Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    منگل، 30 اگست، 2016

    کائنات کے پانچ مرحلے - حصّہ دوم


    مرحلہ سوم: انحطاطی دور
    تیسرے مرحلے میں 15 اور 39 کے درمیان) کائنات میں موجود ستاروں کی توانائی بالآخر ختم ہو جائے گی۔ ہائیڈروجن اور ہیلیئم کے جلنے کا ازلی لگنے والا عمل رک جائے گا اور اپنے پیچھے مردہ نیوکلیائی مادّے کے ٹکڑے بونے ستاروں، نیوٹران ستاروں اور بلیک ہول  کی شکل میں چھوڑ دیں گے۔ آسمان میں موجود ستارے دمکنا بند کر دیں گے اور کائنات بتدریج تاریکی میں ڈوبتی جائے گی۔

    مرحلہ سوم میں  درجہ حرارت ڈرامائی طور پر گر جائے گا کیونکہ ستارے اپنا نیوکلیائی انجن کھو دیں گے۔ بفرض محال کہ زمین اس وقت تک باقی بچی رہ بھی گئی تو  اس کی سطح پر جو کچھ بھی ہوگا وہ برف کی چادر میں بدل چکا ہوگا اور ذہین مخلوق کو مجبور کر دے گا کہ وہ نئے گھر کی تلاش کرے۔

    اگرچہ دیوہیکل ستارے کچھ دسیوں لاکھ برس تک زندہ رہتے ہیں جبکہ ہائیڈروجن جلانے والے ستارے جیسا کہ ہمارا سورج ہے کچھ ارب ہا برس تک زندہ رہ سکتا ہے، چھوٹے سرخ ستارے حقیقت میں کھرب ہا برس تک زندہ رہ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زمین کا مدار کسی بونے ستارے میں بدلنے کے نظریئے کی  وجہ سمجھ میں آتی ہے۔ زمین سے سب سے قریبی ستارہ پروکسیما قنطورس  ہے جو ایک سرخ بونا ستارہ ہے  جس کا فاصلہ زمین سے صرف 4.3 برس کا ہے۔ ہمارا قریبی پڑوسی سورج کی کمیت کا صرف 15 فیصد ہے اور سورج سے چار سو گنا کم مدھم ہے، لہٰذا اس کے گرد چکر لگاتے ہوئے کسی بھی سیارے کو اس کے انتہائی نزدیک ہونا ہوگا تاکہ اس کی مدھم شمسی توانائی سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔ زمین کو سورج کے گرد اپنے موجودہ مدار کی نسبت 20 گنا زیادہ قریب چکر لگانا ہوگا تاکہ اتنی ہی سورج کی روشنی کو حاصل کر سکے۔ تاہم ایک مرتبہ کوئی سیارہ کسی سرخ بونے ستارے کے گرد آگیا تو سیارے کے پاس اتنی توانائی ہوگی کہ وہ کھرب ہا برس تک اس پر گزارا کر سکتا ہے۔

    آخر میں وہ ستارے جو اپنا نیوکلیائی ایندھن جلانا جاری رکھیں گے وہ سرخ بونے ہوں گے ۔ بہرصورت وقت کے ساتھ یہ بھی تاریک ہو جائیں گے۔ ایک ہزار کھرب برسوں میں باقی ماندہ سرخ بونے بھی ختم ہو جائیں گے۔

    مرحلہ چہارم: بلیک ہول کا دور
     چوتھے مرحلے میں (40 سے 100 کے درمیان) توانائی کا صرف ایک ہی ذریعہ باقی بچے گا وہ ہے  تبخیر ہوتے بلیک ہولز کی توانائی۔ جیسا کہ جیکب بیکنس ٹین  اور اسٹیفن ہاکنگ نے دکھایا کہ بلیک ہولز اصل میں تاریک نہیں ہیں؛ وہ اصل میں قلیل مقدار میں توانائی کا اخراج کرتے ہیں جس کو تبخیر کہتے ہیں۔ (عملی طور پر یہ بلیک ہول کی تبخیر اس قدر چھوٹی ہوتی ہے کہ تجرباتی طور پر اس کا مشاہدہ نہیں کیا جا سکتا، تاہم لمبے عرصے کے پیمانے پر تبخیر بلیک ہول کے حتمی مقدر کا فیصلہ کرے گی۔)

    بلیک ہولز کے تبخیر ہونے کے مختلف حیاتی ادوار ہو سکتے ہیں۔ ایک چھوٹا بلیک ہول جس کا حجم ایک پروٹون کے جتنا ہو شاید 10 ارب واٹ توانائی کا اخراج  نظام شمسی کی عمر  تک کرتا رہے۔ سورج کے وزن کے جتنا بلیک ہول 1066 برس تک تبخیر کا عمل جاری رکھ سکتا ہے۔ ایک بلیک ہول جس کا وزن کسی کہکشانی جھرمٹ جتنا ہو وہ 10117 برس تک تبخیر کا عمل جاری رکھ سکتا ہے۔ بہرحال جب بلیک ہول اپنی زندگی کے اختتام کی جانب حرارت کا اخراج آہستہ آہستہ کرتے ہوئے بڑھے گا تو وہ اچانک پھٹ پڑے گا۔ یہ ممکن ہے کہ ذہین حیات ، جس طرح بے گھر افراد کی طرح  مرتی ہوئی آگ کے انگاروں کے پاس سکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں، اس طرح مدھم حرارت خارج کرتے ان تبخیر ہوتے بلیک ہولز کے گرد جمع ہو جائیں تاکہ ان سے کچھ حرارت کو حاصل کیا جا سکے تاوقتیکہ وہ مکمل تحلیل ہو جائیں۔


    مرحلہ پنجم: تاریک دور
    پانچویں مرحلے میں (101 سے آگے) ہم کائنات کے تاریک دور میں داخل ہو جائیں گے جب حرارت کے تمام منبع ختم ہو چکے ہوں گے۔ اس مرحلے پر کائنات حرارتی موت کی طرف آہستہ سے محو پرواز ہوگی کیونکہ درجہ حرارت مطلق صفر کے قریب پہنچ چکا ہوگا۔ اس مرحلے پر جوہر خود سے حرکت کرنا بند کر دیں گے۔ شاید پروٹون خود سے انحطاط پذیر ہو جائیں گے اور صرف فوٹون کا تیرتا ہوا سمندر اور مہین شوربہ کمزور تعاملی ذرّات  (نیوٹرینو، الیکٹران، اور ان کے ضد ذرّات یعنی پوزیٹرون )کو اپنے پیچھے چھوڑ دیں گے۔  کائنات شاید ایک نئی قسم کے جوہر پر مشتمل ہوگی جس کو پوسٹرونیم  کہیں گے۔ جو الیکٹران اور پوزیٹرون پر مشتمل ہوں گے جو ایک دوسرے کے گرد چکر لگا رہے ہوں گے۔

    کچھ طبیعیات دان رائے دیتے ہیں کہ یہ  الیکٹران اور ضد الیکٹران کے "جوہر" شاید اس قابل ہوں کہ نئی قسم کی ذہین حیات کو اس تاریک دور میں جنم دے سکیں۔ بہرحال اس تصوّر کو عملی جامہ پہنانے کے لئے مشکلات  بہت ہی مہیب ہیں۔ پوسٹر ونیم کا جوہر حجم میں عام جوہر جتنا ہی ہوگا۔ تاہم تاریک دور کا  پوسٹرونیم آج کی قابل مشاہدہ کائنات سے کروڑ ہا گنا زیادہ بڑا لگ بھگ 1012 میگا پار سیک پر پھیلا ہوگا ۔ لہٰذا اس تاریک دور میں جوہر بن سکتے ہیں تاہم ان کا حجم پوری کائنات جتنا ہوگا۔ کیونکہ کائنات تاریک دور میں زبردست فاصلے تک پھیل چکی ہوگی لہٰذا وہ آسانی کے ساتھ ان دیوہیکل  پوسٹرونیم کے جوہروں  کو سما لے گی۔ تاہم کیونکہ یہ پوسٹرونیم کے جوہر بہت بڑے ہوں گے ، لہٰذا اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ان جوہروں پر اطلاق ہونے والی کیمیا کو عظیم الجثہ وقت کے پیمانے پر کام کرنا ہوگا جو اس سے بالکل ہی مختلف ہوگا جس کو ہم جانتے ہیں۔


    جیسا کہ ماہر کونیات ٹونی روتھ مین لکھتے ہیں، " اور اس طرح بالآخر 10117 برس کے بعد کائنات  کچھ الیکٹران اور پوزیٹرون جو  بھاری بھرکم مدار میں بندھے ہوئے ہوں گے،  عام مادّے کے انحطاط کے بعد باقی بچے ہوئے نیوٹرینو اور فوٹون اور پوسٹرو نیم  اور بلیک ہولز کی تعدیم کے بعد بھٹکے ہوئے پروٹون  پر مشتمل ہوگی۔ منزل کی کتاب میں بھی ایسا ہی لکھا ہوا ہے۔"   
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: کائنات کے پانچ مرحلے - حصّہ دوم Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top