Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    اتوار، 7 اگست، 2016

    لارج ہیڈرون کولائیڈر - حصّہ دوم



    ایل ایچ سی کا ایک اور مقصد یہ ہے کہ ایسے حالات کو پیدا کیا جائے جو بگ بینگ کے بعد اب تک پیدا نہیں ہوئے۔ بالخصوص طبیعیات دان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ابتداء میں بگ بینگ شدید گرم کوارک اور گلوآن پر مشتمل تھا جس کو کوارک گلوآن پلازما کہتے ہیں۔ ایل ایچ سی اس قسم کا کوارک گلوآن پلازما بنانے کے قابل ہوگی جس نے کائنات میں اپنا غلبہ اس کے وجود کے پہلے دس مائیکرو سیکنڈز میں رکھا ہوا تھا۔ ایل ایچ سی میں کوئی سیسے کے مرکزے کو ایک کھرب ایک ارب الیکٹران وولٹ سے ٹکرا سکتا ہے۔ اس دیوہیکل تصادم سے چار سو نیوٹران اور پروٹون "پگھل" سکتے ہیں اور کوارک کو گرم پلازما کی صورت میں آزاد کر سکتے ہیں۔ اس طرح سے کوارک گلوآن پلازما پر تجربہ گاہ میں کیے گئے انتہائی درستگی کے ساتھ تجربات سے کونیات بتدریج ایک مشاہداتی سائنس سے تجرباتی سائنس بن سکتی ہے۔

    اس بات کی بھی امید ہے کہ ایل ایچ سی ننھے بلیک ہولز کواس دھول میں سے بھی تلاش کر لے گی جو پروٹون کے زبردست توانائی کے ساتھ آپس میں ٹکرانے کے بعد پیدا ہوئی ہوگی جیسا کہ ہم نے ساتویں باب میں بیان کیا ہے۔ عام طور پر کوانٹم بلیک ہولز کو پلانک توانائی کی سطح پر بننا چاہئے جو ایک پدم گنا ایل ایچ سی کی توانائی سے زیادہ ہوگی۔ تاہم اگر متوازی کائنات ہماری کائنات کے ملی میٹر حصّے کے اندر ہوگی تو یہ توانائی کو کم کرکے اتنا کر دے گی جہاں پر کوانٹم ثقلی اثرات قابل پیمائش ہوں گے اس طرح سے ننھے بلیک ہولز ایل ایچ سی کی پہنچ میں ہوں گے۔ 

    آخر میں یہ اب بھی امید باقی ہے کہ ایل ایچ سی فوق تشاکل کے ثبوت کو تلاش کر سکے گی جو ذرّاتی طبیعیات کی ایک اہم دریافت ہوگی ۔ یہ ذرّات قدرتی طور پر پائے جانے والے ذرّات کے ساتھی ہوں گے۔ ہرچند کہ اسٹرنگ نظرئیے اور فوق تشاکل نے اندازہ لگایا ہے کہ ہر ذیلی ذرّات کا ایک جڑواں ذرّات مختلف گھماؤ کے ساتھ موجود ہونا چاہئے، فوق تشاکل کو قدرتی طور پر کبھی نہیں پایا گیا اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ہماری مشینیں اتنی طاقتور نہیں ہیں کہ ان کا سراغ لگا سکیں۔ فوق ذرّات کا وجود دو مشکل اور تنگ کرنے والے سوالات کا جواب دیں گے۔ پہلا کہ آیا اسٹرنگ نظریہ درست ہے؟ ہرچند کہ اسٹرنگ کا براہ راست سراغ لگانا بہت ہی مشکل ہے تاہم یہ ممکن ہے کہ پست مسدس یا گمک کا سراغ لگا لیا جائے۔ اگر ذرّات دریافت ہو گئے تو ان کواسٹرنگ نظرئیے کے تجربات کے وجوب کو ثابت کرنے کے لئے کافی طویل سفر طے کرنا ہوگا (پھر بھی یہ اس کی درستگی کا براہ راست ثبوت نہیں ہوگا)۔

    دوسرے یہ تاریک مادّے کے انتہائی معقول امیدوار ہوں گے۔ اگر تاریک مادّہ ذیلی جوہری ذرّات پر مشتمل ہے تو اس کو لازمی طور پر پائیدار اور تعادل ہونا چاہئے ( ورنہ وہ مرئی ہوتے)، اور ان کو لازمی طور پر ثقلی طور سے تعامل کرنا چاہئے ہوگا۔ یہ تمام تینوں خصوصیات ان ذرّات میں پائی جاتی ہیں جس کو اسٹرنگ کا نظریہ بیان کرتا ہے۔

    ایل ایچ سی جب چلنا شروع ہوگی تو یہ سب سے طاقتور ذرّاتی اسراع گر ہوگی اور زیادہ تر طبیعیات دانوں کی پسند ہوگی1980ء کی دہائی میں صدر رونالڈ ریگن نے فوق موصل فوق تصادم گر (Superconducting Supercollider) بنانے کی منظوری دی تھی ۔ یہ ایک دیوہیکل مشین تھی جو 50 میل محیط پر مشتمل تھی اور جس کو ڈیلس ، ٹیکساس کے باہر بننا تھا، اس کے سامنے ایل ایچ سی تو ایک بونا ہوتی۔ ایل ایچ سی کو 14 کھرب الیکٹران وولٹ کی قوّت سے تصادم کرنے کے لئے بنایا گیا ہے جبکہ ایس ایس سی 40 کھرب الیکٹران وولٹ کی توانائی سے تصادم کرتی۔ منصوبے کو شروع میں منظور کر لیا تھا تاہم حتمی منظوری کے وقت یو ایس کانگریس نے ہڑبونگ میں منصوبے کو نامنظور کر دیا۔ یہ اضافی توانائی کے طبیعیات دانوں کے لئے انتہائی افسوسناک جھٹکا تھا اور اس نے پوری ایک نسل کو پیچھے کر دیا تھا۔

    اصل میں بحث 11 ارب ڈالر کی مشین کی لاگت اور دوسری سائنسی ترجیحات پر تھی۔ سائنس دان خود سے ایس ایس سی پر بری طرح سے الگ نقطہ نظر رکھتے تھے کچھ طبیعیات دانوں کا دعویٰ تھا کہ ایس ایس سی ان کی تحقیق کا بھی حصّہ کھا جائے گی۔ تنازع اس قدر بڑھا کہ نیویارک ٹائمز نے ایک تنقیدی اداریہ "بڑی سائنس" کا "چھوٹی سائنس" کو ہضم کرنے کا خطرہ کے بارے میں لکھا۔ (دلائل گمراہ کن تھے، کیونکہ ایس ایس سی کا بجٹ چھوٹی سائنس کے بجٹ کے ذرائع کے علاوہ مختلف جگہ سے آنا تھا۔ اصل میں مقابلہ خلائی اسٹیشن کے لئے مختص کیے گئے فنڈز کا تھا جس کے بارے میں اکثر سائنس دان سمجھتے تھے کہ وہ اصل میں پیسے کا زیاں ہے۔)

    ماضی میں تنازع اس بات پر بھی تھا کہ عوام سے بات کرنے کے طریقے کو سیکھا جائے جس کو وہ سمجھ سکیں۔ ایک طرح سے طبیعیاتی سماج کو عادت تھی کہ وہ اپنے دیوہیکل جوہری تصادم گر کو کانگریس سے اس لئے منظور کروا لیتےتھے کہ روس بھی اس کو بنا رہا ہوتا تھا۔ حقیقت میں روشی یو این کے اسراع گر کو ایس ایس سی سے مقابلے کرنے کے لئے بنا رہے تھے۔ قومی حمیت و وقار داؤ پر لگا ہوا تھا۔ تاہم روس کا شیرازہ بکھر گیا ان کی مشین ترک کردی گئی اور یہ ہوا بتدریج ایس ایس سی منصوبے تک پہنچ گئی۔ 
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: لارج ہیڈرون کولائیڈر - حصّہ دوم Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top