Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    منگل، 23 اگست، 2016

    ملکی وے



    ملکی وے دو کھرب سے زائد ستاروں کی سلطنت ہے۔ اس میں واقع زمین ہمارا گھر ہے اور سورج سب سے نزدیک ستارہ ہے۔ ملکی وے ہماری کہکشاں یہ ہم سے اور ہم اس سے ہیں۔ یہ ہمارا گھر ہے۔ ہم اکثر یہ سوچتے ہیں کہ آخر یہ خود آئی کہاں سے ہے ؟ کہکشائیں آخر بنتی ہی کیوں ہیں ؟ کوئی تو ایسی چیز ہو گی جو ان کے بننے کا سبب بنتی ہو گی۔ کسی چیز نے تو اس کو بنایا ہو گا۔ کس چیز نے ہماری کہکشاں کو کائنات میں چمکنے کے لئے چنگاری دکھائی ہو گی۔ تازہ ترین حالیہ تحقیق نے ہماری توقع کے برخلاف ایک چیز کی جانب اشارہ کیا ہے جو کہکشاؤں کو بنانے کا سبب بنتا ہے۔ ہماری کہکشاں کے قلب میں ایک فوق ضخیم بلیک ہول موجود ہے۔ اور ضخیم سے مراد واقعی ضخیم ہے۔ اگرچہ یہ نہایت ہی ہیبت ناک ہے اس کے باوجود ہماری کہکشاں کا انحصار اس پر ہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ عفریت، کائنات میں موجود عظیم غارت گر اصل میں کیا عظیم موجد بھی ہے ؟ کیا کوئی بلیک ہول ہماری کہکشاں – ملکی وے کو بھی بنا سکتا ہے ؟ ہو سکتا ہے کہ بلیک ہول ہماری کہکشاں کی شروعات کرنے کے ذمہ دار ہوں اور وہ ہی اس کے انجام، اس کی موت کے ذمہ دار ہوں گے۔ 

    ذرا نظر اٹھا کر کائنات کی جانب دیکھیں تو آپ کو چار سو ہر قسم کی کہکشائیں دکھائی دیں گی۔ انوکھی اشکال اور مختلف حجم پر مبنی کہکشاؤں کی متغیرہ قطاریں نظر آئیں گی۔ ان عظیم نجمی اجسام نے ہماری کائنات کو پر کر رکھا ہے۔ کہکشائیں کائنات کی بنیادی اینٹیں ہیں اور کائنات میں سینکڑوں ارب ہا کہکشائیں موجود ہیں۔ جس طرح سے خلیہ ہمارے جسم کو بناتے ہیں یا اینٹیں کسی بھی عمارت کو بناتی ہیں بالکل اسی طرح سے کہکشائیں کائنات کو بناتی ہیں۔ ہمیں اپنے خوش بختی کے ستاروں کو کہکشاؤں کے لئے شکریہ ادا کرنا چاہئے۔ کائنات میں کہکشائیں ہی وہ جگہ ہیں جہاں ستارے اور سیارے بنتے ہیں۔ ہم کہکشاؤں کے درمیان ستارے نہیں پاتے ہیں۔ کہکشائیں ہی وہ جگہ ہیں جہاں ہائیڈروجن جمع ہو کر گرم ہوتی ہے اور یہیں حیات کی شروعات ہوسکتی ہے۔ کائنات میں سینکڑوں ارب ہا کہکشائیں موجود ہیں مگر اس میں سے صرف ایک ہی نے ہمیں جنم دیا ہے۔ 

    اکثر لوگ سوال کرتے ہیں کہ ہم کہاں رہتے ہیں ؟ ہو سکتا ہے ہم میں سے کچھ اس طرح سے جواب دے سکتے ہیں "شہر :کراچی"، "ملک :پاکستان "، "بر اعظم :ایشیا "، سیارہ: زمین "، "سورج سے تیسرا سیارہ " اور اس کے بعد یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ "کہکشاں :ملکی وے "۔ 

    ملکی وے کہکشاں ہمارا گھر ہے۔ کیونکہ ہم اس کے اس کے اندر رہتے ہوئے دیکھتے ہیں لہٰذا ہمیں یہ ایک کھینچے ہوئے ستاروں کی پٹی کی طرح نظر آتی ہے جو پورے آسمان پر پھیلے ہیں۔ مگر باہر سے دیکھنے پر یہ ایک زبردست شاندار دو کھرب سے زائد ستاروں پر مشتمل عظیم مرغولہ نما کہکشاں نظر آئے گی۔ ہمارا سورج اس کے عظیم اور بڑے بازوں میں ایک چھوٹے سے نقطہ کی مانند نظر آئے گا۔ ہماری ملکی وے کہکشاں بہت ہی جسیم ہے۔ درحقیقت یہ کائنات میں واقع بڑی کہکشاؤں میں سے ایک بڑی کہکشاں ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق اس کا شمار ۱۰ فیصد بڑی کہکشاؤں میں ہوتا ہے۔ 

    ضخیم، شاندار ہماری کہکشاں نے اپنے سینے ایک راز کافی عرصے سے دبا کر رکھا ہوا تھا۔ سب سے پریشان کن سوال کہ یہ بنی کیسے ہے ؟ سوال صرف کہکشاں کے نقطہ آغاز کا نہیں ہے بلکہ ہمارے نظام شمسی کی ابتداء کا، ہمارے ستارے سورج اور ہمارا بھی ہے۔ آج جہاں ہم کھڑے ہیں، یہاں تک ملکی وے کے ماضی نے ہی ہمیں پہنچا یا ہے۔ ہماری کہکشاں کے ماضی کی کہانی اس راز سے پردہ فاش کرے گی کہ ہم کون ہیں ؟ لہٰذا سوال یہ اپنی جگہ موجود ہے کہ ملکی وے کو کس نے بنایا؟ اور کیسے یہ ایک ایسی شاہانہ کہکشاں بنی جس کا مشاہدہ ہم آج کرتے ہے۔ اس بات کی تلاش کے لئے ہمیں اس دور میں جانا ہو گا جب کائنات بگ بینگ کے بعد نئی نئی بنی تھی۔ تیرا ارب اسی کروڑ سال پہلے ستاروں، سیاروں یا کہکشاؤں کا کوئی وجود نہیں تھا۔ ہم کیسے اس پیچیدہ اور دلچسپ کائنات میں جس کے ہم اپنے روز مرہ میں زندگی میں شاہد ہیں، اس وقت سے گزر کر پہنچ گئے جب ابتدائی کائنات بالکل ہی سپاٹ اور روکھی پھیکی تھی۔ 


    ابتدائی کائنات ایک گڑھا، یکساں گیسوں کا شوربہ تھی جس میں معمولی سی بے ضابطگیاں موجود تھیں۔ مگر یہ معمولی بے ضابطگیاں اتنی تھیں کہ قوّت ثقل گیسوں کو کھینچنا شروع کر دے۔ قوّت ثقل نے گیسوں کو ایک نقطے کی طرف دبانا شروع کر دیا تھا۔ اور اس وقت درجہ حرارت بڑھ کر 5 سے 10 کروڑ ڈگری تک جا پہنچتا ہے۔ اس جگہ پر آ کر ہائیڈروجن کے ایٹم ہیلیئم میں بدلنے لگتے ہیں اور ستارے بننا شروع ہوئے ۔ اس نظریئے کے مطابق ایک نہیں لاکھوں ستارے پیدا ہوتے ہیں۔ رفتہ رفتہ قوّت ثقل ستاروں کو اپنے پاس کھینچ لیتی ہے۔ کروڑوں سال گزرنے کے بعد وہ ایک گھومتا ہوئی ستاروں پر مشتمل کرۂ بنا لیتی ہے اور اس کے ساتھ ہی کہکشاں کا جنم ہو جاتا ہے۔ 

    مگر اس منظر نامے میں ایک مسئلہ ہے۔ اگرچہ کافی ساری قوّت ثقل موجود ہوتی ہے مگر ستاروں کے علاوہ کوئی چیز ایسی موجود ہونی چاہئے جو ان سب کو تھام کر رکھ سکے۔ مگر سوال یہ ہے کہ وہ چیز کیا ہے ؟ اس کا جواب ہماری کہکشاں کے مرکز میں ہی موجود ہے۔ ملکی وے کے عین قلب میں ستارے کسی ایسی چیز کا چکر کاٹ رہے ہیں جو وہاں دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ اگر آپ ریاضیاتی طور پر حساب کتاب کرنے کے بعد اندازہ لگائیں گے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ مرکز میں موجود ہونے والی چیز کی کمیت سورج کی کمیت سے 40 لاکھ گنا زیادہ ہونا چاہئے۔ ستارے سیاروں کی طرح سے اس خالی جگہ کے گرد چکر لگا رہے ہیں جس کی کمیت سورج سے 40 لاکھ گنا زیادہ ہے۔ اس جسم کو نہایت جسیم ہونا چاہئے۔ اس کو ناقابل تصوّر حد تک کثیف ہونا چاہئے۔ یہ صرف ایک ہی چیز ہو سکتی ہے یعنی کہ بلیک ہول، فوق ضخیم بلیک ہول۔

    ملکی وے کے اندر سائنس دانوں نے پہلی مرتبہ ایک فوق ضخیم بلیک ہول دریافت کیا ہے۔ مگر یہ بات دھیان میں رہے کہ یہ آخری بلیک ہول نہیں ہے۔ بلیک ہول ہر جگہ موجود ہیں۔ ہم یہ بات جان چکے ہیں کہ سب سے زیادہ فوق ضخیم بلیک ہول بڑی کہکشاؤں کے قلب میں موجود ہوتے ہیں۔ یہ بات اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ ان دونوں میں کوئی نہ کوئی تعلق موجود ہے۔ یہ دونوں چیزیں ایک جوڑے کے طور پر نظر آتی ہیں۔ کسی طرح سے بلیک ہول اور کہکشاؤں کے ارتقاء کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ حیرت انگیز طور پر جگمگاتے تاروں پر مشتمل ملکی وے خلقی طور پر کائنات کی ایک تاریک اور پراسرار ترین چیز سے جڑی ہوئی ہے جس کا نام فوق ضخیم بلیک ہول ہے۔ 

    سائنس دانوں کے لئے یہ انتہائی مسحور کن اور پراسرار جسم ہے۔ سوال یہ اپنی جگہ موجود ہے کہ یہ کہکشاں کے قلب میں آیا کہاں سے؟ یہ اتنا بڑا کیسے ہو گیا؟ کیا یہ اپنی نشو و نماء جاری رکھے گا؟

    اپنی کہکشاں کے آغاز کو جاننے کے لئے اس بات کا جاننا پہلے ضروری ہے کہ بلیک ہول یہاں کیسے آیا؟ ابتدائی کائنات میں جب پہلا ستارہ بن کر ابھرا تو یہ ستارہ ہمارے سورج سے انتہائی مختلف تھا۔ قدیمی ستارے بہت زیادہ ضخیم تھے۔ اور ضخیم ستاروں کی قسمت کے ساتھ جو چیز لکھی ہوئی ہے وہ یہ کہ یہ نہایت کم عمر ہوتے ہیں اور انتہائی جلدی صرف چند دسیوں لاکھوں سال میں پھٹ پڑتے ہیں۔ 

    بڑے ستارے اپنا ہائیڈروجن کا ایندھن پھونک کر مر جاتے ہیں۔ وہ ایک زبردست دھماکے سے جس کو ہم سپرنووا کے نام سے جانتے ہیں پھٹ پڑتے ہیں۔ ان کا قلب منہدم ہوتے ہوئے ایک بلیک ہول میں بدل جاتا ہے اور شاید یہ وہ ہی ابتدائی بلیک ہول تھے جنہوں نے کائنات کو اس کی موجودہ شکل ودیعت کی ہے۔ شروع میں یہ بلیک ہول چھوٹے تھے۔ ارب ہا سال گزرنے کے بعد کسی ایک بلیک ہول نے دوسری چیزوں کو ہضم کرتے ہوئے بڑھنا شروع کیا اور بڑھتے بڑھتے وہ آج کہکشاں کے قلب میں دکھائی دیئے جانے والے بلیک ہول کی شکل اختیار کر گیا۔ 

    یہ کافی ٹھوس نظریہ ہے مگر اس میں ایک مسئلہ ہے۔ ماہرین فلکیات نے انتہائی ابتدائی کائنات میں کچھ بہت ہی کمال درجے کی روشنیاں دیکھی ہیں۔ یہ ستاروں کی روشنیاں نہیں تھیں بلکہ ان مظاہر کا نام کوزار ہے۔ یہ فلکیات کی دنیا میں مشکل ترین اجسام میں سے یہ ایک ہیں۔ جب سائنس دانوں نے ان کو پہلی مرتبہ دریافت کیا تو وہ اس بات سے انتہائی پریشان ہوئے کہ کوئی جسم اس قدر توانائی کیسے خارج کر سکتا ہے ؟ یہ توانائی اس قدر تھی کہ پوری کائنات کو روشن کر سکتی تھی۔ یہ کوزار اگرچہ نظام شمسی سے بھی چھوٹے ہوتے ہیں مگر 100 کہکشاؤں سے نکلنے والی روشنی کو بھی مانند کر دیتے ہیں۔ اس میں سے نکلنے والی توانائی کسی بھی ستارے سے نکلنے والی توانائی سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ صرف ایک ہی ایسا عمل ہے جس کو سائنس دان جانتے ہیں جس میں اس قسم کی شاندار توانائی پیدا ہو سکتی ہے اور وہ عمل یہ ہے کہ جس میں مادّے کی زبردست مقدار کسی بلیک ہول کے اندر گرتے ہوئے اس قسم کی توانائی کو پیدا کرتی ہے۔ 

    سائنس دانوں نے جلد ہی اس بات کو پا لیا تھا کہ یہ جسیم غضبناک بلیک ہول ہیں۔ یہ اس قدر بڑے ہیں کہ کسی ایک مرتے ہوئے ستارے سے نہیں بن سکتے۔ یہ کسی ایسے بلیک ہول کی طرح نہیں ہیں جو سورج سے 10 یا 20 گنا زیادہ کمیت کے حامل ستاروں کے مرنے کے بعد پیدا ہوں۔ یہ بلیک ہول حقیقت میں سورج کی کمیت سے کروڑوں یا اربوں گنا زیادہ کمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ لہٰذا سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنے بڑے بلیک ہول آئے کہاں سے ہیں ؟ یہ اتنے بڑے ہیں کہ ابتدائی مرتے ہوئے ستاروں سے صرف نہیں بن سکتے۔ یہ کسی دوسرے طریقے سے بنے ہوں گے۔ وہ نظریہ جس میں ستارے پہلے بنتے ہیں اور پھر وہ کہکشاؤں کی صورت میں جمع ہو جاتے ہیں اس کی یکسر جانچ پڑتال کی ضرورت ہے۔ کیا بلیک ہول پہلا سے موجود تھے ؟ کیا وہ اس تمام خلقت کی ماں ہیں جس نے ملکی وے کہکشاں، ستاروں اور ہمیں جنم دیا۔ ہماری روشن کہکشاں ملکی وے کا قلب انتہائی تاریک ہے۔ مگر کون سی چیز پہلے پیدا ہوئی روشنی یا تاریکی؟ یہ ویسا ہی سوال ہے کہ مرغی پہلے پیدا ہوئی یا انڈا ؟ کونسی چیز پہلے بنی کہکشاں یہ بلیک ہول ؟ کیا کہکشاں کے بننے کے لئے بلیک ہول کی ضرورت ہے ؟ یا پھر ایک بڑے بلیک ہول کو بننے کے لئے ایک بری کہکشاں کی ضرورت ہے ؟ کیا بلیک ہول پہلے بنے ؟یا پھر ستارے اور کہکشائیں پہلے بنیں ؟

    ایک نظریئے کے مطابق ستارے پہلے بنے۔ بڑے ستارے مرتے ہوئے بڑے بلیک ہول بناتے گئے۔ مگر کوزار کی دریافت نے اس نظریئے کو للکار دیا ہے۔ ابتدائی کائنات میں نہایت ہی فوق ضخیم بلیک ہول موجود تھے اس قدر بڑے کہ مرتے ہوئے ستارے اتنے بڑے بلیک ہول پیدا نہیں کر سکتے تھے۔ لہٰذا سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ یہ آئے کہاں سے ہیں ؟ اور کیا یہ کہکشاؤں کو بناتے رہیں گے؟ 

    چلیں آپ کو ہم اس نظریئے کی جانب چلتے ہیں جس میں فوق ضخیم بلیک ہول بننے کے لئے براہ راست منہدم ہونا ضروری ہے۔ اس نظریئے کے تحت انتہائی نوزائیدہ کائنات میں بادلوں کے عظیم ڈھیر موجود تھے جنہوں نے سیدھا منہدم ہوتے ہوئے بلیک ہول بنا دیئے۔ یہ کسی ستارے کی پیدائش جیسا ہی عمل تھا مگر اس میں ستارے پیدا ہونے سے پہلے ہی مر گئے یعنی بقول شا عر حسرت ان غنچوں پر جو بن کھلے مر جھا گئے۔ ۔ ۔

    نظریہ کچھ اس طرح سے اس بات کو بیان کرتا ہے۔ گیس کے بادل آپس میں جتھے بناتے گئے جنہوں نے ایک مرکزی نقطے پر گھومتے ہوئے اس میں گرنا شروع کیا جس سے وہ نقطہ انتہائی کثیف بن جاتا گیا۔ ستارے کے بننے کے عمل میں اس نقطے پر قلب جل اٹھتا ہے مگر یہاں پر بہت زیادہ گیس اور گرد جمع ہو جاتی ہے۔ اس تمام مادّے کی کمیت اس قدر ہو جاتی ہے کہ قوّت ثقل بے قابو ہو جاتی ہے۔ وہ گیس کو دبا دیتی ہے جس سے وہ کثیف سے کثیف تر ہوتی جاتی ہے یہاں تک کہ ایک نقطہ پر پہنچ جاتی ہیں جس میں منہدم ہوتی ہوئی گیس اس قدر شدید ہوتی ہے کہ وہ خلاء کی ساخت کو توڑتے ہوئے اس میں سے نکل جاتی ہے۔ جس کے نتیجے میں ایک فوق ضخیم بلیک ہول پیدا ہوتا ہے۔ یہ اس بلیک ہول کی بات ہو رہی ہے جو کسی بھی ایسے بلیک ہول سے بڑا ہوتا ہے جو کسی ستارے کے مرنے کے بعد پیدا ہوتا ہے۔

    شاید یہ نظریہ اس بات کو بیان کر سکتا ہے کہ بلیک ہول اور کوزار کیوں اس قدر جسیم اور کائنات میں پہلے سے موجود ہوتے ہیں۔ اگر یہ بات سچ ہوئی تو اس کے نتیجے میں بلیک ہول ستارے سے بھی پہلے بن سکتے ہوں گے۔ فی الحال تو یہ ایک نظریئے ہی ہے۔ اس بات کی کھوج اب بھی جاری ہے کہ ہماری کہکشاں کیسے بنی۔ مرغی اور انڈے والا سوال اپنی جگہ موجود ہے۔ کیا بلیک ہولز نے کہکشاؤں کو اپنے گرد لپیٹا ہے یا پھر کہکشائیں خود سے بن گئیں اور اس فاصل حد کو پہنچ گئیں جس سے آگے پہنچ کر فوق ضخیم بلیک ہول کا بننا ان کے قلب میں نا گزیر ہو گیا تھا اور ہم اسی بات کو جاننا چاہتے ہیں۔ اور اس بات کو جاننے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ کائنات میں دیکھیں اور اس کو تلاش کریں۔ 

    کسی بھی ایک نظریئے کو ثابت کرنے کے لئے ہمیں مشاہداتی شواہد کی ضرورت ہو گی اور یہ شواہد کوئی چھوٹی بونی کہکشاں ہمیں دے سکتی ہے۔ ہینائز 2-10 کافی کم عمر ہے جس کے زیادہ تر سیاروں کی عمر کچھ دسیوں لاکھ سال ہی ہے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ ہمیں ہماری کہکشاں کا وہ دور دکھلا سکے جب وہ اپنے نوزائیدہ دور میں تھی۔ ہینائز 2-10 نہایت ہی دلچسپ، ننھی کہکشاں ہے۔ سائنس دان شروع میں اس کا مشاہدہ اس لئے زیادہ دلچسپی کے ساتھ کر رہے تھے کہ یہاں پر ستاروں کے بننے کا عمل چل رہا تھا۔ مگر جب انہوں نے موجودہ تمام معلومات کو کھنگالنا شروع کیا تو ان کو ایک حیرت انگیز جھٹکا لگا۔ انہوں نے اس چھوٹی سی کہکشاں کے قلب میں موجود ایک فوق ضخیم بلیک ہول کو پایا۔ 

    کسی کہکشاں میں بلیک ہول کا مل جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے مگر اتنی چھوٹی کہکشاں میں اس قدر دیو ہیکل بلیک ہول کا ملنا انتہائی حیرت انگیز بات ہے۔ سائنس دانوں کے محتاط اندازے کے مطابق ہینائز 2-10 کہکشاں میں موجود بلیک ہول سورج کی کمیت سے دس یا بیس لاکھ گنا زیادہ ہے۔ اس پیمانے کی کمیت کے بلیک ہول کا مقابلے ہماری کہکشاں میں موجود فوق ضخیم بلیک ہول سے کیا جا سکتا ہے مگر ملکی وے ایک لاکھ نوری برس پر پھیلی ہوئی ہے جبکہ ہینائز 2-10 صرف چند ہزار نوری برس پر پھیلی ہوئی ہے۔ اتنے ضخیم بلیک ہول کو اتنی چھوٹی اور بونی کہکشاں میں دیکھنا نہایت ہی حیرت انگیز بات ہے۔ اس دریافت سے پہلے سائنس دان اس بات کا تصوّر نہیں کر سکتے تھے کہ اتنی چھوٹی کہکشاں میں اس قدر جسیم بلیک ہول موجود ہو گا۔ اس کی دریافت ان کی امیدوں کے برخلاف تھی۔

    عام طور سے فوق ضخیم بلیک ہول کافی بڑی اور کافی ضخیم کہکشاؤں میں پائے جاتے ہیں۔ یہ دریافت نہایت ہی اہمیت کی حامل تھی۔ ہینائز 2-10 کہکشاں میں بلیک ہول کی نمو کہکشاں سے کہیں زیادہ تھی۔ یہ ثبوت اس بات کی طرف کا اشارہ تھا کہ بلیک ہول ہمارے اندازوں سے کہیں زیادہ پرانے ہوتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسا دوسری کہکشاؤں میں بھی ہوتا ہو گا ؟ کتنی بونی کہکشاؤں میں ایسے فوق ضخیم بلیک ہول موجود ہیں ؟ کیا ہینائز ایک انوکھی کہکشاں ہے ؟یا اور دوسری اس جیسی کہکشائیں بھی موجود ہیں ؟ سائنس دانوں نے سلون ڈیجیٹل اسکائی سروے کے ڈیٹا کو کھو جا اور ان کو ایسی 100 سے زائد چھوٹی ننھی کہکشائیں ملیں ہیں جن میں فوق ضخیم بلیک ہول موجود ہیں۔

    ہینائز 2-10 ایک ایسا نمونہ ہو سکتا ہے جو یہ بات سمجھنے میں مدد کرے کہ تمام کہکشائیں جس میں ہماری کہکشاں ملکی وے بھی شامل ہے کیسے بنی ہیں۔ یہ بہت ہی حیران کر دینے والی چیز ہے کیونکہ یہ اس بات کا ثبوت ہو سکتا ہے کہ بڑے بلیک ہول پہلے بنتے ہیں اور پھر اپنے گرد وہ کہکشاؤں کو بناتے ہیں۔ ہر وہ چیز جس کو ہم آسمان میں دیکھتے ہیں، ستارے ہمارا سورج، سیارے اور تمام کی تمام کہکشاں یہ سب ایک فوق ضخیم بلیک ہول نے بنانے شروع کیے ہوں۔ مگر یہ سوال پھر بھی اپنی جگہ پر کھڑا ہے کہ بلیک ہول نے بھی اتنی شاندار کہکشاں جیسا کہ ہماری ملکی وے کہکشاں ہے کیسے بنا دی؟ اس میں موجود ستارے کہاں سے آئے ؟

    13 ارب سال پہلے ہو سکتا ہے کہ ملکی وے کہکشاں نے اپنی شروعات ایک بلیک ہول سے شروع کی ہو۔ ایک انتہائی بلند کالا کرۂ جس کے اطراف میں گیس اور گرد کا طوفان موجود تھا۔ مگر اس سے ہماری چمکتے ہوئے تاروں سے بنی کہکشاں کیسے بنی؟ عوام الناس بلیک ہول کو دیوہیکل کونیاتی صفائی کرنے کی مشین سمجھتے ہیں جو ہر چیز کو اپنے اندر کھینچ لیتی ہے۔ مگر یہ بات مکمل طور پر درست نہیں ہے۔ اگر کوئی چیز اس کے قریب چلی جائے تو لازمی طور پر وہ اس میں گر جائے گی اور اس میں سے کبھی واپس نہیں نکل سکے گی۔ مگر یہ تخلیق کی قوّت کے طور پر بھی کام کر سکتے ہیں۔ بلیک ہول کس طرح سے تخلیقی قوت کے طور پر کام کرتے ہیں ؟

    ایک بات تو یہ سمجھ کیں کہ بلیک ہول اصل میں کالے نہیں ہوتے یہ اس سے کہیں مختلف ہوتے ہیں۔ بلیک ہول کائنات میں موجود سب سے بڑے متناقض ہیں۔ ان کو کالا اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ روشنی کا اخراج نہیں کرتے۔ مگر وہ کائنات کی کچھ سب سے روشن چیزیں پیدا کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ کوزار اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ فوق ضخیم بلیک ہول کہکشاؤں سے بھی زیادہ روشنی پیدا کر سکتے ہیں۔ بلیک ہول صرف مادّے کو ہضم نہیں کرتے یہ مادّے کو اگل بھی دیتے ہیں۔ فوق ضخیم بلیک ہول بہت ہی گندا پیٹو ہوتا ہے۔ یہ مادّے کو نگلنے کی کوشش میں اس کو گرم کر دیتا ہے جس سے وہ پھیل جاتا ہے۔ کبھی تو وہ کھانے کے دوران ڈکار بھی لے لیتے ہیں جس کے نتیجے میں مادّہ دور تک بکھر جاتا ہے۔

    کائنات کی ابتداء، ملکی وے بننے کے شروع میں فوق ضخیم بلیک ہول گیس اور گرد کے بادلوں میں گھرے ہوئے تھے۔ بلیک ہول مادّے کی دعوت اڑانے میں مصروف تھے۔ مگر وہ سب نہیں کھا سکے تھے۔ جب وہ بہت زیادہ مادّہ بہت تیزی کے ساتھ کھانا چاہتے تھے تو اس کے دوران اتنی توانائی پیدا ہوتی ہے کہ بلیک ہول کی کشش بھی اس کو روک نہیں سکتی۔ اچانک بلند توانائی کے ایٹم اور روشنی اس کے قلب سے نکلتی ہے جو ہمارے سورج کی توانائی سے دس کھرب گنا زیادہ ہوتی ہے۔ کوئی بھی جو فوق ضخیم بلیک ہول کے قریب موجود ہو گا اس کے لئے وہاں انتہائی شدّت کا ماحول ہو گا۔ اس کو زبردست قسم کی تابکاری تو برداشت کرنا ہو گا۔ اس کو ان توانائی کی دھاروں سے بھی نمٹنا ہو گا۔ لہٰذا ایسے کسی شدید ماحول میں ستارے کیسے بن سکتے ہیں ؟

    فلکیات دانوں نے ایک ایسے بلیک ہول کو ڈھونڈ نکالا ہے جس کے پاس اس بات کا جواب موجود ہو سکتا ہے کہ ملکی وے میں پہلا ستارہ کیسے پیدا ہوا۔ ایک فوق ضخیم بلیک ہول کی سنسنی خیز دریافت ہوئی ہے، یہ بالکل ویسا ہی ہے جیسا کہ کسی کہکشاں کے قلب میں موجود فوق ضخیم بلیک ہول موجود ہوتا ہے، مگر یہ اکیلا بغیر کسی کہکشاں کے موجود ہے۔ یہ پاگلوں کی طرح چمک رہا ہے۔ سائنس دان جانتے ہیں کہ یہ گیس کو نگل رہا ہے۔ HE0450-2958 زمین سے 5 ارب سال کی دوری پر موجود ہے، یہ توانائی کی دیو ہیکل دھاریں چھوڑ رہا ہے۔ یہ دھاریں گرد اور گیس اور پڑوسی کہکشاں سے جا کر ٹکرا رہی ہیں۔ اس بات سے ہم یہ سمجھ سکتیں ہیں کہ یہ اس کہکشاں کو برباد کر دے گا مگر درحقیقت یہ اس کہکشاں کو بننے میں اس کی مدد کر رہا ہے۔ یہ ایک بڑی کہکشاں کے پاس موجود ہے جس میں ستارے انتہائی برق رفتاری سے پیدا ہو رہے ہیں۔

    سائنس دان سمجھتے ہیں کہ فوق ضخیم بلیک ہول کی نشو و نماء کے دوران اس کے فواروں سے نکلنے والا مادّہ پڑوس کی کہکشاں میں جا کر ستاروں کے بننے کے عمل کو تیز کر دیتا ہے۔ بلیک ہول کے جسیم فوارے ستارے بننے کے عمل کو شروع کرنے کے لئے ضروری ہیں۔ بلیک ہول تابکاری کو پھینک رہے ہیں اور جب یہ تابکاری کہکشاں میں موجود گیس کے بادلوں میں سے گزرتی ہے تو اس کو سکڑنے میں مدد دیتی ہے جس کے نتیجے میں نئے ستارے بنتے ہیں جو اس بات کا سیدھا ثبوت ہے کہ بلیک ہول ستاروں کے بننے کا سبب بنتے ہیں۔

    HE0450-2958 ہو سکتا ہے کہ ملکی وے کے ماضی میں جھانکنے کا راستہ بن جائے۔ ہو سکتا ہے کہ ہماری کہکشاں کے فوق ضخیم بلیک ہول کی زبردست مادّے کی دعوت نے ہی ستاروں کو بننے کا عمل شروع کروایا ہو۔ پھر وہ ستارے بلیک ہول کی زبردست قوّت ثقل کے بدولت اس کے گرد چکر لگانا شروع ہو گئے ہوں جس کے نتیجے میں کہکشاں بنی ہو۔ بلیک ہول اصل میں ستاروں کے بننے کے عمل کو شروع کروا سکتے ہیں۔ لہٰذا کچھ لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ہماری کہکشاں اس لئے بنی کہ اس کے قلب میں ایک غصیارہ بلیک ہول موجود ہے جو ستارے بننے کے عمل کو شروع کرنے میں مدد دیتا ہے۔ یہ بات ممکن ہے کہ بلیک ہول آسمان میں نظر آنے والے زیادہ تر ستاروں بشمول اس ستارے کے جس کے بغیر ہم رہ نہیں سکتے یعنی کہ سورج کے پیدا کرنے کا بھی باعث بنے ہوں۔ بلیک ہول کا نظری طور پر موجود ہونا ہی کافی حیران کن ہے کیونکہ کافی سیارے طبیعیات دان جو اس نظریئے کو بنانے میں شامل تھے وہ خود بلیک ہول کے ہونے پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ 

    اب ہم اس بات کا ادرک کر چکے ہیں کہ ہمارا وجود ان ہی کے مرہون منّت ہے۔ بلیک ہول ان اجسام کی کیفیت سے جن پر یقین کرنا ممکن نہ تھا اس سے ہوتے ہوئے اب وہ اجسام بن گئے ہیں جن کے بغیر ہمارا وجود نہ ممکن تھا۔ حقیقت میں کسی کہکشاں کے مرکز میں بلیک ہول کے موجود ہونے کا تصوّر کافی ہیبت ناک ہے اس کے باوجود ہماری کہکشاں اپنے وجود کی بقاء کے لئے انہی پر انحصار کرتی ہے۔ ہمارا اپنا ستارہ اسی نظام کی بدولت وجود میں آئے ہیں۔

    13 ارب سال پہلے ملکی وے کا پہلا ستارہ چمکا۔ کہکشاں نے اپنی موجودہ شکل میں آنے کے لئے پر پرزے نکال نے شروع کر دیئے۔ ملکی وے اتنی کمیت کی ہو چکی تھی کہ اس کے گرد بننا شروع کر دے۔ اور ابتدائی کائنات میں ملکی وے ہی اکیلی کہکشاں نہیں تھی۔ اس کے کونیاتی پڑوسی اس کے شکار بن چکے تھے۔ ملکی وے کہکشاں خور بن چکی تھی۔ ملکی وے اپنے عہدے شباب سے گزرتی ہوئی نشو ماء پا رہی تھی۔ اس میں پہلے سے ہی دسیوں لاکھوں کی تعداد میں ستارے موجود تھے۔ اب یہ اس قدر بڑی ہو چکی تھی کہ اپنی ارتقاء کا اگلا مرحلہ مکمل کرتی۔ اب وہ بہت زیادہ جارحیت پسند ہو گئی تھی۔ اس نے اب اپنے دوسرے کونیاتی بہن بھائیوں کا رخ کر لیا تھا۔

    کہکشائیں بہت خوبصورت اور نفیس ہوتی ہیں عظیم پھول پھرکی کی طرح تمام کائنات میں مرغولہ نما کہکشائیں تیرتی ہوئی نظر آتی ہیں مگر ان شاندار کہکشاؤں کا ایک تاریک پہلو بھی ہے۔ کہکشاؤں کے بننے کے عمل میں ایک عمل دوسری کہکشاؤں کو کھا کر بڑا ہونا ہے۔ کہکشائیں پیدائش کے وقت سے ہی بڑی نہیں ہوتیں۔ وہ دوسرے کئی اور اجسام کی طرح سے اپنی جیسی دوسری کہکشاؤں کو کھا کر بڑی ہوتی ہیں۔ اگر ہم نوزائیدہ کائنات کو دیکھ سکیں تو ہم دیکھیں گے کہ وہاں ایک غضب کی جنگ چھڑی ہوئی ہے۔ بونی کہکشائیں ٹکرا کر دوسری کہکشاؤں میں ضم ہو رہی ہیں۔ اور اس دور میں حجم اہم کردار ادا کرتا ہے۔

    یہ کونیاتی رولر ڈربی کی دوڑ کے کھیل جیسا ہے۔ کھلاڑی بونی کہکشاؤں کے نمائندے ہیں جنہوں نے ابتدائی کائنات کو اپنے سے پاٹا ہوا تھا۔ اگر آپ نے رولر ڈربی کھیل دیکھا ہو تو آپ کو کہکشاؤں کے بننے کا عمل سمجھ میں آنا شروع ہو جائے گا۔ اس کھیل میں کھلاڑی اسکیٹنگ کے تختے کے درمیان کھڑے رہ کر اسکیٹنگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہر جگہ سے لوگ ایک دوسرے پر گرے جاتے ہیں۔ یہ بہت ہی جارحیت پسندانہ اور افراتفری سے بھرپور ہوتا ہے۔ اور بالکل اسی طریقے سے کہکشاں کے چاروں طرف بھی ایسے ہی ہوتا ہے۔ کہکشاں میں مرکز ہر چیز کو اپنی جاذبی قوّت سے اپنی طرف کھینچتا ہے اور اجسام اس مرکز کے گرد تیرتے ہیں۔ بونی کہکشائیں ایک دوسرے سے متصادم ہو رہی ہوتی ہیں۔ بڑی جسامت والی چیزیں ہمیشہ کی طرح سے اس میں بھی اپنا تسلط برقرار رکھتی ہیں۔ کہکشائیں ایک دوسرے میں گھسی جاتی ہیں۔ ستارے پوری کہکشاں میں پھینک دیئے جاتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے سے مادّہ چرا رہے ہوتے ہیں۔ اس تصادم کے دوران اگر کوئی چھوٹی چیز کسی دو ٹکرانے والی بڑی چیز کے درمیان آ جائے تو اس کو وہ دونوں بڑی چیزیں مل کر ہضم کر جاتے ہیں۔ یہ ارب ہا سال پر محیط تصادموں پر مشتمل افراتفری کا دور تھا۔ یہ ایک ایسے پاگل پن کا دور تھا تھا جو بار بار دہرایا جاتا رہا۔ اس تصادم کے دور میں ملکی وے کہکشاں بڑھتی رہی۔


    آج کے دور میں کائنات کے اس حصّے میں جہاں ملکی وے موجود ہی اسی کی راج داری ہے۔ اب بھی یہ دوسری آس پڑوس کی قریبی کہکشاؤں کو ہضم کر نے میں مگن ہے۔ ایک کہکشاں جس کا نام برج قوس ہے اور جس نے ایک عظیم لمبی سی دم ملکی وے کے قریب لازمی طور پر اسی عمل کے دوران چھوڑی ہے۔ اس سے آتی ہوئے ستاروں کی ایک عظیم سی پٹی ہے جو ہمیں اس بات کا عندیہ دیتی ہے کہ اس کا یہ حال ہماری کہکشاں ملکی وے نے کیا ہے۔ اس عمل میں ایسا نہیں ہے کہ ملکی وے کو کچھ نہیں ہوا ہو۔ ان تصادموں نے ملکی وے کے بازوں کے بننے کے عمل کو شروع کیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ برج قوس کو ہضم کرنے کی وجہ سے ملکی وے ایک مرغولہ نما کہکشاں نظر آتی ہو۔ 

    اس ہنگامے نے صرف ہماری کہکشاں کو بنایا ہی نہیں ہے اس نے اس کو تراشا بھی ہے۔ اس نے ملکی وے کو ایک ساخت میں ڈھالا ہے اور ستاروں جن میں شاید ہمارا سورج بھی شامل ہے ان کی جگہوں کو تبدیل بھی کیا ہے۔ اس بات کا بھی کافی امکان ہے کہ ہمارا سورج کہکشاں کے قلب کے کافی نزدیک کہیں پیدا ہوا ہو اور بعد میں اس نے کچھ ارب برسوں کے دوران کہکشاں کے مضافات میں ہجرت کی ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جب قوس کہکشاں ملکی وے کے قرص سے ٹکرائی ہو تو اس کے نتیجے میں ملکی کے کے مرغولہ نما بازوں بنے ہوں جس کے نتیجے میں سورج نے یہاں ہجرت کی ہو۔

    سورج اور ہمارا نظام شمسی کہکشاں کے قلب سے لگ بھگ 26 ہزار نوری برس کے فاصلے پر موجود ہے۔ زمین پر موجود حیات کے لئے یہ اچھی خبر ہے۔ اگر کوئی چیز قلب میں بلیک ہول کے کافی نزدیک ہو تو وہاں بہت ساری ایسی چیزیں وقوع پذیر ہو رہی ہوں گی جو حیات کے لئے کافی نقصان دہ ہوں گی۔ وہاں بلند توانائی کی اشعاع موجود ہوں گی۔ وہاں پر ستاروں کے بننے کے عمل میں دھماکے موجود ہوں گے۔ ستارے سپرنووا بن کر پھٹ رہے ہوں گے۔ ہم کہکشاں نے نسبتاً پرسکون مضافاتی حصّے میں موجود ہیں جہاں حیات کے لئے چیزیں نہایت ہی موزوں تھیں۔ ہماری کہکشاں کی کہکشاں خوری زمین پر حیات کے لئے انتہائی ضروری ثابت ہوئی ہے۔ ہنگامے کے ذریعہ ہی ہم زندہ رہ پائے اور ہماری کہکشاں نے اپنی پرورش کو جاری رکھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا کوئی چیز ہماری جگر ناتھ کہکشاں کو کہکشاں خوری سے روک سکتا ہے۔ 

    ملکی وے کہکشاں کو دیکھ کر ماہرین فلکیات بمشکل کوئی نیا ستارہ دیکھ پاتے ہیں۔ جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی چیز نے ہماری کہکشاں کی نشو ماء کو روک دیا ہے۔ ملکی وے کہکشاں اپنی پیدائش کے وقت چھوٹی سی تھی۔ ارب ہا سال گزرنے کے بعد وہ پرورش پا کر 2 کھرب سے زائد ستاروں پر مشتمل نہایت جسیم ہو گئی۔ مگر اس میں اب اضافے کی رفتار بہت ہی آہستہ ہو گئی ہے۔ ابھی بھی ملکی وے میں ستاروں کی پیدائش ہو رہی ہے مگر صرف سال میں ایک ہی ستارہ ہماری اس دیوہیکل کہکشاں میں کہیں بھی پیدا ہو جا تا ہے۔ ستاروں کی پیدائش ملکی وے میں ختم نہیں ہوئی مگر اس میں کمی ضرور آ گئی ہے۔ ماضی میں یہاں ستاروں کے بننے کی رفتار انتہائی تیز تھی۔ لہٰذا ایسا کیا ہوا جس نے یہ تبدیلی رو نماء کر دی ہے۔ کہکشاں کی نشو و نماء میں کمی آنے کی کیا وجہ ہے کہ گیس ستاروں میں نہیں ڈھل رہی ہے۔ اس بات ایک جواب تو یہ ہے کہ اس میں موجود بلیک ہول زیادہ متحرک نہیں ہے جس کی وجہ سے ستاروں کے بننے کی رفتار دھیمی پڑھ گئے ہے۔ شاید کائنات کی ابتداء میں ہمارے بلیک ہول نے ستاروں کے بننے کے عمل میں چنگاری لگا دی تھی۔ شاید اب وہ اس عمل کو روکنے کا بھی ذمہ دار ہے۔ 

    اس بات کی تلاش کے لئے ہمیں ملکی وے کے فوق ضخیم بلیک ہول کا تفصیلی جائزہ لینا پڑے گا۔ اس بات کے لئے ہم ناسا کی نئی دوربین نیوکلیئر اسپیکٹرو اسکوپک ٹیلی اسکوپ ارے کا شکر گزار ہونا چاہئے۔ فیونا ہیرسن نسٹار دوربین کے آپریشن کو دیکھتی ہیں وہ بتاتی ہیں کہ اس کا پہلا ہدف ہماری کہکشاں کے قلب میں پایا جانے والا بلیک ہول تھا۔ نسٹار اس صلاحیت کی حامل ہے کہ وہ بلند توانائی کی حامل ایکس ریز کو دیکھ سکے جو گیس اور گرد میں سے آسانی سے گزر سکتی ہیں۔ جس سے ہم اس قابل ہو جاتے ہیں کہ بلیک ہول کو دیکھ سکیں۔ نسٹار کی ایکس ریز والی نگاہ بہت زیادہ ہنگامے والے واقعات بھی دیکھ سکتی ہے۔ بلیک ہول کے قہر نہایت ہی کمیاب ہوتے ہیں مگر نسٹار اس معاملے میں کافی خوش قسمت ثابت ہوئی ہے۔ صرف چھ گھنٹوں میں ہی اس نے ایک کئی گنا بڑا بلیک ہول پا لیا تھا۔ جس کا قہر صرف چند گھنٹے ہی جاری رہا جس کے بعد وہ دور ہوتا ہوا گمنامی کے اندھیرے میں غائب ہو گیا۔ مگر یہ وہ چیز تھی جس کی سائنس دانوں کو تلاش تھی۔ اس کو دیکھ کر وہ بہت زیادہ خوش ہو گئے تھے۔

    اس مشن نے شروع میں ہی کافی اچھا نتیجہ حاصل کر لیا تھا۔ یہ اس بات کا براہ راست ثبوت تھا کہ ہمارا بلیک ہول اب ابھی کافی متحرک تھا اور اس میں اتنا دم ہے کہ وہ اب بھی کہکشاں کو قابو کر سکے۔ بلیک ہول کی طاقت اس وقت معلوم ہوئی جب اس نے اپنے گرد گھومتی ہوئی قرص کو روشن کر دیا۔ اس قرص میں مادّہ بھنور کی صورت میں بلیک ہول کے گرد گھوم رہا تھا۔ یہ دونوں ایک دوسرے سے رگڑ کھا رہے تھے۔ وہاں پر مقناطیسی قوّت کے ساتھ ساتھ دوسری قوّتیں بھی کارفرما تھیں۔ وہاں پر پیدا ہونے والی گرمی نے اس قرص کو سورج سے بھی زیادہ درجہ حرارت سے گرم کر دیا تھا۔ نسٹار نے اس کے درجہ حرارت کو ناپا تو وہ 18 کروڑ ڈگری فارن ہائیٹ تھا جو سورج کی سطح سے 18 ہزار گنا زیادہ تھا۔

    اس قدر زیادہ درجہ حرارت کسی ستارے کی پیدائش کے لئے اچھی خبر نہیں ہے۔ گیس کو ستارہ بننے کے لئے اس درجہ حرارت تھوڑا ٹھنڈا ہونا پڑے گا۔ کیونکہ گیس کو ٹھنڈا ہو کر کثیف ہونا ہوتا ہے تا کہ وہ اپنے آپ میں ڈھہ کر اس طرح کی کسی چیز میں بدل جائے کہ اس میں نیوکلیائی تعامل شروع ہو سکے۔ لہٰذا بلیک ہول کے آس پاس کے علاقے کیونکہ بہت ہی زیادہ گرم ہیں وہ گیس کو بھی نہایت گرم کر دیتے ہیں لہٰذا یہ گرمی گیس کو ستاروں میں بدلنے سے روک دیتی ہے۔ کافی مقدار میں توانائی خارج ہوتی ہے جو نہ صرف حقیقت میں ستارے کو برباد کر دیتی ہے بلکہ یہ اس گیس کو جس سے بعد میں ستاروں نے بننا ہوتا ہے دور پھینک دیتی ہے۔ ستاروں کا بننا رک جاتا ہے۔ 

    ہماری کہکشاں کی زندگی میں بلیک ہول گیس اور گرد کو اپنے پاس کھینچ لیتا ہے جو ستارے کے بننے کا بنیادی خام مال ہیں۔ ابتداء میں اس کی قوت نے گیس کے بادلوں کو آپس میں ٹکرا کر ستاروں کے بننے کے عمل کو شروع کیا۔ اب وہ ان کو اپنی انتہاء کی گرمی کو دور پھینک رہا ہے تاکہ ستاروں کی پیدائش کے عمل کو قابو میں رکھے۔ قلب میں موجود بلیک ہول ایک ایسے والو کی طرح کام کرتا ہے جس کا کام ستاروں کی پیدائش کو قابو میں رکھنا ہے۔ کہکشاں اور بلیک ہول کے درمیان بہت ہی ہم زیستا نہ تعلق ہے۔ بلیک ہول کونیاتی خدائی فوجدار ہیں جو ستاروں کی پیدائش کو کچھ مخصوص مواقع پر تیز کر کے کہکشاں کی پرورش کو قابو میں رکھتے ہیں۔

    سائنس دان ابھی تک اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے کہ بلیک ہول کچھ ستاروں کو بننے سے کیوں روک دیتے ہیں جب کہ کچھ ستاروں کے بننے کے عمل کو شروع کر دیتے ہیں۔ بس وہ اتنا جانتے ہیں کہ ستاروں کی پیدائش کے اس انضباطی عمل کے پیچھے ہمارے وجود کی بقاء ہے۔ جب وہ ستاروں کو بننے میں مدد دیتا ہے تو اس نے ہمارے سورج کو بننے میں بھی مدد کی ہو گی۔ اب اس نے ستاروں کے بننے کے عمل کو آہستہ کر دیا ہے کیونکہ ستاروں کے بننے کے عمل میں کافی ساری اشعاع نکلتی ہیں جو سیارہ زمین پر بھی آ سکتی ہیں۔ اگر ہم اس دور میں موجود ہوتے جب کافی سارے نوجوان ستارے اور سپرنووا موجود ہوتے تو وہ زمین پر موجود حیات کے لئے کسی بھی صورت اچھا نہیں ہوتا۔ اس وقت حیات کے لئے موجود شرائط انتہائی موزوں و مناسب ہیں۔

    رات کے آسمان کو دیکھیں تو وہ آپ کو نہ قابل تغیر اور ابدی سا لگتا ہے۔ مگر کائنات میں موجود ہر چیز کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ ہماری کہکشاں اپنے اگلے مرحلے کی تیاری کر رہی ہے۔ اس کا مستقبل کیا ہو گا ؟ اس کا جواب ہے کہ ہماری کہکشاں اب زیادہ عرصے تک مرغولہ نما کہکشاں نہیں رہنے والی ہے۔ ہماری کہکشاں کا بطور مرغولہ نما ساخت کا دور اپنی دو تہائی زندگی پور کر چکا ہے۔ ملکی وے کی ایک انتہائی جسیم بہن اس کے پڑوس میں بالکل قریب میں موجود ہے۔ اس کی رقابت رات کے آسمان میں آگ لگانے والی ہے جس کے نتیجے میں کائنات کے دو بھاری بھرکم اجسام ایک دوسرے کے خلاف میدان میں اترنے والے ہیں اور یہ اس وقت تک لڑتے رہیں گے جب تک ان میں سے کوئی ایک ہار مان کر دوسرے کی جیت کو قبول نہ کر لے۔

    13 ارب سال پہلے ملکی وے ایک بلیک ہول کے گرد بننا شروع ہوئی۔ جس میں سینکڑوں ارب ہا ستارے موجود ہیں جو ایک چپٹی سی قرص کی ساخت بنا کر مرغولہ نما شکل میں ڈھل گئے ہیں۔ ہماری کہکشاں مستقل ارتقاء پذیر رہی ہے۔ اس کا مستقبل بھی اس چیز سے بری نہیں ہے۔ مستقبل میں پھر یہاں ہنگامہ مچنے والا ہے۔ آسمان پر رات کو دوربین پر سے دیکھنے میں آپ کو اینڈرومیڈا کہکشاں دکھائی دے گی۔ یہی ہماری کہکشاں کا مستقبل ہے۔ آج سے 4 سے 5 ارب سال کے بعد ہماری کہکشاں اپنی پڑوسی کہکشاں سے متصادم ہو گی۔ اور یہ کسی زبردستی قبضہ گروپ کی طرح سا ہماری کہکشاں کو ہتھیانے کی کوشش کرے گی۔ اینڈرومیڈا سیدھی ہماری طرف چلی آ رہی ہے۔

    تصادم کہکشاؤں کے لئے کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ ہماری کہکشاں بھی اپنی ابتداء میں ٹکرا کر اور دوسری کہکشاؤں کے ستاروں کو ہضم کر کے بڑھی ہے۔ مگر اس دفعہ کا ٹکراؤ ذرا وکھری قسم کے ہو گا۔ اس دفعہ مقابلہ ٹکر کا ہو گا۔ ملکی وے اپنے شروع میں آس پاس کی چیزوں میں سب سے بڑی ہوا کرتی تھی۔ لہٰذا اس کے قریب موجود کوئی بھی بونی کہکشاں اس کے غیض و غضب سے نہیں بچ سکی۔ ملکی وے کے راستے میں اب ایک دوسری بڑی کہکشاں حائل ہے جو ابھی سیدھی اسی کی طرف دوڑی چلی آ رہی ہے۔ اینڈرومیڈا ابھی ایک قرص کی شکل کی ہے اور جب یہ دو ٹکیائیں مل کر ایک بنیں گی تو قرص کی شکل کہیں غائب ہو جائے گی۔ ان میں سے کوئی بھی جیتنے والی نہیں ہے۔ تصادم کے وقت ہمارا رات کا آسمان مکمل طور پر بدل جائے گا۔ 

    جب رات کے تاریک آسمان پر آپ نگاہ ڈالتے ہیں تو آپ کو ملکی وے کی ایک پٹی سی نظر آتی ہے۔ یہ واقعی میں نہایت خوبصورت دکھتی ہے۔ آج سے کچھ ارب سال کے بعد صرف ایک ستاروں کی پٹی نہیں دکھائے دے گی بلکہ ایک دوسری ستاروں کی پٹی اس کو کاٹتی ہوئی بھی نظر آئے گی۔ تصادم سے پہلے اینڈرومیڈا ہمارے آسمان پر بڑھتی جائے گی جس کے بعد آخر کار کہکشائیں آپس میں ایک دوسرے سے ٹکرا جائیں گی۔ ستارے اپنے مداروں سے نکال کر باہر پھینک دیئے جائیں گے۔ 

    ستارے آپس میں نہیں ٹکرائیں گے۔ ستارے بین النجم خلاء کے مقابلے میں بہت ہی چھوٹے ہوتے ہیں۔ مگر یہ بات گیس کے بادلوں پر صادق نہیں آتی۔ گیس کے بادل بہت زیادہ بڑے ہوتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے میں گھس سکتے ہیں۔ جب وہ ٹکراتے ہیں تو نئے ستارے بنتے ہیں۔ ان گیس اور گرد کے غباروں میں آگ لگ سکتی ہے۔ آسمان پر بہت ہی عجیب چیزیں دکھائی دیں گی۔ ستاروں کی پیدائش کی وجہ سے پورے آسمان پر آتش بازی کے جیسا نظارہ ہو گا۔ جسیم گیس کے بادل اپنے اندر ستاروں کے پیدا ہونے سے چکا چوند ہو جائیں گے۔ یہ نہایت ہی شاندار نظارہ ہو گا۔ ستاروں کی یہ پیدائش ہی ہماری کہکشاں کے خاتمے کا نشان ہو گی۔

    ملکی وے اور اینڈرومیڈا ایک دوسرے کو توڑ کر پارہ پارہ کر دیں گی جب یہ دو خوبصورت قدرتی مرغولہ نما ساختیں ایک دوسرے میں گھسے گئیں تو ان کی قرینے سے بنی ہوئی شکل تباہ ہو جائے گی۔ صرف موٹا سا پھولا ہوا ستاروں سے بنا گولا ہی باقی بچے گا جو ایک بیضوی شکل کی کہکشاں کی صورت میں ہو گا۔ یہ دونوں کہکشائیں ستاروں کی گیند میں بدل جائیں گی۔ آسمان پر ستاروں کی پٹی نظر نہیں آئی گی۔ صرف ستارے پورے آسمان پر پھیلے ہوئے نظر آئیں گے۔ ملکی وے اور اینڈرومیڈا ختم ہو کر ایک نئی کہکشاں بنائیں گی جس کا نام ملکو میڈا ہو گا۔ 

    مگر تصادم سے ہونے شروع ہونے والے سلسلے ابھی تھمے نہیں ہوں گے۔ دو فوق ضخیم بلیک ہول ایک دوسرے کی جانب بھاگم بھاگ آ رہے ہوں گے۔ یہ دونوں بلیک ہول ایک دوسرے کا شکار کرنے کی کوشش میں ہوں گے۔ دو بلیک ہول جو سورج کی کمیت سے کم از کم 10 لاکھ گنا زیادہ کے ہوں گے ایک دوسرے کی طرف کھینچے چلے آ رہے ہوں گے۔ اس دوران یہ اپنے آس پاس کی گیس کو ہضم کرتے جا رہے ہوں گے۔ دونوں اپنے آس پاس کی تمام گیس کو نگلنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہوں گے جس سے ان کے آس پاس کا علاقہ کافی روشن ہو جائے گا۔ یہ ایک نہایت ہی شاندار اور زبردست نظارہ ہو گا۔ آگ کے دو گولے ایک دوسرے کے گرد اس وقت تک ناچتے رہیں گے جب تو وہ دونوں مل کر ایک بڑا بلیک ہول نہیں بنا لیتے۔ یہ نیا بننے والا بلیک ہول اس نئی کہکشاں کا بادشاہ ہو گا جو اس پر حکومت کرے گا۔ 

    مگر یہ نئی کہکشاں تو مرنے کی طرف پہلے سے ہی جانب سفر ہو گی۔ ارب ہا سال گزرنے کے بعد ستارے آہستہ آہستہ مر رہے ہوں گے۔ نئے ستاروں کی پیدائش کے لئے ایندھن ختم ہو چکا ہو گا اور بننے والے ستارے بھی اپنا زیادہ تر ایندھن پھونک چکے ہوں گے۔ صرف ایک تاریک کہکشاں ہی باقی رہے گی۔ یہ کسی بھی قسم کی توانائی، حرارت اور روشنی نہیں پیدا کر رہی ہو گی۔ یہ صرف تاریک ہو گی۔ کائنات کی تاریکی میں سے اپنی پیدائش کے ایک ہزار کھرب سال کے بعد یہ بلیک ہول واپس اندھیرے میں لوٹ جائیں گے۔ صرف اپنی بنائی ہوئی کہکشاں میں ستاروں اور سیاروں کی باقیات سے ہی وہ ضیافت اڑا سکیں گے۔ ستاروں کے مدار زوال پذیر ہوتے ہوئے انھیں فوق ضخیم بلیک ہول میں پھینک دیں گے۔ ملکی وے جیسی کہکشاں صرف ایک فوق ضخیم بلیک ہول سے وجود میں آتی ہیں۔ 

    افسانوں میں ابتداء اور انجام ہمیشہ آپس میں جڑے ہوتے ہیں مگر یہ بات ہماری کہکشاں کے بلیک ہول پر تو سو فیصد صادق آتی ہے ۔ یہ بات نہایت قرین قیاس ہے کہ بلیک ہول کی کہکشاں کے قلب میں موجودگی کے بغیر ہماری کہکشاں اس طرح سے بڑھوتری نہیں کرتی نہ ہی اس کے بغیر وہ اپنی موجود خاصیتوں کو حاصل کرپا تی۔ مگر ہماری کہکشاں کے مقدر میں آخر میں ایک بلیک ہول کی صورت میں ہی باقی رہنا ہے۔ یوں یہ بات ہم آسانی سے کہہ سکتے ہیں کہ بلیک ہول کسی بھی کہکشاں کے بننے کے عمل کو بھی شروع کرتے ہیں اور وہ اس کی موت کے بھی ذمہ دار ہوتے ہیں۔

    ہماری کہکشاں نہایت شاندار ہے۔ ہر چیز جو ہمیں رات کے آسمان میں نظر آتی ہے وہ کائنات میں موجود ایک انتہائی غیض و غضب سے بھرپور جسم یعنی کہ ایک فوق ضخیم بلیک ہول کی مرہون منّت ہے جو ہماری حیات و موت کا ذمہ دار ہو سکتا ہے اور یہ ہی ہماری کہکشاں اور کائنات میں موجود و دوسری تمام کہکشاؤں کی موت کا ذمہ دار بھی ہو سکتا ہے۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    2 comments:

    گمنام کہا... 23 اگست، 2016 کو 11:20 AM

    بہت شاندار سفر،تاہم میں تو چلتے چلتے تھک گیا! اللہ آپ کو ہمت کی دولت عطا فرماۓ (آمین )۔احمر

    Item Reviewed: ملکی وے Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top