Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    جمعرات، 1 جون، 2017

    کائنات میں ہائیڈروجن اور ہیلیئم کا تناسب


    اس وقت تکt = 0 سے 13.8 سیکنڈ کے بعد درجہ حرارت گر کر 3 ارب کیلون تک ہو گیا تھا، اب الیکٹران پوزیٹران کے جوڑے نہیں بن رہے تھے اور جو بن گئے تھے انہوں نے فنا ہونا جاری رکھا تھا۔ ڈیوٹیریئم کے مرکزے(ایک پروٹون اور ایک نیوٹران) عارضی طور پر بن رہے تھے، تاہم وہ پھر بنتے کے ساتھ ہی دوسرے ذرّات سے ٹکرانے کے بعد ٹوٹ جاتے تھے۔ اور اگرچہ نیوٹران اب ابھی پروٹون میں تبدیل ہو رہے تھے کم ہوتی توانائی کے ساتھ یہ عمل ڈرامائی طور پر آہستہ ہو گیا تھا اور اب بھی 17 فیصد نوویہ نیوٹران کی صورت میں موجود تھے۔ تخلیق کے لمحے کے بعد تین منٹ اور دو سیکنڈ کائنات کا درجہ حرارت ٹھنڈا ہوکر10^9 کیلون ہو گیا تھا اور آخر کار کچھ ایسی صورت نکل آئی تھی جس سے ہم دور حاضر کی کائنات کا موازنہ کر سکتے ہیں۔ سورج کے قلب میں درجہ حرارت لگ بھگ 1 کروڑ 50 لاکھ کیلون ہوتا ہے؛ t = 0 سے تین منٹ کے بعد کائنات ٹھنڈی ہونے کے باوجود اس درجہ حرارت سے ستر گنا زیادہ گرم تھی۔ وہ ذرّاتی تعاملات جو چند منٹ پہلے کافی اہم تھے اب لگ بھگ ختم ہو چکے تھے تاہم کائنات اب اس قدر عمر کی ہو چکی تھی کہ اس میں نیوٹران میں قدرتی انحطاط کا عمل اہمیت اختیار کر سکے، اور اس کے بعد سے ہر 100 سیکنڈ میں باقی بچے ہوئے 10 فیصد آزاد نیوٹران انحطاط پذیر ہو کر پروٹون میں بدل گئے اور نیوٹران کا تناسب پہلے ہی 14 فیصد تک گر گیا تھا۔ تاہم جیسے ہی درجہ حرارت اس نقطے سے مزید گرا جس پر ڈیوٹیریئم کے مرکزے آپس میں بندھے ہوئے رہ سکتے ہیں وہ مزید معدوم ہونے سے بچ گئے۔

    آب آخر میں وہ تعاملات جن کے خاکے گیمو اور ان کے رفقائے کاروں نے بیان کئے تھے اور جن کی تفصیل ویگنر، فولر اور ہوئیل نے بتاتی تھی وہ وقوع پذیر ہونے لگے۔ نیوکلیائی تالیف تیزی سے ہیلیئم-4 کے مرکزوں کو بنانے لگا تاہم آخر کار اس کو رکنا پڑا کیونکہ جیسا کہ ہم دیکھیں گے کہ 5 اور 8 کی کمیت کے پائیدار مرکزے نہیں ہوتے اور ستاروں میں پائے جانے والے ماحول کے اندر نیوکلیائی تالیف اس خلاء کو پر کر سکتا ہے جس طرح سے ہوئیل نے 1950ء کے عشرے میں بیان کیا تھا - تاہم ستاروں کے اندر کا ماحول ابھی وجود نہیں رکھتا تھا۔

    ایک مرتبہ ہیلیئم کی پیداوار شروع ہو گئی تمام دستیاب نیوٹران تیزی سے اس طرح سے بندھ گئے اور اس کے بعد وہ پائیداری کے ساتھ قائم رہے۔ یہ اس وقت ہوا جب نیوٹران کا تناسب کل نوویہ کے مقابلے میں 13 یا 14 فیصد تھا اور ہر ہیلیئم-4 کے مرکزے میں نیوٹران کے ساتھ ایک پروٹون شامل تھا۔ اس طرح سے نوویہ کی کل کمیت کا تناسب جو ہیلیئم-4 میں تبدیل ہوا تھا وہ سادہ طور پر نیوٹران کی فراوانی سے جب تعاملات شروع ہوئے تو دوگنا اس وقت تھا جب وہ 26 سے 28 فیصد تھا۔ تخلیق کے لمحےسے 3 منٹ 46 سیکنڈ کے بعد نیوکلیائی تالیف 90 کروڑ کیلون درجہ حرارت پر شروع ہوا۔ جب تک t = 4 منٹ ہوا تو بگ بینگ کے معیاری نمونے نے وہ حالات بنا دیئے جس نے ہیلیئم کی مشاہدہ کی گئی مقدار کو پیدا کیا تھا۔

    معیاری نمونے کی جیت اس اہم حقیقت پر منحصر ہے کہ پروٹون کا نیوٹران اور نیوٹران کا پروٹون میں تبدیل ہونے والے رد عمل اس وقت 'تھم' گئے جب انہوں نے تھمنا تھا اس طرح سے نیوکلیائی تالیف کے شروع ہونے کے وقت صرف 14 یا 15 فیصد بچ گئے۔ یہ اہم رد عمل اور جس نقطے پر وہ تھم گئے تھے نہ صرف درجہ حرارت کے لئے بہت حساس ہیں بلکہ اس کے لئے بھی جس شرح سے ابتدائی کائنات کا درجہ حرارت گر رہا تھا۔ اگر تھمنا چند سیکنڈ 'عمر کی کائنات' کے وقت ہوتا تو کائنات میں ہیلیئم کا تناسب 30 فیصد سے کم ہوتا۔ تاہم اگر ہر چیز تھوڑا تیزی سے وقوع پذیر ہوتی اور تھمنا 0.1 سیکنڈ پر ہوا تو بگ بینگ میں ہیلیئم بننے کا تناسب لگ بھگ 100 فیصد ہوتا (کیونکہ نیوکلیائی تالیف بھی تیزی سے ہو جاتی) اگر یہ تھمنا کافی آہستہ ارتقاء پذیر کائنات میں 100 سیکنڈ کے بعد ہوتا تو بگ بینگ میں کسی بھی قسم کی ہیلیئم پیدا ہی نہیں ہوتی کیونکہ اس سے پہلے کہ نیوکلیائی تالیف شروع ہوتی تمام نیوٹران پروٹون میں تبدیل ہو جاتے۔ 

    درجہ حرارت کے گرنے کی شرح معیاری نمونے میں اپنی سادہ ترین شکل میں موجود ہے اور آج پس منظر کی اشعاع کے درجہ حرارت سے میل کھاتی ہے جو کائنات میں موجود ہر نوویہ کے لئے 10^9 فوٹون کا اہم تخمینہ دیتا ہے۔ اگرچہ فوٹون پوری کائنات میں پھیلے ہوئے ہیں جبکہ نوویہ صرف مادّے کے ڈھیر میں مرتکز ہیں پس منظر کی کائناتی اشعاع کے مشاہدے ہمیں آج کے موجودہ تناسب کو بتاتے ہیں۔ لہٰذا اس کو اس وقت لازمی طور پر ایسا ہی ہونا تھا جب کائنات ایک آگ کے گولے کے مرحلے میں تھا اور جب اشعاع کا مادّے پر غلبہ تھا اور انہوں نے وہ رد عمل بالکل درست طور پر شروع کیا جس سے وہ ہیلیئم بنی جس کو ہم دیکھتے ہیں۔ اور معیاری نمونہ آج کائنات میں موجود کچھ دوسرے ذرّات کے امکان پر بھی کچھ قدغن لگاتا ہے۔ نیوٹرینو اور ضد نیوٹرینو اس عمل میں دخل اندازی کر رہے تھے جس میں پروٹون نیوٹران اور نیوٹران پروٹون میں تبدیل ہو رہے تھے لہٰذا معیاری نمونے کی کامیابی ہمیں بگ بینگ میں موجود کچھ نیوٹرینو کی قسم و تعداد کے بارے میں بتاتی ہے، لہٰذا یہ اس لئے باقی بچ گئے ہیں تاکہ ہم ان کو تلاش کر سکیں۔ 

    لہٰذا ہمارے پاس معیاری نمونے کی ایک اور کامیاب پیش گوئی - یا ضرورت - موجود ہے جو 1920ء کے عشرے میں ہونے والے پھیلاؤ کی زبردست دریافت ہے۔ یہ بات کہ ہائیڈروجن کا کائنات میں ہیلیئم سے تین گنا زیادہ موجود ہونا ہی علم کائنات کے بگ بینگ نمونے کی تائید کے لئے کافی ہے۔ وہ تیسرا ستون جس پر معیاری نمونہ کھڑا ہے وہ کائنات کی پس منظر کی خرد امواج کی موجودگی ہے تاہم یہ دیکھنا کہ اصل میں وہ کہاں سے آئی ہیں اس کو دیکھنے کے لئے ہمیں تخلیق کے لمحے سے صرف چند سیکنڈ یا چند منٹ تک قدم آگے نہیں بڑھانا ہے بلکہ پہلے ہزار ہا اور اس کے بعد ارب ہا برس آگے جانا ہوگا۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: کائنات میں ہائیڈروجن اور ہیلیئم کا تناسب Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top