Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    منگل، 21 مارچ، 2017

    کائنات کی ہیئت



    ایڈنگٹن معدودے ان چند لوگوں میں سے تھا جو ڈی سٹر کی مادّے والی کائنات کے پھیلاؤ کو اس وقت نہایت سنجیدگی سے لے رہا تھا۔ 1920ء کی دہائی کے شروع میں سرخ منتقلی کے آنے والے محدود اعداد و شمار زیادہ تر سلائیفر سے آرہے تھے ، ان کی بنیاد پر اس نے نتیجہ اخذ کیا کہ ڈی سٹر کا اضافیانہ تغیر کا موضوع فلکیات دانوں کو اصل دنیا کے بارے میں کچھ بتا رہا تھا۔ بعد میں اس نے اپنا خود کا متغیر نمونہ بنایا ایک ایسا نمونہ جس میں کائنات لمبے عرصے ( شاید لامتناہی لمبے وقت) تک ایک ساکن حالت میں تھی جس طرح سے آئن سٹائن کی کائنات تھی اور جب کہکشائیں بننی شروع ہوئیں تو اس نے ڈی سٹر کی کائنات کی طرح پھیلنا شروع کر دیا تھا۔ تاہم یہ نمونہ جلد ہی حقیقی دنیا کی ماہیت سے بیگانہ ہو گیا تھا۔ آئن سٹائن اور ڈی سٹر نے خود سے اس وقت اپنے کونیاتی نمونوں پر دوبارہ سے سوچنا شروع کر دیا تھا جب سرخ منتقلی اور فاصلے کا تعلق اصل کائنات کی ایک اہم خوبی بن کر سامنے آئی تھی۔

    1932ء میں وہ دونوں سر جوڑ کر بیٹھے اور کائنات کے ایک اور نمونے کے ساتھ سامنے آئے، آئن سٹائن ڈی سٹر نمونہ (اس کو ان دونوں کے اپنے نمونوں سے ملا کر پریشان نہ ہوں) جس میں وہ ایک طرح سے واپس اپنی جڑوں میں چلے گئے تھے۔ کائناتی مستقل کو اصل میں نمونے کو ساکن رکھنے کے لئے متعارف کروایا تھا تاہم حقیقی کائنات پھیلتی ہوئی دکھائی دے رہی تھی - لہٰذا اس مستقل کو چھوڑ دیا گیا۔ ان کے ابتدائی نمونوں میں خم دار خلاء (اور ڈی سٹر کی صورت میں وقت بھی خم دار تھا) تاہم اس بات کا کوئی براہ راست ثبوت نہیں موجود تھا کہ خلاء خم دار ہے - لہٰذا خم دار خلاء کو بھی چھوڑ دیا گیا (تاہم مکان و زمان کے خم میں اسے نہیں چھوڑا گیا)۔آئن سٹائن ڈی سٹر کی کائنات وہ سادہ ترین کائنات تھی جس کو عمومی اضافیت کی بنیادی مساوات کا استعمال کرکے بنایا جا سکتا تھا۔ مساوات کہتی ہے کہ کائنات کو پھیلنا چاہئے، اور خلاء (خصوصی اضافیت کی خلاء) جو خود بھی پھیل رہی ہے وہ چپٹی ہے۔اور کیونکہ نمونے میں کوئی ایسی چیز شامل نہیں کی تھی جو اس ناگزیر ہونے والے پھیلاؤ کو روک سکے لہٰذا جب ہم ماضی میں پیچھے دیکھتے ہیں تو نمونہ بتاتا ہے کہ وہاں ایک تخلیق کا لازمی معین لمحہ بہت پہلے موجود تھا، جب ریاضیاتی نقطہ نظر سے کائنات ایک لامتناہی کثافت کی حالت سے پیدا ہوئی تھی جس کو وحدانیت کہتے ہیں۔

    مساوات کے سادے حل کے طور پر آئن سٹائن اور ڈی سٹر کا نمونہ حالات و واقعات کا جائزہ لینے کے لئے بہت ہی مفید تھا۔ آج علم کائنات پر موجود کئی کورسز میں اس کو شان فضیلت اس بنیاد پر حاصل ہے کہ طالبعلم اس سادہ ترین مثال سے آغاز کریں اور پھر بتدریج مزید پیچیدہ اور دلچسپ چیزوں کی طرف آگے بڑھیں۔ تاہم یہ بات واضح نہیں ہے کہ آئن سٹائن اور ڈی سٹر کو اپنی تخلیق پر کس قدر ناز تھا۔ چندر شیکھر نے 1932ء میں آئن سٹائن ڈی سٹر کے مقالے کے شائع ہونے کے بعد لکھا:

    آئن سٹائن اس کے بعد فوراً میرے پاس قیام کرنے کے لئے آیا، اور میں نے اس سے اس بارے میں پوچھا۔ اس نے جواب دیا، 'میں خود اس مقالہ کو کچھ زیادہ اہم نہیں سمجھتا، تاہم ڈی سٹر اس بارے میں کافی مشتاق تھا۔ 'آئن سٹائن کے جانے کے بعد ڈی سٹر نے میرے پاس آنے کے لئے لکھا۔ اس نے مزید کہا: 'آپ میرا اور آئن سٹائن کا مقالہ دیکھو گے۔ میں خود سے اس کے نتائج کو زیادہ اہم نہیں سمجھتا تاہم لگتا ہے کہ آئن سٹائن ایسا سمجھتا ہے۔'(ایڈنگٹن، صفحہ 38۔)
    بصیرت وفہم کے ساتھ آئن سٹائن اور ڈی سٹر کے نمونے کی اہم خوبی اور جس وجہ سے اس کو اتنا زیادہ پڑھایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ اس میں تخلیق کا لمحہ شامل ہے جس کو اب ہم بگ بینگ (عظیم دھماکہ) کہتے ہیں۔ تاہم جس ہچکچاہٹ کے ساتھ ان دونوں بانیان نے اپنے نمونوں کو سامنے رکھا تھا اس سے شاید ان کی اس تصور کے ساتھ بے کلی ظاہر ہوتی ہے - ایک ایسا تصور جو ان کا نہیں تھا تاہم جو خود مختار طور سے دوسرے دو جدید علم کائنات کے بانیان کی طرف سے 1920ء میں آیا تھا اور اس کو توجہ ہبل کی سرخ منتقلی اور فاصلے کی نسبت کی اشاعت کے بعد ہی حاصل ہوئی۔ 

    خاکہ 5.2 خلاء تین بنیادی علم اشکال میں سے ایک سے موافقت رکھ سکتی ہے۔ ہرچند کہ ہماری خلاء تین جہتی ہے ہم تین امکانات کو دو جہتی 'کائنات' کے خم کو دیکھ کر دیکھ سکتے ہیں۔

    اگر یہ خم کرہ کی سطح کی طرح مثبت یا بند ہے تب 'متوازی' خطوط کو لازمی بالآخر ایک دوسرے کو قطع کرنا ہوگا اور مثلث کے زاویوں کو جب جمع کیا جائے گا تو وہ 180 درجے سے زیادہ ہوں گے۔

    اگر یہ خم زین کی سطح کی طرح نفی یا کھلا ہوگا تب متوازی خطوط ایک دوسرے سے دور ہوتے جائیں گے اور مثلث کے زاویوں کا مجموعہ 180 درجے سے کم ہوگا۔

    چپٹی خلاء ایک مخصوص صورت ہو گی جو بند کائنات کو کھلی کائنات سے تقسیم کر رہی ہو گی۔ صرف اسی بہت خاص کائنات میں متوازی خطوط ایک دوسرے سے ایک جیسے ہی فاصلے پر رہیں گے اور مثلث کا مجموعہ عین 180 درجے کا ہوگا۔ ہماری کائنات تقریباً چپٹی ہے۔ یہ اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ آیا کیوں یہ اتنا بنیادی کائناتی مسئلہ ہے۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: کائنات کی ہیئت Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top