Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    جمعرات، 3 ستمبر، 2015

    حیات کا بھید



    سپر ارتھ (فوق عظیم سیاروں) کی زندگی از دیمتر سیسی لوف

    تمہید - حیات کا بھید



    صرف چند ہی ایسے عظیم سوالات ہیں جو اس سوال کا مقابلہ کر سکتے ہیں مثلاً حیات کیا ہے اور اس کی شروعات کیسے ہوئی ؟ یہ ہمیشہ سے صرف اکیلی سائنس کے لئے ہی نہیں بلکہ عمومی طور پر بھی ایک عظیم سوال رہا ہے ۔ اس کے جواب میں ہمیشہ سے کئی نمونے ، منظر نامے ، قیاس آرائیاں اور مفروضات پیش کئے گئے جس میں سے افسوس کہ زیادہ تر ناکام ہی ہوئے ۔ انیسویں صدی کا وسطی حصّہ بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں تھا ۔ لیکن شمالی بحر اوقیانوس کی گہرائی میں ٹیلی گراف کے تاروں کے پہلو سے نکلی ہوئی چکنی کیچڑ شاید کچھ تبدیلی کا عندیہ دے سکتی تھی۔

    ١٨٥٧ء کو ایک ایسے موقع کی مناسبت سے منایا جا سکتا ہے جب انسانیت اپنا پہلا عملی قدم اس سیارے پر عالمگیریت کی جانب اٹھا رہی تھی - ایک عالمگیر باخبر دنیا کی طرف جس میں ہم آج رہتے ہیں ۔ تاروں کے گچھوں سے لدے ہوئے برطانوی اور امریکی جنگی جہاز پہلا بین البر اعظمی ٹیلی گراف بحر اوقیانوس کی تہ میں یورپ اور امریکہ کے درمیان بچھا رہے تھے ۔ان خبروں کا عہد اب ختم ہونے کو تھا جو ننگے پاؤں یا پھر گھوڑوں کی پیٹ پر بیٹھ کر یا کبوتروں کے ذریعہ بھیجی جاتی تھیں۔ پیغام رسانی کے طریقوں کو بالآخر روشنی کی رفتار سے سفر کرنے والے ذرائع ابلاغ سے بدل دیا جانا تھا جو خبر کو فوری طور پر پہنچا سکتے تھے ۔دن اور ہفتے گھنٹوں اور منٹوں میں بدل گئے ۔ ایسا لگتا تھا کہ جن سمندروں نے انسانوں کو ہزار ہا برسوں تک ایک دوسرے سے دور رکھا تھا "یکدم سوکھ گئے تھے ۔"





    ایچ ایم ایس سائیکلو پس


    ٹیلی گراف کے تاروں کو بچھا نے کی تیاری میں بحری جہاز جیسا کہ ایچ ایم ایس سائیکلو پس اور یو ایس ایس آر کٹک بحر اوقیانوس کی تہ میں سمندری مٹی کے نمونے جمع کر رہے تھے ۔ ١٨٦٨ء میں ایک برطانوی ماہر حیاتیات تھامس ہنری ہگزلی نے بحر اوقیانوس سے لئے جانے والے نمونوں میں ایک بے رنگ و شکل کا مادّہ جیلا ٹین دریافت کیا جس کو اس نے ایک نئے حیات کی شکل کے طور پر لیا ۔اس برطانوی ماہر حیاتیات کی تقابلی تشریح الاعضا میں کافی نمایاں کاوشیں ہیں (اگرچہ آج وہ ڈارون کے نظریئے ارتقاء کو پھیلانے والے انسان کے طور پر زیادہ پہچانا جاتا ہے )۔ ہگزلی نے جیلا ٹین کو قدیمی بے ہئیت پروٹوپلازم نامیاتی مادّہ سمجھا جس سے اس کے خیال میں حیات جنم لیتی ہے ۔






    یو ایس ایس آر کٹک

    یہ ایک جرت مندانہ خیال اس تند و تیز دور کے لئے تھا جس میں حیات اور اس کے ماخذ کو سمجھنے کی مہمات شروع ہو گئیں تھیں اور ہگزلی اس دور کے وسط میں موجود تھا ۔ پہلے ١٨٥٩ ء میں چارلس ڈارون کا منوی انواع کے ماخذ اور نظریئے ارتقا کی اشاعت کی ، اور نظریہ ارتقاء ایک گرما گرم بحث کا موضوع بن گیا تھا ۔ ١٨٦٠ ء اور ١٨٦٣ ء کے درمیان ، لوئیس پاسچر ، نے اپنا شہرہ آفاق تجربہ "جراثیم کشی " کو مکمل کیا ۔ اس عرصے کے دوران لمبے عرصے تک حکومت کرنے والے حیات کے ماخذ کی حکمرانی کا تختہ الٹا جا چکا تھا۔





    حیاتیات دان تھامس ہنری ہگزلی

    ڈارون اور پاسچر سے پہلے ، مغربی سائنس حیات کے ماخذ کو ازخود اور روحیت کے مجموعہ کی حیثیت سے بیان کرنے کی کوشش کرتی تھی ۔ ازخود پیدا ہونے والے نسل کے نظریئے کا خیال تھا کہ حیات گلنے سڑنے والے مادّے سے نمودار ہوئی ہے ، اور پھر بعد میں روح (جو تمام نامیاتی مادّے اور ہوا میں عام ہے ) اس میں پھونک دی گئی تھی ۔ روح کو کیمیا کی جانب سے پہلے ہی سے مخالفت کا سامنا ہے ۔ اپنی ابتدائی پیش رفت میں ، کیمیا نے غیر نامیاتی مادّوں کو نامیاتی مادّوں سے الگ کرلیا تھا ۔ موخّرالذکر کو غلط طور پر فرض کر لیا جاتا ہے کہ وہ زندہ چیزوں سے حاصل کیے جا سکتے ہیں ۔ ١٨٢٨ ء میں ایک مرتبہ جب نامیاتی مرکبات کو تجربہ گاہ میں تالیف کرلیا گیا تو روح کی ضرورت باقی نہیں رہی (ہرچند کے نامیاتی کیمیا میں اس کا نام اب تک موجود ہے )۔





    کیمیا دان اور خرد حیاتیات دان لوئیس پاسچر

    ازخود حیات کی پیداوار میں پائے جانے والے مغالطوں کا بھانڈا ان تجربات میں پھوڑا گیا جس میں گوشت کے شوربے کو جراثیم سے پاک کرنے سے پہلے خوب ابالا گیا تھا ، لیکن خوش اسلوبی سے کئے گئے ان تجربات میں ہوا کو رسائی دی گئی اس طرح سے ثابت ہوا کہ حیات صرف حیات سے ہی نمودار ہو سکتی ہے ۔ لمبے ہنس کی گردن جیسا جار جس کا استعمال اس نے شوربے کو ابلنے کے لئے کیا تھا اس جار نے جراثیم (جرثوموں اور تخمک ) کو جراثیم سے پاک محلول میں داخل ہونے سے روک دیا تھا لیکن ہوا کو اندر آنے دیا تھا ۔ ایسا لگتا تھا کہ پاسچر نے سب کو قائل کرلیا تھا ۔

    ان میں سے کسی بھی چیز نے سائنس دانوں کو حیات کے ماخذ کو سمجھنے میں مدد نہیں دی بجز اس کے کہ وہ مسئلہ پر اپنا سوال واضح طور پر پیش کر سکیں ۔ پاسچر اور ڈارون دونوں نے ماخذ کو بطور اکلوتا غیر حیاتی تولیدی عمل کے طور پر بیان کیا : یعنی کہ حیات کی پہلی شکل بے جان بے روح مادّے سے نمودار ہوئی اور ایسا صرف ایک ہی دفعہ ہوا تھا ۔ پاسچر کے مطابق یہ ایک خدائی عمل تھا جبکہ ڈارون نے اپنے ١٨٧١ء میں لکھے گئے خط کے مطابق اس کو "گرم چھوٹے تالاب " پر چھوڑ دیا تھا ۔






    "بیتھیبیس ہیکیلی "


    اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ ہگزلی نے اس طریقے کے بر خلاف سوچا تھا کہ شاید اس کے ہاتھ کوئی بڑا ثبوت لگ گیا ہے ۔ درحقیقت اس نے اس دریافت کا نام "بیتھیبیس ہیکیلی " (Bathybius haeckelii)ایک جرمن حیات دن ارنسٹ ہیکل کے نام پر رکھا تھا جس نے یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ تمام حیات ایک قدیمی کیچڑ سے پیدا ہوئی ہے جس کا نام اس نے جرمن میں "اورشلیم" رکھا تھا جس کا مطلب "قدیمی کیچڑ" ہے ۔ درحقیقت ہگزلی کو اس بات پورا یقین تھا کہ اس نے قدیمی کیچڑ کی دریافت کر لی ہے ، اس دریافت نے ایچ ایم ایس چیلنجر کو دنیا کے سمندروں کی گہرائی کی منظم کھوج کے لئے بروقت بھیجنے میں مدد کی ۔ قدیمی کیچڑ کا کوئی سراغ نہیں مل سکا ؛ جہاز پر موجود کیمیا دانوں نے ہگزلی کے پرتجسس مادّے کو ایک سادہ سا غیر حل پذیر کیمیکل(آبیدہ کیلشیم سلفیٹ ) پایا۔ ۱۸۷۵ء میں ہگزلی نے اپنی غلطی تسلیم کر لی ۔

    ہگزلی کی غلطی کے باوجود حیات کی ابتداء کی کھوج کبھی رکی نہیں۔ بیسویں صدی کانظریاتی دریافتوں کا کچھ سنگ میلوں کو حاصل کرنے میں اپنا حصّہ ہے لیکن بہرحال اکثر ایسا لگتا ہے جیسے کہ انیسویں صدی کو ہی بس سالماتی پیمانے پر دہرایا جا رہا ہے یعنی کہ جرثومے اور خرد بینی حیات سالماتی حیات سے بدل گئی ہے ، لیکن حیات کے گرد لپٹی ہوئی پراسراریت ویسی ہی موجود ہے ۔

    ١٩٥٣ء میں اسٹینلے ملر نے ہیرالڈ یوری کی تجربہ گاہ میں کام کرتے ہوئے اس بات کا مظاہرہ کیا کہ تمام پروٹین کو بنانے والے امینو ایسڈ اور ڈارون کے "چھوٹے گرم تالاب " میں کیمیائی طور پر بن جانے والے پروٹین کے مرکبات کی تالیف ایک ایسے جار میں کی جا سکتی تھی جس میں امونیا ، میتھین ، پانی اور برقی بار موجود ہو ۔ یہ پہلا بہترین قدم تھا ! اسی برس واٹسن اور کرک نے ڈی این اے سالمہ کی ساخت کو حل کر لیا تھا ۔ بحیثیت مجموعی یہ بیسویں صدی کی حیاتیات کا نقطہ عروج تھا لیکن اس وقت بھی حیات کے ماخذ کی جانب ہونے والی تحقیق نہ ہونے کے برابر تھی یعنی کہ کس طرح سے قدیمی حیات اتنے پیچیدہ سالمات کے ساتھ وجود میں آ گئی تھی ؟





    اسٹینلے اور یوری ایک کارٹونسٹ کی نظر میں تجربے میں مصروف

    اگلا تحفہ من و سلویٰ کی طرح آسمان سے اس وقت نازل ہوا جب ستمبر ١٩٦٩ء میں آسٹریلیا میں ایک شہابیہ گرا ۔ نظام شمسی کے اولین دور میں بنے ہوئے اس ان چھوٹے قدیمی مادّے کے ٹکڑوں کے فوری تجزیئے نے زرخیز نامیاتی سالموں اور ان میں موجود کئی امینو ایسڈ کو ڈھونڈ لیا - یہ ملر اور یوری کے تجربات میں حاصل کئے گئے تالیفی امینو ایسڈ سے کچھ زیادہ مختلف نہیں تھے ۔ یہاں ہمارے پاس وہ چٹانی مادّہ تھا جس نے کبھی کسی بڑے سیارے یا سیارچے کی صورت اختیار نہیں کی تھی ، بہرصورت یہ اتنا بڑا ٹکڑا تھا جو بس اتنا گرمایا ہو گا کہ اس میں موجود پانی کچھ عرصے کے لئے مائع کی شکل اختیار کر سکے اور اس قدیمی مادّے نے پروٹین کو بنانے والے اجزاء کو خالص کیمیا کے ذریعہ بنایا تھا۔ ٢٠٠٨ء اور ٢٠١٠ء میں ہونے والی تحقیق نے لگ بھگ چودہ ہزار مختلف نامیاتی مرکبات کو ظاہر کیا ہے جس میں دو مرکزے اساس (نیوکلو بیس) بھی شامل ہیں ۔

    یہ دریافتیں چاہے جتنی بھی دلچسپ ہوں لیکن یہ اب بھی ہمارے بڑے سوال کا جواب دینے سے قاصر ہیں ۔ زمین پر حیات کا اصل ماخذ اب بھی ویسا ہی پوشیدہ ہے جیسے ہمیشہ سے تھا اور ہم اس سے اب بھی کافی دور ہی ہیں ۔ بہرصورت یہ ایک ایسا تاریخی سوال ہے جس کا جواب حاصل کرنے کے لئے اس ماحول کو جاننے کی ضرورت ہے جو زمین کے ارضیاتی نامچہ میں درج نہیں ہے ۔ مزید عمومی سوال - کیمیا سے حیات کے ممکنہ راستے کے بارے میں - عصر حاضر کی سائنس کی پہنچ میں دکھائی دیتے ہیں ۔





    فوق ارض ماورائے شمس سیارہ ایک مصّور کا تخیل

    فلکیات اور ماورائے شمس سیاروں(Exoplanet) – جو دوسرے ستاروں کے گرد چکر کاٹتے ہیں - کی تلاش مسئلے کو حل کرنے کا طریقہ پیش کرتی ہے۔ دوسرے ارضی سیاروں (Rocky Planets)کی کھوج ہمیں اس بات کا موقع دیتی ہے ہم حیات کے نمودار ہونے سے پہلے ان سیاروں کے حالات کی جانچ کر سکیں جو ہماری کرہ ارض سے ملتے جلتے ہیں ۔ یہ طریقہ فلکیات کی دنیا میں وسیع پیمانے پر استعمال کیا جا رہا ہے ۔ ہم ستاروں کی تحقیق بطور نائب کے کرتے ہیں ، ہم سورج کی حیات کے مرحلے اس جیسے دوسرے ستاروں کا تجزیہ کرکے جانتے ہیں ۔ لہٰذا ایک طرح سے ہم حیات کے ماخذ کے عمومی سوال کا جواب دے سکتے ہیں کہ حیات کیا ہے اور ماحول اس کی صورت گری پر کیسے اثر انداز ہوتا ہے ۔ اس کے لئے ہمیں صرف یہ پوچھنا ہے کہ کیا دوسرے سیاروں پر حیات موجود ہے ؟ کائنات میں ستاروں کی تعداد زمین کی ساحلی ریت کے ذرّوں کی تعداد سے بھی کہیں زیادہ ہے ۔ کم از کم اتنی تعداد میں سیارے موجود ہیں جتنے کہ ستارے ۔ اگر ان میں سے صرف ایک فیصد بھی زمین جیسے ہوئے تو کیا وہاں پر حیات کا پایا جانا ناگزیر نہیں ہوگا؟

    فلکیات ہمیشہ سے بڑے اعداد - فلکیاتی اعداد - اور بڑے اعداد کے تجربے کا کھیل رہا ہے۔ اس نے ہمیں سیکھا دیا ہے کہ ناگزیر ہونے کی کوئی گارنٹی نہیں ہے ۔ ہمیں خود سے جانا اور ڈھونڈنا ہوگا۔ ان تمام باتوں کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ زمین جیسے دوسرے سیاروں پر ہم حیات کے نشان پا لیں گے ۔ جب ہم نئی دنیا دریافت کریں گے - ایک ایسا سیارہ جس کو ہم اپنا گھر کہہ سکیں - تو کثیر جہانوں کا سوال ہمارے سامنے اٹھ کھڑا ہوگا اور ہمیں اس بات کا احساس دلائے گا کہ ہماری کائنات میں کیا اہمیت ہے ۔ کوپرنیکن کے انقلاب نے یہ کام پہلے ہی کر دیا ہے جس میں زمین کے بجائے سورج کو ہمارے سیارگان کے نظام کے مرکز میں رکھا گیا تھا ۔ اس تبدیلی نے ہی جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کی داغ بیل ڈالی ہے ۔آج کے دور میں کی جانے والی دو کوششوں نے ہمیں کوپرنیکن کے انقلاب کی معراج پر بیٹھا کر اس کو مکمل کر دیا ہے ۔ ایک تو نئی دنیا کی دریافت ہے ۔ دوسری تالیفی حیاتیات کا دور ہے ۔ یہ دونوں سنگ میل ہمیں کائنات میں ہماری جگہ اور اہمیت بتانے اس طرح سے جا رہے ہیں جس کا ہم نے کبھی تصوّر بھی نہیں کیا ہوگا۔ کیا آپ ان واقعات کو جاننے کے لئے صف اول میں بیٹھنا چاہتے ہیں؟ تو چلئے ہمارے ساتھ بیٹھ جائیں ہم اسی طرف جائیں گے ۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: حیات کا بھید Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top