Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    جمعہ، 8 جنوری، 2016

    یوروپا مشتری کا چاند حصّہ دوم

    ایککونے پر رہنا

    ایک سب سے معقول دلیل یوروپا کو کھوجنے کی یہاں پر حیات کا ممکن ہونا ہے۔ یہ صرف ١٩٧٧ء کی ہی بات ہے جب کھوجیوں نے سمندر کی تہ میں آتش فشاں کو سمندر کے فرش پر گالا پگوس دراڑ  میں گالا پگوس بحر الجزائر میں  دریافت کیا ۔ سائنس دانوں نے زیر سمندر گرم دھوئیں کے بادلوں کا دیکھا  لیکن ان کی ہئیت اور منبع ایک اسرار ہی بنا رہا تاوقتیکہ  گہرے سمندر میں جانے والی آبدوز  الون  نے سلفر پر مشتمل  مرکبات کو سمندر کے فرش سے ڈرامائی طور  پر چمنی سے نکلتا ہوا نہیں دیکھ لیا۔

    اس کے آنے والے برسوں میں، محققین کو اس بات کا احساس ہو گیا کہ سمندر کی تہ میں موجود آتش فشانوں کی تعداد  زمین پر موجود ٥٠٠ سے ٦٠٠ آتش فشانوں سے کہیں زیادہ ہے۔ زیر سمندر  گرم آبی  رخنے  وسطی سمندری ڈھلان کے ساتھ ٹوٹ جاتے ہیں  جہاں  پر نئی قشرسمندر کی پھیلتی ہوئی  زمین کی پتھریلی منقالہ پٹی  میں بنتی ہے۔ ہرچند کہ زیر سمندر آتش فشاں صرف پرتوں کی سرحدوں تک محدود نہیں ہیں، وسطی  سمندری ڈھلانی  علاقے  ممکنہ طور پر زمین پر موجود سب سے زیادہ آتش فشانی ہو سکتے ہیں۔

    سوراخ  جتھوں کی جماعت کی صورت میں جمع ہو گئے  بعینہ جیسے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے یلو اسٹون  پارک میں ہیں۔ زمین کا غلاف ان ابدی تاریکی علاقوں کی سطح تک صرف چند سو میٹر  تک بن گیا۔ سمندری پانی  نے زمین کی قشر سے ٹپک کر بالآخر ١٢٠٠ سینٹی گریڈ میگما کے ساتھ رابطہ بنا لیا۔ زبردست دباؤ پانی کو ابلنے سے روکے رکھتا ہے لہٰذا یہاں پر پانی ٥٤٠ سینٹی گریڈ تک گرم ہوتا رہا۔ گرم سیال نے اپنا راستہ  چٹانوں میں پائی جانے والی دراڑوں میں بنا لیا  اور ساتھ میں اپنے ساتھ معدنیات کو بھی لے گیا۔ بالآخر جب وہ سمندروں میں گرا تو وہ پیچیدہ معدنیات سے لبریز تھا۔  ان ماخذوں سے نکلنے والا پانی کا بہاؤ  معدنیات سے لدا ہوا  تھا اور مخروطی اور  چمنی جیسی پیچیدہ ساختوں کو بناتا چلا جن میں سے کچھ تو سمندر کی تہ سے درجنوں فٹ اوپر مینار بن گئے۔ پانی کے بہاؤ اکثر ان مادوں  کے ساتھ آتے تھے جنہوں نے  اپنی صورت کی وجہ سے نام دیا۔ کچھ دراڑوں کو ہم کالے دھوئیں سے جانتے ہیں ، جبکہ دوسرے  سفید دھوئیں کہلائے۔

    زیر سمندر تمام ایکسٹریمو فائلز (شدت آشنا)  گرم پانی کے رہنے والے نہیں ہیں۔ یوروپا کے سمندروں کی تہ میں بھی متحرک آتش فشاں ہو سکتے ہیں۔ حیاتیاتی خطے کی ان جگہوں پر مثلاً گالا پگوس  شگاف مکمل طور پر سورج پر انحصار کرنے والی خوراک کی زنجیر سے  آزاد ہیں ۔ ان کی توانائی آتش فشانی ریخوں  سے نکلنے والی کیمیائی عمل سے پیدا ہوتی ہے۔ ممکن ہے کہ یوروپا نے اسی طرح کی حیاتیاتی زنجیر کو باہر کی جانب گرم ابلتے ہوئی پانی سے اپنے طریقے سے بنا لیا ہو۔ سو کلومیٹر سمندر کی گہرائی میں، ہمیشہ تاریک رہنے والا ماحول مشتری کی مہلک تابکاری سے  بچا ہوا ہے، سورج کی روشنی کی مکمل غیر موجودگی کو شاید سمندر کی تہ میں موجود شگافوں سے آتے ہوئے زرخیز معدنیات نے پورا کر دیا ہو۔ اگر ایسا ہے تو بلاشبہ مستقبل کے ڈبکی لگانے والے جہاز ان آتش فشانی جگہوں کو دیکھنے کے لئے بھیجے جائیں گے جہاں ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے نظام شمسی میں پہلی مرتبہ خلائی مخلوق کو دیکھ سکیں گے۔

    سطح پر ہونی والی کیا شاندار  سرگرمی ہے؟ اس وقت جب سائنس دان  گلیلیو سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار کو چھان رہے تھے  تو ان کو معلوم ہوا کہ کافی ساری خصوصیات  برفیلے آتش فشانوں یا چشموں جیسے ابلنے کا عندیہ دے رہی ہیں۔ چاند پر موجود درجنوں علاقے اس بات کی جانب اشارہ کر رہے تھے کہ ماضی میں ہونے والے پھٹنے کے واقعات میں پانی بھی موجود رہا ہوگا جو یوروپا کے خالی کرہ فضائی کے قریب جلد ہی منجمد ہو جاتا ہوگا۔ اس نتیجے تک پہنچنے کے لئے ایک  اشارہ "تہرے جتھے" میں ہی موجود تھا، ایک سڑک جیسی متوازی پٹی جو  ٹوٹے ہوئے انڈے کے چھلکے جیسے یوروپا کی بناوٹ کی ذمہ دار ہے۔ یہ لینیا کہلاتی ہیں ، یوروپا کی یہ منفرد بناوٹ روشن خطوط پر مشتمل ہے جو تاریکی کے مرکز میں  ایک  اچھی سے پٹی کی صورت میں جا رہی ہیں۔ یہ پٹیاں ١٥ کلومیٹر سے بھی کم علاقے میں  پھیلی ہوئی  ہیں لیکن یوروپا کی سطح پر ہزار ہا کلومیٹر علاقے  چل رہی  ہیں۔

     یہ لینیا  سمتی دراڑیں ہیں۔ شمالی نصف کرہ میں  یہ شمال مشرق کی سمت جا رہی ہیں جبکہ جنوبی دراڑیں  جنوب مغرب کی طرف۔ یہ سمتی جھکاؤ یوروپا کے مدار میں ہونے والے دباؤ کی جانب اشارہ کر رہا ہے۔ گلیلیو کا تصویری نظام  جو وائیجر سے کہیں بہتر تھا اس نے ان پٹیوں کے کناروں میں کافی سارے  بے ترتیب علاقوں کو غائب ہوتا ہوا منکشف کیا۔ یہاں تک کہ درمیانہ روشن والے داغ دار علاقوں میں روشن مادّے سے بنے ہالے تاریک بیرونی پٹیوں پر بکھرے ہوئے ہیں۔ سہ جتھوں نے اس  مختلف البیاضی یا روشنی کی سطح کے  مادّوں  کو ریخوں سے  چاند کی دمکتی ہوئی سطح پر نکلتے ہوئے ایسی صورت دے دی ہے جیسا کہ  موتیوں کا ہار۔ آیا کی یہ باقیات فرار ہونے والے پانی کے بخارات کی ہیں؟ یا ماضی کے چشموں کی یادگار ہیں؟

    سہ جتھوں کی بناوٹ کے بارے میں ایک نظریہ  مدو جذر کی وجہ سے  پیداہونے والا شگاف ہے  جو  سمندر کے نیچے برف کو توڑ  کر بنا ہے۔ ایک  نمکین پانی کے برفیلے لاوے نے اوپر رستے ہوئی ریخ کا منہ بند کر دیا ہے  جبکہ چشموں جیسے فوارے کمزور جگہوں سے نکل رہے ہیں۔ برفیلے آتش فشاں کی یہ قسم  "منضبط دباؤ  کا برفیلا آتش فشانی پھٹاو " میں پانی کا اخراج  پتلی ریخوں سے شاید اس طرح ہوتا ہے جیسے کہ  ہوائی میں شگافوں سے نکلنے والا میگما۔ جب شگاف کے گرد موجود جگہ  عمودی طور پر بنتی  ہے تو نمو پاتی ہوئی ریخ کا وزن آس پاس کی برف کو کھینچ لیتا ہے  نتیجتاً متوازی ریخیں بن جاتی ہیں۔ یہ ریخیں مزید متوازی ریخوں کو جنم دیتی ہیں اور یہ عمل یوں ہی دہرایا جاتا ہے اور جتھے  کا گھیر پھیلتا جاتا ہے۔   
           
    خاکہ 5.8 بائیں: یوروپا کی چپٹی زمین پر  ایک دوسرے کو کاٹتی مختلف ڈھلانوں کے مجموعے ۔ مختلف ریخیں یا شگافوں   نے سطح کے حصّوں  کو  افقی طور پر جگہ سے ہٹا دیا ہے۔ بائیں: گلیلیو خلائی جہاز نے جب یوروپا کا سب سے قریبی چکر لگایا  تو اس ناہموار چاند کی عجیب و غریب سطح کی  یہ تصویر لی۔ اس تصویر میں لگ بھگ 1.8 کلو میٹر کا علاقہ نظر آ رہا ہے۔ تاریک مادّے  روشن برف  کی کھوکھلی چوٹی  میں جمع ہوئے  ہیں۔ تصویر کے مرکز میں ابتری سے پھیلی ہوئی چھانٹی گئی پہاڑیاں یوروپا کے مشہور ڈھلانی سطح پر ہیں ۔ اوپر اور نیچے ۔ 

     دوسرے ماہرین رکازیات  کا کہنا ہے کہ لینیا  کو سطح سے ٹوٹتے مائع کے بجائے ٹھوس برف بناتی ہے۔ وہ اس کی کئی وجوہات بیان کرتے ہیں بشمول یہ حقیقت کہ  ان میں سے کافی جتھے آس پاس کے میدان سے کئی سو میٹر اوپر اٹھے ہوئے ہوتے ہیں۔  اس سے ہمیں  مائع کے بجائے ملائم اور لچکیلی برف کا معلوم ہوتا ہے (وجہ اس کی یہ بیان کرتے ہیں کہ مائع اس طرح کی بلند ساخت میں نہیں اٹھ سکتا)۔ کچھ علاقوں میں عام پائے جانے والے ان ٹیلوں اور گنبدوں کا آغاز اس منظر نامے میں کافی معقول لگتا ہے، وہ وجہ بیان کرتے ہیں۔ مزید براں متصل  ڈھلانوں اور وادیوں میں مادّے کا سیلاب نظر نہیں آتا جو اس وقت لازمی ہونا چاہئے تھا جب لینیا مائع سے بھری ہوئی ہوتی۔

    پہاڑیاں عام طور پر دباؤ سے بنتی ہیں ، پرت کے دو ٹکڑے دبتے ہیں۔ شگاف دباؤ کے نتیجے میں بنتے ہیں جو بھربھری پرت کو چٹخا دیتے ہیں اور وہ الگ ہو جاتی ہے۔ دونوں طرح کی ٹیکٹونک حرکات یوروپا پر عام ہیں۔


     قشر کس قدر دبیز ہے؟ کچھ تحقیقات یوروپا کے گرد  کافی وسیع و عریض  برف کے خول کی طرف اشارہ کرتی ہیں  جو لازمی طور پر دسیوں کلومیٹر نیچے تک موجود ہے۔ یوروپا کی ساخت اور دبازت کافی پیچیدہ ہے اور  گرما گرم بحث کا موضوع رہا ہے۔ کچھ محققین  یہ بات وثوق سے کہتے ہیں کہ تصادم کے نتیجے میں بننے والے گڑھے اور  مخلوط "بے ترتیب علاقے" خط استواء کی طرف ایک دو کلومیٹر کی پتلی تہ کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ قشر شمال اور جنوب کی جانب جاتے ہوئے دبیز ہو جاتی ہے۔ زیادہ تر شواہد بتا رہے ہیں کہ یوروپا کے اندر ایک سیاروی سمندر موجود ہوگا، ایک وسیع زیر زمین سمندر  جو برف کے نیچے ایک قطب سے دوسرے قطب کی جانب بہ رہا ہوگا۔ سائنس دان اس قابل ہو گئے ہیں کہ یوروپا کے اندروں کی ٹکڑوں میں بٹی ہوئی تصویر  کو جوڑ سکیں ۔ ویسے یوروپا کی قوّت ثقل  گلیلیو خلائی جہاز کے راستے پر بھی اثر انداز ہوئی ہے۔ جب خلائی جہاز رفتار پکڑتا ہے تو اس کے اشارے تبدیل ہو جاتے ہیں بعینہ جیسے قریب سے گزرتے ہوئی فائر بریگیڈ کے سائرن کی آواز بدلتی ہے۔ یوروپا کی سطح کی بدلتی ہوئی ساخت  اس ڈوپلر اثر میں ہلکی تبدیلیاں پیدا کرتی ہے جس سے سائنس دان چاند کے اندرونی ساخت کا اندازہ لگا لیتے ہیں۔ سب سے نزدیکی اڑان سے ڈوپلر  اثر کے حاصل شدہ اعداد و شمار ایک   ١٠٠ سے ٢٠٠ کلومیٹر گہری پانی کی تہ  سے لپٹے ہوئے چٹانی قلب کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ چند کلومیٹر دبیز تہ ایک ضخیم سمندر کے اوپر نازک سی تہ ہے۔ 
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: یوروپا مشتری کا چاند حصّہ دوم Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top