Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    جمعرات، 24 اگست، 2017

    ایک کائنات یا لامتناہی کائناتیں؟


    مترجم:منصور محمّد قیصرانی

    گتھ کے نظریے کے مطابق ایک سیکنڈ کے دس لاکھویں حصے کے ایک کھرب کھرب کھرب وقفے میں تجاذب کی قوت جبکہ ایک اور انتہائی مختصر وقفے کے دوران برقناطیسی اور کمزور و طاقتور نیوکلیائی قوتیں پیدا ہو گئیں جو طبعیات سے متعلق ہیں۔ اس کے فوراً بعد بنیادی اجزاء پیدا ہوئے۔ یہ اجزاء ہر قسم کے مادے کا بنیادی حصہ ہیں۔ اس طرح چشم زدن میں عدم سے الیکٹران، پروٹان، نیوٹران اور فوٹان وغیرہ پیدا ہو گئے۔ فی ذرہ ان کی تعداد 1079 سے لے کر 1089 کے درمیان ہے۔ یہ تعداد ہمیں بگ بینگ کے نظریے سے پتہ چلتی ہے۔

    ظاہر ہے کہ اتنی بڑی تعداد ہماری سوچ سے بھی باہر ہے۔ اتنا سمجھ لینا کافی ہے کہ ایک لمحے کے اندر اندر ہمیں اتنی بڑی کائنات تیار شکل میں مل گئی جو کم از کم ایک کھرب نوری سال چوڑی تھی۔ یہ کم از کم کا اندازہ ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کائنات تقریباً لامحدود ہو سکتی ہے۔ یہ کائنات نہ صرف ستاروں، کہکشاؤں بلکہ دوسرے پیچیدہ نظاموں کے لیے بھی تیار ہے۔
    ہمارے لیے یہ بات انتہائی اہم ہے کہ یہ کائنات ہمارے لیے انتہائی کارآمد شکل اختیار کر گئی ہے۔ اگر اس کائنات کی تخلیق تھوڑی سی بھی مختلف طریقے سے ہوئی ہوتی، مثلاً کششِ ثقل اگر کچھ کم یا کچھ زیادہ ہوتی یا پھر پھیلاؤ کا عمل کچھ زیادہ تیز یا کچھ سست ہوتا تو عین ممکن ہے کہ نہ تو کوئی عنصر پیدا ہوتا اور نہ ہی آپ اور میں اور نہ ہی یہ زمین۔ اگر کشش تھوڑی سی بھی طاقتور ہوتی تو یہ ساری کائنات اس طرح بنتی جیسے غبارے سے ہوا نکل رہی ہو۔ اگر یہ قوت کمزور ہوتی تو مادہ جمع نہ ہو سکتا۔ یوں کائنات صرف لامکاں پر مشتمل ہوتی۔

    اس سے کئی ماہرین یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ بگ بینگ ایک سے زیادہ بھی ہو سکتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ ارب ہا بگ بینگ ہوئے ہوں جو ازل سے جاری ہوں اور اس بار ہم اس لیے پیدا ہوئے ہوں کہ ہماری تخلیق محض اسی بگ بینگ سے ممکن تھی؟ کولمبیا یونیورسٹی کے ایڈورڈ پی ٹائرن نے ایک بار کچھ یوں کہا تھا، ‘ہماری کائنات کیوں بنی، اس کا سادہ سا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ ایسی باتیں گاہے بگاہے ہوتی رہتی ہیں۔’ اس پر ایلن گُتھ نے لقمہ دیا، ‘ٹائرن شاید یہ کہنا چاہ رہا ہے کہ کسی نے ناکام کوششوں کا شمار نہیں کیا۔‘

    برطانوی رائل آسٹرانومر مارٹن کے مطابق بے شمار کائناتیں ہیں جو لامحدود تعداد میں بھی ہو سکتی ہیں۔ ہر ایک کے خواص مختلف ہیں۔ ہم جس کائنات میں رہ رہے ہیں، وہ ان خاصیتوں کی حامل ہے جس میں ہم رہ سکتے ہیں۔ اس کی مثال انہوں نے کچھ یوں دی کہ آپ کپڑوں کے بہت بڑے سٹور میں جاتے ہیں تو ظاہر ہے کہ آپ کے سائز اور پسند کا لباس ملنا عین ممکن ہے۔ اسی طرح اگر بہت ساری کائناتیں ہوں جن میں مختلف اعداد پائے جاتے ہوں، ان میں سے ایک ایسی بھی مل جائے گی جس میں زندگی ممکن ہو۔ اس وقت ہم ایسی ہی ایک کائنات میں ہیں۔

    مارٹن کے مطابق ہماری کائنات پر چھ اعداد کی حکمرانی ہے۔ اگر ان میں سے کسی ایک کی مقدار بھی ذرا کم یا زیادہ ہوتی تو ہم یہاں نہ ہوتے۔ مثال کے طور پر ہائیڈروجن سے ہیلیم میں منتقلی کا عمل مسلسل مگر یکساں رفتار سے ہوتا ہے، یعنی ایک ہزار میں سے ساتواں حصہ۔ اگر یہ مقدار ساتویں سے کم کر کے چھٹا حصہ کر دی جائے تو یہ سارا عمل معطل ہو جائے گا۔ ساری کائنات میں محض ہائیڈروجن ہی ہائیڈروجن ہوگی اور کچھ نہیں۔ اسی طرح اگر اس شرح کو آٹھویں حصے تک بڑھا دیا جائے تو یہ عمل اتنا تیز ہوگا کہ ہائیڈروجن کب کی ختم ہو چکی ہوتی۔ یعنی کمی یا بیشی، دونوں صورتوں میں کائنات یکسر مختلف ہو جاتی۔

    میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اب تک ہر بات درست انداز سے ہوتی آئی ہے۔ تاہم طویل عرصے بعد ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ تجاذب کچھ زیادہ طاقتور نکلے اور کائنات کا پھیلاؤ تھم جائے اور کائنات سکڑنے لگے اور سکڑتے سکڑتے واپس اسی اکائی تک پہنچ جائے جہاں سے پھیلاؤ کا عمل شروع ہوا تھا۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ تجاذب اتنی کمزور ہو کہ کائنات ہمیشہ پھیلتی جائے اور آخرکار سارا مادہ ایک دوسرے سے اتنی دور چلا جائے کہ کائنات انتہائی وسیع لیکن بے جان رہ جائے۔ ایک اور امکان ہے کہ تجاذب بالکل مناسب ہو اور کائنات کا پھیلاؤ ہمیشہ کے لیے جاری رہے۔ ماہرین فلکیات اسے بعض اوقات گولڈی لاک اثر کا نام دیتے ہیں۔ یعنی ہر چیز بالکل درست تناسب سے ہے۔ ان تین ممکنہ کائناتوں کو بالترتیب مقید، آزاد اور چپٹی کائنات کہا جاتا ہے۔

    اب ہم اکثر یہ سوچتے ہیں کہ اگر ہم سفر کرتے کرتے کائنات کے آخری سرے تک پہنچ جائیں اور اس سے سر باہر نکال کر دیکھیں؟ اگر ہمارا سر کائنات کی حدود سے باہر نکلا تو کہاں ہوگا؟ کائنات کے باہر کیا دکھائی دے گا؟ تاہم اس کا جواب یہ ہے کہ آپ کبھی بھی کائنات کے سرے تک نہیں پہنچ سکتے۔ یہ نہ سمجھیں کہ وہاں تک کا سفر بہت لمبا ہے۔ ظاہر ہے کہ سفر تو لمبا ہے ہی۔ فرض کریں کہ آپ خطِ مستقیم میں لامحدود عرصے تک سفر کرتے رہیں گے تو بھی کبھی کائنات کے سرے تک نہیں پہنچ پائیں گے۔ آپ کی منزل وہی مقام ہوگا جہاں سے آپ نے سفر شروع کیا ہوگا۔ ظاہر ہے کہ آپ تھک کر ہمت ہار دیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کے تصور سے بھی کہیں دور، کائنات دراصل خم کھا رہی ہے جو آئن سٹائن کے اضافیت کے نظریے کے عین مطابق ہے۔ فی الحال یہ کہنا بہتر ہے کہ کائنات کوئی پھولا ہوا غبارہ نہیں کہ جس میں ہم تیر رہے ہوں۔ بلکہ یہ ایک خمدار خلاء ہے۔ اس طرح یہ خلاء محدود لیکن بے کراں ہے۔ یہ کہنا بھی شاید غلط ہو کہ خلاء پھیل رہی ہے۔ نوبل انعام یافتہ طبعیات دان سٹیون وین برگ کے مطابق، ‘نہ تو نظامِ شمسی اور نہ ہی کہکشائیں پھیل رہی ہیں اور خلاء بھی نہیں پھیل رہی۔ بلکہ کہکشائیں ایک دوسرے سے دور بھاگ رہی ہیں۔‘ ہماری عقل یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے۔ ایک حیاتیات دان جے بی ایس ہیلڈین کے مطابق، ‘کائنات اتنی عجیب نہیں جتنی ہم سوچتے ہیں۔ کائنات اس سے کہیں عجیب تر ہے جتنی کہ ہم سوچ سکتے ہیں۔‘

    اس بات کی وضاحت کچھ اس طرح ہے کہ جیسے کسی ایک مخلوق کو جو کہ چپٹی دنیا کی باسی ہو اور اس نے کبھی گول کرہ نہ دیکھا ہو، کو زمین پر لے آئیں۔ اب وہ جتنا بھی حرکت کرے، کبھی زمین کے سرے پر نہیں پہنچ پائے گی۔

    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: ایک کائنات یا لامتناہی کائناتیں؟ Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top