب سے ممتاز اراکین کے کچھ نقشی خصائص کے بارے میں جانئے 


    2010ء میں سائنسدانوں نے انسانی ارتقاء کی کہانی میں ایک چونکا دینے والی نئے موڑ کا اعلان کیا۔ موجودہ ہومو نیندرتھل کے حاصل کئے گئے ڈی این اے نے بتایا کہ 50,000 تا 60,000 برس پہلے - جب وہ لیونٹ میں یوریشیا کی طرف بڑھتے ہوئے جدید انسانوں کے ساتھ ملے - تب دونوں نوع کبھی کبھار مجامعت کرکے بچے پیدا کرتے تھے۔ حقیقت میں، آج ہر زندہ شخص کے لونیہ (کروموسوم) میں جو افریقی نسل سے نہیں ہے نیندرتھل کے ایک سے چار فیصد کے درمیان ڈی این اے موجود ہے۔ ہومو ہیڈلبرجنسس سے ارتقاء ہوئے نیندرتھل ہمارے سب سے قریبی رشتے دار ہیں۔ اگرچہ دو جینیاتی نوع میں آپس میں مل کر کبھی کبھار اولاد کا پیدا کرنا ممکن ہوتا ہے، کچھ سائنس دان شروع میں متشکک تھے۔ وہ دلیل دیتے کہ -ابھی تک نامعلوم- مشترکہ اجداد کا اشتراک کرنے والی دو انواع میں مشترکہ ڈی این اے ہو سکتا ہے۔ آج معروف ماہرین نئے مزید مفصل تجزیے کو حتمی طور پر سوال کے جواب کے لئے دیتے ہیں ؛ ہم بنی نوع انسان کچھ تھوڑے سے نیندرتھل بھی ہیں!


    ہمارے قدیم اجداد کے پکڑنے والے ہاتھ درختوں پر موافق زندگی گزارنے کی وجہ سے ہوئے۔ مقابل انگلیاں - جو ادھر ادھر حرکت کرنے اور دوسری انگلیوں کو چھونے کے قابل تھیں - اور چپٹی انگلیوں کے کنارے درختوں پر گھومنے والوں کو شاخیں پکڑنے اور چھوٹی چیزوں سے کام لینے میں مدد دیتی تھیں۔ 

    ہمارے جدید انگوٹھے انسانوں اور چمپانزیوں کے آخری مشترکہ اجداد کے بعد سے بہت ہی کم تبدیل ہوئے ہیں۔ یہ انگلیوں کے مقابلے میں کسی بھی قدیمی جانور کے انگوٹھے سے لمبے ہیں، جس سے ان کو طاقت اور درستی ملتی ہے۔ اس سے ہمارے اجداد کو وسیع متنوع فیہ قسم کی خوراک کو جمع کرنے اور آخر کار اوزار بنانے میں مدد ملی۔ 

    ایک مقابل انگوٹھا ہاتھ کو قوت و مہارت سے پکڑنے کے قابل بناتا ہے۔ 



    کس طرح سے جسمانی ہم آہنگی اور نئی مہارتوں نے جدید انسانی نوع کی مدد کی


    چار اہم تبدیلیوں کے رجحان نے انسانوں کو قدیمی بوزنوں سے الگ کیا: زمینی ہونا، یہ درختوں پر مٹر گشت کرنے سے زمین پر رہنے کا سفر تھا؛ دو پایہ ہونا، اس میں چار ٹانگوں سے حرکت کرتے ہوئے سیدھے کھڑے ہو کر دو ٹانگوں پر چلنے کی طرف منتقلی تھی؛ دماغی ہونا، یہ دماغ و جسم کی کمیت کے بڑھتے تناسب کی شرح تھی؛ اور تہذیبی ہونا - ایک ایسی پٹاری جس میں معاشرتی تنظیم، تیکنیکی سوچ، مواصلات اور ثقافت شامل تھی۔ 


    ان شعبوں میں علت کو معلول سے الگ کرنا مشکل ہے اور ماہرین اس ترتیب پر متفق نہیں ہیں جس میں یہ سب سلسلے وار وقوع پذیر ہوا۔ تاہم ماحولیاتی سائنس کچھ قائل کرنے والے ثبوت پیش کرتی ہے کہ اس تمام کہانی کا آغاز کہاں سے ہوا۔ 

    مارنے والے نیزوں نے نیندرتھل کو نئے شکاریوں پر بڑے شکار کو کرنے کے لئے برتری دی۔ 

    شروعات تقریباً ایک کروڑ برس پہلے ہوئی، افریقہ کا ماحول سر سبز حاری جنگلات سے چھدرے کھلی چراہ گاہوں میں بہت بڑے پیمانے پر تبدیل ہوا۔ جب خوراک کے وسائل کافی جگہ تقسیم ہو گئے، تو قدیمی انسان دو ٹانگوں پر چلنے کی وجہ سے اس قابل ہوئے کہ طویل فاصلے تک خوراک کو جمع کرنے نہ صرف جا سکیں بلکہ بعد کے استعمال کے لئے خوراک کا ذخیرہ بھی پنے ساتھ لے جانے کے قابل ہوں۔ کم ہوتی نباتات کے ساتھ، سیدھا کھڑا ہونا جلد کی سطح کے رقبے کو کم گرمی کا سامنا کرکے ان کے اجسام کو ٹھنڈا رکھنے میں، اور جسم کو زیادہ تر اوپر کی جانب ٹھنڈی ہوا میں رکھ کر گرم زمین سے دور رکھنے میں بھی مدد دیتا تھا۔ 

    دوسری اصلاحات کو جاننا زیادہ مشکل ہے۔ خاص طور پر، یہ واضح نہیں کہ کس چیز نے انسانی دماغ کو بڑھنے میں اکسایا۔ شاید دماغی صلاحیت بڑھتے ہوئی پیچیدہ معاشرتی میل جول کا نتیجہ یا فنیاتی ( ٹیکنالوجیکل) سوچ کی مانگ نے پتھر کے اوزار بنانے کی ضرورت کا مطالبہ کیا۔ دوسری طرف، دماغی بڑھوتری صرف اس وقت شروع ہوتی جب آسانی سے قابل ہضم، توانائی سے لبریز خوراک باقاعدگی سے دستیاب ہوتی - بالفاظ دیگر، اس کے بعد انسانوں نے یہ بات جانی کہ کس طرح سے گوشت کو حاصل کر کے پکایا جاتا ہے۔ انسانی نوع کے انہضام کی جگہ کم ہو گئی، یوں توانائی بڑے دماغ اور دیگر عضو کے لئے آزاد ہوئی۔ 

    اوزار بنانے کی حرفت زیادہ منظم اور مصنوعہ زیادہ یکساں ہو گئیں ؛ ماہرین قیاس لگاتے ہیں کہ اس بڑھتے ہوئے ادراکی عمل نے بالآخر منظم لسان، اشاری خیالات اور تخیلاتی اظہار کی جانب رہنمائی کی۔ 


    "انسان کم از کم تیس لاکھ برس سے آلات استعمال کر رہے ہیں"


    نیندرتھل کے بنائے ہوئے پتھروں کی نوکوں پر پائے گئے گوند کے نشان - شاید درخت کا رس یا رال - بتاتے ہیں کہ وہ کبھی لکڑی کی برچھی کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ چابک میں پودوں کے ریشے کی جگہ، نسیں، یا چمڑا لگانے سے یہ بہتر نیزے بن گئے جس سے نیندرتھل شاید باہمی امدادی گروہ کی صورت میں بڑے شکار کو دور فاصلے سے مار گرانے کے قابل ہوئے۔ 
    40,000 برس پرانے لسکوس، فرانس میں واقع غار میں ایک دیوہیکل ہرن کی تصویر 


    ابتدائی انسانوں نے اپنے جہاں کا ادرک کیسے کیا؟ افسوس، رکاز ثقافت کے موضوعات - زبان، رسومات، موسیقی اور اظہار کی دوسری صورتوں کے بارے میں خاموش ہیں۔ تاہم افریقہ میں 100,000 لاکھ برس قبل سیپیوں سے بنے دانے اور یورپ میں 40,000 برس پرانے غار میں بنی ہوئی تصاویر ہمارے اجداد کی تخلیق، اظہار اور متحد رہنے کی تحریک کا ثبوت ہیں۔ 



    کئی نوع بات چیت کرتی ہیں، تاہم پوری زبان - آوازوں اور الفاظ کو جوڑنے کے قواعد کے ساتھ - صرف انسانوں کا ہی خاصہ ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ انسان دوسرے قدیمی انسانوں سے ہمارے نرخرے - یا صوتی ڈبے - کی وجہ سے الگ ہیں جو ہمارے حلق کے نیچے موجود ہے۔ اس سے ہمیں آوازوں کو اپنے لبوں اور زبان کی مدد سے الفاظ میں ڈھالنے میں مدد ملی۔ 

    علامتی ابلاغ کی مہارت کی گنجائش ہماری جین کی گہرائی میں موجود ہے 

    بلا کم و کاست زبان کب اور کہاں بنی نامعلوم ہے۔ نچلا نرخرا لگ بھگ 300,000 برس قبل ارتقاء ہوا، لیکن ماہرین سمجھتے ہیں کہ بولی جانے والی زبان صرف آخری 100,000 برس قبل ہی ظاہر ہوئی ہے، غالباً یہ مزید بنیادی 'ابتدائی-زبان' سے بنی ہے جو سادی آوازوں کے علاوہ صرف اشاروں اور جسمانی زبان پر مشتمل تھی۔ 


    جب ہم مل کر کام کرتے ہیں، تب ہم کم وقت اور کم کوشش کے ساتھ زیادہ مطلوبہ نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔ یہی چیز ہمارے اجداد پر لاگو ہوتی ہے۔ ایک ساتھ مل کر گروہ بنانے سے، وہ بڑے جانوروں کا شکار، متنوع فیہ قسم کی خوراک کو جمع، کام کو تقسیم، وسائل کا دفاع اور حملہ آوروں سے گروہ کی بہتر حفاظت کر سکتے تھے۔ 

    ابتدائی انسان نے بڑے شکار کو مارنے کے لئے ایک دوسرے سے تعاون کرنا سیکھ لیا



    زیادہ تر ممالیوں میں، دماغ کا حجم جسم کے متناسب ہے۔ زیادہ تر ملنے والے قدیمی دماغوں نے اس تناسب کو پار کر لیا تھا ، تاہم لگ بھگ بیس لاکھ برس پہلے، ہماری اجداد کے دماغ نے بڑا ہونا شروع کر دیا۔ اسی وقت دماغ کی از سر نو ترتیب ہوئی، دماغ کے کچھ حصوں جیسا کہ سونگھنے والے حصوں کے مقابلے پر سیکھنے میں استعمال ہونے والے حصے کی نمو دوسرے حصوں کے مقابلے بہتر ہوئی۔ 



    جب دماغ کا حجم اور پیچیدگی میں اضافہ ہوا، تب ابتدائی انسان مسائل سے نمٹنے کے لئے منطق اور تخیل کے ساتھ آراستہ ہوا۔ اوزار بنانے سے براعظم کو پار کرنے اور بوڑھوں اور کمزوروں کی دیکھ بھال کرنے تک، یہ ایک دوسرے سے بات چیت کرنے اور ماحول سے نئے طریقوں سے نمٹنے کی قابلیت تھی جس نے ہمارے اجداد کو ایک ناقابل پیش گوئی جہاں میں زندہ رہنے میں مدد دی۔ 


    آگ کو تصرف میں لانا انسانی تاریخ کا اہم موڑ تھا، تاہم یہ ثبوت کہ یہ کب اور کیسے ہوا ادھر ادھر پھیلا ہوا ہے اور گرما گرم موضوع بحث ہے۔ 

    جلی ہوئی ہڈیاں اور راکھ بتاتی ہے کہ ہومو ایرگیسٹر کا آگ کے ساتھ میل جول افریقہ میں 15 لاکھ برس قبل ہوا، تاہم یہ بات ہنوز دریافت طلب ہے کہ آیا آگ خود سے لگی تھی یا لگائی گئی تھی۔ آگ کا منضبط اور بہتر استعمال 800,000 برس پہلے نظر آیا؛ اوزار بنانے کی چیزوں کی جلی ہوئی راکھ ، جلے ہوئے بیج، اور اسرائیل میں گیشر بینواٹ یعقوب کی جگہ پر پھیلے ہوئے ایک درجن سے زائد چولھوں میں لکڑی کے نشان ملے ہیں ۔ 

    پڑاؤ میں آگ نہ صرف گرمی اور رات کے وقت شکاریوں سے محفوظ رکھتی تھی؛ بلکہ یہ خوراک کو پکانے کے قابل بھی بناتی تھی، جس سے خوراک زیادہ قابل ہضم ہو جاتی تھی، اور غالباً اس نے انسانی دماغ کے ارتقاء پر اثر ڈالا۔ 



    جدید انسان اور ہمارے اجداد کم از کم تیس لاکھ برس سے اوزار استعمال کر رہے ہیں۔ جب ذہانت بڑھی تو وہ اوزار جو انسانوں نے بنائے تھے وہ زیادہ پیچیدہ اور خاص بن گئے۔ شکار کے لئے اوزار، جانوروں کی لاش سے گوشت اتارنا اور ہڈیوں کو توڑنا قدیم ابتدائی انسانوں کے پھیلاؤ کا نقیب بن گیا، جس سے بڑے اجسام اور بڑے دماغوں کے لئے زیادہ توانائی دستیاب ہو گئی۔ 

    26 لاکھ برس قبل، ابتدائی انسانوں نے سیکھ لیا تھا کہ کس طرح سے ایک پتھر سے دوسرے کے تیز کناروں کو ختم کرنے کے لئے چوٹ ماری جا سکتی تھی۔ یہ سادہ اوزار اہم ارتقائی ترقی کو ظاہر کرتا ہے - پہلی تیکنیکی سوچ۔ اوزار بنانے والے کو منصوبہ بنانا، اپنی غلطیوں سے سیکھنا، اور موزوں چیزوں کا انتخاب کرنا ہوتا تھا۔ 

    300,000سال پہلے اوزار بنانے والے سمجھ گئے تھے کہ کس طرح سے پتھر کا 'قلب' بنایا جائے تاکہ اس کی سطح سے ایک ہی وار میں طویل صاف کاٹنے کی دھار بنائی جا سکے۔ اس کو ایک طرف یا دونوں اطراف چھوٹے جوڑ لگا کر مختلف مقاصد کے لئے بہتر بنایا جا سکتا تھا۔ 

    تقریباً50,000سال پہلے، یورپ میں برفانی دور میں رہنے والے جدید انسانوں نے ہڈیوں، ہاتھی دانت اور ہرن کے سینگوں کو سوئیوں نیزے کی انیوں، مچھلی پکڑنے کے کانٹوں اور برچھیوں سمیت پیچیدہ اور خصوصی آلات میں ڈھالنے پر کام کرنا شروع کیا۔ ان مادوں پر کام کرنا کوئی آسان بات نہ تھی ، اور اوزار اپنے بنانے والے کی تیز فہمی اور دستی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ 



    انسان - افریقی جنگلیوں سے دنیا کے شہری بننے تک 

    ہم نے ہومو سیپیئن کے طور پر زمین پر 200,000 برس سے بھی کم عرصے میں - کسی بھی دوسری انسانی نوع کے برخلاف - پورے سیارے کو آباد کرنا سیکھ لیا۔ تاہم ہم وہ پہلی نوع نہیں تھے جنہوں نے افریقہ سے آگے جانے کی جرت کی۔ ہمارے کچھ اجداد نے کم از کم 18 لاکھ برس قبل پہلے اس طرح کے ابتدائی اقدام اٹھائے تھے۔ 

    سب سے پہلے انسانی مسافرت کی مہم جوئی یورپ میں مغرب اور شمال سے پہلے ایشیاء کی جانب مشرق میں ہوئی۔ ہومو ایریکٹس پورے ایشیا میں پھیل گئے، اور جاوا تک پہنچ گئے، اور ہومو ہیڈلبرجینسس پورے ایشیا اور یورپ دونوں جگہوں میں پھیل گئے تھے۔ 

    ہماری اپنی نوع کے تمام تر ثبوت بتاتے ہیں کہ ہم اپنے 200,000 برسوں کی موجودگی میں پہلے 100,000 برس تک افریقہ میں رہے۔ پہلی نقل مکانی کی کوشش کے بعد، ہمیں نکلنے میں مزید 30,000 ہزار برس لگے۔ اس وقت بڑے پیمانے پر ہجرت ہوئی؛ ہومو سیپیئن 50,000 ہزار برس کے اندر تیزی سے سوائے انٹارکٹکا کے تمام براعظموں میں پھیلے، اور یوں اس ہجرت نے ہمیں سب سے زیادہ خطرناک حملہ آور بنا دیا جس کو دنیا آج جانتی ہے۔ 



    "انسان دنیا کی معلومہ حملہ آوروں کی نوع میں سب سے زیادہ خطرناک ہے" 

    بیرنگ لینڈ پل

    ہم آثار قدیمہ کے ثبوتوں کی بدولت جانتے ہیں کہ انسانوں امریکہ 15,000 برس پہلے پہنچ چکے تھے۔ تاہم دنیا کے اگر نقشے کو دیکھا جائے، تو یہ بات سمجھنا کافی مشکل ہے کہ ذہانت اور برداشت کے کون سے کارنامے تھے جنہوں نے ان کو پرانی دنیا سے نئی دنیا کا سفر کرنے کے قابل بنایا۔ حتی کہ ان کے قریب ترین جگہوں پر بھی، سائبیریا اور شمالی الاسکا کی منجمد زمین کے درمیان بھی جما دینے والا 85 کلومیٹر کا پانی کا سمندر ہے جو بیرنگ آبنائے کے نام سے جانا جاتا ہے۔ 

    تاہم آخری برفانی دور کے اختتام تک، لگ بھگ20,000برس قبل، عظیم الشان براعظمی برفانی تودے اس طرح سے پھنسے کہ زمین کے پانی کی سطح لگ بھگ آج سے 100 میٹر نیچے تھی۔ ایک وسیع کھلی ہوئی زمین کے ڈھیر نے شمالی مشرق یوریشیا کو شمال مغربی امریکا سے جوڑا۔ شروع کی کئی ہجرتوں کی لہر کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہ اسی 'زمینی پل' کے ذریعہ طے کی گئیں غالباً کچھ عرصے آج کے موجودہ بیرنجیا کے نام سے جانے جانے والے صوبے میں رہے بھی۔ 


    شمالی نصف کرہ میں اپنے رشتے داروں کی طرح، آسٹریلیا کے پہلے رہائشیوں نے بغیر کسی شک و حجت کے سمندر کے راستے سفر کیا۔ برفانی دور کی انتہا پر، کم سمندری سطح کا مطلب آسٹریلیا، تسمانیا اور نیو گنی نے ایک واحد تسلسل کے ساتھ خشکی کا ٹکرا بنایا ہو گا۔ لیکن پھر بھی، جنوب مشرقی ایشیاء سے سفر کو جزائر پر سے پھلانگتے ہوئے آٹھ مراحل میں کرنا تھا جس کا اختتام 87 کلومیٹر کے طاقتور سمندری سفر پر بذریعہ آ بنائے تیمور ہوتا تھا۔ آسٹریلوی علمبرداروں کی کوئی بھی سمندری سفر کرنے کی کشتیوں کی باقیات کے ثبوت باقی نہیں رہے، اور ہم صرف اندازہ ہی لگا سکتے ہیں کہ ان کو کس چیز نے اس ان دیکھی زمین پر آنے کے لئے مجبور کیا۔ تاہم انہوں نے حملہ کیا، اور ہم نے ان کے وہاں کامیاب پہنچنے کے ثبوت کی ابتدا 50,000 تا 60,000 برس پہلے تک دیکھے۔ 



    جدید انسانوں نے کس طرح سے خطرات کا مقابلہ کرکے اپنے آپ کو معدوم ہونے سے بچایا 

    300,000 برس تک پھلنے پھولنے کے بعد، نیندرتھل ہومو سیپیئن کی آمد کے صرف 10,000 برس کے اندر ہی غائب ہو گئے۔

    انسانی ارتقاء کے ساٹھ لاکھ برس کے بعد، ہومو سیپیئن ہی صرف وہ نوع تھے جو زندہ باقی بچے رہے۔ زندہ بچے رہنے کی ہماری کامیابی کا راز کیا ہے؟ سائنس دان سمجھتے ہیں ہماری کامیابی کا راز انسانی ماحول سے مطابقت پذیری، تخیلاتی سوچ اور تعاون کرنے کی صلاحیت میں پنہا ہے۔

    بے شک، کسی اور دوسرے جانور کی انواع نے اتنے وسیع پیمانے پر مساکن سے ہم آہنگی اختیار نہیں اور نہ ہی وہ جدید انسان کی طرح پھیلے ۔ انسانوں کی ایک کامیاب لہر افریقہ سے نکلی اور پوری دنیا میں پھیل گئی، ہم انسانوں نے ہر نئی جگہ کے بارے میں معلوم کیا کہ کس طرح سے وہاں مقامی خوراک کی تلاش کی جا سکتی ہے اور اسے کھایا جا سکتا ہے اور مختلف آب و ہوا میں کیسے زندہ بچا جا سکتا ہے۔

    ہم یہ کام نہ تو بغیر تیکنیکی ذہانت کے اور نہ ہی ثقافتی تصورات کی کامیاب منتقلی کے بغیر کر سکتے تھے، ایک دوسرے کی نقل کرنے ، تصورات کو دوسروں تک پہنچانے اور نئی مہارتوں کو سیکھنے کی صلاحیت اگر نہ ہوتی تو ہر نئی نسل کو پہیہ دوبارہ ایجاد کرنا پڑتا ۔ ان خصوصیات کی بدولت انسانوں میں سب سے زیادہ ماہر اور ذہین افراد کل آبادی کو فائدہ پہنچانے میں مدد دے سکتے تھے۔

    ان صفات نے ہمیں تبدیلی کے سامنے سینہ سپر کر دیا۔ مثال کے طور پر 15,000 ہزار برس کے برفانی دور کے دوران، مشرقی یورپ میں جدید انسان نے سردی سے نمٹنے کے لئے انتہائی ذہانت سے بھرپور طریقہ نکالا۔ جسم کو سردی سے بچانے کے لئے انہوں نے جانوروں کی کھالوں سے کپڑے سینا سیکھ لئے تھے، انہوں نے جان لیا تھا کہ رہنے کے لئے میمتھ کی ہڈیوں سے محفوظ پناہ گاہیں کیسے بنائی جائیں ، انہوں نے پتا لگایا کہ طویل عرصے تک قلیل خوراک کی رسد کو کس طرح زیر زمین برف کے اندر محفوظ کیا جا سکتا ہے، اور سب سے اہم بات کہ وہ حرارت حاصل کرنے کے لئے آگ کا استعمال کرنا جان گئے تھے ۔ ان تمام باتوں نے مل کر انہیں اس قابل بنایا کہ وہ سخت حالات سے گزر کر اپنی نوع کی بقاء کو یقینی بنا سکیں۔

    35،000 اور 45,000 ہزار برس قبل کے دوران، جدید انسان پورے یورپ میں پھیل گئے تھے، جبکہ 250,000 برس قبل سے موجود نیندرتھل کرۂ ارض سے پراسرار طور ر غائب ہو گئے۔ بہت سے سائنس دان سمجھتے ہیں کہ دونوں واقعات میں کافی ربط ہے، اور دلیل دیتے ہیں کہ ہومو سیپیئن نے وسائل کے لئے اپنی قریبی رشتے داروں کو شکست دی اور غالباً ان پر متواتر حملہ بھی کیا۔

    جبکہ کئی دوسرے سائنس دان سمجھتے ہیں کہ آیا نیندرتھل کی معدومیت کے لئے ان کے قلیل جین پول کو الزام دینا چاہئے یا نہیں۔ کچھ تحقیق بتاتی ہے کہ نیندرتھل کی آبادی چند ہزار افراد سے زیادہ نہیں بڑھ سکی ۔ جینیاتی تنوع اور آبادی کے چھوٹے حجم کی وجہ نے ان کو متعدی امراض، ماحول میں بنیادی تبدیلی اور قدرتی آفات کا شکار بنا دیا تھا۔


    کس طرح سے مٹی، معاشرے اور سائنس نے جدید انسانوں کو ترقی یافتہ بنایا 
    انسانیت کی طبی مہارت میں جمع شدہ علم نے ہمیں پہلے سے کہیں زیادہ صحت مند رکھا ہوا ہے۔


    وہ لمحہ جب جدید انسان محض اپنی جان بچانے والے کے بجائے پھلنے پھولنے والا بنا وہ کچھ لگ بھگ 12,000 برس قبل زراعت کے آغاز کے ساتھ اتفاقی طور پر واقعہ ہوا۔

    کئی لاکھ برس سے اس وقت تک ابتدائی اور جدید انسان ایک ہی طرح سے خوراک کو جمع، شکار کرنے اور بچے کچے کھانے میں ہی مصروف عمل رہے۔ تاہم ایک مرتبہ جب ہم نے اس امر کو دریافت کر لیا کہ ہم پرورش کو منضبط کرنے کے لئے مخصوص پودوں اور جانوروں کی نشو و نما کر سکتے ہیں، تب ہم تیزی سے کسان و چرواہے بن گئے۔

    جب یہ طریقہ کار رائج ہو گیا، تو ان کے آس پاس آبادیاں قائم ہونا شروع ہو گئیں۔ یہ آبادیاں گاؤں سے قصبوں اور قصبوں سے شہروں میں تبدیل ہونی شروع ہو گئیں اس کی بنیادی وجہ خوراک کثرت سے دستیابی تھی۔ ان آبادیوں میں ، انسانی آبادی کافی تیزی بڑھنا شروع ہو گئی تھی، اور بالآخر اس سطح پر پہنچ گئی جہاں کوئی بھی مقامی آفت یا مصیبت پوری نسل انسانی کو ختم نہیں کر سکتی اگر کوئی ایسا امکان ہے بھی تو وہ صرف عالمی تباہی کا ہی ہے۔

    شہر سماجی تعلقات، تبادلہ خیال اور تکنیکی جدت طرازی کے مرکز بن گئے۔ بڑھتی ہوئی آبادی نے علم اور تخیل کے اظہار کو پھلنے پھولنے میں مدد دی، کیونکہ افراد ایک دوسرے سے سیکھ کر ماہر بننے کے قابل تھے۔

    صدیوں اور ہزار برسوں کے دوران، ترقی کی شرح بڑھتی رہی اور - چھاپے خانے سے لے کر انٹرنیٹ تک، جراحی سے لے کر ویکسین تک، پہیے سے لے کر عالمی ہوائی سفر تک کی جدت طرازی نے ہماری حیات زندگی کو طویل، محفوظ اور زیادہ فائدہ مند بنانا جاری رکھا۔



    "بڑھتی آبادی نے علم اور تخیل کے اظہار کو پھلنے پھولنے میں مدد دی"

    بے شک، انسانوں کی کہانی ختم نہیں ہوئی ہے۔ نہ صرف غذا اور امراض کے دباؤ بلکہ ہمارے بڑھتے ہوئے عالمی طرز زندگی نے ہماری جینیاتی خط پرواز کو متاثر کرنا جاری رکھا ہوا ہے۔ اصل میں، کچھ سائنس دان سمجھتے ہیں کہ انسانی ارتقاء میں پر لگ گئے ہیں۔ لہٰذا معلوم نہیں کہ ہمارا مستقبل کیا وعید کے کر آئے گا؟

    تاریخ میں پہلی مرتبہ، جینیاتی انجینئرنگ جلد ہی ہمیں براہ راست اپنے یا اپنے بچوں کے جین کو متاثر کرنے دے گی۔ تاہم سپر مین جیسے جسم اس وقت بیکار ہوں گے اگر ہم اپنے پالنے والے سیارے کو مسلسل نظر انداز کر دیں گے۔ انسانوں کی خراب ماحولیاتی کارکردگی کے باوجود، ان میں اپنی سرگرمیوں کے مستقبل کے نتائج کو سمجھنے کی منفرد قابلیت موجود ہے؛ یہ سوالات باقی رہیں گے کہ آیا ہم اپنے فوری انفرادی مفادات سے آگے بڑھ کر دیکھنا سیکھیں گے یا نہیں۔

    اگر سیارہ بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کو پورا نہ کر سکا، تو بالآخر ہمیں اپنی نگاہیں نیچی کرنی پڑیں گی۔ خلاء کو آباد کرنے سے ہو سکتا ہے کہ انسان کی نئی نوع بن جائے۔ کیونکہ خلاء اور زمین پر موجود آبادی ایک دوسرے پر فاصلے کی وجہ سے دور اور الگ ہو جائے گی اور ان کا آپس میں مجامعت کرنا ممکن نہیں ہوگا۔


    پوری تاریخ میں انسانوں نے نامعلوم کو جاننے کی خواہش میں جرت مندی کی پیروی کی ہے


    انسانی تاریخ کی ٹائم لائن
    60-80 لاکھ برس قبل
    آخری مشترکہ اجداد سے انسان اور چمپانزی کے سلسلہ نسب کا پھیلاؤ۔ 
    60-70 لاکھ برس قبل 
    سہیلن تھروپس تچاڈنسس نے چھوٹے نوکیلے دانت حاصل کر لے تھے جو اسے بندروں سے ممتاز کر تے تھے۔ 
    60 لاکھ برس قبل 
    سہیلن تھروپس سیدھا چل کر پہلا دو پایہ انسانی مماثل بنا۔ 
    20-60 لاکھ برس قبل 
    دماغی حجم آہستہ، متواتر دو پایوں اور اوزار کے بڑھتے استعمال کی وجہ سے بڑھوتری کی طرف گیا۔
    40 لاکھ برس قبل
    انسانی اجداد زیادہ تر دو پایہ تھے، تاہم اس وقت بھی وہ درختوں پر آرام سے گزارا کر سکتے تھے۔ 
    30 لاکھ- 35 لاکھ برس قبل 
    آسٹرالو کی کئی انواع افریقہ کے اندر پھلی پھولیں۔ 
    33 لاکھ برس قبل 
    نوزائیدہ بچوں کی شرح نمو بتدریج جدید انسانوں کی طرح ہونا شروع ہو گئی۔ 
    28 لاکھ برس قبل 
    ہومو نوع کا سب سے پہلا معلوم رکن - ہومو ہابیلس - افریقہ میں نمودار ہوا۔ 
    26 لاکھ برس قبل 
    ٹیکنالوجی کا آغاز: پتھر کی ہتھوڑیاں اور لوہے کا استعمال نوک دار کھپرے بنانے میں استعمال ہونے شروع ہوئے۔ 
    26 لاکھ برس پہلے 
    پتھر کے اوزاروں نے نئی خوراک بشمول بڑے جانوروں کے گوشت تک رسائی دی۔ 
    25 لاکھ برس قبل 
    آسٹرالو افریقینس نے جدید، صدمے کو جذب کرنے والی خم دار نچلی ریڑھ کی ہڈی کو حاصل کر لیا۔ 
    ~20 لاکھ برس قبل
    اوزار اور خوراک آرام کرنے اور کھانے والی جگہوں پر منتقل ہوئے۔ 
    19 لاکھ 50 ہزار برس قبل 
    ہومو ایریکٹس نے چلنے کے مقابلے اوپر چڑھنا مکمل طور پر چھوڑ دیا۔ 
    19 لاکھ برس قبل 
    نئے بنے ہوئے گوشت خور نظام ہضم کے حصے مختصر ہو گئے ؛ دماغ اور جسم بڑے ہو گئے۔ 
    18 لاکھ 90 ہزار برس قبل 
    ہومو ایریکٹس نے طویل ہڈیاں حاصل کر لیں اور تیز اور دور فاصلوں پر مٹر گشت کرنا شروع کر دیا۔ 
    18 لاکھ برس قبل 
    ابتدائی انسانوں نے ایک جدید محرابی پیر کی قسم حاصل کر لی تاکہ دو پایہ حرکت کو سہار سکیں۔
    18 لاکھ برس قبل 
    ہومو ایریکٹس وہ پہلے ابتدائی انسان بنے جنہوں نے افریقہ سے باہر نکلنے کی جرت کی۔
    16 لاکھ برس قبل 
    نیندرتھل نے دستی کلہاڑی ایجاد کی - پہلا اوزار جس کی اچھی طرح صورت نکلی ہوئی تھی۔ 
    13 لاکھ برس قبل 
    ہومو جینس پہلی بار یورپ تک پھیلے۔ 
    800,000 سال قبل
    ابتدائی انسانوں نے آگ کو قابو کیا اور آتش دان بنائے۔ 
    800,000-200,000 سال قبل  
    ڈرامائی موسمیاتی تبدیلیوں نے بڑے پیچیدہ دماغوں کے ارتقاء کو شروع کیا۔ 
    400,000 سال قبل 
    شکاریوں اور دوسروں سے خاندانوں اور سماجی گروہ کی حفاظت کرنے کے لئے پناہ گاہیں بنائی گئیں۔ 
    400,000 سال قبل 
    لکڑی کے نیزوں محفوظ فاصلے سے بڑے جانوروں کا شکار کرنے کے لئے استعمال ہونے لگے۔ 
    300,000 سال قبل 
    اوزار بنانے والوں نے پتھروں کو مار کر لمبے، صاف بلیڈ بنائے۔ 
    250,000 سال قبل 
    رنگین مادوں کے ٹکڑوں کے رنگ کو  قلم کے طور پر استعمال کرکے علامتی زبان میں بات کی جاتی تھی
    195,000 سال قبل 
    ہومو سیپیئن افریقہ میں ڈرامائی موسمیاتی تبدیلی کے دوران ارتقاء پذیر ہوئے۔
    160,000 سال قبل 
    ہومو سیپیئن نے افریقہ کے جنوبی ساحل پر سیپیوں کو جمع کرکے پکانا شروع کیا۔
    130,000 سال قبل 
    جدید انسانوں نے طویل فاصلوں پر وسائل کا تبادلہ کیا۔
    100,000 سال قبل 
    رسمی لوازمات کے ساتھ تدفین کا پہلا ثبوت 
    70,000 سال قبل 
    افریقہ سے آگے ہومو سیپیئن کے پھیلنے کے بڑے مرحلے کا آغاز ہوا۔
     40,000 سال قبل 
    جدید انسانوں نے یورپ میں پہلی مرتبہ خاکے تخلیق کرنے شروع کئے۔
    12,000 سال قبل 
    زراعت نے زمین کے منظرنامے کو پہلے مقامی طور پر اور پھر عالمی طور پر تبدیل کرنا شروع کیا۔

    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: انسانوں کی کہانی Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top