Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    جمعرات، 28 اپریل، 2016

    متوازی کوانٹم کائناتیں

    چھٹا باب 

    متوازی کوانٹم کائناتیں 

    میرے خیال میں یہ بات آسانی کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ کوئی بھی کوانٹم میکانیات کو نہیں سمجھا ہے ۔
    - رچرڈ فائن مین 



    جو بھی کوانٹم کے نظرئیے سے حیران نہیں ہوا اس نے گویا کوانٹم کی سمجھا ہی نہیں۔
    - نیلز بوہر


    لامحدود استبعادی راستہ ایک حیرت انگیز وسیع بین النجم فاصلوں کو صرف چند سیکنڈوں میں طے کرنے کا ایک نیا طریقہ ہے ، جو سڑی ہوئی ناگوار اضافی خلاء کے بغیر ہے ۔ 

    - ڈگلس ایڈم 



    ہچ ہائیکر ز گائیڈ ٹو دی گلیکسی ، ہاتھوں ہاتھ بکنے والا، گستاخ اور سنکی سائنسی قصہ ڈگلس ایڈمس نے لکھا تھا ، اس ناول میں ہیرو کو ستاروں کی طرف سفر کرنے کا ایک زبردست طریقے کا معلوم چلتا ہے۔ ثقب کرم، اضافی راستے یا جہتی گزر گاہوں کو بین الکہکشانی سفر میں استعمال کرنے کے بجائے وہ اصول عدم یقین کو قابو کرنے کا طریقہ حاصل کر لیتا ہے جس کے ذریعہ وہ وسیع بین الکہکشانی خلاء میں آتا جاتا رہتا ہے۔ اگر ہم کسی طرح سے ناممکن الوقوع واقعات کے امکانات کو کسی طرح سے منضبط کر لیں تو ہر چیز یہاں تک کہ سریع از نور رفتار اور وقت میں سفر بھی ممکن ہو سکتا ہے۔ دور دراز ستاروں تک سیکنڈوں میں پہنچنا ممکن نہیں ہے لیکن جب کوانٹم کے امکانات کو اپنے اختیار کے ساتھ منضبط کر لیا جائے تو ناممکن چیزیں بھی عام سی بات ہو سکتی ہیں۔

    کوانٹم کا نظریہ اس خیال پر کھڑا ہے کہ ہر ممکن چیز کے ہونے کا امکان ہے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ وہ چیز کتنی ہی طلسمی یا نامعقول ہو وہ وقوع پذیر ہو سکتی ہے۔ یہ خیال افراط زدہ کائنات کے نظرئیے کے قلب میں موجود ہے – جب اصل بگ بینگ وقوع پذیر ہوا تھا تو ایک کوانٹم عبوری دور تھا جو نئی حالت میں آنے کے دوران موجود تھا اس میں کائنات یکایک ناقابل تصوّر مقدار سے پھیل گئی تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ ہماری کائنات انتہائی انہونی والی کائنات کی چھلانگ کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے۔ ہرچند ایڈمس نے دل لگی کی خاطر ایسا لکھا لیکن ہم طبیعیات دان اس بات کا احساس رکھتے ہیں کہ اگر ہم کسی طرح سے ان امکانات کو منضبط کر سکیں تو ایسی چیزیں وقوع پذیر ہو سکتی ہیں جن کو جادو سے الگ کرنا مشکل ہوگا۔ لیکن سردست امکانات یا واقعات کو تبدیل کرنا ہماری موجودہ ٹیکنالوجی سے کہیں دور کی بات ہے۔

    میں کبھی یونیورسٹی میں اپنے پی ایچ ڈی کرنے والے طالبعلموں سے کچھ سادے سے سوالات کرتا ہوں ، مثلاً اس بات کے امکان کا حساب لگا کر بتائیں کہ وہ اچانک تحلیل ہو کر اینٹوں کے دیوار کے دوسری جانب نمودار ہوں۔ کوانٹم کے نظرئیے کے مطابق، تھوڑا سا لیکن قابل حساب امکان اس بات کا موجود ہے کہ ایسا ہو سکتا ہے ۔ یا ہم اپنے کمرے میں بیٹھ کر تحلیل ہو کر مریخ پر نمودار ہوں۔ کوانٹم نظرئیے کے مطابق نظری طور پر کوئی بھی سرخ سیارے پر نمودار ہو سکتا ہے۔ بلاشبہ اس بات کا امکان نہایت ہی خفیف ہے کیونکہ ایسا ہونے کے لئے ہمیں کائنات کی عمر سے بھی زیادہ عرصہ تک انتظار کرنا ہوگا۔ نتیجتاً ہماری روزمرہ کی زندگی میں اس طرح کی انہونی کو ہم رد کر دیتے ہیں۔ لیکن ذیلی جوہری ذرّات کے پیمانے پر ایسے امکانات برقیات، کمپیوٹر اور لیزر کے صحیح طور پر کام کرنے کے لئے انتہائی اہم ہیں۔

    اصل میں الیکٹران باقاعدگی کے ساتھ تحلیل ہو کر اپنے آپ کو کمپیوٹر اور سی ڈی کے حصّوں میں کے اندر موجود دیواروں کے دوسری طرف پاتے ہیں۔ اگر الیکٹران اس طرح سے بیک وقت دو جگہوں پر نہ پائے جائیں تو جدید تہذیب منہدم ہو جائے گی۔ (ہمارے جسم کے سالمات بھی اس عجیب اصول کے بغیر منہدم ہو جائیں گے۔ دو نظام ہائے شمسی کو خلاء میں ٹکراتا ہوا فرض کریں جو نیوٹن کی قوّت ثقل کے قانون کی اتباع کر رہے ہیں۔ متصادم نظام ہائے شمسی کا نتیجہ صرف تباہی کے باعث سیاروں اور سیارچوں کے کوڑے کے ڈھیر کی صورت میں نکلے گا۔ اسی طرح سے اگر جوہر نیوٹن کے قوّت ثقل کے قانون کی اتباع کریں گے تو وہ جب بھی دوسرے جوہر سے ٹکریں گے تو تباہ ہو جائیں گے۔ وہ کون سی چیز ہے جو ان دو جوہروں کو ایک پائیدار سالمہ میں باندھ کر رکھتی ہے ۔ اصل میں الیکٹران ایک وقت میں اتنی جگہ موجود ہوتے ہیں کہ جس کی وجہ سے ایک الیکٹران کا ابر بن جاتا ہے جو جوہروں کو آپس میں باندھ کر رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کیوں سالمات پائیدار ہوتے ہیں اور کائنات بکھر نہیں جاتی کیونکہ الیکٹران ایک ہی وقت میں کئی جگہ موجود ہوتے ہیں ۔)

    لیکن جب الیکٹران متوازی حالت میں عدم اور وجود کے درمیان جھول سکتے ہیں تو پھر کائنات کیوں ایسا نہیں کر سکتی؟ بہرکیف ایک وقت وہ بھی تھا جب کائنات ایک الیکٹران سے بھی چھوٹی تھی۔ ایک مرتبہ کوانٹم اصول کو کائنات پر لاگو کرنے کے امکان کو متعارف کروا دیں تو ہم لامحالہ متوازی کائنات کو زیر غور لانے پر مجبور ہو جائیں گے۔

    یہ عین وہی امکان ہے جس کو فلپ کے ڈک نے پریشان کر دینے والی سائنسی کہانی "اونچے محل میں آدمی" کی طلسمی کہانی میں بیان کیا تھا۔ اس کتاب میں ایک متبادل کائنات تھی جو ہماری کائنات سے صرف ایک اہم واقعے کے نتیجے میں جدا ہو گئی تھی۔ ١٩٣٣ء میں اس کائنات میں دنیا کی تاریخ اس وقت بدل گئی جب ایک اجرتی قاتل کی گولی سے صدر روز ویلٹ اپنے دفتر کے پہلے ہی برس میں مارے گئے۔ نائب صدر گارنر نے ان کی جگہ سنبھال کی اور ایک ایسی علیحدگی کی پالیسی بنائی جس کے نتیجے میں ریاست ہائے متحدہ کی فوج کمزور ہو گئی۔ پرل ہاربر پر حملے سے بے خبر ١٩٤٧ءتک پورے جنگی بیڑے کی تباہی کے بعد ریاست ہائے متحدہ جرمن اور جاپان کے آگے سرنگوں ہونے کے لئے مجبور ہو گیا تھا۔ بالآخر ریاست ہائے متحدہ کو تین ٹکڑوں میں بانٹ دیا گیا تھا۔ جرمن نے مشرقی ساحل کا انتظام سنبھال لیا تھا، جاپانیوں نے مغربی ساحل کا اور ایک مشکل حصّے جو پہاڑوں میں گھرا ہوا تھا وہاں ریاست باقی رہی تھی۔ اس متوازی کائنات میں ایک پراسرار فرد ایک کتاب لکھتا ہے جس کا نام " ٹِڈے کا بڑا جھوٹ" ہوتا ہے جس کی بنیاد بائبل کا ایک جملہ ہوتا ہے اس کتاب پر نازی پابندی لگا دیتے ہیں۔ یہ اس متبادل کائنات کے بارے میں ہوتی ہے جس میں روز ویلٹ کو قتل نہیں کیا جاتا اور امریکہ اور برطانیہ مل کر جرمن کو شکست دے دیتے ہیں۔ کہانی کی ہیروئن کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ اس سچائی کو دیکھے کہ آیا ایسی کوئی متبادل کائنات موجود ہے جہاں استبداد اور نسل پرستی کے برعکس جمہوریت اور آزادی پائی جاتی ہو۔



    شفقی حصّہ 

    اونچے محل میں آدمی اور ہماری دنیا صرف تھوڑے سے حادثات کی وجہ سے الگ ہوئے ہیں صرف ایک قاتل کی گولی کی وجہ سے۔ بہرصورت یہ ممکن ہے کہ ایک متوازی جہاں ہمارے جہاں سے ہر چھوٹے سے واقع کے نتیجے میں الگ ہو جائے۔ کسی بھی اکلوتی کوانٹم کے واقعہ یا کائناتی شعاع کی وجہ سے۔ 

    ٹیلی ویژن سلسلے کے ڈرامے ٹوائی لائٹ زون کی ایک قسط میں ایک آدمی جب سو کر اٹھتا ہے تو اس کی بیوی اس کو پہچاننے سے انکار کر دیتی ہے۔ اس کو دیکھ کر وہ پولیس بلانے سے پہلے ایک زور کی چیخ مارتی ہے۔ جب وہ قصبے میں گھومتا ہے تو اس کا لنگوٹی یار بھی اس کو پہچاننے سے انکار کر دیتا ہے جیسے کہ اس کا وجود ہی نہیں ہو۔ آخرکار وہ اپنے والدین کے گھر کا چکر لگاتا ہے اور اس کا قلب پھٹ پڑتا ہے۔ اس کے والدین دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے اس کو کبھی بھی نہیں دیکھا اور نہ ہی ان کا کوئی بیٹا تھا۔ خاندان، دوستوں اور گھر کے بغیر، وہ قصبے میں ایسے ہی بلا مقصد کے گھومنا شروع کر دیتا ہے اور بالآخر باغ میں موجود ایک بینچ پر جا کر بے گھر آدمی کی طرح سو جاتا ہے۔ جب اگلے دن وہ سو کر اٹھتا ہے تو اپنے آپ کو واپس بستر میں اپنی بیوی کے ساتھ پاتا ہے۔ بہرحال جب اس کی بیوی کروٹ بدلتی ہے تو اس کو حیرت کا جھٹکا لگتا ہے کیونکہ وہ اس کی بیوی ہی نہیں ہوتی بلکہ کوئی ایسی اجنبی خاتون ہوتی ہے جس کو اس نے کبھی دیکھا ہی نہیں ہوتا۔

    کیا ایسی خلاف فطرت کہانیاں ہونا ممکن ہیں؟ شاید۔ اگر کوئی ٹوائی لائٹ زون کے حامی سے کچھ چبتے ہوئے سوالات کئے جائیں اس کی ماں کے بارے میں ، تو شاید اس کو معلوم ہوگا کہ اس کا حمل ضائع ہو گیا ہوگا اور اس کا کبھی بھی بیٹا نہیں ہوگا۔ کبھی ایک اکیلی اشعاع ، خلائے بسیط کا ایک ذرّہ مادر رحم میں جا کر ڈی این اے کی گہرائی میں گھس سکتا ہے اور کچھ ایسا کر سکتا ہے جس کے نتیجے میں بالآخر حمل ضائع ہو سکتا ہے۔ ایسی صورت میں ایک اکیلا کوانٹم کا واقعہ کسی بھی دنیاؤں کو علیحدہ کر سکتا ہے۔ ایک ایسی دنیا جس میں آپ ایک معمول کی زندگی گزار رہے ہوں جس میں آپ ایک قانون کی پاسداری کرنے والے شہری ہوں اور دوسری بالکل ویسی ہی دنیا بجز اس کے کہ آپ کا وہاں کوئی وجود نہیں ہے۔

    ان جہانوں میں داخل ہونا قوانین طبیعیات کی رو سے ممکن ہے۔ لیکن ایسا ہونے بعید از قیاس اور انہونی ہی ہوگا۔ ایسے کسی بھی واقعے کے ہونے کے امکان فلکیاتی پیمانے پر چھوٹا ہے۔ کوانٹم کا نظریہ کائنات کی ہمیں ایک ایسی تصویر پیش کرتا ہے جو اس سے کہیں زیادہ عجیب ہے جو آئن سٹائن نے دی ہے۔ 

    اضافیت میں زندگی کی سیج جس پر آپ کو اداکاری کرنی ہے وہ ہو سکتا ہے کہ ربڑ سے بنا ہو جس میں اداکار سیج پر چلتے ہوئے خم کھائے ہوئے راستوں پر سفر کرتے ہیں۔ جیسا کہ نیوٹن کی دنیا میں ہوتا ہے ویسے ہی آئن سٹائن کی دنیا کے اداکار طوطے کی طرح اپنا پہلے سے لکھا ہوا اسکرپٹ پڑھتے ہیں۔ لیکن کوانٹم کے کھیل میں اداکار اچانک اپنا اسکرپٹ پھینک دیتے ہیں اور اپنی مرضی سے اداکاری کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ پتلیاں اپنی ڈوریاں کاٹ دیتی ہیں۔ اختیار حاصل ہو جاتا ہے۔ اداکار سیج پر ظاہر اور غائب ہوتے رہتے ہیں۔ اور زیادہ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ اداکار اپنے آپ کو بیک وقت دو جہانوں میں پاتے تھے۔ اداکار جب اپنی سطریں پڑھتے ہیں تو کبھی یقین سے نہیں جانتے کہ آیا وہ کسی ایسے اداکار سے بات کر رہے ہوں جو یکایک غائب ہو کر کسی دوسری جگہ حاضر ہو سکتا ہے۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: متوازی کوانٹم کائناتیں Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top