Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    ہفتہ، 5 مارچ، 2016

    افراط (کونیات) اور متوازی کائناتیں




    عدم سے کوئی چیز وجود میں نہیں آسکتی۔
    -        لکریشیئس

    میں اس بات کو فرض کرتا ہوں کہ ہماری کائنات آج سے ١٠١٠ برس پہلے عدم سے نمودار ہوئی۔۔۔ میں سب سے اعتدال پسند تجویز پیش کرتا ہوں کہ ہماری کائنات سادہ طور پر ان میں سے ایک ہے جو وقتاً فوقتاً وقوع پذیر ہوتی رہتی ہیں۔

    -        ایڈورڈ ٹرائیون

    کائنات آخری مفتا ہے۔
    -        ایلن گتھ

    کلاسک سائنسی ناول تاؤ زیرو کو پال اینڈرسن نے لکھا تھا ، اس میں ایک نجمی جہاز لیونورا کرسٹین کو قریبی ستاروں تک لے جانے کی ایک مہم کے لئے چھوڑا جاتا ہے۔ اس میں پچاس مسافر ہوتے ہیں۔ جہاز کی سمتی رفتار روشنی کی رفتار کے قریب پہنچ جاتی ہے کیونکہ ان کو ایک نئے نجمی نظام کی طرف جانا ہوتا ہے۔ مزید اہم بات یہ ہوتی ہے کہ جہاز خصوصی نظریہ اضافیت کا استعمال کرتا ہے ، یعنی کہ جہاز میں وقت کا گزرنا بڑھتی رفتار کے ساتھ کم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اس طرح سے قریبی ستارے کی طرف کا سفر زمینی حساب سے صرف چند عشرے لیتا ہے، جبکہ خلا نوردوں کے حساب سے چند برس ہی گزرتے ہیں۔ زمین پر موجود شاہد کے لئے خلا نوردوں کو بذریعہ دوربین دیکھنے سے ایسا لگتا ہے جیسا کہ وہ وقت میں جم گئے ہوں لہٰذا ایک طرح سے وہ غنودگی کے عالم میں دکھائے دیتے ہیں۔ لیکن جہاز پر موجود خلا نوردوں کے لئے وقت عام رفتار سے ہی گزرتا محسوس ہوتا ہے۔ جب جہاز اپنی رفتار کم کرکے نئے جہاں پر اترے گا ، تو ان کو معلوم ہوگا کہ انہوں نے تیس نوری برس کا فاصلہ صرف چند برسوں میں کر لیا ہے۔

    جہاز انجینئرنگ کا ایک شاہکار ہوتا ہے ، اس کو دو شاخہ گداختی انجن سے چلایا جاتا ہے ، جو ہائیڈروجن کو ڈونگے کی مدد سے خلائے بسیط سے جمع کرکے توانائی حاصل کرنے کے لئے جلاتا ہے۔ اس کی رفتار اس قدر تیز ہوتی ہے کہ جہاز کا عملہ ستاروں کی روشنی میں ڈوپلر کے بدلاؤ کو بھی دیکھ سکتا ہے ؛ ان کے سامنے موجود ستارے نیلے رنگ کے دکھائی دینے شروع ہو جاتے ہیں جبکہ پیچھے رہ جانے والے ستارے سرخی مائل دکھائی دیتے ہیں۔

    تب ہی ایک آفت ٹوٹ پڑتی ہے۔ زمین سے دس نوری برس کے فاصلے پر، جہاز جب بین النجمی گرد کے بادل میں سے گزرتا ہے تو ہچکولے کھانے لگتا ہے اور جہاز کی رفتار کو آہستہ کرنے والا نظام مستقل طور پر ناکارہ ہو جاتا ہے۔ خوفزدہ عملہ اپنے آپ کو ایک ایسے بے قابو جہاز میں قید پاتا ہے جو اپنی رفتار کو تیز سے تیز تر کرتے ہوئے روشنی کی رفتار کے قریب پہنچ جاتا ہے۔ وہ بے بسی سے اس نجمی نظام کو چند منٹوں میں ہی گزرتا ہوا دیکھتے ہیں جہاں انھیں جانا ہوتا ہے۔ ایک برس کے اندر جہاز آدھی ملکی وے کو پار کر لیتا ہے۔ اس کی رفتار قابو سے باہر ہوتی ہے لہٰذا وہ کہکشاؤں کو مہینوں کے اندر ہی پار کرنا شروع کر دیتا ہے جبکہ زمین پر کروڑوں برس بیت چکے ہوتے ہیں۔ جلد ہی وہ روشنی کی رفتار کے انتہائی نزدیک پہنچ جاتے ہیں کہ وہ کائناتی واقعات کے شاہد بن جاتے ہیں ، ان کی آنکھوں کے سامنے کائنات بننا شروع کرتی ہے۔

    آخر کار وہ دیکھتے ہیں کہ کائنات کا پھیلاؤ الٹا ہونا شروع ہو جاتا ہے اور کائنات اپنے آپ میں سکڑنے لگتی ہے۔ درجہ حرارت ڈرامائی طور پر تیزی سے بڑھنے لگتا ہے، وہ سمجھ جاتے ہیں کہ اب وہ عظیم چرمراہٹ کی طرف گامزن ہیں۔ عملے کے لوگ دل ہی دل میں دعائیں مانگ رہے ہوتے ہیں کیونکہ درجہ حرارت بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ کہکشائیں قریب ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور کائناتی قدیمی جوہر ان کی آنکھوں کے سامنے بننے شروع ہو جاتے ہیں۔ بھسم ہو کر مرنا ناگزیر لگنے لگتا ہے۔

    ان کی آخری اور واحد امید یہ ہوتی ہے کہ مادّہ محدود علاقے میں محدود کثافت کے ساتھ منہدم ہو تو وہ تیز رفتاری کے ساتھ شاید اس میں سے گزر سکیں۔ معجزاتی طور پر جہاز کی ڈھال قدیمی جوہروں میں سے گزرتے ہوئے ان کو محفوظ رکھتی ہے۔ اس طرح سے وہ ایک نئی کائنات کی تخلیق کو ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ کائنات جب دوبارہ پھیلنے لگتی ہے تو وہ نئے ستاروں اور کہکشاؤں کی تخلیق کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتے ہوئے مرعوب ہونے لگتے ہیں۔ وہ اپنے خلائی جہاز کو ٹھیک کرتے ہیں اور انتہائی احتیاط کے ساتھ ان کہکشاؤں کی کھوج شروع کر دیتے ہیں جس کی عمر اتنی ہو کہ اس میں بھاری عناصر موجود ہوں اور وہ حیات کو پروان چڑھا سکیں۔ بالآخر وہ ایک ایسا سیارہ تلاش کر لیتے ہیں جو حیات کو اپنی آغوش میں لے سکتا تھا۔ لہٰذا وہاں سیارے پر وہ ایک بستی بسا لیتے ہیں تاکہ انسانیت کا دوبارہ سے آغاز کر سکیں۔


    اس کہانی کو ١٩٦٧ء میں اس وقت لکھا گیا تھا جب فلکیات دانوں کے درمیان کائنات کے حتمی مقدر کے بارے میں تند و تیز بحث جاری تھی کہ آیا کائنات ایک عظیم چرمراہٹ میں ختم ہوگی یا اس کا انجام ایک عظیم انجماد ہوگا۔ یا پھر کیا یہ ہمیشہ جھولتی رہے گی یا پھر ہمیشہ ایک دائمی حالت میں رہے گی۔ جب سے ایک نیا نظریہ جس کو "افراط " کہتے ہیں نمودار ہوا ہے تب سے یہ بحث ختم ہوتی نظر آ رہی ہے۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: افراط (کونیات) اور متوازی کائناتیں Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top