Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    اتوار، 4 جون، 2017

    انسانوں میں مختلف بلڈ گروپس کیوں ہوتے ہیں؟

    ایک حیرت انگیز دریافت کی کہانی۔ 


    کارل زمر، موزائیک 24 اپریل 2017

    جب میرے والدین نے مجھے بتایا  کہ میرا بلڈ گروپ A ٹائپ تھی، تو مجھے ایک عجیب فخر کا احساس ہوا۔ اگر A+ اسکول میں سب سے امتیاز والا ہوسکتا ہے، تب یقینی طور پر A+ بلڈ گروپس (اقسام خون) میں سب سے شاندار ہوگا - غالباً ایک ممتاز حیاتیاتی نشان۔

    یہ بات سمجھنے کے لئے مجھے زیادہ وقت نہیں لگا کہ میری سوچ کیسی بے وقوفانہ تھی اور میں نے جلد ہی اس احساس تفاخر سے پیچھا چھڑا لیا۔ تاہم میں نے اس بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانا کہ اصل میں A+ خون کا کیا مطلب ہوتا ہے۔ جب  جب میں نے بلوغت حاصل کی اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ اگر میں کسی وجہ سے ہسپتال میں داخل ہوں اور مجھے خون کی ضرورت ہو، تو وہاں پر موجود ڈاکٹر کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ میرا کون سا بلڈ گروپ ہے تاکہ وہ مجھے موزوں خون منتقل کرے۔

    بہرحال یہ تو کوئی خاص بات نہیں تھی اور ابھی تک اس حوالے سے کچھ پریشان کرنے والے سوالات اپنی جگہ موجود ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ کیوں  40 فیصد کاکیشیائی لوگوں کے خون کی قسم (بلڈ گروپ) A ہوتی ہے، جبکہ ایشیائی باشندوں کی صرف 27 فیصد؟ خون کی مختلف اقسام کہاں سے آتی ہیں، اور یہ کیا کرتی ہیں؟ کچھ جوابات حاصل کرنے کے لئے، میں ماہرین - خون اور اس کے امراض کے ماہرین، ماہرِ جینیات، ارتقائی ماہر حیاتیات، ماہِر سمیات اور ماہر غذائیت کے پاس گیا تاکہ جان سکوں کہ ہم انسانوں میں مختلف گروپس کیوں ہوتے ہیں اور یہ کیسے وجود میں آئے اور ہمیں اس کا کیا فائدہ ہوتا ہے-

    1900ء میں آسٹریا کے معالج کارل لینڈسٹینر نے سب سے پہلے خون کی اقسام کی دریافت کی، اپنے اسی انقلابی کام کے بل بوتے پر انہوں 1930 ء میں اپنی طب کی تحقیق کے لئے عضویات کا نوبل انعام جیتا۔ تب سے سائنس دانوں نے خون کی اقسام کی حیاتیات کو کھوجنے کے لئے مزید طاقت ور آلات بنائے ہیں۔ انہوں نے ان کے بارے میں کچھ حیران کن سراغ بھی لگائے ہیں - ان کے شجرہ نسب کی گہرائی میں جھانکا، مثال کے طور پر انہوں نے ہمارے صحت پر خون کی اقسام کے پڑنے والے اثرات کا سراغ لگایا۔ اس کے باوجود، مجھے کئی طرح سے لگتا ہے کہ خون کی اقسام اب بھی پراسرار ہی ہیں۔ سائنس دانوں کو ان کی اپنی موجودگی کی اچھی وضاحت کرنے کے لئے ابھی بہت کام کرنا باقی ہے۔

    "کیا یہ بات حیرت انگیز نہیں ہے؟اجیت ورکی کہتے ہیں، کیلی فورنیا یونیورسٹی، سان ڈیاگو کے ایک حیاتیات دان۔"اس دریافت کے لئے نوبل انعام ملنے کے لگ بھگ ایک سو برس بعد بھی ہم ٹھیک طرح سے نہیں جانتے کہ ان کا کیا کام ہے اور یہ کس لئے ہیں۔" 

    میرا علم کہ میں ٹائپ A رکھتا ہوں، مجھے طب کی تاریخ  میں ہونے والی عظیم دریافتوں میں سے ایک کی وجہ سے معلوم ہے۔ کیونکہ ڈاکٹر خون کی اقسام کے بارے میں جانتے ہیں، لہٰذا وہ مریضوں میں انتقال خون سے جانوں کو بچا سکتے ہیں۔ تاہم تاریخ میں زیادہ تر، ایک شخص سے دوسرے شخص میں خون ڈالنا ایک بھیانک خواب کی طرح تھا۔

    نشاۃ ثانیہ کے ڈاکٹروں کو نہیں معلوم تھا  کہ اس وقت کیا ہوگا اگر وہ اپنے مریضوں کی نسوں میں کسی دوسرے انسان کا خون ڈال دیں۔ کچھ سمجھتے تھے کہ یہ ہر قسم کی بیماریوں یہاں تک کہ پاگل پن کا بھی علاج ہے۔ آخر میں، 1600ء کی دہائی میں، چند ڈاکٹروں نے اس کا تباہ کن نتائج کے ساتھ تجربہ کیا۔

    ایک فرانسیسی ڈاکٹر نے بچھڑے کا خون ایک پاگل انسان میں ڈالا، جسے فوری طور پر پسینہ اور الٹی آنی شروع ہوگئی اور اس نے کاجل جیسے رنگ کا پیشاب کیا۔ خون کی ایک اور منتقلی کے بعد اس کا انتقال ہوگیا۔

    اس طرح کی مصیبتوں نے انتقال خون کو 150 برس تک بری شہرت دی۔ یہاں تک کہ 19ویں صدی میں صرف چند ڈاکٹروں نے یہ طریقہ کار آزمانے کی ہمت کی۔ ان میں سے ایک جمیز بلینڈل نامی برطانوی معالج تھا۔ اپنے دور کے ایک دوسرے معالج کی طرح، اس نے اپنی کئی خواتین مریضوں کو بچے کی پیدائش کے دوران خون نکلنے کی وجہ سے مرتے دیکھا۔ 1817ء میں اپنے ایک مریض کی موت کے بعد اس نے اپنے آپ کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑنے سے انکار کردیا۔

    "میں اس بات پر غور کرنے سے رک نہیں سکتا، کہ انتقال خون سے ممکنہ طور پر مریض کو بچایا جاسکتا ہے،" بعد میں اس نے لکھا ۔

    انسانی مریضوں کو صرف انسانی خون ہی چاہئے، بلنڈل نے فیصلہ کیا۔ تاہم کسی نے بھی اس طرح سے انتقال خون کرنے کی کوشش نہیں کی۔ بلنڈل نے اس طریقہ کے لئے ایک ٹیوبوں اور سرنجوں کا ایک نظام وضع کیا جو خون کو عطیہ کنندہ سے علیل مریض تک لے جاتا تھا۔ 

    آلے کو کتوں پر استعمال کرنے کے بعد، بلنڈل کو ایک ایسے آدمی کے بستر کے پاس بلایا گیا جس کا اتنا خون نکل گیا تھا کہ وہ مرنے کے قریب تھا۔صرف انتقال خون ہی اس کو زندہ رہنے کا موقع دے سکتا ہے،" اس نے لکھا۔

    کئی عطیہ کنندگان نے بلنڈل کو 14 اونس (400 ملی لیٹر) خون دیا، جسے اس نے اس آدمی کے بازو میں داخل کردیا۔ اس عمل کے بعد مریض نے بلنڈل کو بتایا کہ وہ بہتر محسوس کررہا ہے - "کم مدہوش" - تاہم دو دن بعد وہ مرگیا۔

    اس ناکامی کے باوجود بلنڈل اس بات پر قائل ہوگیا  کہ انتقال خون کا انسانیت کے لئے بہت زیادہ فائدہ ہوگا، اور آنے والے برسوں میں اس نے بے بس مریضوں میں خون ڈالنا جاری رکھا۔ سب ملا کر، اس نے دس انتقال خون کئے۔ صرف چار مریضوں بچ گئے۔

    جبکہ دوسرے ڈاکٹروں نے بھی انتقال خون پر تجربات کئے، ان کی کامیابی کی شرح بھی مایوس کن تھی۔ مختلف طریقہ کار اختیار کئے گئے، جس میں 1870 کی دہائی میں انتقال خون میں دودھ کا استعمال بھی تھا (جو بغیر کسی حیرت کے بے سود اور خطرناک تھا)۔ 

    بلنڈل کا یہ خیال درست تھا کہ انسانوں کو انسان ہی کا خون درکار ہوتا ہے۔ تاہم وہ خون کے بارے میں دوسری اہم بات نہیں جانتا تھا: کہ انسان کو صرف دوسرے مخصوص انسان سے خون چاہئے ہوتا ہے۔ اس بات کا امکان تھا کہ بلنڈل کی اس سادہ حقیقت سے بے خبری نے اس کے کچھ مریضوں کو موت سے ہمکنار کیا۔

    ان تمام اموات کو جس چیز نے زیادہ المناک بنایا وہ چند دہائیوں بعد ہونے والی کچھ بہت ہی سادہ طریقوں کے نتیجے سے دریافت ہونے والی خون کی اقسام تھی۔

    وہ پہلا سراغ کہ آیا کیوں 19ویں صدی کی ابتداء کے انتقال خون ناکام ہوئے، خون کے لوتھڑے تھے۔ جب 1800 کی دہائی کے اواخر میں سائنس دانوں نے مختلف لوگوں کے خون کو ٹیسٹ ٹیوبز میں ملایا، تب انہوں نے دیکھا کہ اکثر سرخ خلیات ایک دوسرے سے جڑ جاتے ہیں۔ لیکن کیونکہ عام طور پر خون بیمار مریضوں سے لیا جاتا تھا، لہٰذا سائنس دانوں نے اس کو کسی ایسی قسم کا مرض سمجھا جس کی تفتیش کی ضرورت نہ تھی۔

    کسی نے بھی یہ دیکھنے کی زحمت نہیں کی کہ آیا صحت مند لوگوں کا خون بھی جمتا ہے کہ نہیں، تاوقتیکہ کارل لینڈاسٹینر نے غور کیا کہ آخر ہوتا کیا ہے۔ فوری طور پر وہ دیکھ سکتا تھا کہ صحت مند خون کو ملانے سے بھی اکثر گھٹلیاں بن جاتی تھیں۔

    لینڈاسٹینر نے گھٹلیاں بننے کے نمونے کی نقشہ سازی کی، خود سمیت اپنے تجربہ گاہ کے اراکین سے خون جمع کیا۔ اس نے ہر نمونے میں سے سرخ خلیات اور پلازما کو الگ کیا، اس کے بعد اس نے ایک شخص کے پلازما کو دوسرے شخص کے خلیات میں ملایا۔

    لینڈاسٹینرنے دیکھا کہ گھٹلیاں صرف اس وقت بنتی ہیں جب وہ مخصوص لوگوں کے خون کو ایک ساتھ ملاتا تھا۔ تمام مجموعے پر کام کرنے کے بعد، اس نے اپنے فاعلین کو تین گروپ میں الگ کیا۔ اس نے انھیں مکمل طور پر ایسے ہی A، B، اور C کے نام دے دیئے۔(بعد میں C کا نام بدل کر O کردیا گیا، اور چند برسوں بعد دوسرے محققین نے AB گروپ کو دریافت کیا۔

    20 ویں صدی کے وسط تک امریکی محقق فلپ لیوائن نے خون کی درجہ بندی کا ایک اور دوسرا طریقہ دریافت کیا، جس کی بنیاد آر ایچ خون کے عنصر پر تھی۔ لینڈسٹینر کے نشان کے اختتام پر ایک پلس یا مائنس کی نشانی بتاتی ہے کہ آیا کہ شخص کے پاس عنصر ہے یا نہیں۔)

    جب لینڈ اسٹینر نے مختلف لوگوں سے حاصل کردہ خون کو ملایا، اس نے دریافت کیا کہ یہ کچھ مخصوص اصولوں کی پاسداری کرتا ہے۔ اگر وہ گروپ A کے پلازما کو کسی دوسرے گروپ A کے سرخ خلیات میں ملاتا ہے، تو پلازما اور سرخ خلیات مائع ہی رہتے ہیں۔

    یہی قاعدہ اس پلازما اور سرخ خلیات پر لاگو ہوتا ہے جو گروپ B کے ہوں۔تاہم جب لینڈ اسٹینر گروپ A کے پلازما کو گروپ B کے سرخ خلیات سے ملاتا ہے (یا اس کے برعکس) تو خلیات گھٹلی بناتے ہیں۔

    گروپ O میں موجود لوگوں کا خون مختلف تھا۔ جب لینڈاسٹینر نے A یا B سرخ خلیات کو پلازما O سے ملایا، تو خلیات لوتھڑا بن گئے۔ تاہم وہ A اور B کے پلازما کو O کے سرخ خلیات کے ساتھ بغیر گھٹلی بنائے ملا سکتا تھا۔

    یہ گھٹلیاں ہی تھیں جو انتقال خون کو حد درجہ خطرناک بنا رہی تھیں۔ اگر ڈاکٹر حادثاتی طور پر B خون کو میرے بازو میں ڈال دے، تو میرا جسم چھوٹی گھٹلیوں سے بھر جائے گا۔ وہ میری خون کی گردش میں خلل ڈال دیں گی اور خون کا بہت زیادہ بہاؤ شروع ہوجائے گا، سانس لینے میں پریشانی ہوگی اور ممکنہ طور پر موت ہوجائے گی۔ تاہم اگر میں قسم A یا قسم O خون لگاؤں، تو میں ٹھیک رہوں گا۔

    لینڈاسٹینر کو یہ بات نہیں معلوم تھی کہ واضح طور پر کون سی چیز ایک خون کی قسم کو دوسرے سے ممتاز کرتی ہے۔ سائنس دانوں کی بعد میں آنے والی نسل نے دریافت کیا کہ ہر قسم میں سرخ خلیات اپنی سطح پر مختلف سالمات سے سجے ہوئے ہیں۔

    مثال کے طور پر، میرے خون کی قسم A میں، خلیات ان سالمات کو دو مراحل میں بناتے ہیں، جیسا کہ دو منزلہ مکان۔ پہلی منزل H تریاق زا (اینٹی جن) کہلاتا ہے۔ پہلی منزل کے اوپر خلیات دوسری منزل بناتے ہیں، جو A تریاق زا کہلاتا ہے۔

    دوسری طرف B خون کی قسم والے لوگ، گھر کی دوسری منزل مختلف صورت میں بناتے ہیں۔ اور O خون کی قسم کے لوگ صرف ایک ہی منزل والا گھر بناتے ہیں: وہ صرف H تریاق زا بناتے ہیں مزید آگے نہیں جاتے۔

    ہر شخص کا مدافعتی نظام اپنے خون کی قسم سے آشنا ہوجاتا ہے۔ بہرحال، اگر لوگ غلط قسم کا خون حاصل کرتے ہیں، تو ان کا مدافعتی نظام خطرناک حملے کے ساتھ جواب دیتا ہے، جیسا کہ خون کوئی حملہ آور ہو۔

    اس اصول کی استثناء صرف خون کی قسم O ہے۔ اس میں صرف H تریاق زا ہوتا ہے، جو دوسرے خون کی اقسام میں بھی موجود ہوتا ہے۔ خون کی قسم A اور B والے لوگوں میں یہ شناسا لگتا ہے۔ یہ شناسائی خون کی قسم O رکھنے والے لوگوں کو آفاقی عطیہ کنندہ بنا دیتی ہے، اور ان کا خون خاص طور پر خونی مراکز کے لئے قابل قدر ہوتا ہے۔

    لینڈاسٹینر نے اپنے تجربات کو ایک مختصر شستہ مقالے کی صورت میں 1900ء میں رپورٹ کیا۔"یہ اطلاع دینی چاہئے کہ بتایا ہوا مشاہدہ معالجاتی انتقال خون کے کئی عواقب کی وضاحت میں مددگار ہوسکتا ہے،" اس نے انتہائی شاندار دھیمے لہجہ میں نتیجہ اخذ کیا۔

    لینڈااسٹینر کی دریافت نے محفوظ، بڑے پیمانے پر خون کی منتقلی کا راستہ کھول دیا، اور آج بھی خون کے بینکوں اس کا بنیادی طریقہ کار خون کی اقسام کے خون کے خلیات کو انبار لگانے میں بطور تیز رفتار، قابل بھروسہ جانچ استعمال کرتے ہیں۔

    لیکن لینڈاسٹینر نے ایک پرانے سوال کا جواب تو دے دیا لیکن نئے سوالات کھڑے کردیئے۔ وہ کیا چیز، اگر ہے، تو ہے جس کے لئے خون کی اقسام ہیں؟ سرخ خلیات اپنے سالمات کے گھر کیوں بنانے میں مصروف بہ عمل ہوتے ہیں؟ اور لوگوں کے مختلف گھر کیوں ہوتے ہیں؟

    ان سوالات کے ٹھوس سائنسی جوابات آنا بہت مشکل رہا ہے۔ اور اسی دوران، کچھ غیر سائنسی جوابات نے بڑی مقبولیت حاصل کرلی۔"یہ تو صرف مضحکہ خیز بات ہے، کونی ویسٹ ہاف، جو نیویارک بلڈ سینٹر میں ڈائریکٹر آف ایمنو ہیماٹالوج، جنومیکس اینڈ رئیر بلڈ ہیں، آہ بھرتے ہیں۔ 

    1996ء میں ایک ماہر فطری طریقہ علاج جس کا نام پیٹر ڈی ایڈمو تھا نے ایک کتاب اپنے لئے 'صحیح خوراک لیجئے' کے نام سے شایع کی۔ ڈی ایڈمو کہتا ہے کہ ہمیں اپنے خون کی قسم کے لحاظ سے کھانا چاہئے تاکہ ہم اپنی ارتقائی ورثے کے ساتھ ہم آہنگ رہ سکیں۔

    وہ دعویٰ کرتا ہے کہ خون کی اقسام، "انسانی ارتقاء کے اہم مرحلے پر بنتی ہوئی نظر آتی ہیں"۔

    ڈی ایڈمو کے مطابق، خون کی قسم O ہمارے شکاری افریقی اجداد میں بنا، خون کی قسم A زراعت کے آغاز میں، اور خون کی B قسم 10,000 تا 15,000 برس پہلے ہمالیہ کے مرتفع میں تیار ہوئی۔ اس کا کہنا ہے کہ خون کی قسم AB جدید A اور B کے ملاپ سے بنی ہے۔

    ان قیاسات سے ڈی ایڈمو دعویٰ کرتا ہے کہ ہمارا خون اس بات کا تعین کرتا ہے کہ ہمیں کیا کھانا چاہئے۔ مثال کے طور پر زراعت کی بنیاد پر میرے خون کی قسم A ہے، لہٰذا مجھے سبزی خور ہونا چاہئے۔

    لوگ جن کا قدیمی شکاریوں والا خون کی قسم O ہے انھیں گوشت سے بھرپور خوراک لینی چاہئے اور اناج اور دودھ دے پرہیز کرنا چاہئے۔ کتاب کے مطابق، وہ خوراک جو ہمارے خون کے لئے موزوں نہیں ہے اس میں وہ تریاق زا ہوتے ہیں جو ہر قسم کی بیماری کا سبب بنتے ہیں۔ عفونت کو کم کرنے، وزن کم کرنے، سرطان اور ذیابیطس سے مقابلے کرنے اور بڑھاپے کو آہستہ کرنے کے طور پر ڈی ایڈمو اپنی پیش کردہ خوراک تجویز کرتا ہے۔

    ڈی ایڈمو کی کتاب کی 70 لاکھ نقول بک چکی ہیں اور یہ 60 سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہے۔ اس کے بعد کئی خون کی اقسام پر مبنی خوراک والی کتابوں کی قطار لگ گئی؛ ڈی ایڈمو اپنی ویب سائٹ پر مخصوص خون کی قسم پر مبنی خوراک کی کمی پورا کرنے کے لئے خوراک بیچتا ہے۔ نتیجتاً، معالجوں سے اکثر مریض پوچھتے ہیں کہ آیا خون کی قسم کی بنیاد والی خوراک اصل میں کام کرتی ہے۔

    اس سوال کا جواب دینے کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ تجربہ کیا جائے۔ اپنے لئے صحیح خوراک لیجئے میں ڈی ایڈمو لکھتا ہے کہ وہ خون کی اقسام پر مبنی خوراک کی جانچ سرطان لاحق ہوئی خواتین کے طویل ایک دہائی کے آٹھویں برس میں تھا۔

    اٹھارہ سال بعد، تاہم، اس کی جانچ سے حاصل کردہ اعدادوشمار شایع نہیں ہوئے۔

    حال ہی میں، بیلجیم میں ریڈ کراس کے محققین نے فیصلہ کیا کہ دیکھیں کہ آیا کوئی دوسرا ثبوت اس غذا کے حق میں ہے۔ انہوں نے تجربات والے سائنسی اشاعت کی چھان بین کی جس میں خون کی اقسام کی بنیاد پر خوراک کے فوائد کو ناپا گیا تھا۔ 

    اگرچہ انہوں نے 1,000 سے زائد مطالعہ کیا، ان کی کوششیں رائیگاں گئیں۔"خون کی اقسام ABO پر مبنی خوراک کے صحت پر پڑنے والے اثرات کی حمایت میں کوئی براہ راست ثبوت نہیں ہیں، بیلجئیم ریڈ کراس فلینڈرس کی ایمی ڈی بک کہتی ہیں۔

    ڈی بک اور اس کے رفقاء کے نقد و نظر کو امریکن جرنل آف کلینکل نیوٹریشن میں شایع ہونے کے بعد ، ڈی ایڈمو نے اپنے بلاگ پر اس کا جواب دیا۔ اس کے خون کی اقسام کی خوراک کے حق میں شایع شدہ ثبوت کی کمی کے باوجود، اس نے دعویٰ کیا کہ اس کے پیچھے کی سائنس درست ہے۔ 

    "خون کی اقسام کی بنیاد پر کھانے کے پیچھے ٹھوس سائنس ہے، جیسی آئن سٹائن کے ریاضیاتی حسابات کے پیچھے اچھی سائنس تھی جس کی وجہ سے نظریئے اضافیت معرض وجود میں آیا،" اس نے لکھا۔

    قطع نظر کہ آئن سٹائن سے اس کا تقابل کیا جائے، وہ سائنس دان جنہوں نے اصل میں خون کی اقسام پر تحقیق کی ہے اس طرح کے دعوے کو رد کیا ہے۔"اس طرح کی غذا کا فروغ غلط ہے،" ٹرانس فیوزن میڈیسن ریویوز میں محققین کے ایک گروہ نے صاف اعلان کردیا۔

    اس کے باوجود، کچھ لوگ جنہوں نے خون کی قسم کی بنیاد پر غذا لی انھیں کچھ مثبت نتائج حاصل ہوئے۔ احمد السوہیمی ، ٹورنٹو یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے غذائی سائنس دان، کے مطابق خون کی اقسام کا غذائی کامیابی سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ 

    ال سوہیمی نئے ابھرتے نیوٹریجینومکس میدان کے ایک ماہر ہیں۔ انہوں اور ان کے ساتھیوں نے تحقیق کے لئے 1,500 رضاکاروں کو جمع کیا، اور ان کے کھانے اور صحت کا حساب رکھا۔ وہ اپنے مفعول کے ڈی این اے کا تجزیہ کررہے تھے کہ کس طرح سے ان کی جینز متاثر ہوتی ہے کیسے خوراک اس پر اثر انداز ہوتی ہے۔ دو مختلف لوگوں پر ایک ہی خوراک کے  بہت ہی مختلف نتائج ہو سکتے ہیں جس کی بنیاد ان کی جینیات پر ہے۔

    "لگ بھگ ہر وقت میں اس موضوع پر بات کرتا ہوں، اور لوگ آخر میں مجھ سے پوچھتے ہیں، 'اوہ، کیا یہ خون کی قسم جیسی خوراک ہے؟'"ال سوہیمی کہتے ہیں۔ بطور ایک سائنس دان اس نے اپنے لئے صحیح خوراک لیجئے میں کمی پائی۔

    "کتاب میں موجود کسی بھی چیز کی بنیاد سائنس پر نہیں ہے،" وہ کہتا ہے۔ تاہم ال سوہیمی نے اس بات کا ادراک کیا کہ کیونکہ وہ اپنے 1,500 رضاکاروں کے خون کی قسم کو جانتا تھا لہٰذا وہ دیکھ سکتا تھا کہ اگر خون کی قسم کی بنیاد پر خوراک اصل میں لوگوں پر کچھ اچھا اثر ڈالتی ہے۔

    ال سوہیمی اور اس کے رفقائے کاروں نے اپنے مفعولین کو تقسیم کرلیا تھا۔ کچھ لوگ گوشت کی بنیاد پر بنی خوراک لے رہے تھے جس کو ڈی ایڈمو نے قسم O کے لئے تجویز کیا تھا، کچھ نے زیادہ تر سبزیوں پر مبنی خوراک لی جو قسم A کے لئے تجویز کی تھی وعلی ہذا القیاس۔ تحقیق میں موجود ہر شخص کو سائنس دانوں نے ایک اسکور دیا کہ انہوں نے کتنی اچھی طرح سے ہر خون کی قسم پر مبنی خوراک کی پاسداری کی ہے۔

    محققین نے دیکھا، کہ اصل میں کچھ خوراک نے لوگوں پر اچھا اثر ڈالا۔ مثال کے طور پر، وہ لوگ جو قسم A کی خوراک پر جمے رہے،  ان کی جسمی کمیت اشاری اسکور کم تھا، کمر کی چوڑائی چھوٹی تھی اور فشار خون بھی کم تھا۔ قسم او کی خوراک والے لوگوں میں ٹرائگلسرائڈس کم تھا۔ قسم B پر مبنی خوراک - جو دودھ کی مصنوعات سے لبریز تھی - اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

    "مسئلہ،" ال سوہیمی کہتا ہے، "یہ ہے کہ ان اثرات کا لوگوں کے خون کی قسم سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔"بالفاظ دیگر، اگر آپ کے  پاس خون کی قسم O ہے، تب بھی آپ اس نام نہاد قسم A پر مبنی کہلانے والی خوراک سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں بعینہ جیسے دوسرے قسم A والے اٹھاتے ہیں - غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ زیادہ تر سبزی پر مبنی خوراک کا فائدہ کوئی بھی اٹھا سکتا ہے۔

    کوئی بھی جو قسم O پر مبنی خوراک لے رہا ہو کافی کاربوہائڈریٹس میں کمی کرسکتا ہے، مجازی طور پر اس کو حاصل کرنے کا فائدہ کسی کو بھی دستیاب ہے۔ اسی طرح، دودھ پر مبنی خوراک کسی کے لئے بھی صحت مند نہیں ہے - چاہے ان کی خون کی قسم کوئی بھی کیوں نہ ہو۔

    خون کی قسم پر مبنی خوراک کی ایک چاہ اس کی وہ کہانی ہے کہ ہم نے کس طرح سے اصل میں مختلف خون کی اقسام حاصل کیں۔ تاہم یہ کہانی ان ثبوتوں سے بہت ہی کم شباہت رکھتی ہے جو سائنس دانوں نے اپنے ارتقاء کے بارے میں جمع کیے ہیں۔

    1900ء میں لینڈ اسٹینر کی انسانی خون کی اقسام کی دریافت کے بعد، دوسرے سائنس دان غور کررہے تھے کہ کیا آیا دوسرے جانداروں میں بھی خون کی مختلف اقسام ہوتی ہیں۔ یہ معلوم ہوا کہ کچھ بندروں کی انواع میں ایسا خون ہے جو کچھ مخصوص انسانی خون کی اقسام کے ساتھ اچھی طرح ملایا جاسکتا ہے۔

    تاہم کافی عرصے تک یہ معلوم کرنا مشکل تھا کہ اس دریافت کا کیا کیا جائے۔ یہ حقیقت کہ بندر کا خون میرے قسم A کے ساتھ لوتھڑے نہیں بناتا اس کا مطلب ضروری نہیں یہ ہو کہ بندر نے بھی وہی قسم A کا خون مشترکہ جد سے جس کا ہم اشتراک کرتے ہیں وراثت میں حاصل کیا ہے جو میں رکھتا ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ قسم A خون ایک سے زیادہ مرتبہ تیار ہوا ہو۔

    بے یقینی آہستگی کے ساتھ تحلیل ہونی شروع ہوئی، جس کا آغاز 1990ء کی دہائی سے ان سائنس دانوں کے ساتھ ہوا جو خون کی اقسام کی سالماتی حیاتیات کی گتھیاں سلجھا رہے تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک واحد جین، جو اے بی او کہلاتی ہے، وہ خون کی اقسام کے گھر کی دوسری منزل کو بنانے کی ذمہ دار ہے۔

    جین کا A نسخہ کچھ اہم تغیرات کے ساتھ B سے الگ ہوتا ہے۔O ٹائپ کے خون والے لوگوں کی اے بی او جین میں تغیرات ہوئے جس نے انھیں اس خامرے کو بنانے سے روک دیا جو یا تو اے یا بی ضد زا بناتے تھے۔

    تب سائنس دانوں نے اے بی او جین کا تقابل انسانوں اور دوسری انواع میں کرنا شروع کیا۔ پیرس میں واقع نیشنل سینٹر فار سائنٹفک ریسرچ سے تعلق رکھنے والے لور سیگورل اور ان کے رفقاء نے اے بی او جین کا کچھ جرات مندانہ سروے آج تک کے بندروں میں کرنے کا فیصلہ کیا۔

    اور انہوں نے دیکھا کہ ہمارے خون کی اقسام بہت ہی زیادہ پرانی ہیں۔ لنگور اور انسان دونوں میں A اور B خون کی اقسام کے تبدیل ہونے والی اقسام ہیں، اور یہ تبدیل ہونے والی اقسام ایک مشترکہ جد سے آئی ہیں جو آج سے 2 کروڑ برس پہلے رہتے تھے۔

    ہمارے خون کی اقسام اس سے بھی زیادہ پرانی ہوسکتی ہیں، لیکن کتنی پرانی یہ جاننا مشکل ہے۔ سائنس دانوں کو ابھی بھی تمام بندروں کی جینز کا تجزیہ کرنا ہے، لہٰذا وہ ابھی نہیں دیکھ سکتے کہ ہمارے اپنے نسخے دوسری انواع میں کس قدر پھیلے ہوئے ہیں۔ تاہم وہ ثبوت جنھیں سائنس دانوں نے اب تک جمع کیا ہے پہلے ہی سے خون کی اقسام کی تاریخ میں ہنگامے کا پتا دیتے ہیں۔ کچھ نسلوں میں تغیر نے کبھی کسی اور کبھی کسی خون کی قسم کو بند کردیا۔

    چمپانزی، جو ہمارے قریب ترین زندہ رشتے داروں میں سے ایک ہیں ان میں صرف ٹائپ A اور ٹائپ O خون ہوتا ہے۔ دوسری طرف گوریلوں میں صرف B ہوتا ہے۔کچھ صورتوں میں تغیر نے اے بی او جین کو تبدیل کردیا، یوں خون کی ٹائپ A ٹائپ B میں تبدیل ہوگئی۔اور یہاں تک کہ انسانوں میں، سائنس دان دیکھ رہے ہیں کہ تقلیب مسلسل وقوع پذیر ہورہی ہے جو اے بی او پروٹین کو خون کی قسم کے گھر کی دوسری منزل بنانے سے روکتے ہیں۔

    یہ تغیرات خون کی اقسام کو A یا B کو O میں تبدیل کردیتے ہیں۔"ٹائپ O بننے کے سینکڑوں طریقے ہیں," ویستھ آف کہتے ہیں۔

    بالفاظ دیگر ٹائپ A میرے ابتدائی کاشت کار اجداد کی میراث نہیں ہے۔ یہ میرے بندر جیسی اجداد کی میراث ہے۔

    یقینا، اگر میرے خون کی قسم نے لاکھوں برسوں کو برداشت کیا ہے، تب یہ مجھے لازمی طور پر کچھ واضح حیاتیاتی فوائد مہیا کریں گی۔ دوسری صورت میں، کیوں میرے خون کے خلیات اتنا پیچیدہ سالماتی ساخت بنانے کی زحمت کریں گے؟

    اب بھی سائنس دان اس بات کو جاننے کی جدوجہد کررہے ہیں کہ اے بی او جین کیا فائدہ مہیا کرتی ہے۔"اے بی او کے لئے کوئی اچھی یا قطعی وضاحت نہیں ہے،" یونیورسٹی آف ٹولوس سے تعلق رکھنے والے انٹویئن بلانچر کہتے ہیں، "اگرچہ کئی جوابات دیئے جا چکے ہیں۔"

    ہماری جہالت کی سب سے چونکا دینے والی بات خون کی اقسام کے فوائد کے بارے میں بمبئ میں 1952ء میں سامنے آئی۔ ڈاکٹروں نے دیکھا کہ کچھ مٹھی بھر مریضوں میں اے بی او خون کی اقسام ہے ہی نہیں - نہ A، نہ B، نہ AB، نہ O۔

    اگر A اور B دو منزلہ عمارت ہے، اور O ایک منزلہ باڑہ ہے، تب بمبئ کے ان مریضوں میں صرف خالی جگہ ہی تھی۔

    کیوںکہ اس حالت کی دریافت - بمبئ شکلِ نوع کہلائی - دوسرے لوگوں میں بھی نظر آئی، اگرچہ یہ حد درجہ شاذونادر ہی رہی۔ اور جہاں تک سائنسدانوں بتا سکتے ہیں، اس سے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ یہ صرف وہ معلومہ رسک رکھتا ہے جب انتقال خون کا وقت ہو۔

    بمبئ شکلِ نوع کے ساتھ لوگ دوسرے لوگوں کا صرف وہ خون قبول کرسکتے ہیں جو اسی حالت کے ساتھ ہوں۔ یہاں تک کہ خون کی قسم O، جو آفاقی خون کی قسم سمجھی جاتی ہے، ان کو ہلاک کرسکتی ہے۔

    بمبئ شکلِ نوع ثابت کرتی ہے کہ اے بی او اقسام رکھنے سے کوئی فوری حیات-یا-موت کا فائدہ نہیں ہوتا ۔ کچھ سائنس دان سمجھتے ہیں کہ خون کی اقسام کی وضاحت اس کے تغیرات میں ہی موجود ہے۔ ایسا اس لئے ہے کیونکہ مختلف خون کی اقسام ہمیں مختلف بیماریوں سے محفوظ رکھتی ہیں۔

    ڈاکٹروں نے سب سے پہلے 20ویں صدی کے وسط میں خون کی اقسام اور مختلف بیماریوں کے درمیان ایک ربط دیکھنا شروع کیا، اور یہ فہرست مسلسل بڑھ رہی ہے۔

    "اب بھی خون کے گروپس اور عفونت، سرطان اور مختلف بیماریوں کے درمیان کافی سارے تعلق ڈھونڈھنا باقی ہیں،" یونیورسٹی آف ویسٹ منسٹر سے تعلق رکھنے والی پامیلا گرین ویل نے مجھے بتایا۔

    گرین ویل سے میں نے ناگواری سے سیکھا کہ خون کی ٹائپ A مجھے کئی قسم کے سرطان ہونے کے خطرے میں رکھتی ہے، جیسا کہ کچھ لبلبے کے سرطان کی اقسام اور خون کے خلیوں کا سرطان۔

    مجھے چیچک، دل کے امراض اور خطرناک ملیریا بھی ہونے کا بھی زیادہ خطرہ ہے۔ دوسری طرف، دوسرے خون کے گروپ والے لوگوں کو دوسری قسم کی بیماریوں کے بڑھتے ہوئے خطرے کا سامنا کرنا ہوگا۔ مثال کے طور پر قسم O کے ساتھ لوگوں کو السر اور شکستہ ایکیلیز پٹھے والی بیماری کے ہونے کا امکان زیادہ ہے۔

    خون کی اقسام اور بیماریوں میں موجود ان رابطوں میں ان کے بارے میں بعید الفہم مخفی استبدادیت ہے، اور سائنس دانوں نے بس ابھی ان میں سے کچھ کے پیچھے کی وجوہات کو جاننے کے لئے کام شروع کیا ہے۔

    مثال کے طور پر، یونیورسٹی آف ٹورنٹو سے تعلق رکھنے والے کیون کین اور اس کے رفقائے کار اس بات کی تفتیش کرتے رہے ہیں کہ آیا کیوں قسم O کے حامل لوگ دوسرے خون کی اقسام کے حامل لوگوں کے مقابلے میں خطرناک قسم کے ملیریا سے محفوظ رہتے ہیں۔ اس کی تحقیق بتاتی ہے کہ مدافعتی خلیات کی متاثرہ خون کے خلیات کی شناخت کرنا اس وقت آسان ہوتی ہے جب وہ بجائے دوسرے خون کی قسم کے ٹائپ O کے ہوں۔

    خون کی اقسام اور بیماریوں کے درمیان زیادہ عجیب و غریب ربط ہیں جس کا خون کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ نورووائرس لیجئے۔ یہ گندا مرض پھیلانے والا جرثومہ مسافر بردار بحری جہازوں کے لئے زہر قاتل ہے، کیونکہ یہ سینکڑوں مسافروں پر اپنا غضب ڈھا سکتا ہے، اور قے اور اسہال کا سبب بن سکتا ہے۔ یہ ایسا ان خلیات پر حملہ کرکے کرتا ہے جو آنتوں کے ساتھ لگے ہوتے ہیں، اور خون کے خلیات کو کچھ نہیں کہتا۔

    اس کے باوجود، لوگوں کے خون کی اقسام اس خطرے پر اثر ڈالتی ہیں کہ یہ خاص قسم کے نورووائرس سے متاثر ہوں گے۔

    اس خاص قسم کے اسرار کا حل اس حقیقت میں مل سکتا ہے کہ خون کے خلیات وہ واحد خلیات ہوتے ہیں جو خون کی اقسام کے ضد زا پیدا کرتے ہیں۔ یہ خون کی وریدوں کی دیواروں، ہوائی گذر گاہ، کھال اور بالوں میں موجود خلیات سے بھی پیدا ہوتے ہیں۔

    بلکہ کافی لوگ تو خون کی قسم کے ضد زا کو اپنے تھوک میں بھی خارج کرتے ہیں۔ نورووائرس آنت میں موجود خلیات سے پیدا ہوئے خون کی قسم کے ضد زا کو پکڑ کر ہمیں بیمار کرتا ہے۔

    اس کے باوجود نورووائرس صرف مضبوطی سے خلیہ کو اسی وقت پکڑ سکتا ہے جب اس کے پروٹین بڑے آرام سے خلیہ کے خون کی قسم کے ضد زا میں بیٹھ سکیں۔ لہٰذا یہ ممکن ہے کہ ہر نورووائرس کی ہر قسم میں پروٹین ہوں جنہوں نے مخصوص خون کی قسم کے ضد زا سے مضبوطی سے منسلک ہونے کی مہارت حاصل کر لی ہو لیکن دوسرے کے ساتھ نہیں۔ یہ وضاحت کرتا ہے کہ آیا کیوں ہمارے خون کی قسم اس بات پر اثر انداز ہوتی ہے کہ کون سے نورووائرس کی قسم ہمیں بیمار کرسکتی ہے۔

    یہ اس بات کا عندیہ بھی ہوسکتا ہے کہ آیا کیوں خون کی مختلف اقسام لاکھوں برس سے اسے سہار رہی ہیں۔ ہمارے قدیمی اجداد ایک نہ ختم ہونے والے پنجرے میں قید تھے جن کا مقابلہ وائرس، جراثیم اور دوسرے دشمنوں سمیت لاتعداد مرض پھیلانے والے جرثوموں سے تھا۔

    ان میں سے کچھ مرض پھیلانے والے جراثیم نے خون کی قسم کی مختلف اقسام سے استفادہ اٹھانے میں مہارت حاصل کرلی۔ 

    وہ مرض جو سب سے عام خون کی قسم کے لئے سب سے مناسب تھے انہوں نے اچھا سفر کیا ہوگا، کیونکہ ان کے پاس سب سے زیادہ متاثر کرنے والے میزبان موجود ہوں گے۔ تاہم، بتدریج انہوں نے اپنے میزبانوں کو قتل کرکے اس فائدے کو تباہ کردیا۔ دریں اثنا، قدیمی جن کے پاس نایاب خون کی اقسام تھیں وہ پھلے پھولے، ان کو اپنے کچھ دشمنوں سے بچانے کے لئے اپنے حفاظتی نظام کا شکر گزار ہونا چاہئے۔

    جیسا کہ میں اس امکان پر غور کرتا ہوں، میرا ٹائپ A خون اب بھی میرے لئے ایسی ہی پہیلی ہے جیسا کہ اس وقت جب میں لڑکا تھا۔ تاہم اس پہیلی کی گہرائی ہی ہے جو مجھے مزید لذت دیتی ہے۔ مجھے احساس ہوا کہ ہوسکتا ہے کہ میرے خون کی قسم کی وجہ کا بالآخر میرے خون سے کوئی لینا دینا ہی نہ ہو۔

    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: انسانوں میں مختلف بلڈ گروپس کیوں ہوتے ہیں؟ Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top