Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    بدھ، 12 جولائی، 2017

    پوزو کی داستان

    چمپانزی عام طور پر کئی درجن اراکین  پر مشتمل چھوٹی ٹولیوں میں رہتے ہیں۔ وہ قریبی دوستی بناتے ہیں، ساتھ شکار کرتے اور  ببون، چیتوں اور چمپانزی سے شانہ بشانہ مل کر لڑتے ہیں۔ ان کا معاشرتی ڈھانچہ مراتب وار ہوتا ہے۔ مقتدر رکن ہمیشہ ہی ایک نر ہوتا ہے، اس کو 'الفا مرد' کہا جاتا ہے۔ دیگر نر اور مادّہ الفا نر کے آگے جھک کر اپنی اطاعت کا اظہار کرتے ہیں اور اس دوران آوازیں نکالتے ہیں۔ ان کا یہ طرز عمل انسانوں کے بادشاہوں کے آگے جھک کر رکوع کرنے سے مختلف نہیں۔ الفا نر ٹولے کے اندر معاشرتی ہم آہنگی برقرار رکھنے کی پوری کوشش کرتا ہے۔ جب ٹولی کے دو رکن آپس میں لڑتے ہیں تو وہ مداخلت کرتا ہے اور لڑائی کو روکتا ہے۔ کم فیاضی والے کاموں میں وہ اپنی اجارہ داری قائم رکھتا ہے خاص طور پر خوراک کی حرص اور کم تر نروں کو دوسری ماداؤں کے ساتھ مجامعت کرنے سے روکتا ہے۔ 

    جب دو نر الفا کے مقام کے لئے مقابلہ کرتے ہیں تو عام طور پر وہ ایسا ٹولے کے اندر نر اور مادہ حامیوں کے وسیع اتحاد کی مدد سے کرتے ہیں۔ اتحادی ارکان کے درمیان تعلقات روزانہ کے قریبی رابطے پر مبنی ہوتے ہیں - جیسا کہ ایک دوسرے سے گلے ملنا،  ایک دوسرے کو چھونا، بوس وکنار کرنا، بانکا پن اور باہمی امداد وغیرہ۔ جس طرح انسانی سیاست دان اپنی انتخابی مہم میں ہاتھ ملاتے ہیں، بچوں کو پیار کرتے ہیں، اسی طرح چمپانزی ٹولے میں اعلیٰ مقام کا متمنی اپنا کافی وقت اراکین سے گلے ملنے، پیٹھ پر تھپکپانے اور چمپانزی کے بچوں کو پیار کرنے میں گزارتا ہے۔ عام طور پر الفا نر اپنا مقام طاقت ور ہونے کی بدولت حاصل نہیں کرتا بلکہ اس لئے کرتا ہے کہ وہ ایک بڑے اور مستحکم اتحاد کا رہبر ہوتا ہے۔ 

    اتحاد ناصرف الفا مقام کی صریح جد و جہد میں بلکہ لگ بھگ تمام روزمرہ کی سرگرمیوں میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔ ایک ٹولی کے ارکان آپس میں زیادہ وقت گزارتے ہیں، خوراک کا اشتراک اور مشکل حالات میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ 

    ٹولے کے حجم کی واضح حدود ہوتی ہیں جس کو ٹھیک طرح سے بنایا اور قائم رکھا جا سکتا ہے۔ کام کرنے کے لئے ٹولے کے تمام ارکان کو ایک دوسرے کو قریب سے جاننا لازمی ہوتا ہے۔ دو چمپانزی جو کبھی نہ ملے ہوں، نہ لڑے ہوں، اور نہ ہی ایک دوسرے کے ساتھ پلے بڑھے ہوں یہ بات نہیں جان سکیں گے کہ وہ ایک دوسرے پر اعتماد کر سکتے ہیں یا نہیں، اور آیا ایک دوسرے کی مدد کرنے کا انہیں کوئی فائدہ ہو گا یا نہیں اور نہ ہی یہ امر جان پائیں گے کہ ان میں سے کون برتر ہے۔ قدرتی حالات کے تحت، ایک عام بن مانس کا ٹولہ لگ بھگ پچاس ارکان پر مشتمل ہوتا ہے۔ جب بن مانسوں کے ٹولے میں رکن بڑھتے ہیں تو معاشرتی ترتیب بگڑ جاتی ہے جو بالآخر ٹولے کے ٹوٹنے اور کچھ جانوروں کے نئے ٹولے کے بننے کی صورت میں نکلتا ہے۔ ماہرین حیوانیات نے صرف مٹھی بھر حالات ہی ایسے دیکھے ہیں جس میں سو سے بڑا ٹولہ ہوتا ہے۔ الگ ٹولے شاذونادر ہی ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں اور اپنے علاقے اور خوراک کے لئے مقابلہ کرتے ہیں۔ محققین نے ٹولوں کے درمیان طویل لڑائیوں کو درج کیا ہے، اور ایک جگہ تو 'نسل کشی' ہوتے ہوئے بھی دیکھی ہے جس میں ایک ٹولہ منظم طور پر پڑوسی جتھے کے زیادہ تر ارکان کو ذبح کرتا ہے۔ 2

    شاید اسی طرح کے نمونوں کا غلبہ ابتدائی انسانوں بشمول ہومو سیپئین کی معاشرتی زندگیوں میں تھا۔ بن مانس کی طرح انسانوں میں سماجی جبلت ہوتی ہے جس نے ہمارے اجداد کو دوستیاں اور مراتب قائم کرنے اور آپس میں مل کر لڑنے کے قابل کیا۔ بہرحال بن مانس کی معاشرتی جبلت کی طرح وہ انسان بھی کم ہی قریبی ٹولوں سے مطابقت رکھتے تھے۔ جب گروہ بہت زیادہ بڑا ہو جاتا،تو ان کا معاشرتی نظام درہم برہم ہو جاتا اور جتھا ٹوٹ جاتا۔ یہاں تک کہ اگر کوئی مخصوص وادی 5,000 قدیمی سیپئین کو کھلا سکتی تھی تب بھی کوئی سبیل ایسی نہیں تھی کہ بہت سارے اجنبی ایک ساتھ مل کر رہ سکیں۔ وہ کس طرح سے متفق ہو سکتے تھے کہ کون رہنما ہو گا، کون کہاں شکار کرے گا اور کون کس سے ہم بستر ہو گا؟

    ادراکی انقلاب کے بعد گپ شب نے ہومو سیپئین کو بڑے اور مستحکم جتھوں میں رہنے میں مدد دی۔ تاہم گپ شپ کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ عمرانی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ گپ شپ کی مدد سے گروہ کا زیادہ سے زیادہ حجم لگ بھگ 150 افراد کا ہو سکتا ہے۔ زیادہ تر لوگ 150 انسانوں سے زیادہ نہ تو قریبی طور پر ان کو جان سکتے ہیں نہ ہی مؤثر طریقے سے ان سے گپ شپ کرسکتے ہیں۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: پوزو کی داستان Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top