Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    پیر، 16 دسمبر، 2019

    سائنس ڈائجسٹ - شمارہ مئی-جون 1991


    کچھ عرصے پہلے "جہان سائنس" کے فیس بک پیج پر ایک پوسٹ کی تھی۔ جس میں اپنی اس خواہش کا اظہار کیا گیا تھا کہ سائنس پر اردو میں لکھی گئی ان پرانی کتب کو جمع کیا جائے جو کم از کم 15 یا 20 سال سے شائع نہیں ہوئی۔ ان تمام کتب کو اسکین کروا کر منظم انداز میں انٹرنیٹ پر کسی ایک جگہ جمع کیا جاسکے جہاں سے اپنی پسند کے موضوع کو آسانی سے ڈھونڈا جاسکے۔

    سائنسی کتب کے ساتھ ساتھ سائنس کے پرانے رسالے بھی ڈھونڈ کر ایک جگہ جمع کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اسی سلسلے میں اس سے پہلے بھی "اردو ماہنامہ سائنس نئی دہلی" اور "سہہ ماہی سائنس" کے شماروں کی پوسٹ شائع کی تھی۔ اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے آج "سائنس ڈائجسٹ" کا شمارہ مئی-جون 1991 کا اشتراک آپ کے ساتھ کیا جارہا ہے۔

    شمارے کے کچھ مضامین اور ان کا تعارف 


    1.ایچ ای جے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر پروفیسر عطاء الرحمن سے ملاقات

    انٹرویو نگار رضی الدین خان، میر اقبال علی عثمانی 

    ایٹم کی طاقت اور توانائی کا کوئی حساب نہیں ساری دنیا اس سے بخوبی آگاہ ہے۔ لیکن ایٹم کی اصل توانائی اس کے اندر موجود مرکزے یعنی مرکز میں پنہاں ہوتی ہے جو اس توانائی کا منبع و مبدا ہوتا ہے۔ کراچی یونیورسٹی کو اگر ایٹم تصور کیا جائے تو اس کا مرکزہ اس کے اندر واقع ایک انسٹی ٹیوٹ ہے جسے اندر و باہر والے ایچ ای جے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف کیمسٹری کے نام سے جانتے ہیں۔ دراصل یہ انسٹی ٹیوٹ یو نیورسٹی کے اندر خود ایک علیحدہ یونیورسٹی ہے جس پر یونیورسٹی کی غیر صحت مندانہ اور غیر نصابی سرگرمیوں کا سایہ نہیں پڑتا اور کلاشنکوف چلے، لاٹھی چارج ہو یا محض ہاتھا پائی اس انسٹی ٹیوٹ کی تدریسی اور تحقیقی سرگرمیاں مسلسل جاری رہتی ہیں۔ دراصل جنوں کی اس بستی کا ہر باسی پاکستان کے عام مزاج اور ماحول سے بالکل مختلف ہے۔ یہ انسٹی ٹیوٹ دو عظیم جن نما انسانوں کا تعمیر کردہ ہے جنہیں ساری دنیا پروفیسر سلیم الزماں صدیقی اور پروفیسر عطاء الرحمن کے ناموں سے پہچانتی ہے۔ ہم اپنے قارئین کو اسی عالمی شہرت یافتہ انسٹی ٹیوٹ میں لیے جلتے ہیں جس کے بارے میں پڑھ اور سن کر بالکل حیرت زدہ رہ جاتے ہیں۔

    2.ہمارے معاشرے پر سائنسی صحافت کے اثرات

    رضی الدین خان۔ مدیر اعلی سائنس  ڈائجسٹ

    یہ مقالہ ”سائنس اور ٹیکنالوجی رپورٹنگ" پر اسلام آباد میں 28 اپریل 1991ء سے 12 مئی 1991ء تک منعقد ہونے والے پندرہ روزہ ورکشاپ میں پیش کیا گیا۔ اس ورکشاپ کا اہتمام وزارت سائنس و ٹیکنالوجی، پاکستان سائنس فاؤنڈیشن اور پاکستان کونسل برائے سائنس اور ٹیکنالوجی نے برطانیہ کے تھامسن فاؤنڈیشن کے اشتراک سے کیا تھا جس کےکنسلٹنٹ جناب عمر ستار تھے۔

    3.بم کے ذریعے ہلاکت

    ناصر معین 

    کہتے ہیں جان ہر کسی کو پیاری ہوتی ہے لیکن وہ کیسے بیوقوف، ظالم اور بزدل لوگ ہوتے ہیں جو خود کش بمبار بن جاتے ہیں۔ اپنے جسم کے ساتھ اس طرح بم باندھنا کہ مقتول کے ساتھ ساتھ خود کے بھی پرخچے اڑنے والے ہوں بہت ہی ظالمانہ اور بیوقوفانہ کام ہے۔

    گزشتہ چند برسوں کے دوران وطن عزیز نے ان گنت خود کش حملوں کا سامنا کیا جس میں ہزاروں بے گناہوں نے جام شہادت نوش کیا۔ بم دھماکے میں آنا فانا لمحہ بھر پہلے جیتے جاگتے انسانوں کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتے ہیں۔
    "سائنس ڈائجسٹ" کا یہ شمارہ ہے تو اگرچہ 1991 کا تاہم اس میں بم اور دھماکہ خیز مادوں کے بارے میں لکھا گیا یہ مضمون پڑھنے کے لائق ہے۔

    4.رنگوں کا فلسفہ حکمت 

    آصف علی یاور

    آئن اسٹائن کی رو سے  روشنی ایک توانائی ہے۔ یہ توانائی  سات مختلف رنگوں سے مل  کر بنی ہے۔ یہ  ساتوں رنگ کائنات کی جاندار اور بے جان اشیاء پر مختلف انداز سے اثرانداز ہوتے ہیں۔ رنگوں کے اسی فلسفے اور حکمت کے بارے میں آصف علی یاور کا یہ  دلچسپ مضمون ملاحظہ کیجیئے  جس میں ان کے اپنے خیالات مشاہدات اور تجربات میں شامل ہیں۔

    5.ایڈز عذاب الہی 

    راجہ سلیم انور

    جدید تحقیقات کے مطابق ایڈز وائرس اتنی جلدی اور آسانی سے خون میں داخل نہیں ہو سکتے جیسے کہ تپ دق کے جراثیم کھانسی کے ذریعے ملیریا کے جراثیم مچھر کے کاٹنے سے یا ہیضہ کے جراثیم گندگی کی وجہ سے پھیلتے ہیں۔ ایڈز وائرس دوسرے وائرسوں کی طرح بہت باریک ہوتا ہے اور یہ بصری یا سادہ خوردبین سے نظر نہیں آ سکتا۔ یہ وائرس کیمیائی پیکٹ کی صورت میں ہوتے ہیں۔ ان کے اندر زیادہ تر نامیاتی مرکبات پائے جاتے ہیں۔ یہ نامیاتی مرکبات نیوکلیئک ایسڈز پر مشتمل ہوتے ہیں اور ان کے باہر پروٹینز کی ایک دیوار ہوتی ہے۔ یہ وائرس زندہ اجسام کے اندر عامل ہوتے ہیں اور ان کے باہر سست اور غیر عامل ہوتے ہیں۔

    6.تصویر کائنات کے رنگ

    بدرالدجی خان

    اللہ تعالی نے اس دنیا کو بے حد خوبصورت بنایا اور اس میں مختلف رنگ سجا دیئے لیکن انسان صنعتی ترقی اور خوش حالی کے نام پر اس رنگ میں بھنگ ڈال رہا ہے اور ہر سال لاکھوں ٹنوں کے حساب سے کرہ ارض کی مٹی، پانی اور ہوا کو آلودہ اور زہریلا کرتا جا رہا ہے۔ انسانوں کے پیدا کردہ اس مشترک خطرے سے نبٹنے کے لئے سبھی انسانوں کو مشترک جدوجہد کرنا ہوگی۔

    7.زیست کا ارتقاء 

    نزہت غزالہ

    برف کا ہر زمانہ کئی لاکھ سال پر محیط ہے۔ انہی برفانی ادوار میں نوع انسان سے ملتی جلتی اشکال پائی گئیں۔ ارتقائے انسانی کے سلسلے کی پہلی کڑی "جاوا" اور "پیکنگ" کے انسان ہیں جن کا تعلق پہلے اور دوسرے برفانی ادوار سے ہے۔ پہلے ہارا ۱۸۹ء میں انسان اور گوریلے سے ملتی جلتی کھوپڑی برآمد ہوئی ا سے "جاوائی انسان" کہا گیا۔ اس کے بعد 1928ء میں دوسری آدمی نما شکل چین میں پیکنگ کے قریب دریافت ہوئی جسے "پیکنگ کا انسان" کہا جاتا ہے۔!

    8.ایٹمی مسائل 

    محبوب احمد

    تین فی صد انشقاقی یورینیم حاصل کرنے کے لیے قدرتی یورینیم کو مختلف مراحل سے گزارنا پڑتا ہے۔ ایٹم میں نوے فیصد انشقاقی یورینیم استعمال کی جاتی ہے۔ نیوٹران ایٹم بم میں، ایٹم بم ہائیڈروجن بم میں اور ہائیڈروجن بم انسانیت کو راکھ کے ڈھیر میں بدلنے کے لیے ماچس کی تیلی کا کام کرتے ہیں۔


    9.کمپیوٹر کی زبانیں 

    شفیق احمد

    انسانوں کی طرح کمپیوٹر صرف اپنی زبان سمجھتا ہے اگر اس سے اسی کی زبان میں بات کی جائے یا کام دیا جائے تو پھر وہ اسی کے حساب سے نتائج بھی دیتا ہے۔ کمپیوٹر کی مختلف زبانوں کے بارے میں ابتدائی تعارفی مضمون ملاحظہ کیجئے۔

    10.کوارک اور لیپٹون 

    طارق احسان  

    کوارک کا پہلا نمونه1974ء میں جوگیش سی پیٹی نے جن کا تعلق کالج پارک کی یونیورسٹی آف میری لینڈ سے ہے اور اٹلی میں واقع نظری طبیعیات کے مرکز کے ڈائریکٹر پروفیسر عبدالسلام اور جان اسٹارتھ ڈی نے پیش کیا تھا۔ ان ہی تین سائنسدانوں نے "پری کوارک" کی اصطلاح ایجاد کی۔ پروفیسر سلام اور پروفیسر پیٹی نے کوارک کے اندرونی ذرات کو "پریون" (PREON) کا نام دیا ہے۔ شاید کوارک اور لیپٹون کی ساخت کے بارے میں سب سے زیادہ سادہ  نمونہ ایک اسرائیلی سائنس داں "ہائم ہراری" نے 1979ء میں پیش کیا۔ اسی طرح کا ایک خیال یونیورسٹی آف الینوائے کے مائیکل اے شوپے نے پیش کیا۔ اس نمونے کو بعد میں وائزمین انسٹی ٹیوٹ میں ہائم ہراری اور ناتھن سی برگ نے مزید تفصیل سے جانچا اور اس کا تجزیہ کیا ہے۔


    نوٹ:1.سائنس ڈائجسٹ کے آغاز کے بارے میں اگر کسی کے پاس معلومات موجود ہوں تو وہ کمنٹس میں بتاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر کسی کے پاس "جدید سائنس"، "سائنس ڈائجسٹ"، "کاروان سائنس"، "سائنس میگزین"، "طالب علم"، "الیکٹرانک ڈائجسٹ"، "اخبار سائنس"، "اردو سائنس میگزین" یا "عملی سائنس" کے پرانے شمارے دستیاب ہیں تو وہ بھی مجھ  سے رابطہ کرسکتا ہے میں اسے قیمتا خریدنے میں دلچسپی رکھتا ہوں۔
    2.اس شمارے کا سرورق دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے دوسرے شمارے کا سرورق لگایا گیا ہے۔

    سائنس ڈائجسٹ کو بند ہوئے کم از کم 18 برس ہوچکے ہیں۔ ان کے دئیے گئے ای میل ایڈریس پر میں نے بارہا رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہ مل سکی۔ سائنس ڈائجسٹ کے کچھ شمارہ جات اردو محفل کے رکن جناب انیس الرحمن صاحب نے فراہم کئے ہیں۔ سائنس ڈائجسٹ کے اس  شمارے کا اشتراک نیک نیتی کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ 

    #جہان_سائنس #اردو #سائنس #سائنسی_رسالے #سائنس_ڈائجسٹ #سائنسی_کتب #سائنسی_رسالے
    #jahanescience


    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: سائنس ڈائجسٹ - شمارہ مئی-جون 1991 Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top