Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    جمعرات، 26 نومبر، 2015

    ہم دیوہیکل سیاروں کے دیس میں کیسے پہنچے

    تیسرا باب
    ہم دیوہیکل سیاروں کے دیس میں کیسے پہنچے 


    خاکہ3.1 گلیلیو خلائی جہاز، اپنے دبے ہوئے اہم انٹینا کے ساتھ جب حتمی طور پر 1997ء میں مشتری پر پہنچا۔ جب یہ برجیسی نظام تک پہنچا تو جہاز آتش فشانی چاند آئی او کے انتہائی قریب سے گزرا تھا۔

    ہمارا نظام شمسی عجیب طریقہ سے ترتیب دیا ہوا ہے۔ اندرونی سیارے سورج کی طرف سمٹے ہوئے ہیں، اپنے تنگ مداروں میں اس طرح تیزی سے چکر لگاتے ہیں جیسے گدھ مردار کے گرد۔ لیکن مریخ کے بعد ہر چیز پھیل جاتی ہے۔ اگر ہمارا سورج پن کے سرے جتنا ہوتا تو چاروں اندرونی سیارے اس سے 22 انچ کے اندر کے علاقے میں چکر لگا رہے ہوتے۔ لیکن اس حجم پر مشتری کا مدار 66 انچ پر ہوتا اور نیپچون اس پن کے سرے جیسے سورج سے39فٹ دور چکر لگا رہا ہوتا۔ بیرونی سیاروں کے یہ فاصلے ابتدائی خلائی جہازوں کو بنانے والوں کے لئے عظیم کھائی جیسے تھے۔ صرف مریخ ہی قابل پہنچ تھا؛ تیز رفتاری سے چھ ماہ میں سرخ سیارے پر جایا جا سکتا تھا۔ لیکن مشتری تک کھوجی کو خالی خلاء کے نامساعد ماحول میں کافی برس گزارنے تھے، اور نیپچون تک کا سفر تو ایک عشرے پر محیط ڈرا دینے والی صعوبتوں سے لبریز تھا۔

    فاصلے اور وقت کی مشکلات ہی وہ مسائل نہیں تھے جن سے نمٹا جانا تھا۔ ایک ڈونٹ ساخت کا وسیع بادل مریخ کے مدار کے بعد سورج کے گرد چکر لگاتا ہے۔ 1961ء تک مشاہدہ کرنے والوں نے دو ہزار برفیلی گیندیں اور چٹانوں کی فہرست مرتب کر لی تھی جس میں سیریز (950کلومیٹر قطر پر مشتمل) سے لے کر چھوٹے سیارچے تک موجود ہیں۔ جلد ہی وہاں پر مزید ہزاروں دریافت ہونے والے تھے۔ ان میں سے کتنے ایسے ہیں جو ہماری دوربینوں کی پہنچ سے دور وہاں پر گھات لگا کر بیٹھے ہیں؟ کیا یہ اڑتے ہوئے پتھر اور دھاتوں کے پہاڑ بیرونی نظام شمسی تک پہنچنے والے کسی بھی جہاز کے سامنے مستقل قسم کی مہلک رکاوٹ بن سکتے ہیں؟

    تجربات سے ہوائی انجنیئرز یہ بات جان گئے ہیں کہ صرف ریت کا ایک ذرّہ بھی خلائی جہاز کو ناکارہ کرنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔4 اگست 1969ء، مرینیر ہفتم خلائی جہاز مریخ کے پاس گیا۔ یہ ایک طے ملاقات کا وقت تھا جس کو چھوٹے روبوٹ نے چھوڑ دیا تھا۔ اس کے گروہ کے دوسرے جہاز مرینیر ششم، کو چند دن پہلے ہی خط استواء کی جانب اڑان کے لئے بھیجا گیا تھا، جولائی 30کے دن مرینیر ہفتم کو جنوبی قطبی علاقے کا معائنہ کرنا تھا۔ اس سے پہلے صرف مرینیر چہارم ہی کامیابی کے ساتھ مریخ کی تصاویر کو زمین تک بھیج سکا تھا اور سائنس دان بے صبری سے مزید تصاویر کا انتظار کر رہے تھے۔ لیکن مریخ سے صرف5 دن اور مرینیر ششم سے 7 گھنٹوں کی مسافت پر، ناسا کے جوہانسبرگ میں واقع ڈیپ اسپیس ٹریکنگ ا سٹیشن کا رابطہ مرینیر ہفتم سے منقطع ہو گیا۔ ہوائی ٹیم نے کسی بڑے انٹینا کی ایمرجنسی میں تلاش شروع کی تاکہ گم ہوئے جہاز کے اشاروں کو پکڑا جاسکے۔ صرف چند منٹ پہلے جب مرینیر ششم سرخ سیارے کے پاس سے گزرا، تو کیلی فورنیا کے گولڈ اسٹون ٹریکنگ اسٹیشن نے مرینیر ہفتم سے آتے ہوئے کمزور اشاروں کا پکڑا۔ کنٹرولر نے گم ہوئے جہاز کو حکم دیا کہ وہ اپنے انٹینے کو چوڑی کرنوں پر تبدیل کر دے اور اس طرح سے ہوائی انجینیروں نے خلائی جہاز پر عین اس وقت پر دوبارہ سے قابو حاصل کیا جب اس کو قطبی معائنہ کرنا تھا۔ لیکن وہ رپورٹ جو انہوں نے خلائی جہاز سے حاصل کی وہ پریشان کر دینے والی تھی۔ روبوٹ کی چھتری اسٹار ٹریکر نے اسٹار سے بندھن توڑ لیا تھا نتیجے میں خلائی جہاز کا رخ زمین سے دور ہو گیا تھا۔ بظاہر کوئی چیز خلائی جہاز سے آکر ٹکرائی تھی اور یہ کوئی ہلکی ٹکر نہیں تھی۔ 20 سے 90 ٹیلی میٹری چینل خراب ہو گئے تھے اور مرینیر ہفتم کی سمتی رفتار بدل گئی تھی۔ اس کے ٹینکوں میں سے ایک میں سے گیس باہر نکلتی ہوئی لگ رہی تھی۔ یہ ممکن تھا کہ کھوجی کا کوئی ٹینک پھٹ گیا تھا لیکن شواہد اس جانب اشارہ کر رہے تھے کہ کوئی مائیکرو شہابیہ ٹکرا گیا تھا۔ اس واقعہ نے خلائی جہاز کے ڈیزائنر کو سکتے میں ڈال دیا تھا۔ کیونکہ اگر خلائی جہاز مریخ کی طرف جاتے ہوئے ایک چھوٹے سے شہابیے سے خراب ہو سکتا ہے تو سیارچوں کی پٹی کے بعد کیا ہوگا؟ اس واقعہ نے آنے والے برسوں میں ڈیزائنر کو خوف زدہ کیا رکھا۔


    خاکہ 3.2 مریخ بھیجے جانے والے مرینیر ہفتم حادثاتی تجربہ ایسا تھا کہ وہ اس میں کا لگ بھگ گم ہی ہو گیا تھا۔

    پائینیر

    1972ء اور 1973ء میں پائینیر دہم اوریازدہم نے مشتری جانے کے لئے زمین سے اڑان بھری۔ اس سے پہلے آسمانوں پر بھیجی جانے والی کسی ایسی چیز کی نظیر نہیں ملتی۔ شمسی پینلوں اور انٹینے کو ٹانگنے کے ہینگر کے بجائے خلائی جہاز پر بڑے لمبے فاصلے پر رابطہ قائم کرنے والے انٹینے کا غلبہ تھا۔ آج کے معیار کے مطابق، کھوجی چھوٹا اور سادہ تھا۔ وزن میں صرف 258کلوگرام، اس کی اہم باڈی کی کمیت مشتری پر اگلی مہم پر بھیجے جانے والے (وائیجر ) سے آدھے سے بھی کم تھی۔ اگر ہم اس کا جدید وائیجر سے موازنہ کریں جس کا انٹینا 3.7میٹر پر پھیلا ہوا تھا تو اس کا اہم انٹینا 2.7 میٹر سے بھی کم گھیرے کا تھا۔

    پائینیر میں وضع انداز کو چھوٹے تھرسٹر سے قابو کرنے کے بجائے ہمہ وقت گھماؤ والا رکھا گیا تھا، خلائی جہاز لٹو کی طرح گھومتا رہا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اس میں موجود تمام آلات، بشمول تصاویر لینے والے نظام کے، بھی مستقل حرکت میں رہتے۔ پائینیر کیمرے لے کر جانے کے بجائے "تصویری فوٹو پولی میٹرز" لے کر گیا تھا جس کی مدد سے دھندلی تصاویر کو بھی دوبارہ بنایا جا سکتا تھا۔ اصل وجہ سادہ تھی: ایک چکر کھاتے ہوئی خلائی جہاز کو ایندھن کی کم ضرورت ہوتی اور اتنے فاصلے پر اس سے پہلے کوئی مہم نہیں شروع کی تھی۔ پائینیر پہلا خلائی جہاز تھا جس نے نیوکلیائی قوّت کا استعمال کیا تھا۔

    مفصل چھان پھٹک کرنے کے بجائے مہم کا اصل مقصد وہاں تک خیریت سے پہنچنا تھا۔ سبق جے پی ایل کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ایڈ اسٹون کو یاد ہے۔ "پائینیر دہم اور یاز دہم کے دو اہم مقاصد تھے۔ ایک تو یہ بات معلوم کرنی تھی کہ آیا ہم سیارچوں کی پٹی میں سے گزر سکتے ہیں یا نہیں؟ اور دوسرے چیز اس بات کا پتا لگانا تھا کہ مشتری کے گرد موجود تابکاری کس حد تک خطرناک ہے؟ اس مہم کو ترتیب دیتے ہوئے یہ دونوں مقاصد ہمارے زیر نظر تھے۔" اس کے باوجود، روبوٹ نےبین السیاروی مقناطیسی میدان اور مشتری اور زحل کے کرہ فضائی کے ١١ اس دور کے جدید ترین تجربات بھی ادا کیے۔ انہوں نے شمسی ہواؤں کی نقشہ بندی اور سیاروں کے ساتھ ان کے برتاؤ کو بھی درج کیا، گیسی دیو اور ان کے کچھ بڑے مہتابوں کے ماحول کے درجہ حرارت کو ناپا۔ سیاروں اور بڑے مہتابوں کے چکر کھاتی تقطیع کے ساتھ تصاویر کو اتارا۔

    شاید سب سے اہم بات جو مستقبل کی کھوج کے لئے روبوٹ بردار اور انسان بردار دونوں خلائی جہازوں  کے لئے تھی وہ یہ کہ انہوں نے ہر سیارے کے گرد موجود تابکاری کو جھیل لیا تھا۔ سیارے کے گرد فعال میدان اور ذرّات ایک طرح سے مقناطیسی بلبلہ یا ڈھال بنا لیتے ہیں۔ مقناطیسی میدان کے یہ بلبلے مقناطیسی کرہ کہلاتے ہیں اور سیارے کو سورج کی شمسی ہواؤں سے نا صرف بچاتے ہیں بلکہ وہ مہلک اشعاع کی ڈھال بھی پیدا کرتے ہیں۔ ہرچند کے گھومتا ہوا خلائی جہاز تصاویر اتارنے کے لئے کوئی مثالی نہیں تھا تاہم یہ سیارے کی پیچیدہ مقناطیسی کرہ کی ساخت کی تقطیع کرنے کے لئے بہت بہترین تھا۔

    ایڈ اسٹون کا تجربہ سیاروں کے مقناطیسی کرہ میں ہے۔ "مجھے یاد ہے کہ جب پائینیر دہم مشتری کے قریب پہنچ رہا تھا تو میں حیرت زدہ تھا کیونکہ ہم نے زمین سے رہتے ہوئے اس کے مقناطیسی کرے کو ناپ لیا تھا۔ یہ اندر سے مقناطیسی کرہ اور باہر موجود شمسی ہواؤں کے درمیان  متوازن دباؤ ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ شمسی ہوائیں کیا ہوتی ہیں ہم نے انہیں ناپا ہوا ہے۔ ہم سمجھتے تھے کہ ہم زمین پر موجود ریڈیائی مشاہدات کی بدولت جانتے تھے کہ مقناطیسی میدان کیا ہیں اور یہ ہمیں بتاتے تھے کہ مقناطیسی کرہ کو ٤٠ برجیسی نصف قطر جتنا ہونا چاہئے تھا ( زمین کی صورت میں، اس کو 10 زمینی نصف قطر جتنا ہونا چاہئے)۔ جب پائینیر دہم نے پہلی مرتبہ مقناطیسی کرہ کا سراغ لگایا تو وہ 40 برجیسی نصف قطر جتنا تھا۔"
     
    خاکہ 3.3 پائینیر دہم اور یاز دہم ایسے سائنسی آلات سے لدے ہوئے تھے جن کی توانائی ریڈیائی ہم جاؤں کے حر برقی جنریٹر پیدا کرکے مہیا کر رہے تھے۔
    دونوں پائینیر نے یقین نہ آنے والی کامیابی کو سمیٹا۔ انہوں نے پہلے مشتری کے قریب سے لئے گئے اور اس کے پہلے اچھے قطبی علاقوں کی تصاویر کو زمین پر بھیجا۔ دونوں جہازوں نے مشتری کے گلیلیو کےمہتابوں کی تصاویر لیں، اور پائینیر یاز دہم کو زحل اور اس کے چاند ٹائٹن کی مہم کے لئے روانہ کیا۔ خلائی جہاز کی چکر کھاتی ہوئی نوعیت کی وجہ سے تصاویر پتلی پٹیوں پر بنائی گئیں جن کی تقطیع اس وقت کی جاتی جب جہاز گھومتا۔کیونکہ ایک روایتی تصویر تقطیع کے لئے تیس منٹ لیتی،[1] اس لئے تصویر کو دوبارہ بناتے ہوئے کافی ساری اطلاعات ضائع ہو جاتی تھیں۔ ان تمام باتوں کے باوجود جڑواں جہازوں نے ہمیں دیوہیکل دنیاؤں کے مہتابوں کے ہئیت کے بارے میں ابتدائی اشارے دیئے۔ (ملاحظہ کیجئے پانچواں باب خاکہ5.5)


    خاکہ3.4 جڑواں پائینیر کے تقطیعی کیمروں نے مشتری (اوپر) اور زحل کے قطبین کا اتنی تفصیل سے جائزہ لیا جو پہلے کبھی نہیں لیا گیا تھا۔


     پائینیر نے پہلی مرتبہ برمحل خرد شہابیوں کی پیمائش مریخ کے بعد بین السیاروی خلاء میں کی، یہ بات اس لئے کافی اہم ہے کہ کسی بھی خلائی جہاز نے سیارچوں کی پٹی سے گزرنے کی جرات نہیں کی اور کچھ کا اندازہ تھا کہ خرد شہابیے کسی بھی گزرنے والے خلائی جہاز کو اس قدر نقصان پہنچائیں گے کہ وہ بچ نہیں سکے گا۔ دونوں جڑواں خلائی جہازوں نے پہلی مرتبہ دیوہیکل گیسی جہانوں کے گرد موجود اشعاعی میدان کی پیمائش کی (ملاحظہ کیجئے چوتھا اور پانچواں باب)۔ پائینیر کے ذریعہ پہلی مرتبہ دریافت کی گئی کافی چیزوں میں سے ایک زحل کے مشہور ایف حلقے بھی تھے۔[2]

    وائیجر منصوبہ

    چھوٹے پائینیر خلائی جہازوں کے آلات کی خوشبو نے سیاروی سائنسی سماج کی بھوک کو اشتہا دے دی تھی۔ سیارچوں کی پٹی کو شیر دلی سے پار کرنے کے بعد، ناسا نے فیصلہ کیا کہ دو بڑے مزید جدید جہاز بیرونی نظام شمسی کی جانب روانہ کئے جائیں گے۔ مہم کو بھیجنے کے لئے اس سے بہتر وقت نہیں مل سکتا تھا۔١٩٧٠ء کی دہائی کے آخر میں، بیرونی سیارے ایک نادر ترتیب میں آ گئے تھے۔ مشتری کے محل وقوع نے اس بات کا موقع فراہم کیا تھا کہ اس کو بطور ثقلی غلیل کے استعمال کرتے ہوئے بیرونی نظام شمسی کے دوسرے سیاروں تک جایا جاسکے، نتیجے میں سفر کے کئی برس کم ہوسکتے تھے۔ یہ ترتیب اگلے ١٧٥ برسوں سے پہلے دوبارہ نہیں ہونے والی تھی۔

    ناسا عظیم سفر کے لئے پیچیدہ خلائی جہازوں کی فنڈنگ کے لئے تگ و دود میں لگا ہوا تھا جن کو اس نے حر برقی بیرونی سیاروی خلائی جہاز کا نام دیا تھا۔ نیوکلیائی قوّت سے چلنے والے ان خلائی جہازوں کا وزن ایک ٹن سے زیادہ ہونا تھا۔ مختلف فضائی کھوجیوں سے لبریز خلائی جہازوں کو ان کھوجیوں کو تمام چاروں جناتی جہانوں میں چھوڑنا تھا۔پہلے جہاز کو مشتری کی طرف چھوڑنا تھا جو زحل سے ہوتا ہوا پلوٹو کی طرف جاتا۔دوسرے جہاز کو دیو ہیکل سیارے کی ابتدائی جانچ کرنے کے لئے مشتری کا چکر لگا کر اس کی قوّت ثقل سے توانائی حاصل کرکے یورینس اور نیپچون تک جانے تھا۔ ان خلائی جہازوں کو اب تک کے ان جدید آلات سے لیس ہونا تھا جو پیسے سے بنائے جاسکتے تھے۔ بس مسئلہ یہیں سے شروع ہو گیا۔ کانگریس نے اس پر ہونے والے خرچ کی وجہ سے اعتراض کیا۔ ناسا نے اس منصوبے کے بجائے اپنے انتہائی کامیاب مرینیر خلائی جہازوں کی دوبارہ سے آلات سازی کی جس میں بڑے جسیم انٹینوں کے ساتھ جڑواں ریڈیائی ہم جاؤں حر برقی جنریٹر بھی نصب کئے۔ چھوٹے خلائی جہاز کرسچین وائیجر پر آنے والی لاگت ان خلائی جہازوں کے مقابلے میں ایک تہائی تھی۔

    انجینیروں نے دو وائیجر خلائی جہاز بنائے۔ وائیجر اوّل اس خط پرواز کی جانب روانہ کیا گیا جس کے ذریعہ وہ پہلے مشتری اور پھر زحل کی طرف روانہ ہو گیا۔ اس کو پلوٹو کی طرف بھیجنے کے بجائے زحل کے چاند ٹائٹن کے قریب رہتے ہوئے اس کی تحقیق پر زور رکھا گیا۔ کچھ لوگ سمجھتے تھے کہ یہ پلوٹو پہنچنے سے پہلے ہی ناکام ہو جائے گا۔ اگر پہلا خلائی جہاز بچ نکلا، تو وائیجر دوم کو عظیم سفر کے چھوٹے سلسلے پر بھیجا جاتا جس میں وہ مشتری اور زحل کو پار کرتا ہوا یورینس اور نیپچون کی جانب ایک عشرے پر محیط عرصے کے سفر میں پہنچتا۔

    جڑواں وائیجر اس وقت بننے کے عمل سے گزر رہے تھے جب پائینیر کا واسطہ مشتری سے پڑ رہا تھا۔ ایڈ اسٹون کے مطابق یہ خوش قسمتی ہی تھی۔ " ہمیں پائینیر کی وجہ سے کافی فائدہ ہوا،کیونکہ ہمیں معلوم ہو گیا تھا کہ اشعاعی ماحول اس سے کہیں زیادہ برا تھا جتنا کہ نمونے نے تجویز کیا تھا اس کا مطلب یہ تھا کہ ہم نے ١٩٧٤ء کی ابتدا میں ہی نو مہینے اور لے لئے تھے تاکہ سرکٹ کو دوبارہ سے بناکر پرزوں کو بدل لیں کیونکہ ہمیں اس بات کا خطرہ تھا کہ ہم مشتری کے پاس پہنچ کر بچ نہیں سکیں گے۔"


    خاکہ 3.5 اوپر: وائیجر کو تین پلوٹونیم کی بیٹریوں(ریڈیائی ہم جاؤں حر برقیات جنریٹر) سے توانائی فراہم کی گئی، ان کو سفید دھاتی خول کے پیچھے دیکھا جا سکتا ہے۔خلائی جہاز کے اوپر لگے ہوئے بڑے سفید انٹینا پر بھی غور کریں۔ نیچے : وائیجر کا تقطیع پلیٹ فارم بائیں فریم کے نیچے، جس پر کافی سارے آلات لگے ہوئے ہیں جس میں دوربینی کیمرے بھی شامل ہیں۔

    بہتر حفاظتی ڈھالوں سے مسلح اور جدید الیکٹرانکس سے لبریز خلائی جہاز نہ صرف بچ گیا بلکہ اس نے اپنا سفر بھی شاندار انداز سے مکمل کیا۔ مہم کی پہلی دریافت اس گندے مقناطیسی میدان کی تھی جس سے ہوائی انجنیئر کافی زیادہ سہمے ہوئے تھے۔ ایڈ اسٹون کے مشاہدے کے مطابق "کچھ بھی ہماری سوچ کے مطابق نہیں تھا۔ کسی کو نہیں معلوم تھا کہ آگے کیا ہے۔ اور پھر سب کچھ ہو گیا! پھر وہ واپس آیا، کیونکہ مشتری کا مقناطیسی خط استواء جھکا ہوا ہے، لہٰذا جب مشتری گھومتا ہے تو یہ میدان اوپر جاتا ہے اور پھر واپس نیچے آتا ہے، کسی بڑی قرص کی طرح۔ یہ کافی چپٹی قرص ہے جو مشتری کے گھومنے کے ساتھ ڈگمگاتی ہے، اور یکدم یہ وہاں پر نہیں تھی اور پھر اچانک وہاں پر موجود تھی۔ اور یہ دریافت ان دریافتوں کی پیش رو تھی جس کو وائیجر نے ایک کے بعد ایک آگے کھوجنا تھا۔ یکایک چیزوں نے آپ کے دیکھنے کے نظریئے کو بدل دیا تھا۔ ہمارا ارضیاتی نقطہ نظر بس ایسا ہی تھا یہ ان چیزوں پر انحصار کرتا ہے جس کی بنیاد زمین کے متعلق ہماری معلومات پر ہوتی ہے،اور اس کی بنیاد پر ہم قیاس کرتے ہیں، لیکن ہمیں معلوم ہوا کہ ہمارے ارضیاتی نقطہ نگاہ  کے مقابلے میں جس کی ہم نے تیاری کی تھی اس سے کہیں زیادہ وسیع چیزیں وہاں موجود ہیں۔"

    وائیجر کی بہترین حفاظتی ڈھال کے باوجود خلائی جہاز بمشکل ہی اشعاعی موسم کو جھیل پایا، جانس ہوپکنس یونیورسٹی اپلائڈ لیبارٹری کے خلائی شعبے کے اعلی سائنس دان رالف مک نٹ کہتے ہیں۔"جس بات کو لوگ نہیں سمجھتے وہ یہ ہے کہ وائیجر اوّل نے حقیقت میں مشتری کے نظام کی طرف جاتے ہوئے اپنی سطح پر اصلی ضربوں کو برداشت کیا ہے۔ نزدیک پہنچنے پر طاقتور الیکٹران کے مین کنٹرول اور کمانڈ کمپیوٹر سے ٹکرانے کی وجہ سے کچھ بیس مرتبہ اہم کمپیوٹر کھل بند ہوا ہے۔ ہم جانتے تھے کہ وہاں پر الیکٹران کی کافی زیادہ آمد ہوگی اور نتیجتاً انہوں نے تانبے کی اضافی موتی تہ الیکٹرانک ڈبے کے گرد لگا دی تاکہ کچھ تابکاری سے بچا جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ شاید وائیجر کی کے کچھ مشاہدے کافی اچھے ہیں کیونکہ اس میں اضافی حفاظتی ڈھال لگی ہوئی تھی۔ وائیجرز کے ساتھ بالآخر ہم نے وہاں موجود خراب تابکار ماحول سے نمٹنا جان لیا۔"

    پائینیر کے برعکس وائیجر تین محور پر پرسکون تھا اور اس کام کے لئے سہ جہتی خلاء میں مخصوص ستاروں کی رہنمائی حاصل کی گئی تھی۔ اس کی بدولت وہ کیمروں اور آلات کو انتہائی درستگی کے ساتھ تقطیع کے وقت استعمال کرسکا۔

    خلائی جہاز لمبے کھلے ہوئے عرصے تک کی تصاویر لے سکتا تھا۔ دونوں وائیجر نے مشتری اور زحل کے نظام کے شاندار نظارے زمین پر بھیجے۔ ایڈ اسٹون اس نئی آنے والی معلومات کے سمندر سے باخبر رہنے کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ "روزانہ کچھ نہ کچھ دریافت ہوتا تھا، ایسی دریافتیں ہو رہی تھیں جس کا ہم نے تصّور بھی نہیں کیا تھا۔ اسی چیز نے جہاز کو دریافتوں کو کھوجنے کی مہم بنا دیا تھا۔ ہم جانتے تھے کہ ہم نئی چیزیں سیکھیں گے، لیکن ہمیں اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ نظام اس قدر متنوع فیہ ہوگا، اور ہم اس قدر دلچسپ اور مختلف چیزوں کو دیکھیں گے۔ ہر مہتاب مختلف ہے۔ وہ سب ایک جیسے ہوسکتے تھے، سب کی سطح قدیمی گہرے گڑھوں سے بھری ہوئی ہوسکتی تھی۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ ویسے ہی تھے جیسا کہ انہوں نے ہونا تھا۔ یکایک وہ اصل جہاں بن گئے جس میں سے ہر ایک الگ اور منفرد تھا۔"

    وائیجر کی دریافتوں میں مشتری کے حلقے، زحل کے نئے حلقے، کافی چھوٹے چاند، آئی او پر آتش فشاں، یوروپا کی سطح کے نیچے ممکنہ سمندر، کافی برفیلے مہتابوں بشمول یوروپا، انسیلیڈس اور ڈائیونی پر ہونے والی ممکنہ ارضیاتی تحریک، اور زحل کے جسیم چاند ٹائٹن پر موجود پیچیدہ کرہ فضائی شامل تھیں۔ مہتابوں پر عجیب ارضیاتی مظاہر مدوجزر کی گرمی سے پیدا ہوتے نظر آئے، مدوجزر قدرت کی ایک ایسی طاقت ہے جس کو وائیجر کے سفر سے پہلے کافی غیر اہم سمجھا جاتا تھا۔ برفیلے چاند کے ماہر ولیم مک کینن تبصرہ کرتے ہیں،" مدوجزر حرارتی پیش گوئیاں اور ان کی طاقت کا اندازہ تو پہلے سے ہی تھا، لیکن ہم نے اس سے پہلے کوئی ایسی چیز نہیں دیکھی تھی، اور کوئی بھی اس کی اصل طاقت کا اندازہ نہیں لگا سکا تھا۔ یہاں تک کہ ننھے جہاں بھی یہ بہت زیادہ متحرک ہیں۔"

    "وائیجر سے پہلے معلوم متحرک آتش فشاں صرف زمین پر موجود تھے۔" ایڈ اسٹون اضافہ کرتے ہیں۔"اور پھر جب ہم نے آئی اوکی جانب پرواز کی تو وہاں زمین سے دس گنا زیادہ آتش فشانی حرکت دیکھی۔ معلوم مائع پانی کے سمندر ؟ یہاں زمین پر موجود ہیں۔ پھر ہم یوروپا سے گزرے۔ معلوم نائٹروجن کا فضائی کرہ ؟ صرف زمین پر موجود ہے۔ پھر ہم ٹائٹن سے گزرے۔ ایک کے بعد بار بار ایسا ہوا کہ ہم جس چیز کو سمجھتے تھے کہ اسے اچھی طرح سے جانتے ہیں وہ ویسی نہیں تھی۔ سیارے کے مقناطیسی میدان کو سیارے کی گردش کے ساتھ ملا ہوا ہونا چاہئے۔ اندازہ لگائیں کہ یورینس پر کیا ہوا؟ یہ اس کے خط استواء سے زیادہ ملا ہوا تھا۔ اور نیپچون میں بھی ایسا ہی تھا۔ لہٰذا ایک کے بعد ایک دریافت نے بتایا کہ ہمارا ارضیاتی نقطہ نظر اتنا وسیع نہیں ہے کہ وہ ہمارے نظام شمسی کا احاطہ کر سکے۔"

    یہ رجحان مہم کے آگے بھی جاری رہا۔ وائیجر اوّل کو زحل سے آگے نہ جانے کی قربانی زحل کے چاند ٹائٹن کی وجہ سے دینی پڑ گئی، لیکن وائیجر دوم نے اس عظیم سفر کو جاری رکھا اور ١٩٨٦ء میں یورینس کے نظام میں پہنچا۔ جہاز نے یورینس کے کالے چاند اور حلقوں کی تصاویر اتاریں، لطیف طوفانوں اور بادلوں کی پٹیوں کی نقشہ کسی کی اور اس کے عجیب متوازن مقناطیسی میدانوں کا نقشہ بنایا۔

    یورینس پر پایا جانے والا ماحول توقعات سے کہیں کم سرگرم ملا۔ پٹیاں اور علاقے جو مشتری اور زحل میں کافی زیادہ شناسا تھے وہ یورینس کی ہری کہر میں لگ بھگ غیر مرئی ہو گئے تھے، صرف چند ہی طوفان تصاویر میں نظر آرہے تھے، بیرونی سیاروں کے ماہر ہیڈی ہیمل کہتے ہیں :

    یورینس کے پاس سے گزرنے کا وقت بہت ہی مختصرسا تھا، اور سفر کو یورینس کے پاس سے مخصوص مختصر وقت میں ہونا تھا۔ یہ وہاں جنوبی راس السرطان (گرمیوں میں رات اور دن کے برابر ہونے) کے وقت پہنچا۔ یورینس جھکا ہوا ہے؛ یہ اپنے اطراف میں لیٹا ہوا ہے۔ اس کا مطلب ہوا کہ اس کے موسمی تغیر کافی شدید ہوں گے: راس السرطان کے وقت ایک قطب روشن جبکہ دوسرا گہری تاریکی میں ڈوبا ہوگا۔ لہٰذا جب وائیجر وہاں سے گزرا، تو اتفاق کی بات تھی کہ جنوبی قطب کی سمت لگ بھگ سورج کے براہ راست سامنے تھی۔ سیارہ جتنا بھی گھوم لیتا آپ اس کے قطب کو دیکھتے رہتے۔ اس وقت وائیجر کو کچھ زیادہ مختلف بادل نظر نہیں آئے۔ اس نے صرف دس چھوٹے خصائص دیکھے۔یورینس کا کرۂ فضائی کثیف بادلوں سے بھرا تھا لیکن یہ یکساں تھا۔ لہٰذا آپ کے پاس یہ ہرے رنگ کی ٹھوس گیند تھی جس میں اکا دکا دھندلے سے نشان تھے جن کو دیکھا جا سکتا تھا۔ اور یہ سب اس کے جنوبی نصف کرہ کی طرف تھا کیونکہ وہی روشن تھا۔ لہٰذا مشتری کے خوبصورت گھومتی ہوئی پٹیوں اور علاقوں کے مقابلے میں یہ کوئی زیادہ دلچسپ نہ تھا۔
    خاکہ 3.6 خلائی جہاز وائیجر  کے پیچھے کا منظر جب وہ یورینس اور اس کے چھوٹے چاند مرانڈا کے پاس سے گزر رہا ہے۔ اس وقت کھوجیوں کو امید تھی کہ وہ منفرد دیوہیکل کی مختلف پٹیاں دیکھیں گے۔

    ہرے دیوہیکل کی یہ بوریت برسوں بعد زمین پر موجود دوربینوں کی مدد سے لی گئی ہوئی تصاویر سے دور ہو گئی (ملاحظہ کیجئے چوتھا باب )۔
     
    خاکہ 3.7 جے پی ایل کنٹرول سینٹر برائے وائیجر خلائی جہاز، جب اس کا سامنا زحل سے ہوا۔
    وائیجر دوم نے سائنسی دنیا کے آگے برفیلے مہتابوں کی سلطنت کو کھول دیا۔ یورینس کے چاند زحل نظام کے درمیانے مہتابوں جتنے ہی ہیں۔ وائیجر نے زحل کے کئی مہتابوں بشمول انسیلیڈس اورڈائیونی میں ماضی میں ہونے والی ارضیاتی سرگرمیوں کا عندیہ دیا۔ وائیجر دوم نے یورینس پر ماضی میں جاری رہنے والی سرگرمیوں کی بھی نشاندہی کی۔ بالخصوص مرانڈا کے بارے میں یہ معلوم ہوا کہ اندرونی اور بیرونی قوّتوں نے اسے اوپر اٹھا کر موڑ دیا، جبکہ ایریل اور ٹائٹن دونوں سے ان پر ماضی میں جاری رہنے والی برفیلے آتش فشانوں کی سرگرمیوں کا سراغ بھی ملا (ملاحظہ کیجئے آٹھواں باب)۔ یورینس پر روشنی کی سطح کافی کم ہے - زمین کے مقابلے میں ایک بٹا چارسو – اور یہ خلائی جہاز گولی کی رفتار سے دس گنا زیادہ تیز سفر کر رہا تھا۔ اس کام کو اور دشوار بنانے کے لئے اڑیل تقطیع پلیٹ فارم بھی موجود تھا۔ وائیجر پر موجود نشانہ لگانے والا نظام زحل کی طرف اڑان بھرتے ہوئے ایک سمت میں پھنس گیا تھا، لہٰذا کیمرے کو حرکت دینے کے بجائے پوری خلائی گاڑی کو گھمانا پڑا تاکہ ہدف پر لمبے عرصے تک کیمرے کی نظریں جمی رہیں اور تصویر میں آنے والے دھبوں سے بچا جا سکے۔ ہوائی انجینیروں نے سب سے مشکل حالات میں کافی شاندار کام کیا تھا۔ یہ تین برس بعد آنے والی مہمات کے لئے ایک اچھی مشق تھی۔ نیپچون انتظار میں تھا۔

     جب وائیجر آخری برفیلے دیو کے پاس پہنچا، تو اس وقت سیاروی ماہرین موسمیات سنجیدگی کے ساتھ اپنا سر کھجانے لگے۔ یہاں ہونے والی تمام تر حرکات کیا تھیں؟ کچھ بھی ہو نیپچون سورج سے کسی بھی دوسرے دیوہیکل سیارے کی بہ نسبت سب سے زیادہ دور ہے، اور سب سے کم توانائی حاصل کرتا ہے۔ اس کو تو سب سے زیادہ خاموش ہونا چاہئے تھا؟

     جب تصاویر کافی واضح ہوئیں، سیاروی موسمی نظریات ایک کے بعد ایک ڈھیر ہونے لگے۔ نیپچون میں نظام شمسی میں موجود کسی بھی جہاں سے زیادہ خطرناک ہوائیں چل رہی تھیں۔ کوبالٹ کی پھواروں کی دھاریں جن کے اوپر تاج کی طرح دمکتے ہوئے سفید میتھین کے بیل سوت (ریشے دار) بادل موجود تھے۔ ایک عظیم نیلا طوفان، جو مشتری کے عظیم سرخ دھبے کی طرح تھا گھومتے ہوئے سامنے آگیا۔ گھومتا ہوا طوفان اس قدر عظیم تھا کہ پوری زمین کو نگل سکتا تھا۔ یورینس کے مہتابوں کی طرح نیپچون کا ابھرتا ستارہ ایک عظیم چاند ٹرائیٹن تھا۔

    ایڈ اسٹون ایک عشرے پر محیط لمبی سیاروی مہم کا خلاصہ کچھ اس طرح سے پیش کرتے ہیں: "میں سیاروی مرحلوں کو ترتیب میں رکھتا ہوں۔ آئی او پہلا تھا جو اپنے آتش فشانوں کے ساتھ نمودار ہوا۔ ٹائٹن اور دوسروں کے ساتھ دریافتوں کا ایک مکمل سلسلہ موجود تھا جو ان کے ساتھ آیا تھا۔ دوسرا سیاروی مرحلہ ٹرائیٹن کے ساتھ شروع ہوا جس کا درجہ حرارت مطلق صفر سے ٤٠ ڈگری اوپر تھا یہاں پر چشمے اس کے قطب سے نکل رہے تھے۔ لہٰذا یہ مرحلہ کافی اچھا تھا۔ ان چیزوں کے درمیان آپس میں جس قسم کی حرکات ہو رہی تھیں آپ اس کا تصوّر بھی نہیں کر سکتے تھے۔"


    خاکہ 3.8 ایڈ اسٹون کے وائیجر مہم کی "ترتیبات" آئی او (اوپر) اور ٹرائیٹن۔


    وائیجر نظام شمسی کے بالکل کونے پر پہنچ کر بھی اشاروں کو نشر کرتا رہے گا۔ اس کتاب کو لکھتے وقت، وائیجر اوّل سورج کے آخری کونے کو بھی پار کرتا نظر آتا ہے یعنی کہ شمسی کرہ اور وہ واقعی میں بین النجمی خلاء میں سفر کر رہا ہوگا۔ لیکن ان سیاروی اڑانوں کے بعد اگلا منطقی مرحلہ سیاروں کی جانچ پڑتال کرنے کے لئے روبوٹوں کو بھیجنے کا ہے۔ مشتری کے لئے یہ کام گلیلیو مدار گرد  اور کرہ فضائی کھوجی کرے گا۔

    گلیلیو مدار گرد / کھوجی

    گیسی اور برفیلے دیوہیکل پیچیدہ وائیجر کی اڑانوں کے بعد، بیرونی نظام شمسی کا سروے مکمل ہو گیا ہے۔ لیکن یہ صرف سروے ہی ہے۔ ان دیوہیکل جہانوں اور ان کے مصاحبوں کی تفصیلی چھان پھٹک کے لئے محققین کو ایک لمبا عرصہ درکار ہے اور یہ کام ایک مدار گرد ہی کر سکتا ہے۔

    ١٩٩٥ ء میں ضخیم گلیلیو مدار گرد مشتری پر پہنچا۔ یہ پائینیر اور وائیجر دونوں کی بہترین کاوشوں کا نچوڑ تھا، اس میں گھومتے ہوئے حصّے میدان اور ذرّات کی تحقیق کی غرض سے بھی موجود تھے، اور دوسرے حصّے بھی موجود تھے جن کا کام مشتری کے حلقوں اور بادلوں، گلیلائی مہتابوں اور دوسرے چاندوں کی چھان پھٹک کرنی تھی۔ لیکن اس سے پہلے کہ جہاز وہاں پہنچتا بحران آگیا۔

    اہم انٹینا جس کو چھتری کی طرح کھلنے کے لئے بنایا گیا تھا، اس نے کھلنے سے انکار کر دیا۔ مسئلہ گرم اندرونی نظام شمسی میں منصوبے سے زیادہ لمبے عرصہ چلنے والے خلائی جہاز کا تھا۔ گلیلیو خلائی جہاز کو مشتری تک جانے کے لئے کافی تیز رفتار بنایا تھا، لیکن ١٩٨٦ء میں چیلنجر خلائی جہاز کے حادثے کے بعد گلیلیو کا طاقتور مائع ایندھن جو اوپری مرحلے کے لئے بنایا گیا تھا اس کا استعمال کرنا خلائی جہاز کے لئے خطرناک سمجھا گیا۔ اس کے بجائے ہوائی ڈیزائنروں نے ایک محفوظ لیکن کم طاقتور ٹھوس ایندھن کا استعمال کیا۔ اس وجہ سے یہ ضروری ہو گیا کہ خلائی جہاز کو ٦ برس تک زہرہ کے گرد حلقے میں چکر لگوایا جائے اور دو مرتبہ زمین سے گزارا جائے تاکہ اس کو اتنی رفتار مل سکے کہ وہ برجیسی نظام تک پہنچ سکے۔
     
    خاکہ 3.9 گلیلیو مدار گرد اور کھوجی نے اپنا لمبا سفر بیرونی نظام شمسی کی جانب شروع کیا، اس کو اسپیس شٹل اٹلانٹس کے ذریعہ ١٨ اکتوبر ١٩٨٩ء کو چھوڑا گیا۔
    راستے میں جاتے ہوئے خلائی جہاز کا سامنا پہلی مرتبہ سیارچے ٩٥١ گیسپرا اور ایک دوسرے سیارچے ٢٤٣ آئیڈا سے ہوا جہاں اس کے چھوٹے چاند ڈیکٹائل کی دریافت ہوئی۔ اس دوران انٹینے کے کونے پر موجود گریس اپنی جگہ سے ہٹ گئی اور یہ جام ہو گیا۔ اس وقت تک جب جسیم مدار گرد مشتری کے گرد پہنچتا، اس کا 4.8 میٹر کا انٹینا ناکارہ اور خراب ہو گیا تھے، اور اطلاعات کا خزانہ جس کو زمین کی جانب روانہ کرنا تھا اس کو ایک ننھے سے کافی کین کے حجم کے انٹینے کے ذریعہ بھیجا گیا۔ لیکن پروگرامر اور انجینیروں نے اپنی مخصوص اختراعی تخیل کا استعمال کیا اور اس للکار کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور نا صرف خلائی جہاز کو یہ سیکھایا کہ کس طرح سے اطلاعات کو دبا کر ارسال کرنی ہیں بلکہ اس کو یہ بھی سیکھایا کہ اطلاعات کو کس طرح سے حاصل کرکے تجزیہ کرنا ہے۔ زمین پر بھی وصول کنندہ اسٹیشنوں میں تبدیلیاں کی گئیں تاکہ مہم کم از کم اصل منصوبے کا قابل ذکر ٧٠ فیصد تک حاصل کرسکے۔ جہانوں کے بادشاہ کے گرد مدار میں چکر لگانے سے پانچ مہینے پہلے، اس نے گلیلیو خلائی کھوجی کو چھوڑا، جس کا مقصد مشتری کے کرہ فضائی میں داخل ہونا تھا۔ مدار گرد کو جلدی چھوڑنے کی وجہ سے اس کو اتنا موقع مل گیا کہ وہ حفاظت کے ساتھ کھوجی سے الگ ہو کر مشتری کے مدار میں جاسکے۔ کھوجی نظام کو صرف ایک سادے سے ٹائمر سے قابو رکھا گیا تھا اور اس کو داخل ہونے سے صرف ٦ گھنٹے پہلے جگایا گیا۔ ٧ دسمبر ١٩٩٥ء کو گلیلیو کھوجی 106,000 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے حفاظت کے ساتھ داخل ہو گیا، وہاں پر درجہ حرارت سورج کی سطح سے دوگنا تھا اور تخفیف اسراع کی قوّت زمین کی قوّت ثقل کے مقابلے میں ٢٣٠ گنا زیادہ تک تھی۔ داخل ہوتے وقت کھوجی جس رفتار سے چل رہا تھا اس رفتار پر وہ لاس اینجلس سے سان فرانسسکو میں لگ بھگ دس سیکنڈ میں پہنچ جاتا۔







    خاکہ 3.10 گلیلیو خلائی جہاز بالواسطہ طور پر دو سیارچوں کے قریب سے گزرا۔ خلائی جہاز کا پہلی مرتبہ سامنا اکتوبر ١٩٩١ء  میں گسپرا  (بائیں) اور آئیڈا کا اگست ١٩٩٣ء میں سامنا ہوا۔ آئیڈا کے چھوٹے چاند پر غور کریں جو صرف 1.4 کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔
    نیچے گرمی میں اترنے کے بعد ایک بادبانی پیراشوٹ کھولا گیا، جس نے کھوجی سے پچھلا خول اتارا اور خاص پیراشوٹ کو باہر نکالا۔ دس سیکنڈ بعد گلیلیو نے گرمی سے بچنے کے لئےاپنی حفاظتی کی ڈھال کو کھول دیا۔ صرف ڈیڑھ سیکنڈ کے بعد، جب حرارتی ڈھال ٢٧ میٹر دور تھی، باضابطہ مہم شروع ہو گئی اور گلیلیو نے مشتری کے پٹیوں والے آسمانوں کی کھوج شروع کردی۔ اس نے حاصل شدہ اطلاعات کو اپنے سے ٥٧ منٹ کی دوری پر موجود گلیلیو مدار گرد کو 209,215 کلومیٹر دور بھیجنا شروع کردیا۔ مدار گرد کے اہم انٹینا کی ناکامی کی وجہ سے براہ راست حاصل کردہ اطلاعات کو بعد میں استعمال کیا جانا تھا۔




    خاکہ 3.11 اوپ: گلیلیو خلائی کھوجی کی حرارت سے بچاؤ کی ڈھال آدھی سے زیادہ تو مشتری کے ماحول میں تیز رفتاری سے داخل ہونے کی وجہ سے اڑ گئی تھی۔ درمیان: کھوجی خود سے اپنے تمام تر سائنسی آلات کے ساتھ حرارتی ڈھال کے ساتھ ایک پیراشوٹ کے ذریعہ الگ ہو گیا تھا۔ نیچے: ہوائی سرنگ میں گلیلیو کھوجی کے پیراشوٹ کا امتحان۔

    حاصل ہونے والے انجینئرنگ کے اعداد و شمار اس بات کی طرف عندیہ دے رہے تھے کہ کھوجی کا اترنا کچھ زیادہ ہموار نہیں تھا۔ گلیلیو نے تاروں میں ہونے والے مسئلے کی وجہ سے اطلاعات کو ٥٣ سیکنڈ دیر سے بھیجنا شروع کیا۔ کھوجی ہر پانچ سیکنڈ کے بعد پیراشوٹ کے نیچے گھوم جاتا تھا، اور بظاہر ٢٠ سے ٢٥ سیکنڈ میں ایک پورا چکر گھوم کر مکمل کر لیتا تھا۔ ٤٠٠ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والے ہواؤں نے اس تنہا ایلچی کو برجیسی بادلوں میں سے گرتے ہوئے مکے مار مار کر برا حال کر دیا تھا۔ اس کا پیراشوٹ شاید تباہ ہو گیا تھا، کیونکہ اترنے والی رفتار امید سے کہیں زیادہ تھی، اور پیراشوٹ کھولنے کے لئے بنائے گئے اسراع پیما کو خوش قسمتی سے پیچھے کی جانب رکھا گیا تھا، اس وجہ سے پیراشوٹ کا کھلنا خالص طور پر قسمت کی یاوری تھی۔[3]٣ کھوجی نے اترتے ہوئے بجلی کی چمک کو دیکھا، وہ حیرت انگیز طور پر نایاب چیز تھی۔ مزید براں پانی اور دوسرے اجزاء کے علاوہ، گلیلیو نے امونیا کو بھی دیکھا جو عامل حصّوں میں ہوا کے اوپر کی طرف بہنے والی جگہ میں تھی۔

    بہرحال گلیلیو گرتے ہوئے مرفی کے کائناتی قانون کا شکار بن گیا (یعنی کہ جو غلط ہو سکتا ہے وہ غلط ہی ہوگا)۔ ہرچند کے مہماتی منصوبہ ساز اس بات کی امید کر رہے تھے کہ وہ مشتری کی اوسط جگہ کا نمونہ حاصل کر لیں گے، کھوجی بدقسمتی سے ایک غیر معمولی گرم حصے میں گر گیا، جہاں پر تمام اہم بادل نایاب تھے۔ کھوجی بادلوں کو ناپنے والے آلات سے لیس تھا لیکن وہ آلات قریباً بھوکے ہی رہے۔ کھوجی نے کچھ اونچے عرض البلد پر امونیا کے بادلوں اور اس سے کچھ کم پانی کے بادلوں کو بھی دیکھا۔ ایسا لگنے لگا تھا کہ جیسے نظام شمسی کی ارتقاء کے تمام نظریات غلط تھے۔

    اے پی ایل کے رالف مک نٹ خبردار کرتے ہیں کہ کرۂ فضائی کی جانچ کرنے والے کھوجیوں کی ایک حد ہوتی ہے۔ "ہم نے گلیلیو کھوجی کو چھوڑا، اور کچھ عرصے کے لئے ہمارے پاس اطلاعات بھی آئیں۔ ہم نہیں جانتے کہ اس پانی کا کیا ہوا، اور خیال کرتے ہیں کہ شاید ہم غلط جگہ چلے گئے جو کہ گرائے جانے والے کھوجیوں کا مسئلہ ہے۔ یہ کام کرنا سب سے آسان ہے، لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ بہت ہی زیادہ محدود علاقائی جگہ کو دیکھتے ہیں، لہٰذا آپ کو اس کو اچھی طرح معلوم نہیں ہوتا کہ پورے سیارے پر کیا چل رہا ہے۔"

    جب تک کھوجی نے قیمتی اطلاعات کو حاصل کرنا جاری رکھا، اس وقت تک اندرونی درجہ حرارت خطرناک حد تک بڑھ گیا تھا۔ تیکنیکی عملہ سمجھتا ہے کہ کھوجی کی دھماکے دار آمد کے دوران گرم گیس اس کے گرد موجود خول میں شاید سیل کو توڑ کر داخل ہو گئی تھی۔ تجربات کو اس طرح ترتیب دیا تھا کہ وہ مخصوص درجہ حرارت میں ادا کئے جا سکیں اور کھوجی کا درجہ حرارت تیزی سے اس درجہ حرارت سے بڑھ گیا تھا۔ اس صورتحال نے ان سائنس دانوں کے سامنے ایک چیلنج رکھ دیا تھا جو مشتری سے آنے والے اعداد و شمار کا تجزیہ کر رہے تھے۔ چند دن تک تو سائنس دان اس جدوجہد میں لگے رہے کہ آخر ہوا کیا تھا۔ بڑی جدوجہد کے بعد بالآخر تجزیہ کاروں نے اعداد و شمار کی گتھی سلجھانی شروع کی تاہم فضائی کھوجی کا ورثہ ابھی تک ہمارے لئے سیاروی ماحول اور موسموں کو جاننے کا اہم موڑ بنا ہوا ہے۔

    گلیلیو مدار گرد نے مشتری کے گرد ٣٥ چکر آٹھ برسوں کے دوران لگائے۔ ہر چکر ایک طرح سے وائیجر کے چھوٹے سے چکر کو دہرانے جیسا تھا جس میں اس کا واسطہ شاندار مشتری اور اس کے درجنوں مہتابوں سے ہوتا تھا، اس میں وہ ہمہ وقت مقناطیسی کرہ کی ساخت اور بین السیاروی خلاء کا مطالعہ بھی کرتا رہتا تھا۔ اپنے اس طویل مہم کے اختتام پر کنٹرولر نے خلائی جہاز کو مشتری سے ٹکرانے کی ہدایت کی، جبکہ اس  خلائی جہاز سے ہونے والی تباہی سے اس بات کا خیال رکھا گیا کہ وہ یوروپا یا کسی بھی دوسرے چاند جو حیات کے لئے اصلاً موجود ہیں ان پر کوئی اثر نہ ہو۔

    کیسینی اور ہائی گنز

    ٢٠٠٤ء میں اب زحل کے مدار میں چکر لگانے کی باری تھی۔ گلیلیو کی طرح بین الاقوامی کیسینی خلائی جہاز ایک مدار گرد اور فضائی کھوجی پر مشتمل تھا، لیکن اس کا کھوجی اس طرح بنایا گیا تھا کہ وہ زحل کے سیارے جتنے حجم کے چاند ٹائٹن کی چھان بین کر سکے۔

     چھ میٹرک ٹن کا کیسینی مدار گرد  اپنے انجن کو ٩٦ منٹ تک چلانے کے بعد زحل کے مدار میں جا کر بیٹھ گیا۔ صرف ١٥٠ دن پہلے، کیسینی نے آہستگی کے ساتھ یورپین اسپیس ایجنسی کے ہائی گنز خلائی کھوجی کو مختلف سے راستے پر چھوڑا جس نے آگے جا کر ٹائٹن کے راستے کو کاٹنا تھا۔ اس علیحدگی کی وجہ سے کیسینی اس قابل ہوتا کہ وہ کھوجی سے حاصل کردہ اطلاعات کو زمین تک براہ راست اس وقت پہنچا سکے جب کھوجی ٹائٹن کے کثیف فضائی کرہ میں سے گزرتا۔


    اسکول بس کے حجم جتنا کیسینی اب تک اڑان بھرنے والا سب سے پیچیدہ خلائی کھوجی ہے۔ اس کے انتہائی جدید آلات زحل کے مقناطیسی میدانوں سے نکلنے والی موسیقی کو سنتے، چاند کی سطح اور حلقوں کی مختلف تصاویر حاصل کرتے اور زحل کی قطبی روشنیوں کو درج کرتے ہیں۔

    ہرچند کے جہاز نے زحل کے نظام کے کافی پہلوؤں پر غور کیا، تاہم اس کا بنیادی مقصد دو مرحلوں کو عبور کرنا تھا، زحل اور اس کے سیارے کے حجم والے چاند ٹائٹن کی تحقیق کرنا۔ زحل کے گرد چکر لگاتے ہوئے زیادہ تر کیسینی ٹائٹن سے قریب ہو جاتا تھا۔ جب وہ اس کے قریب سے گزرتا تھا تو کچھ آلات کہر میں سے گھس کر سطح کی تصاویر لے لیتے تھے، جبکہ اس کے تمام تجربات کے پشتے فضائی کہر کی پرتوں، بادلوں اور سطح کے خدوخال کا مطالعہ کرتے۔ کیسینی نے ریڈار کی شعاعوں کو بھی کرہ فضائی کے اندر چھوڑا تاکہ سطح کی مفصل نقشہ بندی کر سکے بعینہ جیسے مجیلن نے زہرہ پر ١٩٩٠ء کی دہائی میں کیا تھا۔ زمین کی جانب دیکھنے سے جب کیسینی چاند کو پار کرکے اس کے پیچھے پہنچا، تب محققین نے اس سے آنے والے اشاروں کی تبدیلیوں کو کرۂ فضائی کی ساخت کی نقشہ بندی  کرنے کے لئے درج کرنا شروع کیا۔ یہ کام زحل کے لئے بھی کیا گیا اور یہی تیکنیک کمیاب ماحول رکھنے والے دوسرے مہتابوں کے لئے اور حلقوں کے نظاموں کی کثافت کی نقشہ کشی کرنے کے لئے بھی اختیار کی گئی۔
     
    خاکہ 3.12 کیسینی مدار گرد ای ایس اے کا ہائی گنز ٹائٹن کی کھوج کے لئے چھوڑ رہا ہے۔ایک مصوّر کی نظر میں اصل مہم سے پہلے کی تصویر۔
    کیسینی کا قیمتی ساتھی ہائی گنز ١٤ جنوری ٢٠٠٥ء کو ٹائٹن کی فضاؤں میں اترا۔ کھوجی کو ٩ قطر کی حرارتی ڈھال میں لپیٹا ہوا تھا۔ ٹائٹن کی کم قوّت ثقل (زمین کے مقابلے میں دس گنا کم) اور کثیف ماحول میں کھوجی کو گلیلیو کے مقابلے میں کافی کم حفاظت درکار تھی۔ ٹائٹن کی کم قوّت ثقل اور اضافی کرہ فضائی نے اس کو سطح پر اترنے میں امید سے زیادہ مدد دی۔ انجینیروں کے اندازے کے مطابق ہائی گنز کو ماحول میں ١٣ ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے داخل ہونا تھا، جس کے نتیجے میں ١٢ جی کی تخفیف اسراع کی قوّت لگنی تھی (جبکہ ہم اس کا موازنہ گلیلیو سے کریں تو اس پر ٣٥٠ جی کی قوّت لگی تھی)۔

    ہائی گنز ایک شاندار کامیابی تھی۔ کھوجی کے اترنے کی ابتداء میں ہی ایک بڑے پیراشوٹ کے ذریعہ اس کی رفتار کو کم کیا گیا، لیکن بعد میں اس کو ایک چھوٹے پیراشوٹ کے ذریعہ اتارا گیا جس کی وجہ سے وہ نچلے کرۂ فضائی میں تیزی سے اترا تاکہ مدار میں موجود مدار گرد سے رابطہ قائم رکھ سکے۔ ہائی گنز کو گھومنے کے لئے بنایا تھا، لہٰذا اس سے حاصل ہونے والی تصاویر جو ڈی آئی ایس آر تصویری نظام - جو ایک جھری دار کیمرہ ہوتا ہے – سے لی گئیں تھیں سے ٣٦٠ درجے کی تصویر بنائی جا سکتی تھی۔

    ہائی گنز نے نہ صرف بلند ارض بلد سے لی ہوئی شاندار تصاویر بھیجیں بلکہ با حفاظت اترنے کے بعد سطح کی بھی متحیر کر دینے والی تصاویر کو زمین پر روانہ کیا۔ "شروعات میں بھیجی جانے والی سطح کی تصاویر کے وقت میں جرمن میں ان قریبی لوگوں کے حلقے میں موجود تھا جنہوں نے وہ تصاویر دیکھی تھیں۔" منصوبے کے سائنس دان پیٹر اسمتھ کہتے ہیں، جن کو کافی سیاروی مہمات کا تجربہ ہے۔ "وہ شاندار تھیں۔ وہ اطالوی ساحلوں کا کوئی منظر لگ رہا تھا: راستہ پہاڑی سے نیچے اس جگہ آ رہا تھا جو سوکھی ہوئی جھیل لگ رہی تھی، اور منتقل ہوئی رخنی خط جیسے چیز دکھائی دے رہی تھی۔ بلاشبہ ہم جانتے تھے کہ بارش میتھین کی ہے اور چٹانیں پانی کی برف کی اور تمام جگہ پر ہائیڈرو کاربن موجود تھے، اس کے باوجود سطح کی شکل شناسا سی لگ رہی تھی۔ یہ میرے لئے کافی حیرت کی بات تھی۔"
     

    خاکہ 3.13 ہائی گنز کھوجی کی ایک تصوراتی تصویر جس میں وہ ٹائٹن کی سطح پر اپنی حتمی منزل پر کھڑا ہے۔ اس کے پیچھے موجود سطح پر چھینٹوں کے نشان دیکھیں۔ اسراع پیما سے حاصل کردہ اعداد و شمار کی روشنی میں  ایسا لگتا ہے کہ کھوجی اچھل کر گیلی مٹی پر پھسلا ہوگا۔

     ہائی گنز کی اس شاندار کامیابی کے بعد، کیسینی نے انتہائی شاندار دریافتوں کا ایک سلسلہ شروع کیا۔ جس میں ڈائیونی اورٹیتھیس کی عجیب ٹیکٹونک، ششدر کر دینے والے آیاپیٹس کی استوائی ڈھلوانیں، انسیلیڈس کے برفیلے آتش فشاں، کئی موجیں، میخیں، اور حلقوں میں موجود دوسرے مظاہر اور پچھلے نہ جانے جانے والے چاندوں کا بھنڈار شامل تھا۔ ٹائٹن کے اس کے مطالعہ نے ہائی گنز کا ساتھ دیا، وسیع ریت کے سمندروں کی نقشہ سازی کی اور میتھین کے طوفان باراں، دریائی وادیوں، سنگلاخ پہاڑیوں اور قطبی علاقوں کے عظیم سمندروں کو بھی درج کیا۔ یہ سب کام خلائی جہاز کی لچک اور ہوائی انجینیروں کے ہنر کا کمال تھا، یہ مہم انسیلیڈس کے مشاہدے کی بھی تجربہ گاہ بن گئی تھی، اور اس نے اس ہیجان انگیز چھوٹے برفیلے چاند کے گرد بھی دوران اڑان کئی چکر لگائے۔

    مستقبل کے منصوبے

    گلیلیو اور کیسینی سے ہمیں کافی زیادہ چیزیں معلوم ہوئی ہیں جو ہمیں اس بات کے لئے راضی کر رہی ہیں کہ گیسی دیو کے طرف مزید مہموں کو بھیجا جانا چاہئے۔ لیکن یورینس اور نیپچون بھی ہمیں بلا رہے ہیں۔ ہم نے مشتری کے گرد ایک چکر لگانے والے کو بھیجا۔ ہم نے زحل کے گرد ایک چکر لگانے والے کو بھیجا۔ ہم نے ان نظاموں کے بارے میں کافی باتیں سیکھیں، اور وہ ناقابل تصوّر طور پر زرخیز ہیں۔ برفیلے دیو بھی اتنے ہی زرخیز اور منفرد ہوں گے۔ ہم وہ چیزیں سیکھ سکتے ہیں جو ہم نے ابھی تک نہیں سوچی ہیں۔ کافی ایسی وجوہات موجود ہیں جس کی بنا پر ہم میں سے کئی نیپچون کی طرف جانا چاہتے ہیں۔ پہلی تو یہ ہے کہ ہمیں عامل ماحول کی ضمانت چاہئے۔ اور دوسرے یہ ہے کہ ٹرائیٹن کافی قائل کرنے والا ہے۔"

    کیسینی امیجنگ ٹیم کی اعلیٰ تفتیش کار کیرولن پورکو اس بات پر راضی ہیں۔
      
    میں سمجھتی ہوں کہ بیرونی نظام شمسی کے بہت ہی کم نمونوں کو جانچ گیا ہے۔ مہمات کافی مہنگی تھیں کیونکہ ہدف کافی دور تھے اور ان کی جانچ کرنے میں کافی لمبا عرصہ درکار تھا۔ ارضی سیاروں کو سمجھنے کے لئے کافی دلچسپی موجود تھی کیونکہ ہم ان میں سے ایک پر رہتے ہیں۔ لیکن اگر آپ فلکیاتی عمل کو جاننا چاہتے ہیں، تو آپ کو اندرونی نظام شمسی کے سیاروں کی تحقیق کی ضرورت نہیں ہے؛ آپ کو بیرونی نظام شمسی کی تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔ کچھ سیارے جیسے نیپچون اور یورینس اس طرح سے ہیں کہ ان کے مقناطیسی میدان ان کے گھماؤ کے ساتھ قطار میں نہیں ہیں، بلکہ یہ تو سیارے کے مرکز سے بھی کافی دور ہٹے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر نیپچون تو تیسری قسم کا[بالکل ہی الگ] ہے۔ یہ نرالا ہے۔ اس کی وجہ ان کی تشکیل میں چھپی ہے۔ وہاں کافی چیزیں سیکھنی ہیں۔ لہٰذا میں اگر کائنات کی ملکہ ہوتی، تو میں کیسینی قسم کے مدار گرد  یورینس اور نیپچون کے گرد رکھتی۔

    اصل میں کافی برسوں پہلے سیاروی دہائی سروے نے یورینس پر مہم بھیجنے کو سر فہرست رکھا تھا۔

    بہرصورت حیات کا مستقبل یا حیات سے ماقبل حالت دوسرے محققین کو زیادہ اہم لگتی ہے۔ کچھ ڈیزائنر ایک ایسے خلائی جہاز کا تصوّر کرتے ہیں جو مشتری کے گرد مدار میں چکر لگاتا ہوا یوروپا کا باقاعدہ نقشہ بناتا، اس کے اندرون کا عمومی مطالعہ کرتا اور اس کے گرد اڑان کے سلسلے کے دوران سطح کی خصوصیات بھی دیکھتا ہے۔ جدید کھوجیوں کو شاید اس کام پر بھی بھیجا جا سکتا ہے کہ وہ وہاں پر اتر کر برف کو کھودیں اور حیات کے اشاروں کو تلاش کریں۔

    وائیجر کے وقت یوروپا فلکی ماہرین حیاتیات کی سب سے پسندیدہ جگہ تھی۔ سمندر میں اترنے والی ایک برفیلی بوٹ اور ایک سب میرین کھوجی کا خیال کافی لبھانے والا ہے۔ لیکن اس مہتاب سے نمٹنے کے لئے کافی مشکلات کا سامنا تھا۔ حیات کی میزبانی کرنے کے لئے کسی بھی سمندر کو سو کلومیٹر موٹی برف کی تہ کے نیچے موجود ہونا تھا۔ اس قشر میں سے گزرنا خوف ناک ہے۔ انٹارکٹکا میں واقع منجمد جھیلوں کے اندر تجربات کو کھوجی نمونوں کی مدد سے ادا کیا گیا جس میں حرارتی آلات کو برف پگھلانے کے لئے استعمال کیا گیا تھا لیکن رابطے کی تار جو کئی میٹر سے لے کر کلومیٹر تک لمبی تھی  وہ اس وقت پھنس جاتی جب اس کے اوپر موجود برف جم جاتی تھی۔ ایک اور برفیلا روبوٹ ہنی بی روبوٹکس نے بنایا [4]جس نے جھولتے ہوئے کھدائی کے تصوّر کو پیش کیا، ایک متحرک بل جیسا آلہ جس کو ایک بہت ہی بڑھیا رسی کے ساتھ لٹکایا جائے گا اور وہ اپنا راستہ کھودتا ہوا نیچے سمندر میں اتر جائے گا۔ ای ایس اے نے اس سے کہیں سادہ تداخل سوچا ہے جو مدار سے تیز رفتاری سے گرتے ہوئے خود کو براہ راست برف میں پیوست کر لے گا اس کو اتار نے کے نظام کی ضرورت ہی نہیں ہوگی۔ کھوجی کے سامنے والے حصّے سے ٹکرانے والی برف کا تجزیہ اس کے اندرونی محفوظ حصّے میں لگے ہوئے آلات کر سکیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ یوروپا کی سطح نیچے موجود سمندر کی چورا یا ریت کی طرح پھیلی ہوئی برف ہو، لیکن مشتری کی تابکاری فوری طور پر حیات کے ثبوتوں کو ختم کر دے گی۔

    زحل پر ٹائٹن پر بھیجے جانے والے آتشی غباروں، چھوٹے ہوائی جہاز، ڈرون اور اجنبی چاند کی میتھین کی جھیلوں پر تیرتی ہوئی کھوجی کشتیوں  پر بھی تحقیق کی گئی، ایک ایسی ہی مہم کا نام ٹائٹن مئیر ایکسپلورر (ٹائم) تھی جو ہفتوں یا مہینوں تک ٹائٹن کے میتھین کے دوسرے بڑے سمندر لیجیہ مئیر کی سطح پر تیر سکتی تھی۔ تحقیق نے بتایا کہ جھیل کی قدرتی رو کھوجی کو سمندر کے گرد مکمل چکر لگوا سکتی گی اور یوں وہ کافی علاقوں کے ماحولیاتی نمونے حاصل کر سکے گی۔

     ایک اور اہم ہدف زحل کا چاند انسیلیڈس ہے۔ کیسینی نے اس کے چشموں سے براہ راست نمونے اڑنے کے دوران لئے اور جس میں اسے نامیاتی مادّے اور نمک ملا، جو زیر زمین سمندر میں ہونے والی ایک لمبے عرصے تک ہونے والی سرگرمی کی گواہی دے رہے تھے۔ کیرولن پورکو یوروپا کے مقابلے انسیلیڈس کو زیادہ پسند کرتیں جس کے ماحول میں تابکاری بھی کم ہے۔ "آپ کو اپنے خلائی جہاز کو دو فٹ سیسے کی حفاظتی ڈھال سے نہیں ڈھانپنا بڑے گا۔ صرف ایک مناسب آلات سے لیس خلائی جہاز لیں اور بڑے سالمات کی جانچ اور تشاکل کو ڈھونڈھیں۔ تشاکل حیات کی جانچ کا امتحان ہے۔ کسی دھوئیں کے اوپر سے گزریں اور ٹھوس اور بخارات کو لیں۔" پورکو یہ بھی کہتی ہیں کہ یوروپا پر کی جانے والی کھدائی انسیلیڈس پر کرنا کوئی مشکل نہیں ہے۔ "جو بھی اس کے زیر زمین سمندر میں موجود ہے وہ ہمیں پکار رہا ہے۔ یہ قابل رسائی ہے۔ صرف آپ کو اتنا کرنا ہے سطح پر اترنا ہے، دیکھنا ہے اور اپنی زبان کو نکلنا ہے۔ عام طور پر ٩٠ فیصد ٹھوس اوپر جانے کے بعد ہی نیچے آتے ہیں۔"
     

    خاکہ 3.14 یورپین اسپیس ایجنسی گینی میڈ مدار گرد کی مہم کا منصوبہ بنا رہی ہے جس کا نام مشتری کے برفیلے چاندوں کا کھوجی یا جوس ہے۔ اس کو ٢٠٢٢ء میں خلاء میں بھیجا جائے گا، یہ مشتری میں ٢٠٣٠ءتک پہنچے گا اور اس کا دورانیہ تین سال کا ہوگا۔ رشیا انسٹیٹیوٹ فار اسپیس ریسرچ (ایکی) ایک گینی میڈ پر اترنے والے ممکنہ خلائی جہاز پر تحقیق کر رہا ہے۔    
     سیاسی مشقت اور مالی تعطل کے باوجود، بیرونی دنیا کی کھوج جاری رہے گی۔ پچھلی کئی دہائیوں میں ہونے والے انکشافات نے نے ثقافت، ٹیکنالوجی اور علم میں کافی ڈرامائی تبدیلی کی ہے جو سیاروی سائنس کی دریافت کا براہ راست نتیجہ ہے۔ ساؤتھ ویسٹ ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے اعلیٰ سیاروی سائنس دان جان سپینسر کہتے ہیں،" کسی بھی پچھلی نسل کے پاس اتنا کچھ کرنے کو نہیں تھا، لہٰذا ہم اس بات کی شکایات نہیں کرسکتے۔ ہم نظام شمسی کی کھوج کو پچھلے ٥٠ برس سے کر رہے ہیں، اور یہ ١٤٨٠ء سے لے کر ١٥٣٠ء تک جیسا ہی ہے۔ جو اس وقت ہوا تھا اس کا تصّور کریں: پرتگالی پہلے افریقی ساحل سے ہوتے ہوئے کورنوناڈو  اور پھر وہاں سے ہوتے ہوئے اتنے وقت میں ہی نیا میکسیکو گئے۔ یہ بہت حیرت انگیز رہا ہوگا۔"

    ١٩٥٠ء اور ١٩٦٠ءکے عشرے میں خلائی جہاز جن کے نام لونا، رینجر اور سرویئر تھے انہوں نے انسانیت کی خاطر پہلا قدم زمین سے اٹھایا، اور بالآخر اپالو کے خلا نوردوں کے لئے چاند تک پہنچنے کا راستہ کھولا۔ لونا اور رینجر کی طرح شاید وائیجر، گلیلیو اور کیسینی بیرونی تاریکی میں روشنی کے دیئے ہیں، ایک ایسی شمع جس کی روشنی کو دیکھتے ہوئے مستقبل کے مہم جو راستے پر گامزن ہوں گے۔

    خاکہ 3.15 ایک مستقبل کا چھوٹا ہوائی کھوجی جس کو ٹائٹن چاند کے آسمانوں میں اڑان بھرنی ہوگی۔ انسان اس کی پیروی کتنی جلدی کر پائیں گے؟








    [1]۔ مثال کے طور پر پائینیر یاز دہم  کی ہلالی زحل کی لی گئی تصویر نمبر جی ٣ کو لینے کے لئے  دو تصاویر کو دو مختلف فلٹروں سے گزارنے میں ٢٨ منٹ لگے۔
    [2]۔ پائینیر دہم  اور یاز دہم اصل میں وہ پہلے اجسام ہوں گے جو ہمارے نظام شمسی کو چھوڑیں گے۔
    [3]۔ پیراشوٹ اسراع پیما کو لگانے کے ساتھ ایک ایسے ہی مسئلہ  کی وجہ سے جینیسس سولر ونڈ مشن کے واپسی کے کیپسول کو قریباً تباہی کے قریب پہنچنا  پڑا،  اور اس کو  ہنگامی طور پر یوٹاہ  صحرا میں ٢٠٠٤ء میں اترنا پڑا۔ اس بات سے قطع نظر جینیسس ایک کامیاب مہم تھی۔
    [4]۔ دیکھئے "مختلف مہتابوں کی برف" از میگھن روزن، سائنس نیوز ١٧ مئی ٢٠١٤ء۔ صفحہ ٢٠۔     
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: ہم دیوہیکل سیاروں کے دیس میں کیسے پہنچے Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top