Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    بدھ، 30 مارچ، 2016

    بگ بینگ کا پہلا سیکنڈ


    کائنات کی تاریخ کا سب سے یادگار لمحہ تخلیق کا پہلا سیکنڈ تھا۔ تخلیق کے عمل کے اس پہلے سیکنڈ میں زمان و مکان سے لے کر مادّہ اور توانائی ہر چیز کا تعین ہو گیا تھا۔ زمان و مکان یک لخت ایک دھماکے سے وجود میں آ گئے تھے اور اسی سے کائنات کا جنم ہوا تھا۔ اس بات سے قطع نظر کہ کائنات کتنی لمبی عمر پائے اس پہلے سیکنڈ میں اتنی چیزیں وقوع پذیر ہوئیں تھیں جتنی آنے والی کائنات کی تاریخ میں بھی شاید نہ ہوں گی ۔ اس پر تشدد اوّلین سیکنڈ نے ہی ہم سمیت کائنات میں موجود ہر چیز کو متعین کر دیا تھا۔ لہٰذا تخلیق کے اس پہلے سیکنڈ کو سمجھنے سے ہی کائنات کو سمجھا جا سکتا ہے۔ تخلیق کا یہ پہلا سیکنڈ کائنات کو سمجھنے کی کنجی ہے۔


    جب ہم رات کو آسمان پر نگاہ دوڑاتے ہیں تو ہمیں اپنی کائنات زبردست نظارے والی ، جمالیات سے بھرپور، فرحت بخش اور انتہائی منکسرالمزاج دکھائی دیتی ہے۔ پھر جب ہم اپنے گرد و پیش کا جائزہ لیتے ہیں تو ہر جگہ حیات کو پھلتا پھولتا دیکھتے ہیں ، جگہ جگہ قدرتی عجوبے اور وہ چیزیں جن سے ہمیں الفت ہے نظر آتی ہیں۔ ان میں سے ہر چیز، ہر وہ چیز جس کا ہم نظارہ کرتے ہیں اسی اوّلین معجزاتی بگ بینگ کے لمحے میں وجود میں آئی ہے۔ بگ بینگ نے صرف مادّے کی تخلیق نہیں کی وہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ بگ بینگ میں ہی کائنات کی تخلیق ہوئی جس کا مطلب کہ مکان و زمان بھی اسی مقرر گھڑی میں تخلیق ہوئے ۔

    زمان و مکان کی تخلیق کرنا واقعی ایک معجزاتی کام ہے بہرحال یہ بات تو عیاں ہے کہ زمان و مکان کی تخلیق ہوئی ہے مگر یہ سب ہوا کیسے ہے؟ اس کو ابھی تک طبیعیات سمجھ نہیں سکی ہے ۔ہمیں نہیں معلوم کہ عظیم دھماکا کیوں ہوا تھا؟ نہ ہم اس امر کی خبر رکھتے ہیں کہ اس میں کیا پھٹا تھا؟ نہ ہم یہ جان سکیں ہیں کہ یہ ہوا کیسے تھا؟ جو بات ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں وہ بس یہ ہے کہ ہر چیز یک دم ایک دھماکے سے وجود میں آ گئی۔ پہلے سیکنڈ کی شروعات جب ہوئی اس وقت ، زمانے نے اس وقت مقرر سے سفر شروع کیا تھا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب - ہر وہ چیز جس کو ہم آج قابل مشاہدہ کائنات میں دیکھتے ہیں، یعنی کہ سینکڑوں ارب ہا کہکشائیں جس میں ہر ایک کہکشاں میں سینکڑوں ارب ہا ستارے موجود ہیں یہ سارا مادّہ جس کا ادرک کرنا انسانی فہم سے کہیں بلند ہے ایک ایسے علاقہ میں منقبض تھا جو لامحدود طور پر چھوٹا تھا۔

    اپنے تخلیق کے پہلے سیکنڈ میں کائنات کا جتنا ارتقاء ہوا وہ اس وقت سے لے کر اس کے انجام تک ہونے والے ارتقاء سے کہیں زیادہ تھا۔ کائنات کے جنم کا پہلا سیکنڈ کائنات کی زندگی میں موجود ہر سیکنڈ سے سب سے زیادہ اہم ہے۔ کائنات اپنی پیدائش کے پہلے سیکنڈ میں اتنے مرحلوں سے گزری ہے جتنی وہ اس وقت سے لے کر آج تک کے وقوع پذیر ہونے والے مرحلوں میں نہیں گزری ہوگی۔ یہ سب کچھ اس قدر تیزی سے واقع ہوا تھا کہ سائنس دانوں کو اس پہلے سیکنڈ کو سمجھنے کے لئے وقت کی ایک نئی اکائی کی ضرورت پڑ گئی ہے۔ بنی نوع انسان کے لئے ایک سیکنڈ تو پلک جھپکتے میں گزر جاتا ہے مگر کائنات میں اتنے صغیر وقت میں بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ 

    ہم اپنی زندگیاں ، گھنٹوں، منٹوں اور سیکنڈوں میں ناپتے ہیں۔ مگر وقت کے یہ پیمانے تخلیق کے وقت کے پیمانوں کے آگے بیکار ہیں کیونکہ بگ بینگ میں کائنات یکدم وجود میں آ گئی تھی۔ ہم نے کائنات کی تخلیق سے متعلق اپنی سمجھ بوجھ کو سیکنڈ کے دسویں حصّے سے، سینکڑ ویں حصّے سے کروڑ ویں حصّے سے، اربویں حصّے سے یا اس سے بھی پہلے اس حصّے سے جہاں طبیعیات کے مروجہ قوانین جن کو ہم جانتے ہیں کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں وہاں سے لی ہے۔ اتنا دور جانے کے لئے وقت کو ناقابل تصوّر چھوٹے حصّوں میں بانٹنا ہوگا جس کا نام سائنس دانوں نے پلانک وقت رکھا ہے۔ پلانک وقت 10-43 سیکنڈ سے شروع ہوتا ہے ۔ ایک سیکنڈ میں ایک ارب ارب ارب ارب ارب پلانک وقت ہوتا ہے ۔ کائنات کی تخلیق سے لے کر اب تک صرف ایک ارب ارب سیکنڈ ہی گزرے ہیں۔ پہلے سیکنڈ سے لے کر آج تک گزرنے والے تمام سیکنڈ اس ایک سیکنڈ میں موجود پلانک اکائیوں سے کہیں زیادہ کم ہیں جتنے پلانک وقت کی اکائیاں ایک سیکنڈ میں ہوتی ہیں۔ وقت کو اس قدر چھوٹے پیمانے پر توڑنے کے بعد ہم کائنات کی تخلیق کا لمحہ بہ لمحہ تصوّر کر سکتے ہیں۔ یہاں سے آگے ہم اپنی آسانی کے لئے اس کو پلانک وقت کو پلانک سیکنڈ کہیں گے ۔

    شروعات میں مکان و زمان ایک لامحدود و لامتناہی چھوٹے سے خالص توانائی کے نقطے میں لپٹے ہوئے تھے۔ پلانک وقت کی گھڑی چلنے کے ساتھ ہی زمان و مکان کی گرہ کسی طرح سے پھٹ کر کھل آ گئی۔ یہ بات یاد رکھنا انتہائی ضروری ہے کہ بگ بینگ خلاء میں ہوتا ہوا کوئی دھماکا نہیں تھا بلکہ اس دھماکے کے نتیجے میں خلاء وجود میں آئی تھی۔ پلانک وقت کی گھڑی میں جیسے ہی پہلا پلانک سیکنڈ مکمل ہوا ، سارا کا سارا خلاء یکدم پھیل گیا۔ ہر جگہ کائنات ایک دم سے نمودار ہو گئی۔ اس میں سب سے حیرت انگیز بات جو ا ہے وہ یہ ہے کہ بگ بینگ جس طرح سے ہماری ناک کے نیچے وقوع پذیر ہوا ویسا ہی یہاں سے ٥ ارب سال کی دوری پر ہوا۔ خلاء میں موجود ہر ایک نقطہ بگ بینگ کے عمل میں شامل تھا۔ لہٰذا ہم یہ بات انتہائی وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ ایسا نہیں تھا کہ بگ بینگ میں کائنات کسی گیند کی مانند پھیلی جس کا کوئی اس کے باہر سے کھڑے ہو کر مشاہدہ سکے۔ کوئی بھی جگہ بگ بینگ سے باہر نہیں ہے۔

    کچھ سائنس دان سمجھتے ہیں کہ تخلیق کے اس اوّل اور فوری عمل میں ایک زبردست طاقت کائنات کی ہر چیز پر حکمرانی کر رہی تھی۔ سائنس دانوں کے مطابق ابتدائی کائنات ایک بے عیب اور بے نقص ہونے کا کامل نمونہ تھی۔ ایک واحد اور اکیلی قوّت بگ بینگ کے ساتھ موجود تھی۔ جیسے ہی پہلا پلانک سیکنڈ گزرا ویسے ہی کسی چیز نے اس عظیم قوّت کو شق کر دیا جس نے اس بے عیب اور بے نقص حالت کو شیشے کے گھر کی طرح چکنا چور کر دیا۔ ٹھنڈی ہوتی کائنات کے ساتھ یہ مختلف قوّتیں منجمد ہو گئیں۔ منجمد ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے ایک دوسرے سے مختلف برتاؤ کرنا شروع کر دیا۔ اس بات کو ہم ایک مثال سے سمجھ سکتے ہیں ۔ ذرا بھاپ کا تصوّر کریں اگر ہم اس کو ٹھنڈا کریں گے تو وہ مائع کی شکل اختیار کر لے گی ۔ مزید براں اس کو اور ٹھنڈا کیا جائے گا تو وہ ٹھوس حالت میں آ جائے گی۔ بعینہ اسی طرح جب کائنات ٹھنڈی ہونا شروع ہوئی تو مختلف قوّتیں ایک دوسرے سے الگ ہو کر علیحدہ ہو گئیں۔

    جب ایک عظیم طاقت شق ہو کر مختلف قوّتوں میں تبدیل ہوگی تو پھر ایک نئی طاقت جس کا نام قوّت ثقل تھا ظاہر ہوئی جس نے کائنات کی بھاگ دوڑ اور کمان کو سنبھالنا تھا تاکہ وہ کائنات کو ڈھال سکے ۔یہ نئی طاقت مادّے کو سیاروں، ستاروں اور کہکشاؤں کی شکل دے سکتی تھی۔ اگر اس وقت جاذبی قوّت کی قیمت اپنی موجودہ شرح سے تھوڑا سا بھی زیادہ ہوتی تو بگ بینگ شروع ہوتے ہی رک جاتا اور واپس ایک عظیم سمٹاؤ میں بدلتا ہوا منہدم ہو جاتا۔ زندگی کی شروعات ناممکن ہوتی۔ اگر ثقلی طاقت اپنی موجودہ قیمت سے تھوڑی سی بھی کمزور ہوتی تو بگ بینگ مسلسل جاری رہتا جس کے نتیجے میں کائنات ٹھنڈی ہو کر اپنے انجام کو پہنچ جاتی۔ مگر قوّت ثقل اس عظیم قوّت سے بالکل بعینہ طاقت کے ساتھ الگ ہوئی تاکہ کہکشائیں، ستارے اور زندگی کو جنم دے سکے۔ لہٰذا ہم یہ بات بالکل دھڑلے سے کہہ سکتے ہیں کہ ہماری کائنات بالکل انتہائی درست جزئیات کے ساتھ تخلیق کی گئی۔

    کائنات اتنے متوازن انداز میں آہستگی کے ساتھ پھیلی جس کے نتیجے میں ڈی این اے اور اس زندگی کی تخلیق ممکن ہو سکی جو آج ہم جگہ جگہ دیکھتے ہیں۔ جاذبی قوّت ہماری کائنات کی ایک انتہائی کامل قوّت تو ہو سکتی ہے مگر یہ کائنات پر اپنی فرمانروائی چلانے والی واحد طاقت نہیں ہے۔ ایک کروڑ پلانک سیکنڈ گزرنے کے بعد ایک رفیع الشان واقعے نے کائنات کی تاریخ میں اچانک تیزی سے نمو پاتے ہوئے شروع ہونے کا آغاز کر دیا تھا ۔ اس وقت تک کائنات کی تاریخ کا پہلا سیکنڈ شروع ہی ہوا چاہتا تھا ۔ اور وقت کا صغیر ترین پیمانہ پلانک وقت ابھی کچھ کروڑ پلانک سیکنڈ تک ہی گزرا تھا۔ کائنات اس وقت تک ایک بہت عظیم درخشاں گرم گیند کی مانند تھی جو ایک ایٹم سے بھی ارب ہا گنا زیادہ چھوٹی تھی اور اس کی کمیت ہمارے تصوّر سے بھی زیادہ بلند تھی۔ قوّت ثقل نے کائنات کے مستقبل کو ڈھالنا شروع کر دیا تھا۔ لیکن کائنات کے پھیلاؤ کے ساتھ ہی درجہ حرارت گر تا گیا۔ اسی وقت ایک اور قوّت نمودار ہوئی جس کا نام مضبوط نیوکلیائی طاقت تھا۔ اس مضبوط نیوکلیائی طاقت کے بغیر ، ایٹموں کے مرکزے الگ الگ ہو جاتے۔ تین قوّتیں جن میں قوّت ثقل، مضبوط نیوکلیائی طاقت اور ٹوٹی ہوئی عظیم طاقت شامل تھیں کائنات کی تخلیق کے اگلے سنگ میل کو عبور کرنے تک اس پر اپنی حکمرانی چلا رہی تھیں۔ اس اگلے سنگ میل پر پہنچنے پر ہی انھوں نے کائنات کو کہکشاؤں سے بھرنے کے تفصیلی منصوبے بھی تیار کرنے تھے ۔

    سائنس دان سمجھتے ہیں کہ یہ واقعہ اس لئے رو نماء ہوا تاکہ یہ ایک طویل عرصے تک رہنے والی پہیلی کو بیان کر سکے۔ کائنات میں ہم جہاں کہیں بھی نظر دوڑاتے ہیں ہم کو ارب ہا کہکشائیں ایک ہی طرح سے پھیلی ہوئی نظر آتی ہیں ہر سمت لگ بھگ ایک جیسی ہی تعداد ملتی ہے۔ کوئی بھی یہ بات نہیں بتا سکتا کہ ایسا کیوں ہے؟ کائنات کے یہ تمام حصّے ماضی کے کسی وقت میں ضرور کسی ایک جگہ پر آپس میں موجود رہے ہوں گے۔ اس بات کو ہم اس ایک مثال سے سمجھ سکتے ہیں ۔ فرض کریں دو آدمی ایک شہر کے دو مختلف کونوں میں رہتے ہیں جو صبح ایک ساتھ اٹھتے ہیں، ناشتہ بھی ایک جیسا اور ایک ساتھ کرتے ہیں ، کپڑے بھی ایک جیسے ہی پہنتے ہیں اور حیرت انگیز طور پر وہ ایک دوسرے سے ملتے یا بات چیت بھی نہیں کرتے ۔ لہٰذا ہم یہ بات سوچنے پر مجبور ہیں کہ کہیں ان دونوں کے ماضی میں کوئی ایسا تعلق ہے جس کی وجہ سے ان میں مشترکہ چیزیں پائی جاتی ہیں۔


    یہ مسئلہ حل طلب ہے۔ اس مسئلے کا حل ١٩٧٩ میں ایک نوجوان ماہر کونیات نے جس کا نام ایلن گتھ تھا پیش کیا۔ اس نے اس مسئلہ کے حل کو "کائنات کا افراط زدہ پھیلاؤ" کا نام دیا۔ یہ بہت ہی شاندار حل تھا ۔ سائنس دانوں کو یکدم لگا کہ جیسے انھیں کائنات کے ایک بہت ہی اہم راز کو دریافت کرنے کی چابی مل گئی تھی لیکن ساتھ ساتھ ہی وہ بہت زیادہ پریشان اور متذبذب بھی تھے کہ پتا نہیں یہ حل ٹھیک بھی ہے یا نہیں کیونکہ یہ حل بالکل ہی نیا تھا۔ گتھ نے اس بات کا تخمینہ لگایا تھا کہ نوزائیدہ کائنات ایک بہت ہی زبردست نمو کے دور سے گزری تھی۔ کائنات کا افراط زدہ پھیلاؤ کائناتی تاریخ میں وہ لمحہ تھا جب ابتدائی کائنات کا پھیلاؤ اچانک سے اسراع پذیر ہو گیا۔ اور وہ ایک مختصر ترین وقفے میں ہی انتہائی بڑی ہو گئی تھی ۔ بگ بینگ کی شروعات سے گزرنے کے صرف ایک کروڑ پلانک سیکنڈ بعد ہی خلاء کی چھوٹی سی مقدار اچانک سرعت رفتار سے پھیلنا شروع ہو گئی تھی ۔ یہ افراط اتنا سرعت رفتار تھا کہ پھیلی ہوئی افراتفری اچانک غائب ہوگی اور ہر چیز میں نظم و ضبط قائم ہو گیا اور اس کے نتیجے میں ہماری کائنات کے جزو ترکیبی یکساں طور پر خلاء میں پھیل گئے اور انہوں نے اپنی اپنی جگہیں سنبھال لیں۔

    ان ابتدائی لمحات میں جب کائنات ٹھنڈی ہو رہی تھی تو اس نے اپنا حجم ١٠ کے آگے اگر ہم ٩٠ صفر لگا دیں تو اس کی نسبت سے ایک سیکنڈ کے دس لاکھویں حصّے کے ایک اربویں حصّے کے ایک اربویں حصّے میں بڑھا لیا۔ اس بات کو سمجھنا اور ہضم کرنا انسانی دماغ کے بس کی بات نہیں ہے مگر ہم اس کو ایک مثال سے تھوڑا بہت سمجھ سکتے ہیں۔ فرض کریں کے ریت کا ایک ذرّہ روشنی کی بھی رفتار سے سوجھتا ہوا سورج سے بھی بڑا ہو جائے۔ اب اس مثال میں جو ایک قباحت ہے وہ یہ کہ آئن سٹائن کا ایک کلیہ یہ بات کہتا ہے کہ کوئی بھی چیز روشنی کی رفتار سے تیز سفر نہیں کر سکتی ، یہ مثال اس سے انحراف کرتی ہے کیونکہ اس میں ریت کے ذرّے نے بڑے ہوتے ہوئے روشنی کی رفتار کو پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔ کوئی بھی چیز روشنی کی رفتار سے تیز نہیں جا سکتی ۔ بگ بینگ سے متعلق ایک پراسرار نقطہ یہ ہی ہے کہ خلاء نے روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ تیزی سے اپنا پھیلاؤ کیا۔ خلاء اس طرح سے پھیل سکتی ہے کہ اس میں موجود دو اجسام آپس میں ایک دوسرے سے روشنی کی رفتار سے بھی تیز دور جا سکتے ہیں۔ مگر درحقیقت وہ خود حرکت میں نہیں ہوتے بلکہ یہ تو خلاء ہوتی ہے جو ان کے درمیان آکر پھیل جاتی ہے۔

    گتھ کے شہرہ آفاق نظریہ میں افراط زدہ کائنات ہمارے تخیل کو اس آخری حد تک لے جاتی ہے جہاں سے کائنات کے ابتدائی لمحے کی شروعات ہوتی ہے۔ اب بات ہوتی اس نظریے کی جانچ کی۔ کیا ہم اس نظریے کو کبھی جانچ سکیں گے ؟کیا ہم کائنات کے اوّلین لمحے میں جھانک سکیں گے ۔حیرت انگیز طور پر اس بات کا سراغ ٹی وی میں موجود برق سکونی میں چھپا ہے۔ ٹی وی ا سکرین پر موجود برق سکونی کا ایک فیصد بگ بینگ سے پیدا شدہ روشنی کا ہے۔ ١٩٦٤ میں آرنو پنز یاس اور رابرٹ ولسن خلاء سے آتی ہوئی ریڈیائی لہروں کو سن رہے تھے اس دوران انھیں خلاء میں ہر جانب سے ایک ہم م م ۔۔۔ جیسی آواز پیش منظر میں سنائی دے رہی تھی۔ اس آواز سے پریشان ہو کر جب انہوں نے کھوج کی تو انھیں لگا کہ یہ ساری بدمعاشی کبوتروں کی بیٹ کی ہے جو انہوں نے انٹینے پر کی ہوئی ہے۔ لہٰذا انہوں نے کبوتروں کی بیٹ کو صاف کیا مگر مسئلہ پھر بھی حل نہیں ہوا بلکہ اس سے پیش منظر ہم م م جیسی آواز اور صاف آنے لگی۔ ایک قصّے کے مطابق جب وہ اپنی اس کھوج کو پرنسٹن میں بتا رہے تھے تو وہاں پر موجود ایک ماہر طبیعیات نے اپنا ہاتھ اٹھا کر کہا کہ یا تو آپ پرندوں کی بیٹ کا اثر سن رہے ہیں یا پھر کائنات کی تخلیق کے وقت کی آواز۔


    پنز یاس اور ولسن نے بگ بینگ کے نتیجے میں بننے والی آگ کی گیند سے نکلنی والی چیز کو کھوج لیا تھا۔ کائنات پھیلنے کے ساتھ ٹھنڈی ہوتی چلی گئی۔ اپنی پیدائش کے کچھ لاکھوں سال بعد تک کائنات میں پروٹون اور الیکٹران ہی ٹامک ٹوئیاں مار رہے تھے۔ مگر پھر ایک وقت ایسا آیا جب کائنات اتنی ٹھنڈی ہو گئی کہ الیکٹران اور پروٹون اس پوری کائنات میں یکدم ایک ساتھ ملاپ کر سکیں۔ اسی وقت کائنات شفاف سی ہو گئی تھی ۔ یوں سمجھ لیں کہ اچانک ایک عظیم دھند چھٹ گئی۔ اس دھند سے پہلے صرف چند قدم دور تک ہی دیکھا جا سکتا تھا۔ مگر دھند چھٹنے کے ساتھ ہی ہر چیز صاف شفاف ہو گئی تھی ۔ بگ بینگ ہونے کے تین لاکھ اسی ہزار سال بعد ایسا ہی ہوا تھا۔ سائنس دان ان شعاعوں کو کائناتی پس منظر خرد موجی اشعاع کہتے ہیں۔ یہ اشعاع بغیر کسی رکاوٹ کے جب سے ہی خلاء میں محو سفر ہیں ۔

    سائنس دانوں کے خیال میں اگر ہم تاریخ کی چند عظیم دریافتوں کی فہرست بنائیں تو اس میں سے ایک شاید ڈی این اے ہوگا جبکہ دوسری دریافت ان کائناتی پس منظر کی خرد موجی اشعاع کی ہو سکتی ہے۔ اس بات سے ہم اس دریافت کی عظمت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ کائناتی پس منظر کی خرد موجی اشعاع پہلی دفعہ بگ بینگ کے وقوع ہونے کے تین لاکھ اسی ہزار سال بعد پیدا ہوئیں۔ مگر ان پر اس وقت سے کہیں پہلے کی مہر لگی ہوئی ہے جب افراط زدہ کائنات کی ساخت ڈھل رہی تھی۔ اگر کائنات کی افراط پذیری کا کوئی راز ہے تو وہ ان موجوں میں ہی چھپا ہوا ہوگا۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ سائنس دان اس کا اور قریب سے جائزہ لیں۔ اس وقت سے جب نوزائیدہ کائنات ایک سیکنڈ کے دس کھرب دس کھرب دس کھرب جتنی عمر کی تھی۔ یہ تاریخ میں ہونے والی سب سے عظیم نمو تھی اور کائنات روشنی کی رفتار سے بھی تیزی سے پھیل رہی تھی۔ اور اس بات کا راز ان کائناتی پس منظر کی خرد موجوں میں چھپا ہوا تھا جو کائنات میں پیدا ہونے والی اوّلین شعاعیں تھیں۔ اس راز پر سے پردہ اٹھانے کے لئے سائنس دانوں کو اس کی سب سے بہترین تصویر جو وہ حاصل کر سکتے تھے چاہئے تھی۔

    مئی ٢٠٠٩ء میں یورپین خلائی ایجنسی نے ایک مصنوعی سیارہ خلاء میں بھیجا جس کا نام پلانک تھا۔ اس کا کام سورج کے گرد چکر لگاتے ہوئے قابل مشاہدہ کائنات کا درجہ حرارت درج کرنا تھا۔ یہ اس قدر حساس آلات سے لیس تھا کہ کائناتی پس منظر خرد امواج کا درجہ حرارت ڈگری کے دس لاکھویں حصّے تک ناپ سکتا ہے۔ اس سیارچے سے حاصل کردہ تصویر میں نیلا رنگ ٹھنڈے علاقوں کی جبکہ لال رنگ گرم حصّوں کو ظاہر کر رہا ہے ۔لال علاقوں میں کہکشانی جھرمٹ بننے ہیں۔ یہ نقشہ ایک طرح سے ہماری کائنات کا تفصیلی خاکہ ہے جو ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ہماری کائنات نے کس ساخت میں ڈھل کر ارتقاء پذیر ہونا ہے۔ جب ہم اس نقشے کو دیکھتے ہیں تو ایک طرح سے ہم ماضی میں جھانک رہے ہوتے ہیں اور تخلیق کے اوّلین وقت کی بازگشت کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ پلانک نے اس نقشے میں جو چھوٹے چھوٹے فرق دیکھے ہیں یہ ہی وہ جگہیں ہیں جنہوں نے آگے چل کر کائنات کو کہکشاؤں سے بھرنا تھا۔ اس بات کو افراط زدہ کائنات کا نظریے بالکل ٹھیک طرح سے بیان کرتا ہے۔ مگر سائنس دانوں کو کسی ایسی چیز کی تلاش ہے جو سائنسی قصّوں سے ہٹ کر ایسا ثبوت ہو جو اس بات کی حقانیت کو ثابت کر سکے جیسے کہ ثقلی موجیں۔

    اس نظریے کی جانچ کا ایک طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ شاید ہم ان ثقلی موجوں کو دیکھ سکیں جو کائنات کے افراط زدہ دور کے بعد پیدا ہوئی ہوں۔ ثقلی موجیں خلاء کو پھیلاتی اور سکیڑتی ہیں۔ یہ خلاء میں ایسے سفر کرتی ہیں جیسے لہریں کسی تالاب میں سفر کرتی ہیں ۔ سائنس دانوں کو پورا یقین ہے کہ یہ ثقلی موجیں افراط زدہ کائناتی دور میں ہوئے ہنگامے کا دوران پیدا ہو کر کائنات میں گونج رہی ہیں ۔ اگر ہم ان کا مشاہدہ کر نے کے قابل ہو گئے تو اس کا مطلب ہوگا کہ افراط زدہ کائنات کا نظریے درست ہوگا۔ اگرچہ سائنس دانوں کو کامل یقین ہے کہ افراط زدہ کائنات کا نظریے سچا ثابت ہوگا ۔

    مارچ ٢٠١٤ میں ایلن گتھ کے نظریے کو پیش کرنے کے ٣٠ سال بعد قطب جنوبی میں لگی ہوئی دوربین نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ۔ اس دن سائنس دان اس بات کا اعلان کرنے والے تھے کہ انہوں نے اس بات کی دریافت کر لی تھی کہ کائنات کے اس اوّلین وقت میں جب بگ بینگ واقع ہوا تھا کیا چل رہا تھا۔ افراط زدہ کائنات کا وہ دور بہت ہی زیادہ شورش زدہ تھا کائنات کے مختلف حصّے ایک دوسرے سے مختلف رفتار سے پھیل رہے تھے مگر سب کے سب روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ تیزی سے پھیل رہے تھے ان کے پھیلنے کی رفتار کا فرق ہی ثقلی موجوں کو پیدا کرنے کا سبب بنا تھا۔ اور انہی ثقلی موجوں نے کائناتی پس منظر اشعاع میں اپنی مہر ثبت کردی تھی جس کو ہم آج دیکھ سکتے ہیں۔ سائنس دان اس دریافت سے بہت ہی زیادہ شاد تھے۔ حاصل کردہ مواد کائنات کے افراط کے دور کے نظریے کو ثابت کرنے کے لئے بالکل صحیح تھا۔ سائنس دانوں نے کائنات کے افراط کے دور کے نظریے کو اپنی اس دریافت سے عین ہم آہنگ پایا اور اس دریافت کے ساتھ ہی یہ بات بھی ثابت ہو گئی کہ کائنات میں افراط زدہ دور ضرور وقوع پذیر ہوا تھا۔

    افراط زدہ کائنات کا نظریہ ہمیں بتاتا ہے کہ پوری کائنات میں کہکشائیں کیوں اس قدر ہموار طریقے سے پھیلی ہوئی ہیں ۔ ایک سیکنڈ کے چھوٹے سے حصّے میں ایک انتہائی چھوٹی سی خلاء پوری قابل مشاہدہ کائنات میں بدل گئی۔ بہت ہی زیادہ حیران کر دینے والے اشارے بھی ملے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ صرف قابل مشاہدہ کائنات ہی اس افراطی دور سے نہ گزری ہو بلکہ کچھ سائنس دانوں کے مطابق خلاء کے وہ دوسرے حصّے جو ہم سے نہایت دور واقع ہیں اور جن کی روشنی ہم تک کبھی نہیں پہنچ سکے گی وہ بھی نا صرف افراط زدہ دور سے گزرے ہوں گے بلکہ وہاں اب بھی افراط زدہ دور چل رہا ہوگا۔ سب سے عمیق بات جو اس افراط زدہ دور کی ہے وہ یہ کہ بس اس کے ایک دفعہ شروع ہونے کی دیر ہے پھر اس کو روکنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔ افراط زدہ دور کہیں بھی نہیں رکتا۔ جہاں افراط زدہ دور رکتا ہے اس جگہ ایک کائنات بنا دیتا ہے۔ افراط زدہ دور ہمیشہ کے لئے مختلف کائناتیں بناتا ہوا چلا جاتا ہے۔ حقیقت میں افراط زدہ دور نے ہمارے عظیم اور بڑے بگ بینگ کو بنایا اور بغیر رکے اس نے اور بہت سے بگ بینگ بنا دیے جنہوں نے کائنات کے بڑے مجموعے بنا ڈالے - متعدد کائناتیں ۔


    ہماری لامحدود کائنات ان متعدد کائناتوں میں سے ایک کائنات ہو سکتی ہے یہ ایک ایسی چیز ہے کہ انسانی دماغ اس کا ادرک ہی نہیں کر سکتا ۔ کچھ سائنس دانوں کے مطابق نا صرف متعدد کائناتیں ہو سکتی ہیں بلکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہر ممکن کائنات موجود ہو سکتی ہے ۔ ہوبہو ہمارے جیسے لوگ ان دوسری کائناتوں میں ہمارے ساتھ متوازی ہر قسم کی ممکنہ زندگی ہر قسم کے ممکنہ عالم میں گزار رہے ہوں گے یہ خیال ہی ہمارے دماغ کو بھک سے اڑا دینے والا ہے۔

    اب جبکہ ہمارے پاس افراط زدہ دور کے موجود ہونے کا زبردست ثبوت آگیا ہے لہٰذا متعدد کائنات کے نظریے پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ جب کائنات ایک سیکنڈ کے دس کھربویں حصّے کے دس کھربویں حصّے سے بھی چھوٹی تھی اس قلیل عرصے میں اس نے کہکشاؤں کے بیج بھی بو دیے تھے۔ مگر اس وقت تک ہر چیز خالص توانائی پر مشتمل تھی لہٰذا یہ تمام مادّہ جو آج ہمیں نظر آتا ہے جس سے ستارے میں اور آپ مل کر بنے ہیں کہاں سے آیا؟ ہم کائنات کی تخلیق کے اوّلین لمحے کے سفر پر ہیں۔ کائنات ابھی ایک سیکنڈ کے دس کھربویں حصّے کے دس کھربویں حصّے کے دس کھربویں حصّے جتنی عمر کی ہے۔ درجہ حرارت اس وقت ایک لاکھ کھرب کھرب ڈگری تک جا پہنچا تھا ۔ نوزائیدہ کائنات اس وقت روشنی کی رفتار سے بھی تیزی سے پھیل رہی تھی اور ساتھ ساتھ زبردست توانائی خلاء میں پھینک رہی تھی۔ لیکن اس زبردست پھیلاؤ کے باوجود کائنات کا حجم ایک بیس بال کی گیند جتنا ہی تھا۔

    افراط زدہ دور کا نظریے ہمیں بتاتا ہے بہت ہی تھوڑے عرصے کے لئے خلاء کو توانائی ملی۔ لیکن ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ کائنات نے خلاء میں توانائی کو بھرنا شروع کر دیا تھا جس سے وہ تمام چیزیں پیدا ہوئیں جنھیں ہم آج دیکھتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ عدم سے زبردست تعداد میں کسی چیز نے طبیعیات کے قوانین کو توڑے بغیر جنم لے لیا ۔ یہ جادو کے جیسا ہی ہے۔ ہم نے کہا جیسا اور یہ ہی اہم بات ہے۔ قوانین طبیعیات اس بات کی اجازت دیتے ہیں۔ جیسے ہی افراط زدہ دور ختم ہوا ویسے ہی روشن ترین جھماکے نے کائنات کو اشعاع سے بھر دیا۔

    کائنات اپنی تخلیق کے پہلے سیکنڈ میں ناقابل تصوّر طور پر گرم اور کثیف تھی۔ اصل میں وہ توانائی کی ایک گیند سی تھی۔ یہ کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں ہم انسانوں کا کوئی کام ہو۔ وہاں پر موجود کوئی بھی جاندار فورا ہی ہوا میں تحلیل ہو جاتا۔ تابکاری سے بھری ہوئی کائنات اس مادّے سے بھری کائنات سے بالکل ہی الگ تھی جس کا ہم آج مشاہدہ کرتے ہیں۔ بہت زیادہ گرم ہونے کی وجہ سے ایٹم بننا بھی ناممکن تھے۔ اس مادّے کو جس سے ہم شناسا ہیں اس وقت وجود نہیں رکھتا تھا۔ کائنات اشعاع کا ایک کھولتا ہوا شوربہ تھا۔ ابتدائی کائنات توانائی کا پر ہنگام مجموعہ تھی۔ مگر پھر یہ توانائی کیسے اس مادّے میں بدل گئی جو ہمیں آج نظر آتا ہے۔ اس سوال کا جواب کے لئے کہ توانائی مادّے میں کیسے تبدیل ہوئی ہمیں مشہور سائنس دان آئن سٹائن کی مشہور زمانہ مساوات کو سمجھنا ہوگا۔ آئن سٹائن کی پیش کردہ اس مساوات سے پہلے لوگ کہتے تھے مادّہ، مادّہ ہوتا ہے اور توانائی ،توانائی ہوتی ہے اور یہ دونوں جدا ہوئی چیزیں مل کر کبھی ایک نہیں ہو سکتیں۔ آئن سٹائن نے اپنی اس مساوات سے ثابت کر دیا کہ یہ دونوں ایک ہی چیز کی مختلف شکلیں ہیں۔

    آئن سٹائن یہ بات سمجھ گیا تھا کہ مادّہ مرتکز کی ہوئی توانائی ہے۔ مادّے اور توانائی سے متعلق اس بصیرت نے کائنات کو سمجھنے کا ہمارا انداز بالکل بدل دیا اور ہمیں اس قابل کر دیا کہ ہم ایک مادّے سے توانائی کی بپھری ہوئی شکل نیوکلیائی بم کی صورت میں حاصل کر لیں۔ توانائی مادّے میں اور مادّہ توانائی میں بدل جاتا ہے۔ ایک چھوٹے سے چائے کے چمچے جتنے مادّے سے سینکڑوں ہائیڈروجن بموں جتنی قوّت حاصل کی جا سکتی ہے۔ نیوکلیائی بم مادّے کو توانائی میں بدل دیتے ہیں لیکن بگ بینگ میں الٹا کام ہو رہا تھا یعنی کہ توانائی نے مادّے میں ڈھالنا شروع کر دیا تھا۔ مگر وہ مادّہ اس مادّے سے بہت الگ تھا جسکا مشاہدہ ہم آج کی دنیا میں کرتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہ مادّہ آج دکھائی دینے والے مادّے جیسا نہیں تھا تو پھر کیسا تھا؟


    بروک ہیون نیشنل لیبارٹری ، امریکی شہر نیو یارک میں واقع ہے جہاں اضافیتی برق پارہ اسراع گر موجود ہے ۔ یہاں پر سائنس دان اس بات کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ کائنات کے اس ابتدائی لمحے جیسا خام مادّہ بنا سکیں جو اس وقت موجود تھا جب کائنات کی عمر بگ بینگ کے بعد ایک سیکنڈ کے دس لاکھویں حصّے جتنی تھی۔ اضافیتی برق پارہ اسراع گر ایک طرح سے ٹائم مشین کی طرح سے ہے۔ سائنس دان یہاں پر وہ ماحول پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو بگ بینگ کے بعد ایک مائیکرو سیکنڈ گزر جانے کے بعد موجود تھا۔ اضافیتی برق پارہ اسراع گر پہلے تو سونے کے مرکزے٧٨ ہزار فی سیکنڈ لگ بھگ ٢١۔٥ میل کی دائروی سرنگ میں روشنی کی رفتار سے پھینکتی ہے۔ پھر وہ ان کو ایک دیو ہیکل ستارہ سراغ رساں میں آپس میں ٹکراتی ہے۔ ذرا اس بات کا تصوّر کریں جب دو کاریں آپس میں سیدھی آکر ٹکرائیں اور ان کے حاصل کردہ ملبے سے یہ اندازہ لگایا جائے کہ آخر وہ کاریں ٹکرانے سے پہلے کس شکل و صورت کی تھیں۔ بالکل اسی طرح سے سائنس دانوں کی ٹیم یہاں اضافیتی برق پارہ اسراع گر میں کام کرتی ہے۔ وہ مادّے کے بنیادی ذرّے پروٹون کو ٹکراتی ہیں اور پھر ان کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑوں کا پیچھا کرتی ہیں۔ وہاں ہونے والا ہر ٹکراؤ ایک دوسرے سے بالکل الگ ہوتا ہے۔ کچھ ٹکراؤ میں ان کو زیادہ چیزیں دیکھنے کو مل جاتی ہیں ۔ ٹکراؤ سے حاصل کردہ اعداد و شمار کو کمپیوٹر کی اسکرین پر سافٹ ویئر کی مدد سے دیکھا جاتا ہے جہاں خم شدہ لکیریں ان ذرّات کو ظاہر کرتی ہیں جو اس تصادم کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہیں۔ ہر تصادم مختلف تعداد میں ذرّے پیدا کرتا ہے جس کا انحصار تصادم کی شدّت پر ہوتا ہے۔

    اس تجربہ گاہ میں موجود سائنس دان مائک اور ان کے رفقائے کاروں نے سب سے بنیادی ذرّات یعنی کہ کوارک کی پھوار کو ہوتے ہوئے دیکھا۔ کوارک پروٹون اور نیوٹران کو مل کر بناتے ہیں۔ مگر انہیں اگر کافی توانائی ڈی جائے تو یہ الگ الگ ہو سکتے ہیں۔ سائنس دان اس بات کی امید کر رہے تھے کہ ایک دفعہ یہ پروٹون اور نیوٹران سے الگ ہو کر آزاد ہو جائیں تو پھر یہ آپس میں ایک دوسرے سے زیادہ تعامل نہیں کریں گے۔ ان تجربات میں سائنس دانوں کو کرۂ ارض کی تاریخ میں سب سے زیادہ مکمل سیال دریافت ہوا۔ یہ پانی سے بھی زیادہ آسانی سے بہہ سکتا تھا۔ یہ بہت ہی حیرت انگیز تھا۔ اضافیتی برق پارہ اسراع گر نے بنیادی ذرّات کا مکمل سیال بالکل ویسا ہی بنا دیا تھا جیسے بگ بینگ کے پہلے سیکنڈ کے دس لاکھویں حصّے میں بنا ہوگا۔ مگر بگ بینگ کے پہلے سیکنڈ میں بننے والی ہر چیز کی طرح اس کی عمر بھی کچھ زیادہ نہیں تھی اور یہ جلد ہی غائب بھی ہو گیا تھا ۔

    پھیلتی ہوئی کائنات نے ٹھنڈا ہونا شروع کیا۔ اور اس وقت نیوکلیائی مضبوط قوّت نے اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔ سب سے زیادہ اہم خاصیت جو مضبوط نیوکلیائی قوّت کی ہے وہ یہ کہ یہ کوارک کو پروٹون اور نیوٹران میں قید کریدتی ہے۔ جب کائنات کا درجہ حرارت ٢٠ کھرب ڈگری ہو گیا تھا تو مضبوط نیوکلیائی قوّت نے کوارک کو تین تین کی ٹولیوں میں جمع کرکے ایٹم کی بنیادی اینٹیں یعنی نیوٹران اور پروٹون کو بنا دیا تھا ۔ کائنات نے وہ شکل نکالنی شروع کردی تھی جس کا مشاہدہ ہم آج کے دور میں کرتے ہیں۔ پوری کائنات میں مادّہ ایک ساتھ وجود پا رہا تھا لہٰذا کوئی ایسی چیز بھی موجود تھی جو اس وقت بھی غائب تھی ۔اس وقت بنے ہوئے مادّے کی کمیت کچھ نہیں تھی۔

    کائنات اپنی تخلیق کے پہلے سیکنڈ سے تیزی سے گزر رہی تھی ۔ اس نے اپنی شروعات ایک پروٹون سے بھی ایک ارب ارب گنا زیادہ چھوٹے نقطے سے کی تھی۔دھماکے سے پھیلتی ہوئی افراط زدہ دور سے گزرتی ہوئی کائنات ، روشنی کی بھی رفتار سے تیز ہمارے نظام شمسی کے جتنی بڑی ہو گئی تھی۔ مادّے نے ظاہر شکل و صورت اختیار کرنا شروع کردی تھی ۔لیکن وہ مادّہ بہت ہی زیادہ عجیب یوں تھا کہ اس کی کوئی کمیت ہی نہیں تھی ۔ آج کی موجودہ کائنات میں مادّے کی کمیت موجود ہوتی ہے۔ زمین پر ہم اسے وزن کی صورت محسوس کرتے ہیں ۔ خلاء میں کوئی بھی چیز وزن کے بغیر لگتی ہے مگر اس کے باوجود اس کی کمیت موجود ہوتی ہے۔ اگر خلا نوردوں میں خلاء میں کمیت موجود نا ہو تو ان کے لئے مصیبت ہو جائے گی۔ خلاء میں اس چیز کو روکنا ناممکن ہے جس کی کوئی کمیت نہ ہو۔ اگر کسی چیز کی کمیت نا ہو تو وہ روشنی کی رفتار سے سفر کرے گی۔ لہٰذا اس کو روکنے کی کوئی صورت نہیں ہوگی۔ لہٰذا وہ کائنات جو اس مادّے سے بھری ہو جس پر کوئی کمیت نہیں ہے وہ روشنی کی ایک بڑی گیند جیسے لگے گی ۔

    آج کی ہماری کائنات سیاروں اور ستاروں سے بھری ہوئی ہے جن میں سے ہر ایک کی اپنی کمیت ہے۔ تو پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب قدیمی مادّے پر کوئی کمیت نہیں تھی تو پھر یہ ساری کمیت کہاں سے آئی ؟ بظاہر کوئی تو ایسا میدان موجود تھا جو پوری کائنات میں سرایت کر گیا تھا اور مختلف بنیادی ذرّات اس سے مختلف طریقوں سے تعامل کرتے تھے۔ اور یہ اس ذرّے کا اس میدان کے ساتھ تعامل ہی تھا جس نے اس ذرّے کو وہ خاصیت عطا کی جس کو ہم کمیت کہتے ہیں۔ سائنس دانوں نے اس میدان کا نام ہگس کا میدان رکھا ہے جو اس سائنس دان کے نام پر ہے جس کا نام پیٹر ہگس تھا جس نے ١٩٦٠ء میں اس میدان کے موجود ہونے کے بارے میں عندیہ دیا تھا۔ ہگس کا میدان غیر مرئی ہے۔ یہ پوری خلاء میں پھیلا ہوا ہے اور اس کے ساتھ ہی ایک بنیادی ذرّہ جس کا نام ہگس بوسون ہے موجود رہتا ہے جو عام مادّے کے ذرّات سے اس وقت تعامل کرتا ہے جب وہ اس میدان میں سے گزرتا ہے۔ کوئی بھی شے جتنا زیادہ ہگس بوسون کے میدان سے تعامل کرتی ہے وہ اتنی زیادہ کمیت حاصل کرتی ہے۔ ہگس کے میدان اور ہگس بوسون کے بغیر کمیت کا وجود ہی نہیں ہوتا۔


    ہگس کا میدان ایک نہایت ہی شاندار خیال تھا۔ مگر نظریے کی حد تک تو ٹھیک ہے پر کیا اصل میں یہ موجود بھی ہے؟ کرۂ ارض پر صرف ایک ہی ایسی جگہ ہے جہاں اس بات کا پتا لگایا جا سکتا ہے کیونکہ وہاں انسانیت کی تاریخ میں بننے والی اب تک کی سب سے بڑی اور جدید مشین موجود ہے۔ یہ مشین سرن میں واقع ہے اور اس کا نام لارج ہیڈرون کولائیڈر ہے۔ یہاں پر موجود سائنس دان جو انکینڈلہ اس بات کے لئے نہایت پر امید ہیں کہ وہ ہگس بوسون کے میدان کو تاریکی میں سے ڈھونڈھ نکالیں گے۔ سرن میں ٩٠ میٹر زمین کے اندر یہ مشین موجود ہے یہ فاصلہ جو لگ بھگ ٣٠٠ فٹ بنتا ہے یعنی جتنی اونچائی ایک ٢٥ منزلہ عمارت کو ہوتی ہے۔ یہاں پر بجھائے ہوئے تاروں کے منصوبے نے ہی کچھ سال لے لئے تھے۔ یہاں پر موجود تاروں کی لمبائی اتنی ہے جو سویئزر لینڈ سے لے کر ماسکو- روس تک جا سکتی ہے۔ یہاں کا ماحول دیکھ کر جیمز بانڈ کی کسی فلم کا منظر یاد آتا ہے بس فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ یہ حقیقی منظر ہوتا ہے۔ یہاں ذرّاتی اسراع گر میں پروٹون کی دو شعاعیں لگ بھگ ١٧ میل طویل کنکریٹ کی سرنگ میں پھینکی جاتی ہیں جو اتنی توانائی کے ساتھ جا کر آپس میں ٹکراتی ہیں جتنی کہ حضرت انسان نے کبھی پیدا کی ہوگی۔ یوں سمجھ لیں کہ بحر اوقیانوس کے کسی بھی کنارے سے دوسری طرف سوئی کو پھینکیں اور پھر اس میں موجود سوراخ کا نشانہ لگا کر دھاگہ پرو دیں ۔ یہاں پر پروٹونوں کے تصادم بھی اسی طرح سے ہیں۔ ان تصادموں میں پروٹون ایک نئے قسم کے ذرّات کی پھوار میں بدل گئے جس میں شاید ہگس بوسون بھی شامل تھے۔

    جو کی ٹیم جس میں ٣٨٠٠ سائنس دان موجود تھے انہوں نے ٥ سال اس تصادم کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ہگس بوسون ذرّے کی تلاش کے سراغ لگانے میں لگا دیے تھے۔ ١٤ مارچ ٢٠١٣ لارج ہیڈرون کولائیڈر کے لئے ایک یادگار دن تھا۔ اس دن سرن کی عمارت میں واقع راہداریوں میں ٢٠ سالہ ماہرین طبیعیات پوری رات کیمپ لگا کر بیٹھ گئے تھے تاکہ ان کو لیکچر ہال میں اگلی سیٹوں پر جگہ مل سکے اور ٨٠ سالہ بوڑھے ماہرین طبیعیات جنہوں نے ١٩٦٠ء کی دہائی میں اس نظریے کو بنایا تھا پوری دنیا سے یہاں امڈ آئے تھے۔ اس قدر راز داری برتی جا رہی تھی کہ کوئی بھی اس سیمینار کو چھوڑنے کا تصوّر بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اس سیمینار میں اس بات کا اعلان کیا گیا کہ ہگس بوسون کو دریافت کرلیا گیا ہے۔ ہگس بوسون کی دریافت بگ بینگ کو سمجھنے کی آخری کنجیوں میں سے ایک کنجی تھی۔ یہ لمحہ بہت ہی زیادہ جذباتی تھا ۔ لوگ اس دریافت کے اعلان کو سن کر سناٹے میں آ گئے تھے۔

    ہمیں پیٹر ہگس اور دنیا بھر کے ان سائنس دانوں کا شکر گزر ہونا چاہئے جن کی وجہ سے ہم اس قابل ہوئے ہیں کہ تخلیق کے اس پہلے سیکنڈ کی اہم گھڑی کو سمجھ سکیں ۔ اب ہم ان تمام بنیادی ذرّات کو جان چکے ہیں جن سے کائنات بنی ہے۔ آج سے ایک ہزار سال بعد جب سلیبس کی کتاب لکھی جائے گی تو اس لمحے کو اس میں ضرور یاد رکھا جائے گا جب ہم نے ہگس بوسون کو دریافت کیا تھا۔ ہگس بوسون ہماری کائنات کی سمجھ بوجھ میں سے ایک کھویا ہوا حصّہ تھا۔ ہگس بوسون کے میکانزم کے بغیر، ہگس میدان کے بغیر، کمیت کے بغیر ، ایٹم تشکیل نہیں پا سکتے تھے۔ ایٹموں کے بغیر کوئی ساخت تشکیل نہ پا سکتی تھی۔ اس کے بغیر ہم بھی یہاں موجود نہیں ہوتے ۔ اسی لئے اس ذرّے کا دوسرا نام "خدائی ذرّہ" رکھا گیا ہے۔ اس کے بغیر ہمارا وجود نہ ہوتا۔ ستارے، سیارے، اور لوگ ہگس بوسون میدان اور ہگس بوسون ذرّے کے بغیر وجود ہی نہیں پا سکتے تھے۔ مگر یہ نئی دریافتیں ہمیں سکون کا سانس نہیں لینے دے رہی ہیں۔، کائنات کی تخلیق کے پہلے سیکنڈ میں جب یہ ہگس میدان بنے تو اس وقت کچھ سائنس دانوں کے مطابق انہوں نے عظیم قوّت کو توڑ ڈالا۔

    سائنس دان سمجھتے ہیں کہ ہگس بوسون کے سلسلوں نے عظیم قوّت کی تشاکل کو توڑ کر اس میں سے کائنات کی بنیادی چار قوّتوں کو نکالا۔ اسی وجہ سے سائنس کی دنیا میں اس کی دھوم مچی ہوئی ہے جب سے سائنس دانوں نے اس کو دریافت کیا ہے۔ سائنس کی دنیا میں اس دریافت کو خوب زورو شور سے منایا گیا ہے۔ پہلے سیکنڈ گزرنے کے قریب ہی دو طاقتیں الگ الگ ہو گئیں۔ کمزور نیوکلیائی قوّت کے بغیر ستارے تاباں نہیں ہو سکتے تھے۔ برقی مقناطیسی قوّت وہ طاقت ہے جو ہمارے ہر کام پر حکمرانی کرتی ہے یہاں تک کہ اس کا حکم ہمارے جسم میں ہونے والے کیمیائی عمل میں بھی نافذ العمل ہے۔ کمزور نیوکلیائی قوّت اور برقی مقناطیسی قوّت اب مضبوط نیوکلیائی قوّت کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہو گئیں تھیں اور قوّت ثقل نے اس کائنات کو ڈھالنا شروع کر دیا تھا جس میں ہم رہتے ہیں ۔

    ان چار بنیادی قوّتوں کے ساتھ کائنات ہمارے رہنے لائق جہاں کو بنا سکتی تھی۔ طبیعیات کے قوانین جو کائنات کو چلاتے ہیں وہ اصل میں یہ ہی چار قوّتیں ہیں۔ یہ ہی قوّتیں کائنات کے ارتقاء کو جاری رکھتی ہیں۔ ہم کائنات کی تخلیق کے پہلے سیکنڈ کے اختتام کی جانب گامزن ہیں۔ کائنات اس وقت اشعاع اور مادّے کا جہنم جیسی تھی جب اس نے قدرت کی ان چار قوّتوں کو جنم دیا تھا ۔اس سے پہلے کہ پہلا ستارہ چمکتا مادّے کی ایک پراسرار شکل نے ہر چیز کو تباہ کرنے کے لئے کل پرزے نکلنے شروع کر دیئے ۔ وہ پہلا سیکنڈ جو کائنات کی پوری تاریخ میں سب سے اہم تھا ختم ہی ہوا چاہتا تھا۔ کائنات اس وقت تک ٢٠ نوری سال تک پھیل چکی تھی جو آگ اگلتی اس گیند کی مانند تھی جو اشعاع اور مادّے کا مرکب تھی۔ اس وقت کائنات میں ایک جنگ عظیم چھڑنے والی تھی۔

    ایٹموں کی بنیادی اینٹیں جن کو ہم بنیادی ذرّات کہتے ہیں انہوں نے اس وقت نوزائیدہ کائنات کو اپنے آپ سے بھر دیا تھا۔ مگر ان کو ابھی ایک ایسی جنگ میں زندہ رہنا تھا جس کے نتیجے نے ہمارے مستقبل کا فیصلہ صادر کرنا تھا۔ مادّے کا ایک شیطانی ہمزاد بھی پیدا ہو گیا تھا جس کا نام ضد مادّہ تھا۔ یہ دونوں ایک دورے کے ازلی دشمن تھے۔ کئی ایک طرح سے یہ دونوں ایک دوسرے کے بالکل الٹ تھے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر آپ ایک مادّے کا ٹکڑا لیں اور دوسرا ضد مادّے کا اور دونوں کو ایک دوسرے پر ماریں تو وہ دونوں فنا ہوتے ہوئے مکمل طور پر خالص توانائی میں بدل جائیں گے۔ اور آئن سٹائن کے کلیے کے مطابق کافی زیادہ توانائی پیدا ہوگی۔ مادّہ اور ضد مادّہ ایک ساتھ تو بالکل نہیں رہ سکتے۔ ایک دوسرے کے رابطے میں آتے ہی وہ دونوں ہی فنا ہو جائیں گے۔ کشت خوں کی یہ غضبناک کائناتی لڑائی اس مادّے کو جس کو ہم دیکھتے ہیں سے کئی ارب ہا گنا زیادہ لڑی گئی کیونکہ مادّہ اور ضد مادّہ نے ایک دوسرے کو ختم کر دیا تھا ۔کائنات کا مقدر ایک توازن میں آگیا۔


    ہمیں یہ بات اچھی طرح سے سمجھ لینی چاہئے کہ کائنات کو موجود نہیں ہونا چاہئے تھا۔ بگ بینگ کے نتیجے میں آدھا مادّہ اور آدھا ضد مادّہ بننا چاہئے تھا اور ان کو آپس میں مل کر ایک دوسرے کو فنا کر دینا چاہئے تھا۔ ہم اب تک نہیں سمجھ سکے کہ ایسا کیوں ہوا کہ کائنات وجود میں آ گئی۔ اس عظیم جنگ کے نتیجے میں مادّے کی فتح انتہائی نازک حد سے ہوئی ۔ مگر سوال ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ سوال یہ کہ اس کائنات کو جس کا ہم روز مرہ میں مشاہدہ کرتے ہیں ذرّات ، ضد ذرّات کے مقابلے میں زیادہ کیوں نظر آتے ہیں۔ کہکشائیں اور وہ تمام ستارے جو ہم آسمان میں دیکھتے ہیں یہ سب مادّہ سے بنے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی ضد مادّہ سے نہیں بنا ہوا۔ کسی طرح سے مادّے اور ضد مادّے کا توازن شروع میں ہی پھسل گیا تھا۔ مادّے اور ضد مادّے کے ہر ایک ارب ذرّے کے مقابلے میں جو توانائی نے جنم دیئے تھے ایک مزید مادّے کا ذرّہ موجود تھا اور اس بہت ہی تھوڑے سے مادّے نے جو ایک ارب میں سے ایک ذرّہ تھا ان تمام کہکشاؤں اور ان میں موجود ستاروں کو بنایا جن کو ہم آج دیکھتے ہیں۔ آج ہم سوچتے ہیں کہ اگر ابتدائی کائنات میں ایسا نہیں ہوتا جیسا کہ ہوا ہے ۔ اگر ضد مادّہ یہ جنگ جیت جاتا تو کیا ہوتا؟ اگر ضد مادّہ ، مادّے کے بجائے جیت جاتا تو بھی کائنات ایسی ہی دیکھتی جیسا کہ آج ہے ۔ ہم اس ضد مادّہ سے بنے ہوتے اور اس کو مادّہ کہہ رہے ہوتے۔ انسان، کاریں، چاند غرض ہر چیز ایسی ہی نظر آتی جیسی کہ وہ اس وقت موجود ہے۔

    بہرحال یہ سوال اب بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ مادّہ ضد مادّے سے زیادہ کیوں پید ا ہوا تھا۔ کائنات نے توازن کیوں کھو دیا تھا۔ پروفیسر تارا شیئرس جو لارج ہیڈرون کولائیڈر میں کام کرتی ہیں وہ اس بات کی تہہ تک جانا چاہتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ان کا مقصد اس بات کی جستجو ہے کہ مختلف تعداد میں مادّہ اور ضد مادّہ کیوں موجود ہے اور کیا یہ ہماری اس سوجھ بوجھ سے کہ مادّے اور ضد مادّے کو کتنا ہونا چاہئے تھا ،میل کھاتا بھی ہے یا نہیں کیونکہ یہ ایک ایسی بات ہی جو ہماری سمجھ سے باہر ہے۔

    لارج ہیڈرون کولائیڈر کے نتیجے ہمیں بتاتے ہیں کہ مادّے اور ضد مادّے کے درمیان فرق اس سے کہیں زیادہ کم ہے جتنا ہم امید کر رہے تھے۔ اس بات کو بیان کرنے کے لئے سائنس دانوں کو اس بات کو جاننا پڑے گا کہ کس چیز نے اپنا وزن مادّے کے حق میں ڈالا۔ سائنس دان پر امید ہیں کہ مستقبل قریب میں وہ اس بات کو ڈھونڈھ نکالیں گے جو ان کی رہنمائی مادّے اور ضد مادّے کے فرق ہونے کی وجہ کو بیان کر دے گی اور شاید اس بات کی طرف بھی کوئی اشارہ مل جائے جو ہمیں یہ بات بتائے کہ کائنات میں کوئی ایسی چیز بھی موجود ہے جس کی وجہ سے ایسا ہوا ہے۔ ہم اب بھی کائنات کی تخلیق کے اس اوّل سیکنڈ کو مکمل طور پر نہیں سمجھ سکیں ہیں ۔ مگر جتنا کچھ بھی ہم جان چکیں ہیں یہ اس بات کی گواہی ہے کہ ہمارے سائنس دان کس قدر خداداد صلاحیتوں کے حامل اور اپنے عزم میں پکّے ہیں۔

    تہذیبی طور پر ہم اس بات کو اچھی طرح جان رہے ہیں کہ ہمارا کائنات میں کیا مقام ہے اور یہ ہی بات بہت زیادہ اہم ہے۔ سائنس دان بطور انسان اپنے کام سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں اسی لئے وہ یہ کام کر رہے ہیں ۔ کائنات کی تخلیق کا پہلا سیکنڈ مکمل ہو گیا ہے۔ کائنات ان تمام چیزوں سے پہلے ہی لبریز ہی جن کو ہم روز مرہ زندگی میں دیکھتے ہیں۔ اس پہلے سیکنڈ سے ہمیں اس بات کی مدد ملی ہے جو یہ بات سمجھنے میں ہماری رہنمائی کرے گی کہ اس دور کے بعد کافی عرصے تک کائنات میں کیا ہوتا رہے گا۔ کائنات کا پہلا سیکنڈ بہت ہی حیران کن امکانات اپنے اندر چھپا کر بیٹھا ہے ۔

    ہماری کائنات میں بنیادی چار قوّتیں اور مادّے کے وہ بنیادی ذرّات موجود ہیں جن سے ہماری پوری کائنات بنی ہے۔ ڈراموں سے لے کر موسیقی تک سب ان سے بنا ہے۔ ہم ماضی میں اس حد تک چلے گئے ہیں جہاں تک جانے کا شاید کوئی یقین نہ کرے۔ سائنس دانوں کو اب یقین ہے کہ کائنات کی تخلیق سے متعلق ان کے خیالات میں اب زیادہ بدلاؤ آئے ۔ ہو سکتا ہے کہ آج سے ٥ سال بعد یا آج سے ٥٠٠ سال بعد ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب ہم ریاضی کے حساب سے کائنات کی شروعات کو سمجھ سکیں گے۔ اگلے چند منٹوں میں کائنات اتنی ٹھنڈی ہو گئی تھی کہ اوّلین ایٹمی مرکزوں نے بننا شروع کر دیا تھا۔ مگر اوّلین ایٹموں کو موجودہ شکل اختیار کرنے کے لئے اب بھی ٣٨٠ ہزار سال کا انتظار کرنا تھا۔ کچھ سینکڑوں کروڑوں سال کے بعد ان ایٹموں نے جمع ہو کر پہلے ستارے اور کہکشائیں جیسا کہ ہماری کہکشاں ملکی وے ہے بنائی۔ بگ بینگ کے ٩ ارب سال کے بعد ہمارا سورج اور ہمارا سیارہ زمین پیدا ہوئے جن کا مقدر بگ بینگ کے اوّلین سیکنڈ میں مقید تھا۔






    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: بگ بینگ کا پہلا سیکنڈ Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top