Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    جمعرات، 4 فروری، 2016

    زحل کے برفیلے چاند - ڈائی اونی حصّہ دوم

    یہ علاقے اس وقت تک پراسرار بنے رہے جب تک کیسینی خلائی جہاز زحل کے مدار میں  اپنی برسوں پر مشتمل تحقیق کرنے نہیں بیٹھ گیا۔ اس کے ڈائی اونی کے پاس بار بار نظارہ کرنے سے سفید لچھوں کی پہیلی حل ہوئی۔ یہ اصل میں برف کی عمودی ڈھلانیں تھیں جو گڑھوں والے میدان سے سینکڑوں میٹر اوپر بطور دیوار کے اٹھ رہی تھیں۔ عمودی چٹانیں شگافوں میں سے نکل رہی تھیں جو اس جانب اشارہ تھا کہ یہ چاند پر ابتدائی بھاری بمباری سے پہلے کی تھیں۔ "ڈائی اونی منفرد ہے "، جان اسپینسر کہتے ہیں جو ساؤتھ ویسٹ ریسرچ انسٹیٹیوٹ ، بولڈر، کولوراڈو   میں نظام شمسی میں موجود چھوٹے برفیلے اجسام کے ماہر ہیں۔ "کافی ساری سطح ہموار ہے اور دوسرے چاندوں کی بہ نسبت نوجوان  لگتی ہے ۔ گڑھوں  کی الگ ساخت ہے  جیسا کہ ان کو چپٹا کرنے کے لئے وہاں کافی حرارت موجود تھی۔ انسیلیڈس کے بعد یہ دوسرا متحرک چاند ہے، اگرچہ انسیلیڈس کے مقابلے میں اس میں سرگرمی بہت کم ہے لیکن ٹیتھس ، ریا اور آیاپیٹس کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔"

    ڈائی اونی کی کمیت  میں برف کے ساتھ کافی مقدار میں چٹانی مادّہ بھی ہے، شاید یہ تابکاری سے حرارت پیدا کرنے کے لئے اس کی ابتداء میں کافی تھا۔ یہ حرارت ، دوسرے مہتابوں کی قوّت ثقل کے ساتھ مل کر ماضی میں شاید چشمے جیسی کسی سرگرمی کا باعث رہی ہے۔ آج ڈائی اونی زحل کے  مدار میں 2 اور 1کی بہ نسبت  انسیلیڈس کے ساتھ گمگ میں ہے اس طرح سے یہ انسیلیڈس کے اندرون کو کھینچ کر اس پر چشموں جیسی سرگرمی کا جاری رکھنے میں مدد کرتا ہے۔ کسی دور  میں ڈائی اونی شاید دوسرے مہتابوں کے ساتھ گمگ میں اس طرح الجھ جاتا تھا  کہ اس کے اندرون میں کافی حرارت پیدا ہوتی ہے۔ لیکن ڈائی اونی آج بذات خود کافی پرسکون لگتا ہے۔

    ظاہری بناوٹ شاید دھوکہ  دے سکتی ہے، یہ بات ایک  جریدے اکارس  میں چھپنے والے حالیہ مضمون میں کہی گئی ہے۔[1]  مشاہدوں نے بڑے پہاڑ جینیکولم  ڈورسا کا مطالعہ کیا ہے   جو ایک 800 کلومیٹر لمبی پہاڑی ہے اور کچھ جگہوں پر اس کی اونچائی آس پاس کے گڑھوں سے 2 کلومیٹر اوپر تک کی بلندی  ہو جاتی ہے ۔ اس کے آس پاس جگہیں چاند کے اندرون کے بارے میں اشارہ دیتی ہیں۔ پہاڑ کے ارد گرد کی زمین اپنے وزن کی وجہ سے  ڈوبی ہوئی لگتی ہے  جو سطح کے نیچے کسی مائع پانی کے سمندر یا برف کے چورے کی جانب اشارہ  ہے۔ دبی ہوئی سطح اس بات کا ثبوت ہے کہ کم از کم ماضی میں کسی وقت قشر گرم تھی  اور وہ حرارت لازمی طور پر چاند کے اندرون سے ہی آئی ہوگی۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ماضی میں کسی وقت یہ اندرون چشموں یا برفیلے آتش فشانوں  کی صورت میں پھٹ پڑا ہو؟ جے پی ایل  سیاروی سائنس دان بونی براٹی کہتے ہیں کہ  "ڈائی اونی ہو سکتا ہے کہ  زحل کے چشمے والے چاند انسیلیڈس کا ایک حیرت انگیز سرگرمی کا رکازی نشان ہو جو کیسینی نے دریافت کیا ہے۔" یہ بھی ممکن ہے کہ چاند اب بھی ارضیاتی طور پر متحرک ہو اور  اس کے اندرون میں مائع سمندر موجود ہو۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ  کیسینی خلائی جہاز کے مقنائی میٹر نے  چاند سے دور جاتے ہوئے کمزور ذرّات  کے بہاؤ کا سراغ لگایا ہے۔  ڈائی اونی کا کرۂ فضائی انتہائی  نادر ہے جس کو  'فضائے بالا" کہتے ہیں جو قریباً آکسیجن کے جوہروں سے بنا ہوا ہے۔
     
    خاکہ 6.2 کیسینی مدار گرد سے لی گئی اس تصویر میں ڈائی اونی، ٹیتھس  کے سامنے سے گزر رہا ہے ۔

    اگر ڈائی اونی کے قشر کے نیچے مائع سمندر موجود ہے  تو یہ چاند بھی یوروپا، گینی میڈ، کیلسٹو  ، انسیلیڈس اور شاید ٹائٹن کی اس فہرست میں شامل ہو جائے گا جہاں پر ماورائے ارض سمندر موجود ہیں ، جس سے اس کی اہمیت  ماہرین فلکی طبیعیات دان اور کھوجیوں کے درمیان  بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔





    [1]۔ اکارس ، مارچ ٢٠١٤ ء
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: زحل کے برفیلے چاند - ڈائی اونی حصّہ دوم Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top