Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    جمعہ، 5 جون، 2015

    ماوراء شمس سیارے - جہنم کے دروازے

    "عالم موجودات"(Cosmos) ان سیاروں سے بھری ہوئی ہے جن کو ہم "جہنمی سیارے" (Planets from Hell) کہہ سکتے ہیں۔ ہماری کائنات میں ان" عفریتوں"(Monsters) کا بے تحاشہ ذخیرہ ہے۔ بے انتہاء ہزارہاڈگری درجہ حرارت والی جلتی ہوئی دنیاؤں سے سے لے کر سرد ترین منجمد سیاروں تک اور سنسان تابکاری سے سوختہ پا جہانوں سے لے کر "پتھروں کی بارش" (Rock Rains)ہوتےعالمین تک ہم سینکڑوں جہاں تلاش کر چکے ہیں۔ ہم نے جہانوں کو تلاش کرنے کی شروعات اس لئے کی تھی کہ ہم اپنے جیسی کوئی دنیا تلاش کر پائیں مگر ہمیں ابھی تک تو صرف ایسی ہی دنیائیں ملی ہیں جہاں زندگی ممکنہ طور پر شروع نہیں ہو سکتی۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کائنات اس قدر عجیب و غریب جگہ کیسے ہو سکتی ہے۔ اپنے اس مضمون میں ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ کیا زمین اس پوری کائنات میں ایک واحد جگہ ہے جہاں زندگی اپنا مسکن بنا سکتی ہے یا پھر کائنات میں ہماری زمین جیسے بیشمار جہاںموجود ہیں جو اس بات کے منتظر ہیں کہ کب ہم ان کو تلاش کریں۔

    نظام عالم پر ایک نگاہ دوڑائیں۔ آپ کو ارب ہا ارب کہکشائیں اور ستاروں کی وہ تعداد ملے گی جس کا ادرک کرنا انسانی دماغ کے بس کی بات نہیں ہے۔ اتنی وسیع کائنات کو دیکھ کر صرف ایک ہی سوال ہمارے اذہان میں آتا ہے کیا وہاں پر کوئی اور بھی موجود ہے۔ ہم دنیا کی طرح دوسری دنیا تلاش کرنا چاہتے ہیں۔ کوئی نیلا سیارہ کسی کہکشاں میں اس کے کسی ستارے کے گرد چکر کھاتا ہوا مل جائے۔ ہم ان دنیاؤں کی تلاش کرر ہے ہیں جہاں زندگی پروان چڑھ سکے۔ ہم اپنی طرح کی دنیا اور اپنی طرح کی زندگی اور عقل و شعور سے مزین مخلوق خلاء میں ڈھونڈھ رہے ہیں۔ ہم تو اپنی جنت کے متلاشی ہیں۔ 

    اب تک ہم ١٨٥٠ سے زائد سیارے اپنے نظام شمسی سے دور تلاش کر چکے ہیں۔ مگر یہ ماوراء شمس سیارے کسی بھی طرح سے ہماری زمین سے ملتے جلتے نہیں ہیں۔ ایک طرح سے شاید یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ یہ سیارے ہماری کرۂ ارض سے الگ ہیں اصل بات تو یہ ہے کہ یہ تمام نظام ہائے شمسی جن کے گرد ہم نے ان سیاروں کو کھوجا ہے وہ کسی بھی طرح سے ہمارے نظام شمسی کی طرح نہیں ہیں۔عالم موجودات کو ان ہیبت ناک دنیاؤں سے لبریز دیکھ کر تو لگتا ہے کہ ہم بہت ہی" انوکھے"(Oddball) ہیں۔ شاید ہم نے" جہنم کے تمام درجہ"(Different Flavors of Hell) کھوج لئے ہیں اور ان تمام طریقوں کو ڈھونڈھ نکالا ہے جس کے ذریعہ سیارے زمین کے جیسے نہیں بن سکتے۔ ابھی تک تو ہم نے جنّت کی تلاش میں صرف اور صرف جہنم ہی کو پایا ہے۔ یہ تمام جہاں جو ہم نے ڈھونڈ نکالے ہیں وہاں پر زندگی کا ہونا نہایت ہی ناممکن سی بات ہے۔ کیا واقعی ہم اس کائنات میں تنہا ہیں جو خوش بختی سے زندگی کے لئے نا مہربان کائنات میں پیدا ہو گئے ہیں؟شاید اس بات کا جواب ہمیں جلد ہی مل جائے گا۔

    اب تک ہم نے سینکڑوں ماوراء شمس سیارے خلائے بسیط میں تلاش کر لئے ہیں۔ ہم اوسطاً ہر ہفتے ایک سیارہ تلاش کر رہے ہیں۔ چند سالوں میں ممکن ہے ان کی تعداد ہزاروں میں پہنچ جائے۔آخر میں ہوسکتا ہے کہ کروڑوں یا اربوں کی تعداد میں ایسی دنیائیں موجود ہوں جو اس انتظار میں ہیں کہ کب ہم ان کی کھوج کرتے ہیں۔ اس بات کا ادرک کرنا کہ یہ سب جہنمی سیارے ہیں ہم انسانوں کے لئے کافی مشکل ہے۔ اس بات کو سمجھنے کی مہم ہم زمین سے ٦٣ نوری برس کے فاصلے سے شروع کرتے ہیں۔

     ایک آرٹسٹ  کا تخیل HD 189733 b

    ہم نے یہاں ایک سیارہ HD 189733 b دریافت کر لیا ہے(تصویر نمبر ١)۔ سپٹزر وہ چیزیں دیکھ سکتی ہے جو ہمیں اپنی آنکھوں سے نظر نہیں آتیں۔ یہ بصری روشنی کے بجائے زیریں سرخ اشعاع (انفراریڈ) کا استعمال کرتی ہے۔ یہ زیریں سرخ روشنی کی شعاعیں ، روشنی کے "طیف"(Spectrum) کے اس حصّے کو استعمال میں لاتی ہیں جن کو ہم اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتے۔ انفراریڈ دراصل میں حرارت ہے۔ انفراریڈ میں کائنات کو دیکھنے کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ یہ ہمیں اس بات کا موقع دیتی ہیں کہ ہم دوسرے ستاروں کے گرد چکر لگاتے سیاروں کی روشنی کو دیکھ سکیں۔ جب ہم سیارے سے آتی ہوئی روشنی کو ستارے کی روشنی کے آگے سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو مشکل یہ پیش آتی ہے کہ ستارا ، سیارے کے مقابلے میں ہزار ہا گنا زیادہ روشن ہوتا ہے جس کی وجہ سے سیارے کی آتی ہوئی روشنی بہت ہی مدھم ہوجاتی ہے۔البتہ جب ہم روشنی کے انفراریڈ طیف کے ذریعہ سیارے کو دیکھتے ہیں تو سیارے کی اندرونی حرارت کی وجہ سے وہ ہمیں دمکتی ہوئی نظر آتی ہے جس سے ہمیں سیارے کے حجم اور اس کی دوسری خصوصیات ناپنے میں مددملتی ہے۔

    سپٹزر نے ہمیں ایک انتہائی جدید طریقے سے ماوراء شمس سیاروں کی "آ ب و ہوا کی نقشہ سازی"(Weather Mapping) کرنے میں مدد کی ہے۔ اس سے حاصل کردہ تصاویر حقیت میں ٹیکنالوجی کی فتح ہیں۔ اس سے حاصل کردہ تصاویر نے اس سیارے پر موجود جہنمی ہواؤں کی موجودگی کو ثابت کردیا۔اس سیارے کا ایک حصّہ اپنے ستارے کی طرف ہمیشہ رہتا ہے لہٰذا اس کا قلب سیارے پر موجود سب سے زیادہ "گرم حصّہ" (Hot Spot) ہونا چاہئے مگر ایسا نہیں تھا۔کیونکہ سیارے کا گرم ترین حصّہ کہیں اور تھا۔لہٰذا اس بات کا امکان تھا کہ ضرور کسی طاقتور چیز نے سیارے کا گرم ترین حصّہ اس کے قلب سے دھکیل کر اس کے ایک طرف کر دیا تھا۔ صرف ایک مسلسل چلتا ہوا ٦ ہزار میل فی گھنٹہ کا طوفان ہی ایسا کرسکتا تھا۔ اس طوفان کی ہوائیں زمین پر چلنے والی تیز ترین ہواؤں سے بھی ٢٠ گنا زیادہ یعنی آواز کی رفتار سے بھی ٨ گنا زیادہ طاقتور ہیں۔

    موسمی نقشے میں ایک چھوٹی سی تبدیلی خلائی دنیا میں آواز کی بھی رفتار سے تیز غیض و غضب سے بھرے طوفان کے موجود ہونے کا ثبوت ہے۔ یہ سیارہ واقعی دوزخ کا ایک دروازہ ہی ہے۔ تیزی سے دریافت ہوتے سیاروں میں سے کچھ ہماری زمین کی طرح بھی ہوسکتے تھے مگر ہم جتنی تلاش کررہے ہیں اتنے ہی دوزخی سیارے پا رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ اس قدر گرم ہیں کہ ان کا کسی بھی قسم کی حیات کے لئے موزوں ہونا کسی بھی طرح سے ممکن نہیں ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ان کو تو کائنات میں موجود ہی نہیں ہونا چاہئے تھا۔

    ایک اور مشتری کے حجم کا گیسی سیارہ HD 149026b دریافت ہوا ہے١ جو زمین سے ٢٥٦ نوری سال کے فاصلے پر ہے۔ انفراریڈ میں یہ کسی ستارے ہی کی طرح دمکتا نظر آتا ہے۔ یہ ہمارے نظام شمسی کے گرم ترین سیارے - وینس سے بھی ہزار ہا گنا زیادہ گرم ہے۔ اس آبلہ انگیز سیارے کا درجہ حرارت ٣،٧٠٠ ڈگری ہے۔کسی بھی سیارے کے لئے اس قدر گرم ہونا تقریباً ناممکن ہے۔ اس کا اس قدر بلند درجہ اس کی ظاہر ی جسامت کے بارے میں اشارہ دیتا ہے۔


     ایک مصّور کا خیال HD 149026b

    صرف مطلق کالا رنگ ہی ستارے سے آتی ہوئی اس قدر روشنی کو جذب کرسکتا ہےجو درجہ حرارت کو اس قدر جھلسا دینے والا بنا دیتا ہے(تصویر نمبر ٢)۔ اگر ہم دور سے اس سیارے کی رات والے حصّے کی طرف آ رہے ہوں تو ہم اپنے سامنے تاریکی کو پائیں گے۔ بہت ہی کم روشنی ہوگی۔ ایسا لگے گا کہ جیسے ستارے آسمان کو نظر انداز کر رہے ہوں۔ جس طرح سے کالی ڈامر کا روڈ سورج کی روشنی جذب کرکے دھوپ میں گرم ہوجاتا ہے بالکل اسی طرح یہ کالا سیارہ اپنے ستارے کی حدّت کو چوس کر بھنتا رہتا ہے۔ ابھی تک سائنس دان اس کی فضاء کی کیمیائی ترکیب نہیں سمجھ سکے ہیں۔ کرۂ ارض پر تو کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو اس قدر روشنی کو جذب کرسکے۔ سیارے کا اکلوتا رنگ اس کے جھلسا دینے والا گرم دھبے سے ہی نظر آتا ہے۔ جب اس کے دن کی طرف والے حصّے کو دیکھتے ہیں تو وہ گرم ہوکر لال ہوکر دمکنے لگتا ہے۔وہاں پر ایک زبردست گھومتا ہوا لال اور دمکتا ہوا طوفان ہوگا۔ اس طوفان کی گہرائی میں ٹائٹینیم آکسائڈ کے گھومتے ہوئے بادل زمین سے ١٠٠ گنا زیادہ بھاری ہوں گے۔ یہ تاریک دنیا تو یقینا جہنم کا ایک اور دروازہ ہی ہے۔

    کچھ سیارے کافی بڑے ہیں ان کی یہ جسامت بھی ایک ان سلجھی پہیلی ہے۔فلکیات کی درسی کتابوں میں ہم نے پڑھا ہے کہ قوی ہیکل مشتری جیسے حجم کے سیارے اپنے ستاروں سے کافی دور ٹھنڈ میں بنتے ہیں۔ تو پھر مشتری کی جسامت کا یہ سیارہ عطارد کے مدار سے بھی تنگ جگہ میں اپنے ستارے کے گرد کیا کررہا ہے؟ مشتری کی قسم کے سیارے اپنے ستارے سے دورٹھنڈ میں ہی پیدا ہو پاتے ہیں۔ لہٰذا کسی بھی گیسی دیو کا اپنے ستارے سے اس قدر نزدیک ہونے کا مطلب ہے کہ یہ سیارے آگے پیچھے ہوتے رہتے ہیں۔


     ایک آرٹسٹ کی نگاہ میں WASP -12b

    ایک اور سیارہ جس کا نام Wasp-12bہے یہ بھی دوزخ کا ایک اور کنواں ہی ہے(تصویر نمبر ٣)۔ یہ اپنے ستارے سے اس قدر نزدیک ہے کہ اس کا اپنے ستارے کے گرد مدار میں ایک چکر زمین کے ایک دن میں ہی پورا ہوجاتا ہے۔ یہ اس قدر گرم ہے کہ یہاں کا درجہ حرارت ٤٠٠٠ ڈگری فارن ہائیٹ تک جا پہنچتا ہے۔یہ سیارہ ہماری کہکشاں میں موجود اب تک کے دریافت شدہ سیاروں میں سب سے زیادہ گرم ہے۔سائنس دانوں نے اس سے زیادہ گرم کوئی سیارہ ابھی تک نہیں دیکھا۔ اس کا ماحول یقینی طور پر انتہائی درجہ کا ہوگا۔یہ صرف ٢٠ لاکھ میل دوری پر اپنے ستارے کے گرد چکر کاٹ رہا ہے۔ انتہائی درجہ کی حرارت اس کی فضاء کو پھلا دیتی ہے جس سے وہ "پولسٹرین پلاسٹک" (Styrofoamیاجس کو ہم پیکنگ مٹیریل بھی کہتے ہیں) جیسی کثیف ہوجاتی ہے۔ کسی بڑے نہانے کے ٹب میں یہ تیر سکتی ہے۔

    سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اپنے ستارے سے اتنے کم فاصلے کی وجہ سے قوّت ثقل نے اس کو موڑ کر انڈے کی شکل کا کردیا ہوگا۔ یہ یقینی طور پر گول نہیں ہوگا اس کی شکل بیضوی ہوگی۔پھولی ہوئی فضاء کے ہزاروں میل نیچےبھی ٹھوس قلب موجود ہے جو زیادہ تر کاربن پر مشتمل ہے یہاں پر دباؤ انتہائی درجہ کا ہے۔ وہاں ہیرے اور گریفائٹ کے پہاڑاور مائع تارکول کے سمندر موجود ہو سکتے۔مگر یہ سیارہ زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہ سکتا۔ یہ اپنے ستارے سے اس قدر نزدیک ہے کہ ستارا اس کو ٹکڑے ٹکڑے کررہا ہے اور ہر سال اس سے ١٩ لاکھ کھرب ٹن گیس کھرونچ رہا ہے۔ آج سے ایک کروڑ سال کے بعد یہ سیارہ غائب ہوجائے گا۔ 

    سائنس دان بھونچکاں ہیں کہ یہ سیارہ پہلے پہل اس جگہ بنا کیسے۔ سیاروں کی پیدائش کے بارے میں تفصیل ہم اپنے مضمون "دور دراز کے سیارے" میں بیان کرچکے ہیں لہٰذا دوبارہ یہاں نہیں دہرائیں گے۔ صرف مختصر ا اتنا بتا دیتے ہیں کہ گیسی دیو ہیکل سیارے سورج سے دور ٹھنڈ میں بنتے ہیں۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ Wasp-12b کس طرح سے اپنے ستارے کے نزدیک پیدا ہوا؟سائنس دانوں کی تحقیق اور تجزیہ کے مطابق اس کی وجہ قوّت ثقل ہے۔ یہ مشتری سے ٤٠% زیادہ کمیت رکھتا ہے۔ اس کی زبردست قوّت ثقل نے اس گیس کی" قرص" (Disc)میں خلل ڈال دیا تھا جس سے یہ بنا تھا۔ اس نے اس قرص میں موجیں پیدا کردیں تھیں۔ یہ موجیں ایک طرح سے "کثافت کی موجیں" (Density Waves)تھیں ان لہروں سے بالکل الگ جو ہمیں سمندر میں نظر آتی ہیں۔ یہ گیسی دیو ایک طرح سے فلکی سرفر بن گیا تھا۔ جیسے جیسے سیارہ ستارے سے قریب ہوتا گیا ویسے ویسے زیادہ گرم ہوتا گیا۔ لاکھوں میل دور ٹھنڈے علاقے سے ہوتا ہوا ستارے کے اس قدر نزدیک اس سفر نے اس کو جہنم کی کھڑکی بنا دیا۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ستارے سے ارب ہا میل دور یہ سیارہ بنا مگر پھر کسی طرح سے یہ وہاں سے سفر کرتا ہوا ستارے کے اتنا نزدیک آگیا۔ یہ مفروضہ ناقابل یقین ہے مگر صرف یہی ایک ایسی توضیح ہے جو اس گیسی سیارے کا ستارے کے اس قدر نزدیک ہونے کا سبب بتاتی ہے۔

    Wasp-12bواقعی ایک عجیب الخلقت اور انوکھا سیارہ ہے مگر یہ کائنات میں اکیلا نہیں ہے۔ سائنس دانوں نے ایسے کئی گرم ترین اور ستاروں سے نزدیک ترین دیو ہیکل سیارے دریافت کرلئے ہیں۔ ان سیاروں کا نام "تپتے ہوئے مشتری"(Hot Jupiter) رکھا ہے۔ جن کی سطح پر شدید تندو تیز آواز کی رفتار سے بھی تیز ہوائیں چلتی ہیں، جو رات سے بھی زیادہ تاریک ہیں اور جہنم جتنی گرم ہیں۔ مگر ان تپتے ہوئے مشتریوں میں ایک چیز قدر مشترک ہے کہ وہاں زندگی کی کوئی رمق نہیں ہے۔ یہ سیارے زمین سے اس قدر الگ ہیں جتنے کہ آپ سوچ سکتے ہیں۔ در حقیقت ہم اب تک ١٠٠ سے زیادہ اس قسم کے سیارہ دریافت کر چکے ہیں یہ کائنات میں اس قدر عام ہیں کہ سوال اب یہ اٹھتا ہے کہ کون انوکھا اور عجیب ہے یہ دیو ہیکل تپتے ہوئے مشتری یا ہماری کرۂ ارض؟

    ان سیاروں کے اس طرح سے ستارے کے قریب آنے کے کچھ" عواقب"(Consequences) بھی ہوتے ہیں۔ جیسے یہ اندر کی طرف نکلتے ہیں تو یہ پورے نظام میں افرا تفری پھیلا دیتے ہیں جس سے یہ ایک نئی جہنمی سیاروں کی قسم پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ" یتیم سیارے"(Orphan Planets) اپنے ستارے سے دور خلاء بسیط میں دھکیل دیے جاتے ہیں۔سیارے ستاروں کا چکر لگاتے ہیں۔ ستاروں میں آپس کے درمیان ظلمت کا گہرا سمندر ہوتا ہے۔ ہم خلاء کو ہمیشہ سے خالی سجھتے ہیں اور اسی خاصیت کی بناء پر ہم اس کو خلاء یعنی کہ خالی جگہ کہتے ہیں۔ مگر جب سیارے کی تلاش کرنے والے ماہرین فلکیات نے دور خلائے بسیط میں جھانکا تو انہوں نے کچھ زبردست دریافتیں کیں۔ 


    آوارہ گرد ،یتیم اور   اندھیرا گیسی دیو سیارہ  ایک مصّور کی نگاہ میں 

    ستاروں کے درمیاں میں موجود تاریکی میں انھیں سیارے نظر آنے شروع ہوگئے۔ پہلے ایک "اندھیرا گیسی دیو" (Dark Gas Giant)ملا اس کے بعد کئی اور نظر آئے (تصویر نمبر ٤)۔آخرکار ١٠ سیارے بغیر کسی میزبان ستارے کے گرد چکر لگاتے ہوئے مل گئے۔ذرا تصّور کریں کہ ان آوارہ گرد سیاروں کا ماحول کیسا ہوگا۔ آسمان مکمل طور پر تاریکی میں ڈوبا صرف ستاروں کی دھندلی روشنی سے مزین ہوگا۔یہ واقعی میں ایک خوبصورت نظارہ ہوگا۔لیکن یہ ایک ایسی دنیا ہوگی جہاں رات کی تاریکی ہمیشہ چھائی رہے گی۔ نہ طلوع آفتاب کا منظر ہوگا نہ غروب آفتاب ہوگا اور نہ ہی کوئی ستارہ اس کی سطح کو گرمانے کے لئے موجود ہوگا۔ 

    یہ سیارے ضرور کسی ستارے کے اطراف میں ہی پیدا ہوئے ہوں گے مگر اب یہ "بین النجم خلاء"(Interstellar Space) میں آوارہ گردی کرتے پھر رہے ہیں۔ ان کا سفر بہت ہی پر آشوب رہا ہوگا۔ ان میں سے ہر ایک کو زبردستی اس کے گھر سے نکالا گیا ہوگا۔ یہ کام تپتے ہوئے مشتریوں کا ہی لگتا ہے جنہوں نے اپنے زبردست قوّت ثقل کی وجہ سےاس نظام شمسی میں بھونچال مچا دیا ہوگا جہاں وہ پیدا ہوئے تھے۔ مشتری کے حجم کا سیارہ ایک طرح سے ٨٠٠ پونڈ وزنی گوریلے کی طرح ہوتا ہے کوئی نہیں بتا سکتا کہ یہ کہاں بیٹھے گا یا یہ کہاں بیٹھنا چاہئے گا۔ تپتے ہوئے مشتری سیاروں کے قاتل ہوتے ہیں۔ جب وہ اپنی قوّت ثقل کی بلندی کی وجہ سے ستارے کی طرف سفر شروع کرتے ہیں تو پورا کا پورا نظام درہم برہم کردیتے ہیں نتیجتا ًدوسرے سیارے اپنا مدار چھوڑ دیتے ہیں اور اگر کوئی چھوٹا سیارے ہوتا ہے تو وہ ستارے سے دور خلاء میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ لہٰذا کوئی بھی بدقسمت سیارہ جو اپنے ستارے کے قریب گردش کرتا ہوا پیدا ہوتا ہے وہ دور سےستارے کے قریب آتے ہوئے اس تپتےہوئے مشتری کی وجہ سے دور خلائے بسیط میں پھینک دیا جاتا ہے۔ یہ سیارے اس کے بعد اپنے ستارے کی گرمی اور روشنی سے ہمیشہ کے لئے محروم ہوجاتے ہیں۔ ابھی تک جتنے بھی آوارہ گرد سیارے ملے ہیں وہ سب کے سب گیسی دیو ہی ہیں۔

    یہ بھی ممکن ہے کہ ایسے کچھ آوارہ گرد چٹانی سیارے بھی موجود ہوں جو کبھی کرۂ ارض کی طرح کے جہاں ہوتے تھے۔ مشتری جیسے بڑے سیارے دیکھنے میں آسان ہوتے ہیں۔ ہمارے پاس اس بات کو رد کرنے کی کوئی ایسی وجہ نہیں ہے جس سے ہم یہ سمجھیں کہ چھوٹے یتیم چٹانی سیارے اس طرح کی آوارہ گردی نہیں کر رہے ہوں گے۔ ایسا ممکن ہے کہ جب مشتری جیسے سیارے اندورنی مدار کی طرف آتے ہیں تو زمین کی طرح کے چٹانی سیاروں کو بھی دور اٹھا کر پھینک دیتے ہوں۔اگر کبھی ایسی ہوا ہوگا تو خلائے بسیط میں ستاروں کے درمیان تاریکی میں ایسے کئی سرد جہاں موجود ہوں گے جو اکیلے اور تاریک خلاء میں بھٹک رہے ہوں گے۔ اس قسم کے سیارے زبردست ہنگامے اور قوّت ثقل کی جنگ کی وجہ سے یتیم ہوتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اس قسم کے ارب ہا سیارے کہکشاؤں میں موجود ہوں۔

    ابھی تک کچھ سو ارب ستارے ہی کہکشاؤں میں موجود ہیں۔ سائنس دانوں کا اندازہ ہے کہ اس قسم کے یتیم سیارے ، کہکشاں میں موجود ستاروں کی تعداد سے کہیں زیادہ ہو سکتے ہیں۔ ٹیکنالوجی میں بہتری کے ساتھ ہم مستقبل میں چھوٹے سے چھوٹے سیارے اپنے ستارے کے گرد چکر لگاتا ہوا دیکھ سکتے ہیں۔ 

    اب تک ملنے والا جو سب سے پہلا چٹانی سیارہ ہم نے دیکھا ہے وہ کہیں سے بھی زمین کے مماثل نہیں ہے۔ یہ سیارے بھی جہنم کے نئے درجات کی طرح ہیں۔ ہم اب تک سینکڑوں خلائی دنیائیں ڈھونڈھ چکے ہیں۔ اب پہلی مرتبہ ہم زمین جیسے چھوٹے چٹانی سیارے دیکھ رہے ہیں۔ اس قسم کے حجم کے سیارے ممکنہ طور پر زندگی کا مسکن بن سکتے ہیں۔ مگر حیرت انگیز طور پر یہ سیارے جہنم کی نئی قسمیں بن کر ابھرے ہیں۔ یہ سیارے انتہائی عجیب، ڈراؤنے اور زندگی کے لئے انتہائی نا مہربان ہیں۔


     ایک مصّور  کا تخیل Corot-7b

    Corot-7b بے قابو اور تند و تیز دنیا ہے۔ اس کو دو جہنم والی دنیا بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ اپنے ستارے سے اس قدر نزدیک ہے کہ اس کی سطح سے سورج زمین کے مقابلہ میں ٣٦٠ گنا زیادہ بڑا نظر آتا ہوگا۔یہ ناقابل تصور حد تک گرم ہے۔ اس کی سطح بھون کر رکھ دینے والی بھٹی کی طرح ہے جس کا درجہ حرارت ٤٧٠٠ ڈگری ہے(تصویر نمبر ٥)۔ لاوا ابل کر اس کی فضاء کو پگھلے ہوئے چٹانی پتھروں سے بھر دیتا ہے اور جب یہ حصّہ تھوڑے کم گرم حصّے کی طرف حرکت کرتا ہے تو فضاء میں موجود پگھلا ہوا لاوا چھوٹےچھوٹے پتھروں کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور آسمان سے پتھروں کی بارش برسنے لگتی ہے۔اس کو دیکھ کر سمجھ میں نہیں آتا کہ دوزخ اور کس کو کہتے ہیں۔مگر ابھی اس سیارے کی ہولناکی کی کہانی مکمل نہیں ہوئی ہے۔سیارے کا ایک حصّہ ہمیشہ اپنے ستارے کی طرف رخ کئے رہتا ہے۔ سیارے کے اس حصّے سے کچھ دور درجہ حرارت اتنا ہے کہ لاوے کےسمندر وہاں ٹھوس چٹانوں کی شکل اختیار کرسکتے ہیں۔ مگر یہ خوش گوار حصّہ بہت ہی تنگ ہے۔اس سے آگے چلیں تو آپ کا سامنا ایک دوسری قسم کی دوزخ سے ہوگا۔ یہ سیارے کا تاریک حصّہ ہے۔ سیارے کاآدھا حصّہ اپنے ستارے کی روشنی کو کبھی نہیں دیکھ سکتا یہاں ابدی اندھیرا اور سردی ہوتی ہے۔ یہاں درجہ حرارت صفر ڈگری سے کئی سو نیچے ہے۔ سیارے کا ایک حصّہ گرم جبکہ دوسرا حصّہ انتہائی سرد ہے۔ کائنات میں ہم اس سے زیادہ بری جگہ شایدسوچ بھی نہیں سکتے۔

    یہ سیارہ ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے کہ یہ سیارہ ایسا کیسے بن گیا ہمیں وقت کے دھارے کو ١۔٥ ارب سال پیچھے لے جانا ہوگا جب کورورٹ 7b- وجود پا رہا تھا۔ اس وقت یہ کوئی چٹانی سیارہ نہیں تھابلکہ یہ ایک زمین سے ١٠٠ گنا زیادہ بڑا گیسی دیوتھا۔ اس نے اپنے بننے کی اصل جگہ سے میزبان ستارے کے قریب ہجرت شروع کی۔ جوں جوں یہ ستارے سے قریب ہوتا گیا ویسے ویسےمیزبان ستارے نے اس کی گیس کودھونکنی کی طرح اڑانا شروع کیا یہاں تک کہ اس کا گیسی خول خلاء میں کھو گیا اور اس کے قلب کا چٹانی حصّہ نمودار ہوا۔ اب یہ سیارہ تپتے ہوئے مشتری کا ڈھانچہ ہی ہے۔ اس کے میزبان تارے نے اس کمیت کے پہاڑ کو اب ایک چھوٹے سے چٹانی سیارے میں تبدیل کردیا ہے۔ یہ سیارہ دریافت کرنے کے بعد ہم سمجھتے تھے کہ بس اس سے زیادہ انتہاء کے سیارےاور کیا ہوں گے مگر بات یہیں ختم نہیں ہوئی۔ وہ چٹانی دنیائیں بھی نمودار ہونا شروع ہوگئیں جہاں مہلک کائناتی شعاعیں ان کی سطح پر برس رہی ہیں۔ 

    زمین سے ٧٠ ہزار کھرب میل دور ایک پلزار PSR B1257+12واقع ہے۔ یہ ایک طرح سے" کونیاتی مینارہ نور"(Cosmic Lighthouse) ہے۔ یہ نا قابل یقین حد تک ایک چھوٹی سی دنیا ہے جو صرف ١٠ میل کے رقبے پر پھیلی ہوئی ہے۔ مگر یہ ستارہ لگاتار شدید اشعاع کی کرنیں خلاء میں ایک جوہری گھڑی کی طرح مسلسل پھینک رہا ہے۔ یہاں پر موجودکمپیوٹر کی بورڈ کے ایک بٹن جتنے مادّے کی کمیت ماؤنٹ ایورسٹ کی کل کمیت کے برابر ہے۔ یا دوسرے الفاظ میں یوں کہہ لیں کہ ماؤنٹ ایورسٹ کو دبا کر ایک کمپیوٹر کی بورڈ کے بٹن جتنا چھوٹا کردیں۔ پورے کے پورے ستارے کی ایسی ہی کمیت ہے۔ یہ کائنات میں موجود سب سے زیادہ ضرر رساں جگہوں میں سے ایک ہے۔ اس کے آ س پاس موجود کوئی بھی چیز زبردست ثقلی اور مقناطیسی قوّت کے زیر اثر ہوگی۔ 

     اور اس کے گرد گھومنے والے تین سیارے ایک مصّور کی نظر میں PSR B1257+12پلزار
    کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کسی ایسی جگہ کوئی سیارہ ملے گا مگر اس پلزار کے ایک نہیں ،دو نہیں بلکہ پورے تین سیارے ہیں(تصویر نمبر ٦)۔ یہ سب سے پہلے ماوراء شمس دریافت ہونے والے سیارے ہیں۔ یہاں پر حیات موجود ہونے کا خواب کسی دیوانے کی بڑ ہی ثابت ہوگی۔ اس کے شاندار مقناطیسی میدان ہیں۔ یہ غیض و غضب سے بھرپور ایکس ریز چھوڑ رہا ہے لہٰذا اس کے غریب سیارے تو ان شعاعوں سے جل بھن گئے ہوں گے۔ ہم اس کے گرد چکر لگانے والے سیاروں کو زمین کی طرح کے چٹانی سیارے تو بالکل نہیں کہہ سکتے۔ ان سیاروں پر ایکس ریز اشعاع کی بار بار کی بمباری نے ان پر موجود سطح کو آہستہ آہستہ اتار دیا ہے۔ یہاں پر موجود ایکس ریز شعاعیں زمین پر موجود طبی ایکس ریز سے کروڑ ہا گنا زیادہ مہلک ہوتی ہیں۔ کم از کم حیات کی وہ جانی پہچانی شکل جس کو ہم جانتے ہیں وہ تو یہاں موجود نہیں ہوسکتی۔ تابکاری نے ان پلزاری سیاروں کو ایسا سوختہ کردیا کہ یہ ایک طرح سے مردہ ہی تصّور کئے جائیں گے۔ نہ ہی گرم جہنمی دنیائیں نہیں ہی سرد جہاں زندگی کے لئے کوئی اچھی نوید بن کر آئے ہیں۔ 

       سرخ بونا ستارہ OGLE-2005-BLG-390L اور اس کے گرد موجود اس کا سیارہ ایک آرٹسٹ کی نگاہ میں 
    برج عقرب میں زمین سے ٢٠ ہزار نوری برس کے فاصلے پر ایک سرخ بونا ستارہ OGLE-2005-BLG-390Lواقع ہے۔ سرخ بونے ستارے چھوٹے اور نسبتاً سرد ہوتے ہیں۔ اس کے گرد مدار میں چکر کھاتا ہوا سیارہ جس کا نام OGLE-2005-BLG-390Lb اس سے اتنے فاصلے پر ہے کہ وہ اپنے میزبان ستارے کی حرارت کو محسوس ہی نہیں کر پا تا ہوگا(تصویر نمبر ٧)۔ اس کا اپنے ستارے کے گرد چکر ١٠ زمینی برسوں میں پورا ہوتا ہے۔ یہ اب تک کا دریافت ہونے والا سب سے سرد سیارہ ہے۔ اس کی سطح پر منجمد کردینے والا درجہ حرارت منفی ٣٧٠ ڈگری تک جا پہنچتا ہے۔ یہ جہاں پورا کا پورا برف سے بنا ہوا ہے۔ زمین پر میتھین،امونیا، اور ہائیڈروجن گیسوں کی شکل میں پائی جاتی ہیں جبکہ اس دنیا میں یہ منجمد زہریلی گیسیں برف کی شکل میں موجود ہیں۔ برفیلے تودے، برفیلے درے ، اور برفیلی پہاڑ کی چوٹیاں۔۔۔ہر چیز یہاں پر برف کی ہی ہے۔ یہ ایک طرح سے سرد جہنم ہی ہے۔

    شاید کائنات میں ہم واقعی اکیلے ہیں۔ ہم اس خلائی دنیا کی تلاش کے لئے ترس رہے ہیں جہاں ممکنہ طور پر حیات کا مسکن موجود ہو۔ شاید مستقبل میں کسی ایسی دنیا کے مل جانے کے بعد ہماری سوچ اس لحاظ سے بدل جائے کہ ہم کائنات میں اکیلے اور منفرد ہیں۔ ہمارے پورے نظام شمسی میں اب تک کی ہماری تحقیق و جستجو کے بعد ہمیں یہ ہی معلوم ہوا ہے کہ کرۂ ارض کے علاوہ کہیں پر بھی زندگی کا مسکن موجود نہیں ہے۔ مگر ایک سوال ہمارے ذہنوں میں آتا ہے کہ کیا اس کہکشاں میں موجود کھرب ہا ستاروں کے گرد موجود دنیاؤں میں واقعی ہم تن تنہاء ہیں۔ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کی جستجو ہی "سیارہ کھوجیوں"(Planet Hunters) کا مقصد ہے۔ ماوراء شمس سیاروں کی کھوج کرنے کے بعد ہی ہم کائنات میں اپنی اہمیت اور حیثیت کا تعین کر پائیں گے۔ناسا کی کیپلر خلائی دوربین اس بات کی کھوج کرتی ہے کہ کوئی سیارہ اپنے ستارے سے کتنے فاصلے پر موجود ہے۔اس بات کے تعین کےلئے کہ وہاں زندگی برقرا رہ سکی ہے یا نہیں کسی بھی ستارے سے اس کے سیارے کا گردشی فاصلہ ایک انتہائی اہم کردار ادا کرتا ہے۔

    کرۂ ارض پر زندگی کے ہونے کا ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ ہمارا سورج سے فاصلہ انتہائی مناسب اور حیات کو جاری و ساری رکھنے کے لئے انتہائی موزوں ہے۔ ہم سورج سے اس مقام کے گرد چکر لگاتے ہیں جو نہ تو بہت زیادہ سرد ہے اور نہ ہی بہت زیادہ گرم۔ یہ مناسب فاصلہ پانی کو مائع حالت میں سمندروں، دریاؤں، جھیلوں ، اور بارش کی صورت میں حیات کے لئے انتہائی موزوں بنا دیتا ہے۔ ماہرین فلکیات اسی لئے یہ نعرہ اکثر و بیشتر لگاتے ہیں کہ اگر زندگی کی کھوج کرنی ہے تو پانی کو تلاش کرو۔ اسی لئے ہم ان سیاروں کی تلاش میں ہیں جو اس مناسب فاصلے سے اپنے ستارے کے گرد مدار میں گھوم رہے ہوں جہاں نہ تو پانی ابل کر خلاء میں چلا جائے نہ ہی برف بن کر منجمد ہو جائے۔

    سائنس دان "گولڈی لاکس زون" (Goldilocks Zone)کی تلاش میں ہیں جہاں درجہ حرارت اتنا مناسب ہو کہ پانی مائع حالت میں سطح پر بہہ سکے۔ جیسے ہی کیپلر کسی سیارے کو تلاش کرتی ہے ویسے ہی سائنس دان یہ دیکھتے ہیں کہ اس سیارے کا اپنے ستارے سے فاصلہ کتنا ہے آیا وہ ستارے سے اس فاصلے پر موجود ہے جو حیات کے لئے موزوں ہے بھی یا نہیں۔ ابھی تک کی کھوج کے مطابق تو کیپلر نے زمین جیسا کوئی سیارہ دریافت نہیں کیا۔ اس کے باوجود اس نے ٢ ہزار کے قریب ممکنہ سیاروی مداروں کو دریافت کرلیا ہے۔ سیاروں کی اس بہتات نے سائنس دانوں کو پرامید رکھا ہوا ہے۔ اہم بات یہ یاد رکھنے کی ہے کہ چاہے ہمیں ملنے والے سارے کے سارے سیارے قابل رہائش نہیں ہیں مگر کائنات سیاروں سے بھری ہوئی ہے۔ سیاروں کی اس بہتات نے اس بات کی امید دلائی ہے کہ کہیں نہ کہیں زمین کی طرح کا کوئی نایاب سیارہ بھی ان میں موجود ہوگا۔ کرۂ ارض چاہے جتنا بھی نایاب ہیرا ہو ، اس جیسے کئی ہیرے ہماری کہکشاں میں موجود ہوں گے۔ کیپلر نے سیاروں کی تعداد کے حوالے سے ہمارا آنکھیں کھول دی ہیں۔

    ہم اب اس قابل ہو چکے ہیں کہ اس بات کا اندازہ لگا سکیں کہ ہماری کہکشاں میں کتنے سیارے موجود ہوں گے۔ سائنس دانوں کے تخمینے کے مطابق ٥٠ ارب جہاں اس بات کے منتظر ہیں کہ کب ہم ان کو تلاش کریں۔ اگر ہم ایک بہت ہی اعتدال پسند حساب لگائیں کہ ان ٥٠ ارب جہانوں میں سے صرف ایک فیصد سیارے گولڈی لاکس زون میں موجود ہوں گے تو یہ لگ بھگ ٥٠ کروڑ جہاں بن جاتے ہیں۔ جی ہاں ٥٠ کروڑ دنیائیں جہاں زندگی نے اپنا مسکن بنایا ہوا ہوگا۔ مگر ابھی تک ہمیں کوئی بھی ایسا سیارہ نہیں ملا۔ مگر ہر گزرتے دن کے ساتھ ہماری تلاش زمین جیسے سیارے سے قریب سے قریب تر ہوتی جارہی ہے۔


    "گلیز ٥٨١"(Gliese 581) ایک سرخ بونا ستارہ ہے جس کا زمین سے فاصلہ ٢٠ نوری سال ہے۔ اگر سورج کی روشنی کو ہم ١٠٠ واٹ کے بلب جتنی تصّور کریں تو اس کی روشنی ایک چھوٹے آرائشی بلب جتنی ننھی سی مدھم سی ہوگی۔ اس کے چھوٹے پن نے گولڈی لاکس زون کے فاصلے کو تبدیل کردیا ہے۔ اگر سیارے کو زندگی لائق گرمی چاہئے تو اس کو ستارے سے بہت قریب ہونا پڑے گا۔ 

    سرخ بونا ستارہ  گلیز ٥٨١-ب اور اس کے گرد چکر کاٹتے ہوئے تین سیارے جن میں سے ایک  بڑا چٹانی سیارہ ہمارے زمین سے دوگنا ہے 

    اس کے چار سیارے ہیں جن میں سے تین اس کے اس قدر نزدیک ہیں کہ وہاں پانی مائع حالت میں نہیں رہ سکتا۔ چوتھا سیارہ تھوڑا سے ان تین سے مختلف ہے۔ یہ چٹانی دنیا زمین سے دگنی بڑی ہے (تصویر نمبر ٨)۔ اس کا فاصلہ زندگی کو پروان چڑھانے کے لئے بالکل مناسب ہے۔ تھیوری کے مطابق اگر کسی سیارے کی کثیف فضاء ہو ، ماحول میں کاربن ڈائی آکسائڈ موجود ہو تو وہ اس کا درجہ حرارت اتنا ہوجاتا ہے جس سے بادل، بارش اور سمندر بن سکتے ہیں۔ رہنے کے لئے یہ جگہ بھی کافی عجیب ہوگی جہاں زمین سے دگنی قوّت ثقل ہوگی اور یہ سیارہ ہر وقت شفق میں نہا رہا ہوگا۔ مگر ابھی تک کے دریافت شدہ سیاروں میں یہ ہی ایک سیارہ کچھ کچھ زمین سے ملتا جلتا ہے۔اس ستارے نے کافی امید دلا دی ہے۔ جب ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آسمان میں کسی ستارے کے گرد کوئی زمین جیسا سیارہ موجود ہے تو یہ بات لوگوں کے آسمان کو دیکھنے کے نظریہ کو بدل دیتی ہے اوران پر عمیق اثر ڈالتی ہے وہ کائنات میں اپنی موجودہ حیثیت کا زیادہ بہتر طور پر ادرک کرنے لگتے ہیں۔ 

    ہمارا مقصد زمین جیسا کوئی دوسرا سیارہ تلاش کرنا تھا مگر اس دوران ہم نے وہ چیزیں تلاش کیں جو ہم اس سے پہلے کبھی تصّور بھی نہیں کرسکتے تھے اور یہ ہی بات اس چیز کو تحریک دیتی ہے کہ کائنات کو اور کھوجیں اور تلاش کریں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اگلا دریافت شدہ سیارہ کس قسم کا ہوگا۔ دو دہایوں پہلے تک ہم صرف نظام شمسی کے سیاروں سے ہی واقف تھے مگر اب ہم سینکڑوں سیاروں کوجان چکے ہیں جو ہمارے نظام شمسی کے سیاروں سے انتہائی مختلف اور منفرد ہیں۔ کائنات دوزخی اور جہنمی سیاروں سے پٹی پڑی ہے۔عالم موجودات ہر طرح کے سیاروں سے لبریز ہےجن میں آگ اگلتے ، ہڈیوں کا گودا تک جما دینے والے ، انتہاء درجہ کا ماحول رکھنے والے اور بہت ہی عجیب و غریب سیارے شامل ہیں۔ کائنات اس قدر وسیع ہے کہ انسانی عقل اس کا ادرک نہیں کرسکتی لہٰذا اس بات کا غالب امکان ہے کہ اتنے سارے ستاروں کے ساتھ لامحدود جہاں جو ہماری زمین کے جیسے ہوں گے ضرور موجود ہیں۔ بس ہمیں صرف انھیں تلاش کرنا ہے۔

    یہ مشتری سے بھی زیادہ بڑا ہے۔ اس کا مدار ناقابل یقین حد تک تنگ ہے۔ یہ عطارد سے بھی زیادہ نزدیک اپنے ستارے کے گرد چکر کاٹ رہا ہے۔ اس کا فاصلہ اپنے ستارے سے زمین سے سورج کے فاصلےکے مقابلے میں ٣٠ گنا کم ہے۔ یہ ایک انتہائی گرم ترین دوزخ ہے اس کے ساتھ ساتھ ایک اور چیز بھی یہاں موجود ہے جس کے ہوتے ہوئے کسی قسم کا جیون وہاں پنپ نہیں سکتا اور وہ ہے اس کی بے رحم اور سفّاک ہوائیں۔ اس کی سطح پر ایک نا ختم ہونے والا طوفان برپا رہتا ہے ہم اپنی دوربینوں سے اس کو نہیں دیکھ سکتے مگر اس کے با وجود ہم سپٹزر خلائی دوربین کی وجہ سے جانتے ہیں کہ وہ وہاں موجود ہے۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: ماوراء شمس سیارے - جہنم کے دروازے Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top