Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    منگل، 23 اگست، 2016

    ایک سحابی مفروضہ




    کانٹ فلسفی کی حیثیت سے زیادہ بہتر طور پر جانا جاتا ہے، وہ اول درجے کا فلسفی تھا، جس کی تعلیمات کا اثر پچھلے دو سو برس سے تمام فلسفیانہ سوچ پر ہے، لیکن اس کے باوجود، یہ حیرت انگیز بات ہے کہ اس کا نام انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا میں بمشکل فلکیات میں دلچسپی لینے والوں کے اندراج میں موجود ہے۔ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کانٹ کے ابتدائی کام کا ذکر 'قدرت کی عمومی تاریخ اور افلاک کا نظریہ' جو 1755ء میں شائع ہوئی تھی اس میں اس کا نام ہے ہی نہیں۔ رائٹ کے کام' ایک اصلی نظریہ 'سے بہت ہی زیادہ متاثر، جو اس کی اپنے افلاک کے نظریئے سے پانچ برس پہلے آئی تھی، کانٹ نے کائنات کی ماہیت کے بارے میں اندازے پیش کئے جو رائٹ کے تصور سے کہیں زیادہ واضح اور بیسویں صدی کے مشاہدات پر مبنی لگ بھگ کائنات کی حالیہ تصویر سے دور اندیشانہ طور پر مماثلت رکھتے ہیں۔ کانٹ نے کبھی تجربات یا مشاہدات نہیں کئے تھے، اور برسوں تک وقتاً فوقتاً اس کا تمسخر 'آرام کرسی پر بیٹھا ہوا سائنس دان' کہہ کر اڑایا جاتا تھا، یعنی ایسا سائنس دان جو بیٹھ کر دوسروں کی دریافتوں پر اندازے لگاتا ہے۔ اس کی طرح کی صرف چند ایک ہی سائنس دان تھے - جیسا کہ آئن سٹائن جو کسی عملی مہارت کے بجائے صرف اپنی دماغی طاقت پر بھروسہ کرتا تھا۔ 

    کانٹ اس وقت مشرقی پرشیا میں واقع کونیگزبرگ (اب جمہوریہ روس میں واقع کلیننگرڈ) میں 1724ء میں پیدا ہوا۔ اس کا خاندانی نام اسکاچی ترک وطن کرنے والوں سے آیا جو کانٹ کہلاتے تھے، اس کے دادا جو وہاں بس گئے تھے انھوں نے اس کا نام جرمنی کے لوگوں کی طرز پر کر دیا؛ ایمانیول کانٹ کے والد کاٹھی بنانے والے تھے، اور یہ خود غریب خاندان کے گیارہ بہن بھائیوں کے کنبے میں چوتھے نمبر پر تھا، یہ ان بچوں میں سب سے بڑا تھا جو بلوغت کی حد تک پہنچے تھے۔ اس کے والدین دین دار لوتھری تھے، اور یہ ان کے پادری ہونے کا ہی اثر تھا کہ نوجوان ایمانیول نے اپنا پہلا قدم رسمی تعلیم کے لئے اٹھایا۔ حقیقت میں وہ کونیگزبرگ یونیورسٹی میں بطور نظریاتی طالبعلم کے داخل ہوا؛ تاہم ریاضی اور طبیعیات کے مضامین نے اس کی توجہ حاصل کر لی اور ان ہی پر اس نے اپنی زیادہ توجہ مرکوز رکھی۔ اس کے بعد اس نے تعلیمی طرز معاش اختیار کیا، تاہم جب اس کے والد کا انتقال 1746ء میں ہوا تب ایمانیول کو یونیورسٹی کو خیر آباد کہنا پڑا اور اس کے بعد وہ بطور نجی معلم پڑھانے لگا - یہ کسی بھی طرح سے غیر موافقت معاش نہیں تھا، کیونکہ اگلے نو برسوں کے دوران اس کے تین آجر معاشرے میں اثر و رسوخ رکھنے والے خاندان تھے جنہوں نے اس کو نئی طرز زندگی اور حلقہ احباب سے متعارف کروایا۔ یہ اس دور کے دوران ہوا جب کانٹ نے اپنی زندگی کا طویل ترین سفر کیا، یعنی اس نے اپنے قصبے ارنسڈورف سے ساٹھ میل کا سفر کیا۔ 

    1755ء میں کانٹ بالآخر یونیورسٹی میں بطور لیکچرار کے نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ باوجود اس کے کہ اس کو دوسری یونیورسٹیوں میں اچھے مقام کی پیش کش ہوئی، اس نے اپنی پوری زندگی کونیگزبرگ میں ہی گزار دی، 1770ء میں وہ منطق اور مابعد طبیعیات کا پروفیسر بنا اور اس مقام پر وہ ستائیس برس تک براجمان رہا۔ اس کا انتقال 1804ء میں ہوا۔ تاہم وہ کام جس کے لئے اسے ہمیشہ عالم تکوینیات یاد رکھیں گے وہ اس وقت مکمل ہوا جب وہ ایک معمولی نجی معلم تھا، اور اس کا یہ کام اس برس شایع ہوا تھا جب اس نے یونیورسٹی میں پہلی مرتبہ رسمی طور پر نوکری کو قبول کیا تھا۔ 

    رائٹ کی کتاب ایک اصل نظریئے نے کبھی بھی مقبولیت کا مزہ نہیں چکھا تھا اور جلد ہی وہ نایاب ہو گئی تھی۔ کانٹ نے ، جہاں تک ہم جانتے ہیں، کبھی اس کتاب کا خود سے مطالعہ نہیں کیا، تاہم وہ رائٹ کے خیالات سے کتاب پر ہونے والے لمبے تبصروں کے ذریعہ آگاہ ہوا، جو ہیمبرگ جریدے میں 1751ء میں شایع ہوئے تھے۔ کانٹ نے جو مسرت کے ساتھ تبصرے پڑھے تھے ان میں رائٹ کے وہ اقوال بھی شامل تھے جو نہ صرف درست تھے بلکہ رائٹ کی اپنی کتاب کے مقابلے میں زیادہ واضح تھے، کیونکہ اس میں صرف رائٹ کے خیالات کا مرکزی خیال شامل تھا، جس میں ملکی وے کو ستاروں کا مجموعہ بتایا گیا تھا 'تمام کے تمام ایک ہی سمت میں حرکت کر رہے ہیں، اور ایک سطح سے بہت زیادہ انحراف نہیں کر رہے۔ ' کانٹ نے اس موضوع گفتگو کی اپنی کتاب میں تفصیلی وضاحت کی، اور رائٹ کی نسبت بہت زیادہ قوی دلائل روشنی کے دھندلے پیوندوں، سحابیہ، کی ماہیت کے بارے میں دیئے، جن کو دوربینوں کی مدد سے تو دیکھا جا سکتا ہے تاہم انھیں واضح طور پر انفرادی ستاروں کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ ایڈون ہبل نے جو بیسویں صدی کا ممتاز عالم تکوینیات تھا اپنی کتاب سحابیہ کی بادشاہت میں افلاک کے نظریئے کے ایک اہم حصّے کا اچھا ترجمہ کچھ یوں کیا: 

    اب میں نظام کے دوسرے حصّے کی طرف آتا ہوں، اور کیونکہ یہ تخلیق کے منصوبے سے متعلق با وقار تصور پیش کرتا ہے، لہٰذا یہ مجھے سب سے زیادہ دلفریب لگتا ہے۔ خیالات کا وہ سلسلہ جو ہمیں یہاں تک لے جاتا ہے بہت ہی سادہ اور قدرتی ہے۔ وہ درج ذیل ہیں : ایک عام سطح پر ستاروں کے مجموعے کے نظام کے بارے میں فرض کریں، تاہم وہ ہم سے اس قدر دور ہو کہ ہم اپنی دوربینوں سے بھی اس میں انفرادی ستاروں کی شناخت نہ کر سکیں۔ ۔ ۔ اس طرح کی نجمی دنیا اس دیکھنے والے کو جو بہت ہی عظیم فاصلے سے دیکھنے کی کوشش کر رہا ہے ایسی لگے گی جیسے کہ منور چھوٹا نقطہ جو چھوٹے سے زاویے کے سامنے ہو؛ اس کی صورت کروی ہو گی، بشرطیکہ اس کی سطح خط نظر کے عمودی ہو، اور اس کی صورت بیضوی اس وقت ہو گی جب وہ ترچھی ہو۔ روشنی کا دھندلا ہونا، اس کی صورت اور اس کا قابل قدر قطر واضح طور پر اس طرح کے مظہر کو اس کے گرد موجود الگ ستاروں سے مختلف دکھائے گا۔ 

    ہمیں اس بات کی ضرورت نہیں ہے کہ ہم اس طرح کے مظہر سے ملنے کے لئے فلکیات دانوں کے دور کے مشاہدات کو دیکھیں۔ ان کو کئی ماہرین فلکیات دیکھ چکے ہیں جو ان کی عجیب و غریب وضع کو دیکھ کر حیران رہ گئے تھے۔ (2008ء)۔ 

    ہبل کانٹ کی دلیل سے خوش تھا کیونکہ اس کی بنیاد اس چیز پر تھی جس کو آج ہم یکسانیت کا قانون کہتے ہیں، یا تھوڑا طنزیہ طور پر، خاکی اوسط کا اصول بھی کہتے ہیں۔ یہ بتاتا ہے کہ ہم کائنات کے عام سے نوعی حصّے میں رہتے ہیں، اور کائنات کو کوئی بھی دوسرا نوعی حصّہ بالکل ہماری بستی جیسا ہی دکھائی دے گا۔ ہم ایک عام سی کہکشاں میں رہتے ہیں، کانٹ ایک طرح سے کہتا ہے، اور دھندلے سحابیہ جو فلکیات دانوں کو دکھائی دیتے ہیں یہ کوئی نیا مظہر نہیں ہیں بلکہ ہماری طرح کی عام کہکشائیں ہیں۔ کوئی بھی جو ان کہکشاؤں کے کسی بھی ستارے کے گرد چکر لگانے والے سیارے پر رہتا ہو گا وہ ہماری ملکی وے کہکشاں کو روشنی کے ایک دھندلے پیوند سے زیادہ نہیں دیکھ سکے گا جو بمشکل اس کی دوربین سے نظر آئے گی۔ اور جیسا کہ تصور کو واضح طور پر پہلی مرتبہ پیش کر دینا ہی کافی نہیں تھا، کانٹ کو عمومی طور پر 'جزیرہ نما کائنات' کی اصطلاح ایجاد کرنے کا سہرا دیا جاتا ہے، جس کی مدد سے وہ کہکشاؤں کو خلاء کی عظیم خالی جگہ میں پھیلا ہوا بیان کرتا تھا۔ 

    کانٹ اور رائٹ (جن کا کام کانٹ کی تحریر کے حوالے کی صورت میں دو سو برسوں تک سب سے بہترین رہا) نے ناموری حاصل کی، تاہم یہ بات واضح طور پر اس جانب اشارہ کر رہی تھی کہ اب کسی اور کا وقت آنے والا ہے۔ جوہان لیمبرٹ جو ایک سوئس نژاد جرمن بحرالعُلُوم شخص تھا اور جس نے دوسری چیزوں کے علاوہ پہلی مرتبہ با مشقت ریاضیاتی ثبوت بھی مہیا کیا تھا کہ پائی، دائرے کے محیط کی اس کے قطر سے نسبت، غیر ناطق عدد ہے، یہ کائنات کی اسکیم سے الگ پیش کیا جانے والا کام تھا جو خود مختار طور پر آیا اور 1761ء میں شائع ہوا۔ حقیقت میں اس خط کے مطابق جو اس نے کانٹ کو لکھا تھا ( اور ہمارے پاس کوئی ایسی وجہ نہیں ہے کہ ہم اس پر شک کریں ) لیمبرٹ نے پہلی مرتبہ ان خطوط پر 1749ء میں سوچا۔ اس نے اپنا مقالہ جب لکھ لیا تبھی اسے رائٹ اور کانٹ کے کام کا معلوم ہوا۔ 1760ء سے لے کر بعد تک، جزیرہ نما کائنات کا تصور ماہرین فلکیات میں عام تھا، اگرچہ عمومی طور پر اس کو تسلیم نہیں کیا جاتا تھا۔ آرام داہ کرسی پر بیٹھے ہوئے سائنس دانوں نے اپنے وہ خیالات پیش کر دیئے تھے جہاں تک وہ کائنات کے دستیاب محدود مشاہدات کے بل بوتے پر سوچ سکتے تھے، اور اب یہ مشاہدہ کرنے والوں کا وقت تھا جو ایک مرتبہ پھر فلکیاتی سیج کا مرکز نگاہ بننے جا رہے تھے۔ بیسویں صدی سے پہلے تک مشاہدات اس قابل نہیں تھے کہ خود سے 'سحابیہ ہی کہکشاں ہیں' کے مفروضے کی حتمی جانچ کو کر سکیں، اور پھر بڑھتے ہوئے سیلاب میں آرام داہ کرسی پر بیٹھے ہوئے نظری سائنس دانوں کے پاس نئی اطلاعات کی لہر آ گئی جس کو وہ ہضم کر کے نئی تصورات کو پیش کرنے کی کوشش کرنے لگے۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: ایک سحابی مفروضہ Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top