Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    پیر، 15 فروری، 2016

    زحل کے چاند - نفیس انسیلیڈس حصّہ دوم

    خاکہ 6.17 انسیلیڈس پر برف کا بہاؤ ۔ بائیں جانب کی تصویر میں  ایک مخروطی  ساخت برفیلے آتش فشانی قوّت  کی جانب اشارہ کر رہی ہے (تیر کے نشان والی) جس نے برفیلے تودے کی طرح  اپنے ارد گرد  برفیلے بہاؤ کو روکا ہوا ہے۔

    پانی کا نقطہ پگھلاؤ  -  اور اس صورت میں انسیلیڈس کے برفیلے لاوا  - کا امونیا کی وجہ سے کم ہوگا، جو ایک طرح سے ضد انجماد  کی طرح کام کرتا ہے۔ دھاروں  کا درجہ حرارت منفی ٥٧ سینٹی گریڈ (آس پاس کے ماحول سے ٩٣ درجے زیادہ ) ناپا گیا ہے۔ یہ انسیلیڈس پر موجود برفیلے آتش فشاں  کے بارے میں نشانی تھی جس کی موجودگی کا کافی عرصے پہلے سے اندازہ لگایا جا رہا ہے۔ کافی قریبی اڑانوں میں کیسینی کے برق پارے  اور معتدل کمیت طیف پیماؤں نے دھاروں میں امونیا کا سراغ لگا لیا تھا۔ ہوائی انجینیروں نے  کیسینی کے مدار کو تبدیل کیا۔ ایک نئے راستے پر جہاز کو سطح سے ١٦٨ کلومیٹر اوپر سے ١٤ جولائی ٢٠٠٥ء کو گزارا گیا۔ ٹیم کے اراکین چاہتے تھے کہ مقناطیسی میدان کے مفصل اعداد و شمار  حاصل کریں اور ساتھ ساتھ چشموں  کی بھی مفصل تصاویر حاصل ہوں لیکن ان کو امید سے زیادہ بڑھ کر تفصیلات ملیں ۔ کیسینی نے براہ راست ایک پھیلی ہوئی پھوار میں سے گزر کر اڑان بھری ۔ خلائی جہاز کو اس میں ٩٠ فیصد پانی کے بخارات ملے، جبکہ کچھ کاربن ڈائی آکسائڈ، میتھین ،  ايسيٹيلِيَن ، پروپین  اور شاید کاربن مونو آکسائڈ ، سالماتی نائٹروجن  اور  کاربنی  پیچیدہ سالمات کے جھونکے بھی ملے۔ برف کے نیچے کچھ پیچیدہ کیمیائی عمل جاری تھی۔ کیسینی کے بار بار اڑان بھرنے سے ہمیں چاند کے اندرون میں اس طرح سے  جھانکنے کا موقع ملا جو ہمیں دوسرے کسی برفیلے جہاں  میں نہیں ملا تھا ۔


    اس کیمیائی ہیجان انگیزی کے علاوہ ، برفیلے ذرّات کی پھواروں میں سوڈیم کلورائیڈ (عام نمک) اور دوسری نمکیات بھی ملے۔ نمکین برف کا بننا کافی مشکل ہوتا ہے تاوقتیکہ  یہ نمکین پانی سے جمے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ پھواریں نمکین ذرّات کو اندرون سے لا رہی تھیں۔ منجمد پھواریں شاید لمبے عرصے پہلے مردہ ہوئے سمندر سے آ رہی تھیں۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ نمکین پانی اب انسیلیڈس کی سطح سے کچھ زیادہ نیچے نہیں ہے۔ اور وقتاً فوقتاً بے آب و ہوا کے دمکتے ہوئے چاند کے آسمانوں  پر اچھل کر نکلتا ہے۔

    یہ پھواریں آتش فشانی دھانوں اور پہاڑیوں کے سلسلے سے نکلتی ہیں جو  جنوبی نصف کرۂ میں چپٹے علاقے کے ساتھ موجود ہیں۔ عجیب زمین لگ بھگ ٥٥ درجے جنوبی ارض بلد تک پھیلی ہوئی ہے ۔ یہ برفیلی چپٹی سطح پر مشتمل ہے  جس پر متوازی  شہتیر منقش ہوئے ہیں۔ دھنسا ہوا میدان  ایک چوتھائی تاریک وادی میں گھرا ہوا ہے اس وادی کا نام  "چیتے کی دھاریاں" ہیں جو ١٠٠ میٹر اونچی پہاڑی ہے  جس کے دونوں اطراف میں  موجود شہتیر کچھ ٥٠٠ میٹر کی گہرائی میں نیچے تک گئے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک ٢ کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے اور ١٣٠ کلومیٹر لمبا ہے۔ تاریک مادّہ دونوں اطراف میں کئی کلومیٹر دور تک پھیلا ہوا ہے اور بظاہر شہتیر سے خارج یا رستا  ہوا لگ رہا ہے۔ چیتے کی دھاریاں لگ بھگ ٣٥ کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ہیں۔


    انسیلیڈس کی سطح کی بناوٹ  اس کے آتش فشانوں  کے بارے میں جانکاری فراہم کرتی ہے۔ محققین نے ایک اثر کو درج کیا ہے جو  حرارتی جمود کہلاتا ہے،  درجہ حرارت میں فرق کی وجہ سے ہونے والی سطحی مدافعت ۔ کیسینی نے بتایا کہ جنوبی نصف کرۂ  کی سطح میں موجود حرارتی جمود پانی کی ٹھوس برف سے ١٠٠ گنا کم ہے، یہ اس بات کا عندیہ ہے کہ سطح پھولی ہوئی روئیں دار ہو سکتی ہے جو تازہ برف  یا پالے سے ڈھکی ہوئی ہوگی۔ اس  کم کمیت والے  مادّے نے سطح زمین کو  جنوبی وادی کے ساتھ ڈھانپا ہوا ہے۔ لیکن دن میں سطح کا درجہ حرارت  بھاری شہابی گڑھوں  والے علاقے شمالی نصف کرۂ   سے ملتا جلتا  ہی ہے  جہاں پر سورج کی روشنی ٹھوس برف کی سطح پر پڑ کر  منفی ٢٠١ ڈگری تک پہنچ جاتا ہے۔ چیتے کی دھاریوں کی بناوٹ  بہت زیادہ درجہ حرارت  تک پہنچ جاتی ہے ، جو بڑھ کر پانی کے برف بننے تک کے درجہ حرارت تک ہو جاتا ہے۔ حرارت چیتے کی دھاریوں کے ساتھ  خطی  طور پر مرکوز رہتی ہے۔ درجہ حرارت اس حرارتی منبع  جیسا ہوتاہے جو ٦٦٠ میٹر پر پھیلا ہوا ہو، یہ بات  چیتے کی دھاریوں والے دھانوں  کے حاصل کردہ اعلیٰ درجہ والی تصاویر سے بالکل میل کھاتی ہے۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: زحل کے چاند - نفیس انسیلیڈس حصّہ دوم Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top