Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    پیر، 26 اگست، 2019

    ایٹم - ایک عظیم ذرہ

    ایٹم آج کی دنیا میں دلچسپی، ترقی اور خوش حالی کا موضوع بن چکا ہے۔ آئیے آپ کو اس کی کہانی سنائیں۔ ایٹم ہندوستان کے لئے کوئی نیا علم نہیں۔ بودھ اور جین عالموں نے 'جوہر' کی تعریف کی ہے۔ ایسے عالم اسے انو کے نام سے یاد کرتے تھے اور ہم  آج اسے ایٹم ، کہتے ہیں۔ بودھ اور جین عالموں نے جو نظریہ پیش کیا تھا وہ یہ تھا کہ ایٹم مادے کا وہ چھوٹے سے چھوٹا جزو ہے جسے تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ کناد نامی ایک بودھ فلسفی جسے ویشیشک فلسفے کا بانی سمجھا جاتا ہے نے ان عالموں کی تحقیق کو اور آگے بڑھایا اور وہ اس نتیجے تک پہنچ گیا کہ "کائنات میں ایٹم کا وجود منتشر حالت میں ناممکن ہے" یوں سمجھئے کہ ہندوستان میں ایٹم کے مضمون کی تاریخ ملتی ہے۔ 

    لگ بھگ اسی زمانے میں یونانی عالم دی مقراطیس (460 – 375   ق۔م)نے اپنے ملک میں یہ نظریہ پیش کیا کہ دنیا کی ساری چیزوں کے اجزائے ترکیبی ناقابل تقسیم ذرے ہیں، جو اپنی صورت اور سیرت اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ہندوستان اور یونان کے ان ایٹمی نظریات کے بارے میں جارج سارٹن لکھا ہے "ہندوستان میں ایٹمی نظریات کی نشوونما 'نیائے' اور 'ویشیشک'، مکتب فکر کے فلاسفروں کے ہاتھوں ہوئی ۔

    ایٹم کے متعلق تحقیق کا سلسلہ اس کے بعد کے دور میں بھی جاری رہا۔ یہاں تک کہ 50 میں ہم دیکھتے ہیں کہ جین عالموں نے جن کا رہنما اماوس متی "ایٹمی مفکر" تھا۔ ٹھوس جسموں کی بناوٹ میں ایٹموں کے ترکیبی عمل کا تجزیہ کیا۔ قدیم ہندوستان کے لوگ مادے کی خصوصیات سے ناواقف تھے۔ مثلاً یہ کہ اس میں مسامات ہوتے ہیں، لچک ہوتی ہے، اتصال ہوتا ہے۔ لیکن جوں جوں زمانہ آگے بڑھتا گیا، ہندوستان کے سائنس دانوں کے نظریات و فکر میں تبدیلی ہوتی گئی۔ سائنس دانوں کے نزدیک ۱۹ ویں صدی میں مادہ اور توانائی ایک دوسرے کے برعکس سمجھے جاتے تھے ۔ مادے کے متعلق یہ خیال تھا کہ وہ ایک مجسم چیز ہے، جو ایک محدود فضا کو بغیر کسی غیر کی شرکت کے احاطہ کرتی ہے اور جس کا ایک مستقل وزن ہوتا ہے۔ اس وزن کو کم و زیادہ یا معدوم نہیں کیا جا سکتا۔ جب کوئی مادی چیز حرکت کرتی ہے تو وہ ایک یا خط میں ایک ذرہ کی طرح حرکت کرتی ہے، لیکن آواز یا روشنی کی موجوں کی طرح پوری فضا میں نہیں پھیل پاتی۔ 

    اس خیال کے الٹ روشنی اور توانائی کے متعلق یہ خیال تھا کہ وہ نہ تو کوئی مجسم چیز ہے اور نہ کسی محدود فضا کو بغیر کسی غیر کی شرکت کے گھیرتی ہے۔ اس کا کوئی وزن نہیں ہوتا اور وہ ذرے کی طرح حرکت نہیں کرتی بلکہ موجوں کی شکل میں آگے بڑھتی ہے ۔ 

    بیسویں صدی میں مادہ اور توانائی کا یہ اختلاف ختم ہو گیا ہے۔ جدید تجربوں سے ثابت ہو گیا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی مختلف شکلیں ہیں، کبھی مادہ توانائی میں تبدیل ہو جاتا ہے اور بھی توانائی مادے میں۔ کسی مادہ چیز کی کمیت مستقل نہیں ہوتی بلکہ اس کی حرکت پر منحصر ہوتی ہے اور وہ رفتار کے ساتھ گھٹتی بڑھتی رہتی ہے۔ ایک مادی چیز کبھی ذرے کی طرح ایک خط میں حرکت کرتی ہے اور کبھی موجوں کی طرح پھیلتی ہوئی آگے بڑھ جاتی ہے۔ یاد رہے کہ مادہ کو توانائی میں تبدیل کرنے کا یہی اصول ہے جس کی بنا پر ایٹم نے ایک دن جنم لیا۔ 

    ایٹم (جوہر) کے متعلق 1895ء تک یہی سمجھا جاتا تھا کہ وہ مادے کا سب سے چھوٹا ذرہ ہے جس کو مزید بانٹا نہیں جا سکتا۔ لیکن اس کے بعد معلوم ہوا کہ ہر ایٹم کے اندر بہت سے اور چھوٹے ذرے ہوتے ہیں جن کو الیکٹرون، پر و ٹون، اور نیوٹران ، کہتے ہیں۔ کسی ایٹم کا مادہ مسلسل پھیلا ہوا نہیں ہوتا بلکہ یہ ذرے کے اندر نظام شمسی کی طرح ترتیب دئے ہوئے ہوتے ہیں اور چند مقررہ مداروں پر حرکت کرتے رہتے ہیں۔ ایٹم کے تعلق ذروں کے درمیان اسی طرح لمبا چوڑا خلا ہوتا ہے، جیسے سورج اور اسے سیاروں کے درمیان۔ ایم کے مرکزی حصے میں جس کو نیوکلیس کہتے ہیں، اس کا لگ بھگ سارا مادہ مرتکز ہوتا ہے اور اسی کی شکست و ریخت  (ٹوٹنے) سے ایٹم کی ماہیت بھی بدل جاتی ہے اور ایٹمی توانائی بھی حاصل ہوتی ہے۔ اب تو ایسے ذروں کی ایک بہت بڑی تعداد معلوم ہو چکی ہے، جو مادی ذروں یا ایک مادی ذرہ اور شعاع کے میل جول کے دوران ظہور پذیر ہوتے ہیں۔

    کیمیائی عناصر کے بارے میں یہ خیال تھا کہ یہ ایک خاص قسم کے مادے سے متعلق ہوتے ہیں جو ہر دم ایک سے رہتے ہیں۔ ان عنصروں کو ایک دوسرے میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ حالانکہ سینکڑوں کیمیا گردوں نے اس مضمون پر بڑا مغز کھپایا ہے۔ آج کی سائنس کہتی ہے کہ ایک عنصر کے کئی بہروپ ہوتے ہیں، جنھیں انگریزی میں آئسوٹوپ کہتے ہیں. یہ آئسوٹوپ تجربہ گاہوں میں مصنوعی طور پر بنائے جا سکتے ہیں اور اس میں شک نہیں کہ ان برسوں میں کئی قسم کے نئے عنصر بنائے جا چکے ہیں جن سے گوناگوں فائدے بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔ 

    آئین سٹائن نے اسی صدی (1905ء) میں ثابت کیا کہ مطلق مکان اور مطلق زمان کا تصور آج نہیں تسلیم کیا جا سکتا۔ یوں کہے زماں یعنی وقت کوئی مطلق شے نہیں ہے بلکہ اضافی ہے۔ اسٹیج مکاں یعنی فضا بھی مطلق نہیں بلکہ اضافی ہے۔ نتیجہ سامنے ہے کہ آج کی دنیا تین کی بجائے چارdimensions مانتی ہے۔ آگے چل کر آئین سٹائن نے اپنے نظریے کی وضاحت اس طرح کی کہ 'قوت' نام کی کوئی الگ شے نہیں بلکہ صرف مکان زماں ہی کی ایک خاصیت ہے۔ آج مادہ اور توانائی دو مختلف چیزیں نہیں بلکہ ایک ہی چیز کے دو الگ الگ بہروپ ہیں۔ 

    موجودہ صدی میں زمان و مکاں ، مادہ اور توانائی، عنصر اور قوت جیسے بنیادی تصورات میں بڑی تبدیلی پیدا ہو گئی ہے بلکہ معنی و مطالب بھی بدل گئے ہیں۔ نیوٹن نے ایک دن یہ کہا تھا کہ کائنات کی ہر حالت ، ہر لمحہ مقرر ہے اور وہ اس کے مطابق شکل اختیار کرتی ہے۔ ۱۹۲۷ء میں ایک پروفیسر ہائی زن برگ نے یہ دعوی کیا کہ کائنات میں کسی ذرے کا مستقبل قطعی طور پر مقرر نہیں ہے بلکہ وہ  کئی حالتیں اختیار کر سکتا ہے۔ ایسے بنیادی انقلاب کے با وجود سائنس رواں دواں رہی بلکہ پے در پے جیب کی نظریات سامنے آگئے تو ان میں بھی اختلاف کی گنجائش نظر آئی جن سے ثابت ہوتا ہے کہ آج کے دور میں کسی قاعدہ کلیہ یا نظریے پر ایک نئی رائے قائم ہو سکتی ہے۔ بہرحال، ایٹم آج کے دور کا ایک سنگ میل ہے ایک تاریخی حقیقت ، تحقیق و تجربات کا ایک دلچسپ موضوع۔ 

    آج کا دور ایٹم کا دور ہے۔ ایٹم کا موضوع کچھ تکنیکی ہی لیکن چونکہ اس نے دنیا بھر کی نظر اپنی طرف مرکوز کرلی ہیں اس لئے اس موضوع پر معلوماتی سطح تک کچھ جاننا ضروری ہے۔ بقول شاعر : 
    سمجھا ہے تو ذرے کو فقط ذرہ ناچیز
     چھوٹی سی یہ دنیا ہے جو سورج سے بڑی ہے 




    اس کتاب کو اس ربط سے پڑھا اور ڈاؤنلوڈ کیا جاسکتا ہے۔

    نوٹ: یہ مضمون کتاب "ایٹم کی کہانی" کا پہلا باب ہے۔ اس کتاب کو  "سبھاش سلوجہ" نے دسمبر 1979 میں شائع کیا تھا۔


    #جہان_سائنس #اردو #سائنس #ترجمہ #ایٹم_کی_کہانی #اندرجیت_لال # سائنسی_کتابیں #سائنسی_کتب #اردو_میں_سائنس #سبھاش_سلوجہ 
    #jahanescience


    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: ایٹم - ایک عظیم ذرہ Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top