Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    جمعہ، 19 اگست، 2016

    ہزار برس تک جینے پر تحقیق


    اگست 07، 2016

    "انسانی تاریخ میں وہ پہلا شخص جو ایک ہزار (1,000) برس تک زندہ رہ سکتا ہے وہ یقینی طور پر آج موجود ہے۔ ۔ ۔ چاہے وہ یہ بات جانتا ہو یا نہ ہو۔ حادثات اور خود کشی میں ہونے والی اموات کو چھوڑ کر، اب زیادہ تر وہ لوگ جو 40 برس یا اس سے کم عمر کے ہیں صدیوں تک جینے کی توقع کر سکتے ہیں، " یہ دعویٰ کیمبرج یونیورسٹی کے ماہر جینیات ابرے ڈی گرے کا ہے۔ میرے اور پورے طبی پیشے کے کام میں جو فرق ہے وہ یہ کہ میں سمجھتا ہوں کہ جلد ہی ہم اس قابل ہوجائیں گے کہ بڑی عمر کے لوگ قابل رشک صحت رکھ سکیں یعنی کہ 90 برس کی عمر میں وہ اسی طبیعی حالت میں سو کر اٹھیں گے جیسا کہ وہ 30 برس کی عمر میں سو کر اٹھتے تھے، اور کسی صبح سو کر نہ اٹھنے کا امکان اس سے زیادہ نہیں ہو گا جتنا کہ 30 برس کی عمر میں ہوتا ہے۔ "


    اوپر والی تصویر ایک برطانوی مجسمہ ساز انتھونی گورملے نے بنائی ہے جو فطرت میں انسان کے مقام کی تلاش میں ہیں۔ گورملے کی تخلیق کو آسٹریائی الپس میں اونچا کر کے ٹانگا گیا ہے۔ یہ ان سو ڈھلے ہوئے لوہے کے مجسمے میں سے ایک ہے جو آسٹریا کے 150 مربع کلومیٹر (58 مربع میل) پر پھیلے ہوئے ڈرامائی نظارے کو پیش کرتے ہیں۔ 

    "میں نہیں سمجھتا کہ [ابدی] ہونا ممکن ہے، " مخالف، ییل اسکول آف میڈیسن کے سرجری کے پروفیسر شیرون نو لینڈ کہتے ہیں۔ "ابرے اور ان کے ہمنوا جو حیات کو طویل عرصے تک پھیلانے کی بات کرتے ہیں وہ سائنس کو کچھ زیادہ ہی سادہ سمجھ رہے ہیں اور اپنے کام کی وسعت کو سمجھ نہیں پارہے۔ اس کی منصوبہ بندی کامیاب نہیں ہو گی۔ اگر ایسا ہو گیا، تو یہ انسان ہونے کی حیثیت کو کم تر کر دے گا۔ "

    غالباً ڈی گرے کافی زیادہ رجائیت پسند ہیں، تاہم دوسرے ان کی تحقیق میں آب حیات کی تلاش کی وجہ سے شامل ہوئے ہیں۔ سچ تو یہ ہے، کافی سائنس دانوں، ڈاکٹروں، جینیات و نینو ٹیک ماہرین کی تعداد - جن میں سے کئی معقول علمی ساکھ والے ہیں - اسرار کرتے ہیں کہ ہمارے پاس کوئی ایسی وجہ نہیں ہے کہ عمر بڑھنے کی رفتار کو ڈرامائی طور پر آہستہ یا مکمل طور پر روکا نہ جا سکے۔ نہ صرف یہ نظریاتی طور پر ممکن ہے، بلکہ سائنسی طور پر قابل حاصل مقصد بھی ہے جس کو کم وقت میں حاصل کیا جا سکتا ہے تاکہ آج زندہ رہنے والوں کو اس کا فائدہ دیا جا سکے۔ 

    "میں حیات ابدی پر کام کر رہا ہوں، " یونیورسٹی آف کیلی فورنیا، ارون کے ارتقائی حیاتیات کے پروفیسر مائیکل روز کہتے ہیں، جنہوں نے پھل مکھی کی حیات کو بڑھانے کے نتائج میں کافی پیش رفت حاصل کی ہے۔ "بیس برس پہلے  نوجوانی لوٹانے کی بات کو تو چھوڑ ہی دیں،عمر بڑھنے کے عمل کو روکنے کا خیال ہی عجیب و غریب ہوتا تھا۔ آج ہمارے پاس کافی معقول وجوہات  موجود ہیں کہ ایسا کرنا بنیادی طور پر ممکن ہے۔ "

    یہاں تک کہ امریکی حکومت نے اس میدان کو کافی امید افزا پایا ہے اور تحقیق کے لئے کچھ رقم بھی دی ہے۔ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ایجنگ کے مطابق، جو نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کا حصّہ ہے "عمر رسیدگی کی حیاتیات" کے لئے وفاقی سرمائے کی فراہمی، عمر سے متعلق مخصوص بیماریوں پر ہونے والے کام کو چھوڑ کر جیسے کہ دل کا دورہ اور سرطان - سالانہ 2.4 ارب ڈالر تک کی ہے۔ 

    اب تک، سب سے زیادہ حیرت انگیز نتائج بڑی یونیورسٹیوں کی جینیاتی تجربہ گاہوں میں حاصل کئے گئے ہیں، جہاں بڑھتی عمر کو روکنے والے سائنس دانوں نے ممالیہ سمیت کافی جانداروں کی حیات کو بڑھانے کا طریقہ دریافت کیا۔ تاہم صرف جینیاتی تحقیق ہی وہ میدان نہیں ہے جو ابدیت کی کنجی رکھتی ہے۔ 

    "عمر رسیدگی کے کافی سارے مختلف اجزاء ہیں اور ہم ان تمام کے تمام سے نمٹ رہے ہیں، " پالو الٹو، کیلی فورنیا میں واقع ایک غیر منافع بخش، نینو ٹیک گروپ کے انسٹیٹیوٹ فار مالیکیولر مینوفیکچرنگ سے تعلق رکھنے والے رابرٹ فریٹاس نے کہا۔ "یہ وقت لے گا اور، اگر آپ اس کو جدید ٹیکنالوجی میں ہونے والی پیش رفت کے تناظر میں دیکھنا چاہیں ،تو یوں سمجھیں کہ اگر اس کی جگہ ٹیلی فون ہوتا تو ہم الیگزینڈر گراہم بیل کے اپنے پہلے آلے کے ذریعہ اپنے ماتحت سے بات کرنے سے 10 برس کی دوری پر ہیں۔ پھر بھی، مستقبل قریب میں، اگلی دو سے چار دہائیوں تک، عمر رسیدگی کی بیماری پر قابو پا لیا جائے گا۔ "

    تاہم ہر کوئی نہیں سمجھتا کہ عمر رسیدگی کا علاج ہو سکتا ہے یا ہونا چاہئے۔ بعض کا کہنا ہے اس بات سے قطع نظر کہ اصل میں ہم ایسا کر سکتے ہیں یا نہیں انسان ہمیشہ زندہ رہنے کے لئے ہیں۔ 

    یہ دلچسپ بات ہے کہ نو لینڈ پہلے کہتا ہے کہ وہ نہیں سمجھتا کہ یہ ٹیکنالوجی کام کرے گی لیکن اس کے بعد اضافہ کرتا ہے کہ اگر اس نے کام کیا، تو یہ انسانیت کو تباہ کر دے گی۔ لہٰذا کون سی بات درست ہے ؟ کیا یہ ممکن ہے، یا جیسا کہ متشکک صرف اس کے نہ ہونے کی امید کرتے ہیں؟

    الغرض، ہمارا پہلے ہی بڑھتی ہوئی آبادی، گلوبل وارمنگ، محدود ذرائع اور دوسرے مسائل سے نمٹنے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، لہٰذا اس بات کی کیا ضرورت ہے کہ ابدیت کو اس میں شامل کر کے مسائل میں اضافہ کیا جائے۔ 

    لیکن عمر رسیدگی کو روکنے کے حامی دلیل دیتے ہیں کہ ہمارے نقطہ نگاہ کے تبدیل ہونے اور سائنس اور ٹیکنالوجی میں شَرحًا پیش رفت کے ساتھ نئے حل نکلیں گے۔ مثال کے طور پر خلائی آباد کاری ڈرامائی طور پر بہتر وسائل کی تنظیم کے ساتھ طویل عرصے کے ساتھ جڑے خدشات کو حل کر سکتی ہے۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ اگر کائنات ہمیشہ کے لئے چلتی رہی - جس میں سے زیادہ تر ناقابل استعمال ہے - تو اس کو آباد کیوں نہ کیا جائے ؟

    بہرحال عمر رسیدگی کو روکنے والے مجاہد اس کی مخالفت میں تیزی سے اثر و رسوخ رکھنے والے بقائے حیات کے اتحادیوں سے آ رہے ہیں جو "غیر فطری" طویل حیات پر ہونے والی تحقیق کو محدود کرنے کے چکر میں ہیں۔ اس میں سے کچھ صدر بش پر 2001 میں اثر و رسوخ رکھنے والے افراد شامل تھے جس کی وجہ سے جنینی ساق خلیے پر ہونے والی تحقیق کو فراہم کئے جانے والے سرمایہ کو محدود کر دیا گیا تھا۔ وہ حیات میں اضافہ اور عمر رسیدگی کو روکنے پر ہونے والی تحقیق کے تصور کے اخلاقی، تہذیبی اور ماحولیاتی پہلوؤں اور وجوہات کی بنا پر مخالف تھے۔ 

    سابقہ حیاتیاتی اخلاقیات کی بش کی کونسل کے سربراہ لیون کاس، زور دیتے ہیں کہ "انسانی حیات کی محدودیت ہر انفرادی انسان کے لئے ایک نعمت ہے۔ " نیو یارک میں واقع ہیسٹنگ سینٹر کی چھاونی کے ماہر حیاتیاتی اخلاقیات ڈینیل کلہان متفق ہیں: "موت کو فتح کرنے سے کوئی معلوم معاشرتی اچھائی نہیں ملے گی ۔ " 

    ہو سکتا ہے کہ وہ درست ہوں، تاہم ہم انسان کیوں پہلے قدم پر اپنی زندگی کو طوالت دینے کے لئے اتنی کوشش کرتے ہیں؟ ہو سکتا ہے کہ بوڑھا ہونا، بیمار ہونا اور مرنا اتنا ہی قدرتی ہے، حیات کے چکر کا ناگزیر حصّہ، اور ہمیں اس بات کو قبول کرنا چاہئے۔ 

    "تاہم یہ ناگزیر نہیں ہے، اصل بات یہ ہے، " ڈی گرے کہتے ہیں۔ "فی الوقت، ہم اس خوفناک انجام میں پھنس گئے ہیں کہ ہم سب بوڑھے اور بیمار ہوں گے اور تکلیف دہ موت سے ہمکنار ہوں گے۔ عمر رسیدگی کی بیماری کی وجہ سے روزانہ 100,000 لوگ ہلاک ہوتے ہیں۔ ہم اس قتل عام کو روک نہیں سکتے۔ یہ صرف فیصلہ کرنے کا مسئلہ ہے کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ "


    ڈیلی گیلکسی بذریعہ worldhealth.net اور بی بی سی نیوز
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    1 comments:

    Majid کہا... 19 اگست، 2016 کو 2:34 PM

    ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب
    ہم نے دشت ِ امکان کو ایک نقش ِ پاپایا

    Item Reviewed: ہزار برس تک جینے پر تحقیق Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top