Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    جمعرات، 14 ستمبر، 2017

    کائنات چپٹی کیوں ہے؟

    بہرحال باب 8 میں بیان کردہ دلائل اسی طرح لگتے ہیں، مشاہدات نے بغیر کسی شک و شبے کے بتایا کہ کائنات کی اصل کمیت بند کائنات کو درکار فاصل کمیت کے 0.02 سے لے کر 10 گنا تک کے بین بین ہے۔ جیسا کہ ماہرین تکوینیات بحث کرتے ہیں کہ کس طرح کمیت کی فاصل قدر موجود ہے، انھیں آہستہ آہستہ اس حقیقت کا ادراک ہوا کہ اس طرح کی دلیلوں کی جگہ موجود ہے جو کائنات کی ایک سب سے حیرت انگیز خاصیت ہے۔ کیوںکر ایسا ہے کہ متعلقہ عدد صحیح فاصل قدر 10-4 نہیں ہیں، یا اس بند کائنات کی درکار کمیت سے دس لاکھ گنا زیادہ کیوں نہیں ہیں، یا کوئی دوسرا عدد جو 1 سے اتنا مختلف ہو کہ وہ مشاہدات سے واضح ہو جائے کہ کائنات خط کے کس طرف موجود ہے؟ آج کائنات اصل میں سب سے غیر امکانی صورتوں میں سے ایک صورت میں ہے یعنی کہ مطلق چپٹی۔ اور اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ لازمی طور پر ایک چپٹی حالت میں پیدا ہوئی ہوگی جیسا کہ پرنسٹن کے دو ماہرین فلکیات جو پس منظر کی 3 کیلون سے اوپر کی اشعاع کی دریافت میں شامل تھے یعنی ڈک اور پیبلز نے 1979ء میں اشارہ کیا تھا۔

    آج کائنات کو لگ بھگ چپٹی صورت میں پانا اس امکان سے کہیں زیادہ کم ہے کہ کوئی ایک مکمل طور پر چھیلی ہوئی پنسل بے عیب طریقے سے اپنی نوک پر دسیوں لاکھوں برس تک کھڑی رہے۔ جیسا کہ ڈک اور پیبلز نے عندیہ دیا تھا بگ بینگ سے بننے والی کائنات میں کوئی بھی انحراف کائنات کے پھیلنے اور عمر رسیدہ ہونے کے ساتھ بڑھتا اور بڑھتا چلا جاتا۔ جس طرح سے وہ پنسل جو اپنی نوک پر کھڑی ہے ذرا سے بھی دھکے سے اپنا توازن کھو دے گی بعینہ اسی طرح کائنات مکمل چپٹے پن سے جلد ہی دور منتقل ہو جاتی۔ مکمل توازن کی حالت تعادل میں تھی، تاہم یہ تعادل یا توازن غیر پائیدار تھا اور بے عیبی سے ہونے والا تھوڑا سا انحراف توازن کو بگاڑنے کے لئے کافی تھا۔ ہم اپنے تصور میں وقت کے پہیے کو پیچھے کرتے ہیں تاکہ یہ حساب لگا سکیں کہ کائنات کو آگ کے گولے کے دور میں کتنا چپٹا ہونا چاہئے تھا تاکہ اس کی کمیت آج کی فاصل قدر سے اس قدر قریب ہو۔ ڈک اور پیبلز اور اس وقت سے کئی دوسروں نے ہمارے لئے یہ حساب لگایا۔ اگر کائنات کی کمیت آج اس مقدار کی ایک بٹا دس ہے جو بند کائنات کے لئے درکار ہے، تو وہ عدد جس پر زیادہ تر ماہرین فلکیات کا اجماع ہے اس کا انحصار معقول طور پر قابل مشاہدہ کہکشاؤں اور بگ بینگ میں پیدا ہونے والے بنیادی ذرّات کی پیداوار پر ہے یعنی کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تخلیق کے لمحے کے 1 سیکنڈ کے بعد کائنات کی کثافت فاصل قدر کے 10^15 میں سے ایک کی تھی۔ اور اگر ہم مزید آگے جائیں یعنی کہ 10^-35 سیکنڈ پر تو کمیت کو لازمی طور پر فاصل قدر کے 10^49 حصّے میں سے ایک حصّے میں ہونا تھا۔ اس قسم کے اتفاق کا وقوع پذیر ہونے کا امکان بہت ہی کم ہے اور اس کا لازمی مطلب یہ ہے کہ قوانین طبیعیات کسی طرح چاہتے تھے کہ کائنات بگ بینگ میں سے شدید قسم کے چپٹے پن کے ساتھ پیدا ہو۔

    1979ء کے موسم بہار میں ڈک نے کورنیل یونیورسٹی سے رابطہ کیا جس میں اس نے چپٹے پن کے مسئلہ پر بات چیت کی اور اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ کائنات کس قدر قریب بے قابو پھیلتی ہوئی اور واپس انہدام ہوتی ہوئی سرحد کے بیچ میں ہے۔ ان کے سامعین میں سے ایک نوجوان محقق ایلن گتھ تھا، ایک متذبذب ماہر تکوینیات جس کو اس میدان میں کورنیل کے اس کے دوست اور رفیق ہینری ٹی نے گھسیٹ لیا تھا۔ گتھ نے بعد میں یاد کرتے ہوئے بتایا کہ اس نے علم کائنات پر کام کرنا شروع اس لئے کیا کیونکہ اس پر ٹی کی طرف سے دباؤ تھا جو 'بہت زیادہ اثر انداز ہوتا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت تک میرا یقین کامل تھا کہ علم کائنات اسی طرح کی قسم کا میدان ہے جہاں کوئی بھی شخص جو وہ چاہتا ہے کہہ سکتا ہے اور کوئی بھی اس کو غلط ثابت نہیں کرسکتا۔

    باوجود شروع میں موضوع پر عدم اطمینان کے گتھ کو تصور کافی حیرت انگیز لگا اور بتدریج اس کو علم کائنات کی گہرائیوں میں اتارتا چلا گیا۔ ڈک نے جو اس موسم بہار میں تصورات کورنیل میں پیش کئے تھے ان کو گتھ کے ان خیالات کے ساتھ ملنے میں چند ماہ لگے جو اس نے علم کائنات اور ذرّاتی طبیعیات - جو اس کی اصل خاصیت تھی- سے حاصل کئے تھے تاہم دسمبر 1979ء میں انہوں نے اس کو اپنے دماغ میں کڑی سے کڑی ملانا شروع کردی۔ دوپہر، شام اور 6 دسمبر کی رات کے کچھ حصّے میں گتھ نے ٹکڑوں کو ایک ساتھ گیمو کے تیس برسوں سے پہلے ابتدائی کائنات پر علم کائنات پر پیش کئے جانے والے نظریات پر پہلی مرتبہ کسی دوسرے نظریئے کی صورت میں جمع کیا۔ اس نے کائنات میں بالکل ہی ایک نیا تصور پیش کیا اس اٹھائے ہوئے قدم کا اتنا ہی عمیق اثر تھا جتنا کہ خود کائناتی انڈے کے تصور کا تھا۔

    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: کائنات چپٹی کیوں ہے؟ Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top