Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    پیر، 7 مارچ، 2016

    سیارہ زہرہ کے گم شدہ سمندروں کی تلاش - حصّہ اوّل


    ڈیوڈ گرینس پون 


    ڈی گرینس پون ، ڈینور میوزیم آف نیچر اینڈ سائنس 

    ڈینور ، سی او ، یو ایس اے 

    برقی پتہ : David.Grinspoon@dmns.org



    مترجم : زہیر عبّاس 


    کسی ایسی چیز پر اپنا مستقبل قائم کرنا جس کے بارے میں یقین نہ ہو کہ آیا اس کا وجود ہے بھی یا نہیں کافی مخبوط الحواس فیصلہ لگتا ہے۔ میں زہرہ کے سمندروں پر تحقیق کرتا ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ سائنسی اعتبار سے یہ اس فنکار کے برابر ہو جو تجریدی فن پر زور دیتا ہے - ایک ایسی چیز پر توجہ مرکوز کرتا ہے جس کا مزید کوئی وجود ہی نہیں ہوتا۔ ان تمام باتوں کے باوجود میں یقین رکھتا ہوں اور حقیقت میں تسلیم کرتا ہوں کہ میں نے ان کے (زہرہ کے گم شدہ سمندروں )بارے میں خواب دیکھا ہے (خاکہ 2.1)۔


    خاکہ 2.1 ایک قدیمی سمندر کٹے ہوئے شہابی گڑھے کے کنارے سے اس وقت سوکھ گیا جب آتش فشاں ماضی بعید میں حکمرانی کرتے تھے اور وہ دور بالآخر ان کی بادشاہت کا تھا۔ زہرہ پر موجود ابتدائی موسم تیزابی، آسمان میں ابلتے ہوئے کاربن ڈائی آکسائڈ کا ہوگا۔ اشتر کا براعظم بائیں طرف اٹھتا ہوا ہے۔


    میرا تصوّر ان کو لازماً ، وسیع اور گہرا دیکھتا ہے جس میں یہ ما سوائے آسمان سے باتیں کرتے ہوئے مخروطی آتش فشانوں اور عظیم الجثہ شہابی گڑھوں کی عمودی چڑھائیوں والے پہاڑوں کے، سیارے کے زیادہ تر حصّے پر قابض تھے۔ میرے ذہن میں جو تصویر ہے اس میں جھاگ اڑاتی لہریں منتشر قطعہ اراضی کے ساحلوں کو کاٹ رہی ہیں، گرم ہوائیں چل رہی ہیں، جو کبھی کبھار ہولناک طوفان کا روپ دھار لیتی ہیں تاہم ان کو مد و جذر میں اٹھتی ہوئی لہروں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

    یہاں پر کوئی چاند نہیں ہے لہٰذا اس کی وجہ سے مدو جذر تو پیدا نہیں ہوتے اور شاید یہاں کوئی چاند کو بنانے والا قدیمی تصادم بھی نہیں ہوا تھا۔[1] جس کے بغیر تمام چیزیں برابر ہی تھیں [2] - زہرہ زیادہ پانی باقی رکھ سکتا تھا تاہم اس نے اس کا زیادہ تر حصّہ ضائع کر دیا اور وہ اس کے تنگدست غلاف میں دفن ہو گیا۔

    مجھے پاگل کہہ لیں کیونکہ میں نے اپنی زندگی میں آنے والا عہد شباب ان گمشدہ سمندروں کی تحقیق پر گزار دیا اور اس کے باوجود میں نے اسے نہیں دیکھا۔ پھر بھی شاید میں ان طبیعیات دانوں سے بہتر ہوں جو اپنی پوری زندگی کچھ عجیب، مسحور کن ضد گلوآن کی تلاش میں گزار دیتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ تو کوئی سود مند بات نہیں لگتی ہے۔ یا شاید جاں گزار ارضی طبیعیات دانوں کی طرح جو زمین کے اس قلب پر توجہ مرکوز کئے ہوتے ہیں جس کو کسی نہیں دیکھا ۔ ہاں اگر کسی نے دیکھا ہے تو وہ ہالی ووڈ کی بنی ہوئی غلط مفروضوں والی تفریحی فلموں میں دیکھا ہوگا۔ تاہم بالواسطہ طور پر اتنا تو جانتے ہیں کہ قلب زمین کے اندر موجود ہے۔ جس طرح سے جنین رحم میں ہوتا ہے یہ اپنی اندر گھات لگائے موجودگی کا اظہار خفیف مرتعش لہروں کے نمونے سے کراتا ہے اور یوں ہم قلب کو دیکھ سکتے ہیں ۔ ہم اس کی موجودگی کا بالواسطہ احساس زمین کے ثقلی اور مقناطیسی میدانوں کے ذریعہ کر سکتے ہیں۔ میں دلیل دے سکتا ہوں کہ اسی طرح سے ہم زہرہ کے سمندروں کا بھی احساس کر سکتے ہیں۔ بس مسئلہ یہ ہے کہ ان کو ختم ہوئے عرصہ گزر گیا، اور ہم اس استدلالی ثبوت کی تلاش میں ہے جو منظر نامے سے غائب ہی ہو گیا ہے(خاکہ 2.2) بعینہ ان تمام سائنس دانوں کی طرح جو ٹیلی ویژن کے ڈراموں میں خلیوں کے نمونے لے کر مجرم کی تلاش میں گھوم رہے ہوتے ہیں ۔ 

    میرے کچھ ایسے دوست ہیں جو معدوم مخلوق یا غائب ہوئی تہذیبوں پر تحقیق میں مصروف عمل ہیں۔ تاہم ان کے کام میں آسانی یہ ہے کہ وہ مخصوص جگہ جاتے ہیں اور ثبوت کی تلاش میں اس جگہ کو کھودنے لگ جاتے ہیں۔ وہ اس بات سے بے فکر ہو کر کام کرتے ہیں کہ ٩٠٠ ڈگری درجہ حرارت اور فوق دباؤ والی ہوا انہیں فوراً ہلاک کرنے کے لئے موجود نہیں ہے۔ حقیقت میں ہم زہرہ کے گمشدہ سمندر تلاش کرنے کے لئے وہاں خود سے [3] نہیں جا سکتے لہٰذا ان کی تلاش کے لئے ہمیں مشینوں کو وہاں بھیجنا ہوگا اور فی الوقت ہم اس قابل نہیں ہیں کہ وہاں کافی زیادہ مشینیں بھیج سکیں اگرچہ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ہم نے کوشش نہیں کی۔

    لہٰذا روبوٹک کھوجیوں کی معقول تعداد وہاں تک روانہ کرنے میں ناکامی کی وجہ سے ہمیں ابھی تک صحیح سے نہیں معلوم کہ آیا وہاں سمندر تھے کہ نہیں تاہم اس دوران ہمیں کافی مضبوط مبنی بر قرائن ثبوت مل چکے ہیں۔ بہرحال حاصل ہونے والے اعداد و شمار اب بھی اس حالت میں ہیں کہ وہ مخالف دلیل کے حق میں بھی ثابت ہو سکیں "زہرہ ہمیشہ سے خشک تھا"، تاہم وہ تمام سائنس دان جنہوں نے تمام ثبوتوں کو دیکھا ہے وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ لگ بھگ زہرہ نے شروعات ایک پانی والی ، زمین جیسی جگہ – ایک سیارہ جو گرم، مائع پانی کے سمندر کا حامل تھا – سے کی تھی (خاکہ 2.3)۔ ہم اب تک نظام شمسی سے متعلق حاصل کردہ معلومات کی روشنی میں جانتے ہیں کہ یہ ثبوت کس طرح سے انگوٹھی میں نگینے کی طرح پورے بیٹھتے ہیں۔



    ________________
    [1] ۔ یا شاید کافی بڑا ٹکراؤ جس سے چاند ٹوٹ کر بن سکتا ، تاہم کسی ایک بڑی ٹکر میں جب پلازما اور دھول صاف ہو کر زائل ہوئی تو اس کی ٹکر نے اس کی محوری گردش کو الٹا کرکے آہستہ کر دیا تھا۔ 


    [2] ۔ یہ کیا بات ہے ؟ جاننا چاہتے ہیں تو مجھے ٥ ارب ڈالر اور دس برس دیں اور پھر مجھ سے دوبارہ پوچھیں۔۔۔۔۔ 


    [3] ۔ فی الوقت ۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: سیارہ زہرہ کے گم شدہ سمندروں کی تلاش - حصّہ اوّل Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top