Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    جمعہ، 20 ستمبر، 2019

    جارج ایسٹ مین

    جارج  ایسٹ مین - کیمرے کی (کوڈک)فلم بنانے والا 

    جارج ایسٹ مین آج سے ایک سو پینسٹھ سال پہلے امریکہ میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ بہت غریب آدمی تھا ۔ ایسٹ مین کی ماں پڑھی لکھی تھی اور اسے  اپنے بیٹے کو پڑھانے کا بہت شوق تھا ۔ جارج گھر پر پڑھنے لگا ۔ جب وہ سات سال کا ہوا تو اس کا باپ مر گیا - باپ کے مرنے سے ایسٹ مین کے گھر کی حالت اور بھی خراب ہو گئی. ایسٹ مین کی ماں خاوند کی موت سے بہت دکھی تھی ۔ اس کا صرف ایک ہی بیٹا تھا۔ ایسٹ مین ، وہ بھی کمسن - ایسٹ مین کی دو بہنیں تھیں ۔ اس کی ماں پریشان تھی کہ اپنے بچوں کا اور اپنا پیٹ کیسے پالے گی۔ 

    ایسٹ مین کی ماں کو اس کے نیک ہمسایوں نے مشورہ دیا کہ وہ خود ہی کوئی کام شروع کر دے ۔ بہت سوچ بچار کے بعد ایسٹ مین کی ماں نے بچوں کے لئے ایک بورڈنگ ہاؤس  کھول دیا بچے ارد گرد کے علاقوں سے آ کر روچسٹر میں پڑھتے تھے اور وہ بورڈنگ ہاوس میں رہنے لگے. ایسٹ مین کی ماں ان طالبعلموں سے بہت کم کرایہ لیتی اور ان سب کے رہنے کے لئے بڑا اچھا انتظام کرتی ۔ طالب علموں کی پوری طرح دیکھ بھال بھی کرتی ۔ اس سے کچھ پیسے کما کر وہ اپنے بچوں کو پالنے لگی۔ ایسٹ مین کو ماں سے بڑی محبت تھی اور وہ ہمیشہ ماں کا ہاتھ بٹایا کرتا۔ ایسٹ مین کچھ سیانا ہوا تو اس نے سوچا کہ وہ اپنی بیوہ ماں پر بوجھ  بنا ہوا ہے. لہذا کہیں نوکری کر کے ماں کی پریشانیاں دور کرنی چاہئے۔ ایسٹ مین سارا دن ماں کے ساتھ  بورڈنگ ہاؤس میں کام کرتا اور شام ہوتے ہی شہر جا کر نوکری ڈھونڈتا۔ تھوڑے عرصے کی تلاش کے بعد ایسٹ مین کو ایک دفتر میں چپڑاسی کی ملازمت مل گئی ۔ یہاں اسے ہفتے کے بعد "تین ڈالر" تنخواہ ملتی تھی۔ ایسٹ مین کو جس وقت تنخواہ ملتی وہ ساری  رقم لا کر ماں کے ہاتھ میں دیتا۔ ماں خوش ہو کر بیٹے کو سینے سے لگا لیتی ۔ ایسٹ مین کی ماں کو اس بات کا بڑا دکھ تھا کہ اس کا بیٹا اتنی چھوٹی عمر میں پورا دن چپڑاسیوں کا کام کرتا ہے ۔ لیکن اس کا اور کوئی بیٹا نہیں تھا۔ پھر خاوند بھی مر چکا تھا۔ ایسٹ مین نے دوسروں کی طرح کبھی قسمت کا گلہ نہیں کیا ۔ وہ دفتر میں سارا دن کام کرتا اور رات ماں کے پاس بیٹھ کر پڑھتا رہتا۔ 

    دفتر میں اس کے افسر نے جب دیکھا کہ ایسٹ مین پڑھا لکھا ہے۔ اسے دفتر میں ایک کلرک کی جگہ کام کرنے کو کہا۔ ایسٹ مین نے یہ کام بہت اچھی طرح سے کیا ۔ اس کا افسر بہت خوش ہوا ۔ اور ایسٹ مین کو کلرک بنا دیا گیا ۔ ترقی پا کر ایسٹ مین بھاگا بھاگا گھر پہنچا اور ماں کو خوشخبری دی ۔ اس کی ماں خوشی سے پھولی نہ سمائی ۔ ایسٹ مین کی بہنیں بھی بہت خوش تھیں۔ وہ کہتی تھیں کہ اب ہمارے دن پھر جائیں گے ۔ ایسٹ مین نے کلرک بننے کے بعد اپنی محنت جاری رکھی - وہ بہت محنتی اور ذہین لڑکا تھا ۔ وہ کچھ عرصے اپنے دفتر میں کام کرتا رہا ۔ پھر اسے روچسٹر کے ایک بنک میں جگہ مل گئی ۔ بینک میں تنخواہ زیادہ ملتی تھی اس لئے ایسٹ مین بینک میں کلرک ہو گیا ۔ پڑھائی کے ساتھ ساتھ اسے کیمرے سے تصویریں اتارنے کا بھی بڑا شوق تھا۔ 

    ایسٹ مین پہلے کی طرح اب بھی پوری تنخواہ ماں کے حوالے کر دیتا تھا ۔ لیکن اب وہ کچھ پیسے بھی جمع کر رہا تھا . جب کچھ رقم جمع ہو گئی تو اس نے ایک کیمرہ خرید لیا۔ ایسٹ مین یوں تو دکان سے اپنے دوستوں کے ساتھ تصویریں خریدنے جاتا تھا اور کبھی کبھی کسی کا کیمرہ مل جاتا تو تصویر بھی اتار لیتا تھا ۔ لیکن پھر اسے یوں لگا جیسے اسے ٹھیک طرح سے تصویریں اتارنا نہیں آتیں۔ اب اس نے اپنا کیمرہ خریدا تو ایک دوست سے فوٹو کھینچنے کے طریقے سیکھنے لگ۔ وہ کتنے عرصے تک فوٹو گرافی کی تعلیم حاصل کرنے کرتا رہا۔ جب یہ تعلیم مکمل کر لی تو اینا کیمرہ  اٹھا کر  شہر سے باہر چلا گیا اور قدرتی مناظر کی تصویریں اتارنے لگتا. ایسٹ مین کو تصویریں اتارنے میں اتنا لطف آتا  کہ چھٹی کے روز وہ سارا سارا دن تصویریں اترتا رہتا -اب ایسٹ مین نے تصویریں دھونے کا انتظام بھی خود ہی کیا۔ وہ پیسے بچا بچا کر تصویریں دھونے کے مسالے اور تصویریں بنانے کی پلیٹیں خریدتا۔ 

    اس زمانے میں فلم ایجاد نہیں ہوئی تھی لوگ گیلی پلیٹوں پر تصویریں اتارتے تھے. ایسٹ مین نے سوچا کہ گیلی پلیٹوں پر تصویریں ایک تو صاف نہیں آتی ہیں ۔ اور دوسرے جلدی خراب ہو جاتی ہیں۔ کوئی ایسی چیز ہونی چائے جس پر تصویر بڑی آسان سے صاف اتر آئے اور تصویر کے خراب ہونے کا خطرہ بھی نہ رہے۔ ایسٹ مین نے فوٹو گرافی سے متعلق کئی کتابیں اور رسالے خریدے۔ جب بھی دفتر سے گھر آتا یہ کتابیں اور رسالے لے کر پڑھنے بیٹھ جاتا۔ ایسٹ مین نے کئی دوستوں سے مشورہ کیا اور کئی مسالے خرید کر راتوں کو تجربے کرنے لگا۔ آخر کار اس نے تصویریں اتارنے کے لئے شیشے کی خشک پلیٹ ایجاد کر لی - اس کی یہ ایجاد فورا شہر میں مشہور ہو گئی ۔ ایسٹ مین کے دوستوں نے کہا کہ اب اسے لندن جانا چاہئے کیونکہ ان دنوں لندن میں فوٹوگرافی کا بڑا زور تھا۔. لندن جانے کے لئے روپیہ ایسٹ مین کے دوستوں نے جمع کیا ۔ اور ایسٹ مین اپنی ماں سے اجازت لے کر لندن چلا گیا۔ 

    ایسٹ مین نے لندن کے دوکان داروں کو اپنی تیار کی ہوئی شیشے کی خشک پلیٹیں دکھائیں ۔ دوکان داروں نے فورا یہ پلیٹیں خرید لیں۔ ایک دکان دار نے ایسٹ مین سے کہا کہ اپنی ایجاد کو. عام کرنے سے پہلے اسے رجسٹر کرا لو تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اسی طرح کی پلیٹیں کوئی اور بنا کر روپیہ کمانے لگے ۔ ایسٹ مین نے اپنی ایجاد لندن میں رجسٹر کرا لی۔ پھر وہ امریکہ واپس آیا ۔ یہاں بھی اپنی ایجاد رجسٹر کرائی۔ جب وہ اپنی خشک پلیٹیں لے کر نیو یارک گیا تو وہاں دوکانداروں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا ۔ ایسٹ مین نے بینک سے جو چھٹی لی تھی اب وہ ختم ہو چکی تھی ۔ لہذا وہ پھر بینک جانے لگا لیکن اب پلیٹیں بنانے کے لئے زیادہ کام کرنے کی ضرورت تھی۔ اس لئے اس نے نوکری چھوڑ دی ۔ اور دن رات خشک پلیٹیں تیار کرنے لگا۔

    ایسٹ مین جتنا محنتی تھا اتنا ہی سمجھ دار بھی تھا۔ اس کی ماں بھی بیٹے کو سمجھاتی رہتی تھی۔ ماں کے کہنے پر ایسٹ مین نے کچھ رقم جمع کی اور اس رقم سے فوٹو گرافی کی دوکان کھول کی ۔ کاروبار کرتے  ہوئے بھی ایسٹ مین نئے نئے تجربے کرتا رہتا ۔ ایسٹ مین نے دیکھا شیشے کی پلیٹیں کیمرے سے نکالتے وقت ٹوٹ جاتی ہیں اور اس کی تصویر ضائع ہو جاتی ہے ۔ ایسٹ مین نے دن رات محنت کر ایسی فلم تیار کی جسے لپیٹا جس سکتا تھا۔ ایک مشین کے ذریعے اس کی لمبی پٹی کو فلم کی طرح سے لپیٹ لیا جاتا تھا ۔ انہی دنوں ایسٹ مین نے کوڈک کیمرہ بھی ایجاد کر لیا ۔ آپ نے بھی یہ کیمرہ دیکھا اور اس کے متعلق سنا ہوگا ۔ اس زمانے میں یہ کیمرہ ایجاد ہوتے ہی مشہور ہو گیا تھا۔ شروع میں ایسٹ مین کے بنائے ہوئے کیمرے کی ایک امریکی فلم پر ایک سو تصویریں اتاری جاتیں . جو لوگ یہ کیمرہ استعمال کرتے وہ تصویریں اتار کر کیمرے سمیت پوری فلم ایسٹ مین کو بھیج دیتے. ایسٹ مین کے کاریگر خود ہی کیمرے سے فلم نکالتے اسے دھوتے اور تصویریں تیار کر کے مالک کو بھیج دیتے . اس زمانے مشہور سائنس داں ایڈی سن چلتی پھرتی فلم تیار کرنے میں مصروف تھے۔ اس نے جب پہلی چلتی پھرتی تصویر ایجاد کی تو اس میں جو فلم استعمال کی وہ ایسٹ مین ہی کی تیار کی ہوئی تھی۔ ایسٹ مین کا کیمرہ اور فلم خوب بکنے لگی۔ اس سے ایسٹ مین کو بہت فائدہ ہوا اور  اس کا غریب خاندان بہت امیر ہو گیا ۔ ایسٹ مین کا کاروبار اس قدر بڑھا کہ وہ لاکھوں میں کھیلنے لگا ۔ لیکن اس قدر امیر ہونے کے باوجود ایسٹ مین ہمیشہ کہا کرتا تھا کہ میں اپنی غریبی کے دن کبھی نہیں بھولتا - غریبی کے دن ایسٹ مین کی ماں کو بھی یاد تھے۔ وہ اب بھی بیٹے سے بہت محبت کرتی تھی۔ وہ بیٹے کا بستر  خود بچھاتی - اس کے لئے دستانے تیار کرتی ۔ ایسٹ مین کی ماں بوڑھی ہو چکی تھی۔ لیکن پھر بھی وہ اپنے بیٹے کے لئے کبھی نہ کبھی کھانا تیار کر دیتی تھی۔ ایسٹ مین بہت امیر ہو گیا . تو اس نے اپنی ماں کے رہنے کے لئے بہت شاندار مکان تیار کرایا۔ یہ مکان اتنا بڑا اور اچھا تھا کہ کئی لوگ اسے محل کہتے تھے۔ 

    ایسٹ مین کی ماں فوت ہو گئی تو ایسٹ مین کا دل اچاٹ ہو گیا- ماں کی موت سے وہ اس قدر اداس اور دکھی تھا کہ اب کام میں بھی اس کا دل نہیں لگتا تھا۔ ایسٹ مین خود بھی بیمار رہنے لگا تھا۔ اب وہ اکثر کہا کرتا کہ جو آدمی بیکار ہو جائے ۔ اسے زندہ نہیں رہنا چاہیئے ۔ ایک تو اسے اپنی ماں کی موت کا دکھ تھا ۔ دوسرے  وہ بیمار رہتا ۔ اسی لئے وہ جینے سے بیزار ہو گیا۔ 
    ایک روز جبکہ سخت سردی پڑ رہی ملتی ۔ ایسٹ مین اپنے شاندار مکان کے خوبصورت سجے ہوئے کمرے میں لیٹا ہوا تھا ۔ وہ بیمار ہونے کی وجہ سے کئی دنوں تک گھر سے باہر نہیں نکلا تھا گیارہ بجے کے قریب اس کے کچھ دوست آئے . ایسٹ مین اپنے دوستوں سے باتیں کرتا رہا۔ جب اس کے دوست چلے گئے تو ایسٹ مین نے اپنی وصیت لکھی - ایسٹ مین نے ساری عمر شادی نہیں کی تھی۔ اس لئے اس کی کوئی اولاد نہیں تھی ۔ اس نے وصیت نامے میں لکھا کہ اس کی دولت اسکولوں اور کالجوں کی مدد کے لئے دے دی جائے۔ وصیت نامہ لکھنے کے بعد ایسٹ مین ایک سگریٹ پیتا رہا ، پھر آدھا سگریٹ میز پر رکھا ۔ ایک رقعہ لکھا ریوالور سے گولی چلا کر خود کشی کر لی۔ ریوالور سے گولی چلنے کی آواز سن کر آس پاس کے لوگ بھاگے بھاگے آئے اور دیکھا کہ جارج ایسٹ مین مر چکا ہے ، اس کی میز پر ایسٹ مین کا رقعہ پڑا ہے جس میں لکھا تھا ۔ " میں نے جو کام کرنا تھا کر چکا ۔اب کس چیز کا انتظار کروں۔" 

    اس کی موت کی خبر پورے امریکہ میں پھیل گئی اور لوگوں کو یہ سن کر بہت دکھ ہوا۔ 

    جارج ایسٹ مین نے اپنی زندگی میں بڑا کام کیا تھا ۔ اس نے فوٹوگرافی کو سستا کر کے لوگوں پر احسان کیا . فوٹو گرافی کے علاوہ وہ ہمیشہ اسکولوں اور دوسرے اداروں کی مدد کیا کرتا ۔ اس نے اپنے وطن روچسٹر میں ایک یونیورسٹی قائم کی ۔ اور آکسفورڈ یونیورسٹی کی مدد کی تھی ۔ 

    درج بالا مضمون سبھاش چندر کی کتاب "عالمی سائنسدان" سے لیا گیا ہے۔ اس کتاب کو یہاں سے پڑھا اور ڈاؤنلوڈ کیا جاسکتا ہے۔

    #جہان_سائنس #اردو #سائنس #سائنسی_کتب #سائنسی_کتابیں #سبھاش_چندر #عالمی_سائنسدان #جارج_ایسٹ_مین #سائنس_دان #سائنسدان #سوانح_حیات #موجد #ایجاد #ایجادیں
    #jahanescience



    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: جارج ایسٹ مین Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top