Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    بدھ، 6 ستمبر، 2017

    ستاروں کی خاک

    مترجم:منصور محمد قیصرانی

    ہماری تاریخ میں دس یا بارہ مرتبہ سپر نووا اتنے نزدیک پھٹا ہے کہ اسے دوربین کے بغیر بھی دیکھا گیا ہے۔ کریب نیبولا 1054 میں پھٹا تھا۔ 1604 میں دوسرا سپر نووا پھٹا جو تین ہفتے تک دن کے وقت بھی دکھائی دیتا تھا۔ آخری ایسا سپرنووا 1987 میں لارج میجلینیک کلاؤڈ میں پھٹا اور جنوبی نصف کرے سے بمشکل نظر آتا تھا۔ اس کا فاصلہ ہم سے 1,69,000 نوری سال تھا۔

    ہمارے وجود کے لیے سپر نووا کی اہمیت بنیادی ہے۔ سپر نووا کے بغیر حیات پیدا نہیں ہو سکتی تھی۔ پہلے باب میں ہم نے دیکھا کہ بگ بینگ کے وقت کائنات میں ہلکی گیسیں ہی تھیں لیکن بھاری عناصر نہیں بن سکے۔ طویل عرصے تک کسی کو علم بھی نہیں تھا کہ بھاری عناصر بعد میں کیسے بنے۔ بھاری عناصر کے بننے کے لیے انتہائی بلند درجہ حرارت درکار ہوتا ہے جو انتہائی گرم ستاروں کے مرکزے سے بھی زیادہ گرم ہو۔ اس سے کاربن اور لوہا بنتا ہے۔ سپر نووا سے یہ بات پتہ چلی کہ بھاری عناصر سپر نووا سے ہی بنتے ہیں۔ اسے انگریز ماہرِ فلکیات نے دریافت کیا۔

    یارکشائر میں پیدا ہونے والے اس بندے کا نام فریڈ ہوئل تھا جو 2001 میں فوت ہوا۔ نیچر میگزین کے مطابق ماہرِ فلکیات کے علاوہ متنازعہ شخصیت بھی تھا۔ اس کے متنازعہ بیانات نے اس کی شخصیت کا ہمیشہ منفی پہلو پیش کیا۔ مثال کے طور پر اس نے بغیر کسی ثبوت کے دعویٰ کیا کہ نیچرل ہسٹری میوزیم میں آرکیو ٹیرکس کے فوسل جعلی ہیں۔ عجائب گھر کے منتظمین کو وضاحت پیش کرتے کرتے بہت دن لگ گئے کہ ایسا نہیں ہے۔ اس کا یہ بھی خیال تھا کہ زمین پر حیات اور اکثر بیماریاں جیسا کہ انفلوئنزا اور ببونک طاعون بھی خلاء سے آئے ہیں۔ ایک بار اس نے دعویٰ کیا کہ انسانی نتھنے نیچے کی طرف اس لیے ہیں کہ خلاء سے آنے والے جراثیم سے بچاؤ ہو سکے۔

    اسی نے ریڈیو پر بات کرتے ہوئے پہلی بار 1952 میں بگ بینگ کی اصطلاح استعمال کی۔ اسی نے بتایا کہ طبعیات کا ہمارا علم ہرگز یہ بات نہیں بتا سکتا کہ کیسے تمام مادہ ایک جگہ جمع ہوا اور پھر ڈرامائی انداز میں پھیلنا شروع ہو گیا۔ اس کا خیال تھا کہ کائنات سٹیڈی سٹیٹ ہے یعنی ایسی کائنات جو مستقل طور پر پھیل رہی ہے اور پھیلتے ہوئے مزید مادہ پیدا کرتی جا رہی ہے۔ ہوئل نے ہی یہ بات بتائی کہ اگر ستارے اندر کی جانب پھٹیں تو بے انتہا حرارت پیدا ہوگی جو 10 کروڑ ڈگری سے بھی زیادہ ہوگی جس سے بھاری عناصر کی پیدائش کا عمل شروع ہوگا۔ ا س عمل کو نیوکلیو سنتھسیز کہتے ہیں۔ 1957 میں ہوئل نے دیگر سائنس دانوں کی مدد سے ثابت کیا کہ سپر نووا کے پھٹنے کے دوران کیسے بھاری عناصر پیدا ہوتے ہیں۔ اسی کام پر اس کے ایک ساتھی فاؤلر کو نوبل انعام ملا جبکہ ہوئل کو کسی نے نہیں پوچھا۔

    ہوئل کے نظریے کے مطابق پھٹتا ہوا ستارہ نئے عناصر بنا کر انہیں کائنات میں پھینک دیتا ہے اور وہ آگے چل کر گیسی بادل بنتے ہیں جو ستاروں کے درمیان موجود ہوتے ہیں۔ بعد میں یہی بادل جمع ہو کر نظامِ شمسی بناتا ہے۔ ان نئے نظریات کی مدد سے آخرکار یہ ممکن ہو گیا کہ ہم اپنی پیدائش کی منظر کشی کر سکیں۔ اب ہمارا خیال ہے کہ:

    4.6 ارب سال قبل 24 ارب کلومیٹر طویل گیس اور گرد کا ایک بادل اسی جگہ پہنچا جہاں ہمارا نظامِ شمسی ہے۔ 99.9 فیصد جمع ہو کر سورج بنا جبکہ دیگر میں سے پہلے دو خوردبینی ذرات برقی طاقتوں کے تحت جمع ہوئے جو ہماری زمین کا پیش خیمہ بنے۔ اس وقت پورے نظامِ شمسی میں یہی ہو رہا تھا۔ گرد کے ذرے ایک دوسرے سے ٹکراتے اور جمع ہوتے گئے۔ جب ان کا حجم ایک خاص حد سے بڑا ہوا تو یہ سیارچے بن گئے جو اسی طرح بڑے ہوتے ہوتے سیارے بنے۔

    خیال ہے کہ یہ عمل بہت تیز تھا کہ خوردبینی ذرات سے چھوٹے سیارچے تک کا عمل ایک لاکھ سال سے بھی کہیں کم عرصے میں ہوا۔ 20 کروڑ سال سے بھی کم عرصے میں ہماری زمین بن گئی اگرچہ شروع میں یہ زمین پگھلی ہوئی حالت میں تھی اور اس پر مسلسل اجرامِ فلکی گر رہے تھے۔

    اس موقع پر یعنی 4.4 ارب سال قبل مریخ کے حجم کا ایک اجرامِ فلکی زمین سے ٹکرایا اور اس سے اٹھنے والے گرد و غبار نے چند ہفتوں میں جمع ہو کر شکل اختیار کرنا شروع کر دی۔ ایک سال سے بھی کم عرصے میں اس نے گول چٹانی شکل اختیار کی اور تب سے چاند کی شکل میں ہمارے ساتھ ہے۔ خیال ہے کہ چاند کا زیادہ تر حصہ زمین کے مرکزے کی بجائے سطح سے آیا ہے۔ اسی وجہ سے چاند پر لوہے کی شدید قلت جبکہ زمین پر عام پایا جاتا ہے۔ اگرچہ اس نظریے کو جدید مانا جاتا ہے تاہم یہ نظریہ 1940 کی دہائی سے چلا آ رہا ہے اور ہارورڈ کے ریگنالڈ ڈالی نے پیش کیا تھا۔ اب نئی بات یہ ہوئی ہے کہ لوگوں نے اس پر توجہ دینا شروع کر دی ہے۔

    جب زمین موجودہ حجم کا محض ایک تہائی تھی تو اس پر فضاء تشکیل پانے لگ گئی تھی جس کا زیادہ تر حصہ کاربن ڈائی آکسائیڈ، نائٹروجن، میتھین اور سلفر پر مشتمل تھا۔ اس پر زندگی کا وجود شاید ہی ممکن ہوتا۔ تاہم اسی زہریلے آمیزے سے حیات نے جنم لیا۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ سبز مکانی یعنی گرین ہاؤس گیس ہے۔ اُس دور میں سورج بہت مدھم تھا جس کی وجہ سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کا ہونا فائدہ مند رہا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو زمین آج بھی برفیلا سیارہ ہوتی اور اس پر حیات کا وجود ممکن نہ ہو پاتا۔ تاہم حیات شروع ہو گئی۔

    اگلے 50 کروڑ سال تک زمین پر سیارچوں، دمدار ستاروں اور شہابِ ثاقب اور دیگر اجرامِ فلکی کی بارش ہوتی رہی جس سے اتنا پانی جمع ہو گیا کہ سمندر بن گئے جہاں سے زندگی کی ابتداء ہوئی۔ اس وقت کا ماحول بہت مشکل تھا تاہم پھر بھی حیات شروع ہوگئی۔ کوئی چھوٹا سا کیمیائی بیگ حرکت میں آیا اور حیات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

    4 ارب سال بعد جا کر لوگوں نے اس بات پر حیران ہونا شروع کر دیا کہ ایسا کیسے ہوا۔ آئیے اب اس اگلے مرحلے کی طرف چلتے ہیں۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: ستاروں کی خاک Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top