Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    جمعہ، 28 اگست، 2015

    ١٢۔ وقت میں سفر


       وقت میں سفر

    اگر وقت میں سفر ممکن ہے ، تو پھر مستقبل سے آنے والے مسافر کہاں ہیں؟

    -        ا سٹیفن ہاکنگ

    "[وقت میں سفر ] خلافِ عقل ہے"۔ فلبی نے کہا
    "کس عقل کے خلاف ؟"وقت کے مسافر نے پوچھا۔

    -        ایچ۔ جی۔ ویلز

    جانس اکویشن (Janus Equation)  میں مصنف  "جی۔ا سپریول" (G. Spruill)  نے وقت کے سفر کے ایک انتہائی کرب ناک  مسئلہ پر روشنی ڈالی۔ اس شاندار کہانی میں ایک انتہائی ذہین ریاضی دان جس کا مقصد وقت کے سفر کا راز جاننا تھا وہ ایک انتہائی خوبصورت اور اجنبی خاتون سے ملتا ہے  اور پھر دونوں ایک دوسرے کے عاشق و معشوق بن جاتے ہیں ہرچند وہ اس کے ماضی کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ پھر وہ اس کے اصل ماضی کو جاننے کے تجسس میں کھو جاتا ہے۔ آخر کار اس پر یہ بات آشکار ہوتی ہے کہ اس خاتون نے پلاسٹک سرجری کروا کر اپنی ماضی کی شکل و صورت کو بدل لیا تھا۔ اس کو مزید یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس نے اپنی جنس کو تبدیل کرنے کا آپریشن بھی کروایا تھا۔ آخر میں اس کو پتا چلتا ہے کہ وہ خاتون اصل میں وقت کی مسافر تھی جو مستقبل سے آئی تھی  اور وہ کوئی اور نہیں وہ تھی ۔ یعنی اصل میں "وہ" خود تھا جس کا تعلق مستقبل سے تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اس نے اپنے آپ سے محبت کی تھی۔ اب آپ حیرت سے سوچ رہے ہوں گے کہ اس وقت کیا ہوتا اگر ان دونوں کے کوئی اولاد ہو جاتی۔ اور اگر وہ بچہ پھر ماضی میں سفر کرتا اور کہانی کے شروع میں جا کر پھر سے ریاضی دان بن جاتا  تو کی یہ ممکن ہوتا کہ وہ خود سے اپنی ماں ، باپ ، بیٹا یا بیٹی بن سکتا؟

    ماضی میں تبدیلی


     
    سینٹ آگسٹین
    وقت کائنات کے عظیم اسراروں میں سے ایک اسرار ہے۔ ہم وقت کے دھارے میں اپنی مرضی کے خلاف بہے جا رہے ہیں۔٤٠٠ برس بعد مسیح  میں "سینٹ آگسٹین" (Saint Augustine) نے وقت کی متناقص نوعیت کے بارے میں کافی تفصیل سے لکھا ہے :"ماضی اور مستقبل کیسے ہو سکتے ہیں ، جبکہ ماضی تو گزر چکا ہے اور مستقبل ابھی آیا نہیں ہے ؟اور حال ہمیشہ حال ہی رہے اور کبھی بھی ماضی بننے کے لئے آگے نہیں بڑھے تو وہ وقت نہیں ابدیت ہوگی۔" اگر ہم سینٹ آگسٹین کی منطق کو آگے مزید بڑھائیں  تو ہم دیکھیں گے کہ وقت کا ہونا ممکن نہیں ہے کیونکہ ماضی گزر چکا ہے ، مستقبل کا کوئی وجود نہیں ہے اور حال صرف ابھی کے لئے ہے۔(سینٹ آگسٹین نے پھر ایک انتہائی عمیق اعتقادی سوال اٹھایا ہے جو اس بات سے بحث کرتا ہے کہ وقت کیسے خدا پر اثر انداز ہوتا ہے ، وہ سوالات جو آج بھی با مقصد  ہیں۔ اگر خدا ہر جگہ موجود ہے اور قادر مطلق ہے ، تو وہ لکھتے ہیں کہ کیا وہ (خدا ) بھی  وقت گزارنے کا پابند ہے ؟ دوسرے الفاظ میں کیا خدا بھی ہم فانی لوگوں کی طرح سے جلدی میں ہے کیونکہ اس کو اپنے کسی کام کے لئے دیر ہو رہی ہے ؟ سینٹ آگسٹین نے آخر میں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ خدا ہر جگہ موجود ہے لہٰذا وہ وقت کا پابند نہیں ہو سکتا  لہٰذا اس کا وجود وقت سے ماوراء ہے۔ اگرچہ وقت سے ماوراء کا تصوّر کچھ عجیب سا لگتا ہے ، مگر یہ خیال ایک ایسا خیال ہے جو جدید طبیعیات میں بار بار آتا ہے جیسا کہ ہم  آگے دیکھیں گے۔)

    سینٹ آگسٹین کی طرح ہم سب وقت کی عجیب نوعیت  اور وہ کس طرح سے خلاء سے مختلف ہے ، کے بارے میں متجسس رہتے ہیں۔ اگر ہم خلاء میں آگے پیچھے حرکت کر سکتے ہیں تو پھر وقت میں کیوں نہیں سفر کر سکتے ؟ ہم سب اس بارے میں سوچتے ہیں کہ مستقبل میں آنے والے برسوں میں ہمارے لئے کیا رکھا ہوا ہے۔ انسانوں کا عرصہ حیات محدود ہے  اس کے باوجود ہم ان واقعات کے بارے میں بہت زیادہ تجسس میں رہتے ہیں جو ہمارے گزرنے کے لمبے عرصے بعد وقوع پذیر ہوں گے۔

     اگرچہ ہمارا وقت میں سفر کرنے کا خواب اتنا ہی قدیم ہے جتنی قدیم انسانیت ہے ، بظاہر طور پر سب سے پہلی وقت میں سفر کی کہانی "میمورس آف دی ٹوینتھ سنچری "  ١٧٣٣ء میں " سیموئیل میڈن" (Samuel Madden) نے ایک فرشتے کے بارے میں لکھی جس کا تعلق ١٩٩٧ء سے تھا اور جس نے ٢٥٠ برس کا سفر ماضی میں طے کیا تھا  تاکہ برطانیہ کے اتاشی کو وہ دستاویزات دے دے جو اس بات کو  بیان کرتی ہیں کہ مستقبل میں  دنیا کس طرح کی ہو جائے گی۔

    اس طرح کی کئی اور کہانیاں بھی ہوں گی۔ ١٨٣٨ کی مختصر کہانی "مسنگ ونس کوچ :این اناکورونزم ،" جس کو نامعلوم مصنف نے لکھا تھا  یہ کہانی اس شخص کی تھی جو ایک کوچ کا انتظار کر تے ہوئے اچانک  غائب ہو کر ایک ہزار سال پہلے کے دور میں چلا جاتا ہے ۔ وہاں  وہ ایک خانقاہ کے راہب کے ساتھ ملتا ہے اور اس کو یہ بات سمجھنے کی کوشش کرا تا ہے کہ کسی طرح سے تاریخ اگلے ایک ہزار برس میں آگے بڑھے گی۔ اس کے بعد پھر وہ  اچانک  سے اپنے آپ کو ویسے ہی  پراسرار طریقے سے حال میں پاتا ہے  بجز اس کے کہ اس کا کوچ موجود نہیں ہوتا۔


     ١٨٤٣ء کا چارلس ڈکنز کا ناول ، اے کرسمس کیرول  بھی ایک طرح سے وقت کے سفر کی کہانی ہے ، کیونکہ ایبینیزر اسکروج (Ebenezer Scrooge)  کو ماضی میں  اور مستقبل دونوں میں لے جایا جاتا ہے تاکہ وہ حال سے پہلے ماضی کی دنیا اور اپنے مرنے کے بعد مستقبل کی دنیا کا مشاہدہ کر سکے  کہ وہ کیسی ہوگی ۔        
     ١٨٤٣ء کا چارلس ڈکنز کا ناول ، اے کرسمس کیرول  بھی ایک طرح سے وقت کے سفر کی کہانی ہے
    امریکی ادب میں سب سے پہلے وقت کے سفر کا ذکر مارک ٹوائن کے ١٨٨٩ء کے ناول "اے کنیکٹیکٹ یانکی ان کنگ آرتھر س کورٹ" میں ملتا ہے ۔ انیسویں صدی کے  ایک یانکی کو وقت میں پیچھے کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے تاکہ آرتھر  کے کورٹ کو ٥٢٨ بعد مسیح میں ختم کر دے۔ اس کو قیدی بنا لیا جاتا ہے اور مفاد عامہ کے پیش نظر اس کو جلانے کی تیاری کی جاتی ہے  اس وقت وہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ  سورج پر داغ لگا سکتا ہے کیونکہ اس کو معلوم ہوتا ہے کہ اس دن سورج گرہن ہوگا۔ جب سورج کو گرہن لگتا ہے تو مجمع ڈر جاتا ہے اور اس کو آزاد کرنے کے لئے راضی ہو جاتا ہے اور سورج کو واپس اصل حالت میں لانے کے بدلے میں اس کو خصوصی اختیارات عطا کر دیئے جاتے ہیں۔

     
    امریکی ادب میں سب سے پہلے وقت کے سفر کا ذکر مارک ٹوائن کے ١٨٨٩ء کے ناول "اے کنیکٹیکٹ یانکی ان کنگ آرتھر س کورٹ" میں ملتا ہے ۔
     مگر سب سے سنجیدہ کوشش جو وقت کے سفر کو قصص میں بیان کرنے کی گئی  وہ ایچ جی ویلز کی کلاسک "دی ٹائم مشین " ہے جس میں ہیرو کو سینکڑوں ہزاروں سال مستقبل میں بھیجا جاتا ہے۔ کافی دور مستقبل میں انسانیت خلقی طور پر دو ذاتوں میں منقسم ہو جاتی ہے  ایک خطرناک " مور لاکس"   جو گندی زیر زمین مشینیں  رکھتے ہیں اور ایک بیکار بچوں جیسے "ایلوئے"  جو سورج کی دھوپ میں سطح زمین پر رقص کرتے ہوئے اپنے ہولناک مستقبل سے بے فکر ہوتے ہیں (کہ ان کو مور لاکس کھا جائیں گے )۔

     
     ایچ جی ویلز کے  کلاسک  ناول "دی ٹائم مشین " میں وقت کے سفر کو بیان کیا گیا  ہے
     اس کے بعد سے وقت میں سفر سائنسی قصص اسٹار ٹریک سے لے کر بیک ٹو دی فیوچر تک کا باقاعدہ وطیرہ بن گیا۔ فلم سپرمین I میں جب سپرمین کو معلوم چلتا ہے کہ لوئس لین مر چکی ہے ، تو وہ  مایوسی کی حالت میں وقت کو واپس پلٹتا ہے۔ وہ تیزی سے سریع از نور رفتار سے زمین کی مخالفت میں گردش شروع کر دیتا ہے یہاں تک کہ وقت واپس پیچھے پلٹ جاتا ہے۔ پہلے زمین آہستہ ہوتی ہے اور پھر آخر میں الٹی  طرف گھومنے لگتی ہے یہاں تک کہ زمین پر موجود تمام گھڑیاں الٹی چلنے لگتی ہیں۔ سیلابی پانی واپس چلے جاتے ہیں ، ٹوٹے ہوئے ڈیم معجزانہ طور پر جڑ جاتے ہیں اور لوئس لین موت سے حیات کی جانب پلٹ آتی ہے۔ 


    آئن سٹائن  نے ثابت کر دیا تھا  کہ وقت ایک دریا کی مانند ہے  جو پوری کائنات میں پیچیدہ راستوں پر بہ رہا ہے۔

    سائنسی نقطہ نگاہ سے وقت میں سفر نیوٹن کی کائنات میں  ناممکن ہے جہاں وقت کو ایک تیر کی طرح سے دیکھا جاتا ہے۔ ایک دفعہ تیر کمان سے نکل گیا تو پھر وہ اپنے راستے سے نہیں ہٹے گا۔ زمین پر ایک سیکنڈ پوری کائنات میں ایک سیکنڈ کے برابر ہے۔ یہ نظریہ آئن سٹائن نے اٹھا کر پھینک دیا جس نے ثابت کر دیا تھا  کہ وقت ایک دریا کی مانند ہے  جو پوری کائنات میں پیچیدہ راستوں پر بہ رہا ہے۔   یہ کہکشاؤں اور ستاروں میں سے گزرتا ہوا کبھی تیز رفتار ی سے  بہتا ہے تو کبھی آہستہ  بہتا ہے۔ لہٰذا زمین پر گزرنے والا ایک سیکنڈ مطلق نہیں ہے ؛  وقت کے گزرنے کا عمل ہمارے کائنات میں سفر سے مشروط ہے  یہ کائنات میں مختلف شرح سے چلتا ہے۔

    جیسا کہ میں نے پہلے اس بات سے بحث کی ہے کہ آئن سٹائن کی خصوصی نظریہ اضافیت کے مطابق وقت راکٹ کے اندر اتنا دھیما ہو جائے گا جتنا تیز وہ سفر کرے گا۔ سائنسی قصصی مصنف اس بات کی پیش گوئی کرتے ہیں کہ اگر آپ نے روشنی کی رفتار کی حد کو توڑ دیا تو آپ ماضی میں سفر کر سکیں گے۔ مگر یہ بات ممکن نہیں ہے کیونکہ روشنی کی رفتار کی حد تک پہنچنے کے لئے آپ کو لامحدود کمیت کی ضرورت ہوگی۔ روشنی کی رفتار کسی بھی راکٹ کے لئے حد رفتار ہے۔ اسٹار ٹریک IV:دی ووئی ایج  ہوم میں  انٹرپرائز کے عملے نے ایک کلنگون کا خلائی جہاز اغواء کرلیا اور پھر غلیل کی طرح سے سورج کی جانب غوطہ لگا کر روشنی کی رفتار کی حد کو توڑ دیا  تاکہ وہ سان فرانسسکو  میں ١٩٦٠ء کی دہائی میں نکل آئے۔ مگر یہ قوانین طبیعیات کی رو سے ممکن نہیں ہے۔

     
    زمین کی نسبت تیز رفتار راکٹ میں وقت سست رفتاری سے گزرے گا 
    اس بات سے قطع نظر کہ مستقبل میں وقت کا سفر ممکن ہے اور اس بات کو دسیوں لاکھوں دفعہ تجربات کی رو سے ثابت کیا جا چکا ہے۔ دی ٹائم مشین کے ہیرو کا مستقبل کا سفر حقیقت میں ممکن ہے۔ اگر کوئی خلا نورد روشنی کی رفتار سے سفر کرے تو اس کو شاید قریبی ستارے تک پہنچنے کے لئے ایک منٹ کا عرصہ لگے گا۔ جبکہ زمین پر چار سال کا عرصہ گزرے چکا ہوگا لیکن  اس کے لئے صرف ایک منٹ ہی گزرا ہوگا کیونکہ راکٹ کے اندر وقت کے گزرنے کی رفتار آہستہ ہو جائے گی۔ اس طرح سے اس نے زمین پر گزرے وقت کے مطابق چار سال مستقبل میں سفر کیا ہوگا۔(ہمارے خلا نورد بھی مستقبل کے مختصر سفر میں ہر دفعہ اس وقت محو سفر ہوتے ہیں جب وہ باہری خلاء میں جاتے ہیں۔ کیونکہ وہ ١٨ ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے  زمین کے اوپر سفر کرتے ہیں لہٰذا ان کی گھڑیاں زمین پر موجود گھڑیوں کے مقابلے میں آہستہ چلتی ہیں۔ لہٰذا ایک سال کی خلائی ا سٹیشن پر مہم گزارنے  کے بعد جب وہ زمین پر لوٹتے ہیں تو  اصل میں انہوں نے سیکنڈ کے کچھ حصّے میں مستقبل کا سفر کیا ہوتا ہے۔ ابھی تک سب سے زیادہ مستقبل کا سفر روسی خلا نورد "سرگئی ایودیوف"  (Sergei Avdevyev) کے پاس ہے جنہوں نے زمین کے گرد ٧٤٨ دن تک چکر لگایا  جس کے نتیجے میں وہ مستقبل میں0.02  سیکنڈ آگے چلے گئے۔)

     
    روسی خلا نورد "سرگئی ایودیوف"
    لہٰذا ایک ایسی ٹائم مشین جو ہمیں وقت میں آگے لے جائے وہ آئن سٹائن کی خصوصی اضافیت کے نظریہ سے میل کھاتی ہے۔ مگر وقت میں پیچھے جانے کا بارے میں کیا خیال ہے ؟

    اگر ہم وقت میں پیچھے کی طرف سفر کر سکیں  تو تاریخ کو لکھنا ناممکن ہوگا۔ جیسے ہی مورخ تاریخ لکھے گا ، کوئی بھی ماضی میں جا کر اس کو دوبارہ سے درج کر دے گا۔ ٹائم مشین نہ صرف مورخوں کی چھٹی کر دے گی بلکہ وہ ہمیں بھی اس بات کے قابل کر دے گی کہ ہم اپنی مرضی سے وقت کو بدل دیں۔ مثال کے طور پر اگر ہم واپس ڈائنو سارس کے دور میں چلے جائیں  اور اس فقاریے پر پیر رکھ دیں جس نے آگے چل کر ہمارا ارتقاء کرنا تھا  تو شاید ہم پوری انسانیت ہی کو ختم کر ڈالیں گے۔ تاریخ ایک نا ختم ہونے والا باب بن جائے گی  کیونکہ مستقبل سے آنے والے مسافر اس بات کی کوشش میں ہوں گے کہ تاریخ کو ایسا کر دیا جائے جس میں ان کا کردار سب سے اعلیٰ و ارفع نظر آئے۔


    وقت میں سفر :طبیعیات دانوں  کے کھیل کا میدان


    شاید وہ شخص جس نے اپنے آپ کو بلیک ہول اور ٹائم مشین سے متعلق  ریاضی کی موٹی موٹی مساوات  سے سب سے زیادہ ممتاز کیا ہے وہ ماہر کونیات  اسٹیفن ہاکنگ ہے۔ اضافیت کے دوسرے طالبعلموں کی طرح جنہوں  نے اکثر اپنے آپ کو ریاضیاتی طبیعیات میں اپنے عہد شباب میں ہی ممتاز منوا لیا تھا ، ہاکنگ اپنی جوانی میں کوئی خاص قابل ذکر طالبعلم نہیں تھا۔ بظاہر طور پر وہ انتہائی روشن ہونے کے باوجود  اس کے استاد اکثر اس بات کو نوٹ کرتے تھے کہ وہ اپنی تعلیم پر زیادہ توجہ نہیں دیتا تھا  اور تعلیم حاصل کرنے کے لئے  اس نے کبھی بھی اپنی پوری قابلیت کا استعمال نہیں کیا تھا۔ لیکن پھر ایک ١٩٦٢ء میں نقطۂ انقلاب آیا ۔ اس نے آکسفورڈ سے جب سند حاصل کی اس کے بعد  پہلی دفعہ اس نے  بغلی دماغ کی خشکی  یا لو گیرگ بیماری(Amyotrophic lateral sclerosis, or Lou Gehrig’s Disease)   کی علامات کو محسوس کیا۔ اس خبر نے اس پر بجلی گرا دی جب اس کو معلوم ہوا کہ وہ موٹر نیوران جیسے  ناقابل علاج مرض کا شکار ہو گیا ہے۔  یہ مرض ان عصبانیوں کو تباہ کر دے گا جو اس کے جسم کے تمام  حرکت دینے والے افعال  کو قابو میں رکھتے ہیں نتیجتاً  وہ حرکت کرنے کے قابل نہیں رہے گا   اور جلد ہی دار فانی سے کوچ کر جائے گا۔ شروع میں تو یہ خبر انتہائی دل گرفتہ تھی۔ پی ایچ ڈی کرنے کا کیا فائدہ ہوتا جب اس نے جلد ہی مر جانا تھا ؟

      ایک دفعہ جب اسے یہ جھٹکا مل گیا تو پھر اس نے زندگی میں پہلی مرتبہ اپنی توجہ کو ایک جگہ مرتکز کرلیا ،  اس نے اضافیت کے انتہائی مشکل سوالات سے نمٹنا شروع کردیا۔١٩٧٠ء کی دہائی کے شروع میں ہی اس نے اپنے  امتیازی مقالوں کے سلسلے کو شایع کروانا شروع کیا  جس میں اس نے اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کی کہ آئن سٹائن کے نظریہ میں   "وحدانیت "(جہاں ثقلی قوّت لامتناہی بن جاتی ہے ، جیسے کہ کسی بلیک ہول کے مرکز میں اور بگ بینگ کی ساعت کے وقت ہوا تھا ) اضافیت کا ایک ناگزیر حصّہ ہے اور اس کو آسانی کے ساتھ نظر انداز نہیں کیا جا سکتا  (جیسا کہ آئن سٹائن سمجھتا تھا)۔١٩٧٤ء میں ہاکنگ نے اس بات کو بھی ثابت کر دیا کہ بلیک ہول مکمل طور پر بلیک نہیں ہیں ،  وہ بتدریج شعاعوں کا اخراج کر رہے ہیں  جس کو اب ہاکنگ کی اشعاع  کہتے ہیں کیونکہ اشعاع بلیک ہول کے ثقلی میدان سے بھی گزر کر نکل سکتی ہیں۔ اس مقالے نے   پہلی  دفعہ کوانٹم نظریہ کے عملی اظہار کو نظریہ اضافیت پر برتری حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا  اور یہ ابھی تک اس کا سب سے شاندار کام ہے۔

    جیسا کہ امید تھی ویسا ہی ہوا ۔ اس کی بیماری نے  آہستہ آہستہ اس کے  ہاتھ ، پیر اور زبان کو  مفلوج کر دیا۔ لیکن  بیماری کے اثر کی شرح اس سے کہیں سست رفتار تھی  جتنی کہ ڈاکٹروں کو شروع میں  امید تھی۔ اس کے نتیجے میں اس نے کئی حیرت انگیز سنگ میل عبور کر لئے جو عام لوگ عام زندگی میں حاصل کرتے ہیں۔ مثلاً  وہ تین بچوں کا باپ بن گیا۔  (اب تو وہ دادا بھی بن گیا ہے۔ )  اپنی پہلی بیوی کو طلاق دینے کے بعد  اس نے چار سال بعد اس شخص کی بیوی سے شادی کر لی جس نے اس کے لیے آواز کو پیدا کرنے والا آلہ بنایا تھا۔ بہرحال اپنی اس بیوی کو بھی اس نے ٢٠٠٦ء میں طلاق دینے کے لئے دستاویز کو جمع کروا دیا ہے۔ ٢٠٠٧ء میں اس نے اس وقت شہ سرخیوں میں جگہ حاصل کی جب وہ غیر ملک ایک جیٹ طیارے میں گیا جس نے اس کو بے وزنی کی حالت میں فضاء میں بلند کیا اور یوں  اس کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش پوری ہو گئی۔ اب اس کا  اگلا مقصد خلاء میں جانا ہے۔

     
    اسٹیفن ہاکنگ  کا  اگلا مقصد خلاء میں جانا ہے۔
     آج تو وہ مکمل طور پر اپنی ویل چیئر پر مفلوج ہے  اور دنیا  سے اس کا رابطہ صرف آنکھوں کے اشاروں سے رہتا ہے۔ اس مار دینے والی بیماری کے باوجود وہ اب بھی مذاق کرتا ہے ، مقالات لکھتا ہے ، لیکچروں کو دیتا ہے  اور مختلف قسم کے تنازعات  میں الجھا رہتا ہے۔ وہ اپنے آنکھوں کے اشاروں کے ساتھ  ان سائنس دانوں کی ٹیم کی بہ نسبت جن کو اپنے اوپر پورا قابو ہے کہیں زیادہ کام کا ہے ۔ (اس کے کیمبرج یونیورسٹی کے رفیق  سر مارٹن ریس ہیں  جن کو ملکہ نے شاہی فلکیات دان نامزد کیا ہے۔ ایک مرتبہ  انہوں نے مجھے بتایا کہ ہاکنگ کی بیماری اس کو تھکا دینے والے اعداد شمار کے حساب کتاب سے دور رکھتی ہے جس کے نتیجے میں وہ اس کھیل میں اپنے آپ کو  سر فہرست نہیں رکھ سکا لہٰذا اب وہ نئے اور تازہ خیالات کو تخلیق کرنے میں اپنی ساری توجہ صرف کیے ہوئے ہے جبکہ مشکل اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں اس کے طالبعلم ہی اس کی مدد کرتے ہیں۔)

    ١٩٩٠ء میں ہاکنگ نے جب اپنے رفقائے  کاروں کے مقالات کا مطالعہ کیا  جس میں ٹائم مشین کو بنانے کا ذکر تھا تو وہ فوری طور پر اس بارے میں متشکک ہو گیا۔ اس کے وجدان نے اس کو بتایا کہ وقت میں سفر کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ مستقبل سے آیا ہوا کوئی بھی مسافر موجود نہیں ہے۔ اگر وقت کا سفر کرنا اتنا آسان ہوتا کہ جیسے کسی سیر و تفریح پر جانا  تو مستقبل سے آئے ہوئے سیاح  اپنے کیمروں کے ساتھ ہمیں تنگ کرنے کے لئے یہاں موجود ہوتے اور ہمارے ساتھ تصاویر کھنچوانے کی درخواست کر رہے ہوتے۔

    ہاکنگ نے ایک چیلنج دنیائے طبیعیات کو بھی دیا۔ ایک ایسا قانون ہونا چاہئے جو وقت کے سفر کو ناممکن بنا دے۔ اس نے وقت کے سفر سے روکنے کے لئے قوانین طبیعیات کی طرف سے  ایک "نظریہ تحفظ تقویم" (Chronology Protection Conjecture)  پیش کیا ہے تاکہ "تاریخ کو مورخوں کی دخل اندازی سے بچایا جا سکے "۔

     شرمندگی کی بات یہ ہے کہ طبیعیات دان جتنی بھی کوشش کر لیں وہ کوئی بھی ایسا قانون دریافت نہیں کر سکتے جو وقت میں سفر کو ناممکن بنا سکے۔ بظاہر طور پر وقت میں سفر موجودہ قوانین طبیعیات کی رو سے ممکن ہیں۔ اپنی کوششوں میں ناکام ہو کر جس میں کوئی ایسا طبیعیاتی قانون مل سکتا جو وقت کے سفر کو ناممکن بنا سکتا ، ہاکنگ نے حال میں ہی اپنے خیال کو بدل لیا۔ اس کی بات نے  اخبار کی شہ سرخی لندن میں  اس وقت بنائی  جب اس نے کہا " ہو سکتا ہے کہ وقت میں سفر کرنا ممکن ہو  پر یہ عملی طور پر ممکن نہیں ہے ۔"  

    خرافات سمجھی جانے والی وقت میں سفر کی سائنس اچانک ہی طبیعیات دانوں کے لئے ایک کھیل کا میدان بن گئی۔ کالٹک کے  طبیعیات دان رپ تھورن  لکھتے ہیں "وقت میں سفر کبھی صرف  سائنسی قصصی مصنفوں کے لئے ہی مخصوص تھا سنجیدہ سائنس دان اس سے اس طرح سے بچتے تھے جیسا کہ وہ طاعون کی بیماری ہو  - ہرچند وہ قصصی ناول قلمی ناموں سے لکھتے بھی  تھے یا تخلیہ میں چھپ کر پڑھتے بھی تھے۔ وقت کیسے بدل گیا !اب ہم وقت کے سفر کے عالمانہ تجزیات کو سنجیدہ سائنسی رسالوں میں دیکھتے ہیں جو ممتاز طبیعیات  دانوں کے لکھے ہوئے ہوتے ہیں۔۔۔۔یہ تبدیلی کیوں آئی ہے ؟کیونکہ ہم طبیعیات دانوں نے اس بات کو سمجھ لیا ہے کہ وقت کی نوعیت بہت زیادہ اہم ہے۔ اور اس کو خالی سائنسی قصصی مصنفوں کے ہاتھ میں چھوڑا نہیں جاسکتا۔"

     
    " بند وقتی خمیدگی" (Closed Time-like Curves)  ہمیں ماضی میں سفر کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔
    ان تمام تر پریشانیوں اور ہیجان انگیزی کا سبب آئن سٹائن کی وہ مساوات ہے جو کئی قسم کی ٹائم مشینوں کو بنانے کی اجازت دیتی ہے۔(ہر چند  ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ آیا وہ کوانٹم نظریہ کے دیئے ہوئے چیلنج سے نمٹ سکیں گی یا نہیں ۔) حقیقت میں آئن سٹائن کے نظریہ میں ہمارا واسطہ اکثر ایک ایسی چیز سے ہوتا ہے  جس کو ہم  " بند وقتی خمیدگی" (Closed Time-like Curves)  کہتے ہیں  جو تیکنیکی بنیادوں پر بنایا جانے والا وہ لفظ ہے  جو ان راستوں کے لئے استعمال ہوتا ہے جو ہمیں ماضی میں سفر کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ اگر ہم بند وقتی خمیدگی  کے راستے پر چلیں گے تو ہم ایک ایسے سفر پر روانہ ہو سکتے ہیں جہاں ہم سفر پر جانے سے پہلے ہی لوٹ کر آ سکیں گے۔
       
    پہلی ٹائم مشین ثقب کرم کے ذریعہ بن سکتی ہے۔ آئن سٹائن کی مساوات کے کئی حل موجود ہیں جو خلاء میں کسی بھی دو نقاط کو آپس میں ملا سکتے ہیں۔ لیکن  کیونکہ مکان و زمان آئن سٹائن کے نظریئے  میں ایک دوسرے سے  آپس میں گتھم گتھا ہیں  لہٰذا وہی ایک ثقب کرم وقت میں بھی دو نقاط کو آپس میں جوڑ سکتا ہے۔ ثقب کرم میں گرنے کے بعد آپ  (کم از کم ریاضی کی حد تک  تو ) ماضی میں سفر کر سکتے ہیں۔ قابل ادرک طور پر آپ واپس اس ابتدائی وقت میں یعنی  اپنے سفر سے جانے سے پہلے کے وقت میں بھی واپس لوٹ کر آ سکتے ہیں۔ لیکن  جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے کہ بلیک ہول کے مرکز میں موجود ثقب کرم سے گزر نا صرف یکطرفہ سفر ہوگا۔ جیسا کہ  طبیعت دان "رچرڈ گوٹ" (Richard Gott) کہہ چکے ہیں  "میں نہیں سمجھتا کہ کوئی  ایسا  سوال  ہے کہ آیا  کوئی بھی بلیک ہول کے ذریعہ وقت میں سفر کر سکتا ہے یا نہیں ۔ ہاں لیکن یہ سوال موجود  ہے کہ کیا وہ واپس آ کر اس بات کی شیخی بگھار سکتا ہے۔"

     
    ١٩٤٩ء میں ریاضی دان کرٹ گوڈیل نے آئن سٹائن کی مساوات کو حل کیا تھا جو وقت میں سفر کے متعلق تھی ۔
    گھومتی ہوئی کائنات کے ذریعہ ایک اور ٹائم مشین بھی بنائی جا سکتی ہے۔١٩٤٩ء میں ریاضی دان کرٹ گوڈیل نے آئن سٹائن کی مساوات کو حل کیا تھا جو وقت میں سفر کے متعلق تھی ۔اگر کائنات گھوم رہی ہے تو آپ کائنات کے گرد تیزی سے گھوم کر ماضی میں جا سکتے ہیں اور اس سے پہلے کے آپ ماضی میں جائیں اس حال کے  وقت میں بھی واپس  لوٹ سکتے ہیں۔ کائنات کے گرد چکر لگانے کا مطلب ماضی میں چکر لگانا ہے۔ جب ماہر فلکیات انسٹیٹیوٹ فار ایڈوانسڈ اسٹڈی  کا دورہ کرتے تو اکثر گوڈیل ان سے پوچھتا کہ کیا  ان میں سے کسی نے کائنات کے گھومنے کا ثبوت حاصل کیا ہے۔ جب اس کو بتایا جاتا ہے کہ کائنات کے پھیلنے کے واضح ثبوت ملے ہیں  لیکن  شاید کائنات کا خالص گھماؤ صفر درجے ہے تو اس کو یہ سن کر کافی مایوسی ہوتی تھی ۔(اگر ایسا نہیں ہوتا تو  ممکن ہے وقت میں سفر بہت ہی عام ہوتا اور اس تاریخ جس کو ہم جانتے ہیں  ڈھے جاتی۔)


      تیسرے اگر آپ ایک لامحدود گھومتے ہوئے سلنڈر جیسی جگہ کے گرد لمبا چلیں گے تو  ممکن ہے کہ آپ وہاں سے چلنے سے پہلے واپس اس جگہ پر پہنچ جائیں۔(یہ حل "ڈبلیو  جے وین اسٹاکم" (W.J. Van Stockum) نے ١٩٣٦ء میں گوڈیل کے وقت کے سفر کے حل سے پہلے دریافت کیا تھا ، لیکن  وین اسٹاکم اس بات سے بے خبر تھا کہ اس کے حل کے نتیجے میں وقت کا سفر ممکن ہے۔) اس حل کے مطابق  اگر آپ مئی کے دن مئی کے پول پر گھوم رہے ہیں تو آپ اپنے آپ کو اپریل میں موجود پا سکتے ہیں۔(اس میں مسئلہ یہ ہے کہ سلنڈر کو لامحدود طور پر لمبا ہونا ہوگا اور اس قدر تیزی سے گھومنا ہوگا کہ اس میں زیادہ تر موجود مادّے ایک دوسرے سے دور چلا جائے۔)
    رچرڈ گوٹ کا حل ایک دیوہیکل کائناتی  دھاگے پر انحصار کرتے ہوئے ٹائم مشین بناتا ہے 
    وقت کے سفر کی سب سے تازہ مثال پرنسٹن کے  رچرڈ گوٹ  نے ١٩٩١ء میں دریافت کی ہے۔ اس کا حل ایک دیوہیکل کائناتی  دھاگے پر انحصار کرتا ہے (جو اصل بگ بینگ کے بعد بچ گیا ہو )۔ اس نے اس بات کو فرض کیا کہ دو بڑے دھاگے ٹکرانے کو ہیں۔ اگر آپ جلدی سے ان ٹکرانے والے دھاگوں کے گرد سفر کر سکیں تو آپ ماضی میں پہنچ جائیں گے۔ اس طرح کی ٹائم مشین کا فائدہ یہ ہے کہ آپ کو لامحدود گھومنے والے سلنڈروں، گھومنے والی کائنات یا بلیک ہول  کی ضرورت نہیں ہوگی۔(مگر اس میں مسئلہ یہ ہے کہ پہلے آپ کو پہلے جسیم خلاء میں تیرتے ہوئے دھاگے تلاش کرنے ہوں گے پھر ان کو آپس میں درست انداز میں ٹکرانا ہوگا۔ اور ماضی میں جانے کا امکان نہایت ہی کم وقت کے لئے ہوگا۔)گوٹ کہتے ہیں "جسیم دھاگوں کا منہدم ہوتا ہوا حلقہ  جو اس قابل ہو کہ اس کے گرد آپ ایک چکر پورا کر سکیں  اور ایک سال ماضی میں جا سکیں اس کے لئے ایک پوری کہکشاں میں موجود توانائی کے نصف سے بھی زیادہ ا کمیت اور توانائی درکار ہوگی ۔

     
    ثقب کرم کے لئے اہم چیز منفی توانائی ہوگی 
    مگر سب سے زیادہ امید افزا ٹائم مشین  "قا طع ثقب کرم" ہے جس کا ذکر ہم نے پچھلے باب میں کیا تھا ، خلاء میں ایک ایسا سوراخ جس میں کوئی بھی شخص وقت میں آسانی کے ساتھ آ اور جا سکے۔ کاغذی طور پر تو قا طع ثقب کرم نہ صرف سریع از نور رفتار  سے سفر کرنے کو ممکن بناتا ہے بلکہ وہ ماضی میں بھی سفر کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ قا طع ثقب کرم میں سب  سے اہم چیز منفی توانائی ہے۔  

    قا طع ثقب کرم والی ٹائم مشین دو خانوں پر مشتمل ہوگی۔ ہر خانے میں دو مرتکز کرہ ہوں گے جن کے درمیان انتہائی کم فاصلہ ہوگا۔ باہری کرہ کو پھاڑ کر دونوں کرہ  کیسیمیر کا اثر پیدا کریں گے  اور اس طرح سے منفی توانائی پیدا ہوگی۔ فرض کریں کہ تہذیب III کی قسم ان دونوں خانوں کے درمیان ثقب کرم کو پرونے کے قابل ہوتی ہے (ان میں سے ایک ممکنہ طور پر ایک مکان و زمان کے جھاگ سے حاصل کیا ہوگا )۔دوسرے مرحلے میں پہلا خانہ لے کر اس کو خلاء میں روشنی کی رفتار کے قریب سمتی رفتار سے روانہ کرتی ہے۔ وقت اس خانے میں آہستہ ہو جائے گا لہٰذا دونوں گھڑیاں ایک دوسرے کی موافقت میں نہیں رہ سکیں گی۔ وقت دونوں خانوں کے اندر مختلف رفتار سے چل رہا ہوگا  یہ دونوں خانے ایک ثقب کرم کے ذریعہ جوڑے ہوئے ہوں گے۔ اگر آپ دوسرے خانے میں موجود ہیں تو آپ فی الفور ثقب کرم سے ہوتے ہوئے پہلے خانے میں پہنچ جائیں گے  جو ماضی کے وقت میں موجود ہوگا۔ اس طرح سے آپ ماضی میں سفر کر سکیں گے۔

    اس طریقے کو استعمال میں لانے میں بہت ہی زیادہ مسائل کے انباروں سے نمٹنا ہوگا ۔ ممکن ہے کہ  ثقب کرم بہت ہی ننھا سا ہو ، شاید ایک ایٹم سے بھی چھوٹا۔ اور پلیٹوں کو بھی پلانک کے فاصلوں جتنا چھوٹا ہونا پڑے گا تاکہ کافی منفی توانائی حاصل کی جا سکے۔ دوسرے آپ صرف ماضی میں اس وقت تک سفر کر سکیں گے جب آپ نے ٹائم مشین بنائی ہوگی۔ اس سے پہلے ان دونوں خانوں میں وقت ایک جیسی حالت میں ہوگا۔


    تناقضات  اور وقت کی پہیلیاں


    وقت کا سفر ہر قسم کے  فنیات سے لے کر معاشرتی پہلوؤں تک کے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ اخلاقی ، دینی اور قانونی مسائل کو "لیری ڈویر" (Larry Dwyer) نے اٹھایا ہے وہ لکھتے ہیں  "کیا ایک وقت کے مسافر  کو  جس نے اپنے آپ کو گھونسا مارا ہوگا اس کو اس جرم میں نامزد کیا جا سکتا ہے ؟کیا وقت کا مسافر جس نے کسی کو قتل کیا ہو اور جائے پناہ حاصل کرنے کے لئے ماضی میں فرار ہو گیا ہو اس کو ماضی میں اپنے مستقبل کے جرائم کے لئے پکڑا جا سکے گا ؟ اگر اس نے ماضی میں شادی کی تو کیا اس کو دو بیویاں رکھنے کے الزام میں مجرم ٹھہرایا جا سکے گا اگرچہ اس کی دوسری بیوی کے  پیدا ہونے میں ابھی ٥٠٠٠ برس باقی ہوں ؟

     
    وقت میں سفر سے تناقضات سے کس طرح سے بچا جاسکے گا؟
       
    شاید یہ خار دار مسائل وہ منطقی تناقضات ہیں جن کا سامنا ہمیں  وقت کے سفر کو کرنے میں ہوگا۔ مثال کے طور پر اس وقت کیا ہوگا اگر ہم اپنے والدین کو پیدا ہونے سے پہلے ہی مار دیں ؟ منطقی طور پر یہ بات ناممکن ہے۔ اکثر اس کو  "دادا کا تناقض" کہا جاتا ہے۔

    ان تناقضات کو حل کرنے کے تین طریقے ہیں۔ پہلا طریقہ تو یہ ہے کہ جب آپ ماضی میں جائیں تو  اس  کو اسی طرح سے واقع ہونے دیں جس کے نتیجے میں ماضی میں کوئی خلل نہیں واقع ہوگا۔ اس طریقے میں آپ کو کسی بھی قسم کی آزادی نہیں ہوگی۔ آپ کو ماضی کو اسی طرح سے واقع ہونے دینا ہوگا جیسا کہ وہ لکھا ہوا ہے۔ لہٰذا اگر آپ ماضی میں پہنچ کر اپنے آپ کو وقت کے سفر کا راز بتا دیں گے تو اس کا مطلب ہوگا کہ تاریخ نے ویسے ہی لکھا جانا ہے۔ کیونکہ وقت میں سفر کا طریقہ مستقبل سے آیا ہوگا اس کی  منزل یہی تھی ۔(مگر ہمیں یہ بات نہیں پتا لگ سکے گی کہ اصل خیال کہاں سے آیا۔)

    دوسرے  آپ کو اس بات کی آزادی ہوگی کہ آپ ماضی کو ایک حد میں رہ کر  تبدیل کر سکیں۔ آپ کو  اس بات کی اجازت نہیں ہوگی کہ آپ وقت کے تناقض کو پیدا کر سکیں۔ جب بھی آپ اپنے والدین کو ان کے پیدا ہونے سے پہلے مار ڈالنا  چاہیں گے ایک پراسرار طاقت آپ کو اس کام کے کرنے سے روک دے گی۔ اس بات کے حامی روسی طبیعیات دان "آئیگور نوویکوف"  (Igor Novikov)  ہیں۔(وہ کہتے ہیں کہ ایک ایسا قانون موجود ہے جو ہمارے چاہنے کے باوجود ہمیں چھتوں پر چلنے سے روکتا ہے۔ لہٰذا کوئی قانون ایسا بھی ہوگا جو ہمیں ہمارے پیدا ہونے سے پہلے اپنے والدین کے قتل سے روک دے گا۔ کچھ پراسرار قانون ہمیں ایسا کرنے سے روکیں گے۔) 

    تیسرے کہ کائنات دو کائناتوں میں بٹی ہوئی ہے۔ جس میں ایک کائنات میں آپ کے والدین جیسے دکھائی دینے والے لوگ موجود ہوں گے جن کو آپ مار سکتے ہیں لیکن  وہ اصل میں آپ کے والدین نہیں ہوں گے اور ان سے مختلف  لوگ ہوں گے  کیونکہ اب آپ متوازی کائنات میں موجود ہیں۔ یہ آخر الذکر احتمال کوانٹم کے نظرئیے سے میل کھاتا ہے اس کے بارے میں ہم بعد میں اس وقت  رجوع کریں گے جب ہم متعدد کائناتوں کے بارے میں بات کریں گے۔
    دوسرے ممکنہ  طریقے کو فلم ٹرمنیٹر  ٣ میں استعمال کیا تھا۔ اس فلم  میں آرنلڈ شیوازینگر نے مستقبل کے ایک روبوٹ کا کردار ادا کیا ہے جہاں پر ہلاک کر دینے والی مشینوں نے قبضہ کرلیا تھا۔ چند باقی بچے رہنے والے انسانوں کو وہ مشینیں جانوروں کی طرح سے شکار کر رہی تھیں۔  ان انسانوں کو ایک عظیم انسان کی رہنمائی حاصل تھی جس کو وہ مشینیں قتل کرنے میں ناکام رہی تھیں۔  اس رہنما کو قتل کرنے کی کوششوں کو اکارت ہوتا دیکھ کر انہوں نے مشینوں کے ایک سلسلے کو ماضی میں روانہ کیا تاکہ اس سے پہلے کہ عظیم رہنما پیدا ہو سکے اس کی ماں کو ہی مار دیا جائے۔ نہ ہوگا بانس نہ بجے گی بانسری ۔ مگر ایک زبردست رمز ی جنگ کے بعد انسانیت کی تہذیب اس فلم کے اختتام تک صفحہ ہستی سے مٹ گئی جیسا کہ اس کی قسمت میں لکھا تھا۔

    بیک ٹو دی فیوچر نے تیسرے  ممکنہ امکان کا استعمال کیا تھا۔ ڈاکٹر براؤن نے ایک پلوٹونیم سے چلنے والی ڈی لورین کی کار بنائی جو حقیقت میں ماضی میں لے جانے والی کار تھی ۔ مائیکل جے۔ فاکس (مارٹی  مک فلائی ) مشین میں داخل ہوتا ہے اور اپنی ماں سے اس کی نوجوانی کے دور میں ملتا ہے۔ وہ  اس کے عشق میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ یہ اس مسئلہ کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ  اگر مارٹی مک فلائی  کی نوجوان ماں اس کے مستقبل کے باپ کو انکار کر دیتی تو وہ کبھی بھی شادی نہیں کرتے اور مائیکل جے  فاکس کا کردار کبھی بھی پیدا نہیں ہوتا۔

    اس مسئلہ کو تھوڑا سا ڈاکٹر براؤن نے حل کیا تھا۔ وہ بلیک بورڈ کی طرف گیا اور ایک افقی لکیر کھینچ دی  جو ہماری کائنات کی نمائندگی کر رہی تھی۔ اس کے بعد اس نے ایک اور لکیر کھینچی جو دوسری لکیر سے نکل رہی تھی۔ یہ لکیر  ایک اور متوازی کائنات کو ظاہر کر رہی تھی  جو اس وقت کھلتی ہے جب آپ ماضی کو بدلتے ہیں۔ لہٰذا ہم جب بھی وقت کے دریا میں الٹی طرف جائیں گے وہ دو شاخہ  دریا میں اور وقت کی لکیر دو لکیروں میں بدل جائے گی۔ اس کو ہم" کثیر جہاں طریقہ" کہہ سکتے ہیں جس کے بارے میں اگلے باب میں مزید بات کریں گے۔

    اس کا مطلب یہ ہوا کہ وقت کے تمام تناقض حل کیے جا سکتے ہیں اگر آپ نے اپنے والدین کو اپنے پیدا ہونے سے پہلے ہی مار دیا اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ نے کسی اور کو مار دیا ہے جو خلقی طور پر آپ کے والدین جیسے ہیں  جن کی یادداشت اور شخصیت تو ویسی  ہی ہوگی لیکن  وہ آپ کے اصل والدین نہیں ہوں گے۔

    کثیر جہاں والا خیال کم از کم وقت میں سفر کا ایک مسئلہ  تو حل کرتا ہے۔ ایک طبیعیات دان کے لئے سب سے پہلی تنقید جو وقت کے سفر کے لئے ہوتی ہے (منفی توانائی کو حاصل کرنے کے علاوہ ) وہ یہ ہے کہ اشعاع کا اثر آپ کے ثقب کرم میں داخل ہونے کے  وقت تک بڑھتا جائے گا لہٰذا  جوں ہی آپ مشین میں داخل ہوں گے  یا تو آپ کی موت ہو جائے گی  یا ثقب کرم آپ پر منہدم ہو جائے گا۔ اشعاع کا اثر اس لئے بنے گا کیونکہ کوئی بھی اشعاع جو ٹائم پورٹل میں داخل ہوگی وہ واپس ماضی میں بھیج دی جائے گی جہاں وہ کائنات میں آوارہ گردی کرتی ہوئی آخر کار وہ پھر حال میں پہنچ جائے گی اور پھر وہ ثقب کرم میں داخل ہو جائے گی۔ کیونکہ اشعاع ثقب کرم کے منہ میں لامحدود طور پر داخل ہو سکتی ہے لہٰذا ثقب کرم میں اشعاع ناقابل تصوّر حد تک طاقتور ہوتی جائی گی۔ اتنی طاقتور  کہ آپ کو ختم کرنے کے لئے کافی ہوگی۔ مگر کثیر جہاں والی توجیح اس مسئلہ سے جان چھڑا سکتی ہے۔ اگر اشعاع ٹائم مشین میں داخل ہوگی اور  اس کو ماضی میں روانہ کیا جائے گا تو وہ ایک نئے جہاں میں داخل ہو جائے گی   اور اس طرح سے وہ ٹائم مشین میں بار بار داخل نہیں ہو سکے گی۔ اس کا مطلب سیدھا سادہ سا یہ ہوا کہ لامحدود تعداد میں کائناتیں موجود ہوں گی ، ہر چکر کے لئے ایک کائنات اور ہر چکر میں لامحدود مقدار میں اشعاع کے بجائے  صرف ایک فوٹون کی اشعاع ہوگی۔

     ١٩٩٧ء میں یہ بحث مزید اس وقت واضح ہوئی جب تین طبیعیات دانوں نے ثابت کیا کہ ہاکنگ کے وقت کے سفر کو بند کرنے کے پروگرام میں خلقی طور پر ہی نقص موجود ہے۔ برنارڈ رے(Bernard Ray) ، مریک ریزےکاسکی (Marek Radzikowski)اور رابرٹ والڈ (Robert Wald) نے ثابت کر دیا کہ وقت کا سفر مروجہ قوانین طبیعیات سے سوائے ایک جگہ کے  مکمل طور پر میل کھاتا ہے۔ جب وقت میں سفر کر رہے ہوں گے تو اس وقت   تمام ممکنہ مسائل واقعاتی افق پر مرتکز ہوں گے (جو ثقب کرم کے داخلے کی جگہ پر واقع ہوگی )۔ مگر افق درستگی کے ساتھ اس جگہ پر موجود ہوتی ہے  جہاں آئن سٹائن کے نظرئیے کے پر جلتے  ہیں اور کوانٹم کا اثر کمان کو سنبھال لیتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ٹائم مشین میں داخل ہوتے ہوئے  ہمیں جب بھی اشعاع کے اثر کو جاننا چاہیں گے  تو  ہمیں دونوں نظریوں کو یعنی آئن سٹائن کی عمومی نظریہ   اضافیت اور اشعاع کے کوانٹم نظریئے  کو ملا کر ہی اس اثر کا  پتا چلے گا۔ مگر جب ہم اپنی سادگی میں ان دونوں نظریوں کو رشتہ ازدواج میں باندھنے کی کوشش کرتے ہیں  تو حاصل کردہ نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلتا۔ یہ ایک ایسا لامتناہی نتیجہ دیتا ہے جس کا کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ یہ ہی وہ جگہ ہے جہاں پر ہر شئے  کا نظریہ کمان سنبھالنے کو تیار  نظر آتا ہے۔

     ثقب کرم کے ذریعہ سفر کرنے کے تمام مسائل جنہوں نے طبیعیات دانوں کو آسیب بن کر ڈرا یا ہوا ہے (جیسا کہ ثقب کرم کی پائیداری ، اشعاع جو ہلاک کر سکتی ہیں ، داخل ہوتے وقت ثقب کرم کا بند ہو جانا )یہ تمام  مسائل واقعاتی افق پر مرتکز ہیں ، جہاں پر آئن سٹائن کا نظریہ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔
         
    لہٰذا وقت میں سفر کرنے کی کنجی واقعاتی افق کی طبیعیات کو سمجھنے میں ہے اور صرف ہر شئے کا نظریہ ہی اس بات کو بیان کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج زیادہ تر طبیعیات دان اس بات پر متفق ہیں کہ ایک ہی  طریقہ ایسا ہے  جس میں وقت کے سفر کو مکمل طور پر حل کیا جا سکتا ہے۔ وہ طریقہ یہ ہے کہ قوّت ثقل اور مکان و زمان کا ایک مکمل نظریہ پیش کیا جائے۔

    ہر شئے  کا نظریہ ہی کائنات کی چاروں قوّتوں کو یکجا کرکے ہمیں  ٹائم مشین میں داخل ہوتے وقت واقعات  کے بارے میں حساب لگانے کے قابل کر سکے گا۔ صرف ہر شئے کا نظریہ ہی کامیابی کے ساتھ ثقب کرم کی پیدا کردہ اشعاع کے اثر کو بیان کر سکتا ہے اور اس بات کا یقینی جواب دے سکتا ہے کہ ٹائم مشین میں داخل ہوتے وقت ثقب کرم کتنے پائیدار ہوں گے۔ ان تمام چیزوں کے بعد بھی ہمیں صدیوں تک یا اس سے بھی زیادہ  اس بات کا انتظار کرنا ہوگا کہ اصل ٹائم مشین کو بنایا جائے تاکہ ان نظریوں کی جانچ ہو سکے۔

     کیونکہ وقت کے سفر کے قوانین ثقب کرم کی طبیعیات سے بہت ہی زیادہ جڑے ہوئے  ہیں ، لہٰذا وقت کا سفر جماعت II کی ناممکنات میں شامل ہونے کا اہل ہے۔


    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    2 comments:

    Muhammad Jamil Raza Heath Care Worker کہا... 2 اگست، 2016 کو 3:15 PM

    آج تک کے مطالعہ کا سب سے بہترین مضمون ملا ہے بہت بہت شکریہ

    Zuhair Abbas کہا... 2 اگست، 2016 کو 3:20 PM

    آپ نے پسند کیا ہمارا حق محنت وصول ہوگیا :)

    Item Reviewed: ١٢۔ وقت میں سفر Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top