Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    جمعہ، 16 اکتوبر، 2015

    خلائی سفر کا پہلا خیال

    پہلا باب

    خاکہ1.1 فلینڈری  مصوّرگیرٹ ڈو (Garrit Dou)نے اس شاہکار  کو بنایا جس میں ایک فلکیات دان موم بتی کی روشنی میں کام کر رہا ہے۔ عالم کے اوزاروں میں ایک مائع سے بھرا بیکر ،  ایک ریت گھڑی، ایک ضخیم کتاب اور ایک سماوی کرہ  شامل ہیں جس میں رات کے آسمان میں نظر آنے والے مجموع النجوم    دکھائی دے رہے ہیں ۔ ہرچند کہ دوربین سترویں صدی کے آغاز میں ایجاد ہو چکی تھی، لیکن زیادہ تر قدیم ماہرین فلکیات تک اس کی رسائی نہیں تھی۔ تصویر میں نظر آنے والی اشیاء  ان کی تجارت کے اوزار تھے۔ دن کے اختتام پر آسمان کے یہ قدیمی طالب صرف اس بات کا خواب ہی دیکھ سکتے تھے جس کو مسافر وہاں جا کر دریافت کر سکتا تھا۔ (تصویر از گیرٹ ڈو ، سی اے،۱۶۵۸ء)
    پہلی صدی بعد مسیح میں صدیوں پر محیط یونانی ہیلینیائی اور ثقافت پوری مغربی دنیا میں جاری رہی۔ جب لمبے عرصے چلنے والی مایائی  تہذیب  کا ظہور ہو چکا تھا، چین کی ہین سلطنت نے باضابطہ طور پر کنفیوشیس   کو اختیار کر لیا تھا، اور یہودی ربی مشرقی وسطی  میں  شورش بھڑکانے  میں مصروف تھے اس وقت سموستا کا  لوشین  خاموشی سے چاند پر سفر کرنے کی کہانی لکھ رہا  تھا ۔ جیسا کہ کہانیوں میں ہوتا ہے، اس نے اپنے تخیلاتی خیالات کو الفاظ کا جامہ پہنانے کے بجائے  اس دور کی ادبی ثقافت پر تبصرہ اور ہجویہ  نظم کہنے پر اکتفا کیا۔ لوشین  کے پاس پہلی صدی  میں کچھ زیادہ سائنسی  معلومات نہیں تھیں۔
     
    لوشین  کا ناول  "سچی تاریخ" چاند کے سفر کی روداد بیان کرتی ہے.
    لوشین کی "سچی تاریخ"  ایک ایسے بحری سفر  کو بیان کرتی ہے  جس میں ایک جل بگولہ سفر میں دخل در معقولات کر دیتا ہے۔ ایک  تیز ہوا کے اندوہناک ہفتے کے بعد،  راوی اور اس کا نڈر عملہ اپنے آپ کو چاند پر پاتے ہیں۔ لوشین اس سفر کو اس طرح سے بیان کرتا ہے :

    آٹھویں دن ہم نے اس میں ایک عظیم ملک دیکھا، جو ایک جزیرے نما تھا، روشن، گول اور   ضو فشاں ۔ وہاں پر لنگر انداز ہو کر ہم ساحل پر اتر گئے، اور  تفتیش کرنے  پر معلوم ہوا کہ زمین آباد ہے۔ دن کے وقت تک تو کچھ نہیں دکھائی دیا، لیکن جیسے ہی رات شروع ہوئی ہم نے جزیرے کے کافی رہائشیوں  کو دیکھا ، ان میں سے کچھ بڑے  اور کچھ چھوٹے  تھے اور ان کی رنگت آگ جیسی تھی۔ ہم نے اس کے نیچے بھی ایک ملک دیکھا جہاں شہر، دریا، سمندر ، جنگل اور پہاڑ بھی موجود تھے۔ تب ہم نے یہ نتیجہ نکالا کہ یہ تو ہماری اپنی دنیا تھی۔[1]

    لوشین کی کہانی لگ بھگ انیس صدیوں پہلے لکھی گئی تھی، اس  میں خلاء کے سفر کی آمیزش ، مسافروں کا خلائی مخلوق سے  واسطہ، مصنوعی  کرہ فضائی بھی شامل تھا  بلکہ اس میں ہمیں  کھوجنے اور دریافت کرنے کی سائنسی  خواہش بھی ملتی ہے۔ آنے والی کئی صدیوں تک کائناتی اندازوں کا محور چاند نے بننا تھا۔
     
    جرمن ماہر فلکیات اور ریاضی دان جوہانس کیپلر 
    ستمبر۱۶۱۰ء میں جرمن ماہر فلکیات اور ریاضی دان جوہانس کیپلر نے ایک مختصر سا مضمون لکھا جس میں اس نے گلیلیو کے دریافت کردہ مشتری کے چار بڑے مہتابوں کی تصدیق کی۔ اس نے اس کو یہ نام دیا "مشتری کے چار  ہرزہ گرد  سیارچوں کا مشاہداتی جائزہ۔" اس پمفلٹ میں پہلی دفعہ کسی دوسرے سیارے کے مہتابوں کو "سیارچوں" کا نام دیا گیا تھا۔ کیپلر کے دماغ میں شاید مشتری کا  مقام سیاروں میں ایک  بادشاہ جیسا تھا۔  کیپلر کے دور میں ، ریاست کا سربراہ  اور اس کے اہم مصاحب  حفاظت کی غرض سے سپاہیوں میں گھرے رہتے تھے۔ یہ قدیم معروف شخصیات  لاطینی لفظ  بمعنی مصاحب سے جانے جاتے تھے ۔ (کیپلر نے  اصطلاح گلیلیو کو لکھے  ہوئے خط میں بھی استعمال کی تھی۔)

    کیپلر نے اپنے آپ  کو  صرف سائنسی  رسالوں تک لکھنے میں  محدود نہیں کر لیا تھا۔ بیس برس پر محیط عرصے میں اس نے اپنے۱۶۰۸ طالبعلموں کو اس طرح سے ڈھالا تھا کہ ان میں سے اکثر کو جدید سائنسی قصص لکھنے والا سمجھا جاتا ہے۔ سومنیم  کہلانے والی کہانی اصل میں کیپلر کی موت کے بعد۱۶۳۰ء میں شایع ہوئی۔ کیپلر کا راوی شروع وہاں سے کرتا ہے جب وہ ایک جادوگر کی کتاب پڑھ رہا ہوتا ہے۔ وہ  کتاب پڑھتے ہوئے سو جاتا ہے (جادوگر کی کتاب زیادہ دلچسپ نہیں ہوتی) اور خواب میں ایک  آئس لینڈ کے لڑکے کو چاند پر جاتا دیکھتا ہے  جس کو ایک نیک روح لے کر جا رہی ہوتی ہے ۔ چاند پر رہنے والے اس کو لیوینیا  کہتے تھے۔

    کیپلر کی کہانی کافی سائنسی مسائل کے بارے میں اندازے لگاتی ہے مثلاً کرۂ فضائی (اس کے مسافروں کو لازمی طور پر سانس لینے کے لئے ناک پر گیلا  سپنج رکھنا ہوتا تھا)، خلاء کی ٹھنڈ (مسافروں کو اپنے آپ کو کمبل میں لپیٹنا ہوتا تھا)، اور زمین اور چاند کے درمیان موجود  عظیم فاصلے۔ کسی بھی معیاری سائنسی  کہانی کے طور پر  کیپلر کی کہانی میں اپنے دور کی سائنسی فکر کی گونج سنائی دیتی ہے۔ یہ چاند سے زمین کو لگنے والے گرہن کے بارے میں بیان کرتی ہے؛ یہ سیاروں کی حجم میں تبدیلی کو بھی بتاتی ہے جس کی وجہ زمین سے چاند کا فاصلہ ہوتا ہے؛ یہاں تک کہ یہ چاند کے حجم کا قیاس بھی کرتی نظر آتی ہے  اور چاند کی   مدو جذر قید  ([lunar tidal lock]اس مظہر کے بارے میں جس کی وجہ سے چاند کا ایک حصّہ ہمیشہ زمین کی طرف رہتا ہے)کے اثرات بھی بیان کرتی ہے ۔ افسوس کہ کیپلر چاند پر اترنے  کی اچھی اور لطیف  جگہوں اور  چاند کی سطح پر پائے جانے والے مادّے  کے بارے میں ہمارے  جاننے سے پہلے باخبر  تھا۔
     
    ولندیزی  ریاضی دان  کرسچین ہائی گنز 
    دور دراز کے جہانوں کو کھوجنے کی بابت تو چھوڑ دیجئے ، صرف بیرونی نظام شمسی کی نوعیت کو جاننے میں ہی مصنفین کو عشرے لگ گئے۔ ولندیزی  ریاضی دان  کرسچین ہائی گنز  بنیادی آلات  اور لمبے فاصلوں کو  کسی خاطر میں نہیں لایا ۔ ہائی گنز نے کائنات کی تحقیق اپنی دوربین سے کی، جس کے ذریعہ اس نے زحل کے چاند ٹائٹن کو دریافت کیا،  مریخ کے دن کی طوالت ناپی، اور اورائن  اور دوسرے سحابیوں  کے تفصیلات کو قلم بند کیا۔ اپنی۱۶۹۸ء میں لکھی گئی کتاب  "سماوی جہانوں کی دریافت: یا متوطن  کی رہائش کے بارے میں، منصوبے اور  سیاروں میں جہانوں کی پیداوار،" میں ہائی گنز نے بیرونی سیاروں کی نوعیت باالخصوص  وہاں پر بادلوں اور پانی کے بارے میں کی جانچ کی:

    مشتری کی سطح پر موجود کچھ حصّہ اس کے دوسرے حصّوں کی نسبت زیادہ گہرے ہیں، وہ ہمہ وقت تبدیل ہونے کی وجہ سے اس بات کا عندیہ دے رہے ہیں کہ وہ بادل ہیں۔۔۔ کیونکہ یہ بات یقینی ہے کہ زمین اور مشتری میں پانی اور بادل موجود ہیں ،  لہٰذا کوئی ایسی وجہ نہیں ہے کہ دوسرے سیارے ان کے بغیر ہوں۔۔۔ ہمارا یہ پانی مشتری اور زحل میں فی الفور  طور پر  سورج سے وسیع فاصلوں کی وجہ سے منجمد ہو جائے گا۔ پس ہر سیارے میں پانی اس سیارے  کی حرارت کی راست نسبت کی مناسبت سے موجود ہوگا۔

    پر معنی طور پر ہائی گنز  نے تو دوسرے سیاروں کے مہتابوں کے بارے میں بھی رائے قائم کر لی تھی ۔

    مشتری اور زحل کے تمام مصاحب   ہمارے چاند کی نوعیت کے ہیں ، جو ان کے گرد چکر لگاتے ہیں ، اور جس طرح ہمارا چاند زمین کے ساتھ رہتا ہوا سورج کے گرد چکر لگاتا ہے ویسے وہ ان کے ساتھ رہتے  ہیں۔ ان کی مطابقت دوسری چیزوں  میں بھی ویسی ہے ۔۔۔ ہم اپنی چاند سے متعلق جو معقول بات  یا کہانی گھڑیں ( اور ہم نے اس بارے میں کافی کم بات کی ہے)وہ  بات کم و بیش ویسے ہی مشتری اور زحل کے محافظوں  منطبق ہو گئی کیونکہ ایسے نہ کرنے کی ہمارے پاس کوئی وجہ نہیں ہے۔
     
    جولیس ورن نے۱۸۶۵ءمیں  "زمین سے چاند کا سفر" کے نام سے ناول لکھا 
    اس  خیال۱۹۶۰ء کے عشرے میں کافی زور پکڑا  کہ مشتری اور زحل کے چاند ہمارے چاند جیسے ہی ہیں۔ آنے والے برسوں میں،  ادبی کرداروں نے ہمارے چاند کا سفر کیا[2]، مشتری پر ڈائنوسارس  دیکھے[3]، گینی میڈ  پر موجود بستیوں میں قیام کیا[4]، دم دار ستارے پر سواری کرتے ہوئے زحل کو پار کیا[5]  اور نیپچون جانے کا  پہلا انسانی سفر ہو والٹر (Hugh Walter)کے۱۹۶۸ء کے ناول  "نیپچون کے قریب" میں کیا۔
     
    آئزک ایسی موف کے۱۹۴۲ء کے  ناول "وکٹری انٹرنیشنل" میں گینی میڈ پر انسانی بستیوں  کے قیام کا ذکر ہے.
    مریخ بین سیاروی سفر کی کہانیوں کا محرک بنا رہا جہاں پرسیول لوئل  بغیر کسی مغالطے کے ان کہانیوں کا بادشاہ تھا۔ اپنی مشہور اور  قیاسی طور پر  ادبی تصنیف  "مریخ بطور حیاتی  اینٹ"[6] میں لویل لکھتا ہے :

    پس نہ صرف ان مشاہدات کی رو سے جنھیں ہم نے جانچا ہے  ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس لمحے مریخ نہ صرف آباد ہے، بلکہ  وہ ہمیں مزید آگے جانے کے لئے جگہ بھی مہیا کرے گا، یہاں کے باشندوں سے واقفیت  کی کافی اہمیت ہوگی۔
     
    خاکہ 1.2زحل اور اس کے حلقوں  کی تصویر از کرسچین ہائی گنز۱۶۵۹ء۔ سیدھے جانب اس کا موازنہ زمین سے کیا گیا ہے۔
    ناول نگار ایڈگر رائس  بروز  جو اپنی  ٹارزن کی کہانیوں سے کافی مشہور ہے ، اس نے لویل کے مریخ سے متعلق  خیالات کو بخوشی قبول کرتے ہوئے کہانیوں  کا ایک سلسلہ شروع کیا جس میں چھ ٹانگوں والا چیتے  جیسے ٹھوٹس ، سبز  رنگ کے چار ہاتھوں والا  مریخی انسان نما  کیڑا  اور  خوبصورت شہزادی ڈیجہ  تھورس  بھی تھی۔[7]

    بروز  نے ڈیجہ تھورس اور مریخی تہذیب کو اس  شکل  کو پیش کیا  جس میں  وہ مریخ کی مرتی ہوئی فضا کو بچانے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے، یہ لویل کا ایک متاثر کر دینے والا مشاہدہ تھا۔  درج ذیل میں وہ  وحشی سبز  مریخی نوع کو ان کی ناسمجھی پر  لعنت ملامت کرتی ہے :

    جو کام ہم کر رہے ہیں اس کا اتنا ہی فائدہ تم کو ہوگا جتنا کہ ہم کو ، تم لوگوں کی اطلاع کے لئے یہ ہمارے مزدوروں کے لئے نہیں ہے  اور ہماری سائنسی  خدمات کا ثمر  اتنا نہ ہوگا کہ مریخ پر ہوا اور پانی ایک انسان کو سہارا دینے کے لئے موجود ہو۔ برسوں تک ہم نے ہوا اور پانی کو عملی طور پر بغیر کسی نقصان کے ایک سطح پر رکھا ہوا ہے اور یہ سارا کام ہم نے تم وحشی اور جاہل  دخل در معقولات کرنے والے سبز باشندوں  کی موجودگی میں ہی کیا ہے۔ وائے ہوں تم پر ۔ تم لوگ آخر اس بات کو سیکھ کیوں نہیں  لیتے کہ  اپنی ساتھیوں کے ساتھ افہام و تفہیم کے ساتھ رہو؟

    بروز نے جو لکھا اس کی بنیاد معلومات تھی، لیکن ایچ جی ویلز اپنے دور کی سائنس میں زیادہ دلچسپی رکھتا تھا۔ جہاں بروز کے جان کارٹر نے مریخ پر جانے کا سادہ سا خواب سجایا تھا،  وہیں ویلز کی کتابوں میں خلائی جہاز اور خلاء میں سفر کی کافی جزئیات ملتی ہیں۔ اس نے مریخی تشریح کافی مفصل بیان کی ہے جو مریخ کے ماحول کے بارے میں جدید معلومات کی روشنی سے میل کھاتی ہے۔
     
    رے بریڈ بری کے مریخی 
     ایچ جی ویلز کے مریخی "ہمارے خلاف منصوبے بنا چکے تھے"، لیکن۳۰ برس بعد، جب اصل سرد جنگ زمین پر شروع ہوئی، رے بریڈ بری(Ray Bradbury) کے مریخی زیادہ حلیم اور صوفیانہ ہو گئے تھے:

    ان کا ہیروں کے ستونوں والا گھر جو ایک خالی سمندر کے کنارے سیارہ مریخ پر تھا ۔۔۔ میاں بیوی اس   بحیرہ مردار میں بیس برس سے مقیم تھے، اور ان کے آباؤ اجداد بھی اسی گھر میں رہ رہے تھے، جو  پچھلی دس صدیوں سے سورج مکھی کی طرح گھومتے ہوئے سورج کی طرف منہ کیے رہتا تھا ۔ ان کی جلد صاف گندمی اصلی مریخیوں جیسی تھی، پیلی سکے جیسی آنکھیں، اور  مترنم آواز ۔
     
     وولٹیئر کی کہانی میکرو میگس  کا ایک کردار 
    ہرچند کہ ادب  اپنے دور کے  سائنسی  خیالات کا عکاس تھا ، لیکن بیرونی سیاروں   کے پاس کچھ ایسا نہیں تھا جو مصنفین کی بھوک کو مٹا سکتا۔ دور دراز جہاں کو  آنے والی صدیوں میں اپنے کئی راز افشاں کرنے تھے۔ ان تمام باتوں کے باوجود مصنفین نظام شمسی کے اس بیرونی جہنم کے بارے میں خواب آنکھوں میں سجائے ہوئے تھے۔ فرانسیسی روشن خیال فلسفی وولٹائر  نے ۱۷۵۲ء میں شایع ہونے والی کہانی میکرومیگس لکھی۔ اس کی کہانی ایک خلائی مخلوق کی تھی جو دور دراز ستارے سے سفر کرتا ہوا ہمارے نظام شمسی میں دم دار تارے اور سورج کی کرنوں کی مدد سے پہنچتا ہے۔ خلائی مخلوق چوبیس میل طویل  ہوتی ہے اس کے ہمراہ  زحل کی ایک میل لمبی ، دم توڑتی مخلوق مٹر گشت کرتی ہے۔ وولٹیئر(Voltaire) اس کے بعد ان دونوں مسافروں کی مہم جوئی کو بیان کرتا ہے: " وہ سب سے پہلے زحل کے حلقے سے چھلانگ لگاتے ہیں، جو کافی چپٹے ہوتے ہیں، جس کو ہماری چھوٹی سی زمین پر رہنے والے عزت مآب  بہت ہی چالاکی کے ساتھ قیاس کر سکتے ہیں۔۔۔ وہ مشتری کے مہتابوں سے ہوتے ہوئے آتے ہیں۔ وہ مشتری پر اتر جاتے ہیں۔۔۔"

    وولٹیئر کی جدید سائنس پر کافی مضبوط گرفت تھی۔ اس  کا " ہماری چھوٹی سی زمین پر رہنے والے عزت مآب " کا طنز  کرسچین ہائی گنز کے لئے تھا ،  جو ایک ماہر فلکیات تھا اور جس نے صرف ایک عشرے پہلے  زحل کے حلقوں  سے متعلق اپنا مقالہ پیش کیا تھا اور اس کا سب سے بڑا چاند ٹائٹن دریافت کیا تھا۔


    میکرومیگس کے تین دہائیوں بعد ایک مصنف جو  ویوینائر(Vivenair) کے قلمی نام سے لکھتا تھا اس نے ایک مختصر  کہانی بعنوان  " ہوائی کرہ  میں بذریعہ ہوا کے ایک سفر۔۔۔ ایک نئے دریافت شدہ سیارے  جیورجئم  سائیڈس "لکھی۔ جیورجئم  سائیڈس(Georgium Sidus)، یورینس کا  اس کی دریافت کے بعد پہلا  غیر سرکاری نام تھا۔
     
    جولیس ورن  کا ناول "دم دار ستارے کے دوش پر" پر سائنسی بنیادوں پر لکھا گیا پہلا ناول ہے.
    اگلی صدی میں جولیس ورن اپنے قارئین کو مشتری اور زحل کے سفر پر اپنی کتاب "دم دار ستارے کے دوش پر" میں لے گیا۔ اس کا یہ شاہکار سائنسی بنیادوں پر لکھی گئی کہانی کی پہلی کوشش تھی جس میں اس بات کو مد نظر رکھا گیا تھا کہ انسان  کا واسطہ بیرونی نظام شمسی میں کس طرح سے پڑ سکتا ہے ۔ کچھ سائنس تو ہمیں شیخ چلی کی خیالی پلاؤ کی طرح سے لگ سکتی ہے۔ مثال کے طور پر اس وقت یہ سمجھا جاتا تھا کہ دور دراز کے سیارے ، اندرونی سیاروں کی نسبت زیادہ قدیم ہیں۔ ورن اس بات کو اپنے قارئین سے ایسے بیان کرتا ہے۔

    نیپچون کا سورج  سے فاصلہ 2,746,271,000  میل کا ہے، یہ شمسی سحابئے سے کروڑ ہا صدیوں پہلے وجود میں آیا۔۔۔ مشتری ، دیوہیکل سیارہ، جو  475,693,000 میل دور چکر لگا رہا ہے  وہ سات کروڑ صدیوں پہلے وجود میں آیا ۔۔۔ اور عطارد  جو سب سے قریب ہے اور ان سب میں سب سے نوجوان بھی وہی ہے ، وہ سورج سے  35,393,000 میل کے فاصلے پر خلاء میں ایک کروڑ برس سے چکر لگا رہا ہے – یہ وہی وقت ہے جب چاند زمین سے ٹوٹ کر بن رہا تھا۔

     جب ورن کا مسافر مشتری تک پہنچتا ہے، تو اس کو  نہ صرف سیارے کے بادل واضح طور پر نظر آنے شروع ہو جاتے ہیں  بلکہ اس کے مہتابوں کی سطح کی جزئیات بھی دکھائی دینے لگتی ہیں:

    مشتری کی ایک ایسی صورت نظر آنے لگتی ہے جو اجڈ   جاہل اور بے حس شاہد کے  تحیر کو بھی  برانگیختہ  کر سکتی ہے ۔ اس کے چیدہ علاقے نئی طریقوں سے منور  اور شعاع افگن تھے، اور اس کی قرص سے منعکس ہو کر  نکلنے والی   شمسی شعاعیں  شدت و نرمی کے امتزاج کے ساتھ دمک رہی تھیں۔ اور اس کے مہتابوں سے متعلق شروع ہوتی  ہوئی دلچسپی کی کیا بات ہے! وہ ننگی آنکھ سے نظر آرہے تھے! کیا یہ سائنس کے میدانوں میں ایک نئی بات نہیں ہے؟

    ۔۔۔ بالآخر یہاں ۔۔۔ ہر کوئی اب تک ایک دوسرے سے اتنا مختلف ہے  کہ ان کو رنگوں سے بیان کیا جاتا ہے ۔ پہلا تو  بے رونق سفید   رنگ ہے؛ دوسرا نیلا ہے؛  تیسرا روشن سفید ہے؛ چھوٹا نارنجی ہے،  جو اکثر سرخی  مائل بھی ہو جاتا ہے۔ مزید یہ بھی مشاہدہ کیا گیا کہ مشتری بذات خود ضو فشانی سے خالی ہے۔

    ورن کی کہانی راوی کو اس قابل کرتی ہے کہ وہ زحل کی سطح (جس کو بادلوں کی چوٹی بھی پڑھا جا سکتا ہے) سے اس کے حلقوں  کو دیکھنے کا منظر بیان کر سکے:

    کوئی بھی شاہد جو سیارے پر خط استواء کے کسی بھی جانب۴۵ درجے ارض بلد پر موجود ہو تو اس کو یہ حیرت انگیز حلقے ایک عجیب مظہر کی صورت میں نظر آئیں گے۔ کبھی وہ کسی تاباں کمان کی طرح دکھائی دیں گے جس پر زحل کا سایہ اس طرح پڑھ رہا ہوگا جیسا کہ گھڑی میں گھنٹے کی سوئی ہوتی ہے ؛ جبکہ  کبھی وہ نیم نورانی تاج کی طرح نظر آئیں گے ۔ کئی برسوں تک تو اکثر اوقات ان تین حلقوں کی مداخلت کی وجہ سے  روزانہ سورج گرہن ضرور ہوتا ہوگا۔۔۔ سچ میں ہمہ وقت مہتابوں کے طلوع و غروب ، جس میں کسی کی قرص مکمل طور پر روشن دکھائی دیتی ہے تو دوسرے  چاندی جیسے ہلالی نظر آتے ہیں ، اور ساتھ میں حلقے ان کے گرد موجود ہوتے ہیں ، زحل کی سطح سے فلک کو دیکھنے کا منظر  جتنا نفیس ہوتا اتنا ہی  اثر انگیز بھی  ہوگا۔

    جولیس ورن کے تصوّر نے ہمیں پہلی مرتبہ  واضح  طور پر انسانی تجربے کو نظام شمسی کے دیو ہیکل سیاروں کے درمیان رہتے ہوئے  بیان کیا۔ لیکن اس کا وسیلہ سفر  ایک ایسی چیز ہے جس کی بس خواہش ہی کی جا سکتی ہے۔
     
    " روسی سائنس دان کی غیر معمولی مہم " میں  جیٹ اور دوشاخہ  انجن کا خاکہ پیش کیا گیا.
    لگ بھگ اسی دور میں مصنف راول مارکوئس (Raoul Marquis) جو قلمی ناموں جی لی فوری(G. Le Faure) اور ہنری ڈی گرافیگنی(Henri de Graffigny)  کے نام سے لکھتا تھا اس نے چار جلدیں اپنے ناول کی شایع کیں جس کا نام " روسی سائنس دان کی غیر معمولی مہم " تھا[8]۔ ماہر فلکیات کیملی فلاماریون  (Camille Flammarion)نے تعارف لکھا تھا۔ کتاب میں مختلف  نوع  کے خلائی جہاز کے خاکوں کے خیالات کو پیش کیا گیا تھا۔ اس میں ایک ایسے جہاز بھی بیان کیا گیا تھا جو مریخ سے مشتری کے سفر کے لئے بنایا گیا تھا ۔ خلائی جہاز سلنڈر کی شکل کا پانچ میٹر چوڑا اور سات میٹر لمبا  تھا۔ اس کے اندر لگا ہوا دھکیلو  پنکھا بین السیاروی  مادّے کو کھینچ کر ایک پائپ میں ڈال کر اس کو دوبارہ باہر پھینکتا تھا، ایک ایسا خاکہ جو جیٹ انجن اور دو شاخہ (Ramjet)خلائی  انجن کے پاور پلانٹ کے بارے میں لگتا ہے۔
     
    ۱۸۹۴ء میں جان جیکب ایسٹور  کا ناول "دوسرے جہانوں کا سفر" شایع ہوا۔
    مقابلے کی دوڑ اس وقت شروع ہو گئی جب قارئین  اس بات سے آگاہ  ہو گئے کہ بیرونی سیارے ایک ایسی جگہ ہیں  جن کی انسان کھوج بھی کر سکتا ہے اور وہاں رہ بھی سکتا ہے۔ ۱۸۹۴ء میں جان جیکب ایسٹور  کا ناول "دوسرے جہانوں کا سفر" شایع ہوا۔ کہانی۲۰۰۰ء میں اس وقت شروع ہوتی ہے جب ضد قوّت ثقل خلائی جہاز مشتری اور زحل کی طرف رخت سفر باندھتا ہے۔۱۹۳۰ء کے عشرے میں مصنف اسٹینلے جی وائن بوم (Stanley G. Weinbaum)نے بیرونی سیارے اپنی مختصر کہانی "ٹائٹن کی سفر" میں بیان کیے۔[9] وائن بوم کے کام میں اس دور کے مقبول عام سائنس نظریات نظر آتے ہیں جب یہ مانا جاتا تھا کہ نظام شمسی ایک قریبی ستارے کے ساتھ  تصادم کے بعد پیدا ہوا تھا، اس کے نتیجے میں گیسی دیوہیکل سیارے بنے تھے جو اس قدر گرم تھے کہ مشتری کے مہتابوں آئی او اور یوروپا  اور زحل کے چاند ٹائٹن  پر بلکہ یورینس پر بھی  زمین جیسا ماحول پیدا کر دیا تھا۔ اصل میں تو وائن بوم نے۱۹۳۵ء میں ایک کتاب لکھی جو سبز سیارے پرتھی۔ اس نے اس کا نام "مشتبہ سیارہ" دیا۔
     
    خاکہ 1.3 الف پہلے خلائی مسافر کے اترنے کا منظر!
    ۱۹۰۲ء میں تو انسانی خلاء کی کھوج کی کہانی متحرک تصویر کی صورت میں اس وقت  سامنے آئی جب جارجس  میلیس (Georges Méliès) کی فلم  (چاند کا سفر) بنائی گئی۔ فلم میں پانچ ماہر فلکیات اور  جوتشیوں  نے مل کر ایک گولی کی صورت کا کیپسول بنایا اور اس پر سفر کیا تھا ۔ توپ سے اس کیپسول کو داغنے کے بعد ، ان کی ملاقات کیڑے جیسے  سیلیننائٹ، چاند کے بادشاہ  ، فیبی ، چاند کی دیوی سے ہوئی جس نے انھیں گانا بھی سنایا۔ افسوس کہ  آواز کے ساتھ فلموں کا دور اب بھی کئی دہائیوں  دور تھا۔
     
    خاکہ 1.3ب  جارجس  میلیس کی۱۹۰۲ء کی فلم "چاند کا سفر" کا منظر۔
    شاید میلیس کی کامیابی کا فائدہ اٹھانے کے لئے اسپینش ہدایات کار سیگنڈو  ڈی کمون  (Segundo de Chomon)نے ایک فلم "سیارہ مشتری  کا سفر " بنائی۔ اس کے کائناتی مسافر  - زمین کے بادشاہ – نے مشتری کا خواب میں سفر کیا۔ مشتری بادلوں کے امتزاج کا  اور ان دیوتاؤں کا گھر نکلا جو بجلی پھینکتے تھے ۔ ورن کی سائنس کے بعد  ڈی  کمون کا کام تخیلاتی  لگا، لیکن بہرحال یہ  سائنسی  فلم بنانے کی دنیا کا ایک عظیم تجربہ تھا۔
     
    خاکہ 1.3ج  دائیں جانب: زمین کا بادشاہ فلکی سیڑھی پر چڑھا مشتری جاتے ہوئے زحل کو پاس کر رہا ہے، ڈی کومون کی خوابی فلم " سیارے مشتری  کا سفر"
    ہالی وڈ سائنسی فلموں کی دنیا میں عشروں سے مصروف تھا، لیکن۱۹۶۸ء میں جب ہو والٹر کا ناول آیا، تو تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک نئی فلم کی نقشہ کشی کی گئی – جو مشتری کے جانب انسان کے سفر کی سب سے زیادہ  صحیح صورت بیان کرتی تھی۔ فلم کا نام۲۰۰۱ء: خلاء کا کٹھن سفر ، تھا جو آرتھر سی کلارک کے ناول سین ٹینل  سے ماخوذ تھا۔ فلم میں مشتری کی جانب بھیجا جانے والا جہاز دکھایا جاتا ہے جس  کے انجن کو دھکیل کی قوّت نیوکلیائی قوّت  سے ملتی تھی۔ خلائی جہاز کے نقشے میں ایک اندرونی حصّہ بھی تھا جس میں گھماؤ کے ذریعہ مصنوعی قوّت ثقل پیدا کی جاتی تھی  اور عملے کی تنویم کے لئے کچھ خول بھی موجود تھے۔ اس کے جز مابعد حصّے  جس کا نام۲۰۱۰ء: کٹھن سفر دوم تھا۔ اس فلم کو بنانے کے لئے اس وقت کے بھیجے گئے وائیجر سے حاصل کردہ  تازہ مواد کی مدد لی گئی تھی جو اس وقت مشتری کے پاس موجود تھا۔
    ایک مصّور کی تخیل کی پرواز جس میں درخت ایک ایسے گنبد نما خلائی جہاز میں موجود ہیں جو پڑوسی سیارے زحل پر موجود ہے۔

    ۱۹۷۲ء کے عشرے کی "خاموشی جاری" نے ایک ایسے مستقبل کو پیش کیا جہاں زمین پر موجود تمام درخت ایک ایسے گنبد نما خلائی جہاز میں موجود ہیں جو پڑوسی سیارے زحل پر موجود ہے۔۱۹۸۱ء میں پرانے  مغربی دیہاتیوں پر مشتمل فلم "اجنبی" مشتری کے چاند آئی او پر بنتی ہوئی دکھائی دی۔ اس میں اس دور کے کچھ سائنسی  حقائق کو  بڑھا چڑھا کر بھی بیان کیا گیا تھا۔

    خاکہ 1.4ء  ۲۰۱۳ءکی فلم یوروپا رپورٹ کا ایک منظر۔ سطح پر موجود برف، مشتری اور لباس کی ٹیکنالوجی کی حقیقی منظر کشی پر غور کریں، فلم میں متواتر حقیقت پسندی موجود ہے۔

    اب تک کی سب سے زیادہ  حقیقت سے قریب فلم جس میں کسی سیارے کا سفر کیا گیا ہے وہ سبیسچن  کورڈیرو  (Sebastian Cordero)کی "یوروپا کی رپورٹ" ہے۔ فلم میں ایک نجی طور پر بنائی گئی مہم کو دکھایا گیا ہے جس کا مقصد مشتری کے سمندری  برفیلے چاند پر حیات کی تلاش کرنا ہوتا ہے۔ جے پی ایل سائنس دان اسٹیو  ونس(Steve Vance)  اور کیون ہینڈ(Kevin Hand) نے تیکنیکی اور سائنسی معاونت   مہیا کی ہے۔  

    سومنیم سے لے کر یوروپا رپورٹ تک ، ذرائع ابلاغ نے بیرونی سیاروں کی کھوج کو دکھانے کا ایک طویل سفر کیا ہے، اور اس میں کی گئی تصویر کشی میں  مریخ کے بعد موجود وسیع نظام شمسی سے متعلق  ہماری ثقافتی فہم و ادراک میں اضافہ کیا ہے۔ لیکن یہ بیرونی نظام بنیادی سطح پر عطارد، زہرہ، زمین ، چاند اور مریخ سے مختلف ہے۔


    چٹانی سیارے

    اندرونی سیارے ارضی  یا چٹانی سیارے بھی کہلاتے ہیں کیونکہ وہ زمین سے ملتے جلتے ہیں۔ بیرونی دیو ہیکل جہانوں کے برعکس ، تمام ارضی سیاروں کی سطح ٹھوس ہوتی ہے۔ اندرونی سیارے بنیادی طور پر گیسی اور برفیلے دیو  سے مختلف ہو سکتے ہیں  لیکن ہمیں بیرونی سیاروں کے مہتابوں  میں کچھ مشابہت اندرونی سیاروں سے ملتی نظر آتی ہے۔ گرم چٹانی دنیاؤں کی جانکاری ہمیں ہمارے بیرونی پتھر اور برف کی حتمی منزل کے جہانوں کے بارے میں کافی کچھ سمجھ بوجھ عطا کر سکتی ہے۔

    بظاہر ٹھوس اور متوازن نظر آنے والی زمین  کی سطح ، تواتر کے ساتھ ہونے والے حملوں کے نتیجے میں  ہونے والی خستہ حالی اور داغوں کو آج بھی دکھا رہی ہے۔ ان  حملوں کے نشانوں میں سب سے اہم باقیات  ارضی سختائے ہوئے حصّے(tectonics) ہیں۔ زمین کا قشر سالم ایک حصّہ نہیں ہے۔ براعظم ان پتریوں پر رکھے ہوئے ہیں جو تیر رہی ہیں  اور انسانی ناخن کے بڑھنے کی رفتار کی شرح سے گھوم بھی رہی ہیں۔
     
     جرمن سائنس دان الفریڈ ویگنر

    ہرچند کافی ماہرین ارضیات اس حقیقت پر تبصرہ کر چکے ہیں کہ  براعظم وقت کے ساتھ اپنی جگہ بدلتے دکھائی دیتے ہیں، لیکن  ارضی سختائے ہوئے حصّوں کے جدید نظریات کے پیچھے اصل میں  جرمن سائنس دان الفریڈ ویگنر  (Alfred Wigner)ہیں۔ جب جنگ عظیم دوم میں گردن پر لگے  زخم سے جانبر ہو گئے تو ویگنر  نے یہ تصوّر پیش کیا کہ افریقہ اور جنوبی امریکا    نے  ماضی میں دنیا کے تمام براعظموں کے ساتھ  مل کر ایک عظیم فوق براعظم (supercontinent)بنایا تھا  جس کو اس نے "کل ارض" یا پنگیا  کا نام دیا (پین  کا مطلب "کل" اور گیا کا مطلب "ارض" ہے )۔ اس نے اپنے پیش کردہ نمونے کے ثبوت حاصل کرنے کے لئے دنیا کی خاک چھانی۔ اس نے جنوبی افریقہ اور  ارجنٹائنا  کے پہاڑی سلسلوں کے  خاکوں کو ملایا ۔ اس نے برازیل میں موجود سطح مرتفع کو افریقہ میں موجود آئیوری کوسٹ  کے دوسرے  سطح مرتفع سے ملایا۔ اس نے ارضیاتی گلوسوٹیرس  بیج  (رکازی  فرنز جو بالائی کاربنی دور اور زیریں پر میان دور میں یخ بستہ ہوئیں) کے رکاز میں تعلق کا مظاہرہ کیا۔ اس کا محل وقوع ایک دم صحیح طور پر ان دونوں براعظموں  کے ساحلوں سے میل کھا گیا۔ ویگنر لکھتا ہے کہ ،" یہ ایسا ہی ہے جیسے کہ ہم اخبار کے پھٹے ہوئے ٹکڑوں کو ان کے کونے دیکھتے ہوئے ملائیں اور پھر یہ دیکھیں کہ ان پر شایع ہوئی سطریں ہموار ہر جگہ ایک جیسی ہی ہیں۔۔۔ ہم اس کے علاوہ کوئی اور نتیجہ نہیں نکالیں گے کہ یہ ٹکڑے اصل میں ملے ہوئے تھے۔۔۔"

    ویگنر کے منتقل ہوتے ہوئے براعظم  ایسے ہی تھے جیسا کہ کوپرنیکس نے زمین کو کائنات کے محور سے ہٹا دیا تھا ؛ اس کا خیال ہماری تفہیم کے خلاف تھا۔ اس کے ثبوتوں کے باوجود لوگ متشکک تھے۔  جب پہلی مرتبہ اس خیال کوپیش کیا گیا تو ہر سطح پراس کا  مذاق اڑایا گیا۔ سائنسی  دنیا میں ویگنر کے مہیا کردہ ثبوتوں کو تفصیل میں دیکھا گیا۔ اس کی کتاب پر تبصرہ کرنے والے نے یوں کہا، " اگر ہم ویگنر  کے مفروضے کو مان لیں  تو ہمیں وہ تمام چیزیں بھولنا ہوں گی جو ہم نے پچھلے ستر برسوں میں سیکھی ہیں اور ہمیں  دوبارہ سے شروع کرنا ہوگا۔" جیسا کہ بعد میں ثابت ہوا کہ ناقدین بالکل درست تھے۔ لیکن مسئلہ اس سائنسی علم کا تھا جو پچھلے ستر برس میں  حاصل کیا تھا۔
     
    اندرونی نظام شمسی میں موجود چار ارضی یا چٹانی سیارے 
    ۱۹۶۰ء کے عشرے تک سائنسی سماج نے سمندر کی تہ کی تصویر کشی کرنی شروع کردی تھی۔ ایک لمبے عرصے تک حیات سے محروم سمجھے جانی والی سمندر کی تہ میں موجود لپٹی ہوئی سطح  اور کچھ سمندری پہاڑ (پانی کے اندر موجود پہاڑ)، یکایک روایتی پہاڑوں اور صحراؤں کے برعکس  عجیب دنیا لئے  طرح نمودار ہو گئے۔ وسطی بحر اوقیانوس  کی  کھائیوں کے سونار سے بنائے ہوئے  نقشوں  سے معلوم ہوا کہ  زیر سمندر پہاڑوں کے ایسے سلسلے موجود ہیں جن کو کبھی دیکھا نہیں گیا۔ سب سے لمبی چوٹی سمندر کی تہ سے  چھ سے دس ہزار فٹ اونچی تھی  اور اس پر ایک گہرا شگاف  یا وادی بھی موجود تھی۔ براعظموں  میں موجود پہاڑوں کے برخلاف ، جو ایسے دکھائی دیتے ہیں کہ جیسے زمین نے سکڑتے ہوئے انھیں اٹھایا ہو،  یہ بل کھاتے ہوئے پہاڑ اس کے ساتھ کھینچے جانے کا واضح ثبوت ہیں۔ اس سے بھی زیادہ حیران کن بات ان پہاڑی چوٹیوں کا زمین کے سمندری طاس  میں بکھرا ہوا ہونا ہے؛ اکثر اوقات ان کا سلسلہ خشکی پر بھی کچھ جگہوں پر چلا جاتا ہے مثلاً افریقہ کی عظیم  شگافی وادی اور آئس لینڈ میں تھنگ ویلیر ۔ دوسری جگہوں پر دھنسی ہوئی چوٹیوں کا سلسلہ  امریکا کے ساحلوں پر مغرب کی جانب اور افریقہ میں مشرق کی جانب دراز ہوا ہے۔ دنیا کیسے سکڑ اور کھینچ سکتی ہے؟

    اس کا جواب زمین کی قشری پرتوں کی ہمہ وقت تبدیلی میں چھپا ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے ارضیاتی اشکال جنم لیتی ہیں۔ کچھ حصّوں میں ،  پرتیں ایک دوسرے میں گھس جاتی ہیں اور نتیجہ ہمالیہ جیسے پہاڑوں کے سلسلے کی صورت میں نکلتا ہے۔ دوسری طرف وہ ایک دوسرے سے رگڑ کھاتی ہیں،  جس کا نتیجہ  رخنوں ، زلزلوں اور آتش فشانوں کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ اب بھی کچھ علاقے ( جیسا کہ وسطی بحر اوقیانوس کی چوٹی)ایک دوسرے سے الگ ہیں ، جہاں وہ ایک اور قسم کی  دلدلی ساختمانی ، تحتی تداخل(subduction) کو حاصل  کر رہے ہیں، جہاں ایک پرت دوسری پرت میں اندر گھس رہی ہے۔ زمینی آڑے کٹے معمے جیسی پرتیں تو نظام شمسی میں اپنی مثال آپ ہیں ، لیکن سطح سے اوپر تمام  ارضی سیاروں میں کچھ چیزیں قابل مشترک ہیں، ان تمام میں کسی بھی قسم کے کرہ فضائی کے نہ موجود ہونے سے لے کر مہین کرہ فضائی تک موجود ہے۔ سب سے زیادہ کثیف کرۂ فضائی رکھنے والا زہرہ ہے، جس کی سطح پر موجود ہوا کا دباؤ ہمارے سمندروں کی تہ میں موجود  پانی کے دباؤ جتنا ہے۔ اس کے بعد زمین کی فضا کثیف ہے۔ جبکہ مریخ کی کرہ فضائی کثافت میں تیسرے نمبر پر ہے۔(مریخ کی سطح کا دباؤ زمین کے  ایک لاکھ فٹ ارتفاع پر موجود دباؤ کے برابر ہے۔) اندرونی جہاں کی فضا میں کاربن ڈائی آکسائڈ گیس کا غلبہ ہے، اور اس کے ساتھ کچھ نائٹروجن اور آکسیجن جو صرف زمین کے کرۂ میں ہی پائی جاتی ہیں۔ عطارد کی فضا ہمارے چاند کے مقابلے کی ہے۔
     
    خاکہ1.5 آئس لینڈ کی تھنگ ویلیر وادی، اس عظیم چوٹی کی توسیع ہے جو وسطی بحر اوقیانوس چوٹی کے ابھار کے ساتھ چل رہی ہے۔ دونوں پرتیں وادی کی دیواروں کو ایک دوسرے سے دور۷ ملی میٹر فی برس کی شرح سے کر رہی ہیں۔
    نوجوان سورج کی شمسی ہواؤں نے ابتدائی کرہ فضائی کو تو اڑا کر رکھ دیا ہوگا، لیکن کافی بڑے سیاروں  - جن کی قوّت ثقل کافی تھی – انہوں نے آتش فشانوں اور دوسرے عملوں  کے دوران نکلنے والی ہوا کو قابو  کرکے قید کر لیا تھا۔ یہ نئی کرۂ فضائی کیمیائی اور حیاتیاتی عمل کے ذریعہ نہ بدلنے والی  اس شکل میں ڈھل گئی جو آج ہمیں نظر آتی ہے۔[10]

    چاروں اندرونی سیارے ایک ایسے دور سے گزرے ہیں جہاں ان کی سطح پر سمندر بہتے تھے، لیکن وہ سمندر پانی کے نہیں بلکہ پگھلی ہوئی چٹانوں کے تھے۔ چاند کا وہ تاریک سمندر جس کو رات میں  پریمی (یا بھیڑیا نما شخص)  دیکھتے ہیں ، کسی زمانے میں ضو فشاں لاوے کے سمندر تھے  جو آتش فشانوں  یا  چاند پر برستے ہوئے سیارچوں اور شہابیوں کی وجہ سے نکلتے تھے کیونکہ وہ قشر میں موجود چٹان کو توڑ ڈالتے تھے۔ اصل میں اس متشدد دور کی باقیات  ولے داغ اور مابعد وقت  ایک محقق کو  یہ بتاتا ہے کہ ارضیاتی طور پر سطح کس قدر نوجوان ہے۔[11] جتنے زیادہ گڑھے ہوں گے ، سطح بننے کے بعد اتنے ہی کم  تغیر سے گزری ہوگی۔ گڑھوں کی تعداد کا معلوم کرنا   کسی بھی سیارے یا چاند کے ماضی کی رمز کشائی کرنے کا ایک انتہائی اہم اوزار ہے۔ گڑھوں کی تعداد ہمیں سیارے کی کرہ فضائی کے بارے میں بھی کچھ آگاہی فراہم کرتی  ہے۔

    کرۂ فضائی آنے والے  شہابیوں اور سیارچوں کو روکتا ہے۔ ہوا کی رگڑ اس کی سطح کو  بھاپ بنا دیتی ہے ، اس طرح سے صرف کوئی بڑا ٹکڑا ہی اس میں سے گزر سکتا ہے۔ زہرہ کی سطح پر بہت ہی کم تعداد میں گڑھے موجود ہیں۔ اس کے کرۂ فضائی پر جہاں شہابیے پھٹتے ہیں وہاں  اس کی سطح پر  مختلف رنگ  اس جگہ بکھر جاتے ہیں ۔ صرف چند بڑے گڑھے جو بچے تھے وہ  زہرہ کے آتش فشانوں  اور ہواؤں کی وجہ سے کافی حد تک  ختم اور بدل چکے ہیں  ۔ مریخ کے کچھ حصّے گڑھوں سے مکمل طور پر محروم ہیں، جبکہ دوسری جگہوں کی سطح  مار کھائی ہوئی اور قدیمی  لگتی ہے۔ اس کی مہین فضا تمام ٹکرانے والے ٹکڑوں  کو نہیں روک سکتی لیکن اس کی ہوا کام کرتی ہے اور ان گڑھوں کو وقت گزرنے کے ساتھ صاف کر دیتی ہے۔

    گڑھوں کو کئی قسم کے عمل نیست و نابود کر سکتے ہیں۔ ویگنر  کی پرتوں نے گزرے وقت کے ساتھ  ان گنت تصادموں کے نشانوں کو ختم کیا ہوگا ۔ آتش فشاں پھٹتے ہیں، اور کافی علاقوں کو راکھ اور لاوے سے پاٹ دیتے ہیں۔ برفانی تودے (لمبے عرصے کی برف بری کا نتیجہ) اور سیلاب  وسیع اراضی کو رگڑ ڈالتے ہیں۔

    زمین کا موسم اس کی سطح کو ڈھالنے میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ بارش اور برف باری ٹھوس چٹان کو  توڑ ڈالتی ہے۔ ہوا سے  مٹا ڈالنا  بتدریج  لمبے عرصے میں اپنا جادو جگاتا ہے۔ گرمی اور سردی پتھر اور کنکروں کو توڑ دیتے ہیں۔ سمندری طوفان پوری ساحلی پٹی کو بدل دیتے ہیں۔

    زہرہ کا موسم کافی تدریجی دکھائی دیتا ہے ۔ اس کا شوربے کی طرح کا کرۂ فضائی عظیم موجوں کی صورت میں حرکت کرتا ہے ، لیکن اس کی سطح پر موجود ہوائیں کافی  دھیمی ہیں۔ گندھک کا تیزاب اور کلورین  اس کی سیاہ مرمریں چٹانوں کو کھا جاتے ہیں۔ کچھ علاقے تو  دھاتی  شکل میں پہاڑوں کی ڈھلانوں پر۹۰۰ فارن ہائیٹ  دیار میں  منجمد ہو گئے ہیں۔

    مریخی موسم اپنی طرح کا شدید ہے۔ ہرچند کی سطح پر چلنے والی  ہواؤں کے جھکڑ۶۰میل فی گھنٹہ کی رفتار سے وائکنگ کے اترنے کی جگہ پر چلتی ہیں، لیکن پاتھ فائنڈر  خلائی کھوجی نے وہاں پر  عام طور سے چلنے والی ہواؤں کو۱۸میل فی گھنٹہ کی رفتار سے درج کیا ہے۔ مہین ہوا، ہوائی عمل کو  لگاتار تیزی سے بہنے سے روکتی ہے۔ تب بھی ہوا، سطح کی کٹائی کی ایک اہم قوّت ہے، کیونکہ سرخ سیارے نے شاید ارب ہا برس سے بارش کی صورت نہیں دیکھی ہے۔ آج مریخ پر دیکھی واحد بارش  کاربن ڈائی آکسائڈ  اور پانی کی برف  سے بنی قطبین پر گرنے والی    شبنم ہے۔

    کچھ سیاروں نے کرہ فضائی کا کچھ زیادہ حصّہ بچائے رکھا،  جس کی وجہ مقناطیسی بلبلہ یا  مقناطیسی کرہ تھا  جو  اسے مسلسل بہنے والے شمسی ذرّات سے بچا کر رکھتا ہے۔ مقناطیسی کرہ پگھلی ہوئی دھاتوں کے ٹھوس قلب کے گرد بہنے والے سمندر  اور  اس کے گھماؤ سے پیدا ہوتا ہے۔ برقی ایصالی مائع دھات توانائی کے میدانوں کو  بعینہ  مقناطیسی بار کے نکالتی ہے۔ لیکن تمام سیاروں کے پاس برقی ڈھال نہیں ہے۔ اس کی ایک وجہ  ہر سیارے کی نمود  اور حجم پر منحصر ہے۔

    نظام شمسی کی ابتداء میں نوزائیدہ سورج کے گرد چکر لگانے والے  گرد و غبار  اندرونی سیاروں  پر  گرتے رہے ، ان کی بڑھوتری کے ساتھ بھاری مادّے قلب میں ڈوب گئے جبکہ ہلکے مادّوں نے قشر کو بنا دیا۔ تشکیل کے اس دور میں ، ارضیاتی تکثیف  سے پیدا ہونے والی اندرونی حرارت  نے ریڈیائی مادّے سے پیدا ہوئی حرارت کے ساتھ مل کر قلب کو اس قدر گرما دیا کہ دھات پگھل گئی اور سیارے کے مرکز میں مرتکز ہو گئی۔ جتنا بڑا سیارہ تھا اتنی ہی زیادہ تابکاری سے پیدا ہوئی حرارت زیادہ وقوع پذیر ہوئی۔ لہٰذا زمین اور زہرہ کے پاس زیادہ، جبکہ ہمارے چاند کے پاس کم، اور مریخ اور عطارد  کے پاس ان دونوں کے بیچ میں کہیں  حرارت  پیدا ہوئی۔

    تابکاری سے پیدا ہوئی حرارت زمین اور زہرہ پر آج بھی جاری ہے لیکن یہ نہیں معلوم کہ آیا یہ مریخ پر کوئی اہم کردار ادا کر رہی ہے،  جو ارضیاتی طور پر غیر متحرک ہے۔ عطارد کے گرد کمزور مقناطیسی قوّت موجود ہے ایسا لگتا ہے کہ یہ اس کے اندر موجود پگھلی ہوئی دھاتوں کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے، جو شاید مادّے کے اندر ہونے والی متواتر انحطاط  کے وجہ سے جاری و ساری ہے۔
     
    خاکہ6.1الف مریخ کی ہوا کو ناپنے  کا نظام: وائکنگ کھوجی کا موسمیاتی بادبان۔
    خلائی جہاز جب سیاروں اور ان کے مہتابوں کے قریب سے گزرتے ہیں تو ان میں لگے ہوئے سراغ رساں مقناطیسیت  کا پتا لگا لیتے ہیں۔ مقناطیسی میدان اندرونی حرکت کے متعلق ناقابل اعتماد اشارے فراہم کرتے ہیں  کیونکہ اس پر کافی چیزوں کا اثر ہوتا ہے۔ زمین کے متحرک مقناطیسی میدان ہیں، جو ہمیں سورج کی بالائے بنفشی  شعاعوں سے بچاتے ہیں ۔ زہرہ حجم میں زمین جتنا ہے لیکن اس کے مقناطیسی میدان نہیں ہیں۔ بلاشبہ اس کے پاس اس قدر تابکاری سے پیدا ہونے والی حرارت موجود ہوگی  جو اس کے پگھلے ہوئے قلب کو بچا کر رکھ سکے، لیکن پھر کیا ہوا؟ مائع دھاتی قلب کو صحت مند مقناطیسی میدان پیدا کرنے کے لئے گھومنا بھی ہوگا۔ زمین اور مریخ دونوں لگ بھگ۲۴ گھنٹے میں اپنے محور کے گرد ایک چکر مکمل کر لیتے ہیں، زہرہ گھومنے میں کافی وقت لیتا ہے، وہ اپنا ایک چکر زمین کے۲۴۳ دنوں میں آرام سے پورا کرتا ہے۔ عطارد بھی کافی آہستہ گھومتا ہے لیکن، اس نے کمزور مقناطیسی میدان بچا کر رکھے ہوئے ہیں۔ کم از کم آج کے دن میں تو چاند اور مریخ دونوں میں کسی بھی قسم کے کوئی مقناطیسی میدان موجود نہیں ہیں۔
     
    خاکہ6.1 ب مریخ کی ہوا کو ناپنے کا نظام: ہوائی موزہ  جو پاتھ فائنڈر کھوجی پر نصب ہے.
    سیارے کا قلب ہی مقناطیسی میدان بنانے کا ایک ذریعہ نہیں ہے۔ مائع پانی خصوصاً نمکین پانی بھی تھوڑا  سا  مختلف قسم کے  مقناطیسی میدان کو پیدا کر سکتا ہے۔ معاملے کو اور پیچیدہ بنانے کے لئے ہم یہ بتاتے چلیں کہ کافی عرصے پہلے ختم  ہوئے مقناطیسی میدان  مقناطیسیت کے نمونے قدیمی چٹانوں میں چھوڑ دیتے ہیں  جو ہمیں واپس ویگنر اور اس کی پرتوں کی جانب لے آتے ہیں ۔ اس کے موت کے بعد ویگنر کے متحرک پرتوں کے  نظریئے کے ثبوت ایک  غیر متوقع ذریعہ سے حاصل ہوئے  یعنی کہ  قدیم مقناطیسیت کی  سائنس سے (چٹانوں میں موجود قدیم مقناطیسیت  کا مطالعہ )۔ یہ ثبوت ایک اور دوسری غیر متوقع ذرائع سے بھی حاصل ہوا  یعنی کہ سمندر کی تہ سے۔
     
    خاکہ6.1 ج مریخ کی ہوا کو ناپنے کا نظام : ہوا کا احساس کرنے والا آلہ جو فینکس کھوجی موسمیاتی بادبان کے اوپر نصب ہے۔
    ۱۹۶۰ءاور۱۹۷۰ء کی دہائی میں سائنس دان زمین کے مقناطیسی میدانوں میں ہونے والی تبدیلی کو درج کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ ان کی تحقیق میں دنیا جہاں سے لائے ہوئے چٹانی نمونے شامل تھے جن کا تجزیہ اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ زمین کے  مقناطیسی میدانوں نے کئی مرتبہ  الٹا چکر لگایا ہے۔ ہرچند سائنس دان اپنا  رخ تو بدل لیتے ہیں لیکن کوئی پتھر ایسا کرے ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔ جیسا کے پہلے سمجھا جاتا تھا کہ  سیاروی مقناطیسی میدان بتدریج  توانائی کو زائل کرتے  ہیں  ، اس کے برعکس  اب ایسا لگتا ہے کہ میدان الٹ پھیر کے چکر لگاتے رہتے ہیں۔
     
    خاکہ1.7الف: مریخ پر ایک نیا گڑھا جس کو مارس ریکو نائزنس  اوربٹر نے ڈھونڈا ہے۔
    اسی دوران ایچ ایم ایس اوین پر سوار محققین   بحر اوقیانوس میں کہیں پانی کے اندر آلات کی مدد سے سمندر کی تہ میں مقناطیسی پٹیوں کی نقشہ کشی کر رہے تھے۔ جب انہوں نے حاصل کردہ مواد کی جانچ کی ، تو سمندر کی تہ میں موجود چٹانوں کی مہین پرتوں کو انہوں نے زبردست مقناطیسی پایا، جبکہ ان کے درمیان موجود کوئی چٹانی پٹی کمزور تھی یا پھر اس پر مخالف مقناطیسی اثر تھا۔ محققین زمین کے مقناطیسی میدانوں کا عرصے پر محیط  قدرتی ریکارڈ دیکھ رہے تھے ۔ جب چٹانیں  پگھلتی تھیں، تو ان کے اندر موجود مقناطیسی قلمیں آزاد ہو جاتی تھیں۔ بہنے والی قلمیں اپنے آپ کو زمین کے مقناطیسی میدان کے ساتھ ہم آہنگ کر لیتی تھیں۔ جب چٹان دوبارہ ٹھوس شکل اختیار کرتی تھی، تو مقناطیسی قلمیں دوبارہ ان میں مقید ہو جاتی تھیں  اور اپنا رخ  اس وقت    کے مقناطیسی میدان کی جانب کر لیتی تھیں جب  چٹان پگھلی ہوئی ہوتی تھی۔ بعد میں جب  مزید  پگھلی ہوئی چٹانیں اوپر آتی تھیں تو اگر مقناطیسی میدان تبدیل  ہوتا تھا تو وہ اپنے آپ کو اس تبدیل ہوتے ہوئے مقناطیسی میدان سے ہم آہنگ کر لیتی تھیں۔ 
     
    خاکہ1.7 ب: آئس لینڈ کے سمندر کی تہ میں موجود مقناطیسی پٹیاں  پھیلتی ہوئی چوٹی کے دونوں جانب کا ایک جیسی تصویر پیش کرتی ہیں۔
    اہم ثبوت کا سراغ اس وقت ملا جب سائنس دانوں کو اس بات کا احساس ہوا کہ سمندری چٹانیں تو وسطی بحر اوقیانوس کی چوٹی  کی کسی بھی رخ کی نقل ہیں۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے سمندری تہ پھیل رہی ہے  اور چوٹی کے دونوں جانب ایک جیسا ریکارڈ چھوڑ رہی ہے ، جس میں ایک طرف دوسری طرف کی نقل ہی ہے۔ پوری دنیا میں بر اعظمی پھیلاؤ کا ریکارڈ مقناطیسی صورت میں چٹانوں میں لکھا ہوا ہے۔
      
    خاکہ1.7 ج: کچھ محقق تجویز دیتے ہیں کہ مریخ کی سطح پر موجود مقناطیسی میدان کے نمونے ممکنہ طور پر ماضی میں پرتوں کی حرکت کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔
    اب سائنس دانوں کے پاس ایک اور سیارہ موجود ہے  جس سے وہ اس مظاہر کا تقابل یا موازنہ کر سکتے ہیں۔ مارس گلوبل سرویر  اوربٹر  نے بھی اسی طرح کی مقناطیسی پٹیاں مریخی سطح پر نقشہ بند کی ہیں ۔ دھند لاتی  مقناطیسی پٹیوں کے نمونے ایک دوسرے کی نقل لگتے ہیں۔ ہرچند کہ مریخ میں دور حاضر کی  زمین جیسی متحرک پرتیں  موجود نہیں ہیں، لیکن ہو سکتا ہے کہ ماضی میں ایسا عمل وہاں پر بھی جاری رہا ہو۔


    دیوہیکل سیارے  

    بیرونی سیاروں کا بچپن اپنے ارضی بہن بھائیوں سے بالکل مختلف رہا ہے۔ جب  نوجوان سورج اندرونی سیاروں کے کرۂ فضائی کو اتارنے میں مصروف تھا ، مشتری ، زحل، یورینس اور نیپچون اپنے آپ کو اس سے فاصلے پر رکھا  ہوا  تھا۔ ٹھنڈے نظام میں ، وہ اس کرۂ فضائی کو محفوظ رکھنے میں کامیاب ہو گئے جو سورج کے گرد قدیمی بادلوں کے جیسا تھا۔ ان کے ماحول میں ہائیڈروجن  (جو باقی تمام گیسوں کی بنیاد ہے)اور ہیلیئم کا غلبہ ہے۔ ان اہم گیسوں کے علاوہ  مشتری اور زحل میں  وسیع مقدار میں امونیا جبکہ یورینس اور نیپچون کے آسمانوں میں میتھین کی مقدار کافی زیادہ ہے۔ یہ زہریلی گیسیں ان کے کثیف قلب کے اوپر موجود ہیں، لیکن دیوہیکل سیاروں کی کوئی ٹھوس سطح نہیں ہے۔ وہ موسموں،  آندھی و طوفان کے کرے ، جھکڑ اور بارش  کے جہاں ہیں۔
     
    بیرونی نظام شمسی میں چار دیوہیکل سیارے موجود ہیں.
    گیسی دیو مشتری اور زحل اتنے بڑے ہیں کہ ان کے قلب دوسرے دو جسیم سیاروں سے کافی الگ ہیں۔ ان کے قلب میں دباؤ اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ ہائیڈروجن برقی مائع دھات بن جاتی ہے۔ ان قوی ہیکلوں  کے نچلے حصّوں میں کثافت اتنی عظیم ہو جاتی ہے کہ  ان کا تجربہ گاہ میں مطالعہ کرنا عملی طور پر ناممکن ہو جاتا ہے۔[12]دوسرے دونوں دیو ہیکل سیارے   یعنی کہ یورینس اور نیپچون کے قلب  میں کم دباؤ ہے  اور وہ بنیادی طور پر پانی کی برف سے بنے ہیں(لہٰذا ان کو برفیلے دیو کہتے ہیں)۔  ان بیرونی جہانوں کے قلب زبردست شدت کے مقناطیسی میدان پیدا کرتے ہیں جو اندرونی نظام شمسی میں پائے جانے والے مقناطیسی میدانوں سے بالکل ہی الگ ہوتے ہیں۔

    ہرچند کہ دیو ہیکل سیارے بہت لبھانے والے ہیں، اس کے باوجود انسانی کھوج  بلاشبہ  ان کے گرد درجنوں چکر لگانے والے مہتابوں تک ہی مرتکز رہے گی۔ ان میں سے کافی مہتابوں میں اتنی ہی پیچیدہ ارضیات  موجود ہے جتنی کہ ارضی سیاروں میں ، لیکن ان کی اپنی منفرد خصوصیات ہیں جو  ارضی جہانوں کی زمین سے کافی مختلف ہیں۔ ان میں سے کچھ تو سیاروں کے حجم جتنے ہیں اور ان میں سے ایک میں تو زمین سے بھی زیادہ کثیف کرۂ فضائی موجود ہے۔ یہ "نیا" نظام شمسی   سیارہ عطارد اور اس سے کم حجم کے  سیاروں سے بھرا ہوا ہے اور ہم سے سوال کر رہا ہے : وہاں پر موجود  ان مہتابوں پر حیات کے امکان کے بارے میں کیا خیال ہے؟۱۹۶۰ء کے عشرے میں سیاروی زمین کافی حد تک ممنوع تھی جیسا کہ پیٹرک مور(Patrick Moore) بیان کرتے ہیں :

    خلاصہ: نظام شمسی میں، زمین کو چھوڑ کر صرف دو سیارہ ایسے ہیں جو حیات کو سہارا دے سکتے ہیں۔ مریخ پر  سبزہ روئیدگی ہوتے دکھائی دیتی ہے  لیکن ذی شعور حیات  کا امکان نہیں ہے ۔( چاہئے مریخی تہذیب وجود رکھتی ہو  اور اب ختم ہو گئی ہو ، ہم نہیں جانتے، لیکن ثبوت اس کے خلاف ہیں۔) زہرہ تو کسی کے لئے بھی مناسب نہیں لگتا سوائے بہت ہی پست یک خلیہ آبی مخلوق کے لئے۔ کیا دوسرے ستاروں کے گرد   سیاروی نظام چکر لگا  سکتے ہیں؟ فلکیات کی تصویری تاریخ  از پیٹرک مور ( گروسیٹ  اینڈ ڈنلپ۱۹۶۱ء)


    شدت شناس یا ایکسٹریموفائلز ایسے جرثومے ہیں جو ہر قسم کے شدید ماحول میں زمین پر زندہ رہتے ہیں
    اس وقت تک مور اور اس کے رفقائے کاروں نے بیرونی نظام شمسی پر غور نہیں کیا تھا۔ زمین کے شدت کے ماحول میں   شدت آشنا  (extremophiles)کی دریافت  اور اس کے ساتھ بیرونی سیاروں کے کئی مہتابوں میں زیر زمین سمندروں  کے سراغ نے کھیل کو تبدیل کر دیا ہے۔( ملاحظہ کیجئے  پانچواں اور چھٹا باب)۔
     
    ۱۷۲۶ء کی ہجویہ نظم "گلیور کے سفر" میں جوناتھن سوئفٹ(Jonathan Swift) نے ایک تیرتے  ہوئے  شہر لاپوتا کو بیان کیا ہے۔
    کیا انسانی کھوج صرف بیرونی جہانوں کے سیارچوں کے گرد ہی محدود رہے گی۔ شاید ایسا نہ ہو۔ بیرونی سیارے بذات خود ہماری تیکنیکی صلاحیتوں  کی پہنچ سے دور ہیں کہ ہم ان کو انسان بردار خلائی جہازوں کی مدد سے کھوجیں ، لیکن آخر کار ان کے آسمان انسانی آباد کاری کے نئے جہاں بن سکتے ہیں۔ بادلوں پر تیرتے ہوئے شہروں کا خیال کوئی  نیا نہیں ہے۔ ۱۷۲۶ء کی ہجویہ نظم "گلیور کے سفر" میں جوناتھن سوئفٹ(Jonathan Swift) نے ایک تیرتے  ہوئے  شہر لاپوتا کو بیان کیا ہے۔ اس کا جزیرہ نما شہر مقناطیسیت  کے بل بوتے پر تیرتا تھا۔ دو صدیوں بعد ماہر تعمیرات  بکمنسٹر  فلر (Buckminster Fuller)نے ایک میل نصف قطر کی زمینی قرصی کرے کی تجویز پیش کی جو اچھال کو سورج کی حرارتی گرمی سے قائم رکھ سکتا تھا۔
    ۔ مائیکل مک کولم(Michael McCollum)  کا سائنسی  فکشن  کا ناول "زحل کے بادل" نے ایسے شہروں کو بیان کیا ہے جو حلقے والے سیارے کے بادلوں میں لٹکے ہوئے تھے.

    مشتری تیرتی ہوئی یا کسی بھی دوسری قسم کے  شہروں کو  قائم کرنے  کے لئے ایک خطرناک جگہ ہوگی۔ کیونکہ اس کی زبردست قوّت ثقل اور تابکاری سے نمٹنا کافی  مشکل  ہوگا۔ لیکن زحل، یورینس اور نیپچون  کے ماحول  کچھ مانوس ہو سکتے ہیں۔ برطانوی سیاروی سوسائٹی  کی۱۹۷۸ء میں کی گئی ایک بین النجمی   کھوجی تحقیق جس کا نام  "پروجیکٹ ڈائڈالس" تھا، اس میں خود مختار ہیلیئم - ۳ کے ایندھن کے کارخانوں کی  مشتری کے کرہ فضائی میں تیرنے کی تجویز پیش کی گئی تھی جو سیاروں کی جانب بھیجنے والے جسیم خلائی جہاز کے لئے وہاں سے ایندھن نکالتے۔ مائیکل مک کولم(Michael McCollum)  کا سائنسی  فکشن  کا ناول "زحل کے بادل" نے ایسے شہروں کو بیان کیا ہے جو حلقے والے سیارے کے بادلوں میں لٹکے ہوئے تھے اور ان  کو ہائیڈروجن کی گداختی حرارت سے بھرے غباروں نے روکا ہوا تھا۔
    زہرہ کے بادلوں میں تیرتے ہوئے شہر - ایک تخیلاتی تصویر
       
    ایک مزید تیکنیکی ناسا گلین سینٹر  کی تحقیق۲۰۰۳ء میں پیش کی گئی جس نے زہرہ کی فضاؤں میں تیرتی ہوئی چوکیوں کا نقشہ پیش کیا۔ اس میں موجود کافی تصوّرات باہری گیسی دیو پر لاگو ہوتے ہیں۔ مصنف جیفری لنڈس(Geoffrey Landis) )کہتے ہیں کہ اگرچہ زہرہ کی بھون دینے والی۴۶۸ ڈگری درجہ حرارت کی سطح  زمین کے سمندری سطح پر موجود  فضائی دباؤ سے۹۰ گنا زیادہ ہے ، لیکن ۵۰ کلومیٹر ارض بلد پر اس کا ماحول کچھ زمین جیسا ہی ہے۔ یہاں پر ایک تیرتی ہوئی مشاہداتی رصد گاہ بنائی جا سکتی ہے جو دور بیٹھ کر روبوٹ کھوجیوں کی مدد سے زہرہ کی سطح پر  تلاش شروع کر سکتی ہے۔ آخر میں شہر جتنے حجم کی ساختیں ہمارے پڑوسی جہنمی سیارے کی فضا میں معلق کی جا سکتی ہیں ۔ فضا میں معلق کرنے کے لئے استعمال میں لائی جانے والی گیسیں  کچھ تبدیلیوں کے ساتھ  گیسی سیاروں میں بھی ایک دن اس قسم کی بستیاں بسانے میں کام آسکتی ہیں۔ (ملاحظہ کیجئے چوتھا باب)۔

    آخر گیسی دیو کس طرح سے اس قدر عظیم الجثہ بن گئے؟ یہ اس جگہ پر کیسے آئے جہاں آج یہ موجود ہیں؟ کہانی اتنی بھی سیدھی نہیں ہے جتنی دکھائی دیتی ہے۔ 



    [1] ۔ انٹرنیٹ جائز متنی دستاویزاتی ترجمہ،  عوامی جاگیر http://www.sacred-texts.com
    [2] ۔ مثال کے طور پر ، زمین سے چاند تک(۱۸۶۵ء) از جولیس ورن ۔
    [3] ۔ دوسرے جہانوں کا ایک سفر(۱۸۹۴ء) از جان جیکب ایسٹور چہارم ۔
    [4] ۔ نادانستہ فتح(۱۹۴۲ء) از آئزک ایسی موف۔
    [5] ۔دم دار ستارے کے دوش  پر  (۱۸۷۷ء) از جولیس ورن ۔
    [6]۔ مریخ بطور حیاتی اینٹ    از پرسیول لوئل  (مک میلن کمپنی۱۹۰۹ء)۔
    [7] ۔ اصلی میں ایک رسالے – تمام کہانیاں - میں بطور سلسلے وار کہانی کے ۱۹۱۲ء میں شروع ہوئی۔
    [8] ۔ روسی سائنس دان کی غیر معمولی مہم از جی لی فوری  اور ہینری ڈی گرافیگنی ۱۸۸۹ء۔
    [9] ۔ ایسٹاؤ نڈنگ میگزین ، جنوری ۱۹۳۵ء۔
    [10]۔ کم از کم زمین کی صورت میں تو ایسا ہی ہے۔ ہماری آکسیجن / نائٹروجن  پر مشتمل کرہ فضائی حیاتیاتی عمل کا براہ راست نتیجہ ہے۔ ہم دوسرے کسی بھی چٹانی سیارے میں اس طرح آزاد آکسیجن کو نہیں دیکھتے۔
    [11] ۔ نظام شمسی کے ابتدائی دنوں میں  پہاڑوں جتنے باقی بچے ہوئے ٹکڑے متواتر سیاروں کی سطح سے ٹکڑا رہے تھے جس کے نتیجے میں ان کی سطح پر داغ پڑ رہے تھے۔ یہ بھاری سماوی اجسام کی بارش  آج سے تین ارب اسی کروڑ برس پہلے بتدریج کم ہونا شروع ہوئی، لیکن فلکی گرد نے سیاروں اور مہتابوں پر ایک  ثابت قدم رفتار سے برسنا جاری رکھا۔ صرف روسی لوگوں سے معلوم کریں۔ جدید دور میں دو مشہور شہابی مداخلت کار ٹنگسکا  اور چلیا بنسک  کے آسمان میں نمودار ہوئے تھے، موخّرالذکر تو کیمرے کی زد میں بھی آگیا تھا۔ مدار میں گھومنے والے مثلاً ای ایس اے کا مارس ایکسپریس  اور ناسا کا مارس گلوبل سرویر اور مارس ریکونائی سینس  نے  مریخ  کی سطح پر ہر برس۲۰۰تصادم درج کیے ہیں۔ زمین کے کثیف کرہ فضائی کے باوجود۵سے لے کر۳۰۰ ٹن تک کی فلکیاتی مٹی زمین پر ہر روز گرتی رہتی ہے۔
    [12] ۔ نیو میکسیکو میں واقع سانڈیا لیبارٹریز  نے اپنے مشہور زمانہ زی مشین جو ایک۱۳۰ فٹ نصف قطر کی ایکس ریز پیدا کرنے والی مشین ہے ، کو اس ہولناک ماحول کو پیدا کرنے کے لئے استعمال کیا، لیکن مشین نے صرف ایک سیکنڈ کے کچھ حصّے تک ہی دباؤ کو برداشت کیا۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: خلائی سفر کا پہلا خیال Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top