Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    منگل، 2 جون، 2015

    آفاق کی یہ کارگہ شیشہ گری

    ۱۹۸۰ء کی دہائی میں پاکستان ٹیلی ویژن نیٹ ورک سے ایک پروگرام ’’Cosmos‘‘ کے عنوان سے جمعے کی صبح نشر ہوتا تھا۔ شاید یہ پروگرام امریکن ٹیلی ویژن سیریز “Cosmos: A Personal Voyage”کی اردو ڈبنگ تھی ۔ اس پروگرام کے کچھ دھندلے سے نقوش اب بھی ذہن میں باقی ہیں ۔ مجھے یاد ہے کہ میں بت بنا اس پروگرام کو دیکھ کر کائنات کی بیکراں گہرائیوں میں کھو جاتا تھا ۔ اس وقت سے لے کر علم فلکیات کا میں شیدائی رہا ہوں ۔ ہرچند ایک اکاؤنٹنٹ ہونے کے ناطے میری سائنس سے کوئی زیادہ واقفیت نہیں ہے لیکن عمومی سائنس خصوصاً علم فلکیات اور علم طبیعیات کے بارے میں کافی تجسس رہا ہے ۔
    سال گزشتہ بقراعید کی پانچ چٹھیاں آ رہی تھیں ۔ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اتنی چھٹیوں میں کیا کروں گا لہٰذا بیگم کے ساتھ سی ڈ ی کی دکان پر کچھ موویز لینے چلا گیا ۔ وہاں پر ڈسکوری چینل کے پروگرام کی سی ڈ ی “How The Universe Works” نظر آ گئی۔ پہلی ہی قسط دیکھ کر مزہ آگیا کیونکہ یہ پروگرام ہائی ڈیفی نیشن ویڈیو (High Definition Video)میں ریکارڈڈ تھا ۔ پروگرام دیکھتے وقت خیال آیا کہ اگر یہ پروگرام اردو میں ہوتا تو زیادہ مزہ آتا۔ اگرچہ فلکیات سے متعلق کچھ پروگرام نیشنل جیوگرافک چینل انڈیا (National Geographic Channel – India) پر میں ہندی میں تو دیکھ چکا ہوں مگر یہ پروگرام مجھے ہندی زبان میں انٹرنیٹ پر بھی نہیں مل سکا۔ لہٰذا وقت گزاری کے لئے اس کا اردو ترجمہ شروع کیا۔ شروع میں سوچا کہ سب ٹائٹل (Subtitle)کی شکل میں اس کا ترجمہ کروں پھر خیال آیا کیوں نہ مضمون کی شکل میں کیا جائے اور انٹرنیٹ پر کسی بلاگ (Blog) پر اپلوڈ (Upload) کر دوں تاکہ فلکیات میں دلچسپی لینے والے بھی اس کو پڑھ سکیں۔ مگر مشکل یہ تھی کہ کبھی اردو ٹائپ نہیں کی تھی نہ ہی ان پیج(Inpage) چلانا آتا تھا۔ گوگل مترجم (Google Translator) ایک دفعہ استعمال کیا تھا اور اس میں موجود فونیٹک کی بورڈ(Google Phonetic) اردو لکھنے کے لئے شروع میں استعمال کیا مگر اس کا استعمال کافی مشکل تھا۔ پھر گوگل ڈاکس(Google docs) کا استعمال کیا اور ٦ اقساط اسی میں فونیٹک کی بورڈ کی مدد سے ٹائپ کیں۔ گوگل ڈاکس کے لئے ہر وقت آن لائن رہنا ضروری تھا ۔ اگر انٹرنیٹ دستیاب نہ ہو تو پھر کچھ کام نہیں ہو سکتا تھا ۔لہٰذا گوگل پر اردو آف لائن ٹائپنگ ٹول تلاش کیا اور یوں گوگل ان پٹ میتھڈ ایڈیٹر (Google Input Method – IME) سے روشنائی ہوئی اور اس نے زندگی کافی آسان کردی۔ پہلی قسط ترجمہ کرنے میں مجھے کوئی ١٢ دن لگے مگر گوگل کے اس ارود ٹول سے آخری قسط صرف دو دنوں میں مکمل ہوئی۔
    اگرچہ ترجمہ کرنے کی یہ میری زندگی کی پہلی کاوش تھی (جبکہ کسی بھی کتاب کا ترجمہ کرنے کی پہلی کوشش میچو کاکو کی "ناممکنات کی طبیعیات " ہے ) اور میں جانتا ہوں کہ نہ میں کوئی بڑا اردو داں ہوں ،نہ کوئی بڑا لکھاری اور نہ ہی کوئی بڑا مترجم ۔ مجھے ذخیرہ الفاظ کی کم مائیگی ہونے کا بھی احساس ہے بہرحال اپنے تئیں جتنی کوشش کر سکتا تھا کہ روانی اور سلاست کے ساتھ ترجمہ کروں نہ کہ لفظ با لفظ ،وہ میں نے کی ۔ پھر جہاں جہاں مجھے معلومات پرانی اور فرسودہ نظر آئیں ان کو بھی اپ ڈیٹ کردیا اور جہاں جہاں معلومات پر شک ہوا اس کی بھی تحقیق کی۔ انگلش الفاظ کا ترجمہ کے لئے میں نے http://www.urduenglishdictionary.org کی ویب سائٹ کا سہارا لیا۔
    اس کے شروع کے پانچ ابواب کی ادارت جناب علیم احمد صاحب مدیر اعلیٰ "ماہنامہ گلوبل سائنس کراچی " نے کی ہے ۔ ان سے مزید ابواب کی ادارت کی فرمائش کی ہے اگر انہوں نے اپنی گوں نا گوں مصروفیات سے وقت نکال لیا اور باقی بچے ہوئے ابواب کی بھی ادارت فرما دی تو میں ان کے تصحیح شدہ ابواب ہی پوسٹ کروں گا ورنہ ایسے ہی پوسٹ کر دوں گا۔
    اس پروگرام کی آٹھ اقساط ٢٥ اپریل ٢٠١٠ء سے لے کر ٢٤ مئی ٢٠١٠ء تک نشر ہوئی تھیں۔ ان مضامین کی ترتیب کچھ اس طرح سے ہے۔ قوسین میں دیے گئے انگریزی کے نام اصل پروگرام کے عنوان ہیں:
    1. بگ بینگ (Big Bang)
    2. بلیک ہولز (Black Holes)
    3. ملکی وے کہکشاں اور دوسری کہکشائیں (Alien Galaxies)
    4. سورج اور دور دراز کے تارے (Extreme Stars)
    5. سپرنووا (Supernovas)
    6. کرۂ ارض اور اس کے پڑوسی سیّارے (Extreme Planets)
    7. نظام شمسی اور پردیسی نظام ہائے شمسی(Alien Solar Systems)
    8. چندا ماما اور ماورائے ارض چاند (Alien Moons)

    جدید تر اشاعت
    پچھلی
    اس کے بعد کوئی اور پوسٹ شایع نہیں ہوئی ۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: آفاق کی یہ کارگہ شیشہ گری Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top