Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    جمعہ، 15 ستمبر، 2017

    آکسیجنی ضیائی تالیف -oxygenic photosynthesis


    آکسیجنی ضیائی تالیف گندھکی ضیائی تالیف کے کچھ کروڑ برس بعد ارتقاء پذیر ہو گی اور یہ کافی معقول پیچیدہ مشینری کا تقاضہ کرے گی۔ ارتقائی تاخیر کے ہونے کا امکان ہائیڈروجن سلفائڈ کے بجائے پانی کو توڑنے کے لئے زیادہ درکار توانائی کی وجہ کا نتیجہ ہو گا۔ شائنو بیکٹیریا نے دو پہلے سے موجود لیکن مختلف توانائی کو پکڑنے والے عمل کے درمیان ربط قائم کر لیا تھا۔ ایک مرتبہ جب یہ نظام جراثیم کے ساتھ ربط میں آ جاتے ہیں تو اتنی توانائی کو پکڑ سکتے ہیں کہ پانی کو توڑ کر آکسیجن کو آزاد کرا لیں۔ 

    یہ مرحلہ ہمارے سیارے کی تاریخ میں صرف ایک بار واقع ہوا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا ہونے کا امکان کم ہے اور امید نہیں ہے کہ ایسا ہو گا۔ اگر یہ بات درست ہے تو جہاں توانائی کی دستیابی کم ہو گی، تو کم امکان اس کے وقوع ہونے میں مانع ہو گا۔ بصورت دیگر، یہ کرۂ ارض پر صرف ایک مرتبہ نمودار اس لئے ہوا ہو گا کہ یہ کافی کامیاب ہے جس کو ہر طرح کے ضیائی تالیفی جانداروں نے تیزی سے اپنایا۔ اس نے بعد میں نقول کو بننے سے روکا ہوا ہو گا۔ یہ بات بالکل واضح نہیں ہے کہ ان وضاحتوں میں کون سی درست ہے۔ اگر یہ مؤخر الذکر ہے، تو ہمیں زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ 

    جب انتخاب کرنے کا موقع دیا جائے گا تو حیات سب سے آسان راستہ لیتی ہے۔ پس کم توانائی غیر آکسیجنی ضیائی تالیف کا ارتقاء زیادہ توانائی والے آکسیجنی متعاملات سے پہلے ہوا ہو گا۔ 

    کیا ہم ایک ایسے میکانزم کا تصور کر سکتے ہیں جو ضیائی تالیفی جانداروں کو ارغونی جہانوں میں آکسیجنی ضیائی تالیف کی محدود توانائی کی مقدار کے باوجود اجازت دے سکے ؟ توانائی کی کمی کو دور کرنے کے لئے، ایک سرخ بونے کے گرد چکر لگانے والے سیارے پر موجود حیات کسی قسم کی ذخیرہ شدہ توانائی کا استعمال کرے گی تاکہ وہ اتنی توانائی کو حاصل کر لے جو پانی کو توڑنے کے لئے درکار ہے۔ دنیا کے سب سے طاقتور لیزر کے استعمال سے نیشنل گرڈ میں توانائی دینے کے بارے میں تصور کریں۔ آپ صرف یہ نہیں کر سکتے کہ دسیوں کھرب واٹ لگا کر صرف ایک بٹن دبا دیں۔ اس کے بجائے کیپسٹر کے پشتے بڑھتی ہوئی مقدار کے بار کو ذخیرہ کرنے کے لئے درکار ہوں گے۔ ایک بار جب کافی لیزر ذخیرہ ہو جائے گی تب اس کو داغ دیا جائے گا۔ 

    تشبیہاتی طور پر خلیے کا اندرون ایسا ہو گا کہ کافی بار کا ذخیرہ کر سکے تاکہ پانی کو توڑا جا سکے۔ روشنی کے فوٹون بعد میں پکڑے جا سکتے ہیں جو یکے بعد دیگرے کسی ثالثی میں زیادہ سے زیادہ تکثیف ہو سکتے ہوں۔ ایک اہم موڑ پر اتنی طاقت ہو گی کہ پانی کو توڑنے کے قابل اور آکسیجن کو آزاد کرنے کے قابل ہو سکے۔ اس طرح کے عمل میں اضافی اتحاد کی ضرورت روشنی کو مجتمع کرنے والے اجزاء کے لئے ہو گی جو کافی تعداد یا کم توانائی کے بنڈلوں میں جمع ہوں گے۔ اس کے لئے خلیات کے اجزاء کی از سر نو ترتیب درکار ہو گی تاکہ احاطہ مجتمع نور کے اہم اجزاء کو ٹھیک طرح سے حاجز کیا جائے تاکہ کافی گنجائش کا ذخیرہ پانی کے سخت بندھوں کو توڑنے کے لئے کیا جا سکے۔ یہ سب کچھ نظریاتی ہے۔ یہ بالکل واضح نہیں ہے کہ آیا کم توانائی کے ملے ہوئے بنڈل اس طرح سے ممکن ہیں یا نہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس طرح کی حیاتیاتی کیمیا کی مثال زمین پر پہلے سے موجود نہیں ہے۔ اس کے بعد ہم لازمی طور پر ارضی جانداروں کو یاد کرتے ہیں کہ وہ اس لئے نہیں ایسا کرتے کہ انہیں ایسا کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہم صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ حیات قوی ہے۔ ہمارے حواس ہمیں بتاتے ہیں کہ ارتقائی عمل مشکل حالات میں جل دینے کے ماہر ہیں۔ ہم اس کو کہیں اور وقوع ہونے کے لئے مسترد نہیں کر سکتے اگر ہم نے زمین پر اس کا مشاہدہ نہیں کیا۔ 

    بہرحال، چلیں فرض کیجئے کہ زیریں سرخ روشنی آکسیجنی ضیائی تالیف کو کر سکتا ہے۔ تب ایک آخری اور شاید غیر متوقع رکاوٹ بھی اس عمل پر ہو گی۔ ہو سکتا ہے کہ زیریں سرخ اشعاع کے لئے صحیح طرح سے طول امواج کے لئے کرۂ فضائی شفاف نہ ہو۔ زمین پر ہمارا کرۂ فضائی تمام زیریں اشعاع کو مختصر 1.5 ایم ایم ( ایک میٹر کے دس لاکھویں حصّے ) تک جذب کرتا ہے۔ پانی اس کا زیادہ تر حصّہ جذب کر لیتا ہے، تاہم نہ صرف میتھین اور کاربن ڈائی آکسائڈ میں بلکہ دوسرے کچھ اور مرکبات میں بھی انجذاب میں دوسری چوٹیاں موجود ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر، زیریں سرخ اشعاع کو میتھین مؤثر طور پر 1.6 ایم ایم (میٹر کے دس لاکھویں حصّے ) سے زیادہ کی طول امواج میں جذب کرتی ہے۔ کیونکہ ارضی زندہ حیاتیات میتھین کو نا ہوائی شرائط کے تحت پیدا کرتی ہیں، لہٰذا اس کی موجودگی کا امکان ارغونی ستاروں میں لگتا ہے۔ کرۂ فضائی میں اس خاصی زیادہ گیس کے ساتھ زیریں سرخ کی اہم طول امواج ضیائی تالیف کے لئے دستیاب نہیں ہوں گی۔ ظاہر ہے کہ یہ ضیائی تالیف کے عمل کو شروع میں ہی محدود کر دے گا۔ 

    دوسرے مرکبات جیسے کہ کاربن ڈائی آکسائڈ اور پانی کے بخارات بھی فعال ضیائی تالیف کے لئے دستیاب طول امواج کو محدود کر سکتے ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میتھینی (میتھین بنانے والی) حیات اصل میں زیریں سرخ اشعاع سے ہونے والی آکسیجنی ضیائی تالیف میں ہونے والی پیش رفت میں رکاوٹ ڈالے۔ زمین پر اس مسئلے کو وافر بصری اشعاع کی دستیابی سے روکا جاتا ہے، تاہم ایک ایسی دنیا جو زیریں سرخ اشعاع سے نہائی ہوئی ہو گی، اس طرح کے فرار کا راستہ مسدود ہو گا۔ 
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: آکسیجنی ضیائی تالیف -oxygenic photosynthesis Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top