Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    ہفتہ، 13 جون، 2015

    ناممکن کی طبیعیات - 2۔ پوشیدگی

    جب تک آپ کا تخیل مرتکز نہ ہو، اس وقت تک آپ اپنی آنکھوں پر بھروسہ نہیں کر سکتے۔ 

    - مارک ٹوئن (Mark Twain)

    اسٹار ٹریک IV: دی وائیج ہوم(Star Trek IV: The Voyage Home) فلم سیریز میں ،" کلنگون" (Klingon) گشتی جنگی جہاز کو" انٹرپرائز” کے عملے نے اغواء کرلیا تھا۔ فیڈریشن اسٹار فلیٹ کے دوسرے خلائی جہازوں سے ہٹ کر کلنگون ریاست کے خلائی جہاز کے پاس ایک خفیہ "سلیمانی جبے نما آلہ" تھا جو اس کو ریڈار کی پہنچ سے غائب کر دیتا تھا اس طرح سے کلنگون خلائی جہاز فیڈریشن کے خلائی جہازوں کے پیچھے جا پہنچتا تھا اور وہاں سے ان پر شب خون مارتا تھا۔ اس سلیمانی جبے نے کلنگون ریاست کو سیاروں کی ریاست پر ایک تزویراتی برتری دی ہوئی تھی۔

    سوال یہ ہے کہ کیا سلیمانی جبہ بنانا ممکن ہے؟ سائنسی افسانوں اور خیالی دنیا میں" پوشیدہ آدمی " (The Invisible Man)کے صفحات سے لے، ہیری پوٹر ناول کے جادوئی سلیمانی جبے تک، اور "دا لارڈ آ ف دا رنگس "(The Lord of the Rings) کی انگوٹھی تک ایک لمبے عرصے سے" پوشیدگی" (Invisibility) ایک عجوبہ بنی ہوئی ہے۔ اس کے باوجود ایک صدی تک ماہرین طبیعیات نے سلیمانی جبے جیسی کسی چیز کے ہونے کویہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا تھا کہ ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔ ایسی کسی بھی چیز کا وجود بصری قوانین کے برخلاف ہوگا۔ مزید براں یہ کہ مادّے کی کوئی بھی خصوصیت اس بات کی اجازت نہیں دیتی۔

    کل کی ناممکن چیز آج ممکن ہو سکتی ہے۔ میٹا مٹیریل کے میدان میں پیش قدمی نے بصریات سے متعلق کتابوں میں انقلاب برپا کر دیا۔ تجرباتی بنیادی پراس مٹیریل کے پروٹو ٹائپ تجربہ گاہوں میں بنائے جا چکے ہیں جنہوں نے ظاہر کو پوشیدہ بنا دیا ہے۔ ظاہر کو پوشیدہ کرنے کی اس خاصیت نے ذرائع ابلاغ ، صنعت، اور افواج کی زبردست توجہ حاصل کر لی ہے۔


    پوشیدگی تاریخ کے آئینے میں 

    پرسییس کی سلیمانی ٹوپی ۔

    پوشیدگی یا غیر مرئی ہونا شاید قدیمی دیومالائی تصوّرات میں ایک سب سے پرانا تصوّر ہے۔ جب سے تاریخ لکھنا شروع ہوئی ہے ، تنہا اور اکیلے لوگ غیر مرئی روحوں سے ڈرتے رہے ہیں جو بہت عرصے پہلے مرنے والوں کی آتما کی شکل میں رات کی تاریکی میں گھات لگا کر بیٹھی ہوئی ہوتی تھیں۔ یونانی ہیرو "پر سیس"(Perseus) سلیمانی ٹوپی کے سہارے شیطانی میڈوسا(Medusa) کا سر قلم کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا ۔فوج کے سپا سالاروں کے لئے سلیمانی ٹوپی جیسا کوئی آلہ ایک خواب رہا ہے۔ پوشیدہ رہ کر کوئی بھی دشمن کی صفحوں میں گھس کر آسانی کے ساتھ انھیں بے خبری میں پکڑ سکتا ہے۔ جرائم پیشہ افراد پوشیدگی کا فائدہ اٹھا کر زبردست قسم کے ڈاکے ڈال سکتے ہیں۔

    پلاٹو اپنے شاگرد کے ساتھ ۔


    "پلاٹو"(Plato) کے "نظریئے حسن عمل اور ضابطہ اخلاق"(Theory of Ethics and Mortality) میں پوشیدگی نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ اس فلسفیانہ شاہکار "دی ریپپلک"(The Republic)میں پلاٹو نے جائیجیس (Gyges)کی انگوٹھی کے قصّے کو بیان کیا ہے۔ جس میں غریب مگر دیانت دار چرواہا جائیجیس جو "لیڈیا" (Lydia) میں رہتا تھا وہ کسی طرح سے ایک خفیہ غار میں پہنچ جاتا ہے جہاں اس کو ایک مقبرے میں موجود لاش ملتی ہے جس نے ایک سونے کی انگوٹھی پہنی ہوئی ہوتی ہے۔ جائیجیس کو جلد ہی پتا چل جاتا ہے کہ یہ سونے کی انگوٹھی ایک جادوئی اثر رکھتی ہے جو اس کو لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ کر سکتی ہے۔ جلد ہی غریب چرواہا اس طاقت کے نشے میں چور ہو جاتا ہے جو اس جادوئی انگوٹھی کے نتیجے میں اس نے حاصل کی تھی۔ بادشاہ کے محل میں چوری چھپے گھسنے کے بعد جائیجیس اپنی طاقت ملکہ کو لبھانے کے لئے استعمال کرتا ہے ۔بعد میں ملکہ کی مدد سے وہ بادشاہ کو قتل کرکے لیڈیا کا اگلا بادشاہ بن جاتا ہے۔

    اس کہانی سے جو پلاٹو سبق دینا چاہتا تھا وہ یہ تھا کہ انسانوں کی اکثریت ایسی ہے جس میں ان کو جب طاقت اور موقع ملتا ہے وہ بغیر کسی دباؤ کے قتل اور چوری کرنے سے باز نہیں آتے۔ اس میں امیر و غریب کی کوئی قید نہیں ہے۔ زیادہ تر انسان آسانی سے شیطان کے بہکاوے میں آ سکتے ہیں۔ ضابطہ اخلاق ایک ایسی معاشی عمارت ہے جسے زبردستی بنا کر نافذ کیا جاتا ہے۔ آدمی عوام الناس کے درمیان نیک بن سکتا ہے تاکہ اس کی نیک نامی، دیانت داری اور ایمانداری کی بدولت لوگوں میں برقرار رہے۔ لیکن ایک دفعہ اس کے پاس پوشیدگی کی طاقت آ جائے تو اس طاقت کا استعمال ناقابل مزاحمت ہو جاتا ہے۔(کچھ لوگوں کے خیال میں یہ حسن اخلاق کی کہانی "جے آر آر ٹولکن" ( J.R.R.Tolkien)کی لارڈ آ ف دا رنگ کی مثلث سے متاثر ہو کر لی گئی ہے جس میں انگوٹھی اس کے پہننے والے کو پوشیدگی کے ساتھ ساتھ شیطانی مخرج بھی بنا دیتی ہے۔ 

    پوشیدگی سائنس فکشن میں ایک عام سی چیز ہوتی ہے۔١٩٣٠ء کی فلیش گورڈن کی سیریز میں ، ایک کردار جس کا نام فلیش تھا وہ پوشیدہ ہو جاتا ہے تاکہ بے رحم منگ کے فائرنگ اسکواڈ سے فرار حاصل کر سکے۔ ہیری پوٹر کے ناولوں اور فلموں میں ہیری ایک سلیمانی جبہ پہن لیتا ہے جس کی مدد سے وہ "ہوگورٹ"(Hogwart) کے محل میں بغیر کسی کی نظر میں آئے ہوئے آوارہ گردی کرتا ہے۔

    ہیری پوٹرسلیمانی جبہ پہنے ہوئے۔

    ایچ جی ویلز نے اس دیومالائی خواہش کو اپنے کلاسک ناول "پوشیدہ آدمی " میں ٹھوس شکل میں پیش کیا۔ اس ناول میں ایک طب کا طالبعلم حادثاتی طور پر چوتھی جہت کی طاقت دریافت کر لیتا ہے اور اس کی مدد سے پوشیدہ ہو جاتا ہے۔ بدقسمتی سے وہ اس زبردست طاقت کو اپنے ذاتی فائدے کے لئے استعمال کرتا ہے ، وہ جرائم کرنا شروع کرتا ہے اور آخر کار بے بسی کی موت میں اس وقت مارا جاتا ہے جب وہ پولیس سے بھاگنے کی کوشش کرتا ہے۔ 


    میکسویل کی مساوات اور روشنی کا راز

    جیمز  کلارک میکسویل ۔

    جب تک ا سکاٹ لینڈ کے رہائشی - ماہر طبیعیات جیمز کلرک میکسویل کا کام منظر عام پر نہیں آیا اس وقت تک طبیعیات دانوں کی بصری قوانین پر گرفت کافی کمزور تھی۔ یہ ماہر طبیعیات انیسویں صدی کے طبیعیات دانوں میں ایک بڑا نام تھا۔ ایک طرح سے میکسویل ، مائیکل فیراڈے کا برعکس تھا۔ فیراڈے کا تجرباتی وجدان شاندار قسم کا تھا مگر اس نے باضابطہ کوئی تربیت حاصل نہیں کی تھی، میکسویل، جو فیراڈے کا ہم عصر تھا اس نے ریاضی پر مکمل عبور حاصل کر لیا تھا۔ اس نے کیمبرج میں طبیعیاتی ریاضی میں بطور طالبعلم نہایت ممتاز مقام پایا تھا جہاں پر آئزک نیوٹن نے دو صدی قبل ہی اس کا کام آسان کر دیا تھا۔

    آئزک نیوٹن۔

    نیوٹن نے" علم الا حصا ء"(Calculus) کو ایجاد کیا تھا جو "تفرقی مساوات" (Differential Equations)کی زبان میں بیان کیا گیا تھا ۔یہ اس بات کو بیان کرتا ہے کہ کس طرح اشیاء یکسانی کے ساتھ صغاری تبدیلیوں کو زمان و مکان میں جھیلتی ہیں۔ سمندروں کی موجوں کی حرکت، سیال، گیسیں، اور توپ کے گولے یہ سب چیزیں تفرقی مساوات کی صورت میں بیان کی جا سکتی ہیں۔ میکسویل نے بڑے واضح مقصد کے ساتھ فیراڈے کی انقلابی دریافتوں اور اس کی قوّت کے میدان کو انتہائی درستگی کے ساتھ تفرقی مساوات کی صورت میں بیان کیا۔ 

    میکسویل نے فیراڈے کی اس دریافت سے شروعات کی کہ برقی میدان ، مقناطیسی میدان میں بصورت معکوس تبدیل ہو سکتا ہے۔ اس نے فیراڈے کی قوّت کے میدان کی نقشہ کشی لی اور اس کو دوبارہ سے ہوبہو تفرقی مساوات میں لکھا جس کے نتیجے میں جدید سائنس کی دنیا میں ایک سب سے اہم مساوات کا سلسلہ وجود میں آیا۔ وہ ایک آٹھ سلسلوں کی انتہائی خوفناک لگنے والی تفرقی مساوات تھیں۔ دنیا میں موجود ہر طبیعیات داں اور انجنیئر جب وہ برقی مقناطیسیت کے شعبے میں کسی یونیورسٹی سے ماسٹر کی سند لیتا ہے تو وہ اس پر عہد لیتا ہے۔

    اس کے بعد میکسویل نے خود سے نتیجہ خیز سوال کیا: اگر مقناطیسی میدان بصورت معکوس برقی میدان میں تبدیل ہو سکتے ہیں تو اس وقت کیا ہوگا جب وہ کبھی ایک نہ ختم ہونے والے چکر میں ایک دوسرے میں تبدیل ہوتے رہیں؟ میکسویل نے یہ بات معلوم کر لی تھی کہ برقی مقناطیسی میدان سمند کی موجوں کی طرح کی موجیں پیدا کرتے ہیں۔ اپنے تحیر کی خاطر اس نے ان موجوں کی رفتار کو ناپا اور ان کو روشنی کی رفتار کے برابر پایا! ١٨٦٤ء میں اس بات کو جاننے کے بعد اس نے پیش بینی کے طور پر لکھا :"یہ سمتی رفتار روشنی کی رفتار سے اس قدر نزدیک ہے کہ ہمیں لگتا ہے کہ ہمارے پاس اس بات کا نتیجہ نکالنا کی مضبوط دلیل ہے کہ روشنی خود سے۔۔۔۔۔برقی مقناطیسی خلل ہے۔"

    یہ شاید انسانیت کی تاریخ میں سب سے عظیم دریافت تھی۔ انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ روشنی کا راز ظاہر ہوا تھا۔ میکسویل نے اچانک اس بات کو محسوس کیا کہ طلوع سورج کی تابانی سے لے کر ہر چیز، غروب آفتاب، قوس و قزح کے خیرہ کناں رنگ، فلک میں موجود سماوی ستاروں تک ہر چیز کو ان موجوں کی صورت میں بیان کیا جا سکتا ہے جس کو اس نے کاغذ کے پنے پر مساوات کی شکل میں لکھا تھا۔ آج ہم اس بات کو جان چکے ہیں کہ برقی مقناطیسی طیف - ریڈار سے لے کر ٹیلی ویژن تک، "زیریں سرخ روشنی"(Infrared) ، بصری روشنی، بالائے بنفشی روشنی (Ultraviolet Light)،ایکس ریز، خرد موجیں(Microwaves)، اور گیما اشعاع یہ سب میکسویل کی موجیں ہی تو ہیں جو دوسرے الفاظ میں فیراڈے کی قوّت میدان کی تھرتھراہٹ ہیں۔ 

    میکسویل کی مساوات کی اہمیت پر تبصرہ کرتے ہوئے آئن سٹائن نے لکھا ہے کہ "یہ وہ سب سے زیادہ گہرا اثر ڈالنے والی اور فائدہ مند دریافت ہے جس کو طبیعیات کی دنیا نے نیوٹن کے بعد سے لے کراب تک جانا ہے۔"

    (افسوس کہ میکسویل جو انیسویں صدی کا ایک عظیم طبیعیات دان تھا وہ عہد شباب میں جب اس کی عمر صرف ٤٨ برس کی تھی ؛معدے کے کینسر کی وجہ سے انتقال کر گیا تھا۔ شاید یہ وہی وجہ تھی جس کے نتیجہ میں اس کی ماں کا بھی انتقال اسی عمر میں ہوا تھا۔ شاید اگر وہ زندہ رہتا ، تو وہ اس بات کو دریافت کر لیتا کہ اس کی مساوات زمان و مکان میں خلل ڈالنے کی اجازت دیتی ہے جو سیدھی آئن سٹائن کی نظریے اضافت کی طرف جاتی ہے۔ یہ بات بہت زیادہ متحیر کر دینے والی ہے کہ اگر میکسویل لمبی عمر پاتا تو اضافیت کا نظریہ ممکنہ طور پر امریکہ کی سول وار کے دوران ہی دریافت ہو سکتا تھا۔)

    میکسویل کی روشنی کے نظرئیے اور ایٹمی نظرئیے نے بصریات اور پوشیدگی کی سادہ تشریح کردی تھی۔ ٹھوس چیزوں میں ایٹم کس کر بندھے ہوئے ہوتے ہیں جبکہ مائع اور گیس میں سالموں کے درمیان کافی فاصلہ ہوتا ہے۔ زیادہ تر ٹھوس اشیاء غیر شفاف ہوتی ہیں کیونکہ روشنی کی اشعاع ٹھوس اجسام میں ایٹموں کے کثیف میٹرکس میں سے نہیں گزر سکتیں جو اس کے لئے اینٹوں کی دیوار کا کام کرتے ہیں۔ اس کے برخلاف کئی مائع اور گیسیں شفاف ہوتی ہیں کیونکہ روشنی تیزی سے ان ایٹموں کے درمیان موجود بڑی خالی جگہوں میں سے پاس ہو سکتی ہے۔ ان ایٹموں کے درمیان یہ خالی جگہ بصری روشنی کی موجوں سے بڑی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر جیسا کہ مائع مثلاً پانی، الکحل ، امونیا، ایسٹوں ، ہائیڈروجن پیرا آکسائڈ ، گیسولین وغیرہ شفاف ہوتے ہیں بعینہ ایسے ہی گیسیں بھی شفاف ہوتی ہیں جن میں آکسیجن، ہائیڈروجن، نائٹروجن، کاربن ڈائی آکسائڈ ، میتھین وغیرہ شامل ہیں۔

    مادّے کی سالماتی اشکال ۔

    یہاں پر اس اصول کی کچھ اہم استثناء بھی موجود ہیں۔ کئی قلمیں ٹھوس ہونے کے باوجود شفاف ہوتی ہیں۔ مگر قلموں میں ایٹم ہوبہو ایک جالی کی صورت میں ترتیب وار انبار کی صورت میں صف بند ہوتے ہیں جن کے درمیان یکساں خالی جگہ ہوتی ہے۔ لہٰذا قلموں میں کئی ایسے راستے موجود ہو سکتے ہیں جہاں روشنی کی کرن جالی کے درمیان کی خالی جگہ سے نکل جاتی ہے۔ لہٰذا قلم اتنے ہی کسے ہوئے ایٹموں سے بندھی ہوئی ہوتی ہے جتنا کہ ایٹم کسی ٹھوس مادّے میں بندھے ہوئے ہوتے ہیں اس کے باوجود روشنی قلم میں سے گزرنا کا راستہ بنا سکتی ہے۔

    پہاڑی نمک کی قلمیں  شفاف ہوتی  ہیں۔

    نمک کی قلموں کی  سالماتی ساخت ۔

    کئی طرح کی صورتحال میں ٹھوس اشیاء بھی شفاف بن سکتی ہیں اگر ان میں موجود ایٹم بے ترتیب ہوں۔ ایسا کئی مادّوں کو بلند درجہ حرارت پر گرم کرکے تیزی سے ٹھنڈا کرنے کے بعد کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر شیشہ ٹھوس ہے مگر اس میں مائع کی کئی خصوصیات موجود ہیں کیونکہ اس میں ایٹم کسی خاص ترتیب سے نہیں مرتب ہوتے ہیں۔ کئی قسم کی ٹوفیاں اس طریقے کی مدد سے شفاف بنائی جا سکتی ہیں۔

    شیشہ ٹھوس ہونے کے باوجود شفاف ہوتا ہے۔

    شیشے کی سالماتی ساخت ۔

    میکسویل کی مساوات ہمیں بتاتی ہے کہ واضح طور پر پوشیدگی ایک ایسی خاصیت ہے جو کہ ایٹمی پیمانے پر حاصل کی جا سکتی ہے۔ لہٰذا پوشیدگی کو عام مادّے میں حاصل کرنا حد درجہ مشکل ضرور ہوگا مگر یہ ناممکن نہیں ہے۔ ہیری پوٹر کو غائب ہونے کے لئے پہلے تو سیال میں تبدیل ہونا ہوگا ، اس کے بعد اس کو ابلنا ہوگا تاکہ وہ بھاپ بن سکے ، پھر اس کی قلم بنانی ہوگی ، جس کے بعد اس کو دوبارہ گرم کرکے ٹھنڈا کرنا ہوگا۔ ظاہر سی بات ہے ہیری پوٹر کو غائب کرنے کے لئے یہ سب کچھ کرنا کسی جادوگر کے لئے بھی آسان نہیں ہوگا۔

    فوج ابھی تک غیر مرئی جہاز بنانے کو قابل نہیں ہوئی ہے اگرچہ فوجی اداروں نے اس سے ملتی جلتی سب سے بہتر چیز بنانے کی کوشش ضرور کی ہے: یعنی در پردگی کی ٹیکنالوجی (Stealth Technology) ، جو ہوائی جہاز کو ریڈار کی نظروں سے اوجھل کر دیتی ہے۔ در پردگی کی ٹیکنالوجی میکسویل کی مساوات پر تکیہ کرتے ہوئے چالوں کا ایک سلسلہ شروع کرتی ہے۔ در پردگی کی صلاحیت کا حامل لڑاکا طیارہ مکمل طور پر انسانی آنکھ سے دکھائی دیتا ہے لیکن دشمن کے ریڈار کی اسکرین پروہ صرف کسی بڑے پرندے جیسا نظر آتا ہے۔(در پردگی کی ٹیکنالوجی اصل میں مختلف ترکیبوں کی کھچڑی ہوتی ہے۔ لڑاکا طیارے کے اندر کے مادّے میں رد و بدل کیا جاتا ہے، مثلاً طیارے میں ا سٹیل کی مقدار کو کم کرکے پلاسٹک اور لاکھ(Resins) کا استعمال کیا جاتا ہے ، طیارے کے جسم کو بنانے کے لئے مختلف زاویوں کا استعمال کیا جاتا ہے ،اس طیارے میں دھوئیں کے اخراج کے پائپوں کی ترتیب بھی بدل دی جاتی ہے اور اسی طرح سے دوسری کئی تبدیلیاں کی جاتی ہیں ۔اس طرح سے دشمن کے ریڈار سے نکلنے والی شعاعیں جہاز سے ٹکرا کر ہر سمت پھیل جاتی ہیں جس کے نتیجے میں وہ دشمن کے ریڈار کی اسکرین پر کبھی واپس نہیں جاتی۔ مگر اس در پردگی کی ٹیکنالوجی کے استعمال کے باوجود لڑاکا طیارہ مکمل طور پر غائب نہیں ہوتا اس کے بجائے وہ ریڈار سے آنے والی شعاعوں کو جتنا تکنیکی طور پر ممکن ہو سکتا ہے اتنا موڑ کر پھیلا دیتا ہے۔)
    ریڈار کی اسکرین پر نظر نہ آنے والا جہاز۔


    میٹامٹیریل اور پوشیدگی 

    شاید مخفی رہنے کے سلسلے میں سب سے زیادہ امید افزا پیش رفت مادّے کی ایک نئی پراسرار قسم میں ہوئی ہے جس کو میٹا مٹیریل کہتے ہیں۔ یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ اس کے ذریعہ ایک دن اشیاء کو صحیح معنی میں غائب کیا جا سکے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایک زمانے میں میٹا مٹیریل کی تخلیق کو ناممکن سمجھا جاتا تھا کیونکہ یہ طبیعیات کے مروجہ قوانین کی خلاف ورزی کرتا تھا۔ ٢٠٠٦ء میں امریکی ریاست شمالی کیرولینا میں واقع ڈیوک یونیورسٹی اور برطانوی شہر لندن میں موجود امپیریل کالج میں محققین نے کامیابی کے ساتھ روایتی سوچ کا مقابلہ کیا اور ایک ایسا میٹامٹیریل بنایا جو خرد موجی شعاعوں (Microwave Radiation)کے لئے غیر مرئی رہتا ہے۔ اگرچہ ابھی بہت سے مسائل پر قابو پانا باقی ہے لیکن تاریخ میں پہلی بار ہم نے کسی عام مادّے کو خرد امواج سے پوشیدہ کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔(اس تحقیق کے لئے مالی تعاون پینٹاگون کی ڈیفنس ایڈوانسڈ ریسرچ پروجیکٹ ایجنسی [دارپا] نے کیا ہے۔)

    خرد امواج کے لئے میٹامٹیریل  سے بنا سلیمانی جبہ۔

    ناتھن میہر ولڈ(Nathan Myhrvold) مائیکروسافٹ کے سابق چیف ٹیکنالوجی افسر ہیں وہ کہتے ہیں " میٹامٹیریل میں موجود انقلابی صلاحیت مکمل طور پر ہماری بصریات اور برقی اشیاء کے ہر پہلو کو سمجھنے کی سوچ کو تبدیل کر دے گی۔۔۔۔کچھ میٹامٹیریل تو اس قسم کے کرتب دکھا سکتے ہیں جو آج سے کچھ دہائیوں قبل تک معجزاتی لگتے تھے۔"

    یہ میٹامٹیریل آخر میں ہیں کیا؟ یہ وہ مادّے ہیں جن میں وہ بصری خصوصیات موجود ہیں جو قدرتی طور پر نہیں پائی جاتی ہیں۔ میٹامٹیریل بنانے کے لئے اس مادّےکے اندر ہی چھوٹے امپلانٹ نصب کیے جاتے ہیں تاکہ وہ برقی مقناطیسی موجوں کو مسلمہ راستے سے مڑنے پر مجبور کریں۔ ڈیوک یونیورسٹی میں سائنس دانوں نے چھوٹے برقی سرکٹ تانبے کی تاروں کے جتھے میں گھسا دئیے جو ہموار ترتیب میں رکھے ہوئے مرتکز دائروں کی شکل میں تھے(کچھ ان کی شکل برقی بھٹی میں موجود لچھوں جیسی تھی)۔ نتیجے میں انتہائی پیچیدہ سفل گری (سرامک)،مومی مادّہ ( ٹیفلون)،ریشے کے مرکبات ( فائبر کمپوزٹ) اور دھاتی اجزاء کا آمیزہ وجود میں آیا۔ تانبے کی تاروں میں لگے ہوئے ننھے امپلانٹ نے خرد موجوں کو ایک خاص طریقے سے انضباط کرکے ایک مخصوص راستے پر خم دے کر گزرنے کے عمل کو ممکن بنایا۔ ذرا تصور کریں کہ دریا کسی پتھر کی سل کے ارد گرد سے ہوتا ہوا بہہ رہا ہو۔ کیونکہ پانی تیزی سےپتھر کی سل کے گرد لپٹتا ہے لہٰذا سل پانی کے بہاؤ کی طرف گر جائے گی۔ اسی طرح سے میٹامٹیریل مسلسل خرد امواج کے راستے کو تبدیل اور خم دیتے رہتے ہیں تاکہ وہ سلنڈر کے آس پاس بہہ سکے جس کے نتیجے میں سلنڈر کے اندر موجود ہر چیز خرد موجوں کے لئے پوشیدہ ہوگی۔ اگر میٹامٹیریل تمام انعکاس اور سائیوں کو حذف کر دیں تو اس وقت یہ کسی بھی اشیاء کو ہر قسم کی اشعاع سے مکمل طور پر مخفی رکھ سکیں گے۔

    فائبر گلاس سے بنا میٹامٹیریل۔

    سائنس دانوں نے اس اصول کا کامیابی سے مظاہرہ ایک ایسے آلے کی مدد سے کیا جس کو دس فائبر گلاس کے چھلوں سے بنایا تھا جن کے گرد تانبے کا مرکب لپیٹا ہوا تھا۔ آلے کے اندر موجود تانبے کے چھلے خرد موجی اشعاع کے لئے تقریباً غائب ہی تھے انہوں نے صرف چھوٹا سا سایہ ہی بنایا تھا۔

    میٹامٹیریل کا اصل کمال جوڑ توڑ کرنے کی وہ قابلیت ہے جس کو "انعطاف نما"(Index of Refraction) کہتے ہیں۔ انعطاف شفاف ذریعہ میں سے گزرتی ہوئی روشنی کے جھکاؤ کو کہتے ہیں۔ اگر آپ اپنا ہاتھ پانی میں رکھیں یا آپ اپنے چشمے کے عدسے سے دیکھیں تو آپ کو پانی اور چشمہ عام روشنی کے راستے کو خم دیتے ہوئے بگاڑتا ہوا نظر آئے گا۔

    پانی یا چشمے کے عدسے میں سے گزرتی روشنی کے خم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ روشنی کی رفتار کسی کثیف شفاف شئے میں داخل ہونے کے بعد آہستہ ہو جاتی ہے۔ روشنی کی رفتار خالص خلاء میں ہمیشہ ایک جیسی رہتی ہے۔ مگر پانی یا گلاس کے اندر دوڑتی ہوئی روشنی کو دسیوں کھرب ایٹموں میں سے گزرنا پڑتا ہے لہٰذا اس کی رفتار آہستہ ہو جاتی ہے۔(روشنی کی رفتار کو کسی شئے کے اندر موجود دھیمی روشنی کی رفتار سے تقسیم کرنے کا عمل انعطاف نما کہلاتا ہے۔ کیونکہ روشنی ہمیشہ شیشے میں صفر کرتی ہوئی آہستہ ہو جاتی ہے لہٰذا انعطاف نما ہمیشہ ١ سے زیادہ ہی ہوگا)۔ مثال کے طور پر خلاء میں انعطاف نما ١ ہوگا، ہوا میں ١۔٠٠٠٣،شیشے میں ١۔٥ اور ہیرے میں ٢۔٤ ہوگا۔ عام طور سے جتنی زیادہ کثیف چیز ہوگی اتنا درجہ زیادہ ہی اس کا جھکاؤ اور انعطاف نما ہوگا۔

    سڑک پر بنا پانی کا سراب ۔

    انعطاف نما کی مشہور زمانہ مثال سراب (Mirage)کی ہے۔ اگر کبھی آپ کسی گرم دن میں گاڑی چلاتے ہوئے سیدھا افق کی جانب دیکھیں گے تو آپ کو سڑک جھلملاتی ہوئی نظر آئے گی جس کے نتیجے میں آپ کو ایک دمکتی ہوئی جھیل دکھائی دے گی۔ صحرا میں تو لوگوں کو دور دراز کے شہر اور پہاڑوں کے سائے بھی افق پر نظر آتے ہیں۔ سراب بننے کی وجہ سڑک یا ریگستان پر سے اٹھتی ہوئی گرم ہوا کی کثافت ہے جو عام ہوا کی با نسبت کم ہوتی ہے لہٰذا اس کا انعطاف نما آس پاس کی ٹھنڈی ہوا کے مقابلے میں کم ہوتا ہے لہٰذا دور دراز کے اجسام سے آتی ہوئی روشنی سڑک سے منعطف(Refreacted) ہو کر ہماری آنکھوں تک پہنچتی ہے جس سے ہمیں دھوکہ ہوتا ہے کہ ہم دور دراز پر واقع ان چیزوں کو دیکھ رہے ہیں۔

    عام طور سے انعطاف نما مستقل ہوتا ہے۔ روشنی کی ایک تنگ کرن جب شیشے میں داخل ہوتی ہے تو خم کھاتی ہے لیکن خم کھانے کے بعد پھر سے وہ خط مستقیم پر سفر کرنے لگتی ہے۔ تھوڑی دیر کے لئے فرض کریں کہ ہم انعطاف نما کو اپنی مرضی سے منضبط کر سکتے ہیں لہٰذا ہم اسے شیشے میں ہر نقطہ پر مسلسل تبدیل کر سکتے ہیں۔ جیسے ہی روشنی اس نئے مادّہ میں داخل ہوگی روشنی کو نئے راستوں پر خمیدہ اور گھمایا جا سکے گا جس کے نتیجے میں وہ سانپ کی چال کی طرح اس پورے مادّے میں آوارہ گردی کرتی پھرے گی۔ 

    انعطاف شفاف ذریعہ میں سے گزرتی ہوئی روشنی کے جھکاؤ کو کہتے ہیں۔ مثبت اور منفی انعطاف نما کا موازنہ۔
    اگر ہم انعطاف نما کو کسی میٹامٹیریل میں اپنی مرضی کا تابع کر لیں جس سے روشنی اس شئے آس پاس سے گزر جائے تو وہ شئے نظروں سے مخفی ہو سکے گی۔ اس امر کو ممکن بنانے کے لئے میٹامٹیریل کے انعطاف نما کو منفی ہونا پڑے گا جس کو طبیعیات کی ہر ٹیکسٹ بک ناممکن کہتی ہے۔(میٹامٹیریل کا نظریہ سب سے پہلے روسی طبیعیات دان وکٹر ویس لوگو (Victor Veselago)نے ١٩٦٧ میں پیش کیا جس میں اس نے عجیب بصری خصوصیات جیسے کہ منفی انعطاف نما اور ڈوپلر اثر(Doppler Effect) کے متضاد جیسی چیزیں بیان کی تھیں۔ میٹامٹیریل اتنی عجیب اور خلاف عقل لگتے ہیں کہ کسی زمانے میں ان کی تخلیق ناممکن سمجھی جاتی تھی۔ لیکن پچھلے چند سال میں میٹامٹیریل کو تجربہ گاہوں میں بنا لیا گیا ہے اور اس چیز نے متذبذب ماہرین طبیعیات کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ بصریات سے متعلق تمام ٹیکسٹ بکس کو دوبارہ سے لکھیں۔)

    میٹامٹیریل پر تحقیق کرنے والے محققین ان صحافی حضرات سے اکثر دق ہوئے رہتے ہیں جو یہ جاننا چاہتے ہیں کہ سلیمانی جبہ کب بکنے کے لئے تیار ہوگا۔ اس کا آسان جواب تو یہ ہے کہ اس میں ابھی کافی وقت درکار ہوگا۔

    ڈیوک یونیورسٹی کے ڈیوڈ سمتھ کہتے ہیں " صحافی حضرات اکثر فون کرتے ہیں اور صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہم انھیں کسی طرح سے وقت مہینوں اور برسوں میں بتا دیں۔ وہ اتنا تنگ کرتے ہیں آخر آپ مجبوراً کہہ دیتے ہیں کہ پندرہ سال لگیں گے۔ اس کے بعد آپ کی کہی ہوئی بات شہ سرخی بن کر کچھ اس طرح سے اخبار میں نظر آتی ہے۔ ہیری پوٹر کے سلیمانی جبے کے آنے میں صرف پندرہ سال۔" یہ ہی وجہ ہے کہ اب وہ کسی واضح ٹائم ٹیبل کو دینے سے ہمیشہ صاف انکار کر دیتے ہیں۔ ہیری پوٹر یا اسٹار ٹریک کے مداحوں کو ابھی کافی انتظار کرنا ہوگا۔ اگرچہ حقیقی سلیمانی جبہ طبیعیات کے قوانین کی رو سے بنانا ممکن ہے اور کافی سارے ماہرین طبیعیات اس سے متفق بھی ہیں لیکن سخت فنی رکاوٹیں ابھی اس ٹیکنالوجی کے سامنے سینہ سپر ہیں۔ خرد موجی اشعاع سے بڑھ کر بصری روشنی پر اس کام کے دائرے کو پھیلانا ہوگا۔

    دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ میٹامٹیریل کے اندر پیوستہ آلات (امپلانٹڈ ڈیوائسوں) کے اندرونی ڈھانچے کو اشعاع کی طول موج (Wave Length)سے لازماً چھوٹا ہونا ہوگا۔ مثال کے طور پر خرد امواج کی طول موج لگ بھگ ٣ سینٹی میٹر ہوتی ہے۔ لہٰذا اس میٹامٹیریل کے لئے اس میں لگے ان ننھے پیوستہ آلات کا ٣ سینٹی میٹر سے چھوٹا ہونا ضروری ہے۔ لیکن کسی شئے کو سبز روشنی - جس کا طول موج ٥٠٠ نینو میٹر ہوتا ہے - میں نظر نہ آنے کے لئے میٹامٹیریل کو اس طرح سے بنا نا ہوگا کہ اس میں لگائے ہوئے آلات صرف ٥٠ نینو میٹر لمبے ہوں ۔یہ بات دھیان میں رہے کہ نینو میٹر ایٹمی پیمانے کی لمبائی ہوتی ہے اور اس پر کام کرنے کے لئے نینو ٹیکنالوجی کی ضرورت ہوتی ہے۔(ایک نینو میٹر ایک میٹر کے ایک اربویں حصّے کے برابر ہوتا ہے۔ لگ بھگ ٥ ایٹم ایک نینو میٹر میں سما سکتے ہیں۔ شاید یہ ہی وہ اہم رکاوٹ ہے جو کامل سلیمانی جبہ کو بنانے کی راہ میں حائل ہے۔ میٹامٹیریل میں موجود ہر ایک ایٹم کو اس طرح سے بدلنا پڑے گا کہ وہ روشنی کی کرن کو سانپ کی چال کی طرح خم کر سکے۔


    بصری روشنی کے لئے میٹامٹیریل 

    کھیل شروع ہو چکا ہے۔

    جب سے اس بات کا اعلان کیا گیا ہے کہ تجربہ گاہ میں میٹامٹیریل بنائے جا سکتے ہیں اس وقت سے اس میدان میں بھگدڑ سی مچ گئی ہے۔ جس کے نتیجے میں ہر چند مہینوں کے گزرنے کا بعد نئی بصیرت اور چونکا دینے والی اہم دریافتیں سامنے آ رہی ہیں۔ مقصد بالکل واضح ہے :نینو ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ایسے میٹامٹیریل بنائے جائیں جو خرد موجوں کو نہیں بلکہ بصری روشنی کو خم کر سکیں۔ اس سلسلے میں کئی طریقے تجویز کیے گئے ہیں جو سب کے سب کافی حوصلہ افزا ہیں۔

    ایک تجویز تو یہ ہے کہ پہلے سے موجود سیمی کنڈکٹر صنعت میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی یعنی جس کو ہم پہلے سے جانتے ہیں کو استعمال کرتے ہوئے نئے میٹامٹیریل کو بنایا جائے۔ ایک تکنیک جس کا نام "سنگی طباعت" (فوٹو لتھوگرافی )ہے جو کمپیوٹر کو مختصر کرنے کی روح ہے اور اس ہی کے نتیجے میں کمپیوٹر کا انقلاب آیا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کے ذریعہ ہی انجنیئر ز اس قابل ہوئے ہیں کہ کروڑوں چھوٹے ٹرانسسٹر سلیکان کی اس پرت پر لگائے جاتے ہیں جو ہمارے انگوٹھے جتنی ہوتی ہے۔

    کمپیوٹر کی رفتار اور طاقت ہر ١٨ مہینے کا بعد دگنی ہو جاتی ہے(جس کو "مور کا قانون" بھی کہتے ہیں ) اس کو وجہ یہ ہے کہ سائنس دان بالائے بنفشی اشعاع کا استعمال کرتے ہوئے چھوٹے سے چھوٹے حصّے سلیکان کی چپ پر "نقش"(Etch) کرتے ہیں ۔ یہ بالکل اس تیکنیک جیسی ہے جس میں رنگین ٹی شرٹس بنانے کے لئے ا سٹینسل کا استعمال کیا جاتا ہے۔(کمپیوٹر انجنیئر ز پتلی سی ویفر کے اوپر مختلف اجزاء پر مشتمل ننھی سی پرت چڑھاتے ہیں۔ اس کے بعد پلاسٹک کا ماسک ویفر کے اوپر رکھ دیا جاتا ہے جو ایک طرح سے ملمع کار کا کردار ادا کرتا ہے۔ اس میں تاروں کے پیچیدہ نقشے، ٹرانسسٹر ز اور کمپیوٹر کے کچھ حصّے ہوتے ہیں جو سرکٹ کا بنیادی ڈھانچہ ہوتا ہے۔ اس کے بعد اس ویفر کو بالائے بنفشی اشعاع میں نہلایا جاتا ہے جن کا طول موج بہت ہی چھوٹا ہوتا ہے ، اور یہ اشعاع نمونے کو ایک "ضیائی حساس"( Photosensitive) ویفر پر نقش کر دیتی ہیں۔ ویفر کو خصوصی گیسوں اور تیزابوں سے دھونے کے بعد ، ماسک پر چھپ جانے والی پیچیدہ سرکٹری ویفر پر چھاپی جاتی ہے جہاں اس پر بالائے بنفشی روشنی ڈالی جاتی ہے۔ اس عمل کے نتیجے میں ایک ایسا ویفر بنتا ہے جس میں کروڑوں چھوٹے کھانچے موجود ہوتے ہیں جو ٹرانسسٹر کے لئے بنیادی نقشے کا کام دیتے ہیں۔ اس وقت ، چھوٹے سے چھوٹا حصّہ جو اس نقش کاری کے عمل میں بنایا جا سکتا ہے وہ ٣٠ نینو میٹر (یا تقریباً ١٥٠ ایٹم ) جتنا ہے۔

    پوشیدگی حاصل کرنے کی جستجو میں ایک اور سنگ میل اس وقت آیا جب اس سلیکان ویفر کی نقش کاری کی ٹیکنالوجی، سائنس دانوں کے ایک گروپ نے اس پہلے پہل میٹامٹیریل کو بنانے میں استعمال کی جو روشنی کے "مرئی طیف "(Visible Spectrum)کا احاطہ کرتی ہے۔ ٢٠٠٧ء کی شروعات میں جرمن اور یو ایس ڈیپارٹمنٹ آف انرجی میں کام کرنے والے سائنس دانوں نے تاریخ میں پہلی بار اس بات کا اعلان کیا کہ انہوں نے ایک ایسا میٹامٹیریل بنا لیا ہے جو سرخ روشنی میں بھی کام کرتا ہے۔ بہت ہی قلیل عرصے میں ایک "ناممکن "چیز کو حاصل کر لیا گیا۔ 

    آئی اوا ہ (Iowa)میں واقع ایمس لیبارٹری کے طبیعیات دان کوسٹاس سوکولس(Costas Soukoulis) نے ، یونیورسٹی آف کارلزرو (University of Karlsruhe)، جرمنی کے ا سٹیفن لینڈن(Stefan Linden)، مارٹن ویگنر(Martin Wegener)، اورگونار ڈولنگ(Gunnar Dolling) کے ساتھ مل کر ایک ایسا میٹامٹیریل بنایا جس کا انعطاف نما سرخ روشنی کے لئے اشاریہ منفی ٦ تھا جس کا مطلب ٧٨٠ نینو میٹر طول موج ہے۔(اس سا پہلے میٹامٹیریل کو ١٤٠٠ نینو میٹر کی طول موج والی اشعاع کو خم کرنے کا ورلڈ ریکارڈ تھا، اپنے اس طول موج کی وجہ سے وہ مرئی روشنی کے احاطے سے باہر لیکن سرخ زیریں روشنی کے طول موج کے اندر تھی۔)

    شروعات سائنس دانوں نے شیشے کی شیٹ سے کی ، جس کے اوپر انہوں نے نہایت سی باریک چاندی ، میگنیشیم فلورائیڈ اور ایک چاندی کی تہ چڑھائی، جس کے نتیجے میں فلورائیڈ کا ایک ایسا سینڈوچ بن گیا جو صرف ١٠٠ نینو میٹر پتلا تھا۔ اس کے بعد اسی نقش کاری کی تیکنیک کا استعمال کرتے ہوئے جنگلے(Grid) کا نمونہ مچھلی کے جال جیسا بنا دیا۔(اس میں سوراخ صرف ١٠٠ نینو میٹر چوڑے تھے جو سرخ روشنی کے طول موج سے کہیں زیادہ چھوٹے تھے۔) اس کے بعد انہوں نے اس میں سے سرخ روشنی کی کرن کو گزارا اور پھر اس کا " اشاریہ" (Index)ناپا جو کہ منفی ٦ نکلا۔ 

    طبیعیات دان اس ٹیکنالوجی کا استعمال کافی جگہوں پر ہوتا دیکھ رہے ہیں۔" ہو سکتا ہے کہ ایک دن میٹامٹیریل ان چپٹے فوقی عدسوں (سپرلینس) کی تیاری میں استعمال ہوں جو مرئی طیف میں کام کر سکے۔" ڈاکٹر سوکولس نے کہا۔" ایسا کوئی بھی عدسہ روایتی ٹیکنالوجی کے مقابلے میں بہت ہی عمدہ کارکردگی کا حامل ہوگا ، جو ہمیں باریک بینی سے ایک طول موج سے بھی کم کی جزئیات فراہم کر سکے گا۔" فوری طور پر اس کا استعمال خرد بینی چیزوں کی بے نظیر صراحت کے ساتھ تصویر کشی کرنے میں ہوگا۔ مثال کے طور پر زندہ انسانی خلیہ کے اندرون کی جھانک یا پھر رحم مادر میں موجود بچے کی بیماری کی تشخیص کرنے میں استعمال کیا جا سکے گا۔ ڈی این اے سالموں کی تصویر بے ڈھنگی ایکس رے قلمیات کو استعمال کئے بغیر لی جا سکے گی۔

    ابھی تک ان سائنس دانوں نے صرف سرخ روشنی کے انعطاف کے منفی اشاریے کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان کا اگلا قدم اس ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ایک ایسا میٹامٹیریل بنانا ہے جو پوری سرخ روشنی کو کسی جسم کے گرد خم کر دے تاکہ وہ روشنی کے لئے غیر مرئی ہو جائے۔

    فوٹونک میٹا مٹیریل 

    مستقبل میں ہونے والی پیش رفت اسی طرح سے" ضیائی قلموں "(Photonic Crystal)میں بھی ہو سکتی ہے۔ ضیائی قلموں کا مقصد ایک ایسی چِپ بنانا ہے جو برق کے بجائے روشنی کو استعمال کرتے ہوئے اطلاعات پر عمل کاری (انفارمیشن پراسیس) کرے۔ اس سے نینو ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے ننھے اجزاء ویفر پر نقش کیے جائیں گے جس کے نتیجے میں انعطاف نما ہر اجزاء کے ساتھ تبدیل ہو جائے گا۔ ٹرانسسٹر ز میں بجلی کے بجائے روشنی کا استعمال کئی قسم کے فوائد کا حامل ہوگا۔ مثال کے طور پر ضیائی قلموں کے استعمال سے حرارت کا زیاں بہت ہی کم ہوگا۔( جدید سلیکان چپس میں پیدا ہونے والی حرارت اتنی ہوتی ہے کہ اس سے ایک انڈا آسانی کے ساتھ پکایا جا سکتا ہے۔ اس وجہ سے ان کو مسلسل ٹھنڈا کرنا پڑتا ہے بصورت دیگر وہ خراب ہو سکتی ہیں اور ان کو ٹھنڈا رکھنا بھی ایک مہنگا طلب کام ہے۔) اس میں کوئی زیادہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ ضیائی قلموں کی سائنس میٹامٹیریل کے لئے انتہائی موزوں ہے کیونکہ دونوں روشنی کے انعطاف نما کے جوڑ توڑ کو نینو پیمانے پر کرتی ہیں۔


    پوشیدگی بذریعہ پلازمونک 

    اگرچہ یہ ٹیکنالوجی مفصلہ بالا ٹیکنالوجی سے بہتر تو نہیں ہے۔ لیکن بالکل ایک الگ طرح کی نئی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ایک دوسرے گروپ نے ٢٠٠٧ء کے درمیان اس بات کا اعلان کیا کہ انھوں نے ایک ایسا میٹامٹیریل بنا لیا جو روشنی کو خم کر سکتا ہے۔ یہ نئی ٹیکنالوجی پلازمونک کہلاتی ہے۔ کیلی فورنیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں طبیعیات دان "ہنری لیزک"(Henry Lezec) ،" جینیفر ڈیون"(Jennifer Dionne) اور "ہیری ایٹ واٹر"(Harry Atwater) نے اعلان کیا کہ انہوں نے ایک ایسا میٹامٹیریل تیار کیا ہے جس کا منفی اشاریہ مزید مشکل نیلی-ہری مرئی روشنی کے بصری طیف میں بن سکتا ہے۔

    پلازمونک کا مقصد روشنی کو اس حد تک دبانا ہے کہ کسی شئے پر پڑتی ہوئی روشنی کو نینو پیمانے پر، خاص طور پر دھاتوں کی سطح پر توڑا جوڑا جا سکے۔ کیونکہ دھاتوں کے ایٹموں پر الیکٹران ڈھیلے ڈھالے انداز میں بند ہوتے ہیں لہٰذا وہ دھاتوں کی سطح پر موجود جالی میں سے آسانی سے حرکت کرتے ہیں اور اسی وجہ سے ان میں سے برقی رو آسانی سے گزر جاتی ہے۔ ہمارے گھروں کے تاروں میں دوڑتی ہوئی بجلی ان ڈھیلے ڈھالے بندھے ہوئے دھاتوں کی سطح پر موجود الیکٹران کا ہی بہاؤ ہوتا ہے۔ لیکن کچھ شرائط کے ساتھ جب روشنی کی کرن دھات کی سطح سے ٹکراتی ہے تو الیکٹران اصل روشنی کی کرن کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر تھر تھرا سکتے ہیں جس کے نتیجے میں دھات کی سطح پر موجود الیکٹران موجوں کی طرح حرکت میں آ جاتے ہیں (جن کو پلازمونک کہتے ہیں)، اور یہ موجوں کی طرح کی حرکت اصل روشنی کی کرن کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر ٹکرانے لگتی ہے۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ان پلازمونک کو بھینچا بھی جا سکتا ہے اس طرح سے ان کی تعدد ارتعاش(فریکوئنسی ) اصل روشنی کی کرن جتنی ہو سکتی ہے (اور بعینہ ویسی ہی معلومات لے جا سکتی ہے)لیکن اس کی طول موج کافی چھوٹی ہوتی ہے۔ اصولی طور پر ان بھینچی ہوئی موجوں کو نینو تاروں پر ٹھونسا جا سکتا ہے۔ پلازمونک کا بھی حتمی مقصد ضیائی قلموں کی طرح کمپیوٹر کی چپس کو ہی بنانا ہے تا کہ حساب کتاب کو بجلی کے بجائے روشنی سے کیا جا سکے۔

    کالٹک کے اس گروپ نے اپنا میٹامٹیریل چاندی کی دو تہوں سے بنایا ہے جن کے درمیان سلیکان نائٹروجن کا "حاجز"(Insulator) درمیان میں موجود ہے (جس کی موٹائی صرف ٥٠ نینو میٹر ہے)، یہ حاجز ایک طرح سے "موجی رہنما" کا کام کرتے ہوئے پلازمونک موجوں کی حفاظت کرے گا۔ لیزر کی روشنی آلے میں آنے اور نکلنے کے لئے دو درزوں کا استعمال کرتی ہیں جو میٹامٹیریل کے اوپر کندہ کی ہوئی ہیں۔ اس زاویہ کا تجزیہ منفی اشاریہ کے ذریعہ اس وقت معلوم کیا جا سکتا ہے جب لیزر کی روشنی میٹامٹیریل میں سے گزرتے ہوئے خم کھاتی ہے۔


    میٹامٹیریل کا مستقبل

    میٹامٹیریل کے میدان میں پیش رفت مستقبل میں سرعت سے ہوگی۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ لوگوں کی زبردست دلچسپی پہلے سے ہی ٹرانسسٹر میں بجلی کے بجائے روشنی کے استعمال کرنے کی ہے۔ ضیائی قلموں اور پلازمونک میں جاری تحقیق جس کا مقصد سلیکان چپس کا متبادل پیدا کرنا ہے، مخفی رہنے کی تحقیق کو جاری رکھے گا۔ کروڑوں ڈالر پہلے ہی سلیکان کے متبادل کو بنانے میں لگائے جا چکے ہیں اور میٹامٹیریل میں ہونے والی تحقیق کولا محالہ طور پر ان کے تحقیقی کاموں سے فائدہ ہوگا۔ 

    ہرچند مہینوں میں اس میدان میں ہونے والی تیز رفتار ایجادات کی بدولت کچھ طبیعیات دان عملی قسم کی غیبی ڈھال کو تجربہ گاہوں میں شاید اگلی کچھ دہائیوں میں نمودار ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر اگلے چند سال میں سائنس دان اس بات کے لئے پر اعتماد ہیں کہ وہ ایسے میٹامٹیریل بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے جو کسی بھی شئے کو مکمل طور پربصری روشنی کی کسی ایک تعدد ارتعاش پر کم از کم دو جہتوں میں غیر مرئی کر دے گی۔ اس بات کو قابل عمل بنانے کے لئے ننھے نینو پیوستہ آلات کو باقاعدہ ترتیب وار لگانے کے بجائے پیچیدہ نمونوں میں ایسے لگایا جائے گا جس سے روشنی کسی بھی جسم کے گرد آسانی سے مڑ سکے گی۔

    اس کے بعد سائنس دانوں کو ایسا میٹامٹیریل بنانا ہوگا جو روشنی کو صرف دو جہتی چپٹی سطح کے بجائے سہ جہت میں موڑ سکے۔" سنگی طباعت"(Photolithography) چپٹے سلیکان کے ویفر بنانے کے لئے بالکل موزوں ہے، مگر سہ جہتی میٹامٹیریل بنانے کے لئے ویفر کے انبار پیچیدہ انداز میں لگانے ہوں گے۔

    اس کے بعد سائنس دانوں کو اس مسئلہ کا حل نکالنا ہوگا جس میں میٹامٹیریل روشنی کی کسی ایک تعدد ارتعاش کے بجائے کئی کو خم دے سکے۔ شاید یہ کام سب سے زیادہ مشکل ہوگا کیونکہ ابھی تک بنائے ہوئے ننھے پیوستہ آلات صرف ایک درست تعدد ارتعاش کی روشنی کو خم دینے کے لئے بنائے گئے ہیں۔ سائنس دانوں کو شاید میٹامٹیریل تہوں کی صورت میں بنانے ہوں گے جس میں ہر تہ ایک مخصوص تعدد ارتعاش کو خم کرے گی۔ اس مسئلے کا حل ابھی تک واضح نہیں ہے۔ اس تمام باتوں سے قطع نظر ایک دفعہ یہ غائب ہونے کی ڈھال یا سلیمانی ٹوپی بنا لی گئی تو یہ کافی بھاری آلے کی طرح ہوگی۔ ہیری پوٹر کا سلیمانی جبہ پتلے، لچکدار کپڑے سے بنا تھا جو کسی بھی چیز کو اپنے اندر آنے کے بعد غائب کر دیتا تھا۔ مگر اس بات کو ممکن بنانے کے لئے جبے کے اندر انعطاف نما کو مسلسل پیچیدگی کے ساتھ اس وقت تبدیل ہونا پڑے گا جب وہ پھڑپھڑائے گا جو کہ ایک ناممکن سی بات ہے۔ سلیمانی جبے کو بنانے کے لئے میٹامٹیریل کے ٹھوس سلنڈر کو شروع میں استعمال کرنا پڑے گا۔ اس طرح سے انعطاف نما کو سلنڈر کے اندر ہی ٹھیک کرلیا جائے گا۔( میٹامٹیریل کے مزید جدید ورژن میں ایسی چیزیں شامل کی جا سکتی ہیں جو اتنی لچکدار ہوں کہ انھیں موڑا بھی جا سکے اور اس کے باوجود روشنی کو میٹامٹیریل میں سے ٹھیک راستے سے گزرنے دیں۔ اس طرح سے سلیمانی جبے کے اندر تھوڑی سی ہل جل کرنے کی اجازت مل جائے گی۔) 

    کچھ لوگوں نے سلیمانی جبے کی ایک خامی کی طرف بھی اشارہ کیا: سلیمانی جبے کے اندر موجود کوئی بھی شخص ظاہر ہوئے بغیر باہر نہیں دیکھ سکے گا۔ ذرا تصوّر کریں کہ ہیری پوٹر مکمل غائب ہو بس اس کی آنکھیں ہوا میں تیرتی ہوئی نظر آ رہی ہوں۔ آنکھوں کے لئے بنایا جانے والا سوراخ مکمل طور پر باہر سے نظر آئے گا۔ اگر ہیری پوٹر مکمل طور پر غائب ہوگا تو وہ سلیمانی جبے کے اندر اندھوں کی طرح بیٹھا رہے گا۔(اس مسئلہ کا ایک ممکنہ حل یہ ہے کہ دو چھوٹے شیشوں کی پلیٹس آنکھوں کے سوراخوں کے پاس لگا دی جائیں۔ یہ شیشے کی پلیٹیں ایک طرح سے کرنوں کو توڑنے کے طور پر پلیٹوں پر پڑنے والی روشنی کے چھوٹے سے حصّے کو توڑ دیں گی اور پھر اس روشنی کو آنکھوں تک جانے دیں گی۔ لہٰذا اس طرح سے زیادہ تر سلیمانی جبے سے ٹکرانے والی روشنی اس کے ارد گرد بہ جائے گی جس کے نتیجے میں وہ شخص غائب رہے گے مگر بہت تھوڑا سا روشنی کا حصّہ اس کی آنکھوں کی طرف چلا جائے گا۔) 

    یہ مشکلات جتنی بھی حوصلہ شکن ہوں ، سائنس دان اور انجینیرز بہت زیادہ پر امید ہیں کہ کسی قسم کا سلیمانی جبہ آنے والی دہائیوں میں بنایا جا سکتا ہے۔


    پوشیدگی اور نینو ٹیکنالوجی

    جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے کہ پوشیدگی کی اصل کنجی نینو ٹیکنالوجی میں چھپی ہے، نینو ٹیکنالوجی کا مطلب ہے کہ ایک میٹر کے ایک ارب حصّے جتنے ایٹمی حجم کی چیز میں جوڑ توڑ کیا جا سکے۔

    نینو ٹیکنالوجی کی ابتداء اس ١٩٥٩ کے اس لیکچر سے ہوئی جو نوبل انعام یافتہ رچرڈ فینمین نے امریکن فزیکل سوسائٹی میں " تہ میں کافی گنجائش ہے " کے معنی خیز عنوان سے دیا۔ اپنے اس لیکچر میں اس نے قوانین طبیعیات کی روشنی میں اس بات کا تصوّر پیش کیا کہ چھوٹی مشینیں کیسی دکھائی دیں گی۔ اس نے اندازہ لگا لیا تھا کہ مشینیں چھوٹی سے چھوٹی بنائی جا سکیں گی یہاں تک کہ وہ ایٹم کے جتنی چھوٹی ہو جائیں اور اس وقت ایٹم کے ذریعہ دوسری مشینیں بنائی جا سکیں گی۔ ایٹمی مشینیں جیسا کہ چرخی، بیرم (لیور) اور پہیہ سب کے سب طبیعیات کے اندر رہتے ہوئے بنائے جا سکیں گے۔ اگرچہ ان کو بنانا بہت ہی زیادہ مشکل ہوگا، اس نے نتیجہ اخذ کیا۔

    نینو ٹیکنالوجی کافی عرصے تک گمنامی کے اندھیرے میں پڑی رہی کیونکہ انفرادی ایٹموں سے کھیلنا اس وقت کی ٹیکنالوجی کے بس کی بات نہیں تھی۔ پھر ١٩٨١ میں طبیعیات دانوں نے تقطیعی سرنگی خوردبین (اسکیننگ ٹنلینگ مائکرو سکوپ) کی ایجاد کے ساتھ ایک زبردست مرحلے کو عبور کیا ، جس کے نتیجے میں طبیعیات کا نوبل انعام زیورخ میں واقع آئی بی ایم لیب میں کم کرنے والے گرڈ بنیگ اور ہینرچ روہرر نے جیتا۔ 

    تقطیعی سرنگی خردبین۔

    اچانک سے طبیعیات دان اس قابل ہو گئے کہ متحیر کر دینے والی انفرادی ایٹموں کی قطار در قطار کیمیاء کی کتابوں میں موجود جیسی تصاویر حاصل کر سکیں یہ وہ چیز تھی جو ایک موقع پر ایٹمی نظریے کے ناقدین ناممکن سمجھتے تھے۔ قلموں یا دھاتوں میں موجود قطاروں میں لگے ہوئے نفیس ایٹموں کی تصاویر لینا اب ممکن ہو گیا تھا۔ 

    وہ کیمیائی فارمولا جو سائنس دان استعمال کرتے تھے ، جس میں ایٹموں کے پیچیدہ سلسلے سالموں میں لپٹے ہوتے تھے اپ خالی آنکھ سے دیکھے جا سکتے تھے۔ مزید براں یہ کہ تقطیعی سرنگی خردبین ( اسکیننگ ٹنلینگ مائکروسکوپ) نے اس بات کو بھی ممکن بنا دیا تھا کہ انفرادی ایٹموں کے ساتھ جوڑ توڑ بھی کی جا سکے۔ درحقیقت "آئی بی ایم" کے حروف تہجی انفرادی ایٹموں کے ذریعہ ہجے کیے گئے جس نے سائنس کی دنیا میں کھلبلی مچا دی۔

    سائنس دان اب اندھوں کی طرح انفرادی ایٹموں کے ساتھ جوڑ توڑ نہیں کرتے تھے بلکہ وہ اصل میں انھیں دیکھ کر ان کے ساتھ کھیل بھی سکتے تھے۔ تقطیعی سرنگی خردبین (اسکیننگ ٹنلینگ مائکروسکوپ) مغالطے کی حد تک سادہ ہے۔ گرامو فون کی سوئیاں جس طرح سے قرص پر تقطیع کا عمل سر انجام دیتی ہیں اسی طرح سے ایک تیز دھار کھوجی آہستگی کے ساتھ مادّے کے اوپر سے اس کا تجزیہ کرنے کے لئے گزارا جاتا ہے۔(اس کی نوک اس قدر نوکیلی ہوتی ہے کہ وہ صرف ایک ایٹم پر حس مشتمل ہوتی ہے۔) ایک چھوٹا سا برقی بار کھوجی کے اوپر رکھ دیا جاتا ہے، پھر کھوجی میں برقی رو دوڑائی جاتی ہے جو اس میں سے ہوتی ہوئی مادّے میں سے گزر کر سطح کے نیچے تک چلی جاتی ہے۔ جیسی ہی کھوجی ایک انفرادی ایٹم کو پاس کرتا ہے ، کھوجی میں سے گزرنے والی بہتی ہوئی رو بدلتی رہتی ہے اور اس بدلاؤ کو ریکارڈ کر لیا جاتا ہے۔ جب سوئی کسی ایٹم کے پاس سے گزرتی ہے تو برقی رو بڑھتی اور گھٹتی ہے جس کے نتیجے میں غیر معمولی طریقے سے گہرائی میں اس کا نقشہ حاصل ہو جاتا ہے۔ کئی دفعہ کھوجی کے گزرنے کے بعد برقی رو کی تبدیلیوں کو پلاٹ کرنے پر انفرادی ایٹموں کی جالی کو بناتی ہوئی خوبصورت تصاویر حاصل کی جا سکتی ہیں۔(اس تقطیعی سرنگی خردبین [ اسکیننگ ٹنلینگ مائیکروسکوپ ]کو بنانا کوانٹم طبیعیات کے عجیب و غریب قوانین کی بدولت ممکن ہوا۔ عام طور سے الیکٹران کے پاس اتنی توانائی نہیں ہوتی کہ وہ کھوجی میں سے ہوتے ہوئے رکھے ہوئے مادّے کی سطح میں سے گزر سکے، مگر اصول عدم یقین کی رو سے اس بات کا تھوڑا سا امکان ہے کہ رو میں موجود الیکٹران رکاوٹ میں سے گھس جائیں گے اگرچہ یہ نیوٹن کے نظریے کے مخالف بات ہے۔ لہٰذا کھوجی میں سے بہتی رو مادّے میں موجود چھوٹے کوانٹم اثر کے لئے حساس ہوتی ہے۔ کوانٹم نظریے کے اثر کو میں آگے تفصیل میں بیان کروں گا۔)

    کھوجی اتنا حساس ہوتا ہے کہ وہ مختلف ایٹموں کے درمیان گھوم سکتا ہے جس کے ذریعہ وہ سادی انفرادی ایٹموں پر مشتمل مشین بن سکتی ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی اب اس قدر جدید ہو گئی ہے کہ ایٹموں کے جتھے کمپیوٹر کی اسکرین پر دیکھے جا سکتے ہیں اور اس کے بعد صرف کمپیوٹر کرسر کی حرکت سے ایٹموں کو کہیں بھی اپنی مرضی سے حرکت دی جا سکتی ہے۔ ایٹموں کو ایسے جوڑا توڑا جا سکتا ہے جیسے کہ لیگو بلاکس کے کھیل میں کیا جاتا ہے۔ حروف تہجی کو ایٹموں سے لکھنے کے علاوہ ایٹمی کھلونے بھی بنائے جا سکتے ہیں جیسا کہ ابا کس انفرادی ایٹموں سے بنایا جا سکتا ہے۔ ایٹموں کو سطح پر عمودی قطار میں لگایا جاتا ہے۔ ان عمودی قطاروں میں کاربن کی بکی بال (جن کی شکل فٹبال کی گیند کی طرح کی ہوتی ہے مگر وہ کاربن کے انفرادی ایٹموں سے مل کر بنتی ہیں۔) یہ کاربن کی گیندیں پھر ہر کھانچے میں اوپر نیچے کی جا سکتی ہیں جس کے نتیجے میں ابا کس بن جاتا ہے۔

    یہ بات بھی ممکن ہے کہ الیکٹران کی شعاعوں سے ایٹمی آلات کو کندہ کیا جا سکے۔ مثال کے طور پر کارنیل یونیورسٹی میں موجود سائنس دانوں نے دنیا کا سب سے چھوٹا گٹار بنا لیا ہے جو انسانی بال سے بھی ٢٠ گنا زیادہ چھوٹا ہے جس کو کرسٹلائن سلیکان سے بنایا گیا ہے۔ اس میں ٦ تار ہیں جن میں سے ہر ایک ١٠٠ ایٹموں کی موٹائی جتنا ہے اور ان تاروں کو ایک ایٹمی قوّت کے مائیکروسکوپ سے کھینچا جا سکتا ہے (یہ گٹار اصل میں بجایا جا سکتا ہے مگر اس کی آواز جس تعدد ارتعاش میں نکلتی ہے وہ انسانی کانوں کی پہنچ سے دور ہے۔) 

    نینو پیمانے پر بنایا ہوا گٹار جو اصل میں بجتا بھی ہے ۔

    ابھی تک تو زیادہ تر نینو مشینیں کھلونے ہی ہیں۔ پیچیدہ مشینیں جیسے کہ گیر اور بال بیرنگ بنانا ابھی باقی ہیں۔ مگر کافی ساری انجینیرز اس بات کے لئے پر اعتماد ہیں کہ آنے والے وقتوں میں وہ اس قابل ہو جائیں گے کہ اصل ایٹمی مشینیں بنا سکیں(ایٹمی پیمانے کی مشینیں قدرتی طور پر پائی جاتی ہیں۔ خلیہ پانی میں اس لئے تیر سکتے ہیں کہ وہ اپنی چھوٹے بالوں کو باقاعدہ جنبش دیتے ہیں۔ اگر کوئی ان کے بال اور خلیہ کے درمیان جوڑوں کا تجزیہ کرے گا تو اسے پتا چلے گا کہ وہ اصل میں ایک ایٹمی مشین ہے جو اس کے بالوں کو اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ وہ ہر سمت میں حرکت کر سکے۔ لہٰذا ایک طریقہ نینو مشین بنانے کا یہ ہے کہ قدرت کی نقل کی جائے جس نے ایٹمی مشینیں بنانے میں ارب ہا سال پہلے کمال حاصل کر لیا تھا۔


    ہالو گرام اور پوشیدگی 

    ایک دوسرا طریقہ کسی شخص کو غائب کرنے کا یہ ہے کہ اس کے پیچھے والے منظر کی تصویر کشی کی جائے اور پھر پس منظر خاکہ براہ راست اس انسان کے کپڑوں یا اس کے آگے موجود کسی اسکرین پر بنایا جائے۔ سامنے سے دیکھنے پر ایسا لگے گا کہ وہ انسان شاید شفاف ہو گیا ہے کیونکہ روشنی کسی طرح سے اس کے جسم میں سے گزر گئی ہے۔ یونیورسٹی آف ٹوکیو میں واقع ٹاچی لیبارٹری میں ناوکی کا واکامی اس کام میں جس کا نام "بصری بہروپ" ہے ،کافی سخت محنت کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے "اس کے ذریعہ پائلٹ کو کاکپٹ میں سے زمین پر موجود رن وے کو دیکھنے میں مدد مل سکے گی، یہ ڈرائیوروں کو بھی مڈگارڈ (ٹائروں کے اوپر کیچڑ سے بچاؤ کے لئے لگائی جانے والی پٹی ) میں سے دیکھتے ہوئے گاڑی کو پارک کرنے میں آسانی ہوگی۔" کا واکامی کا جبہ چھوٹی روشنی کو انعکاس کرنے والی دانوں سے بھرا ہے جو ایک سنیما کی اسکرین کی طرح کا کردار ادا کرتا ہے۔ ایک ویڈیو کیمرہ جبے کے پیچھے کی تصویر لے لیتا ہے۔ جس کے بعد اس تصویر کو ویڈیو پروجیکٹر میں ڈال دیا جاتا ہے جو جبے کے اگلے حصّے پر روشنی پھینکتا ہے جس سے ایسا لگتا ہے جیسے کہ روشنی اس شخص میں سے گزر رہی ہے۔ 

    ناوکی کا واکامی "بصری بہروپ" کا مظاہرہ کرتے ہوئے 

    بصری بہروپ کے ابتدائی نمونے اصل میں لیب میں موجود ہیں۔ اگر آپ براہ راست اس شخص کو دیکھیں جس نے یہ اسکرین کے جیسے جبہ پہنا ہے تو آپ کو ایسا لگے گا کہ جیسے وہ شخص غائب ہو گیا ہے کیونکہ آپ اس شخص کے پیچھے والی تصویر ہی دیکھ رہے ہوں گے۔ مگر جب آپ اپنی آنکھوں کو تھوڑا سے جھپکیں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ پیچھے والی تصویر ہل نہیں رہی ہے جس سے آپ کو اس کے جعلی ہونے کا اندازہ ہوگا۔ مزید حقیقت سے قریب تر بصری بہروپ بنانے کے لئے سہ جہتی سراب بنانا ہوگا۔ اس کام کے لئے ہالو گرام کی ضرورت ہوگی۔

    ہالو گرام ایک سہ جہتی خاکہ ہوتا ہے جو لیزر کے ذریعہ بنایا جاتا ہے (جس طرح سے سہ جہتی تصویر شہزادی لیا کی اسٹار وار میں تھی)۔ کوئی بھی شخص پوشیدہ ہو سکتا ہے اگر پس منظر کی تصویر خصوصی ہالو گرافک کیمرے کے ذریعہ اتار کر اس شخص کے سامنے موجود خصوصی ہالو گرافک اسکرین پر ڈالی جائے۔ اس شخص کے سامنے موجود دیکھنے والا شخص کے بجائے ہالو گرافک اسکرین کو دیکھے گا جس میں ایک سہ جہتی تصویر اس شخص کے پیچھے کے منظر کی ہوگی اس طرح سے ایسا لگے گا کہ جیسے وہ شخص غائب ہو گیا ہے۔ اگر اس شخص کی جگہ پر ہوبہو اس کے پیچھے کا منظر موجود ہوگا تو آنکھوں کو حرکت دینے کے باوجود بھی یہ بتانا ممکن نہیں ہوگا کہ آپ جو دیکھ رہے ہیں وہ ایک فریب نظر ہے۔

    لیزر کے ذریعہ بنایا جانے والا  ہالو گرام کا  سہ جہتی خاکہ ۔

    سہ جہتی تصاویر لینا اس لئے ممکن ہوا کہ لیزر کی روشنی "مربوط" ہوتی ہے مطلب کہ تمام موجیں ہم آہنگی کے ساتھ تھر تھرا تی ہیں۔ ہالو گرام مربوط لیزر کی اس کرن سے جو دو حصّوں میں ہوتی ہے بنایا جاتا ہے۔ لیزر کی کرن کا ایک حصّہ فوٹوگرافک فلم پر چمکتا ہے جبکہ دوسرا حصّہ کسی بھی جسم پر پڑ کر اس کو منور کرتا ہوا واپس فوٹوگرافک فلم پر پڑتا ہے۔ جب یہ دونوں کرنیں فلم پر ایک دوسرے کی راہ میں حائل ہوتی ہیں تو اس سے ایک مدا خلتی نمونہ بنتا ہے جو اصل سہ جہتی موج کی تمام معلومات کو رمز بند (انکوڈ) کر دیتا ہے۔ اس فلم کو جب ڈیولپ کیا جاتا ہے تو وہ ایک پیچیدہ سے مکڑی کے جالے سے زیادہ کچھ اور نظر نہیں آتی جس میں گھومتی ہوئی لکیروں کے نمونے نظر آتے ہیں۔ مگر جب لیزر کی کرن اس فلم پر پڑتی ہے تو ہوبہو سہ جہتی نقل اصل شئے کی اچانک جادوئی طریقے سے نمودار ہو جاتی ہے۔

    بہرحال ہالو گرافک پوشیدگی کے تیکنیکی مسائل کافی مشکل ہیں۔ ایک چیلنج تو ہالو گرافک کیمرے کو بنانا ہے جو اس بات کا اہل ہو کہ کم از کم ٣٠ فریم پر سیکنڈ سے تصاویر لے سکے۔ دوسرے مسئلہ ان اطلاعات کا ذخیرہ کرنا اور اسے معنی خیز بنانا ہے۔ آخر میں اس حاصل کی گئی تصویر کو اسکرین پر پھینکنا ہے تاکہ وہ تصویر اصل لگ سکے۔


    پوشیدگی بہ ذریعہ چوتھی جہت

    ایچ جی ویلز  کے ناول "پوشیدہ آدمی" میں ایک کردار بذریعہ چوتھی جہت کے پوشیدگی اختیار کر لیتا ہے ۔
    ہمیں یہ بات بھی بتانی چاہئے کہ غائب ہونے کی ایک اور زیادہ ثقیف صورت جو ایچ جی ویلز نے "پوشیدہ آدمی "، میں بیان کی ہے جس میں چوتھی جہت کی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے غائب ہونا ممکن تھا۔(اس کتاب میں آگے مزید تفصیل سے ممکنہ بلند جہتوں پر بات کروں گا۔) کیا ہم اپنی سہ جہتی کائنات میں رہتے ہوئے چوتھی جہت کے تفوق والے مقام سے اس دنیا میں معلق رہ سکتے ہیں؟ جیسے کہ سہ جہتی تتلی دو جہتی کاغذ کی شیٹ پر اڑتی نظر آتی ہے ، ہم کائنات میں اپنے سے نیچے رہنے والی کسی بھی شخص کے لئے مخفی ہو جائیں گے۔ اس تصوّر کے ساتھ صرف ایک مسئلہ ہے کہ ابھی تک بلند جہتوں کا موجود ہونا ثابت نہیں ہوا ہے۔ مزید براں یہ کہ بلند جہتوں کا خیالی سفر جتنی توانائی کا متقاضی ہے وہ توانائی حاصل کرنا ہماری موجودہ ٹیکنالوجی کے بس سے باہر ہے۔ پوشیدگی حاصل کرنے کا یہ طریقہ واضح طور پر ہماری قابلیت اور علم سے کوسوں دور ہے۔ پوشیدگی حاصل کرنے کے لئے جتنی کوششیں کی گئی ہیں ان کو دیکھ کر یہ لگتا ہے کہ یہ آسانی سے ہماری اس جماعت میں شامل ہو سکتی ہے جس کو ہم نے جماعت "I" ناممکنات کا نام رکھا ہوا ہے۔ آنے والی چند دہائیوں میں یہ کم از کم اس صدی میں پوشیدگی ہو سکتا ہے کہ معمولی سی چیز ہو۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    2 comments:

    Ammar Zia کہا... 17 جون، 2015 کو 4:56 PM

    بہت دلچسپ، عمدہ اور معلوماتی۔

    Zuhair Abbas کہا... 17 جون، 2015 کو 5:27 PM

    پسند کرنے کا شکریہ عمار بھائی ....

    Item Reviewed: ناممکن کی طبیعیات - 2۔ پوشیدگی Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top