Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    جمعرات، 18 جون، 2015

    4۔ دور دراز منتقلی (Teleportation)

    یہ کتنی اچنبھے کی بات ہے کہ ہم نے متناقص باتوں کی سچائی کو پا لیا۔ اب ہم آگے بڑھنے کی امید کر سکتے ہیں۔

    - نیلز بوہر


    میں قوانین طبیعیات کو بدل نہیں سکتا، کپتان !

    - اسکوٹی ، چیف انجنیئر اسٹار ٹریک


    دور دراز منتقلی یا کسی شخص یا شئے کو فی الفور ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کی ٹیکنالوجی انسانی تہذیب کا راستہ اور اقوام کی منزل تبدیل کر سکتی ہے۔ یہ ناقابل تردید طور پر جنگی اصولوں کو بدل دے گی: افواج اپنے دستوں کو دشمن کو بے خبر رکھتے ہوئے ان کی صفوں کے پیچھے بھیج سکتی ہیں یا صرف دشمن کی قیادت کو دور دراز منتقل کرکے ان کو قید بھی کر سکتی ہیں۔ دور حاضر کے ذرائع نقل و حمل کار سے لے کر پانی کے جہاز تک اور ہوائی جہاز سے لے کر ریل گاڑی تک ، اور بہت ساری صنعتیں جو ان نظاموں کو اپنی خدمات دیتی ہیں سب متروک ہو جائیں گی، ہم ان کو استعمال کرنے کے بجائے اپنے آپ کو دفتر یا کام کرنے کی جگہ پر اور اشیاء کو مارکیٹوں میں آسانی سے منتقل کر دیں گے۔ چھٹیاں گزرنا تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہوگا کیونکہ ہم اپنے آپ کو اپنی منزل پر بغیر کسی ذریعہ کے استعمال کے منتقل کر لیں گے۔ دور دراز منتقلی ہر چیز کو بدل دے گی۔
    اسٹار ٹریک ٹیلی ویژن سلسلہ کا کردار اسکوٹی 


    سب سے قدیم دور دراز منتقلی مذہبی کتابوں میں ملتی ہے مثلاً بائبل ، جہاں روحوں کا خاموشی کے ساتھ افراد کو لے جانا بیان کیا گیا ہے۔ یہ عہد نامہ جدید میں سے لی ہوئی سطریں ہیں جس میں لگتا ہے کہ فلپس کی دور دراز منتقلی غزہ سے اشدُود تک کی گئی تھی۔"جب وہ پانی میں سے نِکل کر اُوپر آئے تو خداوند کا رُوح فلپس کو اُٹھا لے گیا اور خوجہ نے اُسے پھر نہ دیکھا کیونکہ وہ خُوشی کرتا ہُوا اپنی راہ چلا گیا۔ اور فلپس اشدُود میں آ نِکلا اور قیصریہ میں پہنچنے تک سب شہروں میں خُوشخبری سُناتا گیا۔(ایکٹس ٨ : ٣٦ – ٤٠ )

    دور دراز منتقلی ہر جادوگر کی زنبیل کے کرتبوں اور نظر بندی کا حصّہ ہوتا ہے :مثلاً خرگوش کو ٹوپے سے نکالنا ، تاش کے پتوں کو آستیں میں سے نکالنا اور کسی کے کان کے پیچھے سے سکّہ نکالنا وغیرہ۔ دور حاضر کا سب سے جرات مند جادوئی کمال ہاتھی کو حیرت کے مارے تماشائیوں کے سامنے سے غائب کرنا ہے۔ اس کام کے عملی مظاہرہ میں ایک کافی ٹن وزنی بڑے ہاتھی کو ایک پنجرے میں رکھا جاتا ہے ۔ اس کے بعد جادوگر کی جادوئی چھڑی کے گھومنے کے ساتھ ہی ہاتھی تماشائیوں کو حیرت و استعجاب میں ڈالتا ہوا غائب ہو جاتا ہے۔(ظاہر سی بات ہے کہ حقیقت میں ہاتھی کہیں نہیں جاتا۔ یہ کرتب آئینوں کے ذریعہ دکھایا جاتا ہے۔ لمبے پتلے عمودی آئینوں کی پٹیاں پنجرے کے ہر طرف رکھی ہوتی ہیں۔ دروازے کی طرح یہ عمودی پٹیاں مڑتی بھی ہیں۔ جادوئی کرتب کے شروع میں جب یہ عمودی پٹیاں پنجرے کے اطراف میں اس کے پیچھے رکھ دی جاتی ہیں جس کے نتیجے میں آئینہ نظر نہیں آتا اور ہاتھی دکھائی دیتا ہے ، مگر جب آئینوں کو ٤٥ ڈگری زاویے پر تماشائیوں کے سامنے سے موڑا جاتا ہے تو ہاتھی غائب ہو جاتا ہے اور تماشائی پنجرے کے ایک طرف کی منعکس شدہ تصویر دیکھتے ہیں۔


    دور دراز منتقلی اور سائنس فکشن

    سب سے پہلی دور دراز منتقلی جو سائنس فکشن میں ملتی ہے وہ" ایڈورڈ پیج مچل"(Edward Page Mitchell) کی کہانی "بغیر جسم کے آدمی " (The Man Without the Body)میں موجود ہے جو ١٨٧٧ء میں چھپی تھی۔ اس کہانی میں سائنس دان ایک بلی کے جسم کے ایٹموں کو علیحدہ کرکے اس کو ٹیلی گراف وائر کے ذریعہ دور منتقل کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے جب سائنس دان اپنے آپ کو بغیر ذریعے کے منتقل کرنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے تو عین اس وقت بیٹری ختم ہو جاتی ہے۔ صرف اس کا سر ہی کامیابی کے ساتھ منتقل ہو پاتا ہے۔
    دور دراز منتقلی سائنس فکشن لکھنے والے مصنفین کا پسندیدہ موضوع رہا ہے.

    "سر آرتھر کونان ڈوئیل"(Sir Arthur Conan Doyle) ، جو اپنے شرلاک ہومز کے ناولوں کی وجہ سے جانے جاتے ہیں ، ان کو دور دراز منتقلی کے تصوّر نے بہت لبھا لیا تھا۔ برسوں تک جاسوسی ناول اور مختصر کہانیاں لکھ کر وہ شرلاک ہومز سلسلے سے اکتا گئے اور آخر کار اپنے اس سراغ رساں کو پروفیسر "موریارٹی"(Moriarty) کے ساتھ آبشار سے نیچے گرا کر موت سے ہمکنار کرا دیا۔ مگر عوام کے شدید اسرار نے ڈوئیل کو شرلاک ہومز کو دوبارہ زندہ کرنے پر مجبور کر دیا۔ شرلاک ہومز کو مارنے میں ناکامی سے دلبرداشتہ ہو کر ڈوئیل نے ایک نیا سلسلہ شروع کیا ، جس میں پروفیسر" چیلنجر"(Challenger) شرلاک ہومز کے ہم رتبہ تھے۔ دونوں حاضر جواب اور گتھیوں کو سلجھانے کے ماہر تھے۔ جہاں مسٹر ہومز پیچیدہ معموں کو حل کرنے کے لئے ٹھنڈے اور منطقی استنباط سے کام لیتے تھے ، وہیں پروفیسر چیلنجر شیطانیت کی تاریک اور مافوق الفطرت دنیا کی مدد لیتے ہیں اور اس س میں دور دراز منتقلی بھی شامل تھی۔

    ١٩٢٧ء میں ایک ناول "انتشاری مشین"(The Disintegration Machine) میں پروفیسر کا ٹکراؤ ایک ایسے بھلے مانس آدمی سے ہوا جو ایک ایسی مشین کا موجد تھا جو کسی بھی شخص کو علیحدہ کرکے دور درز منتقل کرنے کے بعد دوبارہ سے جوڑ دیتی تھی۔ لیکن اس وقت پروفیسر چیلنجر کے پیروں تلے زمین نکل گئی جب اس کے خالق نے شیخی بگھارتے ہوئے اسے بتایا کہ اگر مشین کسی غلط ہاتھ میں چلی جائے تو پورے کے پورے لاکھوں افراد کے شہر کو صرف ایک بٹن کے دبانے سے ختم کر دے گی۔ پروفیسر چیلنجر نے اس مشین کا استعمال کرتے ہوئے اس کے موجد کو علیحدہ کیا اور اس کو دوبارہ جوڑے بغیر ہی تجربہ گاہ سے باہر نکل آیا۔
    "انتشاری مشین"(The Disintegration Machine)
    زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب ہالی ووڈ نے دور دراز منتقلی کو دریافت کیا۔١٩٥٨ء میں فلم "مکھی "(The Fly) میں اس بات کا تجزیہ کیا گیا کہ اگر دور دراز منتقلی خطرناک طور پر غلط راہ پر گامزن ہو جائے تو اس کا انجام کیا ہو سکتا ہے۔ فلم میں جب ایک سائنس دان کامیابی کے ساتھ اپنے آپ کو کمرے میں منتقل کرتا ہے تو اس کے جسم کے ایٹم ایک مکھی کے ایٹم سے مل جاتے ہیں جو حادثاتی طور پر دور دراز منتقلی کے خانے میں داخل ہوئی تھی ، اس طرح وہ سائنس دان مضحکہ خیز تقلیبی عفریت میں تبدیل ہو جاتا ہے جو آدھا انسان اور آدھی مکھی ہوتا ہے۔ (اس فلم کا ایک ریمیک جس میں "جیف گولڈبلم" (Jeff Goldblum)نے مرکزی کردار ادا کیا تھا وہ ١٩٨٦ء میں ریلیز ہوئی تھی۔)
    فلم "مکھی "(The Fly) کا ایک منظر 
    دور دراز منتقلی کی مقبولیت پہلی دفع عمومی ثقافت میں اسٹار ٹریک سلسلہ کے ساتھ نمایاں ہونا شروع ہوئی۔ "جین روڈن بیری" (Gene Roddenberry)، جو اسٹار ٹریک کے خالق ہیں ، انہوں نے دور دراز منتقلی اس ڈرامائی سلسلے میں اس لئے متعارف کرائی کیونکہ پیراماؤنٹ ا سٹوڈیو کا بجٹ مہنگے خصوصی اثر پیدا کرنے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ جس میں دور دراز کے سیاروں پرسے اڑتے اور اترتے ہوئے خلائی جہازوں کی نقل کی جاتی۔یہ ایک نسبتاً سستا نسخہ تھا کہ انٹرپرائز کے عملے کو ان کی منزل تک روانہ کر دیا جائے۔

    وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سائنس دانوں نے دور دراز منتقلی کے ممکن ہونے پر کئی قسم کا اعتراضات داغ دیئے۔کسی شے کو دور دراز منتقل کرنے کے لئے سب سے پہلے تو کسی بھی جاندار کے جسم میں موجود ایٹموں کی بالکل صحیح جگہ معلوم ہونی چاہئے۔ شاید یہ بات ہائیزن برگ کے" اصول عدم یقینی"(Uncertainty Principle) کی خلاف ورزی ہوگی (اس اصول کے مطابق کسی بھی الیکٹران کی صحیح جگہ اور بالکل ٹھیک سمتی رفتار کو بیک وقت معلوم نہیں کیا جا سکتا۔) "اسٹار ٹریک" کو پیش کرنے والے نے ناقدین کے آگے گھٹنے ٹیکتے ہوئے "ہائیزن برگ کا آلہ تثویب" ترسیلی کمرے میں متعارف کروایا ، اور کمرے میں ایک ترکیب طراز آلے کا اضافہ کر دیا جو کوانٹم طبیعیات کے قوانین کا ازالہ کر دیتا تھا۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ ہائیزن برگ کے آلہ تثویب کی ضرورت قبل از وقت تھی۔ اس وقت کے سائنس دان اور ناقدین شاید غلط تھے۔

    اسٹار ٹریک میں دکھایا جانے والا "ہائیزن برگ کا آلہ تثویب" (Heisenberg Compensators)

    دور دراز منتقلی اور کوانٹم نظریہ

    نیوٹن کے مفروضے کے مطابق ، دور دراز منتقلی واضح طور پر ناممکن ہے۔ نیوٹن کے قوانین اس بات پر تکیہ کرتے ہیں کہ مادّہ چھوٹی ساخت کی گیندوں سے بنا ہے ، کوئی چیز اس وقت تک حرکت نہیں کرتی جب تک اس کو دھکا نہ دیا جائے۔ چیزیں اچانک غائب ہو کر کہیں اور نمودار نہیں ہوتیں۔

    مگر کوانٹم نظریئے میں بعینہ ذرّات ایسا ہی کرتے ہیں۔ نیوٹن کے قوانین جو ڈھائی سو برس سے حکمرانی کر رہے تھے ان کا تختہ ١٩٢٥ء میں اس وقت الٹ دیا گیا جب ورنر ہائیزن برگ ، ایرون شروڈنگر اور ان کے ساتھیوں نے کوانٹم کے نظریئے کو پایا تکمیل تک پہنچایا۔ جب ایٹموں کے عجیب خصائص کا تجزیہ کیا گیا ، تو اس وقت طبیعیات دانوں نے دریافت کیا کہ الیکٹران موجوں کی طرح برتاؤ کر رہے ہیں اور وہ ایٹم کے اندر بے ربط نظر آنے والی حرکتوں میں رہتے ہوئے کوانٹم کی چھلانگیں لگا سکتے ہیں۔
    الیکٹران جوہر کے اندر رہتے ہوئے کوانٹم کی چھلانگیں لگا سکتے ہیں.

    کوانٹم کی موجوں کے ساتھ سب سے زیادہ قریبی تعلق ویانوی طبیعیات داں ایرون شروڈنگر کا تھا جس نے وہ شہرۂ آفاق مساوات لکھی تھی جو اس کے نام سے منسوب ہے۔یہ مساوات کیمیاء اور طبیعیات کی دنیا میں سب سے زیادہ اہم سمجھی جاتی ہے۔ سند فضلیت حاصل کرنے والے تعلیمی اداروں نے پورے کے پورے کورس اس مشہور زمانہ مساوات کو حل کرنے کے لئے مختص کئے ہوئے ہیں، طبیعیات کی لائبریریاں ان کتابوں سے بھری ہوئی ہیں جو اس سے حاصل کردہ نتائج کا جائزہ پیش کرتی ہیں۔ اصولی طور پر کیمیاء کے پورا علم کم ہو کر اس مساوات کے حل جتنا ہو سکتا ہے۔

    ١٩٠٥ء میں آئن سٹائن نے اس بات کا مظاہرہ کیا کہ روشنی کی موجیں ذرّات جیسے خصائص کی حامل بھی ہو سکتی ہیں یعنی ان کو توانائی کے بنڈلوں میں بھی بیان کیا جا سکتا ہے جن کو فوٹون کہتے ہیں۔ ١٩٢٠ء میں شروڈنگر پر یہ بات آشکار ہو گئی تھی کہ اس کے برخلاف ہونا بھی ممکن ہے یعنی کہ الیکٹران جیسے ذرّات بھی موج جیسا برتاؤ بھی کر سکتے ہیں۔ یہ خیال سب سے پہلے ایک فرانسیسی طبیعیات داں" لوئس دی بروگلئی"(Louis de Broglie) نے پیش کیا۔ اپنے اندازہ پر اس نے نوبل انعام جیتا۔( اس بات کو ہم اپنے سند فضیلت حاصل کرنے والے طلبہ پر جامعہ میں واضح کرتے ہیں۔ ہم الیکٹران کو "منفیری شعاعی نلکی "(Cathode Ray Tube) میں ڈالتے ہیں ،یہ نلکی عام طور سے ٹیلی ویژن میں پائی جاتی ہے۔جب الیکٹران ایک ننھے سے سوراخ سے گزرتے ہیں ،تو اس جگہ جہاں الیکٹران ٹیلی ویژن کی اسکرین پر ٹکراتے ہیں وہاں پر چھوٹے نقطے دکھائی دینے چاہیں لیکن اس کے برخلاف ہمیں مرتکز موجی حلقے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ مرتکز موجی حلقے اس وقت دیکھے جاتے ہیں جب ذرّات کے بجائے موج اس سوراخ میں سے گزرتی ہے ۔)
    فرانسیسی طبیعیات داں" لوئس دی بروگلئی"(Louis de Broglie)

    ایک دن شروڈنگر اس پر تجسس غیر معمولی بات پر لیکچر دے رہا تھا تو اس کے رفیق طبیعیات دان ، "پیٹر ڈبیی"(Peter Debye) نے اس کو للکارتے ہوئے پوچھا :اگر الیکٹران موج کی صورت میں بیان کیے جا سکتے ہیں تو ان کی مساوات کیا ہے؟
    طبیعیات دان ، "پیٹر ڈبیی"(Peter Debye)

    جب سے نیوٹن نے "علم الاحصاء"(Calculus) کو ایجاد کیا تھا ، طبیعت داں موجوں کو "تفرقی مساوات "(Differential Equations)میں بیان کرنے کے قابل ہو گئے تھے۔ لہٰذا شروڈنگر نے ڈیبی کے سوال کو ایک چیلنج کی طرح لیا۔ اس چیلنج میں اسے سرخ رو ہونے کے لئے الیکٹران کی موجوں کو تفرقی مساوات میں بیان کرنا تھا۔ اس مہینے جب شروڈنگر چھٹیوں پر گیا تو واپسی پر اس کے ساتھ وہ شہرہ آفاق مساوات موجود تھی۔ لہٰذا اس سے پہلے جیسے میکسویل نے فیراڈے کی قوّت میدان کو لے کر اس سے روشنی کی مساوات اخذ کی تھی ، بعینہ ایسے ہی شروڈنگر نے ڈی بروگلئی کی "مادّے کی موجوں "کو لے کر "شروڈنگر مساوات برائے الیکٹران" بنا لی۔

    (دنیائے سائنس کے مورخوں نے اس بات کو جاننے کی تھوڑی سعی کی ہے کہ اس وقت شروڈنگر کیا کر رہا تھا جب اس نے اپنی یہ مساوات دریافت کی تھی ،جس نے ہمیشہ کے لئے جدید طبیعیات اور کیمیاء کی دنیا کو بدل کر رکھ دیا تھا۔ بظاہر طور پر شروڈنگر ایک آزاد منش آدمی تھا اور ان چھٹیوں کے دوران اس کے ساتھ اس کی محبوبہ اور بیوی بھی موجود تھے۔ بلکہ وہ تو ایک ڈائری بھی لکھتا تھا جس میں اس نے اپنی تمام محبوباؤں کی تفصیلات درج کی ہوئی تھیں ، ہر تفصیل کے ساتھ ایک رمز بھی لکھتا تھا جو ہر الگ ملاقات کے لئے مختلف ہوتا تھا۔ مورخین کو یقین ہے کہ جب اس نے یہ مساوات دریافت کی تھی تو وہ "الپس"(Alps) میں واقع "قصر ہرویگ"(Villa Herwig) میں اپنی معشوقہ کے ساتھ اختتام ہفتہ والے دن موجود تھا۔)

    جب شروڈنگر نے اپنی مساوات سے ہائیڈروجن کے ایٹم کو حل کرنے کی شروعات کی تو اس نے خلاف توقع ہائیڈروجن کی توانائی کے ہوبہو وہ ہی مدارج پائے جو انتہائی احتیاط کے ساتھ پرانے طبیعیات دانوں نے فہرست کی صورت میں منظم کئے ہوئے تھے۔ تب اس کو احساس ہوا کہ نیلز بوہر کے ایٹم کی پرانی تصویر اصل میں غلط تھی جو الیکٹرانوں کو مرکزے کے گرد بھوں بھوں کرتی دکھاتی ہے (یہ تصویر آج بھی کتابوں اور جدید سائنس کو بیان کرنے کی کوشش میں دیئے جانے والے اشتہاروں میں دکھائی جاتی ہے۔)۔ ان مداروں کو ان موجوں سے بدلا جانے چاہئے تھا جو مرکزے کے گرد موجود ہیں۔


    شروڈنگر کے کام نے طبیعیاتی دنیا میں ایک بھونچال مچا دیا۔ یکدم سے طبیعیات دان ایٹم کے اندر جھانکنے کے قابل ہو گئے تھے۔ اب وہ ایٹم کے الیکٹرانی خول بنانے والی موجوں کی تفصیل سے جانچ پڑتال کر سکتے تھے۔ اب وہ مدار میں موجود تو انائی کے مدارج کی بالکل درست پیش گوئی کر سکتے تھے جو نگینے کی طرح فٹ تھیں۔
    الیکٹران ذرّے کے ساتھ ساتھ موج کا بھی برتاؤ کرتے ہیں.

    مگر آج بھی پریشان کن سوال اپنی جگہ پر موجود ہے جو طبیعیات دانوں کی نیندیں حرام کیے ہوئے ہے۔ اگر الیکٹران کو موج کے ذریعہ بیان کیا جا سکتا ہے تو پھر وہ موج کیا ہے؟ اس کا جواب ایک طبیعیات دان" میکس بورن"(Max Born) نے دیا جس نے کہا کہ یہ موجیں اصل میں امکانی موجیں ہیں۔ یہ موجیں کسی بھی جگہ اور کسی بھی وقت صرف الیکٹران کے موجود ہونے کے اتفاق کو بیان کر تی ہیں۔ با الفاظ دیگرے ، الیکٹران ذرّے ہیں، مگر اس ذرّے کو پانے کا امکان شروڈنگر کی موج نے دیا ہے۔ جتنی بڑی موج ہوگی اتنا ہی زیادہ امکان ذرّے کو اس نقطے پر تلاش کرنے کا ہوگا۔
    طبیعیات دان" میکس بورن"(Max Born)

    درست طور پر ہوبہو پیش گوئی کرنے والی طبیعیات جو ستاروں ، سیار چوں سے لے کر توپ کے گولے کی تفصیلی خط پرواز کو بیان کرتی تھی۔ اچانک ہی اس پیش رفت کے ساتھ ہی بدل گئی تھی۔ یکدم سے احتمال اور امکان سیدھے اس کے قلب میں متعارف ہو گئے تھے۔

    یہ غیر یقینی قطعی طور پر ہائیزن برگ کے "اصول عدم یقین" کو پیش کرنے کے ساتھ ہی تدوین ہو گئی تھی ، اس مفروضے میں الیکٹران کی سمتی رفتار اور اس کے مقام کو بیک وقت نہیں جانا جا سکتا تھا۔ کوانٹم کے پیمانے پر عقل عامہ پر کام کرنے والے قوانین کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ :الیکٹران غائب ہو کر کہیں پر بھی ظاہر ہو سکتے ہیں اور الیکٹران بیک وقت کئی جگہ بھی موجود ہو سکتے ہیں۔
    اصول عدم یقین کی رو سے الیکٹران بیک وقت کئی جگہ موجود ہوسکتے ہیں.

    (آئن سٹائن جس کو کوانٹم نظریئے کا باپ کہتے ہیں وہ بنیادی طبیعیات میں امکان اور احتمال کو متعارف کروانے سے انتہائی خائف تھا۔ اس نے ١٩٠٥ء میں شروڈنگر کا ساتھ دے کر اس انقلاب کو شروع کرنے میں مدد کی تھی جس میں ہمیں موجی مساوات حاصل ہوئیں۔ آئن سٹائن نے لکھا "کوانٹم میکانیات کی میں بہت زیادہ عزت کرتا ہوں ، مگر دل کی آواز کہہ رہی ہے کہ یہ سچا جیکب نہیں ہے۔ نظریہ کافی جاندار ہے ، مگر بمشکل ہمیں بوڑھے آدمی کے راز کے قریب لے جاتا ہے۔ کم از کم میں اس بات سے مطمئن ہوں کہ وہ [خدا]پانسے نہیں پھینکتا۔")

    ہائیزن برگ کا نظریہ انقلابی اور متنازعہ دونوں ہی تھا لیکن وہ کام کرتا تھا۔ اس کی بدولت طبیعیات ایک ہی ہلے میں کئی الجھا دینے والے مظاہر کو بیان کر سکتی ہے، جس میں کیمیائی قوانین بھی شامل ہیں۔ میں اپنے پی ایچ ڈی کرنے والے طلبہ کو اکثر کوانٹم نظریئے کے انوکھے پن سے متاثر کرنے کے لئے اکثر سوال کرتا ہوں کہ ذرا حساب لگا کر بتائیں کہ ان کے جسم میں موجود تمام ایٹموں کو اچانک حل ہو کر اینٹوں سے بنی دیوار کے دوسری جانب ظاہر ہونے کا کیا امکان ہے۔ ایسی کوئی بھی دور دراز منتقلی نیوٹن کی طبیعیات میں ناممکنات میں سے ہے لیکن کوانٹم میکانیات اس مظاہر کی اجازت دیتی ہے۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ایسے کسی بھی مظاہر کے وقوع پذیر ہونے کے لئے کائنات کی عمر سے بھی زیادہ انتظار کرنا پڑے گا۔(اگر آپ اپنے جسم کی شروڈنگر موج کو کمپیوٹر گراف کے ذریعہ بنائیں تو اس موج کی تمام خصوصیات آپ کے جسم سے مشابہ ہوں گی سوائے اس کے کہ گراف تھوڑا سا دھندلا ہوگا اور آپ کے جسم کی کچھ موجیں ہر اطراف میں پھوار کی شکل میں نکل رہی ہوں گی۔اصل میں تو آپ کے جسم کی کچھ موجیں تو دور دراز کے ستاروں تک جا پہنچ رہی ہوں گی۔ لہٰذا اس بات کا بہت ہی کم احتمال ہے کہ ایک دن جب آپ نیند سے بیدار ہو کر اٹھیں تو خود کو کسی دور دراز کے سیارے پرپائیں۔)
    موجی تفاعل کا گراف 

    کیمیاء کی بنیاد یہ حقیقت ہے کہ الیکٹران ایک ہی وقت میں کئی جگہوں پر ہو سکتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ الیکٹران مرکزے کے گرد دائرے میں ہوتے ہیں، جیسا کہ ایک صغاری نظام شمسی۔ مگر ایٹم اور نظام شمسی میں زمین آسمان کا فرق ہے ، اگر دو نظام شمسی خلاء میں ٹکرا جائیں ، تو نظام ہائے شمسی ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا اور سیارے خلائے بسیط میں دھکیل دیئے جائیں گے۔ اس کے برخلاف جب ایٹم ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں تو وہ اکثر الیکٹران کو آپس میں بانٹ کر پائیدار سالمات بناتے ہیں۔ کالج کی کیمیاء کی جماعت میں اکثر اساتذہ اس بات کو چپکے ہوئے الیکٹران سے بیان کرتے ہیں جو ایک فٹ بال سے مشابہ ہوتا ہے جس میں دو ایٹم آپس میں جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔لیکن کیمیاء کے اساتذہ جس بات کا ذکر گول کر جاتے ہیں وہ یہ ہے کہ الیکٹران دو ایٹموں کے درمیان چپکے ہوئے نہیں ہوتے۔ یہ فٹ بال اصل میں اس امکان کو ظاہر کرتی ہے کہ الیکٹران کئی جگہ پر ایک ساتھ اس فٹ بال میں موجود ہو سکتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں وہ تمام کیمیاء جو ہمارے جسم کے اندر موجود سالموں کو بیان کرتی ہے اس کی بنیاد اس پر منحصر ہے کہ الیکٹران بیک وقت میں کہیں بھی کسی بھی جگہ پر موجود ہو سکتے ہیں اور یہ ان الیکٹران کی دو ایٹموں کے درمیان شراکت داری ہی ہے جس نے ہمارے جسم کے سالموں کو جوڑ کر رکھا ہوا ہے۔ کوانٹم نظریئے کے بغیر ہمارے جسم کے ایٹم اور سالمات فی الفور تحلیل ہو جائیں گے۔

    سالمات میں جوہر اپنے الیکٹران بانٹ کر کیمیائی بند بناتے ہیں.

    کوانٹم نظریئے کی اس مخصوص لیکن انتہائی عمیق خصوصیت (یعنی کہ سب سے زیادہ عجیب و غریب چیز وقوع پذیر ہونے کا امکان محدود ہے ) کا استحصال" ڈگلس ایڈم" (Douglas Adams)نے اپنی مزاحیہ ناول "دی ہٹ چکر س گائیڈ ٹو دی گیلیکسی "(The Hitchhiker's Guide to the Galaxy) میں کیا۔ اس کو ایک کہکشاں میں تیزی سے گزرنا تھا لہٰذا اس نے ایک لامحدود بعید از قیاس ڈرائیو کو ایجاد کیا "ایک زبردست حیران کن تھکا دینے والی غلیظ اضافی خلاء کو استعمال کئی بغیر لمحوں میں بین النجم فاصلے طے کرنے کا بالکل نیا طریقہ۔" اس کی بنائی ہوئی مشین آپ کو اس قابل کر دیتی تھی کہ آپ اپنی مرضی سے کوانٹم واقعات کو تبدیل کر دیں اس طرح سے بہت زیادہ نا قابل اعتبار واقعات بھی عام واقعات بن جاتے تھے۔ لہٰذا اگر آپ قریبی نظام ہائے شمسی کی طرف جانا چاہتے ہیں تو آپ صرف امکان کو تبدیل کریں اور بتائیں کہ آپ کس ستارے پر جانا چاہتے ہیں اور یہ لیں !!! آپ فی الفور وہاں پر منتقل کر دیئے گئے ہیں۔

    حقیقت میں ایٹم کے اندر کوانٹم کی چھلانگیں بہت زیادہ عام ہیں لیکن ان کو بڑے اجسام مثلاً انسانوں پر آسانی سے لاگو نہیں کیا جا سکتا جن میں کھرب ہا کھرب ایٹم موجود ہوتے ہیں۔ اگر ہمارے جسم میں موجود ایٹم ناچتے اور چھلانگیں مارتے ہوئے اپنے مرکزے کے گرد حیرت انگیز سفر میں مصروف بھی رہیں تو کافی دوسرے ایٹم ایسے موجود ہوں گے جو ان کے اس اثر کو زائل کر دیں گے۔ یعنی ہم ایسا کہنے میں بالکل بجا ہیں کہ بڑے پیمانے پر چیزیں ٹھوس اور پائیدار اسی لئے نظر آتی ہیں کہ دوسرے ایٹم ان کوانٹم چھلانگوں کا اثر زائل کر دیتے ہیں۔


    لہٰذا دور دراز منتقلی کی ایٹمی پیمانے پر تو اجازت ہے لیکن بڑے پیمانے پر اس عجیب و غریب اثر کے وقوع پذیر ہونے اور اس کا مشاہدہ کرنے کے لئے کائنات کی عمر سے بھی زیادہ کا عرصہ درکار ہوگا۔ مگر کیا کوئی کوانٹم قوانین کا استعمال کرتے ہوئے ایسی مشین بنا لے جس کے ذریعہ کسی بھی شئے کو اپنی مرضی سے دور منتقل کیا جا سکتا ہو جیسا کہ سائنس فکشن میں دکھایا جاتا ہے؟ حیرت انگیز طور پر اس کا جواب مثبت ہے۔


    ای پی آر کا تجربہ

    کوانٹم دور دراز منتقلی کی کنجی اس مقالے میں موجود ہے جو ١٩٣٥ء میں البرٹ آئن سٹائن اور اس کے ساتھیوں جس میں "بورس پوڈول اسکائی"(Boris Podolsky) اور" ناتھن روزن" (Nathan Rosen) شامل تھے پیش کیا۔ جس کا نام ای پی آر تجربہ تھا (اس کا نام تینوں مصنفین کے شروع کے ناموں کے حروف تہجی کو لے کر بنایا یعنی Einstein Podolsky Rosen )اس مقالے کا مقصد ہمیشہ کے لئے طبیعیات میں سے امکانات کا خاتمہ کرنا تھا۔ کوانٹم نظریئے کی ناقابل تردید تجرباتی کامیابی پر ماتم کرتے ہوئے آئن سٹائن لکھتا ہے "کوانٹم کا نظریئے جتنا زیادہ کامیاب ہوگا اتنا زیادہ ہی مضحکہ خیز لگے گا۔"
    کوانٹم الجھاؤ میں دو الیکٹران آپس میں ہم آہنگی کے ساتھ تھرتھراتے ہیں.

    اگر دو الیکٹران شروع میں ہم آہنگی کے ساتھ تھر تھر آئیں (وہ حالت جو "اتصال"[[Coherence کہلاتی ہے ) تو وہ موج جیسی "ہم وقت کاری"(Synchronization)کی حالت میں اس وقت بھی رہیں گے جب ان کے درمیان ایک طویل فاصلہ جدائی ڈال دے۔ اگرچہ وہ دو الیکٹران ایک دوسرے سے دور کچھ نوری سال کے فاصلے پر موجود ہیں لیکن اس وقت بھی ایک غیر مرئی شروڈنگر موج ان دونوں کو "حبل سری"(Umbilical Cord) کی طرح سے جوڑے ہوئے ہوگی۔ اگر کسی ایک الیکٹران میں کچھ تبدیلی ہوگی تو اس کی کچھ اطلاع فوراً ہی دوسرے الیکٹران کو ہو جائے گی۔ یہ" کوانٹم کا الجھاؤ"(Quantum Entanglement) کہلاتا ہے ، اس تصوّر میں وہ ذرّات جو ایک دوسرے کے ساتھ اتصال میں رہ کر تھر تھرا تھے ان میں کسی قسم کا گہرا رابطہ ہوتا ہے جو ان کو آپس میں جوڑے رکھتا ہے۔

    اس کو سمجھنے کے لئے چلیں ان دو اتصالی الیکٹران سے شروع کرتے ہیں جو ہم آہنگی کے ساتھ جھول رہے ہیں۔ دوسرے مرحلے میں ان کو مخالف سمتوں میں بھگا دیتے ہیں۔ ہر الیکٹران ایک گھومتے ہوئے لٹو کی طرح ہے۔ ہر الیکٹران کا گھماؤ اوپر یا نیچے کی جانب کیا جا سکتا ہے۔ فرض کریں کہ اس نظام کا مکمل گھماؤ صفر ہے لہٰذا اگر ایک الیکٹران کا گھماؤ اوپر کی جانب ہوگا تو آپ کو معلوم ہوگا کہ دوسرے الیکٹران کا گھماؤ نیچے کی جانب ہونا چاہئے۔ کوانٹم نظریئے کے مطابق اس گھماؤ کو ناپنے سے پہلے ، وہ الیکٹران نہ تو اوپر کی طرف گھوم رہا ہوگا نہ ہی نیچے کی طرف بلکہ وہ ایک ایسی حالت میں ہوگا جس میں وہ اوپر نیچے دونوں اطراف میں بیک وقت گھوم رہا ہوگا۔(ایک دفعہ اگر آپ نے اس کا مشاہدہ کر لیا ، موجی فعل منہدم ہو جائے گا اور ذرّہ ایک معین حالت میں آ جائے گا۔)

    اگلا مرحلہ الیکٹران کے گھماؤ کو ناپنے کا ہے ۔ فرض کریں کہ ایک الیکٹران اوپر کی طرف گھوم رہا ہے تو فوری طور پر آپ کو دوسرے الیکٹران کا معلوم ہو جائے گا کہ وہ نیچے کی جانب گھوم رہا ہوگا۔ اب اگر ان الیکٹرانوں کو آپس میں کئی نوری برس دور پر کر دیا جائے تو آپ اس دور والے الیکٹران کے گھماؤ کو پہلے والے الیکٹران کے گھماؤ کو ناپنے کے ساتھ ہی معلوم کر سکتے ہیں۔در حقیقت آپ کو یہ بات روشنی کی رفتار سے بھی تیزی سے معلوم ہو جائے گی۔ کیونکہ یہ دونوں الیکٹران اتصالی ہیں یعنی ان کا موجی فعل ایک ہم آہنگی کے ساتھ تھر تھرا رہا ہے ، ان کا موجی فعل ایک غیر مرئی دھاگے یا حبل سری کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ ایک پر جو گزرے گی دوسرے پر اس کا اثر خود کار طریقے سے ہوگا۔(اس کا مطلب ایک طرح سے یہ بھی ہوا کہ ہم پر جو گزرتی ہے یہ بات خود بخود فی الفور کائنات کے دور دراز مقام پر بھی اثر انداز ہوتی ہوگی کیونکہ شاید ہمارا موجی فعل وقت کی شروعات سے حالت اتصال میں ہے۔ ایک طرح سے اتصال کا ایک جال کائنات میں پھیلا ہوا ہے جو کائنات کے دور دراز کے مقامات کو ایک دوسرے سے جوڑتا ہے جس میں ہم بھی شامل ہیں۔) آئن سٹائن اس کا مذاق "دور دراز میں پراسرار عمل"(Spooky-action-at-distance) کہہ کر اڑاتا تھا اور یہ ہی وہ مظہر تھا جس نے آئن سٹائن کو مجبور کیا کہ وہ اس نظریئے کو غلط سمجھے۔ کیونکہ کوئی بھی چیز روشنی کی رفتار سے زیادہ تیز سفر نہیں کر سکتی۔

    آئن سٹائن کے ای پی آر تجربے کا مقصد کوانٹم نظریئے کو ہمیشہ صفحہ ہستی سے مٹانا تھا۔ لیکن ١٩٨٠ء میں "ایلن اسپیکٹ"(Alan Aspect) اور ان کو رفقائے کاروں نے فرانس میں اس تجربے کو دو سراغ رساں آلات کے ذریعہ کیا جو ایک دوسرے سے تیرا میٹر کے فاصلے پر رکھے ہوئے تھے۔ اس میں انہوں نے کیلشیم کے ایٹموں سے خارج ہونے والے فوٹون کے گھماؤ کو ناپا۔ اس تجربے کا نتیجہ ہوبہو کوانٹم نظریئے سے ہم آہنگ نظر آیا۔ ایسے نظر آنے لگا جیسے خدا کائنات سے پانسوں سے کھیل رہا ہو۔

    "ایلن اسپیکٹ"(Alan Aspect) نے فرانس میں جس تجربہ گاہ میں ای پی آر کا تجربہ کیا.

    کیا اطلاعات واقعی روشنی کی رفتار سے تیز سفر کر سکتی ہیں ؟کیا آئن سٹائن روشنی کے رفتار کے بارے میں غلط تھا جس میں وہ اس رفتار کو کائنات میں موجود کسی بھی چیز کی رفتار سے تیز سمجھتا تھا ؟ ایسا نہیں ہے۔ اطلاعات سریع از نور رفتار سے تیز سفر کر سکتی ہیں لیکن یہ اطلاعات بے ربط اور ناقابل استعمال ہوں گی۔ ہم کوئی معنی خیز اطلاع یا مورس کا ضابطہ (فصلوں یا ان کے مماثل آوازوں یا اشاروں کا نظام جو اشاراتی پیغام رسانی میں استعمال ہوتا ہے) اس ای پی آر تجربے کے ذریعہ نہیں بھیج سکتے چاہے وہ اطلاع روشنی کی رفتار سے تیز ہی کیوں نا ہو۔

    یہ اطلاع کہ کائنات کے دوسری جانب موجود الیکٹران کا گھماؤ نچلی طرف ہے ، ہمارے لئے بیکار ہوگی۔ ہم اس کے ذریعہ آج کے بازار حصص کی قیمتیں نہیں بھیج سکتے۔ اس بات کو ہم ایک مثال سے سمجھتے ہیں، فرض کریں کہ ایک دوست ہمیشہ ایک لال اور ایک سبز جرابیں کبھی ایک پیر میں تو کبھی دوسرے پیر میں پہنتا ہے۔ فرض کریں کہ آپ اس کا ایک پیر دیکھتے ہیں جس میں اس نے سرخ جراب پہن رکھی ہے اس کے ساتھ ہی آپ کو روشنی کی رفتار سے بھی تیزی سے معلوم ہو جائے گا کہ دوسرا موزہ ہرا ہے۔ اطلاع نے اصل میں روشنی کی رفتار سے تیز سفر کیا ہے لیکن یہ اطلاع بیکار ہے ۔ کوئی بھی ایسی اطلاع جو بے ترتیب ہو اس کو اس طریقے سے نہیں بھیجا جا سکتا۔

    کافی برسوں تک ای پی آر کے تجربے کی کامیابی کا ڈھول کوانٹم نظریئے کے مخالفین کے سامنے پیٹا جاتا رہا ہے۔ لیکن یہ ایک ایسی کامیابی ہے جس کا کوئی عملی کام نہیں ہے۔ سردست تو ایسا ہی ہے۔


    کوانٹم دور دراز منتقلی

    ١٩٩٣ء سے بہت کچھ اس وقت بدل گیا جب آئی بی ایم کے سائنس دانوں نے "چارلس بینیت "(Charles Bennett) کی سرکردگی میں اس بات کو ثابت کیا کہ کم از کم جوہری پیمانے پر ای پی آر تجربے کو دہراتے ہوئے جسمانی طور پر اشیاء کو دور دراز طور پر منتقل کرنا ممکن ہے۔(اس بات کو زیادہ درست طور پر ایسا کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اس بات کو ثابت کر دیا کہ تمام اطلاعات جو ذرّہ میں موجود ہیں ان کو دور دراز منتقل کیا جا سکتا ہے۔) تب سے طبیعیات دان فوٹون کو بلکہ سیزیم کے پورے ایٹموں کو دور دراز منتقل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اگلے چند عشروں میں سائنس دان پہلا ڈی این اے کا سالمہ اور جرثومے کو دور دراز منتقل کر نے کے قابل ہو جائیں۔
    کوانٹم دور دراز منتقلی دو باہم مربوط الیکٹران کے درمیان ممکن ہے.

    کوانٹم دور دراز منتقلی ای پی آر تجربے کی کچھ عجیب و غریب خواص سے استفادہ اٹھاتی ہے۔ اس دور دراز منتقلی کا تجربہ طبیعیات دان دو ایٹموں سے شروع کرتے ہیں جن کو ہم الف اور ج کہہ سکتے ہیں۔ فرض کریں کہ ہم اطلاع کو الف سے لے کر ج تک منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لئے ہمیں ایک تیسرے ایٹم ب سے شروع کرنا ہوگا۔ اس ب ایٹم کو ج ایٹم کے ساتھ ہم آہنگ ہونا ہوگا تاکہ ب اور ج دونوں مربوط ہو جائیں۔ اب ایٹم الف ب کے ساتھ اپنا رابطہ قائم کرتا ہے۔ الف ، ب کا معائنہ کرتا ہے تاکہ الف میں موجود اطلاع ب میں منتقل ہو جائے۔ اس عمل میں الف اور ب ہم آہنگ ہو جاتے ہیں۔ لیکن کیونکہ شروع میں ب اور ج ہم آہنگ تھے اس لئے الف میں موجود اطلاع اب ج میں موجود ایٹم میں منتقل ہو جاتی ہے۔ مختصراً طور پر ایٹم الف ایٹم ج میں منتقل ہو جاتا ہے یعنی کہ الف میں موجود اطلاع اب ج میں موجود اطلاع کے برابر ہو گئی ہے۔
    کوانٹم دور دراز منتقلی کا عمل 
    یہ بات غور طلب ہے کہ ایٹم الف میں موجود اطلاع ختم ہو گئی (لہٰذا منتقلی کے بعد ہمارے پاس اطلاع کی دو نقول موجود نہیں ہوں گی )۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو بھی دور دراز منتقل ہوگا اس کو اس عمل میں ختم ہونا ہوگا۔ لیکن اس کے جسم میں موجود اطلاعات کہیں دوسری جگہ پر ظاہر ہو جائیں گی۔یہ بات بھی توجہ طلب ہے ایٹم الف اپنی جگہ بدل کر ایٹم ج کی طرف نہیں چلا جائے گا۔ یہ تو ایٹم الف میں موجود اطلاع ہوگی(مثلاً اس کا گھماؤ اور تقطیب[Polarization] )جو ج کو منتقل ہوگی۔( اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایٹم الف تحلیل ہو کر کسی دوسری جگہ پر بھیج دیا جائے گا بلکہ اس کا مطلب ہوگا کہ ایٹم الف میں موجود اطلاع ایک اور ایٹم ج میں منتقل ہو جائے گا۔)

    اس دریافت کے اعلان کے بعد سے اس میدان میں ہونے والا مقابلہ انتہائی سخت ہو گیا تھا اور مختلف سائنس دانوں کی جماعتیں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوششوں میں لگی ہوئی تھیں۔ سب سے پہلی تاریخی کوانٹم دور دراز منتقلی١٩٩٧ء میں یونیورسٹی آف انسبرک میں ہوئی جس میں بالائے بنفشی فوٹون کو دور دراز منتقل کیا گیا تھا۔ اس کے بعد اگلے سال ہی کیلٹیک میں زیادہ درستگی کے ساتھ ایک تجربہ کیا گیا جس میں فوٹونوں کو دور دراز منتقل کیا گیا۔


    ٢٠٠٤ء میں یونیورسٹی آف ویانا کے طبیعیات دانوں نے روشنی کے ذرّے کو چھ سو میٹر دریائے ڈینیوبی کے نیچے سے فائبر –آپٹکس تاروں کے ذریعہ منتقل کرکے ایک نیا ریکارڈ بنا لیا تھا۔(یہ تار بذات خود آٹھ سو میٹر لمبی تھی اور عوامی نکاسی نالے میں ڈالی گئی تھی جو دریائے ڈینیوبی کے نیچے موجود تھا۔ بھیجنے والا اس کے ایک سرے پر کھڑا تھا۔ جبکہ وصول کنندہ دوسرے حصے پر موجود تھا۔


    ان تجربات کو اکثر یہ کہہ کر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ اس میں روشنی کے ذرّے استعمال کئے گئے ہیں۔ جو سائنسی قصوں سے کہیں دور ہیں۔ لہٰذا جب ٢٠٠٤ء میں کوانٹم دور دراز منتقلی روشنی کے ذرّوں کے بجائے ایٹموں پر کی گئی تو یہ ایک انتہائی اہم سنگ میل تھا جو ہمیں مستقبل کے کسی بھی دور دراز آلے کی جناب نزدیک کر رہا تھا۔واشنگٹن ڈی سی میں واقع نیشنل انسٹیٹیوٹ آف سٹینڈرڈس اینڈ ٹیکنالوجی کے طبیعیات دانوں نے کامیابی کے ساتھ بیریلیئم کے تین ایٹموں کو آپس میں الجھا کر ایک ایٹم کے خصائص دوسرے ایٹم میں منتقل کر دیئے تھے۔ یہ تجربہ اس قدر اہمیت کا حامل تھا کہ اس نے نیچر میگزین کے سرورق پر جگہ بنائی۔ دوسرے ایک اور گروپ نے بھی کامیابی کے ساتھ کیلشیم کے ایٹموں کو دور منتقل کر دیا تھا۔

    ٢٠٠٦ء میں ایک اور نہایت ہی شاندار پیش قدمی ہوئی جس میں پہلی دفعہ کسی بڑی شئے کا استعمال کیا گیا تھا۔ کوپن ہیگن میں واقع نیلز بوہر انسٹیٹیوٹ اور جرمن میں واقع میکس پلانک انسٹیٹیوٹ میں طبیعیات دان روشنی کی کرن کو سیزیم کی گیس کے ایٹموں کے ساتھ اتصال کرانے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ ایک ایسا کارنامہ تھا جس میں کھرب ہا ایٹم شامل تھے۔ پھر انہوں نے اطلاعات کو لیزر کی ضربوں میں منتقل کرکے اس اطلاع کو آدھے گز کے فاصلے پر سیزیم کے ایٹموں میں منتقل کر دیا۔ "یوجین پولزک" (Eugene Polzik) جو دور دراز منتقلی پر کرنے والی تحقیق کرنے والوں میں سے ایک ہیں انہوں نے کہا ، " پہلی دفعہ کوانٹم دور دراز منتقلی روشنی - جو اطلاعات کو لے کر جا رہی تھی - اور ایٹموں کے درمیان حاصل کر لی گئی ہے۔"


    الجھاؤ کے بغیر دور دراز منتقلی

    دور دراز منتقلی میں پیش قدمی کافی اسراع پذیر ہے۔٢٠٠٧ء میں ایک اور اہم سنگ میل عبور کرلیا گیا۔ طبیعیات دانوں نے ایک ایسا دور دراز منتقلی کا طریقہ پیش کر دیا جس میں الجھاؤ کی ضرورت نہیں تھی۔ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ کوانٹم دور دراز منتقلی کے عمل میں الجھاؤ ہی سب سے مشکل عمل ہے۔ اس مسئلہ کا حل دور دراز منتقلی میں نئے دریچے کھول سکتا ہے۔

    "ہم روشنی کی اس شعاع کی بات کر رہے ہیں جو لگ بھگ ٥ ہزار ذرّوں پر مشتمل ہے جو ایک جگہ سے غائب ہو کر کہیں بھی دوسری جگہ حاضر ہو جاتے ہیں۔"برسبین ، آسٹریلیا میں واقع آسٹریلین ریسرچ کونسل سینٹر آف ایکسیلنس فار کوانٹم ایٹم آپٹکس کے طبیعیات دان "ایسٹون بریڈلی"(Aston Bradley) نے یہ بات کہی۔ جنہوں نے اس نئے سرکردہ دور دراز منتقلی کے طریقے میں مدد کی ہے۔

    " ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہماری اسکیم اصل خیالی نظریئے سے اپنی روح میں کافی قریب ہے۔" انہوں نے اس بات کا دعویٰ کیا۔ ان کے طریقے میں ، وہ اور ان کے رفقائے کار روبیڈیم ایٹموں کی شعاع کو لے کر اس میں موجود تمام اطلاعات کو لے کر روشنی کی شعاع میں بدلتے ہیں ، پھر اس روشنی کی شعاع کو فائبر آپٹک تاروں کے ذریعہ بھیجتے ہیں اور پھر اصل روشنی کی شعاع کے ایٹموں کو دور دراز مقام پر دوبارہ بنا لیتے ہیں۔ اگر ان کا یہ دعویٰ صحیح ہے تو یہ طریقہ دور دراز منتقلی کے راستے میں کھڑی سب سے بڑی رکاوٹ کو دور کر دے گا اور بڑھتے ہوئے اجسام کی دور دراز منتقلی کے بالکل نئے دریچے کھول دے گا۔

    اپنے اس طریقے کو کوانٹم دور دراز منتقلی سے ممتاز کرنے کے لئے ڈاکٹر بریڈلی اس کو "مستند دور دراز منتقلی " (Classical Teleportation)کہتے ہیں۔(یہ بات تھوڑا سا مغالطے میں ڈالنے والا ہے ، کیونکہ یہ طریقہ بھی کافی حد تک کوانٹم نظریئے کی بنیاد پر ہے بجز اس کے کہ اس کی بنیاد الجھاؤ پر نہیں ہے۔)

    اس نئے اور انوکھے دور دراز منتقلی کے طریقے کی کنجی ایک مادّے کی نئی حالت ہے جس کو " بوس آئن سٹائن تکاثف"(Bose Einstein Condensate)یا بی ای سی کہتے ہیں جو پوری کائنات کا سب سے سرد مادّہ ہے۔ قدرتی طور پر سب سے زیادہ سرد درجہ حرارت مطلق صفر سے ٣ کیلون اوپر ہے۔(اس کی وجہ بگ بینگ کے دھماکے کی بچی ہوئی حرارت ہے۔ جو کائنات میں ابھی بھی پائی جاتی ہے۔) مگر ایک بی ای سی ایک ڈگری کے دس لاکھ سے لے کر ایک ارب حصّے تک صفر درجہ حرارت سے اوپر ہو سکتا ہے، یہ ایک ایسا درجہ حرارت ہے جو صرف تجربہ گاہوں میں ہی پایا جاتا ہے۔)

    جب کچھ مخصوص مادوں کو مطلق صفر کے قریب ٹھنڈا کیا جاتا ہے تو ان کے ایٹم سب سے نچلے درجے تک پر شکستہ ہو جاتے ہیں۔ اس طرح سے تمام ایٹم ہم آہنگی کے ساتھ تھر تھرا سکتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ مربوط یا اتصالی حالت میں آ جاتے ہیں۔ تمام ایٹموں میں موجود موجی فعل ایک دوسرے پر چڑھ جاتا ہے لہٰذا ایک طریقے سے ایک بی ای سی عظیم دیوہیکل بڑا ایٹم بن جاتا ہے جس میں شامل تمام ایٹم مل کر ہم آہنگ ہو کر تھر تھرا تھے ہیں۔ مادّے کی اس عجیب اور انوکھی حالت کی پیشن گوئی آئن سٹائن اور" ستیاندر ناتھ بوس"(Satyendrnath Bose) نے ١٩٢٥ میں کر دی تھی، مگر اس کو بننے میں مزید ٧٠ سال لگے اور آخر کار یونیورسٹی آف کولوراڈو میں واقع ایم آئی ٹی کی لیب میں١٩٩٥ء اس کو بنا لیا گیا۔

    اب ہم بتاتے ہیں کہ بریڈلی اور اس کے ساتھیوں کا بنایا ہوا دور رہیّتی آلہ کیسے کام کرتا ہے۔ سب سے پہلے وہ روبیڈیم کے سرد ترین ایٹموں کی ایک جماعت کو بی ای سی حالت میں لیتے ہیں۔ پھر وہ ایک مادّے کی شعاع کو بی ای سی پر مارتے ہیں (یہ شعاع بھی روبیڈیم ایٹموں سے بنی ہوتی ہے )۔ شعاع میں شامل ایٹم بھی پر شکستہ حالت میں توانائی کے سب سے نچلے درجے میں آنا چاہتے ہیں ، لہٰذا وہ اپنی زائد توانائی کو روشنی کے ارتعاش کی صورت میں بہا دیتے ہیں۔ یہ روشنی کی شعاع فائبر آپٹیکل تار کے ذریعہ بھیج دی جاتی ہے۔ حیرت انگیز طور پر روشنی کی وہ شعاع اپنے اندر وہ تمام کوانٹم کی اطلاعات محفوظ رکھتی ہے جو اصل مادّے کی شعاع کو بیان کر سکے۔(مثلاً تمام ایٹموں کا مقام اور سمتی رفتار)۔ اس کے بعد روشنی کی شعاع ایک اور بی ای سی سے ٹکراتی ہے ، جو روشنی کی شعاع کو اصلی مادّے کی شعاع میں بدل دیتی ہے۔

    یہ نیا دور دراز منتقلی کا طریقہ شاندار وعید لے کر آیا ہے کیونکہ یہ ایٹموں کی الجھاؤ والی چیز کا استعمال نہیں کرتا۔ مگر اس طریقہ میں کچھ مسائل بھی ہیں۔ اس کا سارا دارومدار ر بی ای سی کی خصوصیت پر ہے جن کو تجربہ گاہ میں بھی بنانا مشکل ہوتا ہے۔ مزید براں یہ کہ بی ای سی کے خصائص بہت ہی مخصوص ہوتے ہیں کیونکہ وہ ایسا برتاؤ کرتی ہے کہ جیسے وہ ایک ہی ایٹم ہو۔ اصولی طور پر کوانٹم کا عجیب و انوکھا برتاؤ جو ہم ایٹمی پیمانے پر دیکھتے تھے اب خالی آنکھ سے بی ای سی کے ذریعہ دیکھ سکتے ہیں۔ کسی زمانے میں یہ بات ناممکن سمجھی جاتی تھی۔

    بی ای سی کا فوری استعمال ایٹمی پیمانے کی لیزر میں ہو سکتا ہے، ظاہر ہے جس کی بنیاد ہم آہنگی کے ساتھ تھر تھر ا تھے ہوئے فوٹون کی مربوط شعاعیں ہی ہوں گی۔ مگر بی ای سی ہم آہنگی کے ساتھ تھر تھرا تھے ہوئے ایٹموں کی جماعت ہے، لہٰذا یہ بات بھی ممکن ہے کہ ایک ایسی بی ای سی ایٹموں کی شعاع بنائی جا سکے جو سب کی سب مربوط ہوں۔ دوسرے الفاظ میں ، ایک بی ای سی لیزر کی نقل بنا سکتی ہے ، جس کو ہم ایٹمی لیزر یا مادّے کی لیزر کہہ سکتے ہیں۔ لیزر کا تجارتی استعمال بہت ہی زبردست ہوگا اور ایٹمی لیزر سے بنی ہوئی تجارتی اشیاء میں بھی ایسا گہرا اثر ڈال سکتی ہیں۔ مگر کیونکہ بی ای سی صرف اس درجہ حرارت پر بنائی جا سکتی ہے جو مطلق صفر سے تھوڑا سے اوپر ہو لہٰذا اس میدان میں پیش رفت ہرچند متوازی مگر پھر بھی کافی آہستہ ہے۔

    اس میدان میں اب تک کی ہوئی پیش رفت کو مد نظر رکھتے ہوئے کب تک ہم اپنے آپ کو دور دراز منتقل کرنے کے قابل ہو جائیں گے ؟ طبیعیات دان سمجھتے ہیں اور پر امید ہیں کہ آیندہ آنے والے سالوں میں وہ پیچیدہ سالموں کو دور دراز منتقل کر سکتے ہیں۔ اس کے بعد دوسرا مرحلہ اگلی ایک دہائی میں مکمل ہو سکتا ہے جس میں کسی ڈی این اے یا پھر کسی جرثومے کو دور دراز منتقل کیا جا سکے گا۔ نظریاتی طور پر سائنس فکشن فلموں میں دکھائی جانے والی انسانوں کی دور دراز منتقلی میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے، لیکن در حقیقت اس قسم کے کارنامے کو انجام دینے میں فنی مسائل بہت ہی زیادہ ہیں۔ دنیا میں موجود سب سے اچھی تجربہ گاہیں بھی ابھی صرف ننھے روشنی کے فوٹون اور انفرادی ایٹموں کو مربوط کر پائی ہیں۔ کوانٹم مربوطیت بڑے اجسام جیسے حضرت انسان میں پیدا کرنے کا سوال آنے والی کافی عرصے تک پیدا ہی نہیں ہوتا۔ اصل میں اگر روز مرہ کی چیزوں کو دور منتقل کرنا ممکن ہو تو بھی اس کام میں کئی صدیاں یا پھر اس سے بھی زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔


    کوانٹم کمپیوٹرز

    کوانٹم دور دراز منتقلی کے مقدر کے ساتھ ہی کوانٹم کمپیوٹر ز میں ہونے والی پیش رفت کی قسمت جڑی ہوئی ہے۔ دونوں کوانٹم کی طبیعیات اور ایک ہی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہیں۔ دونوں میدانوں کے درمیان زبردست اخصاب  (Fertilization)موجود ہے۔ کوانٹم کمپیوٹر ز ایک دن ہماری میزوں پر رکھے ہوئے ڈیجیٹل کمپیوٹرز سے بدل دیے جائیں گے۔ حقیقت میں مستقبل میں ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب دنیا کی معیشت اس طرح کے کمپیوٹرز پر انحصار کر رہی ہوگی ، لہٰذا اس طرح کی ٹیکنالوجی میں زبردست قسم کے تجارتی مفاد چھپے ہیں۔ ایک دن سلیکان ویلی، زنگ آلود پٹی بن جائی گی جو کوانٹم کمپیوٹنگ سے نمودار ہوئی ٹیکنالوجی سے بدل چکی ہوگی۔
    فوٹون کی بنیاد پر کیوبٹ

    عام کمپیوٹر ثنائی نظام پر کام کرتا ہے جو ایک اور صفر پر مشتمل ہوتا ہے ، جن کو بٹس کہتے ہیں۔ مگر کوانٹم کمپیوٹر اس سے کہیں زیادہ طاقتور ہوتے ہیں۔ وہ کیو بٹس پر کام کرتے ہیں جو صفر اور ایک کی مقدار کے درمیان کی قدریں بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ ذرا ایک ایسے ایٹم کا تصوّر کریں جو کسی مقناطیسی میدان میں رکھا ہوا کسی لٹو کی طرح گھوم رہا ہے اس کا محور یا تو اوپر یا نیچے دونوں جانب ہو سکتا ہے۔ عقل عامہ ہمیں بتاتی ہے کہ ایٹم کا گھماؤ یا تو اوپر کی جانب یا پھر نیچے کی جانب ہو سکتا ہے مگر دونوں جانب ایک ساتھ نہیں ہو سکتا۔ مگر کوانٹم کی عجیب و غریب دنیا میں ، ایٹم کو دونوں حالتوں کو جمع کرکے بیان کیا جا سکتا ہے یعنی اوپر اور نیچے دونوں کی جانب کے گھماؤ کو جمع کرکے بتایا جا سکتا ہے۔ کوانٹم کی زیریں دنیا میں ، ہر جسم کو تمام حالتوں کو جمع کر کے بیان کیا جا سکتا ہے۔(اگر بڑے جسم مثلاً بلی کو کوانٹم میں بیان کیا جائے گا تو اس کا مطلب ہوگا کہ آپ نے زندہ بلی کے موجی فعل اور مردہ بلی کے موجی فعل دونوں کو جمع کرکے بیان کیا ہوگا ، جس کا مطلب یہ ہوگا کہ بلی نہ زندہ ہوگی نہ ہی مردہ۔ اس کو مزید تفصیل سے تیرہویں باب میں بیان کیا جائے گا۔)

    اب ایک ایسی ایٹمی رسی کا تصور کریں جو مقناطیسی میدان میں ایک صف میں کھڑی ہے ، جس میں ایٹموں کا گھماؤ کسی ایک طرف ہوا ہے۔ اگر لیزر کی شعاع اس ایٹم کی رسی پر ماری جائے گی تو وہ ان ایٹموں کی جماعت سے ٹکرا کر واپس آ جائے گی۔ اس سارے عمل میں کچھ ایٹموں کے محور کا گھماؤ تبدیل ہو جائے گا۔ آنے اور جانے والی لیزر کی شعاع کو ناپنے سے ہم ایک پیچیدہ کوانٹم حسابی عمل انجام دے چکے ہیں جس میں کئی گھماؤ کی تبدیلیوں کو ناپنا شامل ہے۔

    کوانٹم کمپیوٹر ابھی تک اپنے ابتدائی دور میں ہیں۔ اب تک کا ورلڈ ریکارڈ جو کوانٹم کمپیوٹر نے بنایا ہے وہ ٣ * ٥ = ١٥ کا ہے، ایک ایسا حسابی عمل جو شاید ہی آج کے دور کے بڑے کمپیوٹر ز کی جگہ لے سکے۔ کوانٹم دور دراز منتقلی اور کوانٹم حساب دونوں میں ایک مشترکہ مہلک کمزوری ہے: ایک بڑے ایٹموں کے گروہ میں مربوطی کو قائم رکھنا۔ اگر کسی طرح سے یہ مسئلہ حل ہو جائے تو دونوں میدانوں میں یہ ایک انقلابی دریافت ہوگی۔

    سی آئی اے اور دوسرے خفیہ ادارے کوانٹم کمپیوٹر ز میں زبردست دلچسپی رکھتے ہیں۔ دنیا کے رازوں کی اکثریت میں ایک خفیہ کنجی ہوتی ہے جو ایک بہت ہی" بڑا عدد صحیح"(Large Integer) ہوتا ہے اور اس کے ذریعہ کسی کو تقسیم کرکے مفرد عدد کو نکلنا ہوتا ہے۔ اگر وہ کنجی کسی دو نمبروں سے بنی ہو ، جس میں ہر ایک سو اعداد پر مشتمل ہو تو ایک عددی کمپیوٹر کو اس کو حل کرنے کے لئے ایک سو برس سے بھی زیادہ کا عرصہ درکار ہوگا۔ ایسا کوئی بھی رمز آج کے دور میں توڑا نہیں جا سکتا۔

    ١٩١٤ء میں بیل لیب کے "پیٹر شور"(Peter Shor) نے اس بات کا مظاہرہ کیا کہ کسی بھی بڑے نمبر کو توڑنا کوانٹم کمپیوٹر کے لئے بچوں کا کھیل ہے۔ اس دریافت نے جلد ہی خفیہ اداروں ۔ نظری طور پر کوانٹم کمپیوٹر دنیا کے تمام رمزوں کو توڑ سکتے ہیں۔ کوانٹم کمپیوٹرز سے دور حاضر کے کمپیوٹر ز کے مروجہ نظام کی سیکیورٹی کو مکمل خطرہ لاحق ہے۔ دنیا کا پہلا ملک جس نے اس قسم کا نظام بنا لیا وہ دوسری اقوام اور اداروں کے راز حاصل کرنے کے قابل ہو جائے گا۔

    کچھ سائنس دانوں کو اس بات کی پوری امید ہے کہ مستقبل میں دنیا کی معیشت کا سارا دارو مدار ان کوانٹم کمپیوٹر ز پر ہوگا۔اس بات کا کافی امکان ہے کہ سلیکان کی بنیاد پر بننے والے کمپیوٹر ز اپنی حسابی استعداد کی آخری طبیعیاتی حد تک ٢٠٢٠ء میں پہنچ جائیں گے۔ اگر ہم ٹیکنالوجی کو مزید آگے تک لے کر جانا چاہتے ہیں تو ہمیں نیا مزید طاقتور کمپیوٹر لازمی طور پر درکار ہوگا۔ کچھ لوگ انسانی دماغ جیسی قوّت کوانٹم کمپیوٹر کے ذریعہ حاصل کرنے کی تلاش میں بھی ہیں۔

    ہر چیز داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ اگر ہم اتصال کا مسئلہ حل کر لیں تو نا صرف ہم دور دراز منتقلی کے مسائل پر قابو پا لیں گے بلکہ ہم ہر قسم کی ٹیکنالوجی میں نا قابل تصوّر طریقوں سے کوانٹم کمپیوٹر کے ذریعہ آگے بڑھ سکیں گے۔ یہ دریافت اس قدر اہم ہوگی کہ میں اس پر دوبارہ اگلے ابواب میں بات کروں گا۔

    جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ، ایٹموں کو آپس میں مربوط رکھنا تجربہ گاہ میں بھی قائم رکھنا غیر معمولی طور پر مشکل کام ہے۔ چھوٹی سی چھوٹی تھر تھرا ہٹ بھی دو ایٹموں کے باہم ربط کو خراب کر کے حساب کتاب کے عمل کو تباہ کر سکتی ہے۔ آج کے دور میں صرف کچھ ایٹموں میں ہی مربوطی کیفیت کو قائم رکھنا بھی انتہائی مشکل کام ہے۔ جو ایٹم نینو سیکنڈوں میں غیر مربوط ہو جاتے تھے اب ان کی مربوطی کا وقت بڑھ کر ایک سیکنڈ تک ہو گیا ہے۔ دور دراز منتقلی کو نہایت تیزی کے ساتھ ایٹموں کے دوبارہ غیر مربوط ہونے سے پہلے مکمل ہونا ہوگا۔ بس یہی ایک ایسی بات ہے دور دراز منتقلی اور کوانٹم حسابی عمل پر پابندی لگا دیتی ہے۔

    ان تمام تر چیلنجز کے باوجود ، آکسفورڈ یونیورسٹی میں کام کرنے والے "ڈیوڈ ڈویچے"(David Deutsch) اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ یہ مسائل حل کر لئے جائیں گے: حالیہ نظری پیش رفت اور قسمت کے بھروسے (ایک کوانٹم کمپیوٹر کو) بننے میں کم از کم پچاس برس کا عرصہ لگے گا۔۔۔۔یہ ایک بالکل ہی نیا طریقہ ہوگا جس کے ذریعہ قدرت کو انضباط کیا جا سکے گا۔"

    ایک کارآمد کوانٹم کمپیوٹر کو بنانے کے لئے ہمیں سینکڑوں سے لے کر دسیوں لاکھ ایٹم ہم آہنگی کے ساتھ تھر تھراتے ہوئے درکار ہوں گے جو ہماری موجودہ قابلیت اور بساط سے کہیں زیادہ ہے۔ کپتان کرک والی دور دراز منتقلی تو بہت ہی مشکل ہے۔ ہمیں کپتان کرک کے جڑواں کے ساتھ کوانٹم الجھاؤ پیدا کرنا ہوگا۔ نینو ٹیکنالوجی اور جدید کمپیوٹر کے ساتھ بھی ایسا کرنا نہایت ہی مشکل نظر آتا ہے۔

    لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ دور دراز منتقلی ایٹمی پیمانے پر تو موجود ہے اور ہو سکتا ہے کہ ہم پیچیدہ اور نامیاتی مادّے بھی آنے والی کچھ دہائیوں میں دور منتقل کر سکیں۔ لیکن بڑے اجسام کو حقیقت میں اگر دور دراز منتقل کرنا ممکن بھی ہوا تو اس کے لئے ہمیں آنے والی کئی دہائیوں سے لے کر صدیوں یا اس سے بھی زیادہ تک کا انتظار کرنا ہوگا۔ لہٰذا پیچیدہ سالموں بلکہ وائرس یا زندہ خلیہ کی دور دراز منتقلی جماعت "I" کی ناممکنات میں شامل ہے جو شاید اسی صدی تک ممکن ہو جائے۔ اگرچہ طبیعیات کے قوانین کی رو سے انسان کی دور دراز منتقلی تو ممکن ہے لیکن ایسا ہونا واقعی ممکن بھی ہوا تو بھی اس کام میں کئی صدیاں لگ جائیں گی۔ لہٰذا اس قسم کی دور دراز منتقلی کو میں جماعت "II" کی ناممکنات میں شامل کروں گا۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: 4۔ دور دراز منتقلی (Teleportation) Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top