Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    جمعہ، 28 اپریل، 2017

    ہٹ دھرم ہوئیل


    ہوئیل نے یہ کہانی 1981ء میں نیو سائنٹسٹ میں شایع شدہ ایک مضمون میں بیان کی۔ وہ ولی فولر اور کالٹک میں اپنے دوسرے رفقائے کاروں کے پاس موسم گرما میں جا رہا تھا اور گیمو نے انھیں لا جولا سے فولر، ہوئیل اور بربجز کو ملاقات کے لئے مدعو کیا۔ گیمو لا جولا میں اس لئے تھا کہ وہ دو ماہ سے وہاں بطور مشیر جنرل ڈائنامکس کے خدمات انجام دے رہا تھا، ایک ایسی نوکری جو بہت پرکشش تھی (دو ماہ بعد کیڈلک کی صورت میں مشاہرے کا معاوضہ ادا کر دیا گیا) جہاں بظاہر کام کم تھا تاہم گیمو کے لئے واجب تھا کہ وہ لا جولا میں (چاہئے ساحل پر ہی) ہی قیام کرے تاکہ اس کی خدمات جب درکار ہوں تو وہ فوری طور پر دستیاب ہو۔ لہٰذا B2FH کی جماعت بغیر کسی ہچکچاہٹ کے جنوبی لا جولا جانے کے لئے اپنے راستے پر ہو لی۔ اس وقت گیمو آج کی کائنات کے درجہ حرارت کا اندازہ 5 کیلون سے لے کر کچھ دسیوں کیلون تک لگا رہا تھا؛ ہوئیل ایک ضدی کی طرح اس بات پر قائم تھا کہ کسی بھی قسم کی پس منظر کی اشعاع کو ہونا ہی نہیں چاہئے۔ لہٰذا ان دونوں نے اپنے ناک کے نیچے کی سچائی کو کھو دیا تھا۔ ہوئیل کہانی کو کچھ اس طرح سے بیان کرتا ہے :

    کچھ اوقات ایسے تھے جب میں اور جارج خود سے بحث کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جارج مجھے سفید کیڈلک میں گھماتا ہوا اپنی اس تجویز کو بیان کر رہا تھا کہ کائنات میں لازمی طور پر پس منظر کی خرد امواج ہونی چاہیں، اور میں جارج کو اپنی کہانی بتا رہا تھا کہ کائنات میں پس منظر کی اشعاع کا ہونا اس بلند درجہ حرارت کے ساتھ جس کا وہ دعویٰ کر رہا ہے، ممکن نہیں ہے، اس کی وجہ یہ تھی کہ سی ایچ اور سی این قدیمی کے مشاہدات نے اس طرح کے پس منظر کے درجہ حرارت کی حد کو 3 کیلون تک رکھ دیا تھا۔ چاہئے یہ کیڈلک کا بہت ہی آرام دہ سفر تھا یا چاہئے اس کی وجہ جارج کے درجہ حرارت کو 3 کیلون سے زیادہ چاہنا تھا جبکہ میں درجہ حرارت کو صفر چاہتا تھا، ہم نے موقع کو گنوا دیا۔ ۔ ۔ اپنے گناہوں کی بدولت میں نے اس کو بعینہ اسی طرح سے اس وقت گنوایا جب میں 1961ء میں گرمیوں کے اسکول میں باب ڈک کے ساتھ بیسویں ورینا میں اضافیت پر بحث کر رہا تھا۔ پس منظر کی خرد امواج کے تناظر میں، میں واضح طور پراس کو 'دریافت کرنے کے حق' میں نہیں تھا۔ 

    باب ڈک جس سے ہوئیل نے ورینا میں مسئلے پر تبادلہ خیال کیا تھا اس کا شمار ان خاص لوگوں میں ہوتا ہے جس نے موقع کو ہاتھ سے گنوایا، اس بحث سے الگ اس نے بطور 'اس شخص کے جس نے درجہ حرارت کی پیمائش کو ایک نہیں بلکہ دو مرتبہ کیا تھا' تاریخ میں امر ہونے کا موقع گنوایا؛ دوسرے موقع پر تو وہ اس مسئلے پر کئے جانے والے اپنے پہلے کام کو ہی بھول گیا تھا! ہوئیل سے صرف ایک برس بڑا ڈک سینٹ لوئس مسوری میں 1961ء میں پیدا ہوا تھا۔ اس نے پرنسٹن سے 1930ء کے عشرے کے اواخر میں سند فضیلت حاصل کی، اور 1941ء میں روچیسٹر یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کو مکمل کیا، اور 1946ء میں پرنسٹن کے شعبے میں تعینات ہونے سے پہلے جنگ کے زمانے میں ایم آئی ٹی پر ریڈار پر کام کیا۔ اس کے بعد وہ وہیں کا ہو کر رہ گیا اور شعبہ طبیعیات کا صدر اور البرٹ آئن سٹائن پروفیسر آف سائنس بن گیا۔ ڈک کوئی احمق نہیں تھا۔ تاہم اس نے بھی 1940ء میں اس چیز کو نہیں دیکھا جو اب ذرا سے بھی فہم رکھنے والے کو عیاں نظر آتی ہے۔ 

    ایم آئی ٹی میں اس کے دور میں ڈک نے خرد امواج کے برقی مقناطیسی طیف کے حصّے میں پائی جانے والی بہت ہی مختصر طول موج کی ریڈیائی اشعاع کی پیمائش کا ایک آلہ بنایا۔ یہ آلہ ڈک ریڈیائی پیما کہلایا، اسی کے اصول یہی کام کرنے کے لئے بنائے جانے والے جدید آلات میں استعمال ہوتے ہیں۔ اپنے تین رفقائے کاروں کے ساتھ ڈک نے اپنے ان آلات میں سے ایک کا رخ آسمان کی طرف کیا تاکہ دیکھ سکے کہ بیرونی کہکشاؤں سے آیا کسی قسم کی کوئی پس منظر کی خرد امواج نکل رہی ہیں یا نہیں۔ ان کی طاقت کو بیان کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اس کو درجہ حرارت میں بیان کیا جائے، ڈک اور ان کے رفقائے کاروں نے نتیجہ اخذ کیا کہ پس منظر کی خرد امواج 20 کیلون سے نیچے درجہ حرارت کی موجود ہیں، یہ وہ حد تھی جس سے ان کے آلات عہدہ بر ہو سکتے تھے اور انہوں نے ان نتائج پر ایک مقالہ بھی لکھا۔ یہ اسی فزیکل ریویو کے شمارے میں 1946ء میں شایع ہوا جس میں گیمو کا نیوکلیائی تالیف والا مقالہ شایع ہوا تھا۔ ڈک کا مقالہ پہلے (والیوم 70، صفحہ 340) جبکہ گیمو کو تھوڑا سا بعد میں (والیوم 70، صفحہ 572) پر شایع ہوا۔ کوئی چیز ایسی نہیں تھی جس سے ان دونوں مقالات میں تعلق بنتا، تاہم یہ جریدے کے والیوم کی ایک ہی جلد میں شایع ہوئے تھے، اور ہر طالبعلم یا زیادہ کہنہ مشق محقق جو 1950ء کے عشرے میں گیمو کے مقالے کو شاید الفا، بیٹا گاما مقالے کو یا پھر الفر اور ہرمن کے کام کو دیکھنے کے چکر میں دیکھتا ہے، یقین جانئے کہ اس کے ہاتھوں میں کائناتی گیند کے وجود کا ثبوت ہاتھ میں ہوتا ہے۔ کوئی بھی - ہوئیل، گیمو یا گمنام طالبعلم- گیمو کے مقالے کو دیکھ کر شاید ڈک کی ٹیم کے مقالے کی طرف آ سکتا ہے اور دو اور دو چار جمع کر سکتا ہے تاہم ایسا نہیں ہوا۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ سائنسی دریافتیں اپنی مرضی چلاتی ہیں اور اس وقت تک کا انتظار کرتی ہیں جب وقت ان کے موافق ہو۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: ہٹ دھرم ہوئیل Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top