Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    منگل، 17 اکتوبر، 2017

    ذائقے کی سائنس

    کھانا بنانے کے پیچھے کون سی کیمیائی سائنس ہوتی ہے

    باورچی خانے میں چولھے پر کھانا بناتے وقت کچھ دلچسپ کیمیا کو دیکھا جا سکتا ہے۔ صرف چار بنیادی اجزاء - آٹا، چکنائی، چینی اور انڈے – ہی لے کر ان کو مختلف طریقوں سے پکایا جائے تو پکانے کے طریقے میں ہونے والی معمولی لطیف کیمیائی تبدیلیاں ایک جیسے اجزاء کو مختلف بھُربھُرے کیک، خستہ بسکٹس اور پرت دار پیسٹریوں میں بدل دیتی ہیں۔

    آٹے میں خمیر کو چھوڑنے یا بڑھانے سے ہوا کے بلبلے بننا شروع ہو جاتے ہیں۔ جب ہوائی بلبلے گرم ہوتے ہیں، تو ان میں موجود گیس پھیلتی ہے، جس سے کیک، ڈبل روٹی اور پھلکا بنتا ہے۔ یہ ہوائی بلبلے دو میں سے ایک طریقہ سے بن سکتے ہیں۔ خمیری سفوف اور کھانے کا سوڈا جیسے کیمیائی پھلکا بنانے والے عامل پانی سے مل کر کاربن ڈائی آکسائڈ گیس بناتے ہیں۔ ملاپ کا یہ عمل بہت تیزی سے وقوع پذیر ہوتا ہے لہٰذا خمیری عامل کو انتہائی احتیاط سے درست مقدار میں رکھنا ہوتا ہے – اگر اسے بہت زیادہ ڈال دیا تو بلبلے بہت بڑے بن کر پھٹ جائیں گے، اس کی مقدار ضرورت سے کم ہوئی تو کیک کے مرکب کی کثافت بلبلوں کو بننے سے ہی روک دے گی۔

    آمیزے کو بتدریج پھلانے کے لئے بیکری کا خمیر (سچارومیسیس سیریویسیا) آٹے میں ملانے کے لئے اکثر استعمال ہوتا ہے۔ خمیر پھپھوندی کے خاندان کا یک خلیہ جاندار ہوتا ہے۔ سب سے پہلے خمیر - آکسیجن کا استعمال کرتے ہوئے - ہوا باش میں سانس لیتا ہے اور کاربن ڈائی آکسائڈ کے بلبلے بناتا ہے۔ جب آکسیجن ختم ہو جاتی ہے، تو خمیر تخمیر کے ذریعہ ایتھانول بنانا شروع کر دیتا ہے، بعینہ جیسے آب جو بنایا جاتا ہے، تاہم روٹی کے پیڑے میں بننے والا الکحل بھٹی میں تبخیر ہو جاتا ہے۔

    بلبلے بنانا ایک چیز ہے، لیکن انہیں آمیزے میں برقرار رکھنا دوسری چیز جس کے لئے زیادہ بہتر کیمیا کی ضرورت ہوتی ہے۔ ڈبل روٹی زیادہ تر گندم کے آٹے سے بنائی جاتی ہے، اس میں نشاستے کے دانے کے گرد دو اہم پروٹین ہوتے ہیں: گلوٹینن اور گلائیڈن۔ جب آٹے کو پانی کے ساتھ ملایا اور گوندھا جاتا ہے، تو گلوٹینن، گلائیڈن کے ساتھ کراس لنک ہو کر جال بنا کر ایک نیا کھینچنے والا گلوٹین نامی پروٹین بناتے ہیں۔ گلوٹین ایک سپر پروٹین ہوتا ہے، یا پروٹین کمپلیکس، جو لاسٹک کی طرح برتاؤ کرتا ہے اور کھینچنے والے پل بناتا ہے جو نشاستے کے سالمات کو ایک ساتھ پکڑ کر رکھتے ہیں۔ ہلکی، پھولی پھولی نرم روٹی بنانے کا راز ننھے لچکیلے بلبلے بنانے میں ہے؛ جس قدر پیڑے کو گوندھا اور کھینچا جائے گا اتنا ہی مضبوط گلوٹین کا نیٹ ورک بنے گا۔ آٹے میں انڈے بھی گلوٹین کی طرح کام کرتے ہیں، یہ پروٹین باندھنے والے عامل کے طور پر اپنا کردار ادا کرتے ہوئے بلبلوں کو بننے اور کیک کو آپس میں جڑے رہنے میں مدد دیتا ہے۔

    کیک کے برخلاف پیسٹریاں 'مختصر' اور بھربھری ہوتی ہیں، لہٰذا ان کو بنانے کے لئے نان بائی گلوٹین بننے کے عمل کو محدود کر دیتے ہیں اس سے ربڑ جیسا لچیلا پن مل جاتا ہے۔ لچکیلا پن حاصل کرنے کے لئے مکھن کو آٹے میں لگایا جاتا ہے جس سے نشاستے کے سالمات پر چکنائی کی تہہ چڑھ جاتی ہے، یوں یہ طریقہ پانی ملنے کے بعد گلوٹینن اور گلیڈین بننے سے روک دیتا ہے۔ پکنے والی چیزوں کا مزہ شکر کے استعمال سے بھی بدلہ جا سکتا ہے۔ جب چینی کو مکھن کے ساتھ پھینٹا جاتا ہے تو شکر کی قلموں کے نوکیلے کنارے ننھے بلبلوں کو بننے میں مدد دیتے ہیں، پھینٹا ہوا آمیزہ زردی مائل روغنی پیلے رنگ کا ہو جاتا ہے۔ یہ بلبلے بھی اسی طرح پھیلتے ہیں جیسے خمیر یا کھانے کے سوڈے سے بننے والے پھیلتے ہیں۔ اس طرح بننے والا کیک بھی ہلکا پھولا ہوا ہوتا ہے۔ ٹھوس کوکیز بنانے کے لئے پگھلی ہوئی چکنائی اور تیل کا اکثر استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ شکر کی قلموں کے پاس بلبلوں کو بننے کا رجحان کم ہو جاتا ہے۔ شکر ہوا میں سے نمی کو بھی کھینچ لیتی ہے یوں یہ ان پکی ہوئی چیزوں میں موجود پانی کی مقدار پر اہم طور پر اثر انداز ہوتی ہے۔ بھوری چینی سفید چینی کے مقابلے میں زیادہ پانی کھینچتی ہے جبکہ باریک پسی ہوئی چینی دانے دار چینی کے مقابلے میں زیادہ پانی کھینچتی ہے۔ کسی بھی ترکیب میں مختلف قسم کی چینی کا استعمال نمی کی مقدار کو تبدیل کرکے اس کے ذائقے پر اثر انداز ہوگا۔
    کیمیا صرف کھانا پکانے تک ہی محدود نہیں ہے۔ یہ کیمیائی تعاملات ہی ہیں جو گوشت کو ذائقے دار بناتے ہیں۔ گوشت میں تقریباً 70 فیصد پانی ہوتا ہے جبکہ باقی 30 فیصد میں زیادہ تر پروٹین اور چکنائی ہوتی ہے۔

    گوشت میں کولیجن کی مقدار متغیر ہوتی ہے اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ گوشت کس حصے کا ہے۔ کولیجن جلد، عضلات اور ربط ساز بافتوں میں موجود ایک ریشہ دار پروٹین ہوتا ہے۔ جس قدر زیادہ کولیجن کی مقدار ہوگی اتنا زیادہ گوشت سخت ہوگا۔ نوجوان جانوروں کے اچھے حصے کے گوشت میں کم کولیجن ہوتا ہے اس لئے اسے جلدی سے پکایا جا سکتا ہے۔ مائیوسن عضلاتی پروٹین کم درجہ حرارت یعنی 50 ڈگری سیلسیس پر اپنی ماہیت تبدیل کر لیتے ہیں اور اس درجہ حرارت پر کراس لنک بنانا شروع کرتے ہیں جس سے گوشت کی ہئیت کو مدد ملتی ہے۔ اس مرحلے پر پروٹین کے درمیان پانی کے سالمات رسنا شروع ہو جاتے ہیں تاہم گوشت رسیلا اور گلا ہوا ہی رہتا ہے۔

    60 ڈگری سیلسیس پر عضلات میں موجود سرخ پگمنٹ – مائیوگلوبن اپنی ماہیت تبدیل کرکے ہیمی کروم میں تبدیل ہو جاتا ہے جس سے پکے ہوئے سرخ گوشت کا رنگ بھورا یا مٹیالے رنگ کا ہو جاتا ہے۔ مزید گرم کرنے پر کولیجن سکڑ اور سمٹ کر پانی کو باہر نکلنے پر مجبور کرتا ہے جس سے گوشت رسیلا اور گلاوٹ شدہ حالت کو چھوڑ کر خشک اور سخت چبانے والا ہو جاتا ہے۔ اگر درجہ حرارت کو مزید بڑھایا جائے فرض کریں کہ 70 ڈگری سیلسیس تک تو گوشت سخت ہونا جاری رکھتا ہے تاہم کولیجن حل ہو کر جلیٹن میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اگرچہ ریشہ دار گوشت زیادہ بھربھرا ہوتا ہے تاہم جلیٹن چکنائی کے طور پر کام کرکے ہلکی آنچ پر پکے ہوئے گوشت کو اس کا نرم 'منہ میں گھل جانے' والا ذائقہ دیتا ہے۔

    حرارت ہی صرف وہ واحد ذریعہ نہیں ہے جس سے کولیجن ٹوٹتا ہے، گوشت کو طبیعی یا کیمیائی طور پر بھی گلایا جا سکتا ہے۔ مسالہ جات میں عام کھانا بنانے والی کیمیائی مادے استعمال کئے جاتے ہیں تاکہ کولیجن کی لڑیوں کے درمیان بندھوں کے ساتھ چھیڑ خانی کی جاسکے – ان کیمیائی مادوں میں لیموں کے رس جیسے تیزاب سے لے کر برومیلین (پائن ایپل میں پایا جاتا ہے) جیسے خامرے تک استعمال ہوتے ہیں۔

    باورچی خانے کی کیمیا کی ایک اور اہم مثال روغن آب کے عمل کی ہے۔ تیل اور پانی کا آمیزہ نہیں بنتا تاہم میونیز اور بیشامل - ایک قسم کی سفید چٹنی یا چاٹ جو پیاز اور جائفل سے تیار کی جاتی ہے – جیسی چٹنیوں میں باورچی کو ان دونوں کو ملانا ہوتا ہے۔ جب پانی اور تیل کو ملایا جاتا ہے تو تیل اوپر تیرتا ہے اور بلند سطحی تناؤ رکھنے والے پانی کے ساتھ سطح مشترک بناتا ہے۔ اس تناؤ کو ختم کرنے کے لئے میکانیکی تراش استعمال کی جا سکتی ہے۔ اس میں برتن کو ہلایا جاتا ہے جس سے تیل چھوٹے سے چھوٹے بلبلے میں ٹوٹتا ہے اور پھر پانی میں منتشر ہو جاتا ہے۔ بہرحال یہ وقتی روغن آب (جس طرح سے سلاد کو سجایا جاتا ہے) ہوتا ہے، اور کچھ دیر بعد پانی اور تیل الگ ہو جاتے ہیں۔
    میونیز میں پانی والی انڈے کی زردی اور چکنائی دار مکھن ہوتا ہے، جنھیں ایک ملائم سفید لبدی بنانے کے لئے لازمی طور پر اچھے طرح سے ملنا ہوتا ہے تاکہ ایک مستقل روغن آب بن سکے۔ انڈے کی زردے میں ایک شیرہ ساز – emulsifier ہوتا ہے جس کو زردین – lecithin کہتے ہیں۔ یہ پانی اور چکنائی دونوں میں ہی حل ہو جاتا ہے۔ اس طرح سے یہ زردی اور مکھن کے درمیان ایک پل بنا لیتا ہے جس سے میونیز روغن آب کو ایک مستقل ہئیت مل جاتی ہے۔ بیشامل جیسے سفید چٹنی کو بنانے میں اسی طرح سے آٹے کو بھی استعمال کیا جا سکتا ہے؛ باریک سفوف مکھن کو مائع کے ساتھ ملنے میں مدد دیتا ہے۔

    کھانے کے ذائقے کا تعین ان طیران پذیر مادوں کے امتزاج سے ہوتا ہے جن کو ہوا سے ہوتا ہوا ہماری ناک سونگھتی ہے۔ ہر کھانے میں اس طرح کے سینکڑوں سالمات ہوتے ہیں، تاہم ذائقے کے امتزاج پر تحقیق کرنے والے سائنس دانوں نے دیکھا کہ اگر اس میں سے کسی ایک کا بھی تال میل ٹھیک سے مل جائے تو کھانا مزے کا لگتا ہے۔ اس تیکنیک کی مدد سے اندازہ لگا کر کئی نئے طرح طرح کے کھانوں کو بنایا جا رہا ہے (ملاحظہ کیجئے عجیب ذائقے)۔

    سالماتی فن غذائیت کھانے بنانے کی سائنس کو اگلی سطح تک لے گئی ہے۔ کھانے کو خالص طبیعیاتی اور کیمیائی نقطہ نظر سے دیکھنے سے کئی طباخ اور سائنس دان مل کر سائنس کی بنیاد پر نئے ذائقوں کے امتزاج اور پکانے کی شناخت کر رہے ہیں۔ مائع نائٹروجن، ٹیکے، مرکز گریزہ، اور الٹرا ساؤنڈ مشین کا استعمال کرکے ہم کھانے بنانے کے نئے طریقے ایجاد کر رہے ہیں۔ سائنسی اصول کے بابائے آدم نیکولس کرٹی کہتے ہیں: ' تہذیب کا غمزدہ کر دینے والا پہلو یہ ہے کہ ہم اگرچہ سیارہ زہرہ کے کرۂ فضائی کے درجہ حرارت کی پیمائش تو کر سکتے ہیں تاہم ہمیں یہ نہیں معلوم کہ ہمارے سُوفلے کے اندر کیا کیمیائی عمل چل رہا ہے۔"

    عالمی ریکارڈ

    پڈنگ 2.1X1.5میٹر

    عظیم الجثہ کھانا

    سات طباخ،  ڈبل روٹی کی ہزار قاشیں، 70 سیب اور 56 انڈے اس عظیم الجثہ پڈنگ بنانے کے لئے درکار تھے جس کا حجم 2.1X1.5 میٹر تھا۔ اس کو بنانے میں 49 گھنٹے لگے۔

    کیا آپ جانتے ہیں؟

    گلوٹین – وہ چپکنے والا پروٹین جو روٹی/کیک کو ایک ساتھ باندھ کر رکھتا ہے – کا لفظ لاطینی زمان کے لفظ گلیو یعنی گوند سے نکلا ہے۔

    انڈوں کا آمیزہ

    انڈوں میں موجود پروٹین اس کو باورچی خانے کے اندر کھانے بنانے کے لئے ہمہ گیر  اور ہر فن مولا بناتا ہے۔ انڈے کی سفیدی میں کئی عالمگیر پروٹین موجود ہوتے جو عام طور پر مڑی ہوئے، گیند کی طرح کی چیزیں ہوتی ہیں جو پانی میں معلق رہتی ہیں۔ بہرحال جب انڈوں کو پکایا جاتا ہے تو پروٹین سیدھا ہو جاتا ہے اور پھر پروٹین کی لڑیوں سے مل کر ایک جال جیسا نیٹ ورک بنا لیتا ہے۔ پانی اس جال میں پھنس جاتا ہے جس سے انڈے کی سفیدی کا نرم ٹیکسچر ملتا ہے۔ جتنا طویل پروٹین کو گرم کیا جائے گا اتنے ہی زیادہ ربط جال میں بنیں گے اور اتنا ہی زیادہ تنگ ٹیکسچر حاصل ہوگا جو بالاخر دبیز اور لچک دار ہوگا۔

    انڈے کی سفیدی کو پکانے سے پہلے اچھی طرح پھینٹنے سے اس میں بلبلے بن جاتے ہیں۔ انڈے کی سفیدے کے باہر موجود امینو ایسڈ آب پسند (پانی  کو کشش کرتا ہے) ہوتا ہے جبکہ بلبلوں کے اندر والے آب روک (پانی کو دھکیلنے والا) ہوتا ہے۔ جب پروٹین کو کسی ہوائی بلبلے سی دھکا دیا جاتا ہے تو پانی سے پیار کرنے والا امینو ایسڈ ہوا سے دور جانے کی کوشش کرتا ہے – اس سے پروٹین کی ساخت سیدھی ہوتی ہے تاکہ وہ بلبلے کے آس پاس پانی کی مہین پرت میں 'چھپ' سکے۔ جب اس سیدھی ہوئی ساخت کو گرم کیا جاتا ہے، تو پروٹین ایک دوسرے سے مربوط ہو کر بلبلوں کو درست رکھتے ہیں جس سے  پھولے ہوئے کیک، انڈے کا حلوہ، سوفلے اور کئی دیگر کھانوں کو ذائقہ ملتا ہے۔

    مسالہ جات میں عام کھانا بنانے کے کیمیائی چیزوں کو استعمال کیا جاتا ہے جو کولیجن کی لڑیوں کے درمیان بندھوں سے چھیڑ خانی کرتے ہیں۔

    عجیب لیکن سچ

    لوبیہ کے بھنے ہوئے دانے

    تلے ہوئے لوبیا کے دانوں کو کتنی مرتبہ دوبارہ تلا جاسکتا ہے؟
    اے۔ ایک مرتبہ
    بی۔ دو مرتبہ
    سی۔ سات مرتبہ

    جواب: دوبارہ تلا ہوا لوبیہ – کچل کر پکائے ہوئے لوبیہ کا روایتی میکسیکو کاکھانا – اصل میں ایک ہی مرتبہ تلی جاتی ہے۔ دوبارہ تلا ہوا نام اصل میں ترجمے کی غلطی سے ہوا۔   ‘Frijoles refritos’ کا اصل مطلب اچھی طرح سے تلا ہوا لوبیہ ہے تاہم ترجمہ کرتے وقت غلطی ہوگئی۔

    کیا آپ جانتے ہیں؟

    اکثر سمجھے جانے کے برخلاف زبان مختلف حصوں میں تقسیم نہیں ہوتی۔ پانچ بنیادی ذائقوں کو زبان میں ہر جگہ محسوس کیا جاتا ہے۔

    کیا کھانا کھانے سے ہم خوش ہو سکتے ہیں؟

    لوگ اکثر کسی خاص کھانے کی اشتہا کا ذکر کرتے ہیں اور کچھ مخصوص اور من پسند کھانا کھانے سے وہ خوش ہوتے ہیں۔ بطور نوع ہمارا ارتقاء ایسے ہوا ہے کہ اچھا کھانا ہمیں خوش رکھتا ہے۔ ارتقاء کی وجہ سے ہم اپنے آپ کو زندہ رکھنے کے لئے بلند حراروں والی خوراک کو پسند کرتے ہیں کیونکہ ماضی میں خوراک نایاب ہوتی تھی۔

    انسانی دماغ اس طرح سے بنا ہے کہ جب وہ چکنائی اور شکر رکھنے والا کھانا کھاتا ہے تو اسے تسکین ملتی ہے جس سے ڈوپامائن اور اینڈروفن جیسے طبیعت کو خوش گوار کرنے والے نیورو ٹرانسمیٹر کا اخراج ہوتا ہے۔ غالباً سب سے زیادہ تحقیق چاکلیٹ پر ہوئی ہے، اس میں فینیلیتھیلامائن موجود ہوتا ہے اور یہ جسم میں افیون کی پیداوار کو متاثر کرتا ہے۔ دوسری طرف پسندیدہ کھانا نفسیاتی طور پر بھی کام کرتا ہے اور خوش گوار احساس پیدا کرتا ہے جس کا زیادہ تر ربط دیکھنے، سونگھنے اور چکھنے سے ہوتا ہے جو اکثر پرانی میٹھی یادوں کی یاد دلاتے ہیں۔

    عجیب ذائقے


    چاکلیٹ اور نمک

    نمک حقیقت میں آپ کی زبان کے خلیوں کو شکر کی موجودگی کا احساس کرنے میں مدد دیتا ہے لہٰذا یہ چاکلیٹ کو اور زیادہ مٹھاس دیتا ہے۔

    مونگ پھلی مکھن اور سیب

    سیب میں نمک اور چکنائی نہیں ہوتی اس کا ازالہ مونگ پھلی کا مکھن کردیتا ہے۔ سیب مونگ پھلی کے مکھن کی مرغنی اور چپچپاہٹ کو کم کرتا ہے۔

    ترنجی پھل اور دودھ

    ترنجی پھل میں پایا جانے والا تیزاب دودھ کو پھاڑ دیتا ہے – پنیر بنانے کا پہلا قدم۔ یہ زیادہ اشتہا انگیز نہیں ہے۔

    مرچی کا سفوف اور پھل

    مرچ میں موجود کیپسیکن مرکب کے دو اثرات ہوتے ہیں: یہ ہماری سونگھنے کی حس  اور میٹھاس چکھنے کے احساس میں بھی اضافہ کرتا ہے۔

    کافی اور  زیتون

    ہمارا ارتقاء کچھ اس طرح ہوا ہے کہ ہم کڑواہٹ کا تعلق زہر سے ملاتے ہیں۔ لہٰذا کڑوی چیزوں کو ملا کر اکثر ناخوشگوار ذائقہ بنتا ہے۔

    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: ذائقے کی سائنس Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top