Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    جمعرات، 6 اپریل، 2017

    کائنات کی تفہیم میں ایٹم کو سمجھنے کا کردار

    کبیر و صغیر 

    پہلی مرتبہ لیمیترے کے کائنات کے نمونے نے مل کر صغیر و کبیر جہاں کے بارے میں دستیاب بہترین تصورات کو ملا کر حقیقت کو ایک پیرائے میں بیان کیا۔ یہ اس وقت میں ایک جرات مندانہ قدم تھا تاہم 1980ء میں ذرّاتی طبیعیات اور علم کائنات کے تصورات کو ملا کر دیکھنا ہی اس کائنات کی فہم کا واحد راستہ جانا جاتا تھا جس میں ہم رہتے ہیں۔1920ء میں جب فلکیات دانوں نے قابل مشاہدہ کائنات میں مادّے کی تقسیم کو سمجھنا شروع ہی کیا تھا طبیعیات دانوں نے اسی وقت جوہروں کے اندر مادّے کی تقسیم کو سمجھنا شروع کیا۔ انیسویں صدی کے اختتام میں تابکاری کی دریافت نے طبیعیات دانوں کے ہاتھوں میں ایک ایسا آلہ دے دیا جس سے وہ جوہر کے اندر کھوج کر سکتے تھے۔ وہ نام نہاد الفا ذرّات کا استعمال بطور گولیوں کے کرتے تھے جو قدرتی طور پر تابکار جوہر پیدا کرتے ہیں ان کو وہ قلم کے جوہروں یا دھات کی مہین پرت پر برساتے تھے۔ اس تیکنیک کا استعمال کرکے انگلستان میں واقع مانچسٹر یونیورسٹی کے محققین نیوزی لینڈ نژاد طبیعیات دان ارنسٹ ردرفورڈ کی سربراہی میں ایک شعبے میں کام کر رہے تھے وہاں انہوں نے دیکھا کہ اکثر الفا ذرّات دھات کی مہین پرت سے گزر جاتے ہیں تاہم کبھی کبار ذرّات اسی طرح واپس اچھل کر آ جاتا ہے جیسے کہ اس کو بھیجا گیا تھا۔ ردرفورڈ نے اس برتاؤ کی توضیح 1911ء میں کی اور ہمیں جوہر کا بنیادی نمونہ دیا جس کو اب ہم اسکول میں پڑھتے ہیں۔

    ردرفورڈ سمجھ گیا تھا کہ زیادہ تر جوہر کے اندر مادّہ ایک ننھے سے اندرونی مرکزے میں مرتکز ہے جس کو اس نے مرکزے کا نام دیا جس کے ارد گرد الیکٹران کے بادل موجود ہوتے ہیں۔ الفا ذرّات جو تابکار جوہروں سے آتے ہیں اصل میں جوہر کے مرکزے کے حصّے ہوتے ہیں۔ جب اس طرح کے ذرّات جوہر کے الیکٹران کے بادلوں سے ٹکراتے ہیں تو وہ اس میں سے بغیر کسی رکاوٹ کے گزر جاتے ہیں۔ تاہم کیونکہ الیکٹران پر منفی بار ہوتا ہے جبکہ پورا جوہر برقی طور پر معتدل ہوتا ہے۔ لہٰذا جوہر کا مثبت بار لازمی طور پر اس کی کمیت کی طرح مرکزے میں ہی ہوگا۔ الفا ذرّات بھی مثبت بار دار ہوتے ہیں۔ اور جب ایک الفا ذرّہ جوہر کے مرکزے سے سیدھا جا کر ٹکراتا ہے تو ایک جیسے بار دھکا دے کر اس کو روک دیتے ہیں اور پھر واپس دھکیل کر اس کو اس جگہ بھیج دیتے ہیں جہاں سے وہ آیا ہے۔ بعد کے تجربات نے ردرفورڈ کے جوہر کی تصویر کی صحت کی زیادہ تر تصدیق کردی۔ زیادہ تر کمیت اور تمام مثبت بار مرکزے میں مرتکز ہے جو جوہر کے حجم کا ایک لاکھواں حصّہ ہوتا ہے۔

    باقی جگہ بہت ہی ہلکے الیکٹران کے بہت ہی مہین بادلوں نے لی ہوتی ہے جس پر منفی بار ہوتا ہے۔ ناطق عدد میں بات کریں تو جوہر کا پھیلاؤ 10-13 سینٹی میٹر جبکہ جوہر کا پھیلاؤ تقریباً 10-8 سینٹی میٹر کا ہوتا ہے۔ اگر ایسے ہی موازنہ کیا جائے تو کارنیگی ہال کے مرکز میں ریت کے ذرّے سے اس کی نسبت کی جا سکتی ہے۔ خالی ہال 'جوہر' ہے؛ ریت کا ذرّہ ' مرکزہ' ہے۔

    مرکزے کے اندر وہ ذرّہ جس پر مثبت بار ہوتا ہے وہ پروٹون کہلاتا ہے۔ اس پر عین وہی بار ہوتی ہے جو الیکٹران پر ہوتی ہے تاہم الٹے نشان کے ساتھ۔ ان میں سے ہر پروٹون ہر الیکٹران سے لگ بھگ دو ہزار گنا زیادہ ضخیم ہوتا ہے۔ ردرفورڈ کے جوہر کے سادہ ترین نمونے میں سوائے برابر کی تعداد کے الیکٹران اور نیوٹران کے کچھ بھی نہیں تھا جس میں پروٹون مرکزے میں قید تھے باوجود اس کے کہ ان تمام پر ایک ہی بار تھا جس کی وجہ سے انھیں ایک دوسرے سے دھکیلنا چاہئے تھا (بعینہ جس طرح مقناطیسی قطبین بار کے سلسلے میں برتاؤ کرتے ہیں)۔ایک دوسری طاقت کو بھی لازمی ہونا چاہئے تھا جو بہت ہی کم فاصلے پر کام کرتی ہو جو برقی قوّت پر غالب اکر مرکزے کو آپس میں جوڑے رکھتی ہو گی - اس پر مزید بات باب نہم میں ہو گی۔ تاہم ردرفورڈ کی تجویز کے مطابق جوہر کے اس نمونے کے بیس برس کے بعد طبیعیات دانوں کو شک ہوا کہ وہاں پر پروٹون کا ایک اور ساتھی ہونا چاہئے جس کی اتنی ہی کمیت ہونی چاہئے تاہم برقی طور پر اسے معتدل ہونا چاہئے تھا۔دوسری چیزوں کے علاوہ اس طرح کے ذرّے کی مرکزے میں موجودگی مثبت بار والے پروٹون کو ایک دوسرے سے برقی طور پر دور ہونے کے بجائے روک کر رکھے گی۔ اور نیوٹران کی موجودگی جیسا کہ ان کو جلد ہی پکارا گیا اس وجہ کو بیان کر سکے گی کہ آیا کیوں کچھ جوہروں کی کیمیائی خصائص تو ایک جیسے ہوتے ہیں تاہم ان کی کمیت ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔ کیمیائی خصائص کا انحصار جوہر کے الیکٹران کے بادلوں پر ہوتا ہے جو دوسرے جوہروں کے لئے نظر آنے والا 'چہرہ' ہوتا ہے۔ایک جیسی کیمیا کے ساتھ جوہروں میں لازمی طور پر ایک جیسے الیکٹران کی تعداد ہونی چاہئے لہٰذا ان میں اتنی ہی تعداد میں پروٹون ہوتے ہیں۔ تاہم ان میں مختلف تعداد میں نیوٹران موجود ہو سکتے ہیں لہٰذا ان کی کمیت مختلف ہو سکتی ہے۔ اس طرح کے قریبی رشتے دار اب ہم جا کہلاتے ہیں۔

    دنیا میں عناصر کی عظیم الشان بوقلمونی تمام کی تمام اس سادہ بنیاد پر بھی ہے۔ ہائیڈروجن جس کا مرکزہ صرف ایک پروٹون پر مشتمل ہوتا ہے اور اس کے باہر ایک الیکٹران ہوتا ہے، سادہ ترین عنصر ہے؛ کاربن کی سب سے عام پائی جانے والی صورت، جو بشمول ہم انسانوں کے ہر زندہ اجسام کی انتہائی بنیاد ہے ، کے چھ پروٹون اور چھ نیوٹران ہر جوہر کے مرکزے میں ہوتے ہیں اور چھ الیکٹران جوہر کے ارد گرد بادلوں میں موجود ہوتے ہیں۔ تاہم کچھ مرکزے ایسے ہوتے ہیں جس میں اس سے زیادہ ذرّات (نوویہ) ہوتے ہیں۔ لوہے کے مرکزے میں 26 پروٹون ہوتے ہیں اور سب سے عام ہم جا میں 30 نیوٹران جس سے مرکزے میں 56 نوویہ بن جاتے ہیں جبکہ یورینیم قدرتی طور پر پایا جانے والا سب سے ضخیم عنصر ہے جس میں 92 پروٹون اور کم از کم 142 نیوٹران ہر یورینیم -235 کے مرکزے میں ہوتے ہیں، اس کے ریڈیائی ہم جا نیوکلیائی توانائی کے ماخذ کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ توانائی کو بہت بھاری مرکزوں کے انشقاق سے حاصل کیا جا سکتا ہے کیونکہ سب سے زیادہ پائیدار جوہری مرکزہ ممکنہ طور پر سب سے کم توانائی کے ساتھ لوہا-56 ہے۔ ہلکے مرکزوں کے ساتھ بشمول آکسیجن، کاربن، ہیلیئم اور ہائیڈروجن ایک طرف اور بھاری مرکزے بشمول کوبالٹ، نکل، یورینیم اور پلوٹونیم کے دوسری طرف توانائی کی صورت میں لوہا-56 وادی کے بالکل تہ میں ہے۔ اسی طرح جیسے کوئی وادی کی ڈھلان پر رکھی ہوئی گیند وادی کی اوپری حصّے کی بنسبت تہ تک آسانی سے گرائی جا سکتی ہے، لہٰذا اگر بھاری عناصر کو ٹوٹنے پر اکسایا جائے گا تو وہ صحیح شرائط کے ساتھ زیادہ پائیدار مرکزے بنائیں گے 'ڈھلان کو کم کر دیں گے' اور توانائی کو خارج کریں گے؛ اسی طرح اگر ہلکے مرکزوں کو آپس میں ضم ہونے پر اکسایا جائے گا تو وہ بھی زیادہ پائیدار والے مرکزے بنا کر توانائی کو خارج کریں گے۔ عمل انشقاق جس کو لیمیترے نے کوشش کی کہ قدیمی جوہر تک لے جائے وہی ہے جس نے جوہری بم کو توانائی بخشی ہے؛ اصل انشقاق جس کو گیمو نے اپنے بگ بینگ کے نمونے میں لاگو کیا تھا اس میں ہائیڈروجن سے توانائی ملتی ہے یا گداختی بم جس میں ہائیڈروجن کے مرکزے ہیلیئم میں بدلتے ہیں۔ تاہم 1920ء کے عشرے میں یہ تمام چیزیں مستقبل میں رکھی ہوئی تھیں۔ اگرچہ اس عشرے میں نیوٹران کے موجود ہونے کے واقعاتی ثبوت موجود تھے، تاہم یہ 1932ء میں ہی ممکن ہوا تھا جب جیمز چیڈوک نے وہ تجربات کئے جس نے ثابت کیا کہ نیوٹران حقیقت میں وجود رکھتے ہیں، یہ ردر فورڈ کا ایک سابقہ شاگرد تھا جو اس وقت کیمبرج میں واقع کینونڈش لیبارٹری (جہاں ردرفورڈ اس کا منتظم تھا) میں کام کر رہا تھا۔ 

    لہٰذا جب لیمیترے نے پہلی مرتبہ اپنے ' قدیمی جوہر' کے کائناتی نمونے کو پیش کیا تو کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ اصل میں جوہر کیا چیز ہوتا ہے۔ قدیمی جوہر کی اصطلاح بھی اصل میں غلط ہے اور قدیمی مرکزہ اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ جب ہم جوہروں کو 'توڑنے' یا جاری تابکار تنزلی کی بات کرتے ہیں تو اصل میں ہمارا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ان کے مرکزے کا دو یا اس سے زائد حصّوں میں ٹوٹنا ہوتا ہے یا ایک مرکزہ ایک ذرّہ کو خارج کرے جیسا کہ الفا ذرّہ اور تبدیل ہو کر ہلکے عنصر میں بدل جائے۔ لیمیترے نے اس عمل کو ایسا تصور کیا جس میں بار بار عمل انشقاق ایک 'مرکزے' سے کائنات کا تمام مادّہ پیدا کرتا ہے۔

    تاہم یہ اس بات کو بیان نہیں کر سکتا (مزید تیکنیکی مسائل کے علاوہ بھی جس کی تفصیل میں، میں نہیں جاؤں گا) کہ آیا کیوں ستاروں اور کہکشاؤں میں آدھے سے زیادہ مادّہ ہائیڈروجن جو ہلکا اور سادہ ترین عنصر ہے کی صورت میں جبکہ باقی میں سے بھی زیادہ تر حصّہ ہیلیئم کی صورت میں موجود ہے جو دوسرا ہلکا ترین عنصر ہے۔ ستاروں اور کہکشاؤں کی طیف پیما سے کی گئی تحقیق غیر مبہم طور پر دکھاتی ہے کہ کائنات میں دو سادے ترین عناصر کا غلبہ ہے، ایک ہائیڈروجن جس کے مرکزے میں ایک پروٹون ہوتا ہے جس کے ساتھ ایک الیکٹران ہوتا ہے اور ہیلیئم جس کے دو پروٹون اور دو نیوٹران مرکزے میں جبکہ دو الیکٹران باہر موجود ہوتے ہیں۔ تمام قدیمی مرکزوں کو اتنے سادہ حصّوں میں توڑنا ایک بہت بڑا کام ہے؛ تاہم گیمو کو خیال آیا کہ بگ بینگ کا آغاز شاید بہت ہی سادہ ذرّات سے ہوا اور بعد میں کائنات نے بھاری عناصر کو سادہ مرکزے میں مزید پروٹون اور نیوٹران ڈال کر بنا لئے۔ الغرض اگر آپ ہائیڈروجن سے شروع کریں تو آپ ایک ہی ہلے میں کائنات میں موجود آدھے سے زیادہ مرکزوں کے وجود کو بیان کر سکتے ہیں۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: کائنات کی تفہیم میں ایٹم کو سمجھنے کا کردار Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top