Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    ہفتہ، 5 ستمبر، 2015

    متوازی کائناتیں





    متوازی کائناتیں 


    "جناب ، کیا واقعی آپ کا یہ مطلب ہے "پیٹر نے پوچھا ،"کیا ہر جگہ دوسرے جہاں بھی ہو سکتے ہیں ، اس طرح کے کونے کی گرد بھی ؟"

    "اس سے زیادہ اور کس چیز کا امکان ہے ،"پروفیسر نے جواب دیا۔۔۔۔جبکہ منہ ہی منہ میں بڑبڑائے "سمجھ میں نہیں آتا کہ ان ا سکولوں میں انھیں آج کل کیا پڑھایا جا رہا ہے۔" 


    - سی۔ایس۔ لوئس ، دی لائن ، دی وچ اینڈ دی وارڈروب 


    سنو :پڑوس میں بے تحاشا شاندار کائناتیں موجود ہیں۔ چلو وہاں چلتے ہیں۔


    - ای۔ای کمنگس 



    کیا واقعی متبادل کائناتیں وجود رکھتی ہیں ؟ یہ موضوع فلموں کے مصنفین کے لئے سب سے پسندیدہ ہے جیسا کہ اسٹار ٹریک کی ایک قسط "مرر مرر " (Mirror Mirror) میں دکھایا گیا ہے۔ کپتان کرک حادثاتی طور پر ایک اجنبی متوازی کائنات میں بھیج دیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا جہاں ہوتا ہے جہاں پر وفاقی سیارگان ، ایک شیطانی حکومت ہوتی ہے جس کے حکمران وحشی فاتح ، لالچی اور لٹیرے ہوتے ہیں۔ اس کائنات میں سپوک نے عجیب سی داڑھی رکھی ہوئی ہوتی ہے جبکہ کپتان کرک ایک بھوکے قزاقوں کا سردار ہوتا ہے جو اپنے دشمنوں کو غلام بناتا ہوا اپنے سے برتر لوگوں کو غارت کر رہا ہوتا ہے۔

    متبادل کائناتیں ہمیں ان جہانوں کو کھوجنے کے قابل کر سکیں گی جہاں "اگر ایسا ہوتا تو کیا ہوتا " کے مزیدار اور حیرت انگیز امکانات کا جائزہ لیا جا سکتا ہے ۔ مثال کے طور پر سپرمین کی بچوں کی کہانیوں میں کئی ایسی کائناتیں موجود ہوتی ہیں جہاں سپرمین کا اصل سیارہ کریپٹون کبھی بھی نہیں پھٹتا یا جہاں سپرمین آخر میں اپنی شناخت ایک عام آدمی کلارک کانٹ کے نام سے بتا دیتا ہے اور پھر لوئس لین سے شادی کرکے سپر بچوں کا باپ بن جاتا ہے۔ مگر کیا متوازی کائناتیں صرف ٹوائی لائٹ زون ریرن کا ہی خاصا ہے یا پھر جدید طبیعیات میں ان کی کوئی ٹھوس بنیاد بھی ہے ؟

    تاریخ میں پیچھے قدیمی سماجوں تک دیکھا جائے تو اس حقیقت کا اندازہ ہوتا ہے کہ لوگ دوسرے جہانوں کے وجود پر یقین رکھتے تھے جو عموماً دیوتاؤں یا بھوتوں کی دنیا ہوتی تھی۔ گرجا جنت ، دوزخ اور برزخ پر یقین رکھتا ہے۔ بدھ مت میں نروانا اور دوسری شعوری حالتیں موجود ہیں۔ جبکہ ہندو تو مختلف جنموں پر یقین رکھتے ہیں۔





    عیسائی خانقاہیں جنّت کے محل وقوع کو بیان کرنے سے قاصر ہیں 

    عیسائی خانقاہیں جنّت کے محل وقوع کو بیان کرنے میں ناکام ہو گئیں ، اکثر وہ اس بات کی قیاس آرائی کرتی ہیں کہ شاید خدا بلند آسمانوں میں رہتا ہے۔ حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ اگر ایک اضافی جہت اپنا وجود رکھتی ہے تو وہ کافی ساری خصوصیات جو دیوتاؤں میں پائی جاتی ہیں ہو سکتا ہے کہ وہ واقعی میں موجود ہوں۔ کوئی بھی ہستی جو اضافی یا بلند جہتوں میں رہتی ہو وہ اپنی مرضی سے حاضر ،غائب ہونے پر قادر ہوگی یا وہ دیواروں میں سے بھی گزر سکتی ہوگی یعنی کہ وہ ایک ایسی خاصیت کی حامل ہو گی جو اللہ والوں کی نشانی ہے۔

    دور حاضر میں متوازی کائناتوں کا تصوّر طبیعیات کی دنیا میں گرما گرم مباحثوں کا باعث بنا ہوا ہے۔ حقیقت میں کافی قسم کی متوازی کائناتیں موجود ہیں جو ہم کو یہ بات سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں کہ "حقیقت "سے ہماری کیا مراد ہے۔ متوازی کائناتوں کی اس بحث میں سوائے "حقیقت "کے معنی کے بذات خود کوئی اور چیز داؤ پر نہیں لگی ہوئی ہے۔ کم از کم تین قسم کی مختلف متوازی کائناتیں موجود ہیں جو سائنسی دنیا میں زبردست مباحثوں کا موجب بنی رہتی ہیں :


    الف۔ اضافی خلاء (ہائپر ا سپیس ) یا بلند جہتیں

    ب۔ کثیر کائناتیں 

    ج۔ کوانٹم متوازی کائناتیں 




    اضافی خلاء یا بلند جہت 

    متوازی کائناتیں جو تاریخ میں مباحثوں کے سب سے لمبے سلسلے کا عنوان رہی ہیں ان میں سے ایک بلند جہتیں ہیں۔ اس حقیقت کا ادراک کرنا ہمیں آسان لگتا ہے کہ ہم تین جہتوں کی دنیا میں رہتے ہیں (لمبائی ، چوڑائی اور اونچائی )۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم کسی بھی جسم کو خلاء میں کیسے بھی حرکت دے دیں اس کا ہر محل وقوع ان تین جہتوں کے ذریعہ ہی سے بیان کیا جا سکتا ہے۔ حقیقت میں ہم ان تین چیزوں سے کائنات میں موجود کسی بھی چیز کا، یہاں تک کہ اپنی ناک کے کونے سے لے کر سب سے دور دراز کی کہکشاں تک ہر چیز کا محل وقوع بیان کر سکتے ہیں۔




    اضافی خلاء کے وجود کے بارے میں تاحال کوئی ثبوت نہیں مل سکا ہے 

    چوتھی مکانی جہت ، ہمیں اپنی عقل کے خلاف لگتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر دھوئیں کو کمرے میں بھر نے دیا جائے تو ہم دھوئیں کو کسی اور جہت میں غائب ہوتا نہیں دیکھیں گے۔ اپنی کائنات میں ہم کسی بھی جسم کو اچانک سے غائب ہوتا دیکھ کر کسی دوسری کائنات میں تیر کر جاتا ہوا نہیں دیکھتے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر بلند جہتیں موجود بھی ہیں تو لازمی طور پر وہ کسی بھی جوہر سے چھوٹی ہوں گی۔

    یہ سہ جہتی مکانی ہی یونانیوں کی بنیادی جیومیٹری کی اساس ہے۔ مثال کے طور پر ارسطو نے اپنے مضمون "فلک پر "لکھا "ایک لکیر کی صرف ایک ہی جہت ہے ، ایک سطح کی دو جہتیں ہیں جبکہ کسی بھی ٹھوس چیز کی تین جہتیں ہوتی ہیں اور اس سے آگے کسی بھی قسم کی کوئی جہت نہیں ہے کیونکہ بس یہی تین جہتیں ہوتی ہیں۔" اسکندریہ کے بطلیموس نے ١٥٠ بعد مسیح میں پہلی مرتبہ بلند جہتوں کے ناممکن ہونے کا ثبوت دیا ۔ اپنے مضمون "فاصلوں پر " اس نے وجوہات اس طرح سے بیان کیں۔ تین لکیروں کو ایک دوسرے کے عمودی کھینچیں (جیسے کہ کسی کمرے کے کونے میں ہوتی ہیں۔) واضح طور پر چوتھی لکیر کو ان تین لکیروں کے عمودی نہیں کھینچا جا سکتا لہٰذا چوتھی جہت کا ہو ناممکن نہیں ہے۔(اس نے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ہمارا ذہن چوتھی جہت کو تصوّر میں لانے سے قاصر ہے۔ آپ کی میز پر رکھا ہوا ذاتی کمپیوٹر ہر وقت اضافی جہتوں میں حساب کتاب کرتا رہتا ہے۔)




    ارسطو اپنے شاگرد کے ساتھ 

    دو ہزار سال تک جس ریاضی دان نے بھی چوتھی جہت کی بات کی اسے ممکنہ طور پر تضحیک کا نشانہ بنایا گیا۔ ١٦٨٥ میں ریاضی دان جان ویلس (John Wallis) کو چوتھی جہت کے سلسلے میں متنازع کیا گیا اور یہ کہا گیا کہ یہ "قدرت کا عفریت ہے اور اس کے ہونے کا امکان بد خلقت مخلوق یا آدھے گھوڑے اور آدھے انسان کے جیسی کسی چیز کے ہونے سے بھی کم ہے۔" انیسویں صدی میں کارل گاس ، (Karl Gauss) "ریاضی کے شہزادے "، نے چوتھی جہت پر ریاضی میں کافی کام کیا م تاہم وہ اس کی مخالفت کے ڈر سے اس کو شایع کرنے سے خوفزدہ تھا۔ ذاتی طور پر گاس نے اس بات کو جانچنے کے لئے تجربات کئے کہ کیا یونانی سہ جہتی جیومیٹری حقیقت میں کائنات کو بیان کر سکتی ہے۔ ایک تجربے میں اس نے اپنے مدد گاروں کو تین پہاڑیوں کی چوٹیوں پر کھڑا کیا جن میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں لالٹین تھی اس طرح سے اس نے ایک بہت بڑا تکون بنا لیا تھا۔ گاس نے پھر تکون کے ہر زاویہ کو ناپا۔ اس نے مایوس کن طور پر تمام اندرونی زاویوں کا حاصل جمع ١٨٠ درجہ کا پایا۔ اس نے نتیجہ اخذ کیا کہ اگر یونانیوں کے معیار کی جیومیٹری میں کسی قسم کا فرق ہوگا تو وہ اتنا کم ہوگا کہ ان لالٹینوں سے ناپا نہیں جا سکے گا۔





    ریاضی دان جان ویلس (John Wallis) 


    گاس نے اضافی جہتوں کی بنیادی ریاضی کو اپنے شاگرد گورگ برن ہارڈ ریمین(Georg Bernhard Riemann) پر چھوڑ دیا تھا۔(اس کے کام کو مکمل طور پر عشروں بعد آئن سٹائن کے نظریئے اضافیت میں درآمد کیا گیا )۔ مشہور زمانہ لیکچر جو اس نے ١٨٥٤ میں دیا تھا ریمین نے ایک ہی وار میں یونانیوں کی دو ہزار سالہ جیومیٹری کرسی اقتدار کو اٹھا کر پھینک دیا اور اضافی خم دار جہتوں کی ریاضی کے بنیادی اصول وضع کیے جن کو ہم آج بھی استعمال کرتے ہیں۔





    گورگ برن ہارڈ ریمین(Georg Bernhard Riemann) 


    ریمین کی شاندار دریافت ١٨٠٠ کے آخر میں کافی مشہور ہوئی ، چوتھی جہت فنکاروں، موسیقاروں ، مصنفین ، فلاسفروں اور مصوروں میں کافی مقبول ہوئی۔ فنی مؤرخ لنڈا ڈال ریمپل ہنڈریسن(Linda Dolrymple Henderson) کے مطابق پکاسو کا "کیوب ازم" چوتھی جہت سے کافی حد تک متاثر ہو کر بنایا گیا تھا۔(پکاسو کی عورت کی بنائی ہوئی اس تصویر میں آنکھیں سامنے کی جانب جبکہ ناک اطراف میں موجود ہے۔ یہ تصویر اس کوشش کا حصّہ تھی جس میں چوتھی جہت کو بیان کیا گیا تھا کیونکہ جو کوئی چوتھی جہت سے اس عورت کو دیکھے گا وہ ایک ساتھ ہی اس چہرہ ، ناک اور سر کا پچھلا حصّہ دیکھ سکے گا۔) ہنڈریسن لکھتی ہے "بلیک ہول کی طرح چوتھی جہت پراسرار خصوصیات رکھتی ہے جس کو مکمل طور پر سائنس دانوں نے بھی ابھی تک نہیں سمجھا۔ اس کے باوجود اس کا اثر١٩١٩ء کے بعد سے بلیک ہول یا کسی بھی اور حالیہ سائنسی نظریئے سے (اضافیت کو چھوڑ کر ) سب سے زیادہ ہے۔ 





    پکاسو کا "کیوب ازم" چوتھی جہت سے کافی حد تک متاثر ہو کر بنایا گیا تھا 

    دوسرے مصوروں نے بھی چوتھی جہت کو بنانے کی کوشش کی ہے۔ سلواڈور ڈالی(Salvador Dali) کی کرسٹس ہائپر کوبئیس(Christus Hypercubius)، میں حضرت عیسی کو ایک عجیب تیرتے ہوئے سہ جہتی صلیب پر چڑھایا جا رہا ہے جو اصل میں ایک "ٹیسسر ایکٹ " کھلا ہوا چوتھی جہت کا مربع ہے۔ اپنی مشہور "دائمی یاد" (پرسسٹنس آف میموری ) میں اس نے وقت کو چوتھی جہت سے بتانے کی کوشش کی تھی لہٰذا اس نے پگھلی ہوئی گھڑی سے اس کو تشبیہ دی۔ مارسیل ڈویکیم(Marcel Duchamps) کی " اترتی ہوئی سیڑھی سے برہنہ " میں ایک برہنہ کو سیڑھی سے اترتے ہوئے بہتے ہوئے وقت سے تشبیہ دے کر وقت کو ایک چوتھی جہت بتانے کی کوشش کی تھی۔ چوتھی جہت آسکر وائلڈ (Oscar Wilde)کی کہانی "دی کینٹرول گھوسٹ " میں بھی موجود تھی جس میں گھر پر طاری ہوا بھوت چوتھی جہت میں رہتا تھا۔




    سلواڈور ڈالی(Salvador Dali) کی کرسٹس ہائپر کوبئیس(Christus Hypercubius) 


    چوتھی جہت ایچ۔ جی۔ ویلز کی کافی کہانیوں میں موجود ہے جس میں "پوشیدہ آدمی"(دی انوزیبل مین)، دی پلانر ا سٹوری ، اور دی وونڈر فل وزٹ شامل ہیں۔ آخری کہانی تب سے ہی ہالی ووڈ کی فلموں اور سائنسی قصصی ناولوں کی بنیاد بنی ہوئی ہے ، جس میں ہماری کائنات متوازی کائنات سے ٹکرا جاتی ہے۔ دوسری کائنات کا ایک بیچارہ فرشتہ ہماری کائنات میں کسی شکاری سے حادثاتی طور پر زخمی ہو کر گر جاتا ہے۔ ہماری کائنات کی زبردست لالچ ، کمینے پن اور خود غرضی کی وجہ سے آخر کار وہ فرشتہ خود کشی کر لیتا ہے۔) 

    متوازی کائنات کا خیال رابرٹ ہینلین(Robert Heinlein) کی منافقت کے موضوع پر لکھی ہوئی کہانی دی نمبر آف دی بیسٹ میں بھی موجود ہے۔ ہینلین نے ایک چار بہادر مہم جوؤں کی جماعت کی کہانی کو بیان کیا ہے جو متوازی کائناتوں میں ایک پاگل پروفیسر کی بین الجہت ا سپورٹ کار میں اچھل کود کرتے پھر رہے ہیں۔




    رابرٹ ہینلین(Robert Heinlein) کی منافقت کے موضوع پر لکھی ہوئی کہانی دی نمبر آف دی بیسٹ 

    ایک ٹیلی ویژن سلسلے سلائیڈر میں ایک نوجوان ایک کتاب کو پڑھتا ہے اور ایک ایسی مشین بنانے کی کوشش کرتا ہے جو اس کو متوازی کائناتوں میں گرا سکے۔(وہ کتاب جو نوجوان لڑکا پڑھتا ہے وہ اصل میں میری کتاب "اضافی جہتیں "[Hyperspace]تھی۔)

    تاریخی طور پر چوتھی جہت طبیعیات دانوں کے لئے صرف ایک پر تجسس چیز سے زیادہ نہیں رہی ہے۔ فی الحال ابھی تک تو کسی بھی قسم کا کوئی ثبوت اضافی جہتوں کا نہیں مل سکا ہے۔ تبدیلی کا آغاز ١٩١٩ء میں اس وقت ہوا جب ایک انتہائی متنازع مقالہ تھیوڈور کلوز ا(Theordor Kaluza) نے لکھا جس میں اس نے اضافی جہتوں کا اشارہ دیا تھا۔ اس نے آئن سٹائن کی عمومی نظریہ اضافیت سے شروع کیا ، تاہم اس نے اس کو پانچ جہتوں میں رکھا۔(ایک جہت وقت کی اور چوتھی جہت خلاء کی ، کیونکہ وقت ایک مکان و زمان کی چوتھی جہت ہے ، طبیعیات دان اب چوتھی مکانی جہت کو پانچویں جہت کہتے ہیں )۔ اگر پانچویں جہت کو چھوٹے سے چھوٹا کر دیا جائے تو مساوات جادوئی طریقے سے دو حصّوں میں بٹ جاتی ہے۔ ایک حصّہ آئن سٹائن کی معیاری نظریہ اضافیت کو بیان کرتا ہے جب کہ دوسرا حصّہ میکسویل کی روشنی کا نظریہ بن جاتا ہے !





    تھیوڈور کلوز ا(Theordor Kaluza) 

    یہ ایک شاندار دریافت تھی۔ شاید روشنی کا راز ہی پانچویں جہت میں چھپا ہوا ہے ! آئن سٹائن بھی اس حل کو دیکھنے کے بعد مبہوت رہ گیا جس نے روشنی اور ثقل کی ایک شاندار وحدت کو بیان کیا تھا۔(آئن سٹائن کلوز ا کی اس تجویز سے اس قدر بوکھلا گیا تھا کہ اس نے صرف دو سال اس بات کی غور و فکر میں ہی گزار دیئے اور اس کے بعد ہی وہ اس مقالے کو شایع کروانے پر راضی ہوا۔) آئن سٹائن نے کلوز ا کو لکھا "پانچ جہتی سلنڈر نما دنیا کا خیال ایک وحدتی نظریئے کے ذریعہ مجھ پر کبھی ظاہر نہیں ہوا۔۔۔۔پہلی نظر میں ہی ، مجھے تمہارا نظریہ بہت پسند آیا۔۔۔۔ با ضابطہ طور پر تمہارے نظریہ کی وحدت چونکا دینے والی ہے۔"




    روشنی کی لہریں پانچویں جہت پر سوار ہوتی ہیں 

    برسوں سے طبیعیات دان یہ سوال اٹھا رہے ہیں : اگر روشنی موج ہے ، تو وہ کس چیز کو خمیدہ کر رہی ہے ؟روشنی ارب ہا سال تک خالی خلاء میں سے گزر سکتی ہے ، مگر خلاء تو خالی ہے جس میں کسی بھی قسم کا کوئی مادّہ نہیں ہے۔ تو خلاء میں کیا چیز خمیدہ ہو رہی ہے ؟ کلوز ا کے نظریئے سے ہمیں اس مسئلہ کا ایک ٹھوس اور پائیدار حل مل گیا : روشنی کی لہریں پانچویں جہت پر سوار ہوتی ہیں۔ میکسویل کی مساوات جو نہایت درستگی کے ساتھ روشنی کی تمام خصوصیات کو بیان کرتی ہے وہ ایک ایسی مساوات کے طور پر نمودار ہوتی ہے جہاں موجیں پانچویں جہت میں سفر کرتی ہیں۔

    کسی مچھلی کو اتھلے تالاب میں تیرتا ہوا تصوّر کریں۔ اس کو تیسری جہت کا شاید کبھی معلوم ہی نہیں ہو سکے گا ، کیونکہ ان کی آنکھیں اس کے اطراف میں لگی ہوئی ہیں اور وہ آگے، پیچھے ، سیدھی اور الٹی طرف ہی تیر سکتی ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ ایک تیسری جہت ان کے لئے ناممکن ہو۔ مگر فرض کریں کہ تالاب کے اوپر بارش شروع ہو جاتی ہے ہرچند کہ وہ تیسری جہت کو نہیں دیکھ سکے گی تاہم تالاب کی سطح پر بنتی لہروں کو تو دیکھ ہی سکتی ہے ۔ بعینہ ایسے کلوز ا کا نظریہ روشنی کو پانچویں جہت میں لہروں پر سفر کرتے ہوئے بیان کرتی ہے۔ 



    کاغذ کی ایک دو جہتی شیٹ کا رول دور سے یک جہتی لگے گا 

    کلوزا نے اس کا جواب بھی دیا ہے کہ پانچویں جہت کہاں ہے۔ کیونکہ ہم نے پانچویں جہت کا کوئی ثبوت نہیں دیکھا ہے ، لہٰذا اس کو اس قدر چھوٹا حلقہ دار ہونا چاہئے کہ ہم اس کا مشاہدہ نہ کر سکیں۔(ذرا دو جہتی کاغذ کی شیٹ کا تصوّر کریں اور اس کو موڑ کر ایک سلنڈر کی طرح سے بنا دیں۔ دور سے سلنڈر ایک جہت کی لکیر نظر آئے گا۔ اس طرح سے موڑنے پر ایک دو جہتی چیز ایک جہتی بن جائے گی۔)

    کلوزا کے مقالے نے شروع میں ایک سنسنی پھیلا دی تھی۔ مگر آنے والی دنوں میں اس نظریئے پر بھی اعتراض اٹھائے گئے۔ اس پانچویں جہت کا حجم کیا ہے ؟وہ کیسی مڑتی ہے ؟ان کا کوئی جواب نہیں دیا جا سکا۔ 

    عشروں تک آئن سٹائن نے اس نظریئے پر بار بار کام کیا۔١٩٥٥ میں اس کے آنجہانی ہو جانے کے بعد، اس نظریئے کو جلد ہی بھلا دیا گیا جس کے نتیجے میں طبیعیات کے ارتقاء میں اس کی حیثیت ایک عجیب سے حاشیہ جیسی ہو گئی تھی ۔


    اسٹرنگ نظریہ 

    یہ سب اس چونکا دینے والے نظریئے کو پیش کئے جانے کے ساتھ ہی بدل گیا جس کا نام سپر اسٹرنگ نظریہ تھا۔١٩٨٠ء کی دہائی میں طبیعیات دان ذیلی جوہری ذرّات کے سمندر میں غوطہ زن تھے۔ ہر مرتبہ جب بھی وہ کسی جوہر کو طاقتور اسراع گر میں ٹکراتے تو اس میں سے انھیں نئے ذرّات حاصل ہوتے۔ یہ بات اس قدر پریشان کن تھی کہ طبیعیات دان جے۔ رابرٹ اپن ہائمر اکثر از راہ مذاق کہتا تھا کہ نوبل انعام اس سائنس دان کو دیا جائے گا جس نے اس سال کوئی نیا ذرّہ دریافت نہیں کیا !(انریکو فرمی [Enrico Fermi] نے ذیلی جوہری ذرّات کے یونانی ناموں کی کثرت سے خوف زدہ ہو کر کہا "اگر میں ان تمام ذرّات کے ناموں کو یاد رکھ سکتا تو میں ایک ماہر نباتات بن جاتا۔")عشروں کی محنت کے بعد ، ذرّات کے اس چڑیا گھر کو کچھ اس طرح سے ترتیب دیا جا سکا جس کا نام "معیاری نمونہ "رکھا گیا ۔ ارب ہا ڈالر ، ہزار ہا طبیعیات دانوں اور انجینیروں کا پسینہ ، اور ٢٠ نوبل انعامات اس تکلیف دہ معیاری نمونے کو ٹکڑے ٹکڑے جوڑ کر بنانے میں لگ گئے۔ یہ حقیقی طور پر ایک شاندار نظریہ ہے جو ذیلی جوہری ذرّاتی طبیعیات سے متعلق تمام حاصل کردہ تجربات کے اعداد و شمار پر بالکل ٹھیک بیٹھتا ہے۔




    اسٹرنگ نظریہ کیا کبھی ہر شئے کا نظریہ بن سکے گا؟ 

    تمام تجرباتی کامیابی کے باوجود معیاری نمونہ کا پالا ایک نہایت ہی خطرناک قسم کے نقص سے پڑتا ہے۔ جیسا کہ ا سٹیفن ہاکنگ کہتے ہیں "یہ بدصورت اور عارضی ہے۔" اس میں کم از کم انیس آزاد مقدار معلوم ہیں ( جس میں ذرّوں کی کمیت اور دوسرے ذرّات کے ساتھ ان کے تعامل کی قوّت بھی شامل ہے )،٣٦ کوارک اور ضد کوارک ، تین ہوبہو اور فالتو ذیلی جوہری ذرّات کی نقلیں ایک سننے میں عجیب ذیلی جوہری ذرّات کے میزبان مثلاً ٹاو نیوٹرینو ، یانگ –ملز گلوآ ن ، ہگس بوسون ، ڈبلیو بوسون اور زی ذرّات۔ سب سے زیادہ خراب بات یہ کہ معیاری نمونہ قوّت ثقل کا ذکر ہی نہیں کرتی ہے۔ اس بات پر یقین کرنا انتہائی مشکل ہے کہ قدرت سب سے زیادہ برتر بنیادی سطح پر اس قدر بے ضابطہ اور اس قدر بھونڈی ہو سکتی ہے۔ ایک نظریہ تھا کہ ماں صرف پیار ہی کر سکتی ہے۔ معیاری نمونے کی خالص بے ضابطگی نے طبیعیات دانوں کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ قدرت سے متعلق ان تمام مفروضات کا دوبارہ سے تجزیہ کریں۔ کوئی چیز بہت ہی بھیانک حد تک غلط تھی۔

    اگر پچھلی ایک صدی میں ہم طبیعیات کا تجزیہ کریں تو اس میدان میں حاصل ہونے والی سب سے بڑی کامیابی کا لب لباب بنیادی طبیعیات کو دو نظریوں کی صورت میں بیان کرنے کو صورت میں نظر آ جائے گا : کوانٹم نظریہ (جس کو معیاری نمونے سے ظاہر کیا جاتا ہے )اور آئن سٹائن کا عمومی نظریہ اضافیت (جو قوّت ثقل کو بیان کرتا ہے )۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ دونوں مل کر طبیعیات کا تمام علم بنیادی سطح پر پیش کرتی ہیں۔ پہلا نظریہ جہاں اصغر کو بیان کرتا ہے ، ذیلی جوہری کوانٹم دنیا جہاں ذرّات شاندار رقص پیش کرتے ہیں ، عدم سے حاضر اور حاضر سے فنا ہوتے ہیں اور دو جگہوں پر ایک ساتھ ظاہر ہو جاتے ہیں۔ دوسرا نظریہ دنیا کو بڑے پیمانے پر بیان کرتا ہے جیسا کہ بلیک ہول اور بگ بینگ اور ہموار سطحوں ، کھینچتی ہوئی ساختوں اور خمیدہ سطحوں کی زبان استعمال کرتا ہے۔ دونوں نظرئیے ایک دوسرے کے ہر طرح سے مخالف ہیں ، مختلف ریاضیاتی مساواتیں ، مختلف مفروضات اور مختلف طبیعی خاکے استعمال کرتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ جیسے قدرت کے دو ہاتھ ہیں اور وہ ایک دوسرے سے رابطہ میں نہیں ہیں۔ مزید براں یہ کہ ان دونوں نظریوں کو ملانے کی کوششوں میں حاصل ہونے والے نتیجے لاحاصل رہے۔ آدھی صدی تک جس بھی طبیعیات دان نے کوانٹم نظریئے اور عمومی اضافیت کو رشتہ ازدواج میں باندھنے کی کوشش کی اس نے منہ کی کھائی ، انھیں جو نتیجے ملے وہ لامتناہی جواب تھے جو کسی بھی قسم کے شعور سے عاری تھے۔




    سپر اسٹرنگ میں فرض کیا گیا کہ ذیلی جوہری ذرّات کچھ اور نہیں بلکہ دھاگے یا اس کی تھرتھراہٹ ہیں 

    یہ تمام صورتحال سپر اسٹرنگ نظریئے کی دریافت کے بعد سے بدل گئی ، اس نظرئیے میں اس بات کو فرض کر لیا گیا ہے کہ الیکٹران اور دوسرے ذیلی جوہری ذرّات کچھ اور نہیں بلکہ دھاگے یا ڈوری کی تھرتھراہٹ ہیں ، جو ننھے ربڑ بینڈ کی طرح ہوتے ہیں۔ اگر کوئی ربڑ بینڈ کو چھیڑے گا تو وہ مختلف ڈھنگ سے جھولے گا اس طرح سے سپر اسٹرنگ نظریئے نے ان سینکڑوں ذیلی جوہری ذرّات کو بیان کر دیا جو ابھی تک ذرّاتی اسراع گروں میں دریافت ہوئے ہیں۔ آئن سٹائن کا نظریہ حقیقت میں سب سے پست ڈوری کی تھرتھراہٹ ثابت ہوئی ہے۔ 

    اسٹرنگ کے نظریئے کو "ہر شئے کا نظریہ "بھی کہتے ہیں۔ ایک طلسماتی نظریہ ہے جو آئن سٹائن کی زندگی کے آخری تیس برسوں میں باوجود کوشش کے ہاتھ میں نہیں آ سکا۔ آئن سٹائن چاہتا تھا کہ ایک ایسا جامع نظریہ حاصل کیا جا سکے جو تمام طبیعیاتی قوانین کو یکجا کر دے اور جو اس کو خدا کا ارادہ پڑھنے میں مدد کر سکے۔ اگر اسٹرنگ کا نظریہ صحیح طرح قوّت ثقل کو کوانٹم کے نظریہ کے ساتھ متحد کرنے میں کامیاب ہو جائے تو شاید یہ سائنس کی اس دو ہزار سالہ دنیا میں ایک شاہانہ سنگ میل ہوگا جب سے یونانیوں نے یہ سوال پوچھنا شروع کیا کہ مادّہ کس سے بنا ہے۔ 

    مگر سب سے عجیب خاصیت جو سپر اسٹرنگ نظریہ کی ہے کہ یہ صرف مکان و زمان کی مخصوص جہتوں میں تھر تھرا تھے ہیں ، وہ صرف دس جہتوں میں ہی تھرتھرا سکتے ہیں۔ اگر ہم اسٹرنگ نظریہ کو دوسری جہتوں میں بنانے کی کوشش کریں گے تو نظریہ ریاضیاتی طور پر بکھر جائے گا۔

    ہمارے کائنات چار جہتی ہے (تین جہتیں مکان کی اور ایک وقت کی )۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ دوسری چھ جہتیں لازمی طور پر کسی طرح سے منہدم ہو گئی ہوں گی ، یا کلوز ا کی پانچویں جہت کی طرح مڑ گئی ہوں گی۔

    حالیہ دور میں طبیعیات دانوں نے سنجیدگی کے ساتھ ان اضافی جہتوں کی توثیق یا تردید کرنی ہے۔ ان اضافی جہتوں کے وجود کو ثابت کرنے کے لئے شاید سب سے آسان طریقہ نیوٹن کی کشش ثقل کے قانون میں کسی قسم کا انحراف کو تلاش کرنا ہو سکتا ہے ۔ اسکول میں ہمیں پڑھایا جاتا تھا کہ زمین کی کشش خلاء میں ختم ہوجاتی ہے۔ زیادہ درستگی کے ساتھ قوّت ثقل دوری کے فاصلے کے مربع جتنی کم ہوتی ہے۔ لیکن ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ ہم سہ جہتی دنیا میں رہتے ہیں۔(زمین کے گرد ایک کرۂ کے بارے میں سوچیں۔ زمین کی کشش کرۂ کی سطح پر برابر پھیلی ہوئی ہے لہٰذا جتنا بڑا کرۂ ہوگا اتنی ہی اس کی کشش کم ہوگی۔ تاہم کیونکہ کرۂ کی سطح اس کے نصف قطر کے مربع سے بڑھے گی ، کشش کی قوّت ، جو پورے کرۂ پر پھیلی ہوئی ہے لازمی طور پر اس کے نصف قطر کے مربع سے کم ہوگی۔)

    لیکن اگر کائنات کی چار مکانی جہتیں ہوں ، تو کشش ثقل فاصلے کی دوری کے مکعب سے کم ہوگی۔ اگر کشش ثقل کی "x" جہتیں ہوں تو کشش ثقل کو "x" منفی ایک کی قوّت سے کم ہونا ہوگا۔ نیوٹن کا مشہور قانون معکوس مربع کو بہت ہی زیادہ درستگی کے ساتھ فلکیاتی پیمانوں پر جانچا گیا ہے ،اسی وجہ سے ہم خلائی کھوجیوں کو زحل کے حلقوں سے بھی دور انتہائی درستگی کے ساتھ روانہ کر چکے ہیں۔ تاہم ابھی تک نیوٹن کے قانون معکوس مربع کو چھوٹے فاصلوں پر تجربہ گاہوں میں نہیں جانچا گیا۔






    اب قانون معکوس مربع کو جانچنے کے لئے کئے گئے نتائج میں کوئی انحراف نظر نہیں آیا 

    یونیورسٹی آ ف کولوراڈو میں ٢٠٠٥ء میں سب سے پہلا تجربہ کیا گیا جس معکوس قانون مربع کو چھوٹے فاصلوں پر جانچا گیا اور نتائج قانون کے مطابق درست تھے۔ بظاہر تو کوئی متوازی کائنات موجود نہیں تھی کم از کم کولوراڈو میں تو نہیں تھی۔ مگر ان نتائج نے دوسرے طبیعیات دانوں کی اشتہا انگیزی کو صرف بڑھایا ہی تھا جو اس تجربہ کو اور زیادہ درستگی سے کرنے کے خواہاں تھے۔





    "اسپارٹیکل " یا فوقی ذرّات سپر اسٹرنگ کی اضافی تھرتھرا ہٹ ہیں ان کی تلاش ابھی باقی ہے 

    مزید براں دی لارج ہیڈرون کولائیڈر جو جنیوا ، سوئٹزر لینڈ میں واقع ہے وہ بھی ٢٠٠٨ء سے کام کرنا شروع کر دے گا۔ وہ نئے ذرّات کی تلاش کرے گا جن کو "اسپارٹیکل " یا فوقی ذرّات کہتے ہیں جو کہ سپر اسٹرنگ کی اضافی تھرتھرا ہٹ ہیں (ہر چیز جو ہم اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں وہ اس سپر اسٹرنگ کی سب سے پست تھرتھراہٹ ہے۔) اگر اسپارٹیکل ایل ایچ سی میں مل گئے تو یہ ایک ایسا انقلابی اشارہ ہوگا جو ہماری کائنات سے متعلق سوجھ بوجھ کو بدل دے گا۔ اس تصویر میں معیاری نمونہ صرف سپر اسٹرنگ کی پست تھرتھراہٹ کو ہی پیش کرتا ہے۔

    کپ تھورن (Kip Thorne) کہتے ہیں کہ "٢٠٢٠ء تک ، طبیعیات دان کوانٹم ثقلی قانون کو جان چکے ہوں گے ، جو اسٹرنگ نظریئے کی ہی ایک قسم ہوگی۔"

    بلند جہتوں کے علاوہ ایک اور متوازی کائنات جس کی پیش گوئی اسٹرنگ نظریئے نے کی ہے وہ ہے "کثیر کائنات۔" 



    کثیر کائنات (Multiverse) 

    ایک پریشان کر دینے والا سوال جو اسٹرنگ نظریئے کے بارے میں ہے : اسٹرنگ نظریئے کے پانچ مختلف ورژن کیوں ہیں ؟اسٹرنگ کا نظریہ کامیابی کے ساتھ کوانٹم نظریئے کو قوّت ثقل کے ساتھ یکجا کر سکتا ہے ، تاہم اس کام کو کرنے کے پانچ مختلف راستے ہیں جس میں ایسا کیا جا سکتا ہے۔ یہ کافی شرمندگی کی بات ہے کیونکہ زیادہ تر طبیعیات دان "ہر شئے کے نظریئے "کو واحد اور منفرد چاہتے تھے۔ مثال کے طور پر آئن سٹائن اس بات کو جاننا چاہتا تھا کہ "خدا کے پاس کائنات کو بنانے کے لئے کتنا اختیار تھا۔" اس کا یقین تھا کہ وحدتی ہر شئے کا نظریئے کو بالکل منفرد ہونا چاہئے۔ لہٰذا پھر پانچ مختلف اسٹرنگ کے نظریئے کیوں موجود ہیں ؟




    ایڈورڈ ویٹن(Edward Witten) 

    ١٩٩٤ء میں طبیعیات کی دنیا میں ایک اور بم اس وقت گرا جب پرنسٹن انسٹیٹیوٹ فار ایڈوانسڈ اسٹڈی کے ایڈورڈ ویٹن(Edward Witten) اور کیمبرج یونیورسٹی کے پال ٹاؤنسینڈ(Paul Townsend) نے اس بات کی پیش گوئی کی کہ پانچوں اسٹرنگ حقیقت میں ایک ہی ہیں لیکن یہ اس وقت ممکن ہوگا جب ہم اس میں ایک گیارہویں جہت کا اضافہ کر دیں ۔ گیارہویں جہت سے دیکھنے پر پانچوں کے پانچ اسٹرنگ کے نظریئے ڈھے کر ایک ہو جائیں گے ! نظریہ کافی منفرد تھا لیکن یہ صرف اس وقت کام کرتا ہے جب ہم گیارہویں جہت کی پہاڑی پر چڑھ کر اس کو دیکھتے۔

    گیارہویں جہت میں ایک نیا ریاضیاتی جسم وجود رکھ سکتا تھا جس کو "جھلی" کہتے ہیں (جیسا کہ کسی بھی کرۂ کی سطح ہوتی ہے )۔ ایک شاندار مشاہدہ یہ تھا : اگر کوئی گیارہویں جہت سے نیچے دسویں جہت پر اترے ، تو تمام پانچوں اسٹرنگ کے نظریئے مل کر ایک نئی جھلی بن کر نمودار ہوں گے۔



    گیارہویں جہت میں ایک نیا ریاضیاتی جسم وجود رکھ سکتا تھا جس کو "جھلی" کہتے ہیں 

    (اس بات کو سمجھنے کے لئے ، ایک رنگین پٹی والی گیند کا تصوّر کریں جس کے استواء پر ایک ربڑ بینڈ لگا ہوگا ہے۔ تصوّر کریں کہ قینچی لے کر آپ نے گیند دو حصّوں میں تقسیم کردی ہے ایک ربڑ بینڈ کے اوپر کا حصّہ ہے جبکہ دوسرا ربڑ بینڈ کے نیچے کا حصّہ ہے۔ گیند کو دو حصّوں میں تقسیم کرنے کے بعد ربڑ بینڈ ہی باقی بچتا ہے جو کہ ایک اسٹرنگ ہے۔ بالکل اسی طرح سے ہم اگر گیارہویں جہت کو موڑیں تو جو باقی بچے گی وہ صرف استواء کے گرد ایک جھلی ہی ہوگی جو کہ ایک اسٹرنگ ہوگی۔ ریاضیاتی طور پر ایسے پانچ طریقے ہیں جس میں اس گیند کو اس طرح سے کاٹا جا سکتا ہے جس کے نتیجے میں ہمیں پانچ مختلف اسٹرنگ کے نظریئے ملتے ہیں جن کی دس جہتیں ہوتی ہیں۔)

    گیارہویں جہت ہمیں ایک نئی تصویر دکھاتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہو سکتا ہے کہ کائنات بذات خود ایک جھلی ہو ، جو مکان و زمان کی گیارہویں جہت میں تیر رہی ہو۔ مزید براں یہ کہ تمام جہتوں کو چھوٹا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ حقیقت میں ان میں سے کچھ جہتیں ہو سکتا ہے کہ لامتناہی ہوں۔ اس امر کی وجہ سے اس بات کا امکان پیدا ہوتا ہے کہ شاید ہماری کائنات لامحدود کثیر کائناتوں میں سے ایک ہو۔ ایک وسیع تیرتے ہوئے شوربے میں یا جھلی میں بنتے بلبلوں کا تصوّر کریں۔ شوربے کا ہر بلبلہ ایک پوری کائنات کی نمائندگی کرتا ہے جو بلند خلاء میں گیارہویں جہت میں تیر رہی ہے۔ یہ بلبلے دوسرے بلبلوں سے بھی مل سکتے ہیں یا ایک بلبلہ دو حصّوں میں بھی تقسیم ہو سکتا ہے مزید یہ کہ کوئی بھی بلبلہ عدم سے بھی وجود میں آ سکتا ہے اور وجود سے فنا بھی ہو سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ ہم ان بلبلی کائناتوں میں سے کسی ایک کی سطح پر رہ رہے ہوں۔



    ہوسکتا ہے کہ اگلے ٥٠ برسوں میں متوازی کائناتوں کا وجود کوئی متنازع بات نہ ہو 

    ایم آئی ٹی کے میکس ٹیگ مارک(Max Tegmark) اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ "٥٠ برسوں میں متوازی کائناتوں کا وجود کوئی متنازع بات نہیں ہوگی بعینہ جیسے کہ دوسری کہکشائیں وجود رکھتی ہیں - اور آج سے ١٠٠ برس پہلے ان کو جزیرہ نما کائنات کہتے تھے۔"

    اسٹرنگ کا نظریئے کتنی کائناتوں کے موجود ہونے کی طرف اشارہ کرتا ہے ؟ اسٹرنگ نظریئے کی ایک اور پریشان کن خصوصیت یہ ہے کہ اس کے مطابق کھرب ہا کھرب کائناتوں کا وجود ممکن ہے جس میں سے ہر ایک اضافیت اور کوانٹم نظریئے سے مطابقت رکھتی ہوگی۔ ایک اندازے کا مطابق ممکنہ طور پر ایک گوگول (ایک کے بعد ١٠٠ صفر )کائناتیں موجود ہوں۔

    عام طور پر ان کائناتوں میں آپس میں رابطہ ہونا ممکن نہیں ہوتا ہے۔ ہمارے جسم کے جوہر ان مکھیوں کی طرح سے ایک جال میں قید ہیں۔ جہاں ہم تین جہتوں میں اپنی جھلی والی کائنات میں تو آسانی کے ساتھ حرکت کر سکتے ہیں مگر ہم اضافی خلاء میں موجود کائنات میں چھلانگ نہیں لگا سکتے ، کیونکہ ہم اپنی کائنات میں چپکے ہوئے ہیں۔ مگر قوّت ثقل ، مکان و زمان کو خم دیتی ہوئی آزادی سے کائناتوں کے درمیان موجود خلاء میں تیر سکتی ہے۔




    عام طور کائناتوں میں آپس میں رابطہ ہونا ناممکن ہوتا ہے 

    حقیقت میں ایک نظریہ ایسا ہے جو اس بات کو بیان کرتا ہے کہ تاریک مادّہ - جو ایک غیر مرئی مادّے کی شکل ہے اور کہکشاؤں کے گرد موجود رہتا ہے ، ممکنہ طور پر ان متوازی کائناتوں میں پایا جانے والا عام مادّہ ہو سکتا ہے ۔جیسا کہ ایچ جی۔ ویلز کے ناول "دی انویزیبل مین " میں ایک شخص اس وقت غائب ہو جاتا ہے جب وہ چوتھی جہت میں ہم سے اوپر تیرتا ہے۔ دو متوازی کاغذ کے ٹکڑوں کا تصوّر کریں جس میں سے ایک دوسرے کے اوپر تیر رہا ہو۔

    بعینہ ایسے اس بات کی پیشن گوئی کی جا رہی ہے کہ تاریک مادّہ بھی ایک عام کہکشاں ہو سکتی ہے جو ہماری کائنات کے اوپر کسی دوسری کائنات کی جھلی پر تیر رہی ہو۔ ہم اس کہکشاں کی قوّت ثقل کو محسوس کر سکتے ہیں کیونکہ قوّت ثقل ان کائناتوں میں سے گزر سکتی ہے تاہم دوسری کہکشاں ہمارے لئے غیر مرئی ہوگی کیونکہ روشنی اس کہکشاں کے نیچے ہی حرکت کرے گی۔ اس طرح سے کہکشاں میں قوّت ثقل تو ہوگی لیکن وہ غیر مرئی ہوگی جو تاریک مادّے کی تعریف پر پورا اترتا ہے۔(ایک دوسرا امکان یہ ہے کہ تاریک مادّہ بھی شاید کوئی سپر اسٹرنگ کی تھرتھراہٹ ہو۔ ہر وہ چیز جو ہم اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں جیسا کہ جوہر اور روشنی کچھ اور نہیں بلکہ سپر اسٹرنگ کی پست تھرتھراہٹ ہی ہے۔ تاریک مادّہ ایک نئی اضافی تھرتھراہٹ کا جوڑا ہو سکتا ہے۔ 

    یقین کی حد تک یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ان میں سے زیادہ تر متوازی کائناتیں مردہ ہوں گی ، بغیر شکل و صورت کی ذیلی جوہری ذرّات جیسا کہ الیکٹران اور نیوٹرینو پر مشتمل گیس پر ہوں گی۔ ان کائناتوں میں شاید پروٹون غیر قیام پذیر ہوں گے ، لہٰذا اس میں موجود تمام مادّہ آہستگی کے ساتھ انحطاط پذیر ہوتا ہوا تحلیل ہو جائے گا۔ جوہروں اور سالموں پر مشتمل پیچیدہ مادّے شاید ان کائناتوں میں بننے ممکن نہ ہوں۔

    ممکن ہے کہ دوسری متوازی کائناتیں اس کا بالکل ہی متضاد ہوں ، جہاں ہمارے تصوّر سے بھی زیادہ پیچیدہ مادّے کی اقسام موجود ہوں۔ بجائے ایک قسم کے جوہروں کے جو صرف الیکٹران ، نیوٹران اور پروٹون سے مل کر بنے ہوں ہو سکتا ہے کہ وہاں آنکھوں کو خیرہ کر دینے والے دوسرے اقسام کے مادّے موجود ہوں۔



    کیا کائناتوں کا آپس میں تصادم ہونا ممکن ہے؟ 

    یہ جھلی والی کائناتیں ممکنہ طور پر ایک دوسرے سے متصادم ہو سکتی ہیں جس کے نتیجے میں کائناتی آتش بازی جنم لے سکتی ہے ۔ پرنسٹن میں موجود کچھ طبیعیات دان یہ مانتے ہیں کہ شاید ہماری کائنات کا آغاز اس ساعت میں ہوا ہے جب آج سے ١٣ ارب ٧٠ کروڑ سال پہلے دو دیوہیکل جھلیاں ایک دوسرے سے ٹکرائی ہوں۔ ان کے مطابق اس ٹکر میں پیدا ہونے والی صدماتی موجوں نے ہماری کائنات کی تشکیل کی۔ حیرت انگیز طور پر جب اس خیال کے تجزیوں کی چھان پھٹک کی گئی تو بظاہر طور پر حاصل ہونے والے نتائج ڈبلیو میپ سیارچہ جو زمین کے گرد چکر لگا رہا ہے ،سے حاصل کردہ نتیجوں سے میل کھا گئے۔ (اس کو "عظیم منتشری "نظریئے کہتے ہیں۔)

    کثیر کائناتوں کے نظریئے میں صرف ایک چیز اس کی موافقت میں جاتی ہے۔ جب ہم قدرتی مستقلات کا تجزیہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ انتہائی درستگی کے ساتھ زیست کو پنپنے کے لئے بنائے گئے ہیں۔ تاہم ہم نیوکلیائی قوّت کی قیمت کو تھوڑا سا بڑھا دیں تو ستارے بہت ہی جلد اپنا ایندھن پھونک دیں گے جس کے نتیجے میں حیات پروان نہیں چڑھ سکے گی۔ اگر ہم نیوکلیائی قوّت کی قیمت میں تھوڑی سی کمی کر دیں تو ستارے کبھی بھی جل نہیں پائیں گے۔ جس کے نتیجے میں حیات تو وجود ہی نہیں پا سکتی۔ اگر ہم قوّت ثقل کی قیمت کو تھوڑا سا بڑھا دیں تو ہماری کائنات ایک عظیم چرمراہٹ کی صورت میں جلد ہی ختم ہو جائے گی۔ لیکن دوسری طرف اگر ہم قوّت ثقل کی قیمت کو کم کر دیں تو کائنات تیزی سے پھیلتی ہوئی ایک عظیم انجماد کی صورت میں اپنے انجام کو پہنچ جائے گی۔ حقیقت میں حادثوں کی حدیں موجود ہیں جو ان مستقلات کا تعین کرتی ہے جو زیست کو پروان چڑھانے کے لئے انتہائی ضروری ہیں۔ بظاہر طور پر ہماری کائنات ایک گولڈی لاکس زون میں موجود ہے جہاں پر کئی مقدار معلوم اس قدر موزوں اور متوازن ہیں جنہوں نے حیات کی شروعات کو پنپنے کا موقع فراہم کیا۔ لہٰذا ہمارے پاس دو صورتیں بچتی ہیں۔ یا تو کسی قسم کا خالق موجود ہے جس نے ہماری کائنات کو انتہائی موزوں و متوازن بنایا تا کہ یہاں پر حیات پروان چڑھ سکے یا پھر ارب ہا متوازی کائناتیں موجود ہیں جن میں سے زیادہ تر مردہ ہیں۔ جیسا کہ فری مین ڈیسن نے کہا تھا ،"ایسا لگتا ہے کہ کائنات کو معلوم تھا کہ ہم آرہے ہیں۔"

    کیمبرج یونیورسٹی کے سر مارٹن ریس لکھتے ہیں کہ اس قدر درستگی کا مطلب کثیر کائناتوں کے وجود کی اثبات کی دلالت کر دینے والے ثبوت ہیں۔ پانچ طبیعی مستقلات ہیں(جیسا کہ مختلف قوّتوں کی طاقتوں کی قیمتیں ) جو اس قدر درستگی کے ساتھ موجود ہیں جن کی وجہ سے زیست کا پروان چڑھنا ممکن ہوا ہے ، اور وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ لاتعداد کائناتیں ایسی ہیں جس میں قدرتی مستقلات حیات سے مطابقت نہیں رکھتے۔ 

    یہ خود ساختہ "بشری اصول "ہے۔ کمزور نقطۂ نظر سادے طور پر یہ بتاتا ہے کہ ہماری کائنات اس حد در درستگی کے ساتھ بنی ہے کہ حیات یہاں پھل پھول سکے (اس بات کا سب سے پہلا ثبوت تو یہ ہی ہے کہ ہم اس بات کو کہنے کے لئے یہاں پر موجود ہیں )۔ مضبوط نظریئے کے مطابق ممکن ہے کہ ہمارا وجود کسی مقصد یا ڈیزائن کی ضمنی پیداوار ہو۔ زیادہ تر ماہرین تکوینیات کمزور بشری اصول کے حامی ہیں تاہم اب بھی بحث جاری ہے کہ آیا بشری اصول ، سائنس کا کوئی نیا اصول ہے جو ہمیں نئی دریافتوں اور نتائج کی طرف لے جا سکتا ہے۔ 




    کوانٹم نظریہ 

    بلند جہتوں اور کثیر کائناتوں کے علاوہ ایک اور متوازی کائنات کی قسم ہے ، ایک ایسی کائنات جس نے آئن سٹائن کے سر میں درد کیا ہوا تھا اور جس نے اب بھی مسلسل طبیعیات دانوں کے دماغ کی چولیں ہلا کر رکھی ہوئی ہیں۔ یہ کوانٹم کائنات ہے جس کو عام کوانٹم میکانیات نے پیش کیا ہے۔ کوانٹم کے نظریئے میں تناقضات اس قدر الجھے ہوئے ہیں کہ نوبل انعام یافتہ رچرڈفائن مین اس جملے کی تکرار بہت شوق سے کرتے تھے کہ کسی نے بھی کوانٹم کے نظریئے کو صحیح سے نہیں سمجھا۔

    حیرت انگیز طور پر اگرچہ کوانٹم کا نظریہ انسانی دماغ کی طرح سے پیش کیا جانے والا سب سے کامیاب نظریہ ہے (اکثر ١٠ ارب میں سے بقدر ایک حصّے کے اندر درست ہوتی ہے) تاہم یہ اتفاق ، قسمت اور احتمال کی ریت کی دیوار کے اوپر بنا ہوا ہے۔ نیوٹن کے نظریئے کے برخلاف جو قطعیت کے ساتھ حرکت کرتے ہوئے اجسام کا محل وقوع بیان کرتی ہے ، کوانٹم کا نظریہ صرف امکانات ہی کو بیان کرتی ہے۔ جدید دور کے عجائبات جیسا کہ لیزر ، انٹرنیٹ ، کمپیوٹر ، ٹیلی ویژن ، سیل فون ، ریڈار ، خرد موجی بھٹیاں اور اسی طرح کی دوسری چیزیں سب کے سب بدلتی ریت کی دیواروں پر ہی بنی ہیں۔

    اس معمے کی سب سے بہترین شہرہ آفاق مثال شروڈنگر کی بلی کا مسئلہ ہے (جس کو کوانٹم نظریئے کے بانیوں میں سے ایک نے بنایا تھا ، اس مثال کو تناقض کے طور پر پیش کیا گیا تھا تاکہ کوانٹم کی اس امکانی تاویل کو ہمیشہ کے لئے پاش پاش کیا جا سکے۔شروڈ نگر نے اپنے نظریئے کی اس تاویل پر بر انگیختہ ہوتے ہوئے کہا "اگر کسی کو اس لعنتی کوانٹم کی چھلانگ سے چپک کر ہی رہنا ہے تو مجھے افسوس ہے کہ میں کیوں اس قسم کی چیز میں الجھا ۔"






    شروڈنگر کی بلی کا تناقض 

    شروڈنگر کی بلی کا تناقض کچھ اس طرح سے ہے :ایک بلی بند ڈبے میں موجود ہے۔ اس دبے کے اندر ایک بندوق اس کی طرف تنی ہوئی ہے (اور اس کی لبلبی ایک یورینیم کے ٹکڑے کے سامنے رکھے ہوئے گائیگر کاؤنٹر سے بندھی ہوئی ہے)۔ یورینیم جب قدرتی طور پر انحطاط پذیر ہوگا تو وہ گائیگر کاؤنٹر کو آزاد کر دے گا ۔ نتیجے میں بندوق کی لبلبی دب جائے گی اور بلی ختم ہو جائے گی۔ یورینیم کے جوہر انحطاط پذیر ہوں گے یا نہیں۔ بلی زندہ ہے کہ مردہ۔ یہ قابل ادرک بات ہے۔

    تاہم کوانٹم کے نظریئے میں ہم یہ بات یقین سے نہیں جانتے کہ یورینیم انحطاط پذیر ہوگا۔ لہٰذا ہمیں دو امکانات اس میں شامل کرنے پڑیں گے ، ایک انحطاط پذیر جوہر کا موجی تفاعل اور ایک پائیدار جوہر کا موجی تفاعل۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ بلی کی حالت کو بیان کرنے کے لئے ہمیں دو حالتیں بتانی ہوں گی۔ بلی نہ تو زندہ ہوگی نہ ہی مردہ۔ وہ ایک زندہ اور مردہ بلی کا مجموعہ ہوگی !

    جیسا کہ فائن مین نے ایک مرتبہ لکھا "کوانٹم میکانیات قدرت کو قابل فہم نقطۂ نظر سے بیان کرنے پر انتہائی نامعقول نظر آتی ہے۔ اور یہ مکمل طور پر تجربات سے ہم آہنگ ہے۔ لہٰذا میں آپ سے امید کرتا ہوں کہ آپ قدرت کو قبول کر لیں گے کہ وہ انتہائی مہمل ہے۔"

    آئن سٹائن اور شروڈنگر کے نقطہ نگاہ سے یہ بعید از قیاس ہے۔ آئن سٹائن معروضی حقیقت، عام فہم چیز پر یقین رکھتا تھا، نیوٹن کا نقطہ نظر جس میں اشیاء متعین حالت میں موجود ہوتی تھیں، اس بات پر یقین نہیں رکھتا تھا جس میں قطعیت کے بجائے مختلف امکانات موجود ہوں۔ اس کے باوجود یہ عجیب و غریب چیز آج جدید تہذیب کے قلب میں موجود ہے۔ اس کے بغیر جدید برقیات (اور ہمارے جسم کے جوہر بھی ) اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتی (عام دنیا میں ہم کبھی ہم اس بات کا مذاق کرتے ہیں کہ تھوڑا سی امید سے ہونا (حمل سے ہونا)ناممکن ہے لیکن کوانٹم کی دنیا میں اس سے بھی برا ہے۔ ہم ایک ساتھ ان تمام جسمانی امکانات کے ساتھ وجود رکھتے ہیں: ، بغیر حمل کے ، حمل کے ساتھ ، ایک بچے، ایک جوان عورت ، ایک نوجوان لڑکی، ایک کام پر جانے والی عورت وغیرہ وغیرہ)۔

    اس پریشان کن مسئلے کو کئی طرح سے حل کیا جا سکتا ہے۔ کوانٹم نظریئے کے بانی کوپن ہیگن اسکول مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں جو یہ کہتا ہے کہ ایک مرتبہ آپ نے ڈبہ کھول دیا تو پھر آپ ناپ کر ہی اندازہ لگا سکیں گے کہ بلی زندہ ہے کہ مردہ۔ اس وقت موجی تفاعل منہدم ہو جائے گا اور عقل اس کی جگہ لے لے گی۔ موج غائب ہو جائے گی اور صرف ذرّات ہی باقی بچے رہ جائیں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ اب بلی اپنی قطعی حالت میں موجود ہوگی (زندہ یا مردہ )اور اب اس کو موجی تفاعل کے ذریعے نہیں بیان کیا جا سکتا۔

    ایک نظر نہ آنے والی عجیب سی رکاوٹ جوہروں کی دنیا میں اور انسانوں کی اجمالی دنیا کے درمیان موجود ہے۔ جوہری دنیا میں ہر چیز کو موجی امکان سے بیان کیا جاتا ہے جہاں پر جوہر کئی جگہوں پر ایک ساتھ موجود ہوتا ہے۔ جتنی بڑی موج کسی جگہ پر ہوگی اتنا ہی زیادہ ذرّے کو وہاں پانے کا امکان ہوگا۔ مگر بڑے اجسام کے لئے یہ موجیں منہدم ہو جائیں گی اور اشیاء ایک متعین حالت میں موجود ہوں گی لہٰذا یہ بات ہماری عقل پر پوری اترتی ہے۔

    (جب مہمان آئن سٹائن کے گھر آتے تھے تو وہ چاند کی طرف اشارہ کرکے پوچھتا تھا ،"کیا چاند وجود رکھتا ہے کیونکہ ایک چوہا اسے دیکھ رہا ہے ؟" ایک طرح سے ، کوپن ہیگن مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے اس کا جواب ہاں میں ہی دیں گے۔)

    پی ایچ ڈی کی طبیعیات کی زیادہ تر کتابیں نہایت سختی کے ساتھ کوپن ہیگن مکتبہ فکر کے ساتھ چمٹی ہوئی ہیں مگر کافی محققین طبیعیات نے اس مکتبہ فکر کو چھوڑ دیا ہے۔ اب ہمارے پاس نینو ٹیکنالوجی موجود ہیں اور ہم اس قابل ہیں کہ انفرادی جوہروں کو اپنی مرضی سے ادھر ادھر کر سکیں لہٰذا جو جوہر پلک جھپکتے ہی ظاہر و غائب ہوتے ہیں تقطیعی سرنگی خردبین کی مدد سے اب ہم اپنی مرضی سے ان کو قابو میں کر سکتے ہیں۔ اب کوئی بھی غیر مرئی دیوار خرد بینی دنیا میں اور اجمالی دنیا میں باقی نہیں رہی ہے۔ اب ایک تسلسل موجود ہے۔ 

    فی الحال اس بات پر تو کوئی اتفاق رائے موجود نہیں ہے کہ اس مسئلہ کو کیسے حل کیا جائے جس نے جدید طبیعیات کے قلب پر زبردست وار کیا ہے۔ کانفرنسوں میں کافی نظریئے ایک دوسرے کے مد مقابل ہوتے ہیں۔ ایک اقلیتی نقطۂ نظر یہ ہے کہ پوری کائنات میں ایک کونیاتی شعور نفوذ پذیر ہے۔ اشیاء اس وقت وجود میں آتی ہیں جب ان کو ناپا جاتا ہے اور ناپنے والا کوئی باشعور ہی ہو سکتا ہے۔ لہٰذا کونیاتی شعور کو ضرور موجود ہونا چاہئے جو کائنات میں سرایت کیا ہوا ہے اور اس بات کا تعین کرتا ہے کہ ہم کس حالت میں ہیں۔ کچھ لوگ جیسا کہ نوبل انعام یافتہ یوجین ویگنر(Eugen Wigner) اس بات سے قائل کرنا چاہتے ہیں کہ یہ خدا کے وجود کی دلیل ہے یا پھر کسی قسم کے کونیاتی شعور کی۔(ویگنر نے لکھا ،"اصولوں (کوانٹم کے نظریئے) کو مکمل طور پر وضع دار بنانا کونیاتی شعور کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔" حقیقت میں اس نے ہندوؤں کی وندانتا کی فلاسفی میں بھی دلچسپی ظاہر کی ہے جہاں پر کائنات میں ہر جگہ شعور سرایت کیا ہوا ہے۔)

    تناقض کا ایک اور نقطہ نظر "کثیر جہاں " ہیں جس کو ہو ایو رٹ (Hugh Everett)نے ١٩٥٧ء میں پیش کیا جو کہتا ہے کہ کائنات دو حصّوں میں بٹی ہوئی ہے ، ایک حصّہ میں زندہ بلی موجود ہے جبکہ دوسرے حصّے میں ایک مردہ بلی موجود ہے۔ اس بات کا مطلب یہ ہوا ایک وسیع متوازی کائناتوں کی شاخیں کسی بھی کوانٹم واقعے کے بعد متواتر بنتی چلی جائیں گی ۔ ہر قسم کی کائنات موجود ہوگی۔ جتنی زیادہ کائنات عجیب ہوگی اس کے ہونے کا امکان اسی قدر کم ہوگا۔ تاہم ان تمام باتوں سے صرف نظر کرتے ہوئے کہ ایسی کائناتیں تو بہرحال موجود ہوں گی۔ اس بات کا یہ مطلب کہ ایک ایسا جہاں بھی ہوگا جہاں جرمن نازیوں نے جنگ عظیم دوئم جیت لی ہوگی یا ایک ایسی دنیا جہاں ہسپانوی بیڑا کبھی بھی شکست نہیں کھائے گا اور سب لوگ ہسپانوی زبان بول رہے ہوں گے۔ دوسرے الفاظ میں موجی تفاعل کبھی بھی نہیں ڈھے گا۔ وہ اپنے راستے پر چلتا رہے گا جس کے نتیجے میں ان گنت کائناتیں بنتی رہیں گی۔ جیسا کہ ایم آئی ٹی کے طبیعیات دان ایلن گتھ کہتے ہیں ،"ایک ایسی کائنات بھی ہوگی جہاں ایلوس ابھی تک زندہ ہوگا، اور الگور وہاں کاصدر ہوگا۔" نوبل انعام یافتہ فرینک ولکزیک (Frank Wilczek)کہتے ہیں ،"یہ بات جان کر ہم آسیب زدہ ہو گئے ہیں کہ لامحدود طور تھوڑے سے مختلف ہمارے ہی ہمزاد متوازی کائنات میں رہ رہے ہیں اور ہر لمحے مزید ہمزاد پیدا ہوتے جا رہے ہیں جن میں سے ہر ایک کا مستقبل الگ ہوگا۔"








    ڈی کوہرنس کا نظریہ آج کل طبیعیات دانوں میں کافی مقبول ہورہا ہے 

    ایک نقطہ نظر جو طبیعیات دانوں میں آج کل کافی مقبول ہو رہا ہے وہ ہے "ڈی کو ہرنس "ہے۔ یہ نظریہ بیان کرتا ہے کہ یہ تمام متوازی کائنات صرف امکان ہیں ، مگر ہمارا موجی تفاعل ان سے غیر مربوط ہے (یعنی اب وہ اس کے ساتھ ہم آہنگ نہیں رہا ) لہٰذا وہ ان کے ساتھ تعامل نہیں کر رہا ہے۔ اس بات کا مطلب یہ ہوا کہ آپ اپنے کمرے کے اندر ایک ساتھ ڈائنو سارس ، خلائی مخلوق ، قزاقوں ، جل پریوں کے موجی تفاعل کے ساتھ رہ رہے ہیں اور ان میں سے ہر ایک یہ سمجھ رہا ہے کہ ان کی کائنات ہی اصلی ہے مگر ہم ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہیں۔

    نوبل انعام یافتہ ا سٹیو وائن برگ کے مطابق ، یہ ایسا ہے کہ جیسے کسی ایک ریڈیو ا سٹیشن کوکسی ملک یا دنیا کے مختلف ریڈیو ا سٹیشنوں میں سے لگائیں۔ مگر آپ ایک وقت میں ایک ہی ریڈیو ا سٹیشن کو لگا سکیں گے۔ وہ دوسرے تمام ریڈیو ا سٹیشن سے غیر مربوط ہو جائے گا۔(مختصراً وائن برگ کے مطابق "کثیر جہاں کا خیال سوائے دوسرے خیالوں کے ایک انتہائی بیہودہ خیال ہے۔")

    تو کیا کوئی شیطانی سیارگان کی فیڈریشن کا موجی تفاعل موجود ہے جو کمزور سیاروں کو لوٹ رہا ہے اور اپنے دشمنوں کو ذبح کر رہا ہے ؟ شاید، لیکن اگر ایسا ہوا تو ہم ان کی کائنات سے غیر مربوط ہیں۔


    کوانٹم کائنات 

    جب ہو ایو رٹ نے اپنے اس "کثیر جہانوں " کے نظریئے کو دوسرے طبیعیات دانوں سے بیان کیا تو اس کا استقبال ان کی بے یقینی اور سرد مہری نے کیا ۔یونیورسٹی آف ٹیکساس کے ایک طبیعیات دان برائس ڈ ی وٹ(Bryce DeWitt) اس نظریئے پر یوں معترض ہوا کہ "میں اپنے آپ کو دو لخت ہوتا ہوا محسوس نہیں کرتا۔" یہ بعینہ ایسے ہے کہ جیسے گلیلیو اپنے ان ناقدین کو جواب دیتا تھا جو یہ کہتے تھے کہ وہ زمین کو گھومتا ہوا محسوس نہیں کرتے۔ ایو رٹ نے کہا۔(آخر میں ڈی وٹ ، ایو رٹ سے جیت گیا اور اس نظریئے کی مخالفت میں اس نے کلیدی کردار ادا کیا۔) 

    کئی عشروں تک "کثیر جہانوں "کا نظریہ گمنامی کے اندھیرے میں لاچار پڑا رہا۔ اس کا سچا ہونا ہماری فہم سے ماوراء تھا۔ جان وہیلر(John Weeler) ، جو ایورٹ کے پرنسٹن میں مشیر تھے انہوں نے آخر میں نتیجہ اخذ کیا کہ نظریئے کے ساتھ بہت زیادہ بیکار کی چیزیں موجود ہیں۔ اس وقت ایو رٹ کے نظریئے کی اچانک مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ طبیعیات دان کوانٹم کے نظریئے کو اس آخری میدان عمل پر اطلاق کرنے کے لئے عمل پیرا ہیں جس نے ابھی تک ان سے کافی مزاحمت کی ہے :یعنی کہ کائنات۔ اصول عدم یقین کا اطلاق پوری کائنات پر کرنے سے آخر میں ہم کثیر کائناتوں کی طرف ہی جا کھڑے ہوں گے ۔

    کوانٹم کائنات کا تصوّر پہلی نظر میں ایک تضاد لگتا ہے : کوانٹم کے نظریئے کا اطلاق تو بے حد چھوٹے ننھے جوہروں کے جہاں پر ہوتا ہے ، جبکہ کونیات تو پوری کائنات کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ مگر ذرا اس چیز کو سمجھیں :بگ بینگ کے لمحے ، کائنات ایک الیکٹران سے بھی کافی چھوٹی تھی۔ ہر طبیعیات دان اس بات پر متفق ہے کہ الیکٹرانوں پر کوانٹم کا اطلاق ہوتا ہے۔ یعنی کہ ان کو امکانی موجی مساوات(ڈیراک کی مساوات ) کے ذریعہ بیان کیا جا سکتا ہے جو متوازی حالت میں ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا اگر الیکٹران پر کوانٹم کے نظریئے کا اطلاق ہو سکتا ہے تو جب کائنات ایک الیکٹران سے بھی چھوٹی تھی تو اس وقت کائنات کو بھی متوازی حالت میں لازمی طور پر موجود ہونا چاہئے - یہ ایک ایسا نظریہ ہے جو قدرتی طور پر "کثیر جہانوں " کے مفروضے کی طرف ہی لے جائے گا۔

    نیلز بوہر کی کوپن ہیگن کی تاویل کے مطابق جب اس نظریئے کا اطلاق پوری کائنات پر ہوتا ہے تو ان کا مختلف مسائل سے سامنا ہوتا ہے۔ کوپن ہیگن تاویل اگرچہ ہر پی ایچ ڈی کے پروگرام میں پڑھائی جاتی ہے - کوانٹم میکانیات زمین پر ایک ایسے شاہد پر انحصار کرتا ہے جو مشاہدہ کرتا ہے جس کے نتیجے میں موجی تفاعل منہدم ہو جاتی ہے۔ یہ مشاہدہ کرنے کا عمل جہاں اکبر کو بیان کرنے کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ مگر کائنات کے باہر رہ کر کیسے کوئی کائنات کا مشاہدہ کر سکتا ہے ؟ اگر موجی تفاعل کائنات کو بیان کرتا ہے ، تو کیا ایک باہر کا شاہد کائنات کا موجی تفاعل کو منہدم کر دے گا ؟ حقیقت میں کچھ لوگ کائنات کو اس کے باہر سے دیکھنے میں اپنے آپ کو معذور پاتے ہیں جو کوپن ہیگن تاویل کے لئے ایک مہلک بات ہے۔

    "کثیر جہانوں " کے مفروضے میں اس مسئلہ کا حل سادہ ہے :کائنات کافی متوازی حالتوں میں موجود ہے ، اور یہ تمام حالتیں ایک آقائی موجی تفاعل سے بیان کی گئیں ہیں جس کو "کائناتی موجی تفاعل" کہتے ہیں۔ کوانٹم کونیات میں کائنات کی شروعات خالی جگہ میں کوانٹم کے اتار چڑھاؤ کی وجہ سے ہوئی ، یعنی جھاگ میں ایک ننھے بلبلے کی شکل میں۔مکان و زمان کے جھاگ میں زیادہ تر نوزائیدہ کائناتیں بگ بینگ سے شروع ہوتی ہیں اور ان کا خاتمہ فوراً ہی عظیم چرمراہٹ ( بگ کرنچ) پر ہوتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہم ان کو کبھی بھی نہیں دیکھ پاتے کیونکہ وہ انتہائی ننھی ہوتی ہیں اور بہت ہی کم عرصے کے لئے وجود میں آتی ہیں اور خالی جگہ میں ابھرتی اور ڈوبتی رہتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کوئی بھی چیز ان ننھی کائناتوں کے ساتھ ابل نہیں رہی جو وجود میں آتے ہی فنا ہو جاتی ہیں مگر یہ سب کچھ اس قدر صغاری پیمانے پر ہو رہا ہے جس کا سراغ ہمارے آلات لگا نہیں سکتے۔ لیکن کسی وجہ سے مکان و زمان کے جھاگ سے ایک بلبلہ عظیم چرمراہٹ میں منہدم نہیں ہوا اور اس نے پھیلنا جاری رکھا۔ یہ ہماری کائنات ہے۔ ایلن گتھ کے مطابق پوری کائنات ایک مفت کے کھانے کی طرح ہے۔

    کوانٹم کونیات میں ، طبیعیات دان شروڈنگر کی مساوات کی مماثلت سے شروع کرتے ہیں جس کا اطلاق الیکٹران اور جوہروں کے موجی تفاعل پر ہوتا ہے۔ وہ ڈیوٹ – وہیلر کی مساوات کا استعمال کرتے ہیں جو کائناتی موجی تفاعل پر لاگو ہوتی ہے۔ عام طور سے شروڈنگر کی موجی تفاعل مکان و زمان کے ہر نقطہ پر بیان کی جا سکتی ہے ، جس کے نتیجے میں آپ الیکٹران کو مکان و زمان کے کسی بھی نقطہ پر تلاش کرنے کا حساب لگا سکتے ہیں۔

    تاہم "کائناتی موجی تفاعل" تمام کائناتوں کو بیان کرتا ہے۔ اگر کائناتی موجی تفاعل کسی مخصوص کائنات کو بیان کرتے ہوئے کافی بڑا ہو جائے تو اس کا مطلب ہے کہ اس بات کی کافی امید ہے کہ کائنات اس مخصوص حالت میں موجود ہوگی۔

    ہاکنگ اس نقطہ نظر پر بہت زیادہ زور دیتا ہے۔ وہ دعویٰ کرتا ہے کہ ہماری کائنات دوسری کائناتوں میں سے منفرد کائنات ہے۔ ہماری کائنات کا موجی تفاعل کافی بڑا ہے جبکہ دوسری کائناتوں میں یہ صفر کے برابر ہے۔ اس لئے بہت ہی محدود پیمانے پر اس بات کا امکان ہے کہ دوسری کائناتیں کثیر کائناتوں میں وجود رکھ سکتی ہیں لیکن ہماری کائنات کا امکان ان سب میں سب سے زیادہ ہے۔ ہاکنگ نے افراط پذیر کائنات کے نظریئے کو اس طرح سے حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس تصوّر میں دوسری کائناتوں کے مقابلے میں ایک کائنات جو پھیل گئی ہے وہ ہماری پھیلی ہوئی کائنات ہے۔

    یہ نظریہ کہ ہماری کائنات مکان و زمان کے جھاگ سے عدم سے وجود میں آئی ہے شاید ایسا نظریہ لگے جس کو آزمایا نہیں جا سکے مگر یہ بات کافی مشاہدات سے ہم آہنگ ہوتی نظر آتی ہے۔ سب سے پہلا مشاہدہ ، کافی طبیعیات دانوں نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ یہ انتہائی تعجب خیز بات ہے کہ مثبت اور منفی بار کی کل مقدار ملا کر بالکل صفر ہو جاتی ہے کم از کم تجرباتی درستگی کی حد تک ایسا ہی ہے۔ ہم اس بات کو بہت ہلکا لیتے ہیں کہ باہری خلاء میں قوّت ثقل کا غلبہ ہے ، یہ اسی وجہ سے ممکن ہو ہے کہ منفی بار اور مثبت بار ایک دوسرے کو زائل کر دیتے ہیں۔ اگر کرۂ ارض پر ذرا سا بھی باروں میں فرق ہوتا تو اس کے نتیجے میں باروں کی قوّت ، کشش ثقل پر غالب آ جاتی جس نے زمین کو جوڑ کر رکھا ہوا ہے اور نتیجتاً زمین ریزہ ریزہ ہو جاتی۔ ایک سادہ سا طریقہ اس بات کو بیان کرنے کا یہ ہو سکتا ہے کہ کیونکہ کائنات عدم سے وجود میں آئی تھی اور عدم پر صفر بار تھا لہٰذا مثبت اور منفی بار میں توازن اسی لئے ہے۔

    دوسرے ہماری کائنات کا گھماؤ صفر ہے۔ اگرچہ کافی برسوں تک کرٹ گوڈیل اس بات کی کوشش کرتا رہا کہ کسی طرح سے کہکشاؤں کے گھماؤ کو جمع کرکے کائنات کے گھومنے کو ثابت کر دے ، مگر آج ماہرین فلکیات اس بات پر متفق ہیں کہ کائنات کا مکمل گھماؤ صفر ہے۔ اس مظہر کو بھی آسانی سے بیان کیا جا سکتا ہے کیونکہ کائنات عدم سے وجود میں آئی ہے اور عدم کا گھماؤ صفر ہوتا ہے۔

    تیسرے ہماری کائنات کا عدم سے وجود میں آنا اس بات کو بیان کرنے میں بھی مدد کرتا ہے کہ کائنات میں موجود تمام مادّہ اور توانائی مل کر بھی اتنا کم کیوں ہے ، شاید صفر ہو۔ جب ہم مادّے کی مثبت توانائی اور ثقلی قوّت کی منفی توانائی کو جمع کرتے ہیں تو دونوں ایک دوسرے کو زائل کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ عمومی اضافیت کے نظریئے کے مطابق اگر کائنات بند اور محدود ہے تو کائنات میں موجود تمام مادّہ اور توانائی بالکل صفر ہوگا۔(اگر ہماری کائنات کھلی ہوئی اور لامحدود ہے تو ایسا نہیں ہوگا ، مگر اس کے باوجود افراط پذیر کائنات کے نظریئے کے مطابق ہماری کائنات میں کل ملا کر مادّہ اور توانائی کی مقدار غیر معمولی طور پر کم ہے۔)



    کائناتوں کے درمیان رابطے ؟

    اس نے کچھ وسوسہ انگیز سوالات کا دریچہ کھول دیا ہے : اگر طبیعیات مختلف قسم کی کائناتوں کے وجود کی انکاری نہیں ہو سکتی ، تو کیا یہ بات ممکن ہے کہ ان کے درمیان کوئی رابطہ بھی ہو سکے ؟ان کا سفر بھی کیا جا سکے ؟ یا یہ بھی ممکن ہے کہ شاید کچھ دوسری کائناتی ہستیوں نے ہماری کائنات کا بھی چکر لگایا ہو ؟

    ان کوانٹم کائناتوں سے جن سے ہم غیر مربوط ہیں ، ان میں آپس میں رابطہ ہونا بہت ہی مشکل لگتا ہے۔ دوسری کائناتوں سے غیر مربوط ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے جوہر ہماری آس پاس کی جگہ کے ان گنت جوہروں سے متصادم ہو گئے ہیں۔ جب بھی تصادم ہوتا ہے اس وقت موجی تفاعل منہدم ہو جاتا ہے ، یعنی کہ متوازی کائناتیں کم ہو جاتی ہیں۔ ہر ٹکراؤ امکانات کو کم کر دیتا ہے۔ ان تمام دسیوں کھربوں جوہری "چھوٹی کمی "اس بات کا دھوکہ دیتے ہیں کہ ہمارے جسم کے جوہر مکمل طور پر ایک مخصوص حالت میں ڈھے گئے ہیں ۔ آئن سٹائن کی "معروضی حقیقت "ایک دھوکہ ہے جو اس وجہ سے بنتی ہے کہ ہمارے جسم میں کئی جوہر ہیں جو ایک دوسرے سے متصادم ہوتے رہتے ہیں ، ہر تصادم کے نتیجے میں "ممکنہ کائناتوں کی تعداد "کم ہو جاتی ہے۔

    یہ ایک ایسی ہی بات ہے کہ کسی منتشر چیز کو کیمرے کی مدد سے دیکھا جائے۔ یہ جہان اصغر جیسا ہی ہوگا جہاں پر ہر چیز دھندلی اور لامحدود نظر آئے گی۔ ہر دفعہ جب آپ کیمرے کو کسی چیز پر مرتکز کریں گے تو تصویر بہتر سے بہتر ہوتی چلے جائے گی۔ یہ ان دسیوں کھرب ننھے تصادموں کے موافق ہے جو پڑوسی جوہروں کے ساتھ ہو رہا ہے اور ہر تصادم کے نتیجے میں ممکنہ کائناتوں کی تعداد میں کمی ہو رہی ہے۔ اس طرح سے ہم آسانی کے ساتھ دھندلے جہان اصغر سے جہان اکبر کی طرف نقل مکانی کرتے ہیں۔ لہٰذا اس بات کا امکان کہ ہمارا واسطہ دوسری کوانٹم کائنات سے ہو ، صفر تو نہیں ہے ، لیکن وہ انتہائی تیزی کے ساتھ ہمارے جسموں کے جوہروں کی تعداد کے برابر کم ہو رہی ہیں۔ کیونکہ ہمارے جسم میں دسیوں کھرب جوہر موجود ہوتے ہیں لہٰذا اس بات کا امکان کہ ہم دوسری کائنات جس میں ڈائنو سارس ، یا خلائی مخلوق موجود ہو انتہائی نہ ہونے کے برابر ہے۔ آپ اس بات کا آسانی سے حساب لگا سکتے ہیں کہ آپ کو کسی بھی ایسے موقع کو حاصل کرنے کے لئے کائنات کی عمر سے بھی کہیں زیادہ کی عمر درکار ہوگی۔




    کیا متوازی کائناتوں کا آپس میں رابطہ ہونا ممکن ہے؟ 

    لہٰذا کوانٹم کائنات سے رابطہ کا یکسر انکار نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن ایسا کوئی رابطہ انتہائی نایاب اور انوکھا واقعہ ہوگا کیونکہ ہم ان سے غیر مربوط ہیں۔ مگر کونیات میں ہم ایک اور قسم کی متوازی کائنات سے ملتے ہیں :ایک کثیر کائناتی دنیا جو دوسری کائناتوں کے ساتھ قائم رہ سکتی ہیں ، جس طرح سے صابن کے بلبلے ایک ٹب میں تیرتے ہیں۔ کثیر کائناتی دنیا میں دوسری کائناتوں سے رابطہ ایک دوسرا سوال ہے۔ اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ ان میں آپس میں رابطہ کرنا ایک کمال کی بات ہوگی مگر شاید یہ تیسری قسم کی تہذیب کے لئے ممکن ہوگا۔

    جیسا کہ ہم نے پہلے بھی بیان کیا ہے ، کہ مکان و زمان کے جھاگ میں سوراخ کرنے یا اس کو بڑا کرنے کے لئےپلانک توانائی درکار ہوگی جہاں پر تمام معلوم قوانین طبیعیات کام کرنا بند کر دیتے ہیں۔ مکان و زمان اس توانائی پر غیر پائیدار ہو جاتے ہیں اور اس بات سے ہماری کائنات سے باہر نکلنے کا امکان کھلا رہتا ہے۔(بشرط یہ کہ ہمارے کائنات باقی رہے اور ہم اس عمل میں ہلاک نہ ہو جائیں)۔

    یہ کوئی خالص علمی سوال نہیں ہے ، کیونکہ کائنات میں موجود تمام حیات کو ایک دن اس بات کا سامنا کرنا ہے کہ ہماری کائنات کا خاتمہ ہوگا۔ کثیر کائناتوں کا نظریہ ہی آخر کار ہماری کائنات میں پائی جانے والی تمام ذہین مخلوق کی مکتی پانے کا ذریعہ بچتا ہے۔ ڈبلیو میپ سیارچہ جو زمین کے گرد مدار میں چکر لگا رہا ہے اس سے حاصل ہونے والے تازہ اعداد و شمار نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ کائنات اسراعی شرح سے پھیل رہی ہے۔ ایک دن ہم سب اس واقعہ میں مارے جائیں گے جس کو طبیعیات کی دنیا میں "عظیم انجماد" یا "بگ فریز "کہتے ہیں۔ آخر میں تمام کائنات تاریک ہو جائے گی ، کائنات میں موجود تمام ستارے بجھ جائیں گے اور کائنات میں صرف مردہ ستارے ، نیوٹرون ستارے اور بلیک ہول ہی باقی رہ جائیں گے۔ یہاں تک کہ ان کے جوہر بھی تنزلی کا شکار ہو رہے ہوں گے۔ درجہ حرارت مطلق صفر تک گر جائے گا جس کے نتیجے میں حیات کا باقی رہنا ممکن نہیں رہے گا۔

    کائنات جیسے ہی اس نقطہ پر پہنچے گی ، کوئی بھی جدید تہذیب جو کائنات کو موت کی جانب رواں ہوتے دیکھے گی لازمی طور پر اپنے بچاؤ کے لئے دوسری کائناتوں کی طرف ہجرت کر سکتی ہے۔ ان ہستیوں کے لئے صرف دو موقع ہوں گے یا تو سرد موت کو قبول کر لیں یا اس کائنات کو چھوڑ دیں۔ قوانین طبیعیات تو تمام ذہین مخلوق کے لئے موت کا پروانہ ہیں ، مگر ان قوانین میں بچاؤ کی صورت بھی شامل ہے۔

    کسی بھی ایسی تہذیب کو دیوہیکل جوہروں کے تصادم گر اور نظام شمسی جتنی لیزر کی کرن یا پھر ستاروں کے جھرمٹ کی قوّت کو مرتکز کرنا ہوگا اور ان سے پیدا ہوئی طاقت کو قابو کرنا ہوگا تا کہ پلانک توانائی کو حاصل کیا جا سکے۔یہ ممکن ہے کہ ایسے کرنے میں اتنی توانائی مل جائے گی جو کسی ثقب کرم یا دوسری کائنات کے کسی قسم کے دروازے کو کھول دے۔ ممکن ہے کہ ایک قسم III کی تہذیب عظیم توانائی کو اپنے اختیار سے استعمال کرکے کوئی ثقب کرم کو کھول سکے تا کہ وہ دوسری کائنات کی طرف گامزن ہو سکے اس طرح سے وہ مرتی ہوئی کائنات کو چھوڑ کر ایک نئی کائنات میں جا سکے گی جہاں پر وہ اپنی زندگی دوبارہ سے شروع کر سکے گی۔ 


    تجربہ گاہ میں نوزائیدہ کائنات ؟

    یہ سننے میں جتنا نامعقول خیال لگے ،لیکن اس بات کو طبیعیات دان انتہائی سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر جب اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ بگ بینگ کیسے شروع ہوا تو ہمیں اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ وہ کیا حالات تھے جنہوں نے بگ بینگ کی شروعات کی تھی ۔ بالفاظ دیگر ہمیں یہ بات پوچھنی ہوگی :کہ آپ نوزائیدہ کائنات کیسے تجربہ گاہ میں بنائیں گے ؟ اسٹن فورڈ یونیورسٹی کے انڈری لنڈے(Andrei Linde) ، جو افراط پذیر کائنات کے نظریئے کے بانیوں میں سے ایک ہیں کہتے ہیں کہ اگر ہم ایک نوزائیدہ کائنات بنا سکیں ، تو "شاید یہ وقت ہوگا جس میں ہم خدا کو دوبارہ سے سمجھ سکیں کہ وہ اس سے کائنات کی تخلیق سے کہیں زیادہ قدرت رکھتا ہے۔"

    یہ خیال نیا نہیں ہے۔ کئی برسوں پہلے جب طبیعیات دانوں نے اس توانائی کا حساب لگایا جو بگ بینگ کے لئے ضروری تھی "لوگ اس بات کو فوراً ہی سوچنے لگے کہ اگر کافی ساری توانائی کو تجربہ گاہ میں ایک جگہ میں بہت ساری توپوں سے داغا جائے تو کیا ہوگا۔ کیا ہم اتنی توانائی کو مرتکز کر سکیں گے جس کے نتیجے میں بگ بینگ شروع ہو سکے ؟"لینڈ ے پوچھتے ہیں۔





    ایک ہی ہلے میں افراط پذیر کائنات کے نظریئے نے کافی سارے کونیاتی سوالات کے جواب دے دیئے 

    اگر آپ کافی توانائی کو کسی ایک نقطہ پر مرتکز کریں گے تو مکان و زمان منہدم ہوتے ہوئی بلیک ہول کو جنم دیں گے اس سے زیادہ کچھ اور نہیں۔ مگر ١٩٨١ء میں ایم آئی ٹی کے ایلن گتھ اور لینڈ ے نے "افراط پذیر کائنات کا نظریہ پیش کیا ۔ جو اس وقت سے طبیعیات دانوں کی زبردست دلچسپی کا سبب بنا ہوا ہے۔ اس مفروضے کے مطابق بگ بینگ ایک بہت ہی زیادہ قوّت والے پھیلاؤ سے شروع ہوا اس سے کہیں زیادہ جتنا کہ ہم پہلے سمجھتے تھے۔(افراط پذیر کائنات کے نظریئے نے کونیات کے کافی ضدی مسائل کو حل کر دیا ہے ، جیسا کہ کائنات بڑے پیمانے پر اتنی یکساں کیوں دکھائی دیتی ہے۔ ہر جگہ ہم جہاں سے بھی دیکھیں ، آسمان کے ایک کونے سے یا اس کے دوسرے مخالف کونے سے ، ہمیں کائنات یکساں دکھائی دیتی ہے ، اگرچہ ان وسیع دور ہوتے اجسام میں بگ بینگ کے وقت سے لے کر اب تک زیادہ وقت بھی نہیں گزرا۔ افراط پذیر کائنات کے مطابق اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ایک ننھا مکان و زمان کا حصّہ جو نسبتاً یکساں تھا پھٹ کر ایک دم سے نظر آنے والی کائنات میں تبدیل ہو گیا تھا۔) افراط پذیر کائنات کو شروع کرنے کے لئے گتھ نے اس بات کو فرض کیا کہ وقت کے آغاز میں مکان و زمان کے ننھے بلبلے موجود تھے جس میں سے ایک اس قدر افراط پذیر ہوا کہ وہ آج کی کائنات بن گیا۔

    ایک ہی ہلے میں افراط پذیر کائنات کے نظریئے نے کافی سارے کونیاتی سوالات کے جواب دے دیئے۔ مزید براں یہ کہ یہ نظریہ ان مشاہداتی اعداد و شمار سے میل کھاتا ہے جو ہمیں خلائے بسیط سے ڈبلیو میپ اور کوبی سیارچوں سے حاصل ہوئے ہیں۔ حقیقت میں بگ بینگ نظریہ کے لئے یہ بغیر شرکت امیدوار ہے۔

    اس کے باوجود افراط پذیر کائنات نے ناقابل یقین سوالوں کے سلسلوں کو جنم دیا ہے۔ یہ بلبلہ کیوں پھیلنا شروع ہوا ؟کس چیز نے افراط پذیر کائنات کو روک کر دور حاضر کی کائنات کے قلب میں ڈھالا ؟ افراط پذیر ی اگر ایک دفعہ ہوئی ہے تو کیا دوسری مرتبہ بھی وقوع ہو سکتی ہے ؟ حیرت انگیز طور پر اگرچہ افراط پذیر کائنات کا نظریہ کونیات کی دنیا میں سب سے قابل قبول ہے مگر اس بارے میں کسی کو کچھ نہیں پتا کہ افراط پذیری کو شروع کس نے کیا اور یہ کیوں رک گئی ۔

    ان پریشان کر دینے والے سوالات کا جواب دینے کے لئے ایم آئی ٹی کے ایلن گتھ اور ایڈورڈ فہری(Edward Fahri) نے مزید قیاسی سوالات اٹھائے : کوئی جدید تہذیب کس طرح سے اپنی کائنات کو پھیلا سکتی ہے ؟ ان کو یقین ہے کہ اگر وہ اس سوال کا جواب دینے میں کامیاب ہو گئے تو وہ اور گہرے سوالات کے جواب دینے کے قابل ہو سکیں گے جیسے کہ کائنات افراط کے نتیجے میں کیوں شروع ہوئی۔

    انہوں نے اس بات کو دریافت کیا کہ اگر آپ کافی زیادہ توانائی کسی ایک نقطہ پر مرتکز کریں تو ننھے مکان و زمان کے بلبلے خود سے پیدا ہونے لگیں گے۔ لیکن اگر بلبلے بہت زیادہ ننھے ہوئے تو وہ مکان و زمان کے جھاگ میں غائب ہو جائیں گے۔ صرف اس صورت میں ہی بلبلے ایک پوری کائنات بن کر پھیلیں گے جب وہ کافی بڑے ہوں گے۔ 

    باہر سے ایسی کسی بھی کائنات کی پیدائش کچھ زیادہ نہیں لگے گی ، شاید ایک ٥٠٠ کلو ٹن کے نیوکلیائی طاقت کے بم کے پھٹنے جتنی اس کی توانائی ہوگی۔ وہ صرف ایسے ہی لگے گی کہ جیسے صرف ایک چھوٹا سا بلبلہ کائنات سے غائب ہو گیا ہے اور اپنے پیچھے ایک چھوٹا سا نیوکلیائی دھماکہ چھوڑ گیا ہے۔ مگر ہو سکتا ہے کہ بلبلے کے اندر ایک پوری نئی کائنات پھیل رہی ہو۔ صابن کے ان بلبلوں کا سوچیں جو دو بلبلوں یا چھوٹے بلبلوں میں بدل جاتے ہیں جس کے نتیجے میں ایک نیا بلبلہ بن جاتا ہے۔ چھوٹا بلبلہ ہو سکتا ہے کہ یکدم سے پھیلتی ہوئی کائنات بن جائے۔ اسی طرح سے کائنات کے اندر آپ ایک زبردست دھماکہ مکان و زمان میں دیکھیں گے جس کے نتیجہ میں ایک پوری کائنات بن جائے گی ۔

    ١٩٨٧ء سے کافی سارے نظریئے پیش کیے گئے جس میں یہ دیکھا گیا کہ آیا توانائی کو داخل کرکے کوئی بڑا بلبلا بنا یا جا سکتا ہے جو پھیل کر پوری کائنات میں بدل جائے۔ سب سے زیادہ قابل قبول نظریہ یہ ہے کہ ایک نیا ذرّہ جس کا نام "انفلا ٹون "ہے وہ مکان و زمان کو غیر پائیدار کرتا ہے جس کے نتیجے میں یہ بلبلے بنتے اور پھیلتے ہیں۔





    یک قطبیوں کو ابھی تک نہیں دیکھا جاسکا ہے 


    حالیہ تنازع اس وقت ٢٠٠٦ء میں پھوٹ پڑا جب ایک نئی تجویز آئی کہ ایک یک قطبی کے ساتھ ننھی کائنات بنائی جائے۔ اگرچہ یک قطبی جن پر صرف شمالی یا جنوبی قطب موجود ہوں کبھی بھی نہیں دیکھے جا سکے ہیں ، پھر بھی اس بات پر یقین رکھا جاتا ہے کہ ان کی حکمرانی ابتدائی کائنات پر تھی۔ وہ اس قدر ضخیم ہوتے ہیں کہ ان کو تجربہ گاہ میں بننا قریب قریب ناممکن ہی ہے ، اور درستگی کے ساتھ اگر ہم مزید توانائی اس یک قطبی میں ڈالیں تو شاید ہم ایک ایسی ننھی کائنات کو جگا دیں جو پھیلتی ہوئی نئی حقیقی کائنات میں بدل جائے گی۔ طبیعیات دان کیوں ایک ننھی کائنات بنانا چاہتے ہیں ؟لینڈ ے پوچھتے ہیں ،"اس کے مطابق ہم میں سے ہر ایک خدا بن سکتا ہے۔" مگر ایک نئی کائنات کو بنانے کی خواہش میں اس سے زیادہ ایک اور عملی توجیہ ہے: اپنی کائنات کی موت سے پہلے اس سے فرار۔


    کائنات کا ارتقاء 

    کچھ طبیعیات دانوں نے اس خیال کویہ پوچھ کر سائنسی قصصی دنیا کی حد تک اور آگے بڑھایا ہے کہ کیا ہماری کائنات کو بنانے میں کوئی شعور کار فرما رہا ہے۔





    کیا ہماری کائنات کو بنانے میں کوئی شعور کار فرما رہا ہے؟ 

    گتھ / فہری کے مفروضے میں کوئی بھی جدید تہذیب ننھی کائنات کو بنا سکتی ہے مگر طبیعیاتی مستقل (جیسا کہ الیکٹران اور پروٹون کی کمیت اور چاروں قوّتوں کی طاقت ) وہ ہی رہے گی۔ لیکن اس وقت کیا ہوگا کہ جب جدید تہذیب ایک ایسی ننھی کائنات بنا لے جو بنیادی مستقلات سے تھوڑا سا ہٹ کر ہو؟ تو ننھی کائنات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ارتقاء پذیر ہوگی ، اور ہر نئی کائنات کی نسل پچھلے کائنات کی نسل سے مختلف ہوگی۔

    اگر ہم بنیادی مستقلات کو کائنات کا ڈی این اے سمجھیں ، تو اس کہ مطلب ہوگا کہ ذہین حیات ننھی کائناتوں کو تھوڑے سے مختلف ڈی این اے کے ساتھ بھی بنا سکتی ہوں گی۔ کائنات کا ارتقاء ہوگا اور بچہ خیز کائنات وہ ہوگی جس کا ڈی این اے سب سے بہتر طریقے سے ذہین حیات کو پھلنے پھولنے میں مدد کرے گا۔ طبیعیات دان ایڈورڈ ہیرسن (Edward Harrison)، لی سمولین(Lee Smolen) کے پرانے مفروضہ کو بنیاد بنا کر ایک تجویز کائناتوں کے درمیان "قدرتی چناؤ " پیش کرتے ہیں۔ وہ کائنات جو کثیر کائناتوں میں اپنا غلبہ رکھتی ہے وہ اس سب سے بہتر ڈی این اے سے بنی ہوتی ہے جو اس تہذیب سے مطابقت رکھتی ہے جس نے اسے تخلیق کیا ہے جو پھر سے مزید ننھی کائناتیں بنائی گی۔

    بقائے اہل کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ اس کائنات کا بقاء ہوگا جو جدید تہذیب کو پنپنے کا موقع فراہم کرے گی۔ اگر یہ بات درست ہوئی تو اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہو سکے گی کہ کائنات کے بنیادی مستقلات حیات کو پروان چڑھانے کے لئے اس قدر درست کیوں ہیں۔ اس کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہوگا کہ وہ کائناتیں جن میں بنیادی مستقلات حیات سے مطابقت رکھتے ہیں وہ ان کثیر کائناتوں میں زیادہ پھلیں اور پھولیں گی۔ 

    (اگرچہ یہ ارتقائی کائناتوں کا خیال پرکشش ہے کیونکہ یہ بشری اصول کے مسئلہ کو حل کرتا ہے ، مگر اس خیال کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ اس کو جانچا نہیں جا سکتا اور یہ ناقابل تصدیق ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس خیال کو سمجھیں ہمیں اس وقت تک انتظار کرنا ہوگا جب تک ہمارے پاس ہر شئے کے نظریئے کا نظریہ نہیں آ جاتا۔)

    ان متوازی کائناتوں کو ظاہر کرنے کے لئے ابھی تو ہماری ٹیکنالوجی بہت ہی ابتدائی قسم کی ہیں۔ لہٰذا یہ سب جماعت II میں ہی زمرہ بند ہونے کے اہل ہیں۔ یعنی وہ ناممکنات جو آج تو ناممکن ہیں مگر طبیعیات کے قوانین کے خلاف نہیں ہیں۔ ہزار سے لے کر دسیوں لاکھ سال تک یہ پیشن گوئیاں ہو سکتا ہے کہ تہذیب III کی نئی ٹیکنالوجی کی بنیا د بنیں۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: متوازی کائناتیں Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top