Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    بدھ، 2 مارچ، 2016

    حیات کے ماخذ کی تلاش





    زندگی کس طرح سے بے روح کیمیائی آمیزے سے ابتداء کر سکتی ہے؟ اس سوال نے سائنس دانوں کو ڈارون کی 'انواع کے آغاز' سے ہی پریشان کیا ہوا ہے۔ گروننجن یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے کیمیا کے پروفیسر سجبرن اوٹو کی تحقیق ' کیمیائی ارتقاء' یہ دیکھتی ہے کہ آیا خود سے منظم اور خود کار عمل انگیز اس سوال کا جواب دے سکتے ہیں۔ ان کی تحقیقاتی جماعت نے پہلے خود کی نقل کرنے والے سالمات بنائے ہیں - یعنی وہ سالمات جو اپنی نقل خود سے کر سکیں - اور اب نقلچی تغیر پذیریوں میں ہونے والے تنوع کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے دیکھا کہ اگر آپ کسی ایک جدی نقلچی تغیر پذیر کی جماعت سے شروع کریں تو دوسری شاخ جبلی طور پر نکل آتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ماحولیاتی تنوع جس کا سامنا حیاتیات میں ہوتا ہے ہو سکتا ہے کہ ان سب کی جڑیں سالماتی سطح پر موجود ہوں۔

    حیات کسی نقطے پر لازمی شروع ہوئی تاہم اس کی شروعات ابھی تک ایک معمہ ہی بنی ہوئی ہے۔ چارلس ڈارون نے خود سے 1871ء میں جوزف ہوکر کو لکھنے والے ایک خط میں پیش گوئی کی تھی: 'تاہم اگر (اور اوہ یہ کتنا بڑا اگر ہے) ہم کسی گرم چھوٹے تالاب میں امونیا اورفاسفورس کے نمکیات کی ہر قسم، روشنی، حرارت، برق کو ملا کر بنا سکیں تو دیکھیں گے کہ کیمیائی طور پر ایک پروٹین مرکب بن گیا ہے جو مزید پیچیدہ تبدیلیوں سے گزرنے کو تیار ہے، دور حاضر میں اس طرح کا مادّہ فوری طور پر ہڑپ یا جذب ہو جائے گا یہ وہ صورتحال نہیں ہوگی جس میں اس سے پہلے جاندار مخلوق بنے۔ '

    یہ بات جاننا ناممکن ہے کہ زمین پر حیات کیسے حقیقت میں شروع ہوئی، تاہم یہ بات سائنس دانوں کو اس کوشش سے نہیں روک سکتی کہ وہ تلاش کریں کہ آیا اس کا آغاز کیسے ہوا تھا۔ یہ صرف تجسس کا معاملہ نہیں ہے۔ اس عمل میں ملوث چیزوں میں شامل ہیں خود کار عمل انگیز (جہاں پر سالمات اپنی نقول کو بنانے کے لئے اعانت کرتے ہیں) اور خود تنظیمی (جہاں سالمات جبلی طور پر اپنے آپ کو بلند ترتیب ساخت میں منظم کرتے ہیں) جو مادی سائنس جیسے میدان کے لئے اہم تصورات ہیں۔ 

    اوٹو کیمیائی ارتقائی پر کئی برسوں سے کام کر رہے ہیں۔ اس کی شروعات اتفاق کی دریافت سے ہوتی ہے، وہ بیان کرتے ہیں۔ 'ہم نے کچھ چھوٹے امینو تیزاب کے مرکبات دیکھے جو خود سے اپنے آپ کو حلقوں میں ترتیب دے لیتے ہیں، جو بعد میں گٹھا بنا لیتے ہیں۔' ایک مرتبہ جب گٹھا بننا شروع ہو جاتا ہے تو وہ نشوونما پانا جاری رکھتا ہے اور پھر چھوٹے گٹھوں میں ٹوٹ کر تعداد بڑھاتا ہے۔ یہ بھی بڑھ کر دوبارہ ٹوٹ جاتے ہیں اور یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ گٹھے ان حلقوں میں بھی تحریک پیدا کرتے ہیں جن پر وہ مشتمل ہوتے ہیں۔ گٹھے اور حلقوں کو 'نقلچی' کہتے ہیں کیونکہ یہ اپنی نقول بنانے کے قابل ہوتے ہیں۔

    جان سیڈونک جو اوٹو جماعت میں ایک مابعد ڈاکٹر ہیں انہوں نے دریافت کیا کہ اگر آپ نقلچیوں کو دو مختلف اقسام (اے اور بی) کی بنیادی اینٹیں ('خوراک') فراہم کریں تو وہ اپنی نقل بنا لیں گے۔ انہوں نے نقلچی تغیر پذیر جماعت کے ظہور کا مشاہدہ ہوتے دیکھا جو خوراک اے میں خاص مہارت رکھتے ہیں، تاہم کچھ نے بی خوراک کا بھی استعمال کیا ہے۔ حلقے زیادہ تر اے کی بنیادی اینٹوں سے بنے ہیں جبکہ بی کی چند ایک ہی اینٹیں ان میں شامل ہیں۔

    کچھ دنوں بعد سیڈونک نے ایک دوسرے تغیر پذیریوں کی جماعت کو دیکھا جو خوراک بی میں مہارت رکھتے ہیں تاہم کچھ اے کا بھی استعمال کر لیتے ہیں۔ یہ دوسری جماعت پہلی جماعت کی نسل لگ رہی تھی، جس کا مطلب یہ تھا کہ ان دونوں جماعتوں کے درمیان ایک نسلی رشتہ موجود تھا۔ یہ اس عمل سے کافی ملتا ہے جس میں نئی انواع پہلے سے موجود نوع سے حیاتیاتی ارتقاء کے دوران بنتی ہیں سوائے اس انواع کی تشکیل کے اس عمل میں پوری طرح تیار حیاتیاتی جاندار نہیں بنتے تاہم یہ سالماتی پیمانے پر ہوتا ہے۔

    سالماتی 'آغاز نوع' کے عمل کو مزید تفصیل میں دیکھ کر محققین پہلی نقلچی جماعت کے اندر تغیر پذیریوں کی شناخت کرسکتے ہیں جو دوسری جماعت کی پیداوار کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ لہٰذا انہوں نے ایک ایسا نظام بنا لیا ہے جس میں نقلچی 'نوع' سالماتی پیمانے پر بے مثال طور پر بنتی ہیں۔ منفرد جماعت میں نقلچی سالموں کی جبلی تنوع اس لمبے عمل کا وہ پہلا قدم ہو سکتا ہے جو ہماری رہنمائی حیرت انگیز ماحولیاتی تنوع تک کرتا ہے جو ہم سب اپنے ارد آج دیکھتے ہیں۔ 

    اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح نئی 'انواع' کیمیائی ارتقاء سے ابھرتی ہیں۔ اوٹو 'وضاحت کرتے ہیں، ' بلاشبہ، انواع کے آغاز کی اصطلاح صرف اس وقت استعمال ہونی چاہئے جب جنسی طور پر پیدا ہونے والے جانداروں کے بارے میں بات کی جائے، تاہم ہمارا کام بھی اسی طرح کا نمونہ دکھاتا ہے۔' اوٹو کہتے ہیں کہ ' دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم نے شروعات بغیر کسی نقلچی کے کی ہے، تاہم ہم نے پہلی قسم کو نمودار ہوتے دیکھا اور اس کے بعد دوسری قسم کو۔ یہ بات یقینی طور پر سب سے اہم ہے!'

    اگلے قدم پر موت کو متعارف کروانا ہے۔ یہ نظام میں مسلسل بنیادی اینٹوں کی فراہمی کرکے اور رد عمل رگوں کے اجزاء کو نکال کر لیا جا سکتا ہے۔ نقلچی صرف اس نظام میں اسی وقت تک باقی بچے رہ سکتے ہیں جب ان کی پیدائش کی شرح ان کو شرح اموات سے زیادہ ہو۔ 'اس کے بعد ہم اس طرح کے نظام میں ایک نقلچی تغیر پذیریوں کی جماعت کا بیج لگاتے ہیں اور ماحول کو بدلتے ہیں، مثال کے طور پر ایک دوسرا محلول ڈال کر۔ یہ مختلف تغیر پذیریوں کی صحت میں تبدیلی لائے گا اور تغیر پذیریوں کی آبادی کو اس طرف منتقل کر دے گا جو نئے ماحول میں بہتر طریقے سے نقل بنا سکیں۔' اس کا نتیجہ قدرتی چناؤ کی صورت میں نکلے گا جس کو ڈارون نے شناخت کیا تھا۔ 'صرف ہم ہی اکیلے نہیں ہیں جو ان تجربات سے خوش ہیں - ارتقائی حیاتیات دان جن سے میں نے بات کی ہے وہ بھی خوش ہیں۔'

    نتائج جنوری 4، 2016ء میں نیچر کیمسٹری میں شائع ہوئے ہیں۔

    کیمیائی ارتقاء پر اوٹو جماعت کی طرف سے کی جانے والی تحقیق کی وضاحت کرتی ویڈیو یو ٹیوب پر اس ربط دستیاب ہے : https://youtu.be/qjW0rAaUpXs

    ڈیلی گلیکسی بذریعہ گروننجن یونیورسٹی 



    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: حیات کے ماخذ کی تلاش Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top