Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    ہفتہ، 9 جنوری، 2016

    یوروپا مشتری کا چاند حصّہ سوم

    کچھ محققین اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یوروپا کے زیر زمین سمندر ایک اور طرح کے مدو جذر کی وجہ سے مائع میں بنے رہے ہوں گے۔ اس کے چھوٹے ترچھے پن ( غیر دائروی مدار) مشتری کی قوّت ثقل روزبی امواج کو پیدا کرتی ہے۔ یہ سست حرکت کرتی ہوئی لہریں کافی  معنی خیز توانائی پیدا کر سکتی ہیں۔ حقیقت میں لگائے گئے اندازوں کے مطابق یوروپا مدوجذر کی حرارت ہی صرف  ٢٠٠٠ گنا زیادہ تک حاصل کرتا ہے۔ پانی کے بخارات کے فرار سے متعلق قیاس اور نظریات  ٢٠١٣ء میں آنے شروع ہوئے جب ہبل خلائی دوربین سے حاصل کردہ تصاویر کے ایک سلسلے میں یوروپا کے جنوبی نصف کرہ کے اوپر معلق پانی کے نشان ملے۔ یوروپا کے گرد موجود کونیاتی بادلوں میں پانی کی مقدار کو دیکھتے ہوئے کچھ تفتیش کاروں نے اندازہ لگایا ہے کہ چاند ہر سیکنڈ میں ٧ ٹن پانی پھینک رہا ہے۔ عظیم پانی کی دھار ٢٠٠ کلومیٹر بلندی تک پہنچ جاتی ہے  اور اندازہ لگایا گیا ہے  کہ  ہو سکتا ہے کہ  چشموں سے فواروں کی صورت میں نکلنے  والے پانی کی رفتار ٧٠٠ میٹر فی سیکنڈ یا مسافر جہاز کی رفتار سے تین گنا زیادہ تک ہو۔
     
    خاکہ 5.9 چغلی کرنے والے اشارے ؟ کچھ محققین اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اسٹے پلائی  لینیا  دباؤ کی وجہ سے سطح کی تہ بندی کی طرف اشارہ کر رہی ہے ۔ لگتا ہے کہ برف ایک علاقے میں پھیل کر چٹخ رہی ہے جبکہ شمالی پہاڑی اوپر اٹھ گئی ہے۔

    سائنس دان مزید  تصدیق کے انتظار میں ہیں لیکن  قرینہ دریافت ثابت کر دے گی کہ مائع پانی سطح کے قریب ہے۔ وہ مقامی تالابوں میں موجود ہو سکتا ہے  یا پھر  ان بخارات/ چشموں کے براہ راست تعلق نیچے گہرے سمندر سے ہو سکتا ہے۔ دونوں طرح سے اگر یہ اخراج کرنے والی جگہیں معلوم ہو سکتی ہیں تو وہ مستقل کے فلکی حیات دانوں کا اہم ہدف ہوں گی جو اس کھوج میں ہوں گے کہ یوروپا کی برفیلی سطح کے نیچے آخر کیا چیز موجود ہے۔ ہرچند کہ پانی کی برف سطح پر اپنا غلبہ جمائے ہوئے ہے، آلات نے دوسرے اہم مادّے برف کے ساتھ ملے ہوئے بھی پائے ہیں اور کچھ اعداد وشمار اس بات کی جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ  یہ مادّہ نیچے موجود سمندر سے اوپر آئے ہیں۔ نقلما، اکثر شعاعی بے رنگی چشموں جیسی جگہ سے نکلنے کی وجہ سے ہوتے ہیں ممکنہ طور پر ہبل نے ان کا سراغ لگا لیا ہے۔ ایسی داغ دار جگہیں  "رنگیں علاقے" کہلاتی ہیں۔ اس قسم کی کافی چیزیں یوروپا پر موجود ہیں۔ ان میں سے اکثر شگافوں یا ریخوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ بھورے سے زردی مائل بھورے رنگ کے داغ   دروں زاد ( اندر سے پیدا ہونے والے ) لگتے ہیں  لیکن آیا ان کی نوعیت مقامی واقعات کی ہے  یا سیاروی یہ جاننا ابھی باقی ہے۔ کچھ کی اچھی طرح بنائی ہوئی ، بہتی ہوئی  یا  جوہڑوں کے کناروں جیسی  صورت ہے۔ جبکہ دوسری منتشر ہیں جو کنارے پر جاتے ہوئے ہلکی ہو جاتی ہیں۔ اکثر تاریک مادّے کی چادر آس پاس کے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے  جو سیال کے سیلاب کے بجائے جداگانہ مادّے کی لگتی ہے۔
     
    خاکہ 5.10  محققین نے کوشش کی ہے کہ یوروپا کی سطح کی خصوصیات کو یا تو دبیز برف کی پرت سے بیان کریں جو ایک  اتھلے سمندر کو گھیرے میں لئے ہوئے ہے (بائیں) یا ایک پتلی پرت ایک گہرے سمندر کے ساتھ موجود ہے۔
     
    خاکہ 5.11 نیلے پکسل جو وائیجر سے لئے ہوئے یوروپا کی تصویر کے اوپر موجود ہیں  وہ ہبل خلائی دوربین سے پانی کے بخارات کے سراغ کو دکھا رہے ہیں  جو جنوبی قطب کے اوپر تیر رہے ہیں۔

    یہ گہرا مادّہ کیا ہے؟ گلیلیو خلائی جہاز پر موجود آلات نے محققین کو کافی مواد دیا ہے جس کی بدولت  کافی ممکنہ  عناصر کی شناخت ہو سکتی ہے۔ گلیلیو کے زیریں سرخ روشنی سے حاصل کردہ تصاویر کے طیف سے  مختلف نمکیات میگنیشیم سلفیٹ  (مثلاً  اپسم نمک) یا کلورائیڈ نمک کے ساتھ نظر آرہے ہیں۔ بہرحال کچھ تفتیش کار بحث کرتے ہیں  یوروپا کا طیف  آبیدہ  گندھک کے تیزاب سے زیادہ ملتا ہے۔ ہرچند کے نمکیات نہیں بلکہ گندھک بھورا ہوتا ہے۔ اندرونی برجیسی نظام آئی او کے اخراج کی بدولت گندھک سے نہایا ہوا ہے۔ مواد میں سے گارے کو نکالنے میں بھی کافی مشکلات  ہوئی تھی۔ خیال ہے کہ یہ معدنیات  سیارچوں یا دم دار تاروں کے  سطح پر ٹکراؤ کی وجہ سے یہاں پہنچے ہیں۔ دوسرے سائنس دان  کے مطابق یہ لوہے کے مرکبات ہیں جو قلب سے نکلے ہیں۔

    لوئیس پراکٹر جانس ہوپکنس یونیورسٹی ، لوریل ایم ڈی  کے شعبے اپلائڈ فزکس لیبارٹری  میں سیاروی سائنس دان ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ " یوروپا پر  برف کے خول  کو توڑ کر  اس کی گنبد کی شکل بناتا ہوا اوپر کی جانب حرکت کرتا ہوا مادّہ موجود  ہے، ایک طرح سے برفیلا آتش فشانی مادّہ ہے جو سطح کو توڑتا ہوا اوپر کی جانب آ رہا ہے۔ اس میں سے کچھ سطح کے اوپر پہنچ کر جم جاتا ہے  اور اس سے پہلے کہ حالت سکون میں آئی  تصادم کے نتیجے میں واپس نیچے چلا جاتا ہے۔ آپ برف گاڑی یا پھسلواں بے پہیوں کی تختہ گاڑی چلا سکتے ہیں۔ ایک  کم قوّت ثقل کی بدولت سست رفتار سے حرکت کرتی ہوئی برف گاڑی  میں بیٹھا ہوا شخص تابکاری سے بچ سکتا ہے کیونکہ وہ ڈھلانوں کے درمیان ہوگا۔ موسم سرما کے وہ کھیل یہاں کھیلے جا سکتے ہیں جن کو ہم نے ابھی سوچا بھی نہیں ہے۔ ٢٠٦٤ء کے اولمپک کھیلوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ شاید میں اپنا وقت نوکری میں ضائع کر رہی  ہوں، مجھے تو باہر جا کر اس کی اشتہاری مہم چلانا چاہئے۔"

     مذکورہ بالا سرخی مائل رنگ آس پاس کے علاقے سے زیادہ گہرا ہے اور ہو سکتا ہے کہ یہ نمکین زیر زمین جھیلوں کا نشان ہو۔ اشعاع سطح پر موجود برف کو زنگ زدہ رنگ یا سبزی مائل سرمئی  رنگ سے  رنگ دیتی ہے خاص طور سے پیچھے والے نصف کرہ میں۔ ایک محقق کہتے ہیں کہ " یوروپا میں غیر صحت مندانہ چاشنی موجود ہے ۔" ایک مرتبہ جب سطح داغ دار ہو جاتی ہے تو وہ وقت گزرنے کے ساتھ روشن ہوتی رہتی ہے۔ پرانے لینیا  کے البیاض قریباً  آس پاس کے میدانوں جن پر وہ موجود ہیں ان   کے قریب ہی ہیں۔ یوروپا کے مداروی دباؤ کو مد نظر رکھتے ہوئے ماہرین ارضیات کی اکثریت  اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ یوروپا کی سمندر کی سطح  آتش فشانی ریخوں سے بھری ہوئی ہے۔ ان کی عظیم گہرائی شاید کسی بھی سطح کی براہ راست مداخلت سے ان کو بچا کر رکھتی ہے، لہٰذا یوروپا کسی بھی قسم کے سمندر کی تہ کے متعلق سراغ نہیں  دکھائے گا۔ باوجود اس کے پرت کے نیچے پراسرار  قوّت کے ساتھ موجود ہیں۔ ان میں سے سب سے زیادہ اہم انتشاری علاقے ہیں۔ یہاں پر پہاڑیاں  ایک دوسرے میں سے پھسلتی ہوئی بغلی شگافوں پر پھیلی ہوئی ہیں جبکہ پہاڑیوں کی فرشی باقیات  ٹوٹ کر  شہتیروں میں بدل گئی ہیں اور  گرد کے گارے میں گھوم رہی ہیں۔ ان میں سے اکثر  شہتیر اس طرح سے جڑ تے ہیں جیسے کہ کونیاتی آڑا کٹا معمہ ، جو اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ کبھی یہ ایک ہی سطح کے حصّے ہوتے تھے جو اب الگ ہو کر دوسری جگہ چلے گئے ہیں۔ منتشر سطح اکثر ایک دوسرے کے ساتھ آرام سے، گڑھوں کے بغیر  رہتی ہیں۔ منتشر علاقے آرکٹک علاقوں میں موجود سمندری برف  جیسے لگتے ہیں۔ زمینی صورت میں ٹھوس برف ٹوٹ کر نئے جگہ پر تیرتی ہے اور اس جگہ پر دوبارہ جم جاتی ہے۔
     
    خاکہ 5.12 انتشار کے دو منظر۔ یوروپا پر موجود بے ترتیب علاقوں کے یہ مفصل مناظر غیر ہموار منتشر زمین کے ہیں۔ اوپر والا منظر پرت کے دو غیر ہموار حصّے دکھا رہا ہے جو ایک دوسرے سے الگ ہو گئے ہیں جبکہ نیچے والی تصویر ایک الگ ہوئی زمین دکھا رہا ہے  جو اوپر جا کر پہاڑی میدان سے متصل  ہو رہی ہے۔

    کچھ محققین کہتے ہیں کہ یہ گرم پانی کی پھواریں  سمندر کی سطح پر موجود آتش فشانی ذرائع سے پیدا ہوتی ہیں جو برف کو پتلا کر سکتی ہیں جو بالآخر پگھلنے کا ایک سلسلہ شروع کر دیتا ہے۔ برف ٹوٹ کر سطح پر موجود شہتیروں کو  اچھال کر تیزی سے جمتی ہوئی جھیل میں چکر دیتی ہے۔ اگر یہ بات درست ہے تو شہتیر کو اسی سمت میں گھومنا ہوگا جس سمت میں قیاسی پھوار گھوم رہی ہے (شمال میں گھڑی کی طرف)۔ صورتحال ایسی ہی لگتی ہے اگرچہ اعداد و شمار محدود ہیں۔  
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: یوروپا مشتری کا چاند حصّہ سوم Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top