Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    جمعرات، 21 جنوری، 2016

    کائناتی پس منظر کی خرد امواجی شعاعیں

    کائناتی پس منظر کی خرد امواجی شعاعیں
     
    اسی دوران ایک اور مفروضے نے اس کی توجہ حاصل کر لی: اگر بگ بینگ نا قابل تصوّر طور پر گرم ہوگا تو اس کی کچھ باقی بچی ہوئی حرارت اب بھی کائنات میں چکر لگا  رہی ہوگی۔ اگر یہ بات درست ہوئی تو یہ بگ بینگ کا بذات خود ایک طرح سے  "رکازی ثبوت" ہوگا۔ غالباً بگ بینگ اتنا جسیم ہوگا کہ اس کے بعد پیدا ہونے والی  حرارت اب بھی کائنات میں اشعاع کی دھند کی صورت میں موجود ہوگی۔

     ١٩٤٦ء میں گیمو  نے فرض کیاکہ بگ بینگ فوقی  گرم نیوٹران کے قلب سے شروع ہوا ہوگا۔ یہ ایک معقول مفروضہ تھا  کیونکہ اس وقت تک ذیلی جوہری ذرّات کے بارے میں الیکٹران، پروٹون اور نیوٹران سے زیادہ کچھ معلوم نہیں تھا۔ اگر وہ اس نیوٹران کی گیند کا درجہ حرارت  کا اندازہ کر سکتا تو  وہ اس اشعاع کی مقدار اور نوعیت معلوم کر سکتا تھا جو اس عمل میں خارج ہوئی ہوگی۔ دو برس بعد  گیمو نے ثابت کیا کہ اس فوقی گرم گیند سے نکلنے والی اشعاع ایک طرح سے  "سیاہ جسم کی اشعاع" کی طرح کا برتاؤ کرے گی۔ یہ اشعاع بہت ہی مخصوص قسم کی ہوتی ہے جو  ایک گرم جسم خارج کرتا ہے۔ وہ اس تمام روشنی کو جذب کر لیتا ہے جو اس سے ٹکراتی ہے  اور پھر اشعاع کو ایک مخصوص خاصیت کے ساتھ خارج کرتا ہے۔ مثال کے طور پر سورج، پگھلا ہوا لاوا، آگ میں جلتا ہوا گرم کوئلہ  اور بھٹی میں موجود  گرم سفال سب کے سب زرد مائل سرخ ہو کر تاباں ہوتے ہیں  اور سیاہ جسم کی اشعاع خارج کرتے ہیں۔(سیاہ جسم کی اشعاع سب سے پہلے   چینی مٹی بنانے والے مشہور شخص  تھامس ویجووڈ  نے ١٧٩٢ء میں دریافت کی تھی۔ اس نے مشاہدہ کیا کہ جب خام مال اس کی بھٹی میں پکتا ہے ، تو اس کا رنگ سرخ سے پیلا اور پھر سفید  میں درجہ حرارت میں اضافے کے ساتھ ساتھ   بدلتا رہتا  ہے۔)

    اس بات کی اہمیت یوں ہے کہ ایک دفعہ جب ہمیں کسی گرم جسم کا رنگ معلوم ہو جاتا ہے  تو اس کا درجہ حرارت کا اندازہ لگانا بصورت معکوس آسان ہوتا ہے۔ گرم اجسام اور ان سے خارج ہونے والی اشعاع کا درست فارمولا سب سے پہلے میکس پلانک نے ١٩٠٠ء میں حاصل کیا جس کے نتیجے میں کوانٹم کے نظرئیے کا جنم ہوا۔(اصل میں یہ ایک طریقہ ہے جس میں سائنس دان سورج کے درجہ حرارت کو ناپنے کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔ سورج عام طور سے پیلی روشنی ہی خارج کرتا ہے  جو سیاہ جسم کے لگ بھگ ٦ ہزار کیلون درجہ حرارت کی ہوتی ہے۔ لہٰذا ہم سورج کی باہری سطح کا درجہ حرارت جان لیتے ہیں ۔ اسی طرح سے سرخ دیو ستارہ  ابط الجوزا  کی سطح کا درجہ حرارت ٣ ہزار کیلون ہے  جو سیاہ جسم کے سرخ رنگ  سے نسبت رکھتا ہے ، یہ درجہ حرارت کوئلے کے گرم سرخ ٹکڑے سے بھی نکلتا ہے۔)

    گیمو کے ١٩٤٨ء کے مقالے میں پہلی مرتبہ کسی نے تجویز دی تھی کہ غالباً بگ بینگ سے نکلنے والی اشعاع  کی مخصوص  خاصیت  - سیاہ جسم کی اشعاع کی صورت میں ہو سکتی ہے۔

    گیمو کا پی ایچ ڈی کرنے والا طالبعلم اور ایک اور دوسرے طالبعلم  رابرٹ ہرمن  نے اس کے درجہ حرارت کا حساب لگا کر گیمو کے اندازہ کو مکمل کرنے کی کوشش کی۔ گیمو لکھتا ہے ، " کائنات کے ابتدائی دنوں سے لے کر دور حاضر تک ورائی ادراج (کسی متغیرہ کی قیمتوں کا اس حد کے ماورا قریبی تخمینہ لگانا جس کے لیے قیمتوں کا حساب لگایا گیا ہو) لگانے سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ اس دور زمان میں جو گزر چکا ہے ، کائنات کو لازمی طور پر مطلق صفر سے 5 ڈگری  درجہ حرارت اوپر ہونا چاہئے۔"

    ١٩٤٨ء  میں الفر  اور ہرمن نے ایک مقالہ چھپا جس میں انہوں نے مفصل بحث اس بات پر کی تھی کہ آیا کیوں  آج بگ بینگ سے ہونے والے  دھماکے کا درجہ حرارت  مطلق صفر سے پانچ درجہ اوپر ہونا چاہئے۔(ان کا اندازہ حیرت انگیز طور پر اس سے نہایت قریب تر ہے  جس کو اب ہم مطلق صفر سے اوپر  2.7 کا درست درجہ حرارت  مانتے ہیں۔) یہ اشعاع جن کو انہوں نے خرد امواج کے اندر تشخیص کیا تھا  ان کو اب بھی کائنات میں چکر لگانا چاہئے تھا ، ان کے مفروضے کے مطابق ان کو  کائنات میں یکساں طور پر موجود ہونا چاہئے تھا۔

    (اس کی وجہ یہ ہے ۔ بگ بینگ کے برسوں بعد ، کائنات کا درجہ حرارت اس قدر گرم تھا کہ  جب بھی کوئی جوہر بنتا تھا ، تو وہ بنتے ہی ریزہ ریزہ ہو جاتا تھا ؛ لہٰذا ایسے کافی آزاد الیکٹران موجود تھے جو روشنی کو منتشر کر  سکتے تھے ۔ لہٰذا  کائنات  شفاف کے بجائے دھندلی تھی۔ روشنی کی کوئی بھی کرن جو اس زبردست گرم کائنات میں حرکت میں ہوگی  وہ تھوڑا ہی فاصلہ طے کرنے کے بعد جذب ہو جاتی ہوگی ، لہٰذا کائنات ابر آلود لگ رہی ہوگی۔ کچھ تین لاکھ اسی ہزار برسوں بعد، بہرحال درجہ حرارت ٣ ہزار ڈگری تک گر گیا تھا۔ اس درجہ حرارت سے نیچے جوہر تصادم میں بکھرتے نہیں ہیں ۔ نتیجتاً  پائیدار جوہر بننا شروع ہو گئے اور روشنی کی کرن  نے اب نوری برسوں کا فاصلہ بغیر جذب ہوئے کرنا شروع کر دیا تھا۔ لہٰذا پہلی دفعہ  خالی خلاء شفاف بن گئی تھی۔ یہ اشعاع جو اب اپنے بننے کے بعد جذب نہیں ہو رہی تھی اس کو  کائنات میں چکر لگانا چاہئے تھا۔)

    جب الفر اور ہرمن  نے گیمو کو کائنات کے حتمی درجہ حرارت کے تخمینا جات دکھائے  تو گیمو بہت زیادہ مایوس ہو ا۔ یہ درجہ حرارت اس قدر سرد تھا کہ اس کا سراغ لگانا انتہائی مشکل تھا۔ گیمو کو تخمینا  جات  کی درستگی کا یقین کرنے میں پورا ایک برس لگ گیا۔ لیکن وہ اس بات سے نہایت مایوس تھا کہ اتنا مدھم  درجہ حرارت کبھی بھی ناپا نہیں جا سکے گا۔ ١٩٤٠ء کے عشرے میں دستیاب آلات اس قابل نہیں تھے کہ وہ اتنی مدھم گونج کو ناپ سکتے۔ (بعد  کے حساب میں ، ایک غلط مفروضے کو لیتے ہوئے گیمو نے اشعاع کا درجہ حرارت ٥٠ ڈگری تک بڑھا دیا تھا۔)

    انہوں نے اپنا کام چھپوانے کے لئے کافی گفت و شنید کی ۔ بدقسمتی سے  ان کی پیشگوئی کو  نظر انداز کر دیا گیا۔ الفر نے کہا ، "ہم نے اس کام کی بابت  میں اپنی پوری توانائی کو جھونک دیا ۔ کسی نے بھی، کسی نے بھی کہا کہ اس کو ناپا نہیں جا سکتا ہے ۔۔۔۔ لہٰذا ١٩٤٨ء سے ١٩٥٥ء کے دور تک ، ایک طرح سے ہم نے ہار مان لی تھی۔"

    بیباک گیمو ، اپنی کتابوں اور لیکچرز کے ذریعہ  وہ شخصیت بن گیا جو بگ بینگ کے نظرئیے کے پرچار میں مصروف رہا ۔ لیکن اس کا سامنا مد مقابل کے ایک  پرجوش  مخالف سے ہوا جو کئی طرح سے اس کے برابر ہی تھا۔ گیمو اپنے سامعین  کو شریر  لطیفوں اور جملے بازی سے لطف و اندوز کرتا تھا  جبکہ فریڈ ہوئیل  اپنے سامعین  کو اپنی زبردست فراست اور جارحیت پسند جسارت سے  سحر انگیز کر دیتا تھا۔

    مخالف فریڈ ہوئیل

    پس منظر کی خرد موجی امواج  نے ہمیں بگ بینگ کے نظرئیے کا دوسرا ثبوت فراہم کیا۔ لیکن وہ شخص جس نے بگ بینگ کے ہونے کا تیسرا ثبوت بذریعہ جوہری ترتیب دیا وہ  فریڈ ہوئیل تھا۔ یہ وہ آدمی تھا  جس نے اپنی پوری زندگی بگ بینگ کے نظرئیے کو غلط ثابت کرنے میں جھونک دی۔

    ہوئیل ایک  ناموزوں  علمی  تجسم تھا ،  ایک روشن فکر مخالف جو روایتی طرز فکر  کو نزاع پسندانہ طریقے سے  للکارنے والا تھا۔ ہبل ایک اونچے درجہ کا شریف النفس انسان تھا  جو آکسفورڈ  کے طور طریقوں کی تقلید کرتا تھا ، جبکہ گیمو  ایک تفریح طبع فراہم کرنے والا مسخرا  اور جامع العلوم  تھا  جو اپنے سامعین کو  ذومعنی جملوں،  ہجویہ نظموں اور عملی مذاق  سے ششدر کر دیتا تھا۔ ہوئیل کا  طرز عمل بغیر تربیت کے بلڈاگ  جیسا تھا ، وہ  کیمبرج یونیورسٹی  کے مشہور شخصیات  کے ہال  میں تو بالکل بھی مناسب نہیں لگتا تھا ، وہ آئزک  نیوٹن کی روح لگتا تھا۔

    ہوئیل ١٩١٥ء میں شمالی انگلستان میں اس علاقے میں  پیدا ہوا جہاں اونی صنعت کا غلبہ تھا  ، وہ ایک کپڑے کے سوداگر کا بیٹا تھا۔ جب وہ چھوٹا تھا تو سائنس سے بہت زیادہ تحیر انگیز رہتا تھا ، ریڈیو تازہ تازہ گاؤں میں آیا تھا۔ اور جیسا کہ وہ بیان کرتا ہے کہ صرف بیس سے تیس کے قریب لوگوں کے گھروں کی ہی   ریڈیو کے رسیور تک رسائی تھی۔ اس کی زندگی کا اہم موڑ اس وقت آیا جب اس کے والدین نے اسے تحفے میں دوربین دی۔

    ہوئیل کی جھگڑالو طبیعت اس وقت سے شروع ہو گئی تھی جب وہ بچہ تھا۔ اس نے تین برس کی عمر میں ہے(ریاضی کے) پہاڑوں  میں کمال حاصل کر لیا تھا ۔ تب اس کے استاد نے اس کو رومن اعداد سیکھنے کا کہا۔" کوئی اتنا خبطی کیسے ہو سکتا ہے کہ 8 کو VIII لکھے؟" وہ تحقیر انگیز انداز سے یاد کرتا ہے۔ جب اس کو بتایا گیا کہ قانون کی رو سے اسے اسکول جانے پڑے گا ، تو اس نے لکھا ، " میں نے رنج کے عالم میں نتیجہ اخذ کیا ، میں ایک ایسی دنیا میں پیدا ہوا ہوں جہاں پر دیووں  کا غلبہ ہے جس کو "قانون" کہا جاتا ہے  جو دونوں   یعنی کہ نہایت طاقتور اور انتہائی احمقانہ ہی ہیں ۔"


     اس کی صاحب منصب لوگوں سے کراہت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ  وہ اپنی استانی سے بلا ضرورت اس وقت لڑ گیا جب اس کو جماعت میں بتایا گیا کہ ایک مخصوص پھول کی پانچ پتیاں ہوتی ہیں۔ اپنی استانی کو غلط ثابت کرنے کے لئے  وہ  جماعت میں ایک ایسا پھول لے آیا جس کی چھ پتیاں تھیں۔ نافرمانی کی اس گستاخ حرکت پر  اس کی استانی نے ایک زور دار ضرب اس کے الٹے کان پر لگائی ۔ (ہوئیل بعد میں اس کان سے بہرہ ہو گیا تھا۔)
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: کائناتی پس منظر کی خرد امواجی شعاعیں Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top