Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    منگل، 2 مئی، 2017

    پس منظر کی کائناتی خرد امواج کی دریافت کی دوڑ


    جس دوران پنزیاس اور ولسن اپنے نظام میں اس تنگ کرنے والے شور کے منبع کی تلاش کر رہے تھے - یہاں تک کہ شاخ دار انٹینے سے کبوتروں کی بیٹ بھی صاف کر دی تاہم کوئی اثر نہ ہوا - اس وقت پرنسٹن کی جماعت چپ چاپ ایک ایسے آلے کو بنانے کا منصوبہ بنا رہی تھی جو پس منظر کی اشعاع کا سراغ لگا سکے۔ 1964ء میں اسی دوران انگلستان میں فریڈ ہوئیل (پھر وہی آدمی!)اور راجر ٹیلر نے بھی بگ بینگ والی کائنات کا آج کے پس منظر کے درجہ حرارت کے حساب کے ساتھ انہی خطوط پر چلنا شروع کیا تھا۔ اور سوویت یونین میں بھی صحیح معنی میں کھلبلی مچی ہوئی تھی۔ یا بی زلڈووچ بھی حساب لگا رہا تھا جو یہ بتاتی تھی کہ کائنات میں مشاہدہ کی گئی ہائیڈروجن، ہیلیئم اور ڈیوٹیریئم کی فراوانی کو لازمی طور پر بگ بینگ میں شروع ہونا چاہئے تھا اور اس کا آج درجہ حرارت صرف چند کیلون ہونا چاہئے تھا؛ وہ تو اوہم کے بیل سسٹمز ٹیکنیکل جریدے کے مضمون کے بارے میں بھی جانتا تھا تاہم اس نے اوہم کی اصطلاح کو غلط سمجھ لیا تھا اور خیال کیا کہ اس کی پیمائش کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کی پس منظر کی اشعاع کا درجہ حرارت ایک کیلون سے بھی کم ہو گا۔ ایک اور سوویت یونین کے محقق، یواین اسمرنوف نے پس منظر یا باقی بچی ہوئی اشعاع کا درجہ حرارت 1 سے 30 کیلون کے درمیان لگایا، اسمرنوف کے حساب کا استعمال کرتے ہوئے، اے جی ڈوروشکیوچ اور ای ڈی نوویکوف نے ایک مقالہ لکھا جس میں انہوں نے اس وقت موجود مختلف ریڈیائی پیمائشوں کے بارے میں پس منظر کی خرد امواج کے بارے بات کی۔ انہوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ موجودہ دنیا میں اس اشعاع کی تلاش کے لئے سب سے بہترین انٹینا بیل لیبز کا کراوفورڈ ہل کا انٹینا ہے اور انہوں نے اپنے مقالے میں تجویز دی کہ اس انٹینے کو اس مقصد کے لئے استعمال کیا جائے۔ یہ تمام کام 1964ء میں ہوا جس میں سے زیادہ تر شایع بھی ہوا۔ پس منظر کی کائناتی خرد امواج کے تصور نے واضح طور فیصلہ کر لیا تھا کہ اس کے ظاہر ہونے کے لئے وقت موزوں ترین ہے۔ تاہم دو براعظموں میں پھیلے ہوئے چار تحقیقی مراکز میں تمام تر دلچسپی کے باوجود، پنزیاس اور ولسن خود سے اپنے اس معمے کے حل سے بے خبر تھے کہ ان کے نظام میں یہ اضافی شور کہاں سے آ رہا تھا۔ 

    یہ لاعلمی کس طرح سے ختم ہوئی اس بارے میں کچھ تھوڑا اختلاف ہے تاہم بنیادی بات ایک ہی ہے۔ ایک قصے کے مطابق پنزیاس مونٹریال میں ہونے والی ایک فلکیاتی مجلس میں گیا تھا اور وہاں سے اس کی واپسی دسمبر 1964ء میں ہوئی جس کے دوران ہوائی جہاز میں اس کے ساتھ والی نشت پر ایم آئی ٹی سے تعلق رکھنے والا برنارڈ برک بیٹھا تھا۔ سفر کے دوران اس نے اس مسئلے کو بیان کیا جو اسے اور ولسن کو اپنے نظام سے شور نکالنے کے سلسلے میں پیش آ رہا تھا، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ برک نے چند دن بعد پنزیاس سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور اس کو پرنسٹن کی جماعت کے کام کے بارے میں اگاہ کیا۔ دوسری کہانی کے مطابق پنزیاس نے برک سے ٹیلی فون پر ہونے والے رابطے میں دوسری باتوں کے ساتھ اس مسئلے کا ذکر کیا۔ بہرحال کسی بھی طرح اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ جنوری 1965ء ایک ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو کے دوران ایم آئی ٹی کے برک نے کراوفورڈ ہل کے پنزیاس بتایا کہ کارنیگی انسٹیٹیوٹ، واشنگٹن ڈی سی کا ایک اور فلکیات دان کین ٹرنر نے پہلے پی پرنسٹن کے نظری جی ای پیبلز کی بات سنی ہے جس نے کائنات کو لبریز کرنے والی پس منظر کی اشعاع کے بارے میں پیش گوئی کی ہے جن کا درجہ حرارت لگ بھگ 10 کیلون ہونا چاہئے۔ برک نے مشورہ دیا کہ پنزیاس پرنسٹن کی جماعت کے ساتھ رابطے میں رہے ؛ پنزیاس نے ڈک سے فون پر رابطہ کیا اور جلد ہی پرنسٹن کی جماعت کے چار اراکین نے آدھے گھنٹے کی مسافت پر واقع کراوفورڈ ہل کی طرف رخصت سفر باندھا تاکہ معلوم کر سکیں کہ آخر چکر کیا ہے۔ آخر کار نظریئے اور مشاہدے دونوں کو ایک ساتھ رکھا گیا؛ دو اور دو واقعی میں چار ہوتے ہیں۔ 

    پرنسٹن کی جماعت پنزیاس اور ولسن سے کہیں زیادہ پرجوش اور خوش تھی۔ پرنسٹن کے محققین کے لئے مشاہدے نظریئے کی پیش گوئی کے مطابق تھا (وہ اس کو اپنا نظریہ سمجھتے تھے )، کام کرتے وقت سائنسی طریقہ کار کی ایک اچھی مثال۔ پنزیاس اور ولسن کے لئے اگرچہ ان کی پیمائش کردہ ریڈیائی شور کی وضاحت مطمئن کرنے والی تھی، تاہم ایسا لگتا تھا کہ اس کے ساتھ دوسری وضاحتیں بھی آنی تھیں۔ اس کے علاوہ ولسن اس بات کو قبول کرنے میں متعامل تھا کہ ساکن حالت کی کائنات کا مفروضہ ختم ہو چکا ہے تاوقتیکہ مزید ثبوت نہیں مل گئے۔ خاص طور پر پیمائش کو صرف ایک ہی طول موج پر لیا گیا تھا صرف 7 سینٹی میٹر سے اوپر؛ ان کو دوسری طول امواج پر بھی دوسرے وصول کنندہ کے ساتھ ناپا جانا تھا تاکہ پس منظر کی اشعاع کی درست ماہیت کو سمجھا جا سکے۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: پس منظر کی کائناتی خرد امواج کی دریافت کی دوڑ Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top