Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    جمعہ، 6 ستمبر، 2019

    زمین اور خلا کی کھوج


    کل خلا میں سفر کرنے والے ہوا باز آج ہی سے زمین سے دور فضاؤں کے راز دریافت کرنے کی مشق کر رہے ہیں کچھ اور کھوجی سمندر کی تہہ میں ایسی مخروطی سرنگ  بنانے  کی تجویزیں کر رہے ہیں  جو انھیں زمین کے جگر تک پہنچا دے۔ موجودہ زمانے کی تحقیق صرف زمین کے پہاڑوں میدانوں دریاؤں اور جنگلوں تک ہی محدود نہیں بلکہ اب انسان کی نگاہیں زمین کے اندر۔ زمین کے اوپر اور زمین سے دور خلا کے راز معلوم کرنے کے لئے بیتاب ہیں۔ جس طرح چھپے ہوئے خزانوں کا متلاشی کا دل مگن ہوتا ہے اس ہی طرح قدرت کے رازوں کی گہرائیوں تک پہونچنے میں سائنسدانوں کو ایک سرور محسوس ہوتا ہے۔

    یکم جولائی1957 سے 31 دسمبر 1958 تک کے بین الاقوامی جیو فزیکل سال کے دوران میں چھیاسٹھ قوموں کے ہزاروں سائنسدانوں نے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی جب زمین کے کسی ایک حصہ پر کوئی واقعہ ظہور میں آتا ہے تو اس کا اثر سارے کرہ زمین پر کیا پڑتا ہے۔ زمین اور خلا کے اسرار سے واقف ہونے کی متحدہ کوشش میں سائنسدانوں نے سمندر کی نامعلوم گہرائیوں سے پہاڑوں کی سربفلک چوٹیوں تک۔ زمین کی اندرونی گہرائیوں کی بے تحاشہ گرمی سے خلا کی بے پناہ سردی تک کے راز فاش کر ڈالے۔

    بين الاقوامی جیو فزیکل سال کے سرکاری طور ختم ہونے کے بھی تجسس کے تین پروگرام چلتے رہے کیونکہ ابھی قطب جنوبی کی تحقیق۔ سمندروں کی نشان دہی اور خلا کی دریافت کا کم باقی تھا جیو فزیکل سال کے بعد کی سیٹلائٹ اور راکٹ کی تحقیق کا سلسلہ ایک ایسی کمیٹی کے ذریعہ جاری ہے جو تمام دنیا کے ملکوں کی خلائی تحقیق کو مربوط کرتی ہے شاید یہ کمیٹی آئندہ خلا میں جانے والے سیٹلائٹ میں ایسے سائنسدانوں کو بھیج سکے جن کے اپنے ملک خلا میں سٹیلائیٹ نہیں بھیج سکتے۔ جوں جوں انسان خلا میں آگے بڑھتا ہے آپس میں امداد باہمی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور آئندہ کی خلائی تحقیق کا خوش کن تصور کیا جا سکتا ہے۔

    جیو فزیکل سال دراصل ایک بڑی سائنسی مہم کا پہلا قدم تھا۔ اس کے سائنسدانوں نے جو معلومات بہم پہونچائی ہیں، انھیں تین عالمی معلوماتی مرکزوں نے جمع کرکے ترتیب دیا۔ معلومات کو چھانٹنے، جانچنے اور ترتیب دینے کا کام اتنا بڑا ہے کہ کئی سال تک جاری رہے گا جیو فزیکل سال کے عالمی معلوماتی مرکزوں میں سینکڑوں من فلم، کاغذ اور نمونے بھیجے گئے ہیں ۔ اور یہ سب مواد ان دان سائنسدانوں کے کام آئے گا جن کو آئندہ ان معلومات کی ضرورت پڑے گی۔ اس مواد کو ترتیب دینے کے لئے ریکارڈ کی تصویریں لی جاتی ہیں۔ ان کو چھانٹا جاتا ہے۔ ان کے اشارے تیار کئے جاتے ہیں اور الیکٹرونک کمپیوٹر بہت سی معلومات کو مستقبل میں استعمال کے لئے مناسب شکل دیتے ہیں۔ بین الاقوامی جیو فزیکل سال کے سلسلے میں جتنی معلومات بہم پہنچتی ہیں وہ صرف آئندہ زمانے کے لئے ہی کارآمد نہیں، بلکہ آج کل بھی ان کی وجہ سے زمین سمندر اور آسمان کے بارے میں انسانی تصورات و نظریات بدل چلے ہیں۔ مثلاً سمندروں میں تین بڑے دھارے دریافت ہو چکے ہیں اور ناپے جا چکے ہیں ۔ ایک دھارا بحر اوقیانوس میں گلف اسٹریم کے نیچے ایک دن میں آٹھ میل  کی رفتار  سے بہتا ہے۔ دوسرا استوائی بحرالکاہل کے سطحی دھارے کے نیچے اس سے تین گنی رفتار سے بہتا ہے۔ اور دریائے مسی سیپی جیسے ایک ہزار دریاؤں جتنا وسیع ہے تیسرا دھارا جو بحرالکاہل میں خط استوا سے دو سو  میل شمال میں بہتا ہے ایک سیکنڈ میں ڈیڑھ ملین مکعب فٹ پانی بہا لے جاتا ہے۔ ایسی معلومات ان لوگوں کے لئے بہت کارآمد ہیں جن کا تعلق سمندروں میں خوراک کی مقدار اور اس کے لئے کی جگہ دریافت کرنے سے ہے یا جن کا تعلق موسم کی تبدیلی سے ہے موسموں کا مطالعہ کرنے والوں کو اس امکان سے بھی دلچسپی ہے کہ شاید قطب جنوبی کی سرزمین ایک مسلسل براعظم نہ ہو بلکہ پہاڑی جزیروں کا ایسا سلسلہ ہو جس پر برف کی موٹی تہ جم گئی ہے۔ اس علاقے میں اتنی برف پائی گئی ہے کہ اب دنیا میں برف کی کل مقدار کا اندازہ پہلے سے چالیس فی صدی زیادہ ہے۔ انداز میں یہ تبدیلی ان لوگوں کے لئے خاص طور پر اہم ہے جو زمین کے نازک آبی اور حرارتی نظام کا مطالعہ کرتے ہیں۔ 
    سمندری دھاروں اور قطب جنوبی کی برف کی دریافت کے علاوہ انسان نے بحرالکاہل کی تہ میں ایک اور دلچسپ دریافت کی ہے اور وہ ہے لاکھوں مربع میل میں پھیلا ہوا معدنیات  سے معمور ایک ایسا علاقہ جہاں مینگنیز. لو ہا۔ کوبالٹ اور تانبہ ڈلیوں کی شکل میں ملے ہوئے ملتے ہیں۔ ان معدنیات کی قیمت پانچ لاکھ ڈالر فی مربع میل ہوتی ہے۔

    آئندہ زمانے کے کھوجی شاید ان معدنیات کو سمندر کی تہہ سے نکالیں گے۔ ان کے دوسرے ساتھی آسمان کی کانوں سے دولت جمع کریں گے ۔ ان خوش کن خیالوں کے علاوہ اور بھی بہت دلچسپ باتیں انھیں خلا اور زمین کے بارے میں تم آگے چل کر اس کتاب میں پڑھو گے۔

    جہاں ایک طرف کھوجی زمین اور آسمان کے بارے میں بنیادی باتیں دریافت کرنے میں لگے  ہوتے ہیں وہاں دوسری طرف کچھ لوگ ایسی باتوں کی تلاش میں ہیں جو دنیا کو اور طریقوں سے فائدہ پہنچا سکتی ہیں۔ مثلاً کچھ سائنسدان خوراک کے نئے وسائل کی تلاش میں ہیں۔ کچھ سورج سے براہ راست طاقت حاصل کرنے کے عملی طریقے ڈھونڈھ رہے ہیں۔ اور کچھ سمندر کی ہائیڈروجن کو ایٹمی ایندھن کے طور استعمال کرنے کی ترکیبیں تلاش کر رہے ہیں۔

    شاید سب سے دلچسپ وہ باتیں ہیں جو خلا کے بارے میں دریافت ہو رہی ہیں اور یہی وجہ ہے کی خلا کے اس کنارے سے لے کر سورج کے گرد گردش کرنے والے مصنوعی سیاروں تک جتنے سربستہ راز ہیں ان کی کھوج لگانا اب بھی ایک دلچسپ مشغلہ ہے اور آئند بھی رہے گا۔

    نوٹ: یہ کتاب ریختہ پر دستیاب ہے۔ اس کتاب کو یہاں سے پڑھا جاسکتا ہے۔ یہ 1959 میں شایع شدہ کتاب کا اردو ترجمہ ہے۔

    #جہان_سائنس #اردو #سائنس #ترجمہ #اردو_سائنس_بورڈ #ایم_ایم_بیگ #مارگریٹ_او_ہائیڈ #انڈین_اکیڈمی #زمین_اور_خلا_کی_کھوج #سائنسی_کتب #سائنسی_کتابیں #اردو_میں_سائنس 
    #jahanescience
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: زمین اور خلا کی کھوج Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top