پانی کے ضائع ہونے کی
وجہ سے ایک ناقابل الٹ اور ڈرامائی ماحول
میں تبدیلی آئی۔ اپنے سیارے پر ایسا مت ہونے دینا بھائی ! چٹانی پانی والے سیاروں کی دنیا میں ایک بنا بنایا حر سکون (تھرموسٹیٹ )ہوتا ہے
جو لمبے عرصے میں ماحول کی دیکھ بھال کرتا ہے اور اس کو ایک ایسے درجہ حرارت پر
قائم رکھتا ہے جہاں پانی مائع پانی کی
صورت میں موجود رہ سکے( یہ وہ درجہ حرارت ہے جس کا کم از کم مطالبہ ہم کاربنی
پانی والی مخلوق رہنے کے لئے کرتے ہیں)۔ اگر سیارہ کافی زیادہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے تو آتش فشانی کاربن
ڈائی آکسائڈ کرہ فضائی میں جمع ہونے لگتی ہے اور بالآخر سیارے کو گرم کر دیتی ہے۔
اگر سیارہ کافی گرم ہو جائے تو وہ شرح جس
سے پانی کاربن ڈائی آکسائڈ کو حل کرتا ہے
اور سیلیکٹ چٹان کو کاربونیٹ چٹان میں
تبدیل کرتا ہے بڑھ جاتی ہے اس طرح
سے وہ کاربن ڈائی آکسائڈ کو کھینچ کر
سیارے تو ٹھنڈا کرتا ہے۔ یہ نظام عرصے دراز سے کام کرتے ہوئے زمین کے ماحول کو کم و بیش ایک ہی جیسی سطح پر
رکھتا ہے۔ ممکنہ طور پر اسی طرح کا نظام زہرہ پر بھی شروع میں ہوگا۔ تاہم ایک
مرتبہ جب سطح پر موجود پانی کا آخری ذخیرہ بھی روشن سورج نے ختم کر دیا ہوگا تو اس کے بعد کوئی ایسا طریقہ نہیں بچا ہوگا جس سے کاربونیٹ کی چٹانوں کو بنایا جا سکے جو بے
قابو حرارت کو کسی طرح سے منہ دے سکیں۔ اس نقطہ پر پہنچ کر زہرہ کا تھرموسٹیٹ مکمل
طور پر ٹوٹ گیا ہوگا۔ اور حرارت پیما ایک سرخ علاقے میں میخ کی طرح گڑھ گیا اور جب
سے ہی یہ وہاں موجود ہے( خاکہ 2.4)۔
خاکہ 2.4 کچھ محققین
تجویز کرتے ہیں کہ زہرہ ہمیشہ سے ایک ویران دنیا رہی ہے۔ آج زہرہ زمین کے سب سے خشک ترین علاقوں سے بھی ہزار ہا
گنا زیادہ خشک ہے۔
دوسری وجوہات بھی
موجود ہیں جن کی وجہ سے برباد ہوئے گمشدہ سمندروں پر یقین رکھا جا سکتا ہے۔
ہائیڈروجن کے بھاری تعداد میں فرار ہونے کے علاوہ ہماری سیاروں کی پیدائش اور ان کے پیدائش کے اوّلین دور سے متعلق معلومات میں اضافہ بھی ہماری اس سلسلے
میں مدد کرتا ہے۔ کافی ثبوت و شواہد اس
بات کا عندیہ دے رہے ہیں کہ زہرہ اور زمین
ایک ہی طرح سے پیدائش کے عمل سے گزرے ہیں تاہم ان کے ارتقائی مدارج الگ ہو گئے تھے۔ کبھی ہم ان نظریات کو بھی دیکھتے تھے جو یہ
تجویز کرتے تھے کہ زہرہ اور زمین دونوں مختلف طریقوں سے بنے اور کسی طرح سے سیاروی
سحابیہ نے ان دونوں کو الگ کر دیا اوریوں زمین پر اس کے مقابلے ایک لاکھ گنا زیادہ پانی
رہ گیا۔ تاہم اب ہم سمجھ چکے ہیں کہ سیاروں کی پیدائش بھی زیادہ اٹکل تصادموں کے عمل کے دوران ہوتی ہے۔ سیارے مادّے
کو جمع کرنے کی شروعات چھوٹے دھول کے ذرّات سے کرتے ہیں ، دھول سے کنکریاں بنتی ہیں ، کنکروں سے مل
کر گول بٹے، اور بالآخر ایک ہزار میل پر محیط
چھوٹے سیارے جو آپس میں ٹکرا کر
بڑے سیاروں کو بناتے ہیں۔ سیاروں کے ٹکڑے
جب بڑے ہوتے ہیں تو ان کی قوّت ثقل بڑھتی ہے اور وہ دوسرے سیارچوں کو مزید کھینچنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ یہ آخری
افراتفری کا دور ہوتا ہے۔ تصادم تیز اور شدید ہوتے ہیں اور جو ٹکر سے بچ جاتے ہیں وہ عجیب و غریب مدار
میں چلے جاتے ہیں جہاں ان میں مزید تصادم ہوتے ہیں یا پھر وہ قریبی نظام شمسی کی
طرف پھینک دیئے جاتے ہیں۔
یہ گرم ملغوبہ ہوتا ہے؛ ہر چیز چکنا چور ہوتی ہے، پگھلتی ہے، بخارات بنتی ہے، بھاپ بنتی
ہے، بلوئی جاتی ہے اور آپس میں بار بار
ملائی جاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ مادّہ جس سے اندرونی سیارے بنے ہیں بہت اچھی
طرح ملا یا ہوا ہے۔ زہرہ کو زمین سے بہت
زیادہ خشک بنانے کے لئے اس کو شدید اور بے ہودہ طریقے سے ملایا ہوا نہیں ہونا
چاہئے۔
اگر آپ مجھ سے مزید اصرار کریں گے تو میں کہوں
گا کہ آپ اس کو حر حرکی صورت میں دیکھیں۔ کیا کہا؟ میرا مطلب ہے کہ ناکارگی کی
صورت میں - آپ جانتے ہوں گے دوسرا قانون :
ہر چیز نیچے بہے گی – چاہئے آپ کتنی مرتبہ اپنا کمرہ صاف کر لیں آپ کو دوبارہ اس
کی صفائی کرنی پڑے گی۔ قدرت چیزوں کو ایک دوسرے میں ملا کر ان کا ملغوبہ بناتی ہے۔
یہ قریبی جگہوں پر کوئی اٹکل پچو کام نہیں کرتی کہ ان میں ڈرامائی فرق پر جائے۔ –
یہ تمام تفریق کو ختم کرتی ہے۔ لہٰذاتاوقتیکہ
کچھ شاندار کارگر عمل زہرہ کو مکمل خشک نہیں کر دیتے، اس کے پاس زمین کے سمندروں
سے دس گنا زیادہ پانی ہوتا۔
ہم یہ بات جان چکے
ہیں کہ نظام شمسی میں پانی کافی عام ہے (اصل میں تویہ پوری کائنات میں ہی عام ہے)۔
زیادہ تر جگہوں پر یہ مائع صورت میں نہیں ہے۔ زمین جیسی کوئی بھی چیز بنانے کے لئے
مادّے کو مناسب طور پر پانی سے لبریز ہونا چاہئے۔ کچھ چٹانی آمیزہ جس میں پانی
والے کیمیائی بند آبیدہ معدنیات یا بیرونی
نظام شمسی سے آئے ہوئے برفیلے مدخل شامل ہوں۔
ہمیں کافی ثبوتوں کے اشارے مریخ اور دوسرے پڑوسیوں سے بھی ملے ہیں جہاں پانی
نچڑنا شروع ہوا تھا ہرچند کہ انھیں بھی اس کو اپنی پاس قابو کرکے محفوظ
رکھنے میں کافی مسئلے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ سیاروں کی ابتداء تری سے ہوئی اور
پھر وہ اسی الل ٹپ سیاروی ٹکڑوں کی بارش
میں نچڑ گئے تھے۔
ہاں اس لئے میں یہ
سمجھتا ہوں کہ میں کسی سراب کے پیچھے نہیں بھاگ رہا ہوں تاہم میں زہرہ کے گم شدہ سمندروں پر یقین رکھتا ہوں۔ میں ان کو عظیم براعظمی
ایپرو ڈائٹ ٹیررا کی اونچی زمین کے دونوں اطراف میں موجود
نشیبی طاسوں کو پانی سے بھرتا ہوا دیکھ
رہا ہوں۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ بات بالکل تصوراتی ہے کیونکہ ایسا نہیں لگتا کہ
زہرہ نے اپنی ساخت کو ارب ہا برسوں سے ایک جیسا رکھا ہوا ہو یہ ہو
سکتا ہے کہ جب سے اس نے اپنے سمندروں کو کھو دیا ہو تب سے ایسی ہی ہو۔ زمین کے پہاڑی
سلسلوں کو دیکھیں ان کا آنا جانا لگا رہتا ہے، یہ سختائے ہوئے ارضی پرتوں کے ہلکے بہاؤ پر تیرتے
رہتے ہیں، اور زمین کے جلا دینے والے حرارتی اندرونی انجن سے حرکت کرتے ہیں۔
درحقیقت اس بات کا غالب امکان ہے کہ یہ زمین کے دریا ہی تھے جنہوں نے زمین پر
سختائے ہوئی پرتوں کا عمل جاری رکھا۔ اگر پرتی حرکت اور غلافی بہاؤ میں ان کا چکنا اثر نہ ہوتا تو
زمین کا ہموار اندرونی انجن کب کا بند ہو
چکا ہوتا۔ کچھ نمونوں کے نتائج یہ بتاتے ہیں کہ اگر آپ زمین کو زہرہ کی طرح شدید
خشک کر دیں گے تو آپ کو سختائے ہوئی پرتوں کے بجائے پھنسی ہوئی سختائے پھواریں اور آتش فشانی سرگرمیاں آپس میں کروڑوں برسوں کے نسبتی فرق سے بے حرکتی سے جدا ملیں گی۔ تاہم جیسے بھی دیکھ لیں ایسا لگتا ہے کہ زہرہ نے اتنی ہی حرارت کو کھویا ہے جتنی زمین نے تاہم وہ لمبے عرصے میں شاید کسی طرح سے ادھر
ادھر ہو گیا تھا۔ ہم اندازہ لگا کر یہ بتا سکتے ہیں کہ زہرہ کی سطح تقریباً کتنی
پرانی ہے یہ کام کرنے کے لئے ہم سیارچوں
اور دم دار ستاروں سے سطح پر پڑنے والے شہابی گڑھوں کی تعداد کو گنتے ہیں۔ زہرہ کی
سطح کی عمر اوسطاً ایک ارب برس سے کم ہے۔ پرانے شہابی گڑھے آتش فشانی بہاؤ سے بھرے
ہوئے ہیں یا پھر زہرہ کے زلزلوں سے ٹوٹ گئے ہیں۔ تو اس بات کا کتنا امکان ہے کہ
ایک جیسی جگہ جہاں ہمیں نشیبی اور اونچی زمین ملتی ہے وہاں سمندر ہوں اور زہرہ کی پانی کی دنیا کے براعظم؟ اس بات کا
انحصار اس پر ہے کہ زہرہ نے کب کس دور میں پانی کو کھویا۔ ان لوگوں کے لئے جو زہرہ
کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ہمارے برباد سمندروں کو بعینہ
اسی تقویمی دور میں رکھ دیں، تو وقت کا پیمانے تنگ کرنے والا ہے۔ ہمارے پاس کافی
اچھی کہانی ہے جو یہ بیان کرتی ہے کہ کس طرح سے زہرہ سمندر سے بھاپ بنا، ہائیڈروجن
کو خلاء میں کھویا اور ہمیشہ کے لئے ایک ہولناک گرم اور خشک صورتحال میں جا کر
پھنس گیا۔ تاہم کیا آخری پانی کا بہاؤ تین ارب برس پہلے کا ہے یا صرف ایک ارب برس
پہلے کا ، اس سوال کے جواب کا انحصار ان
عوامل پر ہے جن کا اندازہ لگانا اب بھی کافی مشکل ہے، جیسا کہ ابتدائی کرہ فضائی
کتنا ابر آلود تھا۔ ہمیں مزید اعداد و شمار اور بہتر نمونوں کی ضرورت ہے تاکہ یہ
صحیح طور پر جان سکیں کہ اصل میں سمندر کب برباد ہوئے۔ (خاکہ 2.5)۔
خاکہ 2.5 مرتا ہوا سیارہ: زہرہ کے سمندر ابلنے کے قریب اور
آسمان کو باتیں کرتی مرطوبیت کے ساتھ۔
تصویر کے بیچ میں ختم ہونے کے قریب خشکی
کا وہ حصّہ جو ٹیلس ٹیسیرا بنے گا وہ تاریکی میں سے جھانک رہا ہے۔ منظر کے
نچلے حصّے میں نوزائیدہ براعظم اپرو ڈائٹ
ٹیرا بازو پھیلا رہا ہے جس کے ساتھ پہاڑ او ویڈا
ریجیو میں مروڑی کھائے ہوئے ہیں۔ غضبناک بجلی سیارے کے رات والے حصّے کی جانب کڑک رہی ہے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں