Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    ہفتہ، 31 اکتوبر، 2015

    کائنات کا انجام

    کائنات کا انجام
    How The Universe Works, Season 3, Episode 2
    کائنات  تخلیق فنا ہونے کے لئے ہی  ہوئی ہے۔  سوال یہ نہیں ہے کہ یہ فنا ہوگی یا نہیں بلکہ سوال  یہ  ہے کہ ایسا کب اور کیسے ہوگا ؟ یہ ہی وہ سوال ہے جس کا جواب  جاننے کے لئے ہم میں سے کئی لوگ پر تجسس  ہیں۔ کائنات کی دو عظیم تر طاقتیں آپس  میں پنجہ آزما ہیں۔ اس جنگ کا  فاتح ہی ہماری کائنات کا مقدر مقرر کرے گا۔ قوّت ثقل  پوری سعی کر رہی ہے کہ کسی طرح زمان اور مکان کو سکیڑ دے۔ کیا قوّت ثقل ایسا کر پائے گی ؟ کیا کائنات چھوٹی سی چھوٹی اور گرم سے گرم تر ہوتی جائے گی یا پھر جیت کائناتی پھیلاؤ کی ہوگی؟ ہو سکتا ہے کہ آپ کے گرد و پیش کی چیزوں میں  موجود ایٹموں کے الیکٹران بھی الگ الگ ہو جائیں۔ کائنات کا  خاتمہ ہماری سوچ سے بھی زیادہ قریب ہے۔
     کائنات کا  خاتمہ ہماری سوچ سے بھی زیادہ قریب ہے۔

     خلاء ، زمان و مکان ہر چیز کائنات کا حصّہ ہے۔ زمین ذرّہ خاک  کی مانند ہے جو ہماری کہکشاں  ملکی وے میں موجود  ٢ کھرب ستاروں میں سے ایک بے لطف  ستارے کے گرد چکر لگا رہی ہے۔ مگر حیرانی کی بات یہ ہے کہ ہماری اپنی تمام تر عظمت کے باوجود ہماری کہکشاں کی حیثیت  بھی اس  کائنات میں جس کا پھیلاؤ ٩٠ ارب نوری سال سے بھی زیادہ ہے  سمندر کے ایک قطرے سے زیادہ کی نہیں ہے۔ لیکن  کائنات میں موجود بڑے سے بڑی کہکشاں سے لے کر ایک چھوٹے سے چھوٹے  ایٹم تک ہر چیز فانی ہے۔ ہم نے ابھی تک کوئی بھی ایسی چیز نہیں دیکھی جو لافانی ہو۔ ابدیّت کا کوئی وجود ہی  نہیں ہے۔ یہاں تک کہ زمان و مکان بھی ایک دن ختم ہو جائیں گے۔
    اپنی  تمام تر عظمت کے باوجود ہماری کہکشاں کی حیثیت  بھی اس  کائنات میں جس کا پھیلاؤ ٩٠ ارب نوری سال سے بھی زیادہ ہے  سمندر کے ایک قطرے سے زیادہ کی نہیں ہے۔ 

     کائنات اپنی پیدائش کے وقت سے لے کر ابھی تک پھیل رہی ہے جس سے اس میں موجود وہ ایندھن جو ستاروں کو زندہ و جاوید رکھنے کے کام آتا ہے بتدریج ختم ہو جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ اس وقت جب کائنات میں موجود  تمام ایندھن پھونک دیا جائے گا تو کیا ہوگا؟ کیا یہ عالم رنگ و بو  سب غائب ہو جائے گا؟ اس وقت جب  ستارے اپنا نیوکلیائی ایندھن پھونک کر اپنی زندگی پوری کر چکے ہوں گے ۔ صرف ایک سرد ، خالی  اور اجاڑ کائنات باقی رہ جائے گی جہاں ستاروں کے ڈھانچے  بلیک ہول اور نیوٹران ستاروں کی صورت میں باقی بچ جائیں گے۔ مگر آخر  کب تک؟ آخر وہ  بھی انحطاط پذیر ہوتے ہوئے اپنے پیچھے صرف ایک ہلکی سی دھندلی سی انتہائی کمزور روشنی چھوڑ جائیں گے اور بس!
    کچھ عرصے پہلے تک ہم سمجھتے تھے کہ کائنات اپنی عمر پوری کرتی ہوئی بڑھاپے کی جانب  بڑھ رہی ہے۔ مگر کچھ دہائیوں پہلے فلکیات دانوں نے ایک  انتہائی مختلف اور پریشان کن امر  دریافت کیا ۔ کائنات  تر نوالہ بن کی موت  کی جانب نہیں بڑھ رہی ہے  بلکہ وہ اپنی زندگی کے لئے جدوجہد کر رہی  ہے۔
     کائنات اپنی پیدائش کے وقت سے لے کر ابھی تک پھیل رہی ہے۔

    زمین پر رہتے ہوئے  ہمیں ہر چیز حالتِ سکون میں  لگتی ہے مگر ایسا ہرگز نہیں  ہے  ہم سے اوپر خلاء میں اور پوری کائنات میں ایک غضب کی جنگ زمانے کی پیدائش کے وقت سے  جاری ہے۔ اقتدار کی یہ  جنگ دو ہلاکت خیز قوّتوں کے درمیان جاری ہے۔ پھیلاؤ کی قوّت کہکشاؤں کو کھینچ کر ایک دوسرے سے دور کرنے میں لگی ہوئی ہے تاکہ کائنات ٹھنڈی ہو جائے اور یہی بات اس کے منجمد ہو کر معدوم ہونے کا سبب بن جائے۔ جبکہ قوّت ثقل کی کوشش ہے کہ ہر چیز کو دبا کر ایک مرکز پر مرتکز کرکے  اس کو فنا کر دے تاکہ کائنات ایک کثیف آگ کا گولہ بن جائے۔

     جیت کس کی ہوگی ؟ان دونوں میں سے کون جیتے گا؟ یا پھر مقابلہ برابر کا رہے گا؟ ان دونوں جسیم طاقتوں کی لڑائی کے تین ممکنہ نتیجے نکل سکتے ہیں۔ پہلے   ممکنہ نتیجے میں کائنات ایک عظیم انجماد (بگ فریز) میں اپنے انجام کو پہنچے گی ۔ اس صورتحال میں جیت  پھیلاؤ کی قوّت  کی ہوگی اور کائنات ہمیشہ کے لئے پھیلتی رہے گی۔ دوسرے امکان کے نتیجے میں قوّت ثقل کی جاذبی   قوّت میں اور پھیلاؤ کی قوّت میں ایک نازک توازن قائم ہو جائے گا اور کائنات ایک مخصوص حجم حاصل کرنے  کے بعد اسی پر قائم رہے گی۔ جبکہ تیسرے امکان کے نتیجے میں قوّت ثقل پھیلاؤ  کو چت کر دے  گی  اور کائناتی پھیلاؤ رک جائے گا یہاں تک کہ  کائنات سکڑنا شروع ہو جائے گی اور  ایک عظیم چٹاخے یا  چرمراہٹ کے ساتھ ختم ہو جائے گی۔
     کیا کائنات ایک عظیم چٹاخے یا  چرمراہٹ کے ساتھ ختم ہو جائے گی؟

    ابھی تک کے تو مشاہدات اور اعداد و شمار اس بات کا عندیہ دے رہے ہیں کہ کائنات ایک ایسی تنی ہوئی رسی پر کھڑی ہے جس کو سکڑاؤ  اور پھیلاؤ نے تھاما ہوا ہے۔ مگر یہ نازک  توازن اس وقت تک قائم رہے گا جب تک توانائی موجود ہے  یا  پھر کوئی چیز ختم ہوتی ہوئی  توانائی کو دوبارہ سے بھر دے۔ سائنس دانوں کے مطابق فلکیات کی دنیا کا سب سے پسندیدہ سوال ہی یہ ہے کہ کائنات کا انجام کیا ہوگا؟  کائنات کے انجام کا اندازہ لگانے کے لئے  ماہر کونیات ہمیشہ سے ماضی کے اس مقرر ساعت  پر نظر ڈالتے ہیں جب  نا صرف کائنات کے پھیلاؤ کا  بلکہ ہر چیز کا مبدا تھا ۔

     لگ بھگ 13.8 ارب سال پہلے ایک لامتناہی کثافت پر پھیلے ہوئے گرم نقطہ سے  چنگاری نکلی جس نے چشم زدن میں باہر کی جانب پھیلنا شروع کیا جس کو ہم عظیم دھماکے یا بگ بینگ کے نام سے جانتے ہیں۔ تمام توانائی ، تمام خلاء  اور سارا مادّہ ، کائنات کی بنیادی اینٹیں جن کا ہم دور حاضر  میں  مشاہدہ کرتے ہیں سب کی تخلیق   اس معین لمحے میں ہوئی ہے  اور انہوں نے  پیدا ہوتے ہی حرکت میں آنا  شروع کر دیا تھا ۔
     ذرا سوچیں کہ ہمارے ارد گرد کی ہر چیز ایک قدیمی  گرم گیس  میں موجود تھی جو ایک دھماکے کے ساتھ پھٹی اور تمام کہکشاؤں کو حرکت میں لے آئی۔ یہ دھماکا ، پھیلاؤ کی یہ حرکت   آج بھی جاری ہے۔ اس پھیلاؤ کے بغیر آج ہمارے پاس وہ کائنات موجود نہیں ہوتی جہاں ستارے اور کہکشائیں موجود ہیں۔ پھیلاؤ قدرت کی ایک  شاندار قوّت ہے۔ یہ مکان و زمان کی ساخت کو پھیلا کر کام کرتی ہے۔ کہکشاؤں کے درمیان جگہ پھیلتی ہے جو ان کو آپس میں دور کرتی ہے۔ خلاء اس طرح سے چیزوں کو دور بھیجتی ہے جیسے کہ کوئی سرفر لہروں پر سفر کرتے ہوئے راستہ طے کرتا ہے۔ خلاء میں ہر جگہ ایسا ہی ہو رہا ہوتا ہے۔
    لگ بھگ 13.8 ارب سال پہلے ایک لامتناہی کثافت پر پھیلے ہوئے گرم نقطہ سے  چنگاری نکلی جس نے چشم زدن میں باہر کی جانب پھیلنا شروع کیا جس کو ہم عظیم دھماکے یا بگ بینگ کے نام سے جانتے ہیں۔

    ہمارے  جسم کے اندر بھی ایک طرح کا دباؤ خلاء کو پھیلانے کے لئے زور لگا رہا  ہے۔ اس پھیلاؤ کی قوّت نے  ہی یہ وسیع  کائنات بنائی ہے جہاں اب ہر چیز اپنے مقرر کردہ راستے پر رواں دواں ہے ۔ ان تمام باتوں کے باوجود اگر اس قوّت  کو شتر بے مہار کی طرح چھوڑ دیا جائے تو یہ  فنا کی قوّت بھی بن سکتی ہے۔ اگر  کائنات اپنی  موجودہ شرح سے تھوڑی سی بھی زیادہ تیزی سے پھیلتی تو  وہ بہت ہی جلد خالی ہو جاتی ، کائنات کے پاس  اتنا وقت باقی نہیں بچتا کہ کہکشائیں، ستارے اور ہم انسان پیدا ہو سکتے۔ ہمارا وجود اس بات کی گواہی ہے کہ کوئی ایسی چیز ضرور موجود رہی  ہوگی جس نے اس پھیلاؤ کی قوّت کو قابو کر رکھا ہے۔ وہ قوّت کائناتی گوند یعنی کہ قوّت ثقل ہی ہے۔

     قوّت ثقل اور مادّے  ایک دوسرے کے ہمدم اور ساتھی ہیں ۔یہ بات طبیعیات کے مسلمہ قوانین کی رو سے ثابت ہے کہ جتنی  زیادہ ضخیم کوئی شے ہوگی اتنا ہی زیادہ اثر وہ اپنے آ س پاس کی چیزوں پر ڈالے گی۔ یہ ایٹموں  کو کھینچے گی  جس سے ان  ستارے ، سحابیہ، اور کہکشاؤں کی تخلیق ہوگی  جن کو ہم آج کائنات میں دیکھتے ہیں۔ مگر قوّت ثقل ایک دو دھاری تلوار کے جیسی ہے۔ اگر اس کی جاذبی شرح موجودہ قیمت سے  ذرا سا بھی زیادہ ہوتی تو ابتدائی  کائنات کو اس بات کا موقع ہی نہیں ملتا کہ مادّہ وجود میں آ سکے۔ اگر پھیلاؤ  کی قوّت تھوڑا سی  بھی زیادہ کمزور ہوتی  تو  کائنات دوبارہ وحدانیت میں منہدم ہو جاتی اور اتنا وقت ہی نہیں ملتا کہ کہکشائیں، سیارے اور لوگ پیدا ہو سکتے ۔ان تمام باتوں  کا مطلب یہ ہوا کہ ہم ایک گولڈی لاکس کائنات میں رہ رہے ہیں۔ ہم ایک ایسی کائنات میں رہ رہے ہیں جو اتنا عرصے قائم رہی کہ ہمارا جنم ممکن ہو سکا اور اتنا پھیلی کہ ہمارے  پیدا ہونے کے لئے وقت بھی مل گیا۔

    کائنات کو پیدا ہوئے 13.8 ارب سال گزر چکے ہیں  اور اس کا اتنے لمبے عرصے تک قائم رہنے کا سہرا   دو مخالف قوّتوں  یعنی کہ پھیلاؤ اور قوّت ثقل کو جاتا ہے۔ مگر یہ توازن کس  حد تک  پائیدار ہے؟ کیا ہماری کائنات میں اس قدر مادّہ موجود ہے جو اس بے قابو پھیلاؤ کو جاری رکھ سکے  اور اس کو واپس منہدم ہونے سے بھی روک سکے۔ ان تمام باتوں کو جاننے کے لئے  ١٩٢٠ء میں سائنس دانوں نے کچھ تخمینا جات  لگائے جس میں حاصل ہونے والے نتائج ان کے اندازوں کے مطابق ہی نکلے ۔

     جتنا زیادہ مادّہ ہوگا اتنی ہی زیادہ اس کی قوّت ثقل ہوگی۔ اگر بہت زیادہ مادّہ ایک بہت کثیف کائنات میں موجود ہوگا تو شاید کائنات دوبارہ سے منہدم ہونا شروع ہو جائے گی  دوسری طرف اگر مادّہ تھوڑا سا بھی کم ہوگا  تو کائنات منجمد ہو کر ختم ہو جائے گی۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ درمیان کا راستہ کیا ہے ؟وہ کونسی  حد فاصل ہے  جو ان دونوں کے درمیان توازن قائم کر سکتی ہے ۔ سائنس دانوں کے اندازے کے مطابق ہائیڈروجن کے ٥ ایٹم  فی کیوبک میٹر ہوں تو  ہی کائنات میں یہ توازن قائم رہ سکتا ہے۔ ذرا ایک کیوبک میٹر کا سوچیں اور اس میں ہائیڈروجن کے ٥ ایٹموں کو رکھیں اگر آپ نے زیادہ ایٹم ڈالے تو کائنات منہدم ہونا شروع ہو جائے گی  اگر اس میں ٥ ایٹموں سے کم ہوں گے تو کائنات ہمیشہ کے لئے پھیلتی رہے گی۔ حد فاصل کا یہ سوال ہمیں بتاتا ہے کے جس تنی ہوئی رسی پر کائنات کھڑی ہے وہ رسی پل صراط کی مانند ایک تیز دھار بلیڈ ہے۔

    بہرحال  اگر ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ کائنات تنی ہوئی رسی پر توازن قائم رکھنے میں کامیاب ہو گئی ہے تو ہم ٹھیک سوچ رہے ہیں۔ فلکیات دانوں نے مزید حساب کتاب لگائے تو ان کو یہ اطمینان ہو گیا  کے ان کے پہلے کے نتائج بالکل صحیح تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ کائنات میں بالکل صحیح تعداد میں مادّے کی مقدار موجود ہے جو اس حد فاصل جتنی ہی ہے۔ بالواسطہ ثبوت اور نظریاتی مباحثے اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ کائنات  منہدم ہونے اور ہمیشہ کے لئے پھیلانے  کے عین درمیان میں موجود ہے۔ ہم پھیلاؤ کے اس آخری کنارے پر موجود ہیں جس سے ذرا ز بھی آگے جائیں گے تو سرد موت موجود ہوگی۔ کائنات اس قدر مکمل توازن کے ساتھ موجود ہے کہ یہ بہت ہی  خاموشی کے ساتھ اپنی طویل  عمر پوری کرے گی۔
     کوئی ایسا نامانوس مادّہ  جو ہماری دوربینوں کے لئے نادیدہ تھا کائنات میں موجود تھا  اور وہ  کوئی چھوٹی موٹی مقدار میں نہیں بلکہ ہمارے جانے پہچانے مادّے سے ٥ گنا زیادہ تھا۔

     ١٩٧٠ء میں ماہرین فلکیات نے ایک ایسی چیز کا مشاہدہ کیا جس نے ان کو ششدر کر دیا۔ کائنات ایک نادیدہ مادّے سے بھری ہوئی تھی جس کی جاذبی قوّت  ایک قیامت خیز  طریقے سے کائنات کو ڈھیر کر دے گی۔ کائنات پل صراط پر قائم ہے ۔ رسی کے دونوں جانب ذرا سا زیادہ زور لگا اور نتیجہ یا  تو عظیم انجماد جس کو بڑھاوا دینے کے لئے پھیلتی  ہوئی خلاء موجود ہے یا پھر عظیم چرمراہٹ   جو قوّت ثقل کی جیت پھیلاؤ کی قوّت پر ہوگی۔ ٤٠ سال پہلے سائنس دان یہ سوچتے تھے کہ ہم ابدیّت کے مقدر کے توازن میں ہی قائم رہیں گے۔ مگر  ان کے یہ خیالات  تیزی سے تبدیل ہو گئے کیونکہ کچھ ایسی چیزیں ان ٤٠ سال کے دوران دریافت ہوئیں جن کو لوگ پہلے نہیں جانتے تھے۔ ١٩٧٠ء میں فلکیات داں سناٹے میں آ گئے تھا۔ کوئی ایسا نامانوس مادّہ  جو ہماری دوربینوں کے لئے نادیدہ تھا کائنات میں موجود تھا  اور وہ  کوئی چھوٹی موٹی مقدار میں نہیں بلکہ ہمارے جانے پہچانے مادّے سے ٥ گنا زیادہ تھا۔

     ہم یہ سمجھتے تھے کہ قوّت ثقل ستاروں اور ان اجسام میں پائی جاتی ہے جن کو ہم دیکھ سکتے ہیں ۔ مگر اب ہمیں یہ بات معلوم ہے  کہ ہماری وہ سادہ لوح سوچ انتہائی غلط تھی۔ فلکیات دانوں نے کائنات  کی  نوعیت کا باقاعدہ  مطالعہ کرکے اس مادّے کی دریافت کی  تھی۔ سورج کی زبردست قوّت ثقل نے  زمین اور دیگر دوسرے سیاروں کو انتہائی نازک  گول مداروں میں پکڑ کر رکھا ہے۔ سورج کی کمیت نے ان کے مداروں کی رفتار کو قابو کر رکھا ہے۔ اگر اس کی کمیت تھوڑی سی زیادہ ہوتی تو سیاروں کی مدار میں رفتار تیز ہوتی ۔ دوسری طرح اگر اس کی کمیت تھوڑی سی کم ہوتی تو سیاروں کو اس کے گرد مدار میں چکر پورا کرنے   میں تھوڑا زیادہ وقت لگتا۔ مرکز میں زبردست کمیت کی موجودگی سیاروں  کو اس کے گرد بعینہ  سیاروں کے  مدار میں چکر لگانے پر مجبور کرتی ہے۔

    ١٩٧٠ءمیں  ماہرین فلکیات نے ان نجمی مداروں کی بالکل ٹھیک ٹھیک پیمائش کی جس کے نتیجے میں سب کچھ بدل گیا۔ کہکشائیں بہت تیزی کے ساتھ گھوم رہیں تھیں۔ یہاں تک کہ اگر مرکز میں موجود بہت ہی بڑے اور ضخیم بلیک ہول کو بھی شامل کر لیا جائے تو بھی  ٩ بٹا ١٠ مادّے کا حصّہ غائب تھا۔ اس حساب سے کہکشاؤں کو ایک دوسرے سے دور چلے جانا چاہئے تھا  اور زمین کو ارب ہا سال پہلے بین النجم خلاء میں گم ہو جانا چاہئے تھا۔ ملکی وے کا وجود ہی نہیں ہونا چاہئے تھا اس کے باوجود کائنات کہکشاؤں سے بھری ہوئی ہے۔ کوئی بہت ہی زبردست قوّت کہکشاؤں کو تھامے ہوئے تھی۔ لیکن  ماہرین فلکیات جہاں کہیں بھی اپنی دوربینوں کا رخ کرتے ان کو ایسا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ نہ کوئی چمک نہ کوئی سایہ ۔ یہ نئی چیز جو کوئی بھی تھی نہ تو  روشنی کو خارج کر رہی تھی نہ ہی اس کو منعکس کر رہی تھی اور  نہ ہی  روشنی کے درمیان رکاوٹ بن رہی تھی۔ سائنس دانوں نے اس کا نام "تاریک مادّہ"  رکھا۔

     اس جستجو  سے جو بات ہمیں معلوم ہوئی  وہ یہ تھی کہ کائنات میں موجود زیادہ تر مادّہ عام طور پر پائے جانے والا مادّہ نہیں ہے۔ نہ تو یہ کوئی ایٹم تھے  نہ ہی کسی نوع  کے ذرّات  جو ہم کسی قسم کے زمینی تجربات میں حاصل کر سکیں ۔ یہ ایک نئی قسم کے ذرّات تھے جن کا نام ہم نے" تاریک مادّہ"  رکھا۔ تاریک مادّے   نے کائنات کو بھرا ہوا ہے  عام مادّے کی اس سے نسبت ٥ اور ١ کی ہے ۔وسیع ریشے پوری کائنات میں پھیلے ہوئے ہیں جن میں زیادہ روشن کہکشانی جھرمٹوں میں تاریک مادّہ  کافی زیادہ ہے۔ تاریک مادّے   نے کائنات میں ایک طرح سے بند سا باندھا ہوا ہے  جس نے اس بات کا تعین کیا ہوا ہے کہ کائنات میں عام  مادّہ کس طرح کی ساخت میں ڈھلے کہاں جائے اور کیا کرے۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ تاریک مادّے   کائنات میں اپنا حکم چلا رہا ہے۔
    سکڑنے کی صورت میں کائنات کی موت کو عظیم چرمراہٹ کا نام دیا جاتا ہے۔

     ایسا لگتا ہے کہ بگ بینگ  کے آغاز سے  تاریک مادّہ عام   ایٹموں کے بننے سے پہلے بن گیا تھا  اور اس نے جھنڈ کی شکل میں جمع  ہونا شروع کر دیا تھا ۔ اس جھنڈ نے بعد میں بننے والے  ایٹموں کو کھینچنا شروع کر دیا تھا  جس سے کہکشاؤں کا جنم ہوا تھا ۔  ایک طرح سے تاریک مادّے   نے کہکشاؤں کے لئے رحم مادر کا کردار ادا کیا۔ تاریک مادّے   نے کائنات کو تھام کر تو رکھا ہوا ہے مگر یہ کائنات کے لئے مستقل  خطرہ بھی بنا ہوا ہے۔ پچھلی چند دہائیوں میں ہونے والی سب سے زبردست دریافت تاریک مادّے   کی ہے  جس نے یہ حقیقت ہم پر آشکار کی ہے کہ کائنات میں عام مادّے سے کہیں زیادہ تاریک مادّہ  ہے۔ اور اس تمام مادّے میں زبردست قوّت ثقل بھی موجود ہے۔ لہٰذا اس تمام مادّے اور اس میں موجود تمام قوّت ثقل کو کائنات کے پھیلاؤ کو سست کر دینا  چاہئے تھا۔ تاریک مادّہ  کائناتی سطح پر قوّت ثقل کا ساتھ دے کر پھیلاؤ کی قوّت کو شکست دے سکتا تھا جس کے نتیجے میں پوری کائنات سکڑنے لگتی  اور اس طرح سے   کائنات کی موت ہو سکتی تھی۔ کائنات کی اس قسم کی موت کو  سائنس دانوں نے عظیم چرمراہٹ  کا نام دیا ہے۔

    عظیم چرمراہٹ یا عظیم  چٹاخے  کی صورت میں ایک  سیکنڈ کے کچھ ہی حصّے میں  کائنات رک کر پھیلاؤ اور سکڑاؤ کے درمیان توازن کھو دے گی  اور قوّت ثقل ایک  قیامت خیز تباہی کو جنم دے گی۔ اس صورت میں جب ہم آسمان کو دیکھتے تو ہمیں سب سے پہلی چیز جو نظر آتی وہ یہ ہوتی کہ کہکشائیں ہم سے دور جانے کے بعد ہماری جانب واپس  آتی ہوئی محسوس  ہوتیں۔ ایسا لگتا کہ پوری کائنات ہمیں جا لینے کے لئے آ رہی ہو۔ خلاء کے سکڑنے کے  ساتھ ہی مادّے کی کثافت بڑھ جاتی  جس سے قوّت ثقل کی طاقت میں اور بھی اضافہ ہوتا اور اس منہدم ہوتے ہوئے عمل کی رفتار میں اضافے کے ساتھ ہی  درجہ حرارت  بھی بڑھ جاتا۔ کہکشائیں ٹکرانا شروع کر دیتیں ، گیس کے بادل ایک دوسرے سے  ٹکرانے لگتے اور سیارے زمین سے آ ٹکراتے ۔ بلیک ہول ایک دوسرے کے گرد موت کا رقص شروع کر دیتے۔ درجہ حرارت میں تیزی سے اضافہ ہو جاتا ۔ مادّہ ، خلاء اور وقت  اندر کی طرف دھماکے سے پھٹ پڑتا یہاں تک کہ کائنات میں موجود ہر چیز دب کر ایک لامتناہی کمیت ، حرارت اور دباؤ  والے نقطہ میں تبدیل ہو جاتی۔ عظیم چٹاخے  کے آخری لمحات میں کہکشائیں ٹکرا کر ایٹموں میں بدل جاتیں  اس وقت زندگی جس سے ہم شناسا ہیں ختم ہو چکی ہوتی۔ ہم واپس اس جگہ پر پہنچ چکے ہوتے جہاں سے ہم چلے تھے۔ اس کائنات میں جس میں ہم رہتے ہیں ختم ہو چکی ہوتی۔

     کچھ سائنس دانوں کے نزدیک عظیم چٹاخا  ایک اور بگ بینگ کی ابتداء بھی کر سکتا  ہے۔ ہمیں اس بات کا اندازہ نہیں ہے کہ عظیم چٹاخے  کے خاتمے پر کیا ہوگا کیونکہ مروجہ  طبیعیات کے قوانین اس جگہ پہنچ کر  بیکار ہو جاتے ہیں۔ یہ امر بھی  ممکن ہو سکتا ہے اور درحقیقت فلسفیانہ طور پر سوچنے میں اچھا بھی بہت  لگتا ہے کہ عظیم چٹاخے  کے اختتام پر دوبارہ سے کائنات کا پھیلاؤ شروع ہوگا  اور یہ سلسلہ یوں ہی ہمیشہ جاری و ساری رہے گا۔ عظیم چٹاخے  کے اختتام پر دوبارہ سے دوسرا بگ بینگ شروع ہو جائے گا۔ یہ بات قابل فہم ہے کہ ہر چیز جوعظیم چٹاخے  میں ایک دوسرے کے انتہائی  قریب آ گئی  ہو اس کے اختتام پر کوئی چیز اس کو آگے بڑھنے سے روک کر دوبارہ گرم اور کثیف  حالت سے دھکا دے کر ایک نیا  بگ بینگ شروع کر دے جس میں ایک نئی کائنات کی تخلیق ہو۔ ہمارا بگ بینگ کسی دوسری جانب کا عظیم چٹاخا ہو سکتا ہے۔
    جب سائنس دان تاریک مادّے   کےعظیم چٹاخے  کے مفروضے کے ساتھ آئے تو کائنات نے انھیں ایک اور پہیلی نے  الجھا دیا۔ کائنات میں موجود کوئی غیبی طاقت ہمیں ایک دوسری طرح کی موت کی جانب لئے رواں دواں تھی۔ جب سائنس دانوں کو اس کا اندازہ ہوا  تو وہ اپنی جگہ سے اچھل پڑے ۔قوّت ثقل اور پھیلاؤ کی طاقتوں کے درمیان جاری جنگ ١٤ ارب سال سے جاری ہے  پھیلاؤ کائنات کو باہر کی جانب پھیلا رہی ہے جبکہ قوّت ثقل اس کو اندر کی جانب  کھینچ رہی ہے ۔ قوّت ثقل کا ساتھ دینے کے لئے غیر مرئی طاقت نے اپنا وزن اس کے پلڑے میں ڈال دیا تھا اور بظاہر جیت قوّت ثقل کی ہونے والی تھی۔ تاریک مادّے   کی کمیت کائنات کو کھینچ کر  عظیم چٹاخے  میں ختم کرنے والی تھی ۔ مگر پھر ایک اور انقلابی  دریافت نے ہماری کائنات کو جاننے کی سمجھ کو پھر سے بدل دیا۔

    ١٩٩٠ء سے دو محققین کی ٹیموں نے اس بات کا فیصلہ کیا کہ وہ کائنات کے پھیلاؤ کی تاریخ کو ناپیں گے تاکہ وہ یہ معلوم کر سکیں کہ کیا کائنات کا پھیلاؤ اتنا سست پڑ گیا ہے کہ وہ عظیم چٹاخے  میں ختم ہو جائے یا  کائناتی پھیلاؤ  سست نہیں پڑے گا اور وہ  ہمیشہ  پھیلتی رہے گی۔ ان دونوں ٹیموں میں سے ایک کی قیادت ماہر فلکیات ایلکس  فلپپنکوکر رہے تھے جبکہ  دوسری ٹیم کو سول پرلمٹر لیڈ کر رہے تھے۔ سائنس دنوں نے پہلی بار اس بات کو سمجھا تھا کہ وہ ماضی میں  کائنات کے سست پڑنے کی پیمائش کو براہ راست ناپ سکتے ہیں۔ دونوں ٹیمیں دور دراز کی کہکشاؤں کی رفتار کو ناپنا چاہتی تھیں۔ لیکن  کیونکہ کہکشائیں بہت مدھم اور دور تھیں لہٰذا انہوں نے کسی روشن چیز کی تلاش شروع کی۔

     انھیں زمین سے ارب ہا نوری سال پر کوئی ستارا پھٹتا ہوا ملا ۔پھٹتے ہوئے ستارے کو سپرنووا کہتے ہیں۔  ایک مرتا ہوا ستارا اکثر سپرنووا کی صورت میں پھٹ پڑتا ہے۔ یہ بہت زیادہ روشن ہوتا ہے ہمارے سورج سے اس کی روشنی ٥ ارب گنا زیادہ ہوتی ہے مگر یہ روشنی بہت ہی مختصر عرصے کے لئے ہوتی ہے۔ پرلمٹر  اور فلپپنکو کے پاس صرف ایک یا دو ہفتہ کا ہی وقت تھا جس میں وہ اس بات کی پیمائش کر سکتے تھے کہ اس کہکشاں میں جس میں یہ مرتا ہوا ستارہ  موجود ہے، ہم سے دور ہوتے ہوئے کس رفتار سے آہستہ ہو رہی ہے۔ یہ ٹیمیں آٹھ سال تک ٤٢ مختلف سپرنووا  کا مشاہدہ کرتی رہیں اور اس کے نتیجے میں ان کو جو کچھ معلوم ہوا اس نے پھر سے ماہرین کے دماغ کی چولیں ہلا دیں۔ ان کو اس مطالعہ اور تحقیق میں پتا چلا کہ کائنات میں پھیلاؤ آہستہ نہیں ہو رہا ہے  بلکہ درحقیقت اس میں تو اضافہ ہو رہا ہے۔

     دونوں ٹیموں کے حاصل کردہ نتائج  نے دنیا کو گنگ کر دیا تھا ۔ پچھلے ٤ یا ٥ ارب سال میں کائنات نے اپنے پھیلنے کی رفتار میں اضافہ کیا ہے۔ ایک اسراع پذیر کائنات کسی غیبی قوّت کے طفیل پھیل رہی تھی۔ کافی عرصے سے سائنس دان اس بحث میں الجھے ہوئے تھے کہ کیا کائنات پھیل رہی ہے یا اس کے پھیلانے کی رفتار سست پڑ رہی ہے  مگر یہ بات تو کسی کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھی کہ کائنات تو اسراع پذیر تھی  اور تیز سے تیز رفتار سے پھیل رہی تھی۔ کائنات کی اس اسراع پذیری نے سائنس دانوں کو پریشان کر دیا تھا ۔ ایسا لگ رہا تھا کہ اس اسراع پذیر کائنات نے قوانین طبیعیات کو شکست دے دی تھی۔ ذرا تصور کریں  کہ ہم گیند کو ہوا میں سیدھا  اچھالیں اور بجائے اس کے کہ وہ آہستہ ہو کر  واپس نیچے ائے جو وہ عام حالت میں کرتی  وہ آہستہ ہونے کے بعد تیزی سے اوپر چلی جائے ۔

    اس بات کا یہ مطلب ہوگا کہ  کسی نہ کسی  طرح سے کائنات اسراع پذیر ہونے کے لئے  کہیں سے توانائی حاصل کر رہی ہے۔  یہ نئی توانائی عدم سے یعنی کہ    خالی خلاء سے آتی ہوئی نظر آ رہی تھی۔ جب سائنس دان خالی جگہ کا استعمال کرتے ہیں تو اس کا مطلب مطلق خالی ہوتا ہے  جہاں نہ تو کوئی ذرّات ، نہ ہی حرارت اور نہ ہی کوئی توانائی موجود ہوتی ہے۔ مکان اور زمان حقیقی توانائی رکھتے ہیں۔ خالی خلاء میں توانائی موجود تھی اور وہ توانائی  ثقلی قوّت سے مدافعت کر رہی تھی اور ایک طرح سے قوّت ثقل کے مخالف کام کر رہی تھی۔ نہ تو اس توانائی کا کوئی  سراغ مل رہا تھا   اور نہ ہی  یہ بات معلوم ہو رہی تھی  کہ یہ قوّت کس طرح کام کرتی ہے لہٰذا  سائنس دانوں نے اس قوّت کا نام" تاریک توانائی"  رکھ دیا۔ ہم اس کا  نام انجانی توانائی بھی رکھ سکتے تھے۔ ہم اس کو کچھ بھی کہہ سکتے تھے۔ مگر ہم نہیں جانتے کہ یہ ہے کیا ؟اور کیا یہ واقعی تاریک یا غیر مرئی ہے بھی یا نہیں اور یہ بات   طبیعیات کی دنیا میں سب سے بڑی پہیلی بن گئی ہے۔

     ناسا نے اپنی سب سے بہترین دوربین کے ذریعہ اس تاریک توانائی  کو ناپا اور  دماغ ہلا دینے والے نتیجوں کو پایا۔ اس کی حکمرانی کائنات کے مادّے پر  ٣ گنا زیادہ ہے۔ اور جتنا زیادہ خلاء پھیل رہا ہے اتنی زیادہ ہی یہ توانائی بھی اپنی موجودگی کا اظہار کرا رہی ہے۔ تاریک توانائی  عدم کی توانائی ہے اور اس کا کام قوّت ثقل کے مخالف کام کرنا ہے۔ لہٰذا جیسے جیسے یہ تاریک توانائی  کہکشاؤں کو دور کر رہی ہے ویسے ویسے خلاء اور زیادہ پیدا ہو رہا ہے اور ساتھ میں اس توانائی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور نتیجتاً اس کی دھکیلنے کی قوّت  بھی بڑھ رہی ہے اور یہ ہی ایک وجہ ہے جس کی وجہ سے کائنات کا پھیلاؤ سست پڑنے کے بجائے اسراع پذیر ہے۔
     عظیم شق  کی صورت میں کائناتی   پھیلاؤ اس قدر تیز رفتار ہوگا کہ کہکشائیں اندرونی طور پر پھیلنا شروع ہو جائیں گی  اور آخر میں ہمارے جسم  کے ایٹم بھی الگ الگ ہو جائیں گے۔

     تاریک توانائی  لگتا ہے کے عظیم چٹاخے  کے نظریے کو ختم کر دے گی مگر ابھی بھی سائنس دان اس بارے میں کچھ بھی قطعیت کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ کس طرح سے تاریک توانائی ، پھیلاؤ اور خلاء میں تعلق ہے۔ اگر خلاء کی مقدار کو دوگنا کر دیا جائے تو کیا اس میں موجود تاریک توانائی  بھی دگنی ہو جائے گی یا  پھر یہ اس سے بھی زیادہ بڑھ جائے گی۔ ایک کی با  نسبت ایک  کا تناسب  دائمی پھیلاؤ کا نتیجہ بن سکتا ہے جس میں کائنات کا انجام سرد موت کی صورت میں ہوگا ۔لیکن اگر تاریک توانائی  پھیلاؤ کی رفتار سے زیادہ  ہوگی تو بھی نتیجہ ایک نہایت بھیانک صورت میں نکلے گا جس کو سائنس دانوں نے عظیم شق  (بگ رپ )کا نام دیا ہے۔ عظیم شق  کی صورت میں کائناتی   پھیلاؤ اس قدر تیز رفتار ہوگا کہ کہکشائیں اندرونی طور پر پھیلنا شروع ہو جائیں گی  اور آخر میں ہمارے جسم  کے ایٹم بھی الگ الگ ہو جائیں گے۔

    سائنس دانوں کے تخمینا جات کے مطابق عظیم شق  میں ایک کے بعد ایک کہکشاں آسمان سے غائب ہوتی جائے گی کیونکہ خلاء ان کو زمین سے روشنی کی بھی رفتار سے تیز دور کر رہی ہوگی۔٦ کروڑ سال پہلے ہی تاریک توانائی  قوّت ثقل کو چھوٹے سے چھوٹے پیمانے پر پچھاڑ چکی ہوتی۔ یہ سلسلہ کچھ یوں شروع ہوتا کہ سب سے پہلے کہکشائیں پھیلنا شروع ہوتیں، پھر ان میں موجود نظام ہائے شمسی  الگ ہونا شروع  ہوتے، اس کے بعد ان نظام ہائے شمسی میں موجود سیارے ایک دوسرے سے دور ہوتے جاتے، پھر چٹانیں اور آخر میں  ہماری باری بھی آ جاتی۔ خاتمہ بہت ہی تیزی کے ساتھ ہوتا۔ چند منٹ میں ہی کائنات میں موجود  سارے ستارے اور سیارے  تباہ  ہو جاتے ، ان کی باقیات مزید چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ جاتیں یہاں تک کہ کائنات کی زندگی صرف ایک سیکنڈ سے بھی کم عرصے کی رہ جاتی  تو اس وقت ذیلی جوہری ذرّات  جنہوں نے سارا مادّہ بنایا ہے فنا ہو جاتا اور بس صرف اکیلے باقی بچ جانے والے فوٹون بھی  پھیلتی ہوئی خلاء کے ساتھ نایاب ہو جاتے۔ کائنات میں صرف کم توانائی والی روشنی ہی بچی ہوتی  اور وہ بھی پھیلتی ہوئی خلاء کے ساتھ اس قدر کم ہو جاتی  جیسے کہ اس کا کوئی وجود ہی نہ ہو۔ سب سے آخر میں خالی خلاء کا خاتمہ ہوتا ۔ کائنات اس قدر تیز رفتاری  سے پھیلتی  کہ اس کی ساخت خود ہی ریزہ ریزہ ہو جاتی۔

     کیا کائنات کا خاتمہ عظیم شق  کی شکل میں ہوگا یا پھر عظیم چٹاخے  کی صورت میں ؟ اس کا جواب تاریک توانائی  میں چھپا ہوا ہے۔ اگر ہم اس کو حل کر لیں تو ہمیں کائنات کے مقدر کا جواب مل جائے گا۔  یہ بات کو طے ہے کہ بالآخر کائنات کا خاتمہ تو ہوگا مگر یہ کیسے ہوگا  ؟ یہ بات  ابھی جاننا باقی ہے۔ شروع میں حاصل ہونے والے تمام نتائج اور اعداد و شمار اس بات کی جانب اشارہ کر رہے تھے   کہ اس کا خاتمہ عظیم چٹاخے  پر ہی ہوگا۔ کائنات میں موجود تاریک مادّے کی موجودگی  خلاء کو کھینچ رہی  ہے  جس سے کہکشانی ٹکراؤ  ہونے کا احتمال ہے۔ اس کھینچا تانی کے چکر میں  سیارے ایک دوسرے  میں ضم بھی ہو سکتے تھے اور ہر چیز گرم سے گرم  تر اور کثیف سے کثیف تر ہو رہی ہوتی ۔ کائنات ایک عظیم ستارے کی طرح  برتاؤ کرتی ۔  لیکن  پھر کہیں سے  تاریک توانائی  نمودار ہوتی ہے اور عظیم چٹاخے  کے نظریے کا قلع قمع   کر دیتی ہے۔

     تاریک توانائی  کہکشاؤں کے درمیانی خلاء کو پھیلانے میں ایک راکٹ کے ایندھن کی طرح کام کرتی ہے۔ وہ صرف پھیلاؤ کو اس کے حال پر نہیں چھوڑتی بلکہ اس کی طاقت میں اضافہ کرتی ہے۔ اب صرف کائنات کے خاتمے کی دو ہی صورتیں بچتی ہیں۔ عظیم شق  یا پھر عظیم انجماد  ۔ یہ دونوں صورتیں بھی تاریک توانائی  پر انحصار کرتی ہیں۔ کائنات کو توڑ کر ریزہ ریزہ کرنے کے لئے تاریک توانائی   کو  شرحا ً بہت تیزی کے ساتھ اپنی رفتار کو مستقبل میں بڑھانا ہوگا۔ جبکہ عظیم انجماد  کے لئے بھی تاریک توانائی  میں اضافہ چاہئے تاکہ  کہکشائیں آپس میں ایک دوسرے سے کافی دور ہو جائیں۔ جب تک ہم تاریک توانائی  کی نوعیت  کو نہ سمجھ لیں  تب تک ہم کائنات کے مقدر کو سمجھنے سے قاصر رہیں گے۔
    پلانک سیارچہ  ہماری کائنات کو اس وقت میں دیکھ سکتا ہے جب اس کی عمر ٣٨٠ ہزار برس ہی کی تھی۔

    مئی ٢٠٠٩ء میں یورپین ا  سپیس ایجنسی نے خلاء میں پلانک سیارچہ چھوڑا جس کا مقصد تاریک توانائی  کی پیدائش کو کھوجنا تھا۔ یہ نہایت ہی جدید اور بہت ہی حساس دوربین ہے جو مکان و زمان سے ہوتی ہوئی ارب ہا سال پہلے کے وقت میں جھانک سکتی ہے جب تمام چیزوں کی شروعات  ہوئی تھی۔  یہ ہماری کائنات کو اس وقت میں دیکھ سکتی ہے جب اس کی عمر ٣٨٠ ہزار برس ہی کی تھی۔ پلانک دوربین نے کائنات کے  اس اولین دور کی تصویر کشی کی ہے جس سے ہمیں اس بات کو سمجھنے میں مدد ملی ہے کہ کائنات اپنی ابتداء میں دیکھنے میں کیسی تھی۔ اس  سیارچے نے ہمیں ابتدائی  وقت کی  بہت ہی درستگی کے ساتھ معلومات فراہم کی ہیں ۔ اس دور کی تصویر میں کائنات پروٹون، الیکٹران اور فوٹون کا انتہائی گرم ملغوبہ  نظر آ رہی ہے۔ ہائیڈروجن کے ایٹموں نے ابھی بننا ہی شروع کیا تھا  اور ان ابتدائی  ایٹموں کی روشنی ہی ہمیں اس تصویر میں نظر آ رہی ہے۔ نیلے حصّے ٹھنڈے علاقے کو ظاہر  کر رہے ہیں جبکہ سرخ حصّے گرم علاقوں  کی نمائندگی کر رہے  ہیں۔ آخر میں نقشے میں نظر آنے والے  ان گرم حصّوں  نے بڑے کہکشانی جھرمٹ بنانے ہیں جس میں سینکڑوں یا ہزاروں کہکشائیں موجود ہوں گی۔ ان میں سے ہر ایک کہکشاں میں ارب ہا ستارے موجود ہیں۔ قوّت ثقل اور پھیلاؤ کی قوّت  اکیلے ہی  ان ابتدائی کہکشاؤں کے بنانے کی ذمہ دار لگ رہی ہیں۔ تاریک توانائی  نے اس وقت  اپنا کردار ادا کرنا شروع نہیں کیا تھا۔

    سوال پھر یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر تاریک توانائی  نے کائنات کا نظام کب سنبھالا ؟ماہر فلکیات برینڈا فرے اس ٹیم کا حصّے ہیں جو امریکی ریاست ایریزونا میں واقع زمینی دوربین "کٹ پیک"سے خلاء کا مشاہدہ کرتی ہیں۔ وہ نوزائیدہ کائنات کے اس دور کا مشاہدہ کر رہی ہیں جب وہ تیزی سے نشو نما حاصل کر رہی تھی۔ اس دوربین سے حاصل کردہ اعداد و شمار کو وہ ایک المونیم کی پلیٹ  جس میں ٦٤٠ سوراخ علیحدہ علیحدہ موجود ہیں ڈال دیتی ہیں۔ ہر سوراخ ایک مخصوص کہکشاں کی آسمان میں نمائندگی کرتا ہے۔ ہر مشاہدہ میں ٦٤٠ الگ الگ کہکشاؤں کی روشنی فائبر آپٹک کیبل کے ذریعہ حاصل کی جاتی ہے ۔ خلاء میں ہر کہکشاں کے بالکل درست محل وقوع کے لئے ان کی رفتار اور ایک دوسرے کی نسبت  ان کے مقام کا پتا لگایا جاتا ہے۔ اس طریقے سے  ابھی تک صرف دس لاکھ کہکشاؤں کا ہی سہ جہتی نقشہ حاصل کیا جا سکا ہے۔ المونیم کی پلیٹ میں موجود ہر سوراخ ایک کہکشاں  کی نمائندگی کر رہا ہے جس میں ارب ہا ستارے موجود ہیں۔

    کہکشاؤں کو ناپنے کی یہ بہت ہی بنیادی پیمائشیں ہیں جو سائنس دانوں کو تاریک توانائی  کی نوعیت کو سمجھنے میں مدد کریں گی۔ سائنس دان کائنات کے عہد شباب  کا موازنہ  اس کے طفیلی  دور کی  تصویر سے کریں گے۔ اس نقشے کے مطالعے  سے انھیں معلوم ہوا کہ تاریک توانائی  کا ظہور اس وقت ہوا جب  کائنات اپنی آج سے آدھی عمر کی تھی۔ بگ بینگ سے  لگ بھگ ٨ ارب  سال کے بعد کائنات کے پھیلاؤ میں اسراع کا عمل  شروع ہوا اور ہم ابھی اس اسراع کے عین بیچ والے دور میں ہیں۔ اعداد و شمار ظاہر کرتے  ہیں کہ خلاء کے پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ تاریک مادّہ  بھی بڑھا۔ اس بات کو ایک مثال سے یوں سمجھ سکتے ہیں۔ فرض کریں کہ آپ کے پاس ایک ڈبہ موجود ہے  جس میں آپ نے کچھ تاریک توانائی  ڈال دی ہے اور جانے سے پہلے اس کا وزن بھی کر لیا ہے۔ اب اس ڈبے کو لے کر دگنا کر دیں ۔ اس کو کھولے اور کچھ ڈالے بغیر دوبارہ وزن کریں  اب اس کا وزن دوگنا ہو چکا ہوگا۔

     اس شاندار  دریافت کا مطلب ہے کہ کائنات کا مقدر کم از کم عظیم شق  تو نہیں ہے۔ تاریک توانائی  بتدریج بڑھنا شروع کرے گی۔ کائنات عظیم انجماد  کی جانب گامزن ہے اور سائنس دانوں نے اندازہ لگا لیا ہے کہ کائنات کے خاتمے کے  وقت کیا ہوگا؟ فی الحال تو ایسا لگتا ہے کہ ہم ایک ایسی کائنات میں رہتے ہیں جواس قدر مکمل ہے کہ جہاں  پر موجود قوّت ثقل نے کہکشاؤں کو آپس میں باندھ کر رکھا ہوا ہے  اور جہاں پر کافی مقدار میں تاریک توانائی  بھی موجود ہے جو کائنات کو توڑ کر ریزہ ریزہ کئے بغیر  ہمیشہ پھیلاتی رہے گی ۔ ماہرین کونیات آخر کار اس بات کا اندازہ لگانے میں کامیاب ہو گئے ہیں  کہ کائنات کا مقدر کیا ہوگا۔

     آج سے ٣٠ سال پہلے کائنات کا انجام قابل مباحثہ تھا ۔ مگر اب ایسا لگتا ہے کہ کائنات کا مقدر اس کا خاتمہ ایک عظیم انجماد  کی صورت میں ہی کرے گا۔ اگر ہم اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو یہ بات ہم پر عیاں ہوگی کہ عظیم انجماد  میں تاریک توانائی  کہکشاؤں کو ایک دوسرے سے دور سے دور کر دے گی مگر کہکشائیں خود  نہیں پھیلیں گی۔ کہکشاؤں میں موجود ستارے مدھم ہوتے جائیں گے۔ ہر وہ ستارہ جس کو ہم دیکھتے ہیں جس میں ہمارا سورج بھی شامل ہے نیوکلیائی ایندھن جلاتا ہے۔ جب کائنات میں موجود گیس ختم ہو جائے گی تو ستارے پیدا ہونے بند ہو جائیں گے اور جو ستارے پہلے سے موجود ہوں گے وہ ہی کائنات میں باقی رہیں گے۔

     آج سے کھرب ہا سال بعد آنے والے طویل زمانے میں  سب سے پہلے بڑے اور عظیم ستارے معدوم ہونا شروع ہوں گے۔ بڑے ستارے زیادہ روشن اور کم عمر ہوتے ہیں۔ ستاروں کے قلب منہدم ہوتے ہوئے سپرنووا دھماکوں میں پھٹ جائیں گے۔ قوّت ثقل ان مرتے ہوئے ستاروں کو کچل کر ایک کثیف مقام  میں بدل دے گی جس سے بلیک ہولز  جنم لیں گے ۔ دوسرے نمبر پر سورج کے جیسے ستاروں کی باری آئے گی۔ جب ان ستاروں  میں موجود ہائیڈروجن گیس ختم ہو جائے گی تو وہ سوج کر ایک پھولی ہوئی آگ کی  گیند کی مانند اپنے موجودہ حجم سے ٢٠٠ گنا زیادہ بڑے ہو جائیں گے  ۔ اس وقت جب ان کے قلب میں ہائیڈروجن نہیں ہوگی تو یہ سرخ دیو میں بدل جائیں گے۔ سرخ دیو اس قدر بڑے ہوتے ہیں کہ وہ اپنے سیاروں  تک کو نگل جاتے ہیں۔ ہم نے ایسے سرخ دیو بھی دیکھے ہیں جو اگر ہمارے نظام شمسی میں  ہوتے تو مشتری کے مدار تک جا پہنچتے۔ سورج کی قبیل کے سیارے اپنا ایندھن پھونکنے کے بعد سفید بونے ستارے کا روپ دھار لیتے ہیں جو چند میل پر پھیلی ہوئی زبردست کثافت کی گیند سی ہوتی ہے۔ یہ سفید بونے مزید ١٠ ارب سال تک گرمی سے روشن رہیں گے  جس کے بعد یہ ٹھنڈے ہو کر کالے بونے ستارے کی شکل اختیار کر لیں گے  ۔ یہ کالے بونے کاربن کی ایک کثیف گیند ہوں گے شاید یہ کاربن ہیرے میں بدل جائے۔

     بڑے ستاروں کی موت کے بعد کائنات سرخ ہونی شروع ہو جائے گی۔ نیلے ستارے پھٹیں گے جس کے بعد ہلکے نیلے ستاروں کی باری آئے گی اور پھر ہمارے سورج جیسے ستاروں کا نمبر آئے گا اور ان کی موت کے بعد صرف سرخ ستارے ہی رہ جائیں گے ۔ سرخ ستارے کائنات میں موجود ستاروں میں سب سے چھوٹے اور دوسرے ستاروں کی با نسبت ٹھنڈے ہوتے ہیں یہ اپنا ایندھن بہت ہی کفایت شعاری سے جلاتے ہیں۔  مگر مزید ١٠ کھرب سال کے بعد یہ چھوٹے بونے ستارے بھی اپنا ایندھن استعمال کر چکیں گے۔ ان ستاروں کو  جنھیں ہم اس وقت  جانتے ہیں ان کا   خاتمہ ہو چکا ہوگا اور آسمان ظلمت کے اندھیرے میں ڈوب چکا ہوگا۔ بلیک ہول ، مردہ ستاروں کی لاشیں اور ٹھنڈے گیس کے بادل اور گرد ہی باقی بچ جائیں گی۔ ستاروں کا عہد ختم ہو چکا ہوگا۔ بلیک ہول کے دور کی شروعات ہوگی۔ اس وقت کائنات کی بنیادی اینٹیں بلیک ہول بن جائیں گے ۔ کہکشاؤں کے قلب میں موجود  بڑے اور فوق ضخیم  بلیک ہول کے گرد دوسرے بلیک ہول چکر لگا رہے ہوں گے۔ ہم اس کائنات کو بھوتوں کی کائنات کہہ سکتے ہیں۔ ستاروں کی لاشیں  زومبیوں  کی طرح کائنات میں موجود ہوں گی۔ زومبیوں سے بھری ہوئی کائنات اپنی ارتقاء کا عمل جاری رکھے گی۔ جس میں ستاروں کی لاشیں قریب ہوتے ہوئے ایک دوسرے میں ضم ہو جائیں گی ۔ بلیک ہول ایک دوسرے میں ضم ہوتے ہوئے بڑے ہوتے جائیں گے اور ہو سکتا ہے کہ وہ سب کہکشاں کے قلب میں موجود بڑے فوق ضخیم  بلیک ہول میں جا کر گر جائیں  جس سے وہ بڑا فوق ضخیم بلیک ہول اور زیادہ بڑا ہو جائے گا۔ اس وقت بھی کائنات ایک بہت ہیجان انگیز اور متحرک جگہ ہوگی۔
    کائنات آخر میں ایک دوسرے میں ضم ہوتے ہوئے بلیک  ہولز کا قبرستان  بن جائے گی۔

    یہ سب کچھ آج سے ہزار یا لاکھوں سال کے بجائے کھرب ہا سال گزرنے کے بعد ہو رہا ہوگا۔ ہر وہ مادّہ جس نے بلیک ہول کی کشش کو چکمہ دے دیا ہوگا وہ بھی  اپنے پروٹونوں کے علیحدہ ہونے کا ساتھ ہی فنا ہو جائے گا۔ پروٹون جو ایٹم سے بنے اس مادّے کا جس سے ہم سب بنے ہیں کا ایک انتہائی بنیادی ذرّہ ہے  ایک دم سے بکھر جائے گا  مگر یہ سب کچھ ہونے میں ابھی بہت زیادہ وقت لگے گا۔ مگر پھر بھی ایسا تو ہو کر ہی رہے گا۔ صرف بلیک ہول کا سمندر ہی کائنات میں موجود رہے گا۔ سائنس دان پہلے سمجھتے تھے کہ بلیک ہول ابدی ہوتے ہیں  مگر  اس کے باوجود وہ آج سے ایک ہزار کھرب سال کے بعد  فنا ہو جائیں گے۔ اب ہم وقت کے اس پیمانے کی بات کر رہے ہیں جس کو سمجھنا انسان کے  بس کا روگ نہیں ہے۔ وقت کے اس پیمانے پر بلیک ہول بھی غائب ہو جائیں گے۔ کائنات کا خاتمہ  اس وقت ہوگا جب آخری بچا ہوا بلیک ہول بھی اپنی زندگی پوری کر لے گا۔ بلیک ہول کے چھوٹے ہونے کے ساتھ ہی ان کی فنا ہونے کی رفتار بڑھتی جائے گی۔ اس سے کافی عرصہ پہلے ہی کائنات کا حجم ایک انچ کے ایک اربویں حصّے کے دس کھربویں حصّے کا دس کھربویں  حصّے  جتنا ہو چکا ہوگا۔ اس ناقابل تصوّر مختصر پیمانے پر مروجہ  طبیعیات کے قوانین جواب دے جائیں گے  اور آخری بلیک ہول گیما شعاعوں کے دھماکے سے ختم ہو جائے گا اس وقت کائنات میں کچھ باقی نہیں رہے گا۔ بلیک ہول کی موت ایک اچانک ہونے والے روشنی کے جھماکے سے ہوگی  جو کائنات کی تاریخ میں ہونے والا آخری روشنی کا جھماکا ہوگا۔

    عظیم انجماد آ رہا ہے ۔ کائنات کا انجام ایک ٹھنڈا اور سست رو  تاریک موت  کی صورت میں ہوگا ۔ یہ سب دسیوں کھرب سال میں جا کر ہوگا ۔مگر کوانٹم طبیعیات  نے کائنات کی موت کا ایک الگ انجام بتا یا ہے جو ایک ایسا واقعہ ہوگا جو نہایت طاقتور  اور تباہ کن ہوگا کہ وہ ہمیں نظر آنے والی ہر چیز کو آناً فاناً ختم کر دے گا  اور یہ واقعہ کل بھی ہو سکتا ہے۔ کائنات کا انجام قریب ہی ہے ۔ تاریک توانائی  کہکشاؤں کے درمیان موجود خلاء کے پھیلاؤ کو اسراع دے  رہی ہے جس سے ہر وہ چیز جس کو ہم دیکھ سکتے ہیں دور جا رہی ہے جس کے نتیجہ میں ٹھنڈی اور آہستگی سے کائنات کی موت واقع ہو جائے گی مگر ان سب باتوں سے پہلے کوئی عجیب و غریب واقع نہ  رونما ہو جائے ۔ایک عفریت جس کا نام سائنس دانوں نے  ایک عبوری مرحلے رکھا ہے ، چھپ کر گھات لگائے بیٹھا ہے  جو کسی بھی وقت مکان و زمان کی ساخت کو فنا کر سکتا ہے ۔

     جب ہم پانی کو ٹھنڈا کرتے ہیں تو وہ برف میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس کے خواص  بھی بدل جاتے  ہیں  ۔اس جاندار کے لئے جو پانی میں زندہ رہتا ہے   اس کی دنیا اس وقت بدل جائے گی جب پانی برف بن جائے گا۔ پانی برف بنتے ہوئے مرحلے میں توانائی کو کھو دیتا ہے۔ اگر سرد علاقہ میں موجود سردیوں کے زمانے میں آپ کبھی اپنی پانی کی بوتل رات کو گاڑی میں بھول جائیں تو تھوڑی دیر بعد آپ دیکھیں گے کہ پانی اس وقت بھی مائع حالت میں موجود ہے مگر جیسے ہی آپ اس بوتل کو ہاتھ لگائیں گے ویسے ہی اس میں موجود تھوڑی سی برف  تیزی سے پھیلتی ہوئی تمام پانی کو جما دے گی۔ تیزی سے ہوتی ہوئی اس تبدیلی کا نام ہے  عبوری مرحلہ ہے  اور حیرت انگیز طور پر یہ ہی چیز خالی خلاء میں بھی واقع ہو سکتی ہے۔ ہمیں اس بات کی سمجھ تو آ گئی ہے کہ خالی خلاء کو ہلکا نہیں لینا چاہئے۔ خلاء جس کو ہم عدم کہتے ہیں درحقیقت نہایت ہی پائیدار ہے۔ ہو سکتا ہے کہ خالی خلاء میں موجود ذخیرہ شدہ   توانائی نکلنے کے لئے اس عبوری مرحلے کے وقوع پذیر ہونے کے انتظار میں ہو۔ اگر واقعی میں ایسا ہوا تو ہمیں طبیعیات کے قوانین کو تبدیل کرنا پڑ جائے گا۔ اچانک ہوئی کوئی بھی تبدیلی خلاء میں زمان و مکان میں اس عبوری مرحلے کو شروع کر سکتی ہے جس سے ایک چھوٹا سا نیا بلبلہ نئی کائنات کو پھیلاتا ہوا پرانی کائنات کو ختم کر سکتا ہے۔

    سائنس دانوں کو پورا یقین ہے کہ ایسا ہو سکتا ہے کیونکہ ایسا پہلے بھی ہوا ہے۔ بگ بینگ کے وقت پیدا ہوئی نوزائیدہ کائنات آج نظر آنے والی کائنات سے بالکل مختلف تھی۔ گرم اور بغیر شکل و صورت والی کائنات جہاں نہ تو مادّہ تھا نہ ہی وقت تھا۔ جہاں ہمارے جانے پہچانے طبیعیات کے قوانین مختلف تھے۔ اچانک ایک سیکنڈ کے دس کھربویں حصّے میں کسی چیز نے عبوری مرحلے کو شروع کرنے کے لئے  لبلبی دبا دی۔ ایک چھوٹے سے بلبلے نے اس کائنات کو شکل و صورت دے دی جس میں ہم اب رہتے ہیں اور اس نے بننے کے  ساتھ ہی دوڑ لگا دی اور ہر اس چیز کو تباہ و برباد کر دیا جو اس کی راہ میں آیا بالکل اسی طرح جس طرح برف پانی میں پھیل گئی تھی۔ اس نقطے سے نکلتی ہوئی توانائی نے زمان و مکان جس میں ہم رہتے ہیں  اور مادّے کی بنیادی اینٹوں  اور ان قوّتوں کو بنایا جن کے تابع یہ سب چیزیں ہیں۔ اس میں سے ہی تمام توانائی نکلی ہے ، تمام مادّہ اس سے ہی پیدا ہوا ہے  وہ تمام روشنی جو ہم آج دیکھتے ہیں اسی سے بنی ہے۔

     پرانی کائنات میں موجود توانائی نئی بننے والی کائنات کی توانائی سے ہار مان لیتی ہے۔ مگر پرانی کائنات اپنی توانائی خلاء میں ذخیرہ کر دیتی ہے۔ خلاء کا خالی حصّہ اب بھی اس توانائی کو تھام کر رکھتا ہے۔ شاید یہ ہی تاریک توانائی  ہوتی ہے جس کو ہم آج محسوس کرتے ہیں۔ سائنس دانوں کو یقین ہے کہ مستقبل میں کبھی ایسا ہو سکتا ہے جب بالکل کوئی نیا واقعہ  زمان و مکان کی ساخت میں عبوری مرحلے کو شروع کر دے جو موجودہ کائنات کو ہم سمیت ان تمام چیزوں کو جن کو ہم دیکھتے ہیں فنا کر دے۔  یہ ایک ایسا طریقہ ہے جس میں ایک پوری کائنات تباہ ہو جاتی ہے کیونکہ اس کے اندر ہی اس کی تباہی کے بیج بوئے ہوئے ہیں۔ یہ روشنی کی رفتار سے پھیلے گی اور تمام کہکشاؤں کو ویران کرتی ہوئی مکمل طور پر ہماری کائنات کو تباہ کر دے گی۔ اس عبوری مرحلے میں کوئی بھی چیز بھی  باقی نہیں رہ سکتی۔ جیسے ہی نئی کائنات کا بلبلہ پرانی کائنات سے ٹکرائے گا پرانی کائنات میں موجود سارے سیارے، سحابیہ ، کہکشائیں  سب کے سب ریزہ ریزہ ہو جائیں گے۔

     نئے بلبلے میں پروٹون غیر پائیدار شکل میں موجود ہوں گے۔ ایٹم نئے مادّے کی شکل میں ڈھل رہے ہوں گے ۔ یہ نئے کائناتی بلبلے پرانی کائنات کی لاش پر ہی پھل پھولتے ہیں اور نئے قوانین طبیعیات بناتے ہیں۔ پھیلتی ہوئی کائنات ہو سکتا ہے کہ کسی ایسی ہی عبوری مرحلے میں ختم ہو جائے۔ مگر ہمیں اس بات کا نہیں معلوم کہ وہ کیا چیز ہوگی جس سے قوانین طبیعیات  میں تبدیلی وقوع پذیر ہوگی  اور ہم چشم زدن میں اس کے وقوع پذیر ہوتے ہی غائب ہو جائیں گے۔ یہ کائناتی بلبلہ روشنی کی رفتار سے پھیلے گا اور جیسے ہی یہ نیا کائناتی بلبلہ ہم تک پہنچے گا ہمارے جسم کے تمام ایٹم اپنی ترتیب بدل لیں گے اور ہمیں پتا بھی نہیں لگے گا۔ ہمیں اس بات کی خبر بھی نہیں ہوگی کیونکہ کائناتی بلبلہ روشنی کی رفتار سے پھیل رہا ہوگا۔ ہم اس بات اندازہ نہیں لگا سکتے کہ ایسا کب ہوگا ۔ہم صرف امکانات کا جائزہ ہی لے سکتے ہیں۔ ہم صرف اس کے ہونے کی شرح کا اندازہ ہی لگا سکتے ہیں۔ کیا یہ سال میں ایک دفعہ ہوگا؟١٠ ارب سال میں ایک دفعہ ہوگا یا  ایک گوگول سال میں ہوگا ۔ اس بات کا کافی امکان ہے کہ ایسے بلبلے ہر ١٠ یہ ٢٠ ارب سال میں ایک دفعہ پیدا ہوتے اور پھیلتے ہیں۔

     ہم خوش قسمت ہیں کیونکہ ایسا ابھی تو نہیں ہوا ۔ ضروری نہیں ہے کہ یہ اس سال یا  اس کے بعد وقوع پذیر ہو مگر قوانین طبیعیات اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ ایسا ہو ضرور سکتا ہے۔ عبوری مرحلہ وقوع پذیر ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی۔ کائنات نے ابھی اپنا سارے ترپ کے پتے ہمیں نہیں  دکھائے ہیں ۔ کائنات  اپنے اسرار ایک ہی بار میں اور ہمیشہ کے لئے افشاء نہیں کر دیتی۔ کیا پتا تاریک توانائی  اور تاریک مادّے   کی طرح کائنات میں اور بہت ساری حیرت انگیز چیزیں چھپی ہوں۔ وہ حیرت انگیز چیزیں جو کائنات کے اسرار کو اور بڑھا دیں ۔ کائنات کیا کھیل کھیل رہی ہے ہم زیادہ نہیں جانتے۔ ہم دریافتوں کے دور میں جی رہے ہیں۔ شاید یہاں ایسی بہت سی باتیں موجود ہیں جن کے بارے میں ہم زیادہ نہیں جانتے۔ لہٰذا ہمیں اس وقت تک حتمی فیصلہ صادر نہیں کرنا چاہئے جب تک ہمارے پاس کافی ثبوت جمع نہ ہو جائیں ۔ہم تاریک توانائی  کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتے  اور اس جانکاری کے بغیر کچھ بھی ممکن ہے۔ مستقبل اب بھی غیر یقینی ہے جس کا مطلب ہے کے کائنات کا مقدر اب بھی ایک اسرار میں ہی ڈوبا ہوا ہے اور اس  بات کی کھوج ہی سائنس دانوں کے لئے نہایت ہیجان انگیز ہے۔





    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: کائنات کا انجام Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top