Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    بدھ، 24 اگست، 2016

    کائنات کا مشاہدہ - حصّہ اوّل


    اٹھارویں صدی کے چند شاہد سحابیہ میں خود سے دلچسپی لے رہے تھے، تاہم کئی دوسروں کی دلچسپی کا محور دم دار تارے تھے۔ دم دار ستاروں کی سائنسی اہمیت کو اگر چھوڑ دیں تب بھی ان کی دریافت نے کئی ماہرین فلکیات کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا، اور نئے دم دار ستارے روایتی طور پر اپنے دریافت کنندہ کے نام پر رکھے جانے لگے (اور اب بھی ایسے ہی ہوتا ہے )۔ ایڈمنڈ ہیلے جس کا نام شاید ہمیشہ کے لئے دم دار تاروں کے ساتھ جڑا رہے گا، اس کی وفات 1742ء میں ہی ہو گئی تھی جس کی وجہ سے اس کا وہ دعویٰ نہیں جانچا جا سکا تھا جس میں اس نے کہا تھا کہ 1456ء، 1531ء، 1607ء، اور 1682ء میں دیکھا جانے والا دم دار تارہ اصل میں ایک ہی تارہ ہے جو نظام شمسی کے اندرونی حصّے میں ظاہر ہوتا ہے، اور اس نے پیش گوئی کی کہ اس کی واپسی دوبارہ 1758ء میں ہو گی۔ جب وہ اپنے جدول کے مطابق نمودار ہوا، ہیلے کا تاریخ میں مقام پکا ہو گیا تھا، اس کے ساتھ ہی اٹھارویں صدی کے دوسرے نصف حصّے میں فلکیات دانوں کی دم دار ستاروں کو ڈھونڈنے کی چاہت میں بھی اضافہ ہو گیا تھا۔ تاہم دم دار تاروں کی ایک بری چیز یہ ہے کہ جب ان کی اوّلین شناخت کی جاتی ہے تو یہ دوربین سے دیکھنے پر روشنی کے دھندلے پیوند کی طرح نظر آتے ہیں، بعینہ سحابیہ کے جسے جس کو دیکھ کر کانٹ بہت زیادہ متحیر ہو گیا تھا۔ کئی فلکیات دان سوچتے تھے کہ ان کی لاٹری لگ گئی ہے، تاہم ان کی امیدوں پر اس وقت اوس پڑ جاتی جب مسلسل راتوں کے مشاہدے کے بعد معلوم ہوتا کہ جو روشنی کا پیوند انھوں نے دریافت کیا ہے وہ سورج سے قریب ہونے پر بھی اپنی بڑھوتری اور روشنی میں اضافے کا کوئی اشارہ نہیں دے رہا، بلکہ وہ ہمیشہ ایک ہی جیسا رہتا ہے۔ ماہرین فلکیات کو تمام معلوم پائیدار سحابیوں کی فہرست درکار تھی تاکہ وہ نئے دم دار تاروں کے چکر میں بیوقوف نہ بن جائیں۔ اور اس قسم کی پہلی مہذب فہرست چارلس میسی نے بنائی، جو ایک فرانسیسی فلکیات دان تھا، اس نے اپنے اس محنت طلب کام کو 1760ء اور 1784ء کے درمیان ترتیب دیا تھا۔ روشن ترین سحابیہ، ستاروں کے جھرمٹوں کے ساتھ دیکھے اور شناخت کئے گئے، اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ میسی ان کو خاص اہمیت دیتا تھا، بلکہ یہ اس کو دم دار ستاروں کے ڈھونڈنے کے کام کے دوران تنگ کرتے تھے لہٰذا اس نے ان کی الگ شناخت کی کہ 'ان کو الگ رکھو، یہ دم دار تارہ نہیں ہے '۔ فہرست نے اپنا مقصد بہت اچھی طرح پورا کیا؛ میسی نے خود سے کم از کم پندرہ دم دار تارے دریافت کئے (کچھ لوگ اکیس تک کا دعویٰ بھی کرتے ہیں )۔ اور جب ایک ماہر فلکیات نمودار ہوا جو خود ہی سے سحابیوں میں دلچسپی لیتا تھا، اور میسی کی فہرست نے اس کو اپنے خود کے مشاہدات کے لئے قابل قدر آغاز فراہم کیا۔ 

    یہ ماہر فلکیات ولیم ہرشل تھا۔ 

    ہرشل 1738ء میں ہین اورین پیدا ہوا تھا۔ اپنے باپ کی طرح وہ ہین اورین گارڈز کے بینڈ باجے میں ایک موسیقار تھا، اور اس نے 1756ء میں بینڈ کے ساتھ انگلستان کا دورہ کیا۔ ایک سال بعد، فرانس کے ساتھ ایک چھوٹی سی جھڑپ ہین اورین پر قبضے کا باعث بنی، اور ہرشل نے انگلستان میں مستقل سکونت اختیار کر لی، جہاں پر وہ موسیقی کے استاد، اداکار اور موسیقار کی حیثیت سے کام کرنے لگا 1766ء تک وہ باتھ میں واقع اوکٹاگون چیپل میں ارگن بجانے والے کی حیثیت سے بھرتی ہو گیا۔ آہستہ آہستہ علم فلکیات میں اس کی دلچسپی، جو شروع میں شوقینی کی حد سے زیادہ کی نہیں تھی، ایک جذبہ بن گیا، اور وہ نا صرف سورج، چاند اور سیاروں کے مشاہدے میں جت گیا جس طرح اس وقت کے زیادہ تر ماہرین فلکیات کرتے تھے، بلکہ وہ جس قدر بعید ترین اور دھندلے اجسام کا مطالعہ کر سکتا تھا اس نے وہ بھی کیا۔ اس شوق نے اس کو مجبور کیا کہ وہ دوربین بنانے کا ماہر بن جائے، اس نے اپنے استعمال میں شیشوں کو چمکایا تاکہ ان کا استعمال ان آلات میں کیا جا سکے جو اس کو وہ دھندلے فلکی اجسام دکھا سکیں جن کو اس سے پہلے کسی نے بھی نہیں دیکھا تھا، اور اس نے ان معلوم اجسام کے متعلق نئی تفصیلات فراہم کیں۔ اس کی بہن کیرولن جو اس کے ساتھ باتھ میں 1722ء میں مل گئی تھی وہ بھی فلکیات کا یہی شوق رکھتی تھی، اور وہ اس کے معاون کے طور پر دونوں جگہ 

    دوربین کو بنانے اور مشاہدات کرنے میں ہاتھ بٹانے لگی۔ وہ ساتھ مل کر آسمان کا نظم و ترتیب کے ساتھ مشاہدہ کر کے تمام اطراف میں سروے کرتے۔ اور آسمان کی خاک چھاننے کے دوران ایک مرتبہ 1781ء میں ہرشل کی لاٹری نکل آئی۔ جس کو اس نے پہلی مرتبہ دم دار تارہ سمجھا تھا وہ ایک ایسا سیاروی جسم نکل آیا جس کو اس سے پہلے کسی نہیں نہیں دیکھا تھا، قدیمی دور سے پہلی مرتبہ شناخت ہونے والا۔ موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیتے ہوئے ہرشل نے نئے سیارے کا نام بادشاہ جارج سوم کے نام پر 'جارج کا ستارہ' رکھا؛ آخر میں اس کا نام یورینس رکھا گیا، تاہم بادشاہ کافی خوش ہو چکا تھا اور 1782ء میں ہرشل کی تقرری بطور ادارے کے فلکیات دان ( یہ شاہی فلکیات دان جیسا عہدہ نہیں تھا، اس عہدے پر اس دور میں ریورینڈ نیول مسکلینی براجمان تھا) کی حیثیت سے ہو گئی۔ وہ اسی برس رائل سوسائٹی کا رکن بن گیا، وہ باتھ سے ونڈسور منتقل ہو گیا اور اس کے بعد سلو چلا گیا، اور پھر تینتالیس برس کی عمر میں بادشاہ کی اعانت سے پیشہ وار فلکیات دان بن گیا۔ 

    اس کے بعد سے ہرشل کو بڑی اور بہتر دوربینوں کو بنانے کے لئے پیسے کا انتظام کرنا کوئی بڑی بات نہ رہی، جس کی مدد سے وہ رات کا آسمان چھانتا تھا۔ اس کو میسی کے سحابیوں کی ابتدائی فہرست دی گئی، جس سے اس نے کیرولن کے ساتھ مل کر اپنے سحابیوں کی فہرست کو ترتیب دیا۔ ان کی تلاش کا نتیجہ ایک ایسی فہرست کی صورت میں نکلا جس میں 1802ء میں دو ہزار سے زیادہ سحابیے شامل تھے، اس سے بھی زیادہ بہتر فہرست 1820ء میں شایع ہوئی، اس وقت تک ہرشل اپنی عمر عزیز کی آٹھ دہائیاں دیکھ چکا تھا۔ 1816ء میں اس کو نائٹ کا خطاب ملا۔ ساتھ ساتھ ہرشل نے جزیرہ نما کائنات کا خوب چرچا کیا۔ ہو سکتا کہ کہ اس کو یہ خیال براہ راست رائٹ کی کتاب سے ملا ہو، کیونکہ اس کی رائٹ کی اپنی کتاب کی نقل اب تک موجود ہے، اور اس پر اس کے ہاتھ کا لکھا ہوا نوٹ بھی درج ہے، جس کو 1781ء کے بعد کسی وقت لکھا گیا تھا۔ 1785ء تک ہرشل اس بات کو مان چکا تھا کہ تمام سحابیے ستاروں پر مشتمل ہیں، جس طرح سے کانٹ نے اندازہ لگایا تھا، اور وہ اور کیرولن اپنی نئی دوربین کو استعمال کر کے اس قابل ہو گئے تھے کہ ان میں سے کئی بادلوں کے حصّوں کو بطور ستارے شناخت کر سکیں۔ 

    اس بات کو بیان کرنے کی کوشش میں کہ آیا کیوں ستارے اس طرح سے جمع ہوتے ہیں، ولیم نے کائنات کے ارتقاء کا نظریہ بنایا جس میں بے ترتیب منتشر ستارے آہستہ آہستہ قوّت ثقل کے زیر اثر ڈھیر ہوتے ہیں۔ یہ پہلی کوشش تھی جس میں کائنات کو بذریعہ تبدیلی کے بیان کرنے کی کوشش کی گئی تھی، اگرچہ اس کا مخصوص خیال جدید جانچ کے قابل نہیں ہے، ہرشل اس لائق ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ ہونے والی کائنات کا ارتقاء اور تبدیلی کے تصوراتی جرات مند خیال کا سہرا اس کے سر باندھا جائے۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: کائنات کا مشاہدہ - حصّہ اوّل Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top