Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    منگل، 26 جنوری، 2016

    پرندوں کی بیٹ اور بگ بینگ


    دائمی حالت کے نظریہ  کے تابوت کی  آخری کیل آرنو پنزیاس اور رابرٹ ولسن کی ١٩٦٥ءکی دریافت ثابت ہوئی ۔ نیو جرسی میں واقع   ٢٠ فٹ پر محیط بیل لیبارٹری  میں موجود ہولمڈیل  ہارن ریڈیو ٹیلیسکوپ میں جب  وہ فلک سے آتے ہوئی ریڈیائی اشاروں  کی کھوج کر رہے تھے تو ان کو  غیر مطلوب  سکونی ملی۔ شروع میں انھیں یہ کوئی خلل لگا  کیونکہ یہ  بجائے کسی ستارے یا کہکشاں کی جانب سے آنے کے تمام سمتوں سے یکساں طور پر موصول ہو رہے تھے۔ انہوں نے سوچا کہ شاید یہ سکونی گرد و غبار کی وجہ سے موصول ہو رہا ہے۔ انہوں نے انتہائی احتیاط کے ساتھ  اس چیز کو صاف کیا جس کو پنزیاس نے  "ڈائی الیکٹرک  مادّے  کی سفید تہ " کے نام سے بیان کیا۔ (اس کو عام طور پر پرندوں کی بیٹ کہا جاتا ہے)۔ اس نے ریڈیائی دوربین  کے کھلے ہوئے حصّے کو گندا کیا ہوا تھا۔ صفائی کے باوجود سکونی  اور زیادہ آنے لگی۔ ہرچند ابھی تک ان کو نہیں معلوم تھا  لیکن اتفاقاً  ان کی نظر سے گیمو کی جماعت کی ١٩٤٨ء میں کی جانے والی پس منظر کی خرد موجی امواج  کی پیشن گوئی گزری۔

    اب فلکیات کی تاریخ اس طرح سے بننے جا رہی تھی کہ تین جماعتیں  ایک سوال کا جواب حاصل کر رہی تھیں یہ جانے بغیر کے دوسرے لوگ بھی یہی کوشش کر رہے ہیں ۔ ایک طرف تو گیمو، الفر اور ہرمن  نے پس منظر کی خرد امواج کے نظریئے کی بنیاد ١٩٤٨ء میں ڈال دی تھی؛ انہوں نے اس کے درجہ حرارت کی پیش بینی مطلق صفر سے ٥ ڈگری درجہ اوپر کی تھی۔ انہوں نے پس منظر کی خرد امواج کو خلاء میں ناپنے کی کوشش  میں ہار مان لی تھی ، کیونکہ اس وقت دستیاب آلات اس قدر حساس نہیں تھے کہ ان کا سراغ لگایا جا سکتا۔ ١٩٦٥ء میں پنزیاس اور ولسن نے اس سیاہ جسم کی اشعاع کو تلاش کرلیا تھا  لیکن وہ اس بات سے بے خبر تھے۔ اسی دوران ایک تیسری جماعت جس کی سربراہی پرنسٹن  یونیورسٹی کے  رابرٹ ڈک کر رہے تھے انہوں نے  خود سے گیمو اور اس کے رفقائے کاروں کے مفروضے کو دوبارہ سے تلاش کیا  اور مستعدی کے ساتھ پس منظر کی شعاعوں کی تلاش جاری رکھی۔ لیکن ان کے آلات  ان اشعاع کو تلاش کرنے کے لئے بہت زیادہ دقیانوسی تھے۔

    یہ ڈرامہ اس وقت ختم ہوا کہ جب ایک باہمی دوست ، فلکیات دان برنارڈ برک  نے پنزیاس کو رابرٹ ڈک کے کام کا بتایا۔ جب دونوں جماعتیں بالآخر ملیں  تب جا کر یہ بات واضح ہوئی کہ پنزیاس اور ولسن نے بگ بینگ سے آنے والے اشاروں کو کھوج لیا تھا۔ اس  یادگار دریافت پر پنزیاس اور ولسن کو ١٩٧٨ ء میں  نوبیل انعام سے نوازا گیا۔

    ہوئیل اور گیمو، دو مخالف نظریات کی دو ممتاز شخصیات کا   بالآخر ١٩٥٦ء میں  کیڈلاک گاڑی   میں حتمی ٹاکرا ہوا  جو علم تکوینیات کی راہ  کو بدلنے جا رہا تھا۔ "مجھے یاد ہے کہ جارج ایک سفید رنگ کی کیڈلاک  کار میں  لے کر جا رہا تھا،" ہوئیل یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں۔ گیمو اپنی وہ بات بار بار  ہوئیل کو بتا رہا تھا کہ بگ بینگ کے بعد بچ جانے والی اشعاع  کو آج بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ بہرحال گیمو کی تازہ ترین  اعداد و شمار کی روشنی میں ان کا درجہ حرارت ٥٠ ڈگری تک کا ہو گیا تھا۔ اس وقت ہوئیل نے  گیمو کو ایک تعجب خیز بات بتائی۔ ہوئیل اس بات سے باخبر تھا کہ ایک گمنام مقالہ جو ١٩٤١ء میں اینڈریو مک کیلر  نے لکھا تھا اس میں ثابت کیا گیا تھا کہ خلائے بسیط میں درجہ حرارت ٣ ڈگری سے زیادہ نہیں ہو سکتا۔ زیادہ درجہ حرارت  پر  نئی تعامل ہو سکتے ہیں  جس کے نتیجے میں  ہیجان انگیز کاربن ہائیڈروجن اور کاربن نائٹروجن  کی اساس خلاء میں پیدا ہوں گی۔ ان کیمیائی عناصر کے  طیف  کو ناپ کر  کوئی بھی خلاء کا درجہ حرارت ناپ سکتا ہے۔ اصل میں اس نے یہ بات معلوم کر لی تھی کہ کاربن نائٹروجن سالمات کی کثافت  جو اسے خلاء میں ملی تھی  اس بات کا اشارہ دے رہی تھی کہ خلاء کا درجہ حرارت لگ بھگ 2.3 ڈگری ہے۔ بالفاظ دیگر گیمو کے علم  میں آئے بغیر پس منظر کی اشعاع کا سراغ  پہلے ہی بلاواسطہ طور پر ١٩٤١ء میں لگا لیا گیا تھا۔

     ہوئیل یاد کرتے ہوئے کہتا ہے ، "معلوم نہیں کہ یہ کیڈلاک میں بیٹھنے کا لطف تھا یا  اس بات کا مقابلہ کہ جس میں گیمو درجہ حرارت کو ٣ کیلون  سے زیادہ چاہتا تھا اور میں اس کو صفر درجہ حرارت چاہتا تھا۔ ہم نے آرنو پنزیاس اور باب ولسن  کی  نو سال بعد ہونے والی دریافت کو  کھوجنے کا موقع کھو دیا تھا۔"  اگر گیمو کی جماعت عددی غلطی نہیں کرتی اور کم درجہ حرارت کے ساتھ پیش گوئی پر مصر رہتی  یا ہوئیل بگ بینگ کے نظریئے کا اتنا بڑا مخالف نہیں ہوتا۔ شاید تاریخ ایک دوسری طرح سے لکھی جاتی۔ 

    بگ بینگ کے بعد ذاتی جھٹکے

    پنزیاس اور ولسن کی  پس منظر کی خرد امواج کی دریافت نے  گیمو اور ہوئیل کے مستقبل پر فیصلہ کن اثر ڈالا۔ ہوئیل کے لئے پنزیاس اور ولسن کا کام زہر قاتل تھا۔ آخر کار ١٩٦٥ء میں نیچر جریدے میں  ہوئیل نے مصدقہ طور پر اپنی ہار کو یہ کہہ کر تسلیم کیا کہ پس منظر کی امواج  اور ہیلیئم کی بہتات  وہ وجوہات ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے دائمی حالت کے نظریئے سے پیچھے ہٹ رہا ہے۔ لیکن اصل میں اسے جس بات نے تنگ کیا تھا  وہ یہ تھی کہ دائمی حالت کے نظریئے نے اپنی پیش بینی کی قوّت کو کھو دیا تھا :"  عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ پس منظر کی اشعاع کے وجود نے "دائمی حالت" کے کائنات کے مفروضے کو مار ڈالا، لیکن اصل میں جس چیز نے دائمی حالت کو ہلاک کیا تھا  وہ  نفسیات تھی ۔۔۔ یہاں پس منظر اشعاع میں ، یہ  ایک اہم مظہرتھا   جس کا اندازہ  یہ نظریہ لگانے میں ناکام رہا۔۔۔کئی برسوں تک اس چیز نے مجھے کچوکے لگائے رکھے۔"(ہوئیل نے بعد میں اپنا دماغ بدل لیا۔ اور  کائنات کے دائمی حالت کے نظریئے  کو نئے  تغیرات کے ساتھ بنانے کی کوشش کرنے لگا، لیکن ہر تغیر کے ساتھ  یہ  کم سے کم قرین قیاس ہوتی رہی۔)

    بدقسمتی سے ترجیح کے سوال نے گیمو کے  منہ کا ذائقہ خراب کر دیا،  کوئی بھی اس بات کو بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ  وہ اپنے اور  الفر اور ہرمن  کے کام کے شاذ و نادر  ذکر ہونے سے خوش نہیں تھا۔ ہمیشہ   خوش اخلاق رہنے والا گیمو بہرحال  اپنے احساسات کو منہ ہی منہ میں بڑبڑاتا رہتا تھا  ۔ یہ بات اس کے ذاتی خطوط سے عیاں تھی  جو اس نے لکھے تھے۔ وہ ان خطوط میں اس بات کا گلا کرتا ہوا نظر آیا کہ ماہرین  طبیعیات اور مورخوں نے اس کے کام کو مکمل طور پر نظر انداز کرکے اس کے ساتھ بہت زیادہ ناانصافی  کی ہے۔


    ہرچند کے پنزیاس اور ولسن کا کام  کائنات کے دائمی حالت کے نظریہ  کے زہر قاتل ثابت ہوا اور بگ بینگ کے نظریئے کو  مستحکم بنیادوں پر کھڑا کرنے میں مدد دی  لیکن اس کے باوجود کائنات  کی  پھیلتی ہوئی ساخت سے متعلق ہمارے فہم میں  اب بھی بہت بڑا  خلاء موجود تھا۔ فرائیڈ مین کی کائنات میں اومیگا کی قدر معلوم ہونا لازمی تھا۔ یعنی مادّے کی کائنات میں پھیلی ہوئی  اوسط مقدار، تاکہ کائنات کے ارتقا کو سمجھا جا سکے۔ بہرحال اومیگا کی قدر کو نکالنا  اس وقت ایک بڑا مسئلہ بن گیا تھا  جب یہ معلوم ہوا کہ کائنات میں موجود زیادہ تر مادّہ ہمارا شناسا اور جانا پہچانا جوہروں سے بنا مادّہ نہیں بلکہ ایک نئی شے ہے جس کو  "تاریک مادّہ" کہتے ہیں ۔  یہ عام  مادّے سے ١٠ گنا زیادہ مقدار میں موجود ہے۔ ایک مرتبہ پھر سے اس میدان کے بڑوں نے  فلکیاتی سماج کے دوسروں کی بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: پرندوں کی بیٹ اور بگ بینگ Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top