Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    جمعہ، 6 نومبر، 2015

    فوق ارض - ایک نئی قسم کا سیارہ

    باب پنجم

    فوق  ارض  - ایک نئی قسم کا سیارہ


    ہمیں اپنے کرۂ ارض سے الفت ہے ۔ ہمیں ہونی بھی چاہئے  - یہ ہمارا گھر ہے  اور اس جیسی کوئی بھی دوسری جگہ نہیں ہے۔ کوئی بھی جگہ کرۂ ارض سے بہتر نہیں ہو سکتی۔ اس قسم کے نظریوں کی زبردست جذباتی انداز میں حمایت کرتا ہوا سنجیدہ سائنسی مواد بھرا ہوا ہے۔ اس کو اکثر "گولڈی لاکس کا نظریہ"(Goldilocks hypothesis)کہتے ہیں : کرۂ ارض بالکل مناسب  حجم کی ہے (نہ زیادہ بڑی ، نہ زیادہ چھوٹی ) اور اس کا درجہ حرارت بھی بالکل مناسب ہے (نہ زیادہ گرم ، نہ زیادہ سرد) تمام چیزیں حیات کی شروعات کے لئے انتہائی ضروری ہیں۔ حیات ایک نایاب چیز ہے۔ ہمارے چھوٹے سیارے پر زیست کے  بسیرے کے علاوہ ہم نے ابھی تک کوئی بھی دوسری جگہ نہیں دیکھی ہے جہاں ہم یقین کے ساتھ حیات کے  موجود ہونے  کا کہہ سکیں۔ تو کیا زمین کا کائنات میں مرکزی حیثیت  کا نظریہ درست ہے۔ کیا ایسا ہی ہے؟
    گولڈی لاکس علاقہ میں درجہ حرارت اتنا ہونا چاہئے کہ مائع پانی اپنا وجود برقرار رکھ سکے۔


    حیات ایک دفعہ کل پرزے نکال لے تو اس کے بعد وہ بہت ہی زیادہ لچک دار بن جاتی ہے ، لیکن پہلی مرتبہ نمو  کے لئے اس کو زرخیز کیمیا، توانائی کے بڑے ذرائع اور تسلسل  کی ابتداء ہی سے  ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے نظام شمسی کی سیارہ شناسی کرنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ ابتدائی حالت کا سازگار ہونا بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔ کرۂ ارض بے عیب لگتی  ہے جبکہ دوسرے سیاروں میں نقائص پائے جاتے ہیں۔ مریخ چھوٹا ہے ، پانی اور کرۂ فضائی کی کمی ہے  اور انتہائی سرد بھی ہے (اگرچہ ہم اب بھی پرامید ہیں کہ وہاں پر کسی قسم کی حیات کا پا لیں گے)۔ مشتری بہت زیادہ بڑا ہے ، اس کا کچل دینے والا دباؤ اور عناصر کی کمی والا ماحول  دلچسپ کیمیا کو بنانے سے یکسر قاصر ہے۔ ایسے کسی بھی مماثلت والے تجزیہ کے ساتھ جو مسئلہ  جڑا ہے وہ یہ ہے کہ یہ ان اہم سیاروں کی جماعت کو چھوڑ دیتے ہیں  جو خالص اتفاق سے وجود میں آ جاتے ہیں اور ایسے سیارے ہمارے نظام شمسی میں موجود نہیں ہیں۔
    فوق  ارض  - ایک نئی قسم کا سیارہ


    فوق ارض موجود ہیں، جن کو ہم اگلے باب میں تفصیل سے زیر بحث کریں گے۔ فوق ارض ایک ایسا سیارہ ہوتا ہے  جو کرۂ ارض کے مقابلے میں زیادہ ضخیم اور بڑا ہوتا ہے، وہ چٹان سے ہی بنا ہوا ہوتا ہے  -  اور شاید اس میں بر اعظم ، سمندر  اور کرۂ فضائی بھی موجود ہوتا ہے۔ ایسا کوئی بھی سیارہ ہمارے نظام شمسی میں موجود نہیں ہے۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ یہ دوسرے نظام ہائے شمسی میں عام پائے جاتے ہیں۔ مزید براں نظریہ اس بات کا عندیہ دے رہا ہے کہ ایسے  کسی سیارے میں کرۂ ارض کی تمام اچھی خصوصیات موجود ہو سکتی ہیں ، بلکہ درحقیقت اس کی سطح پر ہم سے زیادہ پائیدار ماحول موجود ہوگا۔ وہ  اصلی فوق ارض ہوں گے!

      فوق ارض ایک ایسا سیارہ ہوتا ہے  جس کو اس کی کمیت کے حساب سے بیان کیا جاتا ہے  - جو ایک سے لے کر دس ایم ای (جس میں ایم ای ، زمینی کمیت کا مخفف ہے )۔زمین کی کمیت ٦٣١٠ ^٢٤ کلوگرام یا ٦ کے ساتھ ٢٤ صفر لگا دیں ، تو  اتنی ہے۔ یہ واقعی بہت زیادہ ہے ، مگر سورج کی کمیت زمین سے دس لاکھ گنا زیادہ ہے۔ یہ اتنی زیادہ کمیت ہے کہ ہماری عقلیں جواب دے جاتی ہیں۔

    میں فوق ارض  کو زمین کی کمیت کے دس گنا تک محدود کرتا ہوں اس  کی کافی  ساری وجوہات ہیں۔ سب سے پہلے تو ہم نے ابھی تک اس حد سے بڑا کوئی بھی فوق ارضی سیارہ نہیں دیکھا ہے۔ ہمیں درجنوں چھوٹے ماورائے شمس سیاروں کی اس حد سے زیادہ اوسط کمیت بھی معلوم ہے ، اس میں سے زیادہ تر گیس اور برف سے بنے ہوئے ہیں  جیسا کہ نیپچون۔ دوسرے جب سیارے کسی بھی ابتدائی سیاروی قرص میں بننے شروع ہوتے ہیں (جیسا کہ خاکہ 1.1 میں دکھایا ہے )، دس ایم ای ایک ایسی حد فاصل(Critical Limit) کی کمیت ہے  جس میں ہائیڈروجن گیس سیارے میں جمع ہوجاتی ہے اور بڑھتے ہوئے سیارہ میں ہی موجود رہتی ہے  یوں وہ سیارے کو نیپچون جیسا دیو ہیکل سیارہ بنا دیتی ہے۔ بلاشبہ  اس وقت یہ حد ابھی تک صرف تخمینہ جات ہی ہیں  اور اوپری حد فوق ارض کی کمیت کے دس سے بیس ایم ای کے درمیان ہو سکتی ہے۔
    سب سے پہلا دریافت ہونے والا فوق ارض سیارہ ایک چوتھے ستارے  گلیز 876 کے گرد چکر لگا رہا تھا۔ 

    پہلا فوق ارض ٢٠٠٥ء میں یوجینو  ریورا (Eugenio Rivera)، جیک لیزور(Jack Lissauer)  اور کیلی فورنیا – کارنیگی  ٹیم کی مشترکہ کاوشوں سے خوش قسمتی سے دریافت ہو گیا تھا۔ وہ ایک چھوٹے ستارے گلیز ٨٧٦ کے گرد چکر لگا رہا تھا اور لگ بھگ زمین سے سات گنا زیادہ ضخیم تھا۔ وہ بہت زیادہ گرم تھا کیونکہ اس کا مدار اپنے ستارے سے بہت ہی زیادہ نزدیک تھا  صرف نجمی نصف قطر کے ٧ گنا یا  سترہ لاکھ کلو میٹر دور !(سورج سے عطارد کے فاصلے کے مقابلے میں یہ صرف تین فیصد ہے۔) ایک اور تھوڑا ٹھنڈا فوق  ارض جو پانچ ایم ای کا تھا وہ جے پی بیولیو(J. P. Beaulieu)  اور اس کی پیرس انسٹیٹیوٹ آف ایسٹرو فزکس کی ٹیم نے ثقلی عدسے کے طریقے کا استعمال کرتے ہوئے  کیا تھا۔ اس طریقے کو ہم باب سوم میں بیان کر چکے ہیں۔ ٢٠٠٧ء کے شروع میں جنیوا میں مچل میئر کی ٹیم نے کم از کم تین سیارے جو گلیز ٥٨١ کے گرد مدار میں موجود تھے ان کو دریافت کیا ، ان میں سے دو فوق ارض تھے  جن میں سے ہر ایک کی کمیت کم سے کم پانچ اور آٹھ ایم ای  تھی  اور یہ زمین کے سورج کے فاصلے کے مقابلے میں ساتھ فیصد سے لے کر پچیس فیصد تک کے فاصلے میں بلترتیب   چکر لگا رہے تھے۔ ایک سال کے بعد ہی اسی ٹیم نے کئی اور فوق ارضی سیاروں کی دریافت کا اعلان کیا جن میں سے کچھ اتنے بڑے اور گرم ستاروں کے گرد چکر لگا رہے تھے جتنا کہ ہمارا سورج ہے۔ سب سے پہلا عبوری فوق ارض سیارہ کوروٹ خلائی مہم نے ٢٠٠٩ء میں دریافت کیا :کوروٹ  ٧ ب ، بہت ہی چھوٹا گرم سیارہ شاید گلیز ٨٧٦ جیسا ہی تھا۔
    گلیز 581 ایک مصور کا تخیل

      
    ایسے سیاروں کے براہ راست مشاہدے  کا بہت ہی کم موقع ملتا ہے ،اور جب موقع ملتا ہے  تب بھی  سیارے کی کمیت اور مدار کے ساتھ دوسری چیزوں کے بارے میں حسیاتی طور پر بہت ہی کم معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ لہٰذا سائنس دانوں نے ان  سیاروں کی ساخت کے بارے میں نظریوں کی مدد سے جواب حاصل کرنے شروع کر دیئے۔ فلکی طبیعیات دان اور سیاروی   سائنس کے عملی سائنس دان "نظریہ " اس کو کہتے ہیں  جس میں تجربات اور مشاہدات سے حاصل کردہ نتائج  کو بیان کرنے اور ان دیکھے اجسام و مظاہر کے بارے میں پیش گوئی کرنے کی تحقیق کی جاتی ہے ۔(یہ ایک مختصر راستہ ہوتا ہے اور اس کو سائنسی نظریہ کے ساتھ ملا کر  گڈ مڈ نہ کیا جائے ، جس میں نیوٹن کے میکانیات کے قوانین  استعمال کیے جاتے ہیں جو اتنے مستحکم ہیں  کہ ہم ان کو قدرتی قوانین کے ہم پلہ ہی  سمجھتے ہیں۔) نظری وہ سائنس دان ہوتے ہیں جو نہ تو تجربات اور نہ ہی مشاہدہ کرتے ہیں۔ ماضی میں وہ پنسل اور کاغذ سے کام چلاتے تھے ، تاہم  حالیہ دور میں وہ کمپیوٹر کی اسکرین پر نظریں جمائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ وہ کسی عمل کا نمونہ بناتے ہیں یا ریاضی کی مساوات کو حل کرکے کسی بھی جسم کی خصوصیات کا حساب لگاتے ہیں اور پھر اسے بیان کرتے ہیں۔ سائنس کی تاریخ میں ، البرٹ آئن سٹائن  (Albert Einstein)اور اسٹیفن ہاکنگ(Stephen Hawking)  نظری ہیں ، ارنسٹ ردر فورڈ(Ernest Rutherford)  تجرباتی سائنس دان تھا ، ایڈون ہبل (Edwin Hubble)ایک شاہد تھا۔ کبھی کبھی ان کے درمیان  یہ تمیز کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
          
    اگرچہ مشاہدات کی ایک حد ہوتی ہے ، سائنس دان نظریاتی نمونوں کو کمپیوٹر کی مدد سے تیار کرکے فوق ارض پر تحقیق کر سکتے ہیں ، تاکہ بعد میں اپنی اس تحقیق کو مشاہدے کی کسوٹی پر پرکھ سکیں۔ تخمینے اور مشاہدے کا مقابلہ کرکے  ہم اپنے نمونے کو اور بہتر کر سکتے ہیں جس کے نتیجے میں ہم غیر معمولی سیاروں کے بارے میں زیادہ بہتر طور پر جان سکتے ہیں۔ جس طرح سے سائنس نے  زمین کے اندرون  اور نظام شمسی کے دوسرے سیاروں کے بارے میں پچھلے سو برسوں سے بھی کم عرصے  میں مطالعہ کیا ہے یہ اس  سے کچھ زیادہ الگ نہیں ہے۔ در حقیقت  ہماری مشتری جیسے ماورائے شمس سیاروں کے بارے میں حاصل کردہ معلومات ، ١٩٥٠ء کے عشرے میں مشتری کے بارے میں موجود معلومات کے برابر ہے۔

    نظریہ کاروں نے ٢٠٠٤ء سے  اس قسم کی جدوجہد فوق ارض کے بارے میں شروع کی ہے۔ ٢٠٠٤ء  سے پہلے نظریاتی طور پر اس کا مطالعہ نہ کرنا صرف ان کی کوتاہی سے زیادہ کچھ اور نہیں ہے۔ نظریہ کار عام طور پر ان اجسام اور مظاہر کے اوپر کام کرتے ہیں جو پہلے سے موجود ہوں۔ وہ کیوں ایسی چیزوں پر وقت ضائع کریں جو فوری طور پر موجود نہ  ہوں؟

    میں کیونکہ ایک نظریہ کار ہوں ، لہٰذا میں اپنی ذمہ داری کو قبول کرتا ہوں۔ جب ہارورڈ کے سیاروی سائنس دان رچرڈ او کونیل(Richard O’Connell) اور میں نے پہلی دفعہ کرۂ ارض جیسے کسی سیارے کے کمپیوٹر نمونے کے بارے میں بات کی تو وہ کوئی زیادہ مشکل کام نہیں لگا۔ ہم صرف متجسس ہی تھے کہ اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ ہم کچھ زیادہ ناامید نہیں ہوئے  - اس قسم کے بڑے چٹانی سیاروں کے نمونے تو درحقیقت میں بہت ہی  دلچسپ رہے تھے  اور سال کے آخر میں ڈائنا  ویلنشیا (Diana Valencia)، جو ایک سند یافتہ طالبعلم تھیں اور جن کو رک(Rick) نے اس منصوبے پر کام کرنے کے لئے رکھا تھا ، وہ ہمیں ایک مختصر جائزہ  امریکن جیو فزیکل یونین کی میٹنگ میں  دینے کے لئے تیار تھیں۔ مجھے اس وقت بھی شک تھا کہ کسی نے اس سے پہلے اس قسم کے نمونے پر زیادہ کام نہیں کیا ہوگا ، لہٰذا میں نے ڈائنا سے کہا کہ پریزنٹیشن دینے کے بعد اپنے رفقائے کاروں سے گفتگو کے دوران  زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ وہ بہت زیادہ  حوصلے کے ساتھ واپس آئی۔ لوگ اس میں کافی دلچسپی لے رہے تھے اور ابھی تک کسی کے پاس بھی ایسا کوئی نمونہ موجود نہیں تھا۔ واقعی ہم ایک نئی دنیا میں قدم رکھ رہے تھے!

    فوق ارض کو تلاش کرنے کی میری  مسلسل تحریک تجرباتی کامیابی کے نتیجے میں اور زیادہ بڑھ گئی۔ اس تجربے میں وہی طریقہ استعمال کیا جس طریقے کو  عبوری سیاروں کو مرکزی ستاروں کو عبور کرنے کے دوران تلاش کرنے میں استعمال  کیا تھا۔ ماورائے شمس سیاروں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی۔  اور کیپلر کی آمد نے تو اس کام کو اور دلچسپ بنا دیا تھا۔

    کیپلر کے مشن کی تیاری میں ٹیم کے ایک رکن کی حیثیت سے میں اس بات سے باخبر تھا کہ ہم نیپچون سے چھوٹے اور زمین سے بڑے سینکڑوں سیارے دریافت کرنے جا رہے ہیں ، اس کے باوجود ہمیں ان کی کمیت  اور نصف قطر کے بارے میں ابھی کچھ نہیں معلوم تھا کہ کیسے وہ ایک دوسرے سے نسبت  رکھتے ہیں۔( یہی وہ  مسئلہ تھا جو  مجھے رک او کونیل  کے پاس شروع میں  لے گیا جو  میرے رفیق تو تھے مگر اس سے پہلے وہ ہارورڈ ارتھ اینڈ پلانٹری سائنسز  ڈیپارٹمنٹ  میں تھے۔)

     کسی بھی چیز کو فوق ارض کہلانے کے لئے  دو پیمانے  جو ڈائنا، رک اور میں نے بنائے  وہ یہ تھے (١) ان کو ایک اور دس ایم ای کے درمیان ہونا چاہئے تھا (٢) ان کو زیادہ تر  ٹھوس چیزوں سے بنا ہونا چاہئے تھا (جیسا کہ برف اور چٹان )۔ یہ بوقلمونی کے لئے کوئی  بہت ہی  زبردست اجزائے ترکیبی نہیں تھی  اور یہ بات بھی سچ تھی کہ ہمارے بنائے گئے کچھ نمونے کافی زیادہ شناسا بھی تھے۔ بہرحال اکثریت ہم نے ایسے سیاروں کی  دیکھی  جو نئے اور اجنبی تھے۔

     چلیں شروعات ایک شناسا  سیارے سے کریں اس کے لئے ہمیں زمین کے قلب تک کا سفر کرنا ہوگا ۔ چٹانی فوق ارض جیسا کہ خاکہ نمبر5.1 الف  میں دکھایا گیا ہے ایک اچھا خاکہ ہے جو بتا رہا ہے  کہ آگے کیا ہوگا۔

    5.1فوق ارض کا اندرون۔ الٹی طرف کی تصویر (الف) چٹانی فوق ارض کے اندرون کے بارے میں بتاتی ہے جو ہمارے کرۂ ارض کے اندرون سے ملتا جلتا ہے ؛(ب) سمندری یا پانی کا فوق ارضی سیارہ  جہاں پر زیادہ تر پانی ٹھوس شکل میں ہے۔


    باہری پرت زیادہ تر ٹھوس ہوگی۔ وہ کس چیز سے بنی ہوگی اس کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ ہم کس جگہ پر موجود ہے۔ ہمارے اپنے سیارے  پر  ہم اگر اپنے سفر کا آغاز کیلی فورنیا سے شروع کریں ، تو پرت سیلیکا سے بھرپور ہوگی ، جیسا کہ گرینائیٹ  جو لگ بھگ بیس کلو میٹر گہری  ہوگی ۔ اگر ہم اپنا سفر بحرالکاہل  کی تہ سے شروع کریں جو  ہوائی کے جزیروں کے قریب ہے ، تو قشر  سنگ سیاہ کی چٹانیں ہوں گی ، جو سیلیکا سے کثیف زبرجد  جیسی اور صرف پانچ کلو میٹر تک گہری ہو گی۔ زمین کے قشر کی اوسط خشکی میں تیس کلو میٹر  دبیز ہوتی ہے  جبکہ جیسا کہ ہم نے دیکھا سمندر میں مہین اور  بر اعظمی پہاڑوں پر گہری ہوتی ہے۔ ہمارا سفر  قلب تک صرف چھ ہزار چار سو کلومیٹر لمبا ہے  لہٰذا تیس کلومیٹر کی قشر تو صرف  مختصر سا تعارف ہی ہے۔
    زمین کے قلب تک سطح سے فاصلہ صرف 6,370 کلو میٹر تک کا ہے۔


    جتنا ہم گہرائی میں جائیں گے تو اتنا ہی  درجہ حرارت متواتر بڑھتا چلا جائے گا ، کان کن یہ بات اچھی طرح سے جانتے ہیں ، کیونکہ چٹانوں  کا دباؤ  اس بات کا سبب ہوتا ہے۔ نتیجتاً قشر کے نیچے ایک ایسا جزوی علاقہ ہوتا ہے  جو پگھلا ہوا ہوتا ہے (آتش فشانوں کے زیادہ تر لاوا یہاں سے جنم لیتے ہیں ) یہ تیزی سے  غلاف (Mantle)بن جاتا ہے ، جو ایک گرم چٹانوں کی کثیف پرت ہوتی ہے جسے اکثر پگھلا ہوا بتایا جاتا ہے۔ حقیقت میں یہ نام کا غلط استعمال ہے۔ یہ بات درست ہے کہ زمین کی سطح پر دو ہزار ڈگری درجہ حرارت پر چٹان آتش فشانوں سے کسی سیال کی طرح بہتی ہیں ، لیکن گہرائی میں موجود غلاف کے اندر  زبردست دباؤ سے  وہی چٹانیں ایسی ہو جاتی ہیں جیسا کہ ٹھنڈا شہد  : لوچ دار اور بہنے کے لئے حد درجہ آہستہ۔ غلاف اس طرح کی حالت میں ہوتا ہے جیسا کہ وہ آہستگی سے حرکت کرتا ہوا ابل رہا ہو  (جس کو ایصال حرارت [convection]کہتے ہیں ) – غلاف اتنا  چپچپا ہوتا ہے کہ اس میں بلبلے اوپر آنے کے  لئے لاکھوں سال لے لیتے ہیں۔ بہرحال یہ زمین کے عرصہ حیات کے مقابلے میں کافی کم ہے ، لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ارضیاتی (یا سیاروی ) وقت کے پیمانے پر کافی ساری چیزیں بلوئی اور  مکس کی جاتی ہوں گی۔ زمین کی تہ میں موجود غلاف کا درجہ حرارت ٣،٧٠٠ ڈگری ہوتا ہے ؛ یہ حرارت سطح کی جانب بہتی ہے۔ اسی دوران ، ٹھنڈی اور کثیف چٹان جو سطح کے قریب ہوتی ہے  وہ تہ میں ڈوب کر نیچے جاتی ہے  اور اس عمل کے دوران مکمل طور پر تحلیل ہو جاتی ہے۔ ہم اس کے کچھ اثر کو سطح پر دیکھ سکتے ہیں جب ایصال حرارت  قشر کے ٹوٹے ہوئے حصّوں کو دھکیل کر  آہستگی کے ساتھ براعظموں کو از سر نو ترتیب دیتی ہے۔ جن کو ہم  ٹیک ٹونک پلیٹ(ارضی سختائے ہوئی پرتیں) کہتے ہیں۔
    یصال حرارت  قشر کے ٹوٹے ہوئے حصّوں کو دھکیل کر  آہستگی کے ساتھ براعظموں کو از سر نو ترتیب دیتی ہے۔ جن کو ہم  ٹیک ٹونک پلیٹ(ارضی سختائے ہوئی پرتیں) کہتے ہیں۔


    غلاف زمین کی سب سے بڑی پرت ہے ، جو لگ بھگ ٢،٨٦٠ کلو میٹر دبیز ہے  اور سیارے کی  ٨٤ فیصد ضخامت بناتی ہے۔ غلاف بر اعظمی چٹانوں سے کہیں زیادہ دبیز ہے  اور زیادہ تر ایک معدن پروف اسکائیٹ(Perovskite)  پر مشتمل ہے :یہ معدن ایک گہری کثیف چٹان ہے  جس  میں لوہے اور میگنیشیم  کی مقدار٥٠ فیصد  سے زیادہ ہوتی ہے  اور یہ گرینائیٹ سے زیادہ  کثیف ہوتی ہے۔
    معدن پروف اسکائیٹ(Perovskite)


    غلاف کے نیچے ، لگ بھگ ٢٩٠٠ کلومیٹر سطح سے نیچے ، ہمیں قلب ملتی ہے  جو خالص لوہے اور  لوہے کی کچ دھات پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہاں پر درجہ حرارت کافی بلند ٥ سے ٧ ہزار کیلون تک ہوتا ہے  جو سورج کی سطح پر موجود درجہ حرارت کے مقابلے کا ہے۔ یہاں دباؤ بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔ قلب کثافت میں غلاف کی دبازت جتنی ہی ہوتی ہے  لیکن مرکز میں رہتے ہوئے یہ سیارے  کی کل ضخامت کا صرف ١٥ فیصد ہی ہوتی ہے۔ زمین کا قلب دو حصّوں پر مشتمل ہے : ایک باہری جو مائع لوہے کا قلب ہے جبکہ دوسرا  اس کے نیچے ایک ٹھوس  قلب ہوتا  ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ باہری قلب اسی طرح کے مائع کی طرح ہے جیسا کہ غلاف کا مائع ہوتا ہے۔

    یہ تمام باتیں ہم نے زلزلے پر تحقیق کرکے حاصل کی ہیں۔ اندرونی حصّے کا سب سے بہترین نظارہ زلزلے کی موجوں کے راستوں کے تجزیہ سے حاصل ہو سکتا ہے   جو زمین میں سفر کرتی ہیں۔ پورے سیارے پر زلزلہ پیما اس بات کو درج کرتے رہتے ہیں کہ کہاں اور کتنی تیزی سے زمین کے اندر اچھلتے ہوئے ایک زلزلے سے  مختلف موجیں  بنتی ہیں۔(یہ باہر سے انسانی جسم کی اندرونی  تصویر کو بالائے صوتی موجوں(Ultrasound Waves) کا استعمال کرکے حاصل کرنے سے زیادہ کچھ الگ نہیں ہے۔) مکمل تصویر اس وقت حاصل ہو جاتی ہے جب ہم اپنا زمین کے مقناطیسی میدانوں ، حرارتی بہاؤ  اور ثقلی قوّت کا علم اس میں ڈالتے ہیں۔ یہ علم ہم نے خلائی جہازوں اور تجربہ گاہوں میں چٹانوں پر اونچے دباؤ کو ڈال کر حاصل کیا ہے۔
    سیاروی امتیاز کے عمل نے دھاتوں کو کثافت کے لحاظ سے پرتوں میں جمع کیا۔

    میں نے  کچھ ساختوں کے بارے میں باب دوم میں تھوڑا سا اشارہ کیا تھا ، لیکن مکمل بات جو ذرا زیادہ پیچیدہ ہے وہ میں نے ابھی تک بیان نہیں کی ہے۔ سیارے بننے سے پہلے سیارے کی ساخت - جس کو ہم سیارے کا بیج کہ سکتے ہیں  - ٹھوس (زیادہ تر سلیکٹ) اور  طیران پذیر(جیسا کہ پانی اور امونیا) جیسی چیزوں پر مشتمل ہوتی ہے ، جس میں قلیل مقدار میں ہائیڈروجن اور  غیر عامل گیسیں  بھی موجود ہوتی ہیں۔ پرت دار قرص (Accretion Disk)بننے کے عمل میں پیدا ہونے والی توانائی اور تسلسل کے ساتھ بڑے اجسام سے  تصادموں کی وجہ سے یہ سیاروی بیج پوری طرح سے پگھل جاتا ہے۔(کرۂ ارض کی کچھ اندرونی حرارت اسی عمل کی باقیات ہے۔) اسی حالت میں ساخت  امتیاز حاصل کر لیتی ہے۔ لوہے  اور  فولاد کی کمی کے حامل عناصر (اونچے درجے کی کثافت کی  عبوری دھاتیں جو  لوہے کے ساتھ بند باندھنے کو پسند کرتے ہیں) سلیکٹ کے ملغوبے سے بہہ کر اپنے ہی وزن کے زیر اثر مرکز کے قلب میں جا کر بیٹھ گئے۔ جبکہ باقی بچی ہوئی سلیکٹ غلاف میں کم کمیت والوں کے ساتھ اوپر کی سطح سے نزدیک باقی رہ گئی۔ غلاف کے معدنیات کی آبیدگی ہونے کے بعد بچ جانے والے طیران پذیر مادّے سطح اور ماحول پر اوپر اٹھ گئے تھے۔
             
    سیاروی امتیاز(Planetary Differentiation)  کہلانے والا یہ عمل ارضیاتی اصطلاح میں بہت ہی تیز تھا  اور بڑے اور چھوٹے(جیسا کہ چند میل پر محیط سیارچے ) دونوں اقسام کے سیاروی اجسام پر یکساں لاگو تھا۔ لوہے کے شہابیے  - جو لوہے  کی کچ دھات کے خالص ٹکڑے ہوتے ہیں اور سورج کے گرد اس وقت تک چکر لگاتے ہیں  جب تک ایک دن زمین پر گر کر ہمیں مل نہیں جاتے  - یہ  سیارچوں کے لوہے کی مختلف امتیازی ساخت  والی قلب میں پیدا ہوئے تھے اور بعد میں دوسرے سیاروں کے ساتھ ٹکرا کر  تہس نہس ہو گئے تھے۔ لہٰذا اگرچہ ہمارے پاس زمین کے قلب کا کوئی نمونہ موجود نہیں ہے اور مستقبل میں بھی اس بات کا امکان نہیں ہے کہ ہم اس کو حاصل کر پائیں گے ۔ لوہے پر مشتمل شہابیے زمین کے قلب کی زبردست نیابت کرتے ہیں۔ امتیاز کا عمل ایک منظم اور  قابل پیش گو ہے  ، ہمیں اپنی کیمیا اور دباؤ میں  معدنیات کی خصوصیات  کے علم کا شکر گزار ہونا چاہئے۔
     برف VII کے سالمات 

     
    کچھ فوق ارضی چٹانی سیارے  اسی طرح سے ارتقاء پاتے ہیں، اگرچہ غلاف میں موجود دباؤ کچھ دس گنا زیادہ ہوتا ہے  یوں  مختلف قسم کی معدنیات پیدا ہوتی ہیں۔ جبکہ دوسرے  فوق ارضی سمندری سیارے  مکمل اجنبی سیارے ہیں  جہاں ایک سو کلومیٹر گہرے سمندر موجود ہیں  جن کی گہرائی میں کثیف گرم ٹھوس پانی اس شکل میں موجود ہے جو برف VII کہلاتی ہے۔
    عام طور پر پائی جانے والی برف کے سالمات۔ اس برف کو آئی ایچ  یا مسدسی برف (Hexagonal Ice)  کہتے ہیں۔

    ایسے پانی کو برف کا نام دینا عجیب سا لگتا ہے ، جبکہ اس کا درجہ حرارت جھلسا دینے والا ایک ہزار کیلون ہوتا ہے ، لیکن یہ  اتنے دباؤ پرہی  بنتی ہے۔ پانی جس کا کیمیائی فارمولا H2O اس کی ساخت اور فارمولا وہی شناسا ہوگا۔ لیکن ہماری اس سے عمومی  شناسائی  اس حقیقت پر پردہ ڈال سکتی ہے کہ یہ بہت زیادہ پیچیدہ ہے۔ ایک اہم خاصیت تو یہ ہے کہ آکسیجن کا پانی کے سالمات  میں موجود جوہر اپنا الیکٹران دو ہائیڈروجن کے جوہروں کے ساتھ مساوی طور پر   شریک نہیں کرتا ؛ جس کی وجہ سے سالمہ ایک  غیر متشاکل برقی بار کی تقسیم پر منتج ہوتا ہے۔ پانی کے ننھے سالمے کو ایک چھوٹے  مقناطیس کی طرح سمجھیں  بس اس کے تین قطب ہوتے ہیں (ایک منفی "O" اور دو مثبت "H"۔) پانی کے سالمے ایک دوسرے سے  تعامل کرتے ہیں کیونکہ ایک سالمے کے ہائیڈروجن کے جوہر کے قریب مثبت بار کمزور بند،  دوسرے سالمے کے آکسیجن کے جوہر کے قریب منفی بار ،سے باندھتے ہیں۔ ایسے کوئی کمزور بند مل کر مضبوط ساخت بنا سکتے ہیں بشرطیکہ  درجہ حرارت  اس قدر کم ہو جو ان کو ایسا کرنے کی اجازت دے۔ اسی طرح سے عام پائی جانے والی برف بنتی ہے  جس کو برف  آئی ایچ  یا مسدسی برف (Hexagonal Ice)  کہتے ہیں۔ عام پائی جانے والی برف میں سالموں کے درمیان کمزور بند سالموں کو حلقے بنانے پر مجبور کرتے ہیں (جو زیادہ تر مسدسی ہوتے ہیں) جس کے نتیجے میں کافی ساری خالی جگہ ان کے درمیان چھوٹ جاتی ہے۔ خالی جگہ کی وجہ سے اس کی کثافت مائع پانی سے ہلکی ہوتی ہے  لہٰذا یہ پانی پر تیرتی ہے۔ اس بات کا مظاہرہ آپ نے بھی پانی کے گلاس میں برف  کو تیرتے ہوئے  دیکھا ہوگا۔
    برف XI


    اونچے دباؤ پر پانی کی کثافت بڑھ جاتی ہے کیونکہ سالموں پر آپس میں قریب آنے کے لئے طاقت لگتی ہے؛ جس کے نتیجے میں یہ  بند اور تنگ حلقے بناتے ہیں  جو آپس میں ایک دوسرے میں گھس بھی جاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں پانی ٹھوس بن جاتا ہے  صرفِ نظر کہ اس کا درجہ حرارت کیا ہے  اور اس کی کثافت بھی مائع والی حالت سے کہیں زیادہ ہو جاتی ہے۔ اونچے درجے کی برف  جو بلند  درجے حرارت پر بھی قائم رہتی ہے اس کو ہم برف VII، X اور XI سے جانتے ہیں ؛ یہ برف کے وہ  مرحلے ہیں جن کی ہم فوق ارض کے سمندروں میں پائے جانے کی امید کرتے ہیں۔ برف اب بھی چٹان سے ہلکی ہوتی ہے ، بہرحال ، سمندری فوق ارضی سیارے  اپنے چٹانی ہمعصر جیسی کمیت والے سیارے کی بہ  نسبت کم کثیف ہوں گے۔
    پانی سے لبریز فوق ارض
      
    یہ بہت ممکن ہے کہ سمندری سیارے کائنات میں بہت ہی زیادہ عام ہوں کیونکہ پانی  کم درجے حرارت والے ماحول والی جگہوں  پر کافی عام ہیں جہاں پر سیارے بنتے اور ارتقاء پاتے ہیں ۔ یہ بات فوق ارض کے معاملے میں بھی لاگو ہو سکتی ہے  جو طیران پذیر مادوں کو اپنی بڑی کمیت اور سطحی ثقل کی بدولت  آسانی کے ساتھ روک کر رکھ سکتا ہے۔ کسی بھی سیارے کے لئے جو سمندری سیارے بننا چاہتا ہے ضروری ہے کہ وہ  یا تو بنتے وقت یا پھر بننے کے بعد کم از کم اپنی کمیت کا دس فیصد حصّہ پانی سے حاصل کرے۔ امونیا بھی اس میں مل سکتی ہے، مگر پانی زیادہ غالب طیران پذیر کیمیائی مادّہ  ہوتا ہے جو ہم نے ابتدائی  سیاروی قرص میں دیکھا ہے۔ تقابل کے طور پر زمین کے سمندر صرف0.002 فیصد زمین کی کل   کمیت کے ہیں۔ بہرحال بہت زیادہ پانی کی مقدار زمین کے غلاف  میں ڈالی جا سکتی ہے۔ اسی لئے میں نے پانی کی کافی زیادہ مقدار کو فرض کیا ہے (10 فیصد سے بھی زیادہ) تاکہ سیارے کے گرد ایک تہ بلا روک پانی کی بن سکے (خاکہ5.1 ب )۔


     اس بات سے صرف نظر کہ اس کی سطح کا درجہ حرارت کیا ہے ، ایک سمندری سیارے کے اندر وہی پرتیں ہونی چاہئیں: ایک لوہے کا قلب  جس کے گرد سلیکٹ  سے بھرپور غلاف  اس کو گرم پانی کی برف سے الگ کر رہا ہوگا۔ موخّرالذکر سطح کے قریب پہنچ کر (آخری سو کلومیٹر  یا اس کے آس پاس) مائع پانی میں بدل گیا ہوگا۔ مائع پانی کی سطح عام برف سے ڈھکی ہوگی ، بشرطیکہ  سیارہ اپنے ستارے سے کافی دور اور سرد ہے ، جیسا کہ مشتری کا چاند یوروپا۔ اگر سیارہ اپنے ستارے سے قریب ہے اور سطح پر کافی درجہ حرارت موجود ہے ، تو مائع سمندر ایک دبیز گرم بھاپ میں بدل جائے گا۔ اگر سیارے کا درجہ حرارت مناسب ہوگا  جیسا کہ ہماری زمین کا ہے ، تو پانی کے سمندر ہمارے جیسے ہی لگیں گے ، لیکن وہاں  اس کے نیچے کوئی بر اعظمی   یا سنگ سیاہ کی ٹیکٹونک پلیٹ موجود نہیں ہوں گی۔ سمندری سیارے کا اندرون سیارے کی اندرونی گرمی کے ذخیرہ کے قابو میں ہی رہے گا۔ سلیکٹ کے غلاف اور گرم پانی کی برف  کے درمیان  منتقلی میں صرف کثافت میں تھوڑا سا فرق ہوگا مگر درجہ حرارت میں کوئی فرق نہیں ہوگا ، اور دونوں مادوں میں ایک جیسی ہی اونچے درجے کی  چپچپاہٹ ہوگی۔ سلیکٹ کے غلاف کی طرح ، گرم پانی کی برف کا غلاف حرارت کا ایصال آہستگی کے ساتھ کرے گا۔

    فوق ارض کے دو سیاروی گروہ حجم اور پانی کی مقدار کے لحاظ سے بہت ہی تنوع سے بھرپور ہیں۔ ان کی خصوصیات کا انحصار اس بات پر ہوتا کہ سیارے کے بنتے وقت کون کون سے عنصر موجود تھے۔ ستاروں کے طیف کا تجزیہ کرنے کے بعد  ہم جانتے ہیں کہ لوہے اور دوسرے بھاری عناصر مختلف سیاروی نظام میں مختلف  ہوتے ہیں۔ یہ بات ہم پہلے ہی جان چکے ہیں کہ سیارے ،سیاروی قرص کے کس مقام پر بن رہے ہیں یہ امر بھی  ان کے بننے میں کافی زیادہ اثر ڈالتا ہے۔ لہٰذا چٹانی سیاروں کے درمیان ہمیں فوق عطارد بھی مل سکتے ہیں   - وہ سیارے جن کے لوہے کا  قلب کل سیارے کی کمیت کا 70 فیصد تک ہو سکتے  ہیں  جیسا کہ ہمارا سیارہ عطارد ہے۔ یا ہمیں فوق چاند بھی مل سکتے ہیں  - وہ سیارے جن کے قلب میں لوہا نہیں موجود ہوتا ، صرف لوہے سے بھرپور غلاف اور شاید پانی کی تہ ہوتی ہے۔
    کاربنی سیارے میں ہیروں کی بہتات ہوگی۔


    ایک تیسری ممکنہ فوق ارضی  اور میدانی سیاروں کی قسم بھی ہو سکتی ہے  - کاربنی سیارے۔ یہ بہت ہی نایاب ہوں گے ، کیونکہ ان کو بننے کے لئے آکسیجن سے زیادہ کاربن کی ضرورت ہوگی۔ عام طور سے کاربن آکسیجن کے مقابلے میں آدھی مقدار میں کائنات میں پایا جاتا ہے  جیسا کہ ہم نے خاکہ نمبر2.1 میں دیکھا تھا۔ لیکن فلکیات دانوں نے ایسے ستاروں کا مشاہدہ کیا ہے جس میں آکسیجن کی با نسبت کاربن کی مقدار زیادہ تھی۔ کوئی بھی سیارہ جو اس طرح کے ملغوبے سے وجود میں آئے گا  وہ کافی مختلف ہوگا  - اس کے غلاف میں سلیکان کار بائیڈ  اور گریفائٹ موجود ہوں گے۔ اس میں سے لوہا  بہتا ہوا قلب میں ضرور جا سکتا ہے ، لیکن اس کی سطح اور قشر کی  بحیثیت مجموعی حجم اور کیمیائی ترتیب  بہت ہی الگ ہوگی۔ سلیکان کار بائیڈ   ایک بہت ہی سخت قسم کا عنصر ہوتا ہے  - ہم اس کو لمبے عرصے چلنے والے سفال ،  دوڑ کاروں کے بریک  اور اونچے دباؤ کے ماحول میں کام کرنے والے اوزار بنانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ لہٰذا آتش فشاں ، ٹیکٹونک اور موسم کی حرکات کا ربنی سیارے پر انتہائی کم ہوں گی۔ کاربنی سیاروں میں پانی کی بھی کمی ہوگی۔
    5.2مختلف حجم کے فوق ارضی سیاروں  اور دیو ہیکل سیاروں کا موازنہ۔

    خاکہ نمبر 5.2 کچھ تصوراتی اشکال  فوق ارض کے خاندان  کی بتا رہا ہے اور اس کا مقابلہ زمین اور نیپچون سے بھی دکھا رہا ہے۔ فوق ارضی سیاروں کا نسبتی حجم ہمارے نظری نمونے کے بہترین اندازوں کے قریب تر ہے۔ کاربنی سیارے  خاکہ5.2میں نہیں دکھائے گئے ہیں۔ ان کے حجم چٹانی اور سمندری سیاروں کے درمیان میں کہیں پر ہوں گے۔ نیپچون جیسے دیو ہیکل سیارے جو گلیز ٤٣٦ کے گرد مدار میں چکر لگا رہے ہیں ، موازنے کے لئے خاکے میں دکھائے گئے ہیں۔

    آخر کار ، فوق ارض کے تخمینہ جاتی کمیت  سے ہم نے ان چھوٹے سیاروں کو دریافت کر لیا  جن میں نسبتاً زیادہ مقدار میں ہائیڈروجن اور ہیلیئم – شاید جو ان کی کمیت کا دس فیصد تک ہو سکتی ہے  - جس طرح  ہم نیپچون کی حالت میں دیکھتے ہیں ۔ بحیثیت مجموعی سیارے نیپچون سے چھوٹے ہو سکتے ہیں : جن کو  چھوٹے  نیپچون کہتے ہیں۔ اس بات سے ابھی تک پردہ فاش نہیں کیا جا سکا کہ وہ کون سی حد ہے جہاں سے ٹھوس سیارے بڑھتے ہوئی کمیت  کے ہائیڈروجن اور ہیلیئم میں ملفوف سیارے  بن جاتے ہیں۔ نظریہ ہمیں اس مسئلے کے کافی ممکنہ جواب دیتا ہے  مگر کوئی واضح پسند فراہم نہیں کرتا  لہٰذا قدرت کی پسند کو جاننے کے لئے ہمیں مشاہدے پر بھروسہ کرنا ہوگا ، ناسا کی کیپلر اسی راستے پر اچھی طرح سے گامزن ہے  تاکہ وہ ہمیں ایسے مشاہدے فراہم کر سکے۔ خوش قسمتی سے ایسا لگتا ہے کہ ان سیاروں کے رنگوں کا تجزیہ (ضیا پیمائی) کرنے سے ہم چھوٹے نیپچونوں  کو فوق ارضی سیاروں سے الگ کر سکیں گے۔

    اس کے باوجود  کائنات میں پائے جانے والی میدانی سیاروں کی ممکنہ اقسام ختم نہیں ہوئیں ہیں۔ سیاروں کی ایک اور ممکنہ صورت مکمل لوہے کا قلب بھی ہو سکتا ہے! زیادہ تر عوامل کے زیر اثر ہم ایسے کسی سیارے کو پانے کی امید نہیں کرتے کیونکہ سیاروی جسم کو پہلے ترتیب پانا ہوتا ہے (اس نقطہ پر وہ زیادہ تر سلیکٹ پر مشتمل ہی ہوتا ہے ، جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے ) اور اس کے بعد ہی وہ امتیاز حاصل کر پاتا ہے ، اور پھر  لوہے قلب میں بہ کر نکلتا ہے۔ سیلیکا کے غلاف  (جس کے بغیر لوہے کا قلب بن نہیں سکتا )کو صرف لوہے کے قلب کو چھوڑنے کے لئے اس سے الگ ہونا ہوگا۔ اس طرح  کا عمل چھوٹے اجسام پر وقوع پذیر ہونا  تو آسان ہوتا  ہے  مثال کے طور پر ایک بارہ میل چوڑے سیارچے پر۔ فوق ارض دوسری طرح کے ہوتے ہیں ، وہ اتنے ضخیم ہوتے ہیں کہ اگر دو فوق  ارض آپس میں براہ راست بھی ٹکرائیں  تو ریزہ ریزہ نہیں ہوں گے بلکہ  صرف  خالص لوہے کے قطروں میں تبدیل ہو جائیں گے۔ اتنے زبردست دباؤ میں بھی  ان کا ثقلی اثر سطح سے بہت دور تک ہوگا جس کے نتیجے میں وہ چٹانوں کو واپس کھینچ لے گا۔ درحقیقت ہمارے اپنا سیارہ عطارد ، جو زمین سے مقابلے میں چھوٹا ہے (صرف ایک بٹا اٹھارہ کی زمین کی کمیت سے نسبت ہے ) بھی  ایک براہ راست ٹکراؤ کے  باوجود میں اپنی  ابتدائی تاریخ میں  بچ چکا ہے  اور ابھی تک اپنے قلب کا زیادہ تر حصّہ محفوظ رکھا ہوا ہے۔ ان تمام باتوں سے قطع نظر  لوہے کا فوق ارضی سیارہ امکانی طور پر موجود ہو سکتا ہے ، اور شاید ہم نے اس کو پہلے ہی دریافت کر لیا ہے  -  نابض  سیارے۔

       نابض  سیارے ایلکس وولز چن(Alex Wolszczan)  اور ڈیل فرائل (Dale Frail)نے ١٩٩٢ء میں دریافت کیے تھے  جس کے نتیجے میں ماورائے شمس سیاروں کی دوڑ شروع ہو گئی تھی۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ یہ سیارے  ایک نابض ستارے  کے گرد چکر لگاتے ہیں  - نباض  ایک انتہائی درجے کا ضخیم (ہمارے سورج سے بھی زیادہ )، تیز گھومنے والا نیوٹران ستارہ ہوتا ہے ؛ جو عظیم نوتارے یا سپرنووا کی باقیات ہوتا ہے۔ ہم ان کے حجم کے بارے میں نہیں جانتے (اور کوئی ایسا بظاہر طریقہ موجود نہیں ہے  کہ ہم مستقبل قریب میں ان کو ناپ بھی سکیں ) نہ ہی ہمیں کوئی اچھا اندازہ ہے کہ یہ بنتے کیوں ہیں۔ نابض  سیارے لوہے سے بھرپور ملبے سے بنتے ہیں جو سپر نووا کے دھماکے کے  بعد بچ جاتا ہے۔ بھاری دھاتی سیارے !

    بہرحال حدود موجود ہیں۔ ہم اس بات کی امید نہیں کر سکتے کہ کوئی خالص پانی کا سیارہ ہوگا۔ یہاں تک کہ ہم اگر امونیا کو پانی میں ملنے کی بھی اجازت دیں  اور دوسری کم مقدار میں کثافتیں بھی شامل کر لیں تو بھی ایک خالص فوق برفیلی گیند کے  بننے کا امکان اتنا ہی  ہے جتنا کہ برفیلے زہرہ غبارے کا۔ خالص فوق ارض  کے بننے کا مسئلہ سیاروں کے بننے میں ہی موجود ہے۔ کوئی بھی ایسا طریقہ موجود  نہیں ہے جو ملبے کی قرص میں موجود گرد کو برف کے گالوں سے الگ کر دے  یا پھر کسی پانی سے بھرے سیارے کو پرتی  چٹانی اجسام سے بچا لے۔ تصادم بھی مدد کرتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے  اور فوق ارض کے  بہت زیادہ ضخیم ہونے کی وجہ بھی یہی ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ ہمارے اپنے نظام شمسی میں ، سب سے زیادہ پانی سے بھرپور اجسام سیارچے اور پلوٹو کے دور دراز کے رشتے دار ہیں  ان  کی چٹان اور پانی کی نسبت ایک سے ایک کی ہے۔ اگر کیپلر نے کوئی ایسی چیز دریافت کر لی جس کی اوسط کثافت پانی کی ہوئی  تو میں اس بات پر شرط لگانے کے لئے تیار ہوں کہ وہ کوئی ماورائے اراضی تہذیب کے  پانی کا ذخیرہ ہوگا۔۔۔۔یا شاید ہائیڈروجن گیس ، پانی اور چٹانوں کا ملغوبہ ہوگا  - ایک چھوٹا نیپچون سیارہ۔

    جب ہم نے اس قسم کے سیاروں کی جماعت کو زیر بحث کر لیا ہے تو آپ شاید اس بات پر حیران ہو رہے ہوں کہ ہم نے اپنے اس خوبصورت سیارہ ارض کا نام کیوں ایسی اجنبی جگہوں کے بھنڈاروں  کے لئے استعمال کیا ہے۔ اگرچہ ان دوسرے سیاروں کے نمونوں کو ہم نے اپنے علم کی بنیاد پر بنایا ہے۔ میرے لئے تو اس کا جواب ہاں میں ہے۔ ہمارا کرۂ ارض  ایک فوق ارض ہے ، ایک بڑے خاندان کا حصّہ ہے اور اس کی  کچھ عمومی اور گہری مماثلت  ان دوسرے سیاروں سے ہے۔ یہ مماثلت اتنی گہری ہے کہ حقیقت میں آپ زمین کی گہرائی میں اس کے غلاف میں بھی اس کو پا لیں گے۔ چلیں دیکھتے ہیں کہ وہ کیا ہے۔

    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: فوق ارض - ایک نئی قسم کا سیارہ Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top