Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    جمعہ، 11 مارچ، 2016

    افراط کے نظریئے پر رد عمل - حصّہ اوّل


    ہرچند کے گتھ پر اعتماد تھا کہ اس کا افراط سے متعلق خیال درست ہے، لیکن جب پہلی دفعہ عوام الناس میں اس نے اپنے اس نظریئے کو بیان کیا تو وہ تھوڑا گھبرایا ہوا تھا۔ ١٩٨٠ء میں اس نے اپنا نظریہ پیش کیا ،" میں اس وقت بھی پریشان تھا کہ نظریئے کے کچھ نتائج ممکنہ طور پر کافی غلط ہو سکتے ہیں۔ اس بات کا بھی ڈر تھا کہ کہیں میری حیثیت نا تجربہ کار ماہر تکوین کے نہ پڑ جائے ،" اس نے تسلیم کیا۔ لیکن اس کا بیان کردہ نظریہ اس قدر نفیس اور طاقتور تھا کہ تمام دنیا میں موجود ماہرین طبیعیات نے اس کی اہمیت کو فوراً ہی محسوس کرلیا۔ نوبیل انعام یافتہ مررے جیل مین نے کہا، " تم نے فلکیات کے سب سے زیادہ اہم مسئلہ کو حل کر دیا ہے !" نوبیل انعام یافتہ شیلڈن گلاشو بتاتے ہیں کہ جب اسٹیون وائن برگ نے افراط کے بارے میں سنا تو وہ آگ بگولہ ہو گیا۔ پریشان گتھ نے پوچھا ، "کیا اسٹیو کو اس پر کوئی اعتراض ہے ؟" گلاشو نے جواب دیا، "نہیں، اس نے خود کیوں یہ بات نہیں سوچی۔" ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ اتنا سادہ حل سائنس دانوں سے رہ گیا ہو۔ گتھ کے نظریئے کو نظری طبیعیات دانوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا کیونکہ وہ اس کے وسعت سے متحیر تھے۔

    اس کا گتھ کی نوکری پر بھی زبردست اثر پڑا۔ ایک دن کم ہوتی ملازمت کے موقع کی وجہ سے وہ اپنی بے روزگاری کا نوشتہ دیوار پڑھ رہا تھا۔" میں ملازمت کے آخری کونے پر تھا۔" وہ تسلیم کرتا ہے۔ یکایک بہترین جامعات سے اس پر ملازمتوں کی بارش ہونے لگی لیکن اس جگہ سے اس کو پیش کش نہیں ہوئی جو اس کی اوّلین پسند تھی یعنی کہ ایم آئی ٹی۔ پھر اس نے کہیں پڑھا کہ ،" ایک شاندار موقع آپ کے سامنے موجود ہے بشرطیکہ آپ شرمیلے نہ ہوں۔" اس بات نے اسے جرت مند بنا دیا اور اس نے فون اٹھا کر ایم آئی ٹی ملا لیا اور ان سے ملازمت کے بارے میں پوچھا۔ وہ اس وقت حیران رہ گیا جب چند دن بعد ایم آئی ٹی نے اسے پیغام بھیجا اور پروفیسر کی ملازمت کی پیش کش کی۔ قسمت کی چڑیا نے اسے دوبارہ بتایا ،" تمہیں حالت کی رو میں نہیں بہنا چاہئے۔" اس مشورے کو نظر انداز کرتے ہوئے اس نے ایم آئی ٹی کی پیش کش کو قبول کرلیا. "قسمت کی چڑیا کو کیا پتا؟" اس نے اپنے آپ سے کہا۔

    بہرصورت اب بھی کافی سارے سنجیدہ مسائل سر اٹھائے کھڑے تھے۔ فلکیات دان گتھ کے نظریئے سے کچھ زیادہ متاثر نہیں دکھائی دے رہے تھے، کیونکہ یہ ایک جگہ واضح طور پر مار کھا رہا تھا۔ یہ اومیگا کا غلط اندازہ لگا رہا تھا۔ یہ حقیقت کہ اومیگا لگ بھگ ایک کے قریب ہے صرف افراط کے ذریعہ ہی بیان کی جا سکتی تھی۔ بہرحال افراط کافی دور تک چلا اور اس کے مطابق چپٹی کائنات کے لئے اومیگا (یا اومیگا اور لمبڈا دونوں ملا کر) ایک کے آس پاس ہونا چاہئے تھا۔ آنے والے برسوں میں جیسے جیسے تجرباتی اعداد و شمار حاصل کئے جا رہے تھے وہ کائنات میں موجود تاریک مادّے کی وسیع مقدار کا عندیہ دے رہے تھے۔ نتیجتاً اومیگا بڑھ کر 0.3 تک پہنچ گیا تھا۔ لیکن اس کی یہ مقدار بھی افراط کے لئے مہلک تھی۔ ہرچند کے افراط نے آنے والی اگلی دہائی میں تین ہزار کے قریب مقالات کو طبیعیات دانوں کے درمیان پیش کیا ، لیکن ماہرین فلکیات کے لئے یہ مستقل باعث تجسس ہی بنا رہا۔ ان کے مطابق اعداد و شمار افراط کو رد کر رہے تھے۔

    کچھ ماہرین فلکیات تو ذاتی نشستوں میں اس بات کا گلہ کرتے ہوئے نظر آتے تھے کہ ذرّاتی طبیعیات دان افراط کی خوبصورتی سے اس قدر مرعوب ہیں کہ وہ تجرباتی حقائق کو نظر انداز کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ (ہارورڈ کے فلکیات دان رابرٹ کرشنر لکھتے ہیں ، " یہ 'افراط' کا خیال پاگل پنے کا لگتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اس کو سنجیدہ لینے والے وہ لوگ ہیں جو آرام سے کرسی پر تشریف فرما رہتے ہیں اور ان کے ایسے کرنے سے یہ خود بخود ٹھیک نہیں ہوگا۔" آکسفورڈ کے راجر پنروز افراط کے بارے میں  کہتے ہیں " یہ ایک چلن ہے جو توانائی سے بھرپور طبیعیات دان فلکیات کی دنیا میں چلا رہے ہیں۔۔۔ سور بھی اپنے بچوں کو خوبصورت سمجھتے ہیں۔"


    گتھ کو یقین تھا کہ جلد یا بدیر اعداد و شمار اس بات کو ثابت کر دیں گے کہ کائنات چپٹی ہے۔ لیکن اس کو جس بات نے پریشان کیا ہوا تھا وہ یہ تھی کہ اس کی اصل تصویر ایک چھوٹے لیکن مہلک نقص سے گزری ہے، یہ ایک ایسی چیز ہے جس کو آج بھی ٹھیک طرح سے نہیں سمجھا جا سکا۔ افراط کا نظریہ مثالی طور پر فلکیات کے کچھ گہرے مسائل کے سلسلوں کو حل کرتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ کسی کو بھی نہیں پتا کہ اس کو کیسے روکا جاتا ہے۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: افراط کے نظریئے پر رد عمل - حصّہ اوّل Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top