Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    جمعہ، 1 اپریل، 2016

    آئن سٹائن روزن کا پل




    ہرچند کے آئن سٹائن سمجھتا تھا کہ بلیک ہول کا قدرتی طور پر پایا جانا ناقابل تصوّر ہے، لیکن مزے دار طور پر اس نے یہ بات ثابت کی کہ بلیک ہول کسی کی سوچ سے بھی زیادہ عجیب ہو سکتے ہیں۔ یہ ثقب کرم کے امکان کو پیدا کرتے ہیں جو بلیک ہول کے قلب میں موجود ہوگا۔ ریاضی دان اس کو کثیر ربطی خلاء کہتے ہیں۔ طبیعیات دان ان کو ثقب کرم کہتے ہیں کیونکہ زمین میں کسی کرم (کیچوے یا کیڑے) کی طرح کھودتے ہوئے یہ دو نقاط کے درمیان ایک مختصر راستہ بناتے ہیں۔ ان کو اکثر ابعادی راستے یا جہتی گزرگاہیں بھی کہا جاتا ہے ۔ آپ اس کو جو بھی کہہ لیں ایک دن یہ بین العباد سفر کا ذریعہ بنیں گے۔

    ثقب کرم کے خیال کو مقبول بنانے والا سب سے پہلا شخص چارلس ڈوجسن ہے جو لوئس کیرول کے قلمی نام سے لکھتا تھا۔ "آئینے میں سے " نامی ناول میں اس نے آئینے کو بطور ثقب کرم متعارف کروایا، جو آکسفورڈ کے گاؤں کو طلسمی دنیا سے ملاتا تھا۔ بطور پیشہ ور ریاضی دان اور آکسفورڈ کی معزز شخصیت کے ڈوجسن ان کثیر ربطی خلاء سے واقف تھا۔ تعریف کے لحاظ سے کثیر ربطی خلاء وہ ہوتی ہے جس میں رسی ایک نقطے سے زیادہ سکڑ نہیں سکتی۔ عام طور پر کوئی بھی گراہ بغیر کسی مشکل کے نقطہ پر منہدم ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر ہم ڈونَٹ کا تجزیہ کریں تو یہ ممکن ہوگا کہ اس کی سطح پر ایک رسی کو رکھ سکیں تاکہ وہ ڈونَٹ کے سوراخ سے نکل کر اس کے گرد لپٹ جائے گا۔ اگر ہم حلقے کو آہستہ سے چھوڑیں ، تو ہم دیکھیں گے کہ یہ ایک نقطہ پر جا کر نہیں دب رہا ، زیادہ سے زیادہ وہ سوراخ کے گھیر سے لپٹ کر اس سے چپک سکتا ہے۔

    ریاضی دان خوش تھے کہ انہوں نے ایک ایسا جسم ڈھونڈ لیا ہے جو خلاء کو بیان کرنے کے لئے مکمل طور پر ناکارہ ہے۔ لیکن ١٩٣٥ء میں آئن سٹائن اور اس کے شاگرد ناتھن روزن نے ثقب کرم کو جہان طبیعیات میں متعارف کروایا۔ وہ بلیک ہول کے حل کو بنیادی ذرّات کے نمونے کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ آئن سٹائن کو نیوٹن کی طرح یہ خیال کبھی بھی پسند نہیں رہا تھا کہ کسی ذرّے کی قوّت ثقل لامتناہی ہو جائے۔ آئن سٹائن کے خیال میں اس وحدانیت کو ختم ہونا چاہئے تھا کیونکہ یہ انتہائی نامعقول بات تھی۔ 

    آئن سٹائن اور روزن کے پاس الیکٹران (جو عام طور پر ایک ایسے ننھے نقطے کے طور پر جانا جاتا ہے جس کی کوئی ساخت نہیں ہوتی)کو بطور بلیک ہول پیش کرنے کا ایک انوکھا خیال تھا۔ اس طرح سے عمومی اضافیت کو کوانٹم کی پراسرار دنیا کو ایک عظیم وحدتی نظریئے کے طور پر بیان کر سکتی ہے۔ انہوں نے معیاری بلیک ہول کے نمونے سے شروع کیا جو ایک لمبے گلدان کی طرح تھا جس کی لمبی گردن ہوتی ہے ۔ اس کے بعد انہوں نے اس کی گردن کو کاٹ کر دوسرے پلتے ہوئے بلیک ہول کے حل سے ضم کر دیا ۔ آئن سٹائن کے لئے یہ عجیب لیکن ہموار ہئیت بلیک ہول کے ماخذ کی وحدانیت سے پاک تھی جو ممکنہ طور پر ایک الیکٹران کی طرح کام کر سکتا تھا۔

    بدقسمتی سے آئن سٹائن کا الیکٹران کو بطور بلیک ہول پیش کرنے کا خیال ناکامی سے دوچار ہوا۔ لیکن آج ماہرین کونیات اس بات کا قیاس کرتے ہیں کہ آئن سٹائن اور روزن کا پل دو کائناتوں کے درمیان ایک راستہ کا کام سرانجام دے سکتا ہے۔ ہم کسی بھی کائنات میں اس وقت تک آزادی سے گھوم سکتے ہیں جب تک کسی بلیک ہول میں نہ جا گریں جہاں پر ہم فوری طور پر بلیک ہول سے ہوتے ہوئے دوسری طرف (سفید شگاف سے ) نکل جائیں گے ۔

    آئن سٹائن کے لئے اس کی مساوات کا کوئی بھی حل کسی ممکنہ طبیعی جسم سے ضرور میل کھائے گا بشرطیکہ اس کی شروعات کسی طبیعی معقول چیز سے ہوئی ہو۔ اس کو اس بات کی کوئی پریشانی نہیں تھی کہ کوئی بلیک ہول میں گر کر کسی متوازی کائنات میں نکل جائے۔ مدو جذر کی قوّت قلب میں لامحدود ہوگی اور کوئی بھی بد قسمت جو بلیک ہول میں گرے گا اس کے جسم تک کے جوہر جاذبی میدان کی وجہ سے ریزہ ریزہ ہو جائیں گے۔ (آئن سٹائن اور روزن کا پل وقتی طور پر کھلتا ہے ، اور اس قدر تیزی سے بند ہو جاتا ہے کہ کوئی بھی جسم اس کو پار کرکے اس دوران دوسری طرح نہیں پہنچ سکتا۔) آئن سٹائن سمجھتا تھا کہ ثقب کرم ہو تو سکتے ہیں لیکن کوئی زندہ ہستی اس کو کبھی نہیں پار کر سکتی اور نہ ہی ہمیں اپنی کہانی بیان کرنے کے لئے زندہ نہیں رہ سکتی ہے۔




    آئن سٹائن روزن کا پل۔ بلیک ہول کے قلب میں، ایک "حلق" ہے جس نے مکان و زمان کو ایک دوسری کائنات یا کائنات میں موجود کسی دوسرے نقطے سے جوڑا ہوا ہے۔ ہرچند کے ایک ساکن بلیک ہول سے گزر کر سفر کرنا مہلک ہوگا، گھومتے ہوئے بلیک ہولز میں حلقے جیسی وحدانیت ہوتی ہے اس طرح کہ حلقے کو پار کرنا آئن سٹائن اور روزن کے پل کی بدولت ممکن ہوتا ہے۔ بہر کیف یہ اب بھی محض قیاس آرائیاں ہی ہیں۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: آئن سٹائن روزن کا پل Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top