Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    منگل، 27 اگست، 2019

    دیمک کی کہانی


    اگر کوئی سیاح آکر ہم سے یہ کہے کہ اس نے ایک ایسی نسل کے افراد دیکھے ہیں جن کو اپنے بچوں کے جسم کی ساخت ان
    کے عادات و اطوار یہاں تک کہ ان کے جنسی خواص تک  پر پورا اقتدار حاصل ہے اور ان کو وہ جیسا چاہیں ویسا بنا سکتے ہیں ۔ اگر وہ ہم سے یہ کبھی کہے کہ یہ نسل اپنی ضرورت کے مطابق اپنے بچوں میں سے خواص کے اعتبار سے جن کو چاہے مزدور بنا سکتی ہے اور جن کو چاہے سپاہی یا ملکہ یا بادشاہ، تو کیا آپ اس کی بات کو باور کریں گے ؟ اور اگر وہ ہم کو کسی طرح سے اپنی اس بات کا یقین دلا بھی دے تو ہمارے لئے یہ بات یقیناً تعجب خیز ہوگی اور ہم اس کے متعلق تفصیلی معلومات حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے کیونکہ آئندہ نسل پر مذکورہ بالا قدرت حاصل کرنے کے لئے نیچر کے انتہائی مخفی رازوں کی تہ تک پہنچنا لازمی ہے۔ 

    دیمک کے حالات کو پڑھنے کے بعد کچھ اسی قسم کا احساس ہوتا ہے حالانکہ دیمک نسل انسانی سے کوئی تعلق نہیں رکھتی لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ ہم اس کو حقیر سمجھیں۔ اس سے زیادہ حیرت کی کوئی دوسری بات نہیں کہ ایک اتنا چھوٹا اور کمزور حشرہ جو اس آسانی سے اپنے دشمنوں کا شکار ہو جاتا ہو اور جس کے پاس قدرت کو تابع کرنے کے وہ تمام ذرائع جن پر انسان فخر کرتا ہے نہ ہوں قدرت کے رازوں کی ان گہرائیوں تک پہنچ جائے جن تک انسان نہیں پہنچ سکا ہے۔ 

    چیونٹے اور شہد کی مکھیاں کس حد تک قابل حیرت ہیں. شہد کی مکھیوں کی نو آبادی کا نظام تو کسی انسانی گورنمنٹ کے نظام سے کم نہیں بلکہ بہتر ہی ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ شہد کی مکھیوں کی ایک علیحدہ اپنی تہذیب ہے۔ تہذیب کے معنی ہیں ہر شہری کا اپنے فرائض کو پہچاننا اور ان پر عمل کرنا. ایسے فرائض کی پابندی شہد کی مکھی کے گھونسلے میں انسانی سوسائٹی کی بہ نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ اپنے نظام کے اعتبار سے دیمک کی گورنمنٹ شہد کی مکھی کی گورنمنٹ سے بھی بہتر ہے۔ 

    دیمک کی تہذیب۔ اس کے نظام حکومت اور اس کی سوشل اور اقتصادی زندگی کے علاوہ اس کی انسان کو نقصان پہنچانے کی حیرت انگیز قوت بھی قابل توجہ ہے۔ اس کے لئے یہ سچ کہا گیا ہے کہ اس کے علا و دنیا میں اور کوئی ایسا حشرہ نہیں ہے جو انسان کے خلاف ایک مسلسل جنگ جاری رکھتا ہو۔ 

    اس دنیا میں ہزار ہا قسم کے حیوانات انسان کے ساتھی ہیں۔ ان کی قسمیں ان گنت ہیں اور ان کا رہن سہن ۔ ان کے عادت و اطوار غرضیکہ ان کے عام خاص اس قدر ایک دوسرے سے مختلف ہیں کہ انسان ان سے دلچسپی لئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ 

    افسوس ہے کہ اردو زبان میں حیوانی دنیا کے متعلق کتا بیں تقریباً ناپید ہیں - انجمن ترقی اردو دہلی نے سائنس کے مضامین کو عوام تک پہنچانے کے لئے حیوانات کے متعلق تصانیف کی اشاعت کی ابتدا کی تھی۔ 

    اور اس سلسلے میں شاید کل دو عدد کتابیں شائع ہوئیں۔ جن میں ایک "حیوانی دنیا کے عجائبات" موجودہ مصنف کی لکھی ہو ئی تھی۔ موجودہ انجمن نے بھی اس سلسلے کو جاری رکھنے کا ارادہ ظاہر کیا چنانچہ راقم الحروف نے اس کتاب کے عنوان کے لئے دیمک کو چنا جو نہ صرف اپنی زندگی اور خواص کے لحاظ سے دلچسپی کا باعث ہو سکتی ہے بلکہ  اقتصادی اعتبار سے بھی کافی اہمیت رکھتی ہے۔ 

    اس کتاب کی تصنیف میں حسب ذیل کتب سے مدد لی گئی ہے ۔ یہاں تک کہ بعض جگہوں پر جہاں تبدیلی کی ضرورت نہیں سمجھی گئی پورے جملوں کا آزاد ترجمہ کیا گیا ہے۔ 

    Beeson, C.F.C. - The Ecology of the Forest
    Insects of India and the neighboring Countries. The Yasant Press, Dehradun (India), 1941.
    Fyfe H. – The wonder of the white ant in “Wonders of Animal Life"- volume 1. The Waverly Book Company Ltd., London. Maeterlinck, M. - The life of the White ant George Allen & Union Ltd., London, 1927.
     Sovyder, T.E.- Our enemy the termite. Comstock Publishing Company, Inc., New York, 1935.




    نوٹ: یہ مضمون کتاب "دیمک کی کہانی" کا پیش لفظ ہے۔ اس کتاب کو  "انجمن ترقی اردو " نے دسمبر 1979 میں شائع کیا تھا۔


    #جہان_سائنس #اردو #سائنس #ترجمہ #دیمک_کی_کہانی #دیمک #حیوانات #حشرات #عبد_البصیر_خان #سائنسی_کتابیں #سائنسی_کتب #اردو_میں_سائنس #انجمن_ترقی_اردو_ہند
    #jahanescience



    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: دیمک کی کہانی Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top